Monday, 8 April 2024

والدین کا مقام و حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

والدین کا مقام و حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : اولاد پر ان تمام امور میں والدین کی اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ لازم نہ آئے ، نیز والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے ، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی سخت حرام اور کبیرہ گناہ  ہے ، قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے ، اور والدین کی نافرمانی ، ان کے ساتھ بدکلامی کے ساتھ پیش آنے ، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی ہیں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔ (سورہ الاسراء آیت نمبر 23 ، 24)
ترجمہ : اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ اور ان کےلیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا ۔

اولاد پر ماں باپ کا حق نہایت ہی عظیم تر ہے ۔ والدین اللہ تعالیٰ کا بیش بہا عطیہ ہیں ۔ دونوں کے مراتب کو اللہ تعالی نے یکجا اور کہیں جداگانہ بیان فرمایا ہے ۔ ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کا حق باپ سے بھی بڑھ کر ہے ، ماں بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے اور کمزوری پر کمزوری ، ضعف پر ضعف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جتنا حمل بڑھتاہے ، اس کا ضعف بھی اتنا ہی ترقی کرتا ہے ۔ اسی تفصیل کو قرآن مجید بیان فرماتا ہے کہ : وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ ۔ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ۔
ترجمہ : اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے ۔ (سورہ لقمان آیت 14)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ والدین کا مقام انتہائی بلند ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ بندے کے والدین کا ذکر فرمایا اور ایک ساتھ دونو ں  کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ، اب اگر کوئی بد قسمت اپنے والدین کی خدمت نہ کرے اور انہیں  تکلیفیں دے تو یہ ا س کی بد نصیبی اور محرومی ہے ۔حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں  کہ جس نے پنج گانہ نمازیں ادا کیں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالایا اور جس نے پنج گانہ نمازوں کے بعد والدین کےلیے دعائیں  کیں تو اس نے والدین کی شکر گزاری کی ۔ (تفسیر بغوی جلد ۳ صفحہ ۴۲۳،چشتی)

اللہ عزوجل نے ماں باب دونوں کے حق میں تاکید فرما کر پھر خاص طور پر ماں کا الگ تذکرہ فرمایا اور ان سختیوں اور تکلیفوں کا ، جو اسے حمل و ولادت اور دو برس تک اپنے خون کا عطر یعنی دودھ پلانے میں پیش آئیں اس کا ذکر کر کے یہ اعلان فرمایا کہ ماں کا حق اولاد پر بہت ہی اہم اور نہایت ہی اعظم ہے ، ماں کا حق باپ کے حق سے زائد ہے ؟

اس کے متعلق حدیث پاک میں آیا ہے کہ : ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کس کے ساتھ بہتر سلوک کروں ؟ اور کون میرے بہترین سلوک کا سب سے زیادہ حق دار ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : تم اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو ، پھر اس نے کہا پھر کس کے ساتھ ؟ تو فرمایا کہ اپنی ماں کے ساتھ ، تو اس نے کہا پھر کس کے ساتھ ؟ تو فرمایا اپنی ماں کے ساتھ؛ تو اس نے کہا پھر کس کے ساتھ ؟ تو( چوتھی مرتبہ میں) فرمایا پھر اپنے باپ کے ساتھ ۔ ( مشکات شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 418 بحوالہ بخاری و مسلم)

اللہ عزوجل نے ماؤں کی نافرمانیوں اور فضول قیل وقال اور بے مطلب سوال اور مال کو برباد کرنے کو حرام فرمایا ہے ، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالی نے تمہارے لیے ماؤں کی نافرمانیوں کو ، اور لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے کو ، اور کسی کو کچھ نہ دینے اور دوسروں سے مانگنے کو اور فضول قیل و قال کو ، اور کثرت سوال کو ، اور مال کے برباد کرنے کو حرام فرمادیا ہے ۔ (مشکات شریف شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 119 بحوالہ بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ نے ماں کا رتبہ بہت اونچا و صاحبِ فضیلت رکھا ہے ماں کی غیر موجودگی (یعنی بعد وفات) ماں کا مقام خالہ کو حاصل ہے اسی طرح حدیث پاک میں ہے کہ : ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ایک گناہ ہو گیا ہے تو کیا میری توبہ ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہاری ماں ہے ؟ تو اس نے کہا نہیں ، تو فرمایا کیا تمہاری خالہ ہے ؟ تو اس نے کہا “ہاں” تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو (تو تمہاری توبہ قبول ہو جائے گی) اسی طرح ایک شخص نے جہاد میں جانے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ طلب کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہاری ماں ہے ؟ تو اس نے کہا جی ہاں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کی خدمت کو لازم پکڑو ، اس لیے کہ تمہاری جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے ۔ (مشکات شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 420 421)

ایک روایت اس طرح ہے : ایک شخص نے دربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماں باپ کے انتقال کے بعد کوئی طریقہ ان کے ساتھ نیکو کاری کا باقی ہے جس کو میں بجالاؤ ں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں ہیں ۔ نمبر 1 ان پر نماز جنازہ پڑھنا ۔ نمبر 2 ان کےلیے دعائے مغفرت کرتے رہنا ۔ نمبر 3 ان کی وصیت کو پورا کرنا ۔ نمبر 4 ان کے رشتہ داروں اور دوستوں سے نیک برتاؤ قائم رکھنا ۔ ( شرح الحقوق لطرح العقوق)

ماں ایسا انمول ہیرا ہے جس کا بدل نہیں ، ماں وہ نعمت ہے کہ جس نعمت پر جتنا شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے ، ماں باپ کی رضامندی میں اللہ تعالی کی رضامندی ہے ، ماں باپ کی ناراضگی میں اللہ تعالی کی ناراضگی ہے ، اور ماں باپ کا دل دکھانے والا دنیا میں بھی خسارے میں رہتا ہے اور آخرت میں بھی اس کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ، دنیا میں اگر جس نے ماں کا دل دکھادیا ، بوقت نزع روح قبض ہونے میں مشکلات درپیش ہوئیں ۔ درج ذیل حدیث پاک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے : ⏬

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جوان پر سکرات موت کی حالت ہے ، اس کو کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جاتا ہے ، مگر اس کی زبان نہیں چلتی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا وہ زندگی میں کلمہ نہیں پڑھتا تھا ؟
عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتا تھا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب وہ زندگی میں پڑھتا تھا تو اب( یعنی موت کے وقت) کس چیز نے اسے روکا ؟
اتنا فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے ، اور ہم سب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چل پڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جوان کے مکان پر تشریف لے گئے اور فرمایا : اے لڑکے کہہ “لا الا الہ اللہ محمد رسول اللہ” لڑکے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبان نہیں چلتی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہے ؟
عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماں کی نافرمانی کے باعث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تیری ماں کیا زندہ ہے ؟ اس لڑکے نے کہا ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی والدہ کو بلا کر فرمایا : کہ کیا یہ تمہارا لڑکا ہے ؟ بوڑھی عورت نے کہا ہاں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر آگ کا دہکتا ہوا الاؤ ہو اور تم سے کہا جائے کہ لڑکے کو معاف کر دو ؟ ورنہ تمہارے سامنے تمہارے اس لڑکے کو آگ کے الاؤ میں ڈال کر جلا دیا جائے گا ، تو تم کیا کرو گی ؟
بوڑھی عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کو معاف کردونگی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو سن لو دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ سخت جہنم کی آگ ہے ، کیا اپنے لڑکے کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور اس کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جلتا ہوا پسند کروں گی ؟ بوڑھی عورت کی ممتا جوش میں آ گئی عرض کیا یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضور کو گواہ بناتی ہوں کہ میں نے اپنے لختِ جگر ؟ نور نظر کو معاف کر دیا ، اور اس سے راضی ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوان سے کلمہ پڑھنے کو فرمایا تو فوراً اس کی زبان کھل گئی اور پورا کلمہ “لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” پڑھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا فضل ہے کہ میری وجہ سے یہ لڑکا جہنم کے دردناک عذاب سے نجات پا گیا ۔ (تنبیہ الغافلین)(الحجۃ الواضحہ فی اثبات الفاتحہ)(حیات الشہداء والموتی)

مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا والدین اللہ تعالی کی عطا کردہ وہ عظیم نعمت ہیں جن کے وجود سے اولاد کا وجود ، وجود میں آیا ، ماں باپ کی تعظیم کرنا ، ان کی اطاعت کرنا ، ان کی فرمانبرداری کرنا ، یہ اللہ رب العزت اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی فرماں برداری ہے ، والدین کی رضا میں رب تعالی کی رضا ہے ، والدین کی ناراضگی میں رب تعالیٰ کی ناراضگی ہے ۔

کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشکلات کو برداشت کریں ، صبر کرں ، پر والدین کی نافرمانی نہ کریں ؛جن کے والدین زندہ ہیں وہ اپنے ہیرے جیسے والدین کی قدر کریں ، خدمت کریں ، ان سے دعائیں لیں ، اور جن کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں وہ اپنے والدین کےلیے دعائے مغفرت کریں ، ان کے نام سے صدقات و خیرات کریں ، اور تمام اعمالِ صالحہ کا ایصالِ ثواب ان کےلیے کریںاللہ تعالی راہ راست کی ہدایت عطا فرمانے والا ہے ۔

والدین کی خدمت و اطاعت اور تعظیم و تکریم عمر کے ہر حصے میں واجب ہے بوڑھے ہوں یا جوان ، لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے ہے کہ اس عمر میں جاکر ماں باپ بھی بعض مرتبہ چِڑچِڑے ہو جاتے ہیں اور عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے اور انہیں طرح طرح کی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں ۔ وہ خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہو جاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کےلیے مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس لیے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو ۔

جس طرح قرآنِ حکیم میں والدین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے اسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے : ⏬

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو ، اس کی ناک خاک آلود ہو ، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو) ۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (صحيح مسلم کتاب البر و الصلة باب رعم أنف من أدرک أبويه جلد 4 صفحہ 1978 رقم : 2551،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کےلیے حاضر ہوا ، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا ”فَفِيْھَا فَجَاِھد“ یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا ۔ (صحيح بخاری جلد 3 صفحہ 1094، رقم : 2842)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يَسُبُّ الرَّجُلُ أبَا الرَّجُلِ فَيَسُبَّ أبَاهُ، وَيَسُبُّ أمُّهُ فَيَسُبُّ أمُّهُ ۔
ترجمہ : کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا یہ اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے) ۔ (صحيح بخاری کتاب الأدب باب لايسب الرجل والديه جلد 5 صفحہ 2228، رقم : 5628)(سنن ابو داٶد  کتاب الأدب باب فی بر الوالدين جلد 4 صفحہ 336 رقم : 5141)

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے انتقال کے بعد بھی نیک اعمال کا ایصال ثواب اور ان کے دوستوں سے حسنِ سلوک کی صورت میں ان سے حسن سلوک جاری رکھنے کی تعلیم دی ۔

والدین کو گالم گلوچ کرنے کا شرعی حکم : ⏬

اگر کوٸی اپنے والدین کو مارے اور گالی دے اور بات نہ کرے تو بہت بڑا گنہگار ہے مستحقِ عذاب نار و لائق غضبِ جبار ہے ۔ اس پر لازم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اپنی ماں باپ کو راضی کرے اگر وہ اپنی ماں باپ کو راضی نہ کرے تو اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جاۓ ۔ جیسا کہ فقیہ اعظم حضرت صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی رضوی علیہ الرحمة تحریر فرماتےہیں : جب زید اپنے والدین کے ساتھ ایسی بیجا حرکتیں کرتا ہے تو وہ نیک چلن کہاں رہا ۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا فرض ہے ۔  قرآن پاک میں ارشاد ہوا بالوالدین احسانا ،، اور ارشادہوا : ولا تقل لھما اف ولا تنھر ھما وقل لھما قولا کریما ،، ماں باپ کی نافرمانی اور ان کو ایذا رسانی گناہ کبیرہ اور اشد کبیرہ ہے ۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا : اجتنبوا سبع الموبقات الاشراک بالله وعقوق الوالدین ۔ (فتاوی امجدیہ جلدچہارم صفحہ ٥٢٦)

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ، اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا ۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عزوجل نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو ۔ (تفسیرکبیر سورہ الاسراء آیت نمبر ۲۳ جلد ۷ صفحہ ۳۲۱ ، ۳۲۳)     

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی ، یارسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے) انہوں نے پوچھا ، پھر کون ؟ ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ انہوں  نے پوچھا ، پھر کون ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ماں کو بتایا ۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ ارشاد فرمایا : تمہارا والد ۔ (بخاری کتاب الادب باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ جلد ۴ صفحہ ۹۳ الحدیث : ۵۹۷۱،چشتی)    

حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : زیادہ احسان کرنے والا وہ ہے جو اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کے نہ ہونے(یعنی باپ کے انتقال کر جانے یا کہیں چلے جانے) کی صورت میں احسان کرے۔ (مسلم،کتاب البرّ والصلۃ والآداب باب فضل صلۃ اصدقاء الاب والامّ ونحوہما الحدیث ۱۳ (۲۵۵۲)    

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا ، میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی ، میں نے عرض کی ، یارسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے ، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا : اس کے ساتھ سلوک کرو ۔ (بخاری کتاب الادب باب صلۃ الوالد المشرک جلد ۴ صفحہ ۹۶ الحدیث : ۵۹۷۸)

یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا ۔     

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی ، میں نے پوچھا : یہ کون پڑھتا ہے ؟ فرشتوں نے کہا ، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی حال ہے احسان کا ، یہی حال ہے احسان کا ۔ (شرح السنّۃ کتاب البرّ والصلۃ باب برّ الوالدین جلد ۶ صفحہ ۴۲۶ الحدیث : ۳۳۱۲)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ : حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں  کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے ۔ (شعب الایمان الخامس والخمسون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ جلد ۶ صفحہ ۱۸۴ الحدیث :  ۷۸۵۱)    

حضرت ابو اسید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کےلیے دعائے مغفرت کرے ۔ (کنز العمال حرف النون کتاب النکاح قسم الاقوال الباب الثامن فی برّ الوالدین جلد ۸ صفحہ ۱۹۲ الجزء السادس عشر،چشتی)    

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (جس کا خلاصہ ہے کہ ) ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی میں نیک سلوک کرتا تھا ، وہ انتقال کر گئے ہیں  تو اب ان کے ساتھ نیک سلوک کی کیا صورت ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ انتقال کے بعد نیک سلوک سے یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ ان کےلیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کےلیے روزے رکھے ۔ یعنی جب اپنے ثواب ملنے کےلیے کچھ نفلی نماز پڑھے یاروزے رکھے تو کچھ نفل نماز ان کی طرف سے کہ انہیں ثواب پہنچائے یانماز روزہ جونیک عمل کرے ساتھ ہی انہیں ثواب پہنچنے کی بھی نیت کرلے کہ انہیں بھی ثواب ملے گا اور تیرا بھی کم نہ ہو گا ۔ (فتاوی رضویہ رسالہ : الحقوق لطرح العقوق جلد ۲۴ صفحہ ۳۹۵)     

حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ عزوجل کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں  ہے ۔ (ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین جلد ۳ صفحہ ۳۶۰ الحدیث : ۱۹۰۷)   

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت والد کی اطاعت کرنے میں ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد جلد ۱ صفحہ ۶۴۱ الحدیث : ۲۲۵۵،چشتی)     

حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین شخص جنت میں نہ جائیں گے ۔ (۱) ماں  باپ کا نافرمان ۔ (۲) دیّوث ۔ (۳) مَردوں کی وضع بنانے والی عورت ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ ابراہیم جلد ۲ صفحہ ۴۳ الحدیث : ۲۴۴۳)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماں  باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللّٰہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرما دے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی ہی میں مل جائے گی ۔ (شعب الایمان الخامس والخمسون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ فصل فی عقوق الوالدین جلد ۶ صفحہ ۱۹۷، الحدیث : ۷۸۹۰)     

حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہ بات کبیرہ گناہوں میں ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ ارشاد فرمایا ہاں ، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے ، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے ، اور یہ دوسرے کی ماں  کو گالی دیتا ہے ، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے ۔ (مسلم کتاب الایمان باب الکبائر واکبرہا صفحہ ۶۰ الحدیث : ۱۴۶)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم) جنہوں نے عرب کا زمانہ جاہلیت دیکھا تھا ، ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اپنے ماں باپ کو کوئی کیوں کر گالی دے گا یعنی یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ مراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آیا کہ بعض لوگ خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں  کرتے ۔ (بہارِ شریعت حصہ شانزدہم سلوک کرنے کا بیان جلد ۳ صفحہ ۵۵۲ )     

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی : یارسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کی ناک خاک آلود ہو ؟ ارشاد فرمایا ’’ جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا ، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا ۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب رغم من ادرک ابویہ او احدہما عند الکبر ۔۔۔ الخ صفحہ ۱۳۸۱ الحدیث : ۹(۲۵۵۱))

اگر تیرے والدین پر کمزوری کا غلبہ ہو جائے اور ان کے اَعضا میں طاقت نہ رہے اور جیسا تو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ اپنی آخری عمر میں  تیرے پاس ناتواں رہ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا یعنی ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ بوجھ ہے اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا اور حسنِ ادب کے ساتھ اُن سے خطاب کرنا ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۷۰ - ۱۷۱)(تفسیر مدارک جلد ٣ صفحہ ۶۲۰)   

محترم قارٸینِ کرام : دو باتیں یاد رکھیں ، ایک یہ کہ کوئی شخص ماں باپ کو اُن کا نام لے کر نہ پکارے یہ خلافِ ادب ہے اور اس میں اُن کی دل آزاری ہے لیکن وہ سامنے نہ ہوں  تو اُن کا ذکر نام لے کر کرنا جائز ہے ۔ دوسری یہ کہ ماں باپ سے اس طرح کلام کرے جیسے غلام و خادم آقا سے کرتا ہے ۔ مذکورہ آیات اور اَحادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان پر واضح ہو جائے گا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی جیسی عظیم تعلیم اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دی ہے ویسی پوری دنیا میں پائے جانے والے دیگر مذاہب میں نظر نہیں  آتی ۔ فی زمانہ غیر مسلم ممالک میں بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتِ حال کا شکار ہیں  کہ ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کر کے ان کا سہارا بننے کےلیے تیار نہیں ہوتی ،اسی وجہ سے وہاں کی حکومتیں  ایسی پناہ گاہیں بنانے پر مجبور ہیں جہاں بوڑھے اور بیمار والدین اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں ۔

والدین کو مارنے اور گالی دینے اور بات نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اشد گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور مستحقِ عذاب نار و غضبِ جبار ہے ۔ ہر مسلمان پر لازم و فرض ہے کہ اگر والدین ناراض ہیں تو اپنے والدین کو جس طرح ہو سکے راضی کرے اور ان سے معافی مانگے اور ان کی پوری زندگی خدمت کرے اور گناہوں پرنادم ہو کر بارگاہ ربِ لم یزل میں سجدہ ریز ہو اور توبہ واستغفار کرے ۔


انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کی ایجاد ہے اور اس کا ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سبب حقیقی کی تعظیم کا حکم دیا اور اس کے متصل بعد سبب ظاہری کی تعظیم کا حکم دیا ۔ اللہ تعالیٰ قدیم موجد ہے اور ماں باپ حادث موجود ہیں اس لیے قدیم موجد کے متعلق حکم دیا کہ اس کی عبودیت کے ساتھ تعظیم کی جائے اور ماں باپ حادث موجد ہیں اس لیے ان کے متعلق حکم دیا کہ ان کی شفقت کے ساتھ تعظیم کی جائے ۔ منعم کا شکر کرنا واجب ہے ، منعم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے سو اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا ، اور مخلوق میں سے اگر کوئی اس کےلیے منعم ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں سو ان کا شکر کرنا بھی واجب ہے ۔


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٥٥)(مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٨، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٥٠١)(شرح السنہ ج ٧ ص ٢٦١)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٢١٢٢)(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٦٠٦)(مشکوۃ رقم الحدیث : ٣٠٢٥)(کنز العمال رقم الحدیث : ٦٤٤٣)


اور مخلوق میں جتنی نعمتیں اور احسانات ماں باپ کے اولاد پر ہیں اتنی نعمتیں اور احسانات اور کسی کے نہیں ہیں ، کیونکہ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔ حضرت مور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمۃ بضعۃ منی ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧١٤)(سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٢٠٧١)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٧) ۔ ترجمہ : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ۔ ماں باپ کی بچہ پر بہت زیادہ شفقت ہوتی ہے ، بچہ کو ضرر سے دور رکھنا اور اس کی طرف خیر کو پہنچانا ان کا فطری اور طبعی وصف ہے ۔ وہ خود تکلیف اٹھا لیتے ہیں بچہ کو تکلیف نہیں پہنچنے دیتے اور ان کو جو خیر بھی حاصل ہو وہ چاہتے ہیں کہ یہ خیر ان کے بچے کو پہنچ جائے ۔ جس وقت انسان انتہائی کمزور اور انتہائی عاجز ہوتا ہے اور وہ سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا اور وہ اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا ، اس وقت اس کی تمام ضروریات کے کفیل اس کے ماں باپ ہوتے ہیں ۔ پس واضح ہو گیا کہ انسان پر جتنی نعمتیں اور جتنے احسانات اس کے ماں باپ کے ہیں اتنی نعمتیں اور اتنے احسانات اور کسی کے نہیں ہیں ۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر کے بعد انسان پر اگر کسی کی نعمتوں اور احسانات کے شکر کا حق ہے تو وہ اس کے ماں باپ کا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ۔ اللہ تعالیٰ انسان کا حقیقی مربی ہے اور ظاہری طور پر اس کے ماں باپ اس کے مربی ہیں ، جس طرح اللہ تعالیٰ انسانوں کی برائیوں کے باوجود اس سے اپنی نعمتوں کا سلسلہ منطقع نہیں کرتا اسی طرح اس کے ماں باپ بھی اس کی غلط کاریوں اور نالائقیوں کے باوجود اس پر اپنے احسانات کو کم نہیں کرتے ، جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کا بندے سے کوئی عوض طلب نہیں کرتا ، اسی طرح ماں باپ بھی اولاد پر اپنے احسانات کا عوض طلب نہیں کرتے ، اور جس طرح اللہ تعالیٰ بندوں کو غلط راستوں میں بھٹکنے اور برائیوں سے بچانے کےلیے ان کو سرزنش کرتا ہے اسی طرح ماں باپ بھی اولاد کو بری راہوں سے بچانے کےلیے سرزنش کرتے ہیں ۔ ان وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے ۔


ایک اعراض کیا جاتا ہے کہ ماں باپ نے اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے یا حصولِ لذت کےلیے ایک عمل کیا جس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو گئی اور اس کی پرورش کا باران پر پڑ گیا تو ماں باپ کا اولاد پر کون سا احسان ہوا ؟

جواب : اگر والدین کا مقصود صرف حصولِ لذت ہو تو وہ جنسی عمل کرنے کے بعد عزل کر لیتے تاکہ استقرار حمل نہ ہوتا اور اب تو خاندانی منصوبہ بندی نے بہت سارے طریقے بتا دیے ہیں جن کے ذریعہ ماں باپ اپنی خواہش پوری کر سکتے ہیں ، اور ان کو اولاد کے جھنجھٹ میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا ، لیکن جب انہوں نے ضبطِ تولید کے کسی طریقہ پر عمل نہیں کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کا مقصود صرف حصولِ لذت نہیں تھا بلکہ حصولِ اولاد تھا اور اس مقصد کےلیے والد نے کسبِ معاش کےلیے اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کیا ، دہری ، تہری ملازمتیں کیں ، اور اپنی اولاد کے کھانے پینے ، لباس دواؤں اور دیگر ضروریات زندگی کا خرچ اٹھانے کےلیے اپنی بساط سے بڑھ کر جدوجہد کی ۔ اولاد کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دی ، وہ خود چاہے بھوکے رہ جائیں ، خواہ ان کےلیے دوا نہ ہو لیکن اولاد کےلیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو وقت پر کھانا اور وقت پر دوا مل جائے ، باپ خواہ ان پڑھ ہو لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ، اور ماں کے اولاد پر جس قدر احسانات ہیں وہ بےحد و حساب ہیں ، اگر اس کا مقصد صرف فطری تقاضا پورا کرنا ہوتا اور حصولِ لذت ہوتا تو وہ استقرارِ حمل سے پہلے اسقاط کرا سکتی تھی ، وہ ایامِ حمل اور وضعِ حمل کی تکلیفیں نہ اٹھاتی ، پھر وہ دو سال تک بچہ کو دودھ پلاتی ہے اس کے بول و براذ کو صاف کرتی ہے ، اس کے بستر کو صاف رکھتی ہے ، اس کا پیشاب و پاخانہ اٹھاتے ہوئے اس کو کوئی گھن نہیں آتی ، کوئی کراہت محسوس نہیں ہوتی ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کو دودھ پلاتی ہے ، خود گیلے بستر پر لیٹ کر اس کو سوکھے بستر پر سلاتی ہے ، اور یوں بالغ ہونے تک اس کی پرورش کرتی رہتی ہے ۔ اگر گھر میں کھانا کم ہو تو خود بھوکی رہتی ہے اور بچوں کو کھلا دیتی ہے ۔ غرض ماں کے اولاد پر اتنے احسانات ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ماں باپ جو اولاد کی خدمت کرتے ہیں یہ بالکل بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے یہ نہ کہا جائے کہ وہ اس لیے بچہ کی پرورش کرتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر ان کا سہارا اور دست و بازو بنے گا ، کیونکہ لڑکے کے متعلق تو یہ امید کی جاسکتی ہے ، لڑکی کو تو اس کی شادی سے پہلے بھی پالنا پڑتا ہے اور شادی کے بعد بھی پالنا پڑتا ہے اور رہا لڑکا تو ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ جوانی کی عمر تک پہنچے گا بھی یا نہیں ، کسی کام کے لائق بنے گا یا نہیں ، پھر پڑھا لکھا کر کسی کام کے لائق تو ماں باپ بناتے ہیں اور یہ چیز ان کے مشاہدہ میں ہوتی ہے کہ شادی کے بعد عموماً لڑکے اپنی بیویوں کے کہنے پر چلتے ہیں اور ماں باپ کو کوئی حیثیت نہیں دیتے ، وہ بھول جاتے ہیں کہ ماں باپ نے ان کو کس طرح پالا پوسا تھا اور کس طرح اس مقام تک پہنچایا تھا ، یہ سب ماں باپ کے پیشِ نظر ہوتا ہے ، اس کے باوجود وہ اولاد کی بے غرضی اور بے لوث خدمت اور پرورش کرتے ہیں ، جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کی بے غرض پرورش کرتا ہے اسی طرح ماں باپ اولاد کی بےلوث پرورش کرتے ہیں ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے متصل ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے جن کا ذکر ہم حصّہ اوّل میں کر چُکے ہیں ۔


حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا ، میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ، میں نے پوچھا پھر کونسا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ احکام بیان فرمائے اگر میں اور پوچھتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بتا دیتے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥٢٧،چشتی)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٨٥)(سنن الترمذی، رقم الحدیث : ١٧٣)(سنن النسائی، رقم الحدیث : ٦١٠٠)


اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کو جہاد پر مقدم کیا ہے ۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت کا یہ تقاضا ہے کہ نہ براہ راست ان کی گستاخی کرے اور نہ کوئی ایسا کام کرے جو ان کی گستاخی کا موجب ہو ۔


حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمام کبیرہ گناہوں میں سے بڑا کبیرہ گناہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے ، یا لعنت کرے ۔ کہا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی شخص اپنے ماں باپ پر کیسے لعنت کرے گا ، فرمایا ایک شخص دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دے گا تو وہ دوسرا شخص اس کے ماں باپ کو گالے دے گا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٣،چشتی)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٩٠)(سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥١٤١)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٢)


اغراضِ صحیحہ اور جائز کاموں میں ماں باپ کی نافرمانی کرنا حرام ہے اور جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے ۔ جبکہ ان کا حکم کسی معصیت (یعنی گناہ) کو مستلزم نہ ہو ۔


حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا : کیا میں تم کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے متعلق نہ بتاؤں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کا شریک بنانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سہارے سے بیٹھے ہوئے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور جھوٹی بات کہنا ، اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار تکرار فرمایا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٥٤)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٧)(سنن الترمذی، رقم الحدیث : ١٩٠١)


ماں باپ کی اطاعت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اگر اس کا باپ اس کو یہ حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو تو اس پر بیوی کو طلاق دینا واجب ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا ، اور میرے والد اس کو ناپسند کرتے تھے ، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اس کو طلاق دے دو میں نے انکار کر دیا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عبداللہ بن عمر ! اپنی بیوی کو طلاق دے دو ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١١٨٩)(سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥١٣٨،چشتی)(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : ٢٠٨٨) ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔


ماں اور باپ دونوں کی اطاعت واجب ہے لیکن ماں کی اطاعت کا حق چار میں سے تین حصہ ہے اور باپ کی اطاعت کا حق ایک حصہ ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں ، اس نے کہا پھر کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں ، اس نے پوچھا پھر کون ہے ؟ فرمایا تمہاری ماں ۔ اس نے کہا پھر کون ہے ؟ فرمایا تمہارا باپ ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧١)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٥٤٨ )


اگر ماں باپ غیر مسلم ہوں پھر بھی ان کے ساتھ نیک سلوک واجب ہے ۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مشرکہ تھیں ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اسلام سے اعراض کرتی ہیں کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحم کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان کے ساتھ صلہ رحم کرو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٢٠)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٣)(سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١٦٦٨)


ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا جہاد پر مقدم ہے : حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : کیا میں جہاد کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تمہارے ماں باپ ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تم ان کی خدمت میں جہاد کرو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٢،چشتی)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٥٤٩)(سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٢٥٢٩)(سنن الترمزی رقم الحدیث : ١٦٧١)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٠٣)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣٢٨٤)(مسند حمیدی رقم الحدیث : ٥٨٥)(مسند احمد رقم الحدیث : ٦٥٤٤)(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢، ص ٤٧٣)


معاویہ بن جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جاہمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی گئے اور عرض کیا میں جہاد کےلیے جانا چاہتا ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا تمہاری ماں ہے ؟ اس نے کہا ہاں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اس کے ساتھ لازم رہو ، کیونکہ جنت اس کے پیروں کے پاس ہے وہ پھر دوبارہ کسی اور وقت گئے ، پھر سہ بارہ کسی اور وقت گئے تو آپ نے یہی جواب دیا ۔ (سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٤)(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : ٢٧٨١)(مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٩ طبع قدیم،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٦٢٣)(سنن کبری للبیہقی ج ٩ ص ٢٦)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٢٩٠)(مشکوۃ رقم الحدیث : ٢٩٣٥، تاریخ بغداد ج ٣ ص ٣٢٤)


ایک روایت میں ہے جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ (سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٤)


حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ (کنز العمال رقم الحدیث : ٤٥٤٣٩، بہ حوالہ تاریخ بغداد)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو (نفل) نماز میں بلائے تو چلے جاؤ اور جب تمہارا باپ بلائے تو نہ جاؤ ۔ (الدر المنثور ج ٥ ص ٢٦٦، مطبوعہ دار الکفر بیروت، ١٤١٤ ھ)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو ، آپ سے کہا گیا کس کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کو پایا ، یا ان میں سے کسی ایک کے یا دونوں کے ، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٥٥١)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے پھر فرمایا : آمین ، آمین ، آمین ۔ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے کس چیز پر آمین کہی ؟ آپ نے فرمایا میرے پاس ابھی جبرئیل آئے تھے انہوں نے کہا یا محمد ! اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہیں پڑھا ، آپ کہیے آمین تو میں نے کہا آمین ۔ پھر اس نے کہا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان کا مہینہ داخل ہوا اور اس کی مغفرت کے بغیرہ وہ مہینہ گزر گیا آپ کہیے آمین تو میں نے کہا آمین ۔ پھر اس نے کہا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا ، آپ کہیے آمین تو میں نے کہا آمین ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥)(مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٤)(مسند احمد رقم الحدیث : ٧٤٤)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٨)(المستدرک ج ١ ص ٥٤٩)


ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ، حدیث میں ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ نیکی کی جائے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥٢)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٣)


حضرت مالک بن ربیعہ الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میں بیٹھا ہوا تھا اس وقت انصار میں سے ایک شخص آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ماں باپ کے فوت ہونے کے بعد بھی ان کے ساتھ کوئی نیکی کرنا میرے ذمہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، چار قسم کی نیکیاں ہیں ۔ (١) ان کی نماز جنازہ پڑھنا ۔ (٢) ان کے لیے استغفار کرنا اور ان کے عہد کو پورا کرنا (٣) ان کے دوستوں کی تعظیم کرنا ۔ (٤) اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ، یہ ان کے ساتھ وہ نیکیاں ہیں جو ان کی موت کے بعد تم پر باقی ہیں ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٥١٤٢)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٤، ج ٤ ص ١٥٤)(مسند احمد ج ٣ ص ٤٩٨)(مسند احمد رقم الحدیث : ١ٍ ٦١٥٦،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث : ١٦٠٠٤ مطبوعہ معارف الحدیث قارہرہ)(المستدرک ج ٤ ص ١٥٤)


سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے آپ نے فرمایا نہیں یہ تو اس کی ایک بار کی تکلیف کا بھی بدل نہیں ہے ۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٧٢)(حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے)(مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٤٧)


وعن أبي أمامة أن رجلا قال : يا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ما حق الوالدين على ولدهما ؟ قال : هما ‌جنتك ونارك ۔ (مشکوٰۃ المصابيح باب البر والصلة رقم الحديث : 4941 جلد 3 صفحہ 1382 مطبوعہ المكتب الاسلامى)

ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے ؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ۔ (یعنی ان کی خدمت کرو گے تو  جنت میں جاؤ گے ، ان نافرمانی کرو گے تو دوزخ میں جاؤگے) ۔


عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من أصبح مطيعا في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن كان واحدا فواحدا ومن أمسى عاصيا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النار وإن كان واحدا فواحدا قال الرجل :‌ وإن ‌ظلماه ؟ ، قال : ‌وإن ‌ظلماه ‌وإن ‌ظلماه ‌وإن ‌ظلماه ۔ (شعب الايمان للبيهقي جلد 6 صفحہ 206 مكتبة دارالكتب العلمية بيروت،چشتی)

ترجمة : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمايا : جو شخص اپنےوالدين كا فرمان بردار ہوا تو جنت كے دو دروازے اس كےلیے كھول دیے جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جو شخص والدين كے متعلق اللہ تعالیٰ كا نافرمان ہوا تو اس كےلیے جہنم كے دو دروازے كھول دیے جاتے ہیں اور اگر ایک ہو (والدین میں سے) تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے (حاضرین مجلس میں سے) ایک آدمی نے پوچھا اگرچہ والدین اس پر ظلم کریں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں ۔


حضرت عَوّام بن حَوشَب رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ تَبعِ تابِعی بُزُرگ گزرے ہیں اور انہوں نے  ۱۴۸ ؁ھ میں وفات پائی) فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں کسی مَحَلّے سے گزرا ، اُس کے کَنارے پر قبرِستان تھا ، بعد عَصر ایک قَبْر شَق ہوئی (یعنی پھٹی) اور اُس میں سے ایک ایسا آدَمی نکلا جس کا سر گدھے جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا ، وہ تین بارگدھے کی طرح رَینکا (یعنی چیخا) ، پھر قَبْر میں چلا گیا اور قَبْر بند ہو گئی ۔ ایک بڑی بی بیٹھی (سُوت) کات رہی تھیں ، ایک خاتون نے مجھ سے کہا : بڑی بی کو دیکھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : اس کا کیا مُعامَلہ ہے ؟ کہا یہ قَبْر والے کی ماں ہے ، وہ شرابی تھا ، جب شام کو گھر آتا ، ماں نصیحت کرتی کہ اے بیٹے اللہ سے ڈر ، آخِر کب تک اس ناپاک کو پیئے گا یہ جواب دیتا : تُو گدھے کی طرح ڈِھیچوں ڈھیچوں کرتی ہے ۔ اس شخص کا عَصر کے بعد انتِقال ہوا ، جب سے فوت ہوا ہے ہر روز بعد عَصر اس کی قَبْر شَق ہوتی ہے اور یوں تین بار گدھے کی طرح چِلّا کر پھر قَبْر میں سَما جاتا ہے اور قَبْر بند ہو جاتی ہے ۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب للمنذری  جلد ۲ صفحہ ۲۲۶ حدیث نمبر ۱۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)


والِدَین کے نافرمان کی کوئی عبادت مقبول نہیں حدیثِ مبارکہ میں ہے : عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ”یعنی’’ قبر کاعذاب حق ہے  ۔ (سنن نَسائی صفحہ ۲۲۵ حدیث نمبر ۱۳۰۵)


امام اَحمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : باپ کی نافرمانی اللہ جبّار و قَہّار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللّٰہ جبّار و قَہّار کی ناراضی ہے ، آدَمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنّت ہیں اور ناراض کرے تو وُہی اس کے دوزخ ہیں ۔ جب تک باپ کو راضی نہ کرے گا ، اُس کا کوئی فرض ، کوئی نَفل ، کوئی نیک عمل اَصلاً مقبول نہیں ، عذابِ آخِرت کے علاوہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا (یعنی شدید آفت) نازِل ہو گی ، مَرتے وقت مَعَاذَاللہ کَلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۳۸۴ ۔ ۳۸۵،چشتی)


اگر کسی مسلمان کا باپ یا ماں کافِر ہے اور کہے کہ تو مجھے بُت خانے پہنچا دے تو نہ لے جائے اور اگر وہاں سے آنا چاہتے ہیں تو لاسکتا ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری جلد ۲ صفحہ ۳۵۰ دارالفکر بیروت)


اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی رحمۃ اللہ علیہ نَقل کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : مِعراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا : اے جبرئیل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی : اَلَّذِیْنَ یَشْتُمُوْنَ اٰبَاء َہُمْ وَاُمَّہَاتِہِمْ فِی الدُّنْیَا ، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤوں کو بُرا بھلا کہتے تھے ۔ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ دارالمعرفۃ بیروت)


جس نے اپنے والِدَین کو گالی دی اس کی قَبْر میں آگ کے اتنے انگارے اُترتے ہیں جتنے (بارِش کے ) قطرے آسمان سے زمین پر آتے ہیں ۔ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر جلد ۲ صفحہ ۱۴۰)


جب ماں باپ کے نافرمان کو دفْن کیا جاتا ہے تو قَبْر اُسے دباتی ہے یہاں تک کہ اُس کی پسلیاں (ٹوٹ پھوٹ کر) ایک دوسرے میں پَیوَست ہو جاتی ہیں ۔ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر جلد ۲ صفحہ ۱۴۰)


ماں باپ سے گھن نہ کھانا ، جس طرح ان کو تم سے گن نہیں آتی تھی ، وہ تمہارا بول و براز اٹھاتے تھے اور اس کی بدبو سے ناک چڑھاتے تھے نہ تیوی پر بل ڈالتے تھے وہ تم کو نجاست سے صاف کرتے تھے اور ان کو برا نہیں لگتا تھا ، اسی طرح برھاپے یا بیماری کی وجہ سے ان کے جسم سے کوئی ناگوار بو آئے تو تم ناگواری سے اف تک نہ کرنا ۔ اور جب ماں باپ کو اف تک کہنا منع ہے تو ان کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کرنا اور ان کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یا ان کو مارنا بہ طریق اولیٰ منع ہے ۔ انسان جب ماں باپ سے بات کرے تو نظر نیچی رکھ کر بات کرے اور پست آواز میں بات کرے ، ایسے لہجہ میں بات نہ کرے جو توہین آمیز ہو اور نہ کوئی ایسی بات کرے جس سے ان کی دل شکنی ہو ، البتہ اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی بات کہیں تو اس میں ان کی اطاعت نہ کرے ۔ مثلا اگر وہ کہیں کہ اپنی بہن سے بات نہ کرو یا اپنے بھائی یا اپنی خالہ یا اپنے ماموں سے بات نہ کرو تو اس میں ان کا حکم نہ مانے ، کیونکہ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے کی شریعت میں ممانعت ہے ، تاہم ان سے اس طرح بات کریں کہ ماں باپ کو پتہ نہ چلے تاکہ ان کی دل آزاری نہ ہو ۔


والدین کی خدمت کیجیے یہی راستہ جنّت کا راستہ ہے : وہ اولاد نہایت ہی خوش قسمت ہے ، جس نے اپنے والدین کو عقل و شعور میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنّت کی شاہِ کلید حاصل کر لیا ۔ والدین کا رشتہ ایک ایسا عظیم رشتہ ہے جو سب سے زیادہ حسن سلوک ، عزت و توقیر ، اطاعت و فرمانبرداری ، احسان و اکرام اور ادب و احترام کا متقاضی ہے ۔ والدین ایک عظیم نعمت اور عطیہ ربّانی ہیں ۔ زجر و توبیخ کرنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا تو دور کی بات ، اسلام نے انہیں”اُفّ“ بھی کہنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ ایک مطیع و فرمانبردار اور صالح اولاد کی یہ ذمے داری ہے کہ والدین کے سامنے متواضعانہ انداز میں پیش ہو اور ان کا حکم کو بجالائے ۔ آج لوگ والدین کے حقوق کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ والدین کے مقابلے میں جانور وں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آج یورپی ممالک ، بل کہ بہت سے ایشیائی ممالک میں بھی جو لوگ ”فادرز ڈے“ اور ”مادرز ڈے“ مناتے نہیں تھکتے ، ان کا حال یہ ہے کہ والدین کو بڑھاپے میں ”اولڈ ایج ہاؤس“ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد اور بچوں کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہوتے ہیں ۔ ایسے وقت میں ان کو ایسی جگہ پر پہنچا دیا جاتا کہ وہ ایک تو بڑھاپے اور دوسرے اولاد کی جدائی کے صدمہ میں ڈپریشن کے مریض ہو جاتے ہیں ۔ یہ نام نہاد مہذّب و مشفق یورپی ممالک کے لوگ ، جو اپنے والدین کے حقوق ادا نہیں کر پاتے ، دوسروں کو حقوقِ انسانی کا درس دینے میں ذرہ برابر بھی شرم و عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ ان ممالک میں ایک شخص اپنے پالتو کتّے کے حقوق کی رعایت ، اپنے والدین کے حقوق سے زیادہ کرتا ہے ۔ اس طرح کی اولاد کو بدقسمت نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے ۔

اسلامی تاریخ میں ایک شخصیت حضرت اویس بن عامر قرنی یمنی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ وہ بڑے متقی و زاہد اور خیرالتابعین تھے ۔ انہوں نے عہد نبوی پایا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہیں کر سکے ۔ وجہ یہ تھی وہ اپنی والدہ کی خدمت کےلیے تنہا تھے اور کوئی دوسرا نہیں تھا جو ان کی خدمت کرتا ۔ لہٰذا والدہ کی خدمت میں رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کر سکے اور نہ صحبت نبوی سے مشرف یاب ہو سکے ۔ یہ ہے حسن سلوک اور والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا عظیم نمونہ ۔ (حلیۃ الأولیاء جلد 2 صفحہ 87)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا ”خیرُ التابعین“ سے تعارف کرایا ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نقل فرماتے ہیں : تابعین میں سب سے بہتروہ شخص ہےجسے اویس کہا جاتا ہے ۔ اس کی ماں (زندہ) ہے ، اور اس کے جسم میں (برص کے) سفید داغ ہیں ۔ تم ان سے کہو کہ وہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے ۔ (صحیح مسلم)

اسلام ایک متوازن اور معتدل دین ہے ۔ اس دین میں سب کے حقوق کی خوب رعایت کی گئی ہے ۔ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کا جو حکم آیا ہے جس کا ہم سابقہ مضامین میں ذکر کر چکے ہیں ۔

شریعتِ اسلامیہ میں نماز کو ایک بڑا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کا درجہ رکھا گیا ہے ۔ لہٰذا جب بھی والدین ہمیں اپنی خدمت اور کسی بھی غرض سے بلائیں ، ہمیں بغیر کسی تاخیر کے ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ انہوں نے سوال کیا ، پھر کون سا عمل ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : والدین کے ساتھ نیکی کرنا ۔ انہوں نے پھر سوال کیا ، پھر کون سا عمل ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 5970،چشتی)

والدہ احسان اور حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ایک سائل کے سوال کے جواب میں تین بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدہ کو حسنِ رفاقت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق بتلایا ہے ۔ اس حدیث شریف کی وضاحت میں علماء کرام نے یہ لکھا ہے کہ حسنِ سلوک کے حوالے سے ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے ۔ وہ اس لیے کہ ماں تین ایسی مشقتیں برداشت کرتی ہیں ، جو باپ نہیں کرتا ۔ وہ مشقتیں یہ ہیں : حمل کی مشقت ، بچہ جننے کی مشقت اور دودھ پلانے کی مشقت ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری حسن رفاقت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری ماں اس نے سوال کیا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری ماں پھر اس نے عرض کیا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا : تمہاری ماں (اس کے بعد پھر) اس شخص نے سوال کیا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہوآلہ وسلم نے جواب دیا : تمہارا باپ ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 5971)

مشرک والدین کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو : اگر کسی کے والدین کافر و مشرک ہوں ، اس صورت میں بھی اسلام حسن سلوک سے نہیں روکتا ۔ بل کہ حکم کرتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ ”قتیلہ“ جو کہ مشرکہ تھیں ، بیٹی کے پاس کچھ ضرورت کی وجہ سے آئیں ۔ اس حوالے سے بیٹی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کروایا ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”صلہ رحمی“ کا حکم صادر فرمایا ۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیس : عہدِ رسالت میں میری والدہ میرے پاس آئی ۔ جب کہ وہ مشرکہ تھیں ۔ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتویٰ طلب کرتے ہوئے عرض کیا کہ میری ماں کسی کام سے آئی ہیں ۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب عنایت فرمایا : ہاں ، اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 2620)

والدین کی رضا میں اللہ کی رضا : ایک حدیث شریف میں اللہ کی رضا کو والدین کی رضا کے ساتھ لازم کر دیا گیا ہے ۔ اگر والدین راضی ہوں ۔ تو اللہ بھی راضی اور اگر والدین ناراض ہوں تو اللہ بھی ناراض ۔ حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے ۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر 1899)

والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے : والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر (کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ) میں شمار کرایا گيا ہے ۔ کبیرہ گناہ تو خود ایسا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا ، پھر وہ گناہ جو اکبر کبائر ہو اس کی شناعت و قباحت کتنی ہو گی ۔ ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک کے فوراً بعد ، والدین کی نافرمانی کو اکبر کبائر میں شمار کرایا ہے ۔ حضرت عبد الرحمن بن ابو بکرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہایت ہی بڑے کبیرہ گناہ نہ بتادوں؟ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں نہیں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔ پھر آپ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے کہ (ٹیک چھوڑ کر) بیٹھے ، پھر فرمایا : خبرادا جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔ خبرادار جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 5976،چشتی)

والدین کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے ۔ انکے سامنے اُف تک نہ کہے۔اللہ پاک نے ان کے سامنے اُف تک کہنے سے منع فرمایا ہے ۔ ان کی ہر جائز کام میں فرمانبرداری کرے ۔ اگر یہ بیمار ہوں یا بڑھاپا آ جائے تو انکی خوب خدمت کرے ۔ اگر یہ خود پردیس ہے اور والدین اسے بلاتے ہیں تو آنا ہی ہو گا ۔ فون یا انٹرنیٹ پر بات کرنا کافی نہیں ۔ اگر یہ شادی شدہ ہے یا شادی کرنے لگا ہے تو بیٹے کو لازم ہے کہ جب اس کی دلہن گھر آجائے تو دستور کے مطابق اپنی دلہن سے خوب خوب پیار و محبت کرے لیکن ماں باپ کے ادب و احترام اور ان کی خدمت و فرمانبرداری میں ہر گز ہر گز بال برابر بھی فرق نہ آنے دے ۔ اگر اس دنیا میں ہی ان کی خدمت کرکے ان کو راضی کر لیا تو یہ تمہارے لیے جنت ہیں اور اگر خدا نخواستہ نہ کر پائے تو آخرت میں پھنس جائیں گے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : والدین تیری جنت اور دوزخ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ الحدیث : ۳۶۶۲)

اولاد  کو چاہیے کہ والدین کی بات توجہ سے سنیں ۔ ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیماً ان کےلیے کھڑا ہوجائیں ۔ جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فوراً بجا لائیں ۔ ان دونوں کے کھانے پینے کا انتظام و انصرام کریں اور نرم دلی سے ان کےلیے عاجزی کا بازو بچھائیں ۔ وہ اگر کوئی بات باربار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائیں ۔ ان کے ساتھ بھلائی کریں تو ان پراحسان نہ جتلائیں ۔ وہ کوئی کام کہیں تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائیں ۔ والدین کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اورنہ ہی کسی معاملے میں ان کی نافرمانی کریں ۔

اللہ پاک کی نافرمانی میں نہ ماں کی اطاعت ہے نہ باپ کی ، تو اسے ماں باپ میں سے کسی کا ایسا ساتھ دینا ہر گز جائز نہیں ، وہ دونوں اس کی جنت و نار ہیں ۔ جسے ایذا دے گا دوزخ کا مستحق ہو گا ۔ خدا کی پناہ معصیتِ خالق میں کسی کی اطاعت نہیں ، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا دکھ یا تکلیف پہنچائے اور یہ نہیں مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے ۔ ہونے دے اور ہر گز نہ مانے ۔ ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں کرے ۔ جب آدمی کےلیے والدین میں سے ہر ایک کے حق کی رعایت مشکل ہو جائے مثلاً ایک کی رعایت سے دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے تو تعظیم و احترام میں والد کے حق کی رعایت کرے اور خدمت میں والدہ کے حق کی ۔ احترام میں باپ مقدم ہے اور خدمت میں والدہ مقدم ہو گی حتّٰی کہ اگر گھر میں دونوں اس کے پاس آئے ہیں تو باپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو اور اگر دونوں نے اس سے پانی مانگا اور کسی نے اس کے ہاتھ سے پانی نہیں پکڑا تو پہلے والدہ کو پیش کرے ۔ (فتاوی اعالمگیری جلد ۵ صفحہ ۳۶۵)

باپ کا نافرمان فاسق ، فاجر ، مرتکب کبائر ، عاق ہے اور اسے سخت عذاب وغضب الٰہی کا استحقاق (سخت عذاب اور غضب کا مستحق) باپ کی نافرمانی اللہ جبار و قہار کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضی اللہ جبار و قہار کی ناراضی ہے ، آدمی ماں باپ کو راضی کرے تو وہ اس کے جنت ہیں اور ناراض کرے تو وہی اس کے دوزخ ہیں ۔ جب تک باپ کو راضی نہ کریگا اس کا کوئی فرض ، کوئی نفل ، کوئی عمل نیک اصلاً قبول نہ ہو گا (کوئی نیک کام ہر گز قبول نہیں ہوگا) ۔ عذابِ آخرت کے علاوہ دنیا میں ہی جیتے جی سخت بلا نازل ہو گی مرتے وقت معاذ اللہ کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے ۔

سب گناہوں کی سزا اللہ عزوجل چاہے تو قیامت کےلیے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کہ اس کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین جلد ۵ صفحہ ۲۱۶ الحدیث : ۷۳۴۵،چشتی)

والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے کچھ حقوق اولاد پر ہوتے ہیں ، امامِ اہلسنت امام احمد رضاخان قادری علیہ الرحمۃ نے فتاوی رضویہ میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں  جو حقوق بیان فرمائے ، وہ درج ذیل ہیں : ⏬

(1) سب سے پہلاحق بعدموت ان کے جنازے کی تجہیز ، غسل و کفن و نماز و دفن ہے اور ان کاموں میں سنن و مستحبات کی رعایت جس سے ان کےلیے ہر خوبی و برکت و رحمت و وسعت کی امید ہو ۔

(2) ان کےلیے دعا و استغفار ہمیشہ کرتے رہنا اس سے کبھی غفلت نہ کرنا ۔

(3) صدقہ و خیرات و اعمالِ صالحہ کاثواب انہیں پہنچاتے رہنا ، حسبِ طاقت اس میں کمی نہ کرنا ، اپنی نماز کے ساتھ ان کےلیے بھی نماز پڑھنا ، اپنے روزوں کے ساتھ ان کے واسطے بھی روزے رکھنا بلکہ جو نیک کام کرے سب کاثواب انہیں اور سب مسلمانوں کو بخش دینا کہ ان سب کو ثواب  پہنچ جائے گا اور اس کے ثواب میں کمی نہ ہوگی بلکہ بہت ترقیاں پائے گا ۔

(4) ان پر کوئی قرض کسی کا ہو تو اس کے ادا میں حد درجہ کی جلدی و کوشش کرنا اور اپنے مال سے ان کا قرض ادا ہونے کو دونوں جہاں کی سعادت سمجھنا ، آپ قدرت نہ ہو تو اور عزیزوں قریبوں پھر باقی اہلِ خیر سے اس کی ادا میں امداد لینا ۔

(5) ان پرکوئی فرض رہ گیا تو بقدرِ قدرت اس کے ادا میں سعی بجالانا ، حج نہ کیا ہو تو ان کی طرف سے حج کرنا یاحج  بدل کرانا ، زکوٰۃ یا عشر کا مطالبہ ان پر رہا تو اسے ادا کرنا ، نماز یا روزہ باقی ہو تو اس کا کفارہ دینا و علٰی ہذا القیاس ہر طرح ان کی برأت ذمہ میں جِد و جُہد کرنا ۔

(6) انہوں نے جو وصیت جائزہ شرعیہ کی ہو حتی الامکان اس کے نفاذ میں سعی کرنا اگرچہ شرعاً اپنے اوپر لازم نہ ہو اگرچہ اپنے نفس پر بار ہو مثلاً وہ نصف جائداد کی وصیت اپنے کسی عزیز غیر وارث یا اجنبی محض کےلیے کر گئے تو شرعاً تہائی مال سے زیادہ میں بے اجازت وارثان نافذ نہیں مگر اولاد کو مناسب ہے کہ ان کی وصیت مانیں اور ان کی خوشخبری پوری کرنے کو اپنی خواہش پر مقدم جانیں ۔

(7) ان کی قسم بعد مرگ بھی سچی ہی رکھنا مثلاً ماں باپ نے قسم کھائی تھی کہ میرا بیٹا فلاں جگہ نہ جائے گا یافلاں سے نہ ملے گا یافلاں کام کرے گا تو ان کے بعد یہ خیال نہ کرنا کہ اب وہ تو نہیں ان کی قسم کاخیال نہیں بلکہ اس کا ویسے ہی پابند رہنا جیسا ان کی حیات میں رہتا جب تک کوئی حرج شرعی مانع نہ ہو اور کچھ قسم ہی پر موقوف نہیں ہر طرح امور جائزہ میں بعد مرگ بھی ان کی مرضی کا پابند رہنا ۔

(8) ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کےلیے جانا ، وہاں یٰس شریف پڑھنا ایسی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچانا ، راہ میں جب کبھی ان کی قبرآئے بے سلام و فاتحہ نہ گزرنا ۔

(9) ان کے رشتہ داروں کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کیے جانا ۔

(10) ان کے دوستوں سے دوستی نباہنا ہمیشہ ان کا اعزاز و اکرام رکھنا ۔

(11) کبھی کسی کے ماں باپ کو برا کہہ کر جواب میں انہیں برا نہ کہلوانا ۔

(12) سب میں سخت تر و عام تر و مدام تریہ حق ہے کہ کبھی کوئی گناہ کر کے انہیں قبر میں ایذا نہ پہنچانا ، اس کے سب اعمال کی خبر ماں باپ کو پہنچتی ہے ، نیکیاں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور ان کا چہرہ فرحت سے چمکتا اور دمکتا ہے ، اور گناہ دیکھتے ہیں تو رنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے قلب پر صدمہ ہوتا ہے ، ماں باپ کایہ حق نہیں کہ انہیں قبر میں بھی رنج پہنچائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 391 ، 392 رضا فاؤنڈیشن لاہور) ۔ اللہ عزوجل ہمیں والدین کے حقوق کو صحیح معنوں میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...