Tuesday 2 April 2024

فضائل و برکاتِ شبِ قدر قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments

فضائل و برکاتِ شبِ قدر قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر ، قدر و منزلت والی رات ہے ۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں ۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔  رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِِ ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِِ ۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍٍ ۔ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ۔ (سورۃ آیت نمبر 1. 5)
ترجمہ : اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر ۔ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ۔ اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کےلیے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔

اس رات کو لیلتہ القدر اس لیے فرمایا ہے کہ ” قدر “ کا معنی تقدیر ہے : خلق کل شیء فقدرہ تقدیراً ۔ (سورہ الفرقان : 2)

اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا مناسب اندازہ کیا اس رات میں اللہ تعالیٰ آئندہ سال کےلیے جو امور چاہتا ہے وہ مقدر فرما دیتا کہ اس سال میں کتنے لوگوں پر موت آئے گی ، کتنے لوگ پیدا ہوں گے اور لوگوں کو کتنا رزق دیا جائے گا، پھر یہ امور اس جہان کی تدبیر کرنے والے فرشتوں کو سونپ دیے جاتے ہیں اور وہ چار فرشتے ہیں : اسرافیل ، میکائیل ، عزرائیل اور جبریل (علیہم السلام) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : لوح محفوظ سے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال کتنا رزق دیا جائے گا اور کتنی بارشیں ہوں گی ، کتنے لوگزندہ رہیں گے اور کتنے مرجائیں گے ، عکرمہ نے کہا : لیلتہ القدر میں بیت اللہ کا حج کرنے والوں کے نام اور ان کے آباء کے نام لکھ دیے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی نام کی کمی کی جاتی ہے اور نہ کسی نام کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی شب میں مستقبل میں ہونے والے امور کے متعلق فیصلے فرماتا ہے اور ان فیصلوں کو ان فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے جو ان کو نافذ کرتے ہیں ۔

اس رات کو لیلة القدر فرمانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ’ دقدر “ کا معنی عظمت اور شرف ہے ” وما قدراللہ حق قدرہ ۔ (الانعام : 91) انہوں نے اللہ کی ایسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی ، جیسے کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کی بہت قدر و منزلت ہے ، زہری نے کہا : اس رات میں عبادت کرنے کی بہت قدر و منزلت ہے اور اس کا بہت زیادہ اجر وثواب ہے ، ابو وراق نے کہا : جس شخص کی کوئی قدر و منزلت نہ ہو ، جب وہ اس رات کو عبادت کرتا ہے تو وہ بہت قدر اور عظمت والا ہوجاتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلة القدر اس لیے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والی کتاب ، بہت عظیم الشان رسول پر ، بہت عظمت والی امت کےلیے نازل کی گئی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو لیلة القدر اس لیے فرمایا ہے کہ اس رات میں بہت قدر و منزلت والے فرشتے نازل ہوتے ہیں او ایک قول یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بہت خیر اور برکت اور مغفرت نازل فرماتا ہے ، سہل نے کہا : اس رات کو لیلة القدر فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کےلیے رحمت کو مقدر کر دیا ہے ۔

خلیل نے کہا ، ” قدر “ کا معنی تنگی بھی ہے ، جیسا قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : ومن قدر علیہ رزقہ (سورہ الطلاق : 7) جس شخص پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ۔ اس رات میں اتنی کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ زمین ان سے تنگ ہو جاتی ہے ۔ (الجامع لا حکام القرآن جز 20 صفحہ 116 دارالفکر بیروت 1415 ھ،چشتی)

شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے ، اس کو شبِ قدر اس لیے کہتے ہیں  کہ اس شب میں  سال بھر کے اَحکام نافذ کیے جاتے ہیں  اور فرشتوں  کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں  پر شرافت و قدر کے باعث اس کو شبِ قدر کہتے ہیں  اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں  نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں  اور بارگاہِ الٰہی میں  ان کی قدر کی جاتی ہے اس لیے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں ۔ (تفسیر خازن ، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۴/۳۹۵)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول ُاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جس نے اس رات میں  ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کر کے عبادت کی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیتا ہے ۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان، ۱/۲۵، الحدیث: ۳۵)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ، جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں  محرومی ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، ۲/۲۹۸، الحدیث: ۱۶۴۴)

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں  گزارے اور اس رات میں  کثرت سے اِستغفار کرے ، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں :،میں  نے عرض کی : یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،  اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ : لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو ا س رات میں  مَیں  کیا کہوں ؟ ارشاد فرمایا : تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘اے اللّٰہ !، بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں  کو بھی معاف فرما دے ۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۴-باب، ۵/۳۰۶، الحدیث: ۳۵۲۴)

نیزآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں  اس رات میں  یہ دعا بکثرت مانگوں گی’’ اے اللّٰہ میں  تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعائ، الدعاء با العافیۃ، ۷/۲۷، الحدیث: ۸)

شبِ قدر سال میں  ایک مرتبہ آتی ہے : ⏬

یاد رہے کہ سال بھر میں  شبِ قدر ایک مرتبہ آتی ہے اور کثیر روایات سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں  میں  سے کسی ایک رات میں  ہوتی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک  رمضان المبارک کی ستائیسویں  رات شبِ قدر ہوتی ہے اور یہی حضرتِ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ۔ (تفسیر مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۳۶۴،چشتی)

شبِ قدر کو پوشیدہ رکھے جانے کی وجوہات : ⏬

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے : ⏬

(1) جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا ، مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رغبت حاصل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں  میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں  میں  مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں  پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔ اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں کی پابندی کریں ۔ توبہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھا تاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے ، اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔

(2) گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہو جاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا ۔ پس اِس وجہ سے میں  نے اسے پوشیدہ رکھا ۔

(3) گویا کہ ارشاد فرمایا میں نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔

(4) جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں اس امید پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں  کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو ۔ ( تفسیر کبیر، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱/۲۲۹-۲۳۰)

وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ (۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ (۳) ۔
ترجمہ : اور تم نے کیا جانا کیا شبِ قدر ۔ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ۔

یہاں سے شبِ قدر کے عظیم فضائل بیان کئے جا رہے ہیں ، چنانچہ شبِ قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب ِ قدر ان ہزار مہینوں  سے بہتر ہے جو شبِ قدر سے خالی ہوں  اور اس ایک رات میں  نیک عمل کرنا ہزار راتوں  کے عمل سے بہتر ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ:۳، ۴/۳۹۷، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۳۶۴)

ہزار مہینوں  سے بہترایک رات : ⏬

حضرت مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینے راہِ خدا  عَزَّوَجَلَّ میں  جہاد کیا ،مسلمانوں  کو اس سے تعجب ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ‘‘ ۔

ترجمہ : بیشک ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں  نازل کیا ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ شبِ قدرکیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ہے ۔ ( سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر، ۴/۵۰۵، الحدیث: ۸۵۲۲)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں  فرمائی ۔ (مسند فردوس، باب الالف ۱/۱۷۳ الحدیث: ۶۴۷،چشتی)

صدر الافاضل حضرت علاّمہ سیّد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ) پر کرم ہے کہ آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کے اُمتی شبِ قدر کی ایک رات عبادت کریں  تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں  سے زیادہ ہو ۔ (خزائن العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، صفحہ ۱۱۱۳)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے دو فائدے حاصل ہوئے ، ایک یہ کہ بزرگ چیزوں سے نسبت بڑی ہی مفید ہے کہ شبِ قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے، اصحابِ کہف کے کتے کو ان بزرگوں  سے منسوب ہو کر دائمی زندگی ، عزت نصیب ہوئی ، دوسرا یہ کہ تمام آسمانی کتابوں سے قرآن شریف افضل ہے کیونکہ تورات و انجیل کی تاریخِ نزول کو یہ عظمت نہ ملی ۔ (تفسیر نور العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳، ص۹۹۰،چشتی)

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ (۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠ (۵) ۔
ترجمہ : اس میں  فرشتے اور جبریل اترتے ہیں  اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔

شبِ قدر  کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں  فرشتے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ہر اس کام کے لیے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اِس سال کے لئے مقرر فرمایا ہے آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہیں  اور جو بندہ کھڑا یا بیٹھا اللّٰہ تعالیٰ کی یاد میں  مشغول ہوتا ہے اسے سلام کرتے ہیں  اور اس کے حق میں  دعا و اِستغفار کرتے ہیں ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۴، ۴/۳۹۷-۳۹۸)

حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں  کی جماعت میں  اترتے ہیں  اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں  دیتے ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو ۔ ( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان... الخ، فی لیلۃ العید و یومہا، ۳/۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)

شبِ قدر  کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سراسر بلاؤں  اور آفتوں  سے سلامتی والی ہے ۔ (تفسیر خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ۴/۳۹۸، مدارک، القدر، تحت الآیۃ: ۵، ص۱۳۶۴)

حضرت مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ساری مخلوق کی عمریں دکھائی گئیں ، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمت کی عمر سب سے چھوٹی  پائیں تو غمگین ہوئے کہ میرے اُمتی اپنی کم عمری کی وجہ سے  پہلے کی اُمتوں کے جتنے نیک اعمال نہیں کرسکیں گےچنانچہ اللہ پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شبِِ قدر عطا فرمائی جو دیگر اُمّتوں کے  ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (تفسیر کبیر،جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 231 ، تحت الآیۃ :3)

شبِ قدر  میں عبادت کرنے کی فضیلت : ⏬

نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 626 ، حدیث نمبر 1901)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں : رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ، جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا ۔ (فیض القدیر ، جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 248، تحت الحدیث:8902)

شبِ قدر کب ہوتی ہے ؟ : ⏬

محترم قارئین کرام : اللہ کریم  نے اپنی مَشِیَّت (مرضی) کے تَحت شَبِ قَدر کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یقین کے ساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری جلد 1 صفحہ 661 ، حدیث : 2017،چشتی)

اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالٰی اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے ، تاہَم بھاری اکثریَّت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے ۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے ۔ (صحیح مسلم ، صفحہ نمبر 383 ، حدیث نمبر 762)

شبِ قدر کے نوافل : ⏬

فقیہ ابواللّیث ثمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں ، جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاور ہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دوردِ پاک پڑھے ۔ (تفسیر روح البیان جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 483)

شبِ قدر کی دعا : ⏬

اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ۔
ترجمہ : اے اللہ بے شک تو معاف فرمانے والا ، کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 306 حدیث نمبر 3524)

اللہ پاک ہمیں شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


” لیلۃ القدر “ میں قرآن مجید کا آسمان دنیا کی طرف نازل ہونا ۔ القدر : 1 میں ” انزلناہ “ کی ضمیر منصوب قرآن مجید کی طرف راجع ہے ، ہرچند کہ اس سورت میں اس سے پہلے قرآن مجید کا ذکر نہیں ہے ، کیونکہ قرآن مجید کا معنیٰ ہر پڑھنے والے کو معلوم ہے اور اس کا ذکر اس کے ذہن میں مرتکز ہے ، درج ذیل آیات میں قرآن مجید کے نزول کا ذکر ہے : ⏬

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ ۔ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ ۔ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘ ۔ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 185)
ترجمہ : رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔

حٰمٓ ۔ وَالْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ ۔ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ ۔ (سورہ الدخان آیت نمبر 1 ۔ 3)
ترجمہ : حامیم ۔ قسم اس روشن کتاب کی ۔بیشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں  ۔

اس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد ”لیلۃ القدر“ ہے ۔ شعبی نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو نازل کرنے کی ابتدا ”لیلۃ القدر“ میں کی ہے ، ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) امین (علیہ السلام) نے پورے قرآن مجید کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف بیت العزۃ میں نازل کیا، پھر حضرت حضرت جبریل (علیہ السلام) اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کرتے رہے اور یہ مدت تئیس (23) سال ہے ۔

الماوردی نے کہا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : قرآن مجید رمضان کے مہینہ میں لیلة القدر اور لیلتہ مبارکہ میں اللہ کی طر سے آسمان دنیا میں مکمل نازل ہوا ، پھر مکرم فرشتوں نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے بیس راتوں میں حضرت جبریل (علیہ السلام) پر نازل کیا، پھر حضرت جبریل (علیہ السلام) نے تھوڑا تھوڑا کر کے بیس سال میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور حضرت جبریل (علیہ السلام) مختلف مہینوں اور مختلف ایام میں حسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کرتے تھے ۔ (النکث و العیون جلد 6 صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

علامہ ابن العربی نے کہا ، (رح) یہ قول باطل ہے ، حضرت جبریل (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کسی فرشتے کا واسطہ نہیں ہے اور نہ حضرت جبریل (علیہ السلام) اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کوئی واسطہ ہے ۔ (احکام القرآن جلد 4 صفحہ 328 دارالکتب العلمیہ بیروت 1408 ھ)

صحیح بات یہ ہے کہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف مکمل نازل ہوا ، پھر امر اور نہی اور حلال اور حرام اور مواعظ اور قصص اور لوگوں کے سوالات کے جوابات میں حسب ضرورت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تئیس (23) سال تک تھوڑا تھوڑا کر کے حضرت جبریل کے واسطے سے نازل ہوتا رہا ۔

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ پورا قرآن ساتویں آسمان سے آسمان دنیا کی طرف رمضان میں نازل ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ جس چیز کو نازل فرمانا چاہتا ، نازل فرما دیتا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 44 رقم الحدیث 30178 دارالکتب العلمیہ بیروت 1416 ھ،چشتی)

ابوقلابہ بیان کرتے ہیں کہ آسمانی کتابیں چوبیس رمضان کو نازل ہوئی ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 30180)

ابوالعالیہ ابوالجلد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے صحیفے یکم رمضان کی شب میں نازل ہوئے اور زبور چھ رمضان کو نازل ہوئی اور انجیل اٹھارہ رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 30182)

ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ تورات اس دن نازل ہوئی جب رمضان میں چھ دن رہتے تھے اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 30179)

اس رات میں جو فضیلت رکھی گئی ہے ، ہم کو معلوم نہیں کہ وہ اس رات میں عبادت کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں فرشتوں کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے ، یا اس رات میں طلوع فجر تک سلامتی کے نزول کی وجہ سے فضیلت ہے یا اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتداء کی وجہ سے فضیلت ہے یا فی نفسہ اس رات میں فضیلت رکھی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر عبادت کرنے کی فضیلت رکھی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا دوسری جگہ ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کے برابر ہے اور میری مسجد ، مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا، دوسری جگہ سوا مسجد حرام کے ایک ہزار نمازیں پڑھنے کے برابر ہے ۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث :1406) ، ان مقامات اور جگہوں کو عبادات کے لئے خاص کرلیا گیا اور ان مقامات پر عبادات کرنے کے ثواب کو بڑھا دیا گیا، اسی طرح بعض اوقات کو بھی عبادات کےلیے خاص کرلیا گیا اور ان اوقات میں عبادات کے اجر وثواب کو بڑھا دیا گیا ، جیسے رمضان کے مہینہ میں نوافل کا ثواب فرائض کے برابر ہے اور فرائض کے ثواب کو ستر درجہ بڑھا دیا گیا ، اسی طرح لیلتہ القدر کی عبادت کو ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ کر دیا گیا ۔

سورہ القدر : 3 - 2 میں فرمایا اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلتہ القدر کی تعیین کا علم تھا یا نہیں ؟

امام بخاری فرماتے ہیں کہ امام ابن عینیہ نے کہا : قرآن مجید کی جس آیت میں کسی چیز کے متعلق فرمایا : ” وما ادرک “ اس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم دے دیا ہے اور جس کے متعلق فرمایا ہے :” وما یدریک “ اس کا علم آپ کو نہیں دیا ۔ (صحیح البخاری صفحہ 418، شرکتہ دارالارقم بیروت لبنان)

ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے لیلتہ القدر کے متعقل سوال کیا ، جو میرے دوست تھے ، انہوں نے کہا : ہم نے رمضان کے متوسط عشرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا ، آپ بیس رمضان کی صبح کو باہر آئے اور آپ نے ہمیں خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا : مجھے لیلتہ القدر دکھائی گی تھی ، پھر بھلا دی گئی، اب تم اس کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں ، پس جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا تھا وہ لوٹ جائے ، ہم لوٹ گئے اور ہم آسمان میں کوئی بادل نہیں دیکھتے تھے ، پھر اچانک بادل آیا اور بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکنے لگی اور اس کی چھت میں کھجور کی شاخیں تھیں ، اور نماز کی اقامت کہی گئی ، پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہے تھے ، حتیٰ کہ میں نے آپ کی پیشانی پر مٹی کا نشان دیکھا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 2016،چشی)(سنن ابو دائود رقم الحدیث 1382)(سنن نسائی رقم الحدیث 1356 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث 3342)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1775)

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں لیلتہ القدر کی خبر دینے کےلیے باہر آئے اس وقت دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے ، آپ نے فرمایا : میں تمہیں لیلة القدر کی خبر دینے کےلیے آیا تھا ، پس فلاں اور فلاں آپس میں لڑ پڑے تو لیلة القدر کی تعیین اٹھا لی گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہو ، پس تم اس کو انتیسویں شب ، ستائیسویں شب اور پچیسویں شب میں تلاش کرو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 2023

شارحین نے کہا ہے کہ صرف اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیلة القدر کی تعیین کا علم اٹھا لیا گیا تھا اور دوسرے سال آپ کو پھر اس کا علم عطا کردیا گیا ۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 778)(عمدۃ القاری جلد 11 صفحہ 197،چشتی)(فیض الباری جلد 3 صفحہ 183)

اس سال شب قدر کی تعیین کے علم کو اٹھانے کی حکمت یہ تھی کہ آپ کےلیے لیلة القدر کی تعیین کو مخفی رکھنے کا عذر ہو جائے کیونکہ اگر آپ کو علم ہوتا اور آپ نہ بتاتے تو یہ آپ کی رحمت کے خلاف تھا اور اگر بتا دیتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ لیلة القدر کی تعیین کو مخفی رکھا جائے تاکہ اللہ کے بندے لیلة القدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرہ کی ہر طاق رات جاگ کر عبادت میں گزاریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا عبادت میں جاگنا پسند ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی چیزوں کو مخفی رکھا ہے ، مثلاً اللہ کے ولی کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر شخص کے متعلق یہ گمان کر کے کہ ممکن ہے یہی اللہ کا ولی ہو، اس کی تعظیم اور تکریم کریں ، جمعہ کی جس ساعت میں دعا قبول ہوتی ہے ، اس کو مخفی رکھا تاکہ مسلمان جمعہ کی ہر ساعت میں دعا کرتے رہیں کہ ممکن ہے یہی قبولیت کی ساعت ہو ، موت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ انسان ہر وقت نیک کاموں میں مشغول رہے اور برے کاموں سے مجتنب رہے تاکہ اس کو موت آئے تو نیک کام کرتے ہوئے آئے نہ کہ خدا نخواستہ برے کام کرتے ہوئے اس کو موت آئے ، اسی طرح قیامت کے وقت کو بھی مخفی رکھا، تاکہ ہر لمحہ لوگ ڈرتے رہیں کہ کہیں اسی وقت قیامت نہ آجائے اور لیلة القدر کو بھی مخفی رکھا تاکہ کوئی عادی مجرم اس رات کو بھی گناہوں میں گزار دے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ نہ لکھا جائے کہ اس نے اس عظیم رات کی دانستہ بے توقیری کی ہے ۔

امام مالک علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے معتمد اہل علم سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ کہ وہ اتنے عمل نہیں کر سکیں گے جتنے لمبی عمر والے لوگ کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلة القدر عطا کی ، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث721 باب الیلة القدر)

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کیا ، جو اللہ کی راہ میں ایک ہزار سال ہتھیار پہنے رہا ، مسلمانوں کو اس پر بہت تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ۔ وما ادرک مالیلة القدر ۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر ۔ (سورہ القدر : 3-1) ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث 19424،چشتی)(تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 593)

علی بن عرروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے چار شخصوں نے اسی سال تک اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی کہ پلک جھپکنے کی مقدار بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی ، اور ان کے نام بتائے، حضرت ایوب، حضرت زکریا، حضرت حزقیل بن العجوز اور حضرت یوشع بن نون علیہم السلام ، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو تعجب ہوا، تب آپ کے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی امت کو اس پر تعجب ہے کہ ان لوگوں نے اسی سال عبادت کی اور پلک جھپکنے کی مقدار بھی نافرمانی نہیں کی ، اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز نازل کی ہے، پھر آپ کے سامنے سورة القدر : 3-1 آیات تلاوت کیں اور کہا : یہ اس سے افضل ہے جس پر آپ کو اور آپ کیا مت کو تعجب ہوا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب خوش ہو گئے ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث 19426)(تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ 593)

امام دیلمی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلة القدر عطا کی ہے اور اس سے پہلی امتوں کو عطا نہیں کی ۔ (تفسیر در منثور جلد 8 صفحہ 522 داراحیاء التراث العربی بیروت 1415 ھ،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزے رکھے ، اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے اور جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے لیلتہ القدر میں قیام کیا تو اللہ سبحانہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 2014)(سنن نسائی رقم الحدیث 2206)(مسند احمد جلد 2 صفحہ 503)

رمضانُ المبارک کی ستائیسویں شب کے لیلة القدر ہونے پر دلائل : ⏬

زربن جیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے کہا : اے ابوالمنذر ! ہمیں لیلة القدر کے متعلق بتایئے کیونکہ حضرت ابن معسود یہ کہتے ہیں کہ جو شخص پورا سال قیام کرے گا، وہ لیلة القدر کو پالے گا ، حضرت ابی بن کعب نے کہا : اللہ ابوعبدالرحمان پر رحم فرمائے ، ان کو خوب معلوم ہے کہ لیلة القدر رمضان میں ہے ، لیکن انہوں نے اس بات کو نا پسند کیا کہ وہ تم کو اس کی تعیین بتائیں اور تم اس پر تکیہ کر لو ، اور اس ذات کی قسم جس نے قرآن کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا ہے ، لیلة القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے ، ہم نے پوچھا : اے ابوالمنذر ! آپ کو اس کا کیسے علم ہوا ؟ انہوں نے کہا : اس علامت سے جس کی ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی ہے ، ہم نے اس کو یاد رکھا اور اس کا شمار کیا ، ہم نے پوچھا : وہ کیا علامت ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی صبح کو سورج بغیر شعائوں کے طلوع ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 220)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث 2101)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث 3689،چشتی)(سنن ابو داٶد رقم الحدیث 1378)(سنن ترمذی رقم الحدیب 793)(سنن بیہقی جلد 4 صفحہ 312)

حضرت ابی بن کعب ، امام حمد بن حنبل اور جمہور علماء کا یہ نظریہ ہے کہ لیلة القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے اور امام ابوحنیفہ اور بعض شافعیہ علیہم الرحمہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ حضرت ابی بن کعب ان شاء اللہ کہے بغیر قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ یہ رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔ حضرت عبدا للہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں اور سات آسمان بنائے ، سات اعضاء پر سجدہ مشروع کیا ، طواف کے ساتھ پھیرے مقرر کیے اور ہفتہ کے ساتھ دن بنائے اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی چاہیے ۔ حافظ ابن حجر اور امام رازی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ استدلال بھی نقل کیا ہے کہ لیلة القدر کے حرف نو ہیں اور یہ لفظ قرآن مجید میں تین بار ذکر کیا گیا ہے ، جن کا حاصل ضرب ستائیس ہے ، اس لیے یہ رات ستائیسویں ہونی چاہیے ۔ امام رازی نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی اس سورة مبارکہ میں ” ھی حی مطلع الفجر “ (القدر : 5) میں ” ھی ‘ ضمیر لیلة القدر کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہ اس سورت کا ستائیسواں کلمہ ہے ، اس اشارے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ لیلة القدر رمضان کی ستائیسویں شب ہے ۔

لیلتہ القدر میں عبادت کا طریقہ : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ “ جس شخص نے شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اجر وثواب کی نیت سے قیام کیا ، اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا ۔ اس حدیث کی روشنی میں لیلة القدر کی اصل عبادت قیام نماز ہے ، اس لیے اس رات زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے اور توبہ و استغفار میں کوشش کرنی چاہیے ، بندہ خضوع و خشوع اور سوز گداز سے نماز پڑھے ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اپنی کو تاہیوں ، تقصیروں اور گناہوں کو یاد کر کے روئے اور گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور بار بار استغفار کرے ۔

بعض صالحین علیہم الرحمہ نے اس رات کی عبادت کے مخصوص طریقے بتائے ہیں ۔ علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں : بعض صالحین لیلة القدر میں لیلة القدر کے قیام کی نیت سے دس دو گانے پڑھتے تھے۔ بعض اکابر سے یہ بھی مقنلو ہے جس شخص نے ہر رات لیلتہ القدر کی نیت سے دس آیات تلاوت کیں، وہ لیلتہ القدر کی برکات سے محروم نہیں ہوگا۔ امام ابواللیث نے بیان کیا کہ لیلتہ القدر کی کم از کم نماز دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزار رکعات ہیں اور متوسط سو رکعات ہیں اور ہر رکعت میں متوسط قرأت یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد سو مرتیہ ” انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ‘ کی سورت پڑھے، اس کے بعد تین بار ” قل ھو اللہ احد “ کی سورت پڑھے پھر دو رکعات کے بعد سلام پھیر دے اور درود شریف پڑھ کر دوسرے دو گانے کے لئے اٹھے، اس طرح جتنے نفل چاہے پڑھے، علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ نوافل کی جماعت بلا کراہیت جائز ہے بشرطیکہ فرئاض کی طرح اذان اور اقامت نہ کریں۔ ” شرح نقایہ “ وغیرہ میں ” محیط “ کے حالے سے یہ عبارت ہے : لیلۃ القدر صلوۃ الرغائب “ اور شعبان کی پندرہویں شب میں نوافل میں امام کی اقتداء کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے کیونکہ جو چیز مومنوں کے نزدیک حسن ہو، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی حسن ہوتی ہے ، اس لیے اس پر اعتراض کرنے والے ان لوگوں کے قول کی طرف بالکل توجہ نہ کرو، جن کو عبادت کا ذوق ہے نہ دعائوں کا شوق ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد 10 صفحہ 581 داراحیاء التراث العربی بیروت 1421ھ،چشتی)

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی 235 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عامر بیان کرتے ہیں کہ لیلة القدر کا دن اس کی شب کی مثل ہے اور اس کی شب اس کے دن کی مثل ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2 صفحہ 253 رقم الحدیث 8693 دارالکتب العلمیہ بیروت 1416ھ)

پاکستان میں جس تاریخ کو شب قدر ہوتی ہے ، سعودی عرب میں اس سے ایک دن یا دو دن پہلے شب قدر ہوتی ہے ، میرا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ملک کے رہنے والوں کو ان کے حساب سے شب قدر کی عبادت کا اجر عطا فرمائے گا ۔ ابن المسیب نے کہا : جس شخص نے لیلة القدر میں مغرب اور عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی ، اس نے لیلة القدر سے اپنا حصہ پا لیا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث 8694 دارالکتب العلمیہ بیروت)

ثواب میں اضافہ : ⏬

شب قدر میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادتوں سے زیادہ دیا جاتا ہے ، اس سلسلہ میں یہ سوال کیا جاتا ہے : کیا اس ایک رات میں بعادت کرنے کے بعد انسان ایک ہزار ماہ کی عبادتوں سے آزاد ہوجاتا ہے ؟ اسی طرح ایک نماز کا ثواب دس نمازوں کے برابر ہے اور کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے تو کیا کعبہ میں ایک نماز پڑھنے سے ایک کم ایک لاکھ نمازیں انسان سے ساقط ہوجاتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر کی عبادت نفلی ہے اور ہزار ماہ میں جو فرائض اور واجبات ہیں، یہ نفلی عبادت ان کے قائم مقام نہیں ہوسکتی رہا یہ کہ ایک فرض کا ثواب اس فرض کی دس مثلوں کے برابر ہوتا ہے یا کعبہ کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے مساوی ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس فرض کے ادا کرنے کا مکلف ہے جو دس مثلوں کے یا ایک لاکھ مثلوں کے مساوی ہے ، ان مثلوں میں سے کوئی ایک مثل اس فرض کے مساوی نہیں ، جو دس یا ایک لاکھ مثلوں کے برابر ہے ، لہٰذا ان مثلوں سے فرض کی تکلیف ساقط نہیں ہوسکتی اس لئے ایک نماز پڑھ کر انسان دس نمازوں سے بری ہو سکتا ہے ، نہ شب قدر کی عبادت سے ہزار ماہ کی عبادتوں سے عہدہ بر آ ہو سکتا ہے ۔

گناہ میں اضافہ : ⏬

ایک بحث یہ بھی غور طلب ہے کہ جس طرح شبِ قدر میں عبادت کرنے سے ثواب بڑھ جاتا ہے ، کیا اس طرح شبِ قدر میں گناہ کرنے سے سزا بھی زیادہ ہوتی ہے ، اس کی تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو قطعی طور پر شب قدر کا علم ہو جائے اور پھر وہ اس رات میں قصداً گناہ کرے تو یقیناً اس کا یہ گناہ اور راتوں کے گناہوں سے بڑا گناہ ہے اور وہ زیادہ سزا کا مستحق ہے ، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” من جآء بالسیئۃ فلا یجزی الا مثلھا ۔ (سورہ الانعام : 160) جو شخص جتنی برائی کرے گا اسے اتنی برائی ہی کی سزا ملے گی ، پھر اس رات میں قصداً گناہ کرنے والا کیوں زیادہ سزا کا مستحق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شبِ قدر میں گناہ کرنے والے کی دو زیادتیاں ہیں ، ایک گناہ کی اور ایک شبِ قدر کے تقدس کو پامال کرنے کی ، جس طرح گھر میں گناہ کی بہ نسبت حرمِ کعبہ میں وہ گناہ کرنا زیادہ بڑا ہے ، اس لیے جو شخص شب قدر میں گناہ کرے گا ، اس کو اسی گناہ کی سزا ملے گی لیکن ظاہر ہے کہ اس رات کا جرم اور اتوں کے جرم کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔

شب قدر کو مخفی رکھنے کی حکمتیں : ⏬

اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کو اپنی حکمت سے مخفی رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کس عبادت سے راضی ہوتا ہے ، اس کو مخفی رکھا تاکہ بندہ تمام عبادات میں کوشش کرے ، کس گناہ سے نارضا ہوتا ہے ، اس کو مخفی رکھا تاہ بندہ ہر گناہ سے باز رہے ۔ ولی کی کوئی ملامت مقرر نہیں کی اور اسے لوگوں کے درمیان مخفی رکھاتا کہ لوگ ولی کے شائبہ میں ہر انسان کی تعظیم کریں ۔ قبولیت توبہ کو مخفی رکھا تاکہ بندے مسلسل توبہ کرتے رہیں ۔ موت اور قیامت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ بندے ہر ساعت میں گناہوں سے باز رہیں اور نیکی کی جدوجہد میں مصروف رہیں ۔ اسی طرح لیلة القدر کو مخفی رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ رمضان کی ہر رات کو لیلة القدر سجھ کر اس کی تعظیم کریں اور اس کی ہر رات میں جاگ جاگ کر عبادت کریں ۔

امام رازی تحریر فرماتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ اس رات کو معین کر کے بتادیتا تو نیک لوگ تو اس رات میں جاگ کر عبادت کر کے ہزار ماہ کی عبادتوں کا اجر حاصل کر لیتے ہیں اور عادی گنہگار اگر شامت نفس اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس رات بھی کوئی گناہ کرلیتا تو وہ ہزار ماہ کے گناہوں کی سزا کا مستحق ہوتا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مخفی رکھا تاکہ اگر کوئی عادی گنہگار اس رات بھی کوئی گناہ کر بیٹھے تو لیلة القدر سے لاعلمی کی بناء پر اس کے ذمہ لیلة القدر کی احترام شکنی اور ہزار ماہ کے گناہ لازم آئیں ، کیونکہ علم کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی سے گناہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ شدید ہے ۔ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے ، وہاں ایک شخص کو سوئے ہوئے دیکھا ۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اسے وضو کےلیے اٹھا دو انہوں نے اٹھا دیا ۔ بعد میں علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تو نیکی کرنے میں خود پہل کرتے ہیں ، آپ نے اس کو خود کیوں نہیں جگا دیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے اٹھانے پر یہ انکار کر دیتا تو یہ کفر ہوتا اور تمہارے اٹھانے پر انکار کرنا کفر نہیں ہے تو میں نے تم کو اٹھانے کا اس لیے حکم دیا کہ یہ انکار کر دے تو اس کا قصور کم ہو ، غور کرو ! جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گنہگاروں پر رحمت کا یہ حال ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا عالم ہو گا ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ آسان ہے کہ نیکو کار لیلة القدر کی جستجو میں رمضان کی متعدد راتیں جاگ کر کھنگال ڈالیں ، یہ بھی گوارا ہے کہ اس تلاش میں ان سے لیلة القدر چوک جائے لیکن یہ گوارا نہیں ہے کہ لیلة القدر بتلا دینے سے کوئی گنہگار بندہ اپنے گناہ کی ہزار گنا زیادہ سزا پائے ، اللہ ! اللہ ! وہ اپنے بندوں کا کتنا خیال رکھتا ہے ، پھر گنہگار بندوں کا !
تیسری وجہ یہ ہے کہ جب لیلتہ القدر کا علم نہیں ہوگا اور بندے رمضانُ المبارک کی ہر رات کو لیلتہ القدر کے گمان میں جاگ کر گزاریں گے اور رمضانُ المبارک کی ہر رات میں عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : اسی ابن آدم کے متعلق تم نے کہا تھا کہ یہ زمین کو خونریزی اور گناہوں سے بھر دے گا ، ابھی تو اس کو لیلة القدر کا قطعی علم نہیں ہے ، پھر بھی عبادت میں اس قدر کوشش کر رہا ہے اگر اسے لیلة القدر کا علم قطعی ہوتا کہ کون سی رات ہے ، پھر اس کی عبادتوں کا کیا عالم ہوتا ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کےلیے نازل ہوتے ہیں ۔ یہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے ۔ (سورہ القدر : 5-4)

امام عبدالرحمان بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم رازی متوفی 327 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کعب بیان کرتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان کے اس کنارے پر ہے ، جو جنت کے قریب ہے ، پس اس کے نیچے دنیا ہے اور اس کے اوپر جنت ہے اور جنت کسری کے نیچے ہے ، اس میں فرشتے ہیں جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور سدرہ کی ہر شاخ پر فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں اور جبریل (علیہ السلام) کا مقام اس کے وسط میں ہے، اللہ تعالیٰ ہر لیلة القدر میں حضرت جبریل کو ندا کرتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی کے فرشتوں کے ساتھ زمین پر نازل ہوں اور ان میں سے ہر فرشتے کو مئومنین کےلیے شفقت اور رحمت دی جاتی ہے ، پھر وہ غروب آفاتب کے وقت حضرت جبریل کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں ، پھر زمین کے ہر حصہ پر فرشتے سجدہ اور قیام میں مٶمنین اور مٶمنات کےلیے دعا کرتے ہیں ، سوا ان مقامات کے جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کا معبد ہو یا آتش کدہ ہو یا بت خانہ ہو یا کچرا کنڈی ہو یا جس گھر میں کوئی نشہ کرنے والا ہو یا جس جبریل ہر مٶمن سے مصافحہ کرتے ہیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس وقت ہر مٶمن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کا دل بہت نرم ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس وقت حضرت جبریل اس سے مصافحہ کر رہے ہیں ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم جلد 10 صفحہ 3453 رقم الحدیث 19428 مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ،چشتی)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی 606 ھ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اس رات میں فرشتے نازل ہوتے ہیں ، اس آیت کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ تمام فرشتے نازل ہوتے ہیں، بعض مفسرین نے کہا : وہ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں ، لیکن اکثر مفسرین کا مختار یہ ہے کہ وہ زمین پر نازل ہوتے ہیں ، کیونکہ بہت احادیث میں یہ وارد ہے کہ تمام ایام میں فرشتے مجالس ذکر میں حاضر ہوتے ہیں ، پس جب عام ایام میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں تو اس عظیم الشان رات میں تو فرشتے بہ طریق اولیٰ زمین پر نازل ہوں گے پھر اس میں اختلاف ہے کہ فرشتے کس لئے زمین پر نازل ہوتے ہیں اور اس میں درج ذیل اقوال ہیں : (1) بعض نے کہا : فرشتے اس لیے نازل ہوتے ہیں کہ بشر کی عبادت اور اطاعت میں اس کی کوشش کو دیکھیں ۔ (2) فرشتوں نے کہا تھا : وما نتنزل الا بامر ربک (سورہ مریم : 64) ہم صرف آپ کے رب کے کم سے نازل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس رات اللہ تعالیٰ ان کو زمین پر نازل ہونے کا حکم دیتا ہے ۔ (3) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں اہل جنت کے پاس فرشتے نازل ہوں گے : یدخلون علیہم من کل باب۔ سلم علیکم (الرعد : 24-23) فرشتے ان کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے ۔ اور کہیں گے : تم پر سلام ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر میں فرشتوں کو نازل ہونے کا حکم دے کر یہ ظاہر فرمایا کہ آخرت کی عزت افزائی تو الگ رہی ، اگر تم دنیا میں بھی میری عبادت میں مشغول رہو گے تو یہاں بھی اس رات میں فرشتے تمہاری زیارت کےلیے آئیں گے۔ روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فرشتے اس رات کو اس لیے نازل ہوتے ہیں کہ ہم پر سلام پڑھیں اور ہماری شفاعت کریں ، سو جس کو ان کا سلام پہنچے گا اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 233 داراحیائالتراث العربی بیروت 1415 ھ،چشتی)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں ، روح کے متعلق یہ اقوال امام رازی نے ذکر کیے ہیں : (1) روح بہت بڑا فرشتہ ہے ، وہ اتنا بڑا ہے کہ تمام آسمان اور زمینیں اس کے سامنے ایک لقمہ کی طرح ہیں ۔ (2) روح سے مراد مخصوص فرشتوں کی ایک جماعت ہے ، جس کو عام فرشتے صرف لیلة القدر کو ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ (3) وہ اللہ کی ایک خاص مخلوق ہے جو نہ فرشتوں کی جنس سے ہے، نہ انسانوں کی جنس سے ہے، ہوسکتا ہے وہ اہل جنت کے خادم ہوں ۔
(4) اس سے مراد خاص رحمت ہے ، کیونکہ رحمت کو بھی روح فرمایا ہے : قرآن مجید میں ہے : سورہ یوسف : 87) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔
(5) اس سے مراد بہت بزرگ اور مکرم فرشتہ ہے ۔ (6) ابو نحیج نے کہا : اس سے مراد کراماً کاتبین ہیں، جو مئومن کے نیک کام لکھتے ہیں اور برے کاموں کے ترک کرنے کو لکھتے ہیں ۔ (7) زیادہ صحیح یہ ہے کہ روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں ، ان کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو عام فرشتوں سے الگ ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 234 داراحیاء التراث العربی بیروت 1415 ھ،چشتی)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں : القطب الربانی الشیخ عبدالقادر الجیلانی ” غنیتہ الطالبین “ میں فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : اللہ تعالیٰ لیلة القدر میں حضرت جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہی سے ستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جائیں ، ان کے ساتھ نور کے جھنڈے ہوتے ہیں ، جب وہ زمین پر اترتے ہیں تو جبرائیل (علیہ السلام) اور بقای فرشتے چار جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں ، کعبہ پر ، سرکارِ کُل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر بیت المقدس کی مسجد پر اور طور سینا کی مسجد پر، پھر جربائیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ زمین پر پھیل جاٶ ، پھر فرشتے تمام زمین پر پھیل جاتے ہیں اور جس مکان یا خیمے یا پتھر پر یا کشتی میں غرض جہاں بھی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو ، وہاں فرشتے پہنچ جاتے ہیں ۔ ہاں ! جس گھر میں کتا یا خنزیر یا شراب ہو یا تصویروں کے مجسمے ہوں یا کوئی شخص زنا کاری سے جنبی ہو ، وہاں نہیں جاتے ۔ وہاں پہنچ کر فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ، کلمہ پڑھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی لیلة القدر تھی ۔ آسمان دنیا کے فرشتے کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاجات آسمان دنیا کے فرشتے تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو امتِ محمدیہ کی مغفرت فرمائی ہے ، اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ فرشتے دوسرے آسمان پر جاتے ہیں اور وہاں اسی طرح گفتگو ہوتی ہے ، علیٰ ھٰذا القیاس ، سدرۃ المنتہی جنت الماوی جنت نعیم، جنت عدن اور جنت الفردوس سے ہوتے ہوئے وہ فرشتے عرش الٰہی پر پہنچیں گے ، وہاں عرشِ الٰہی آپ کی امت کی مغفرت پر شکریہ ادا کرے گا اور کہے گا : اے اللہ ! مجھے خبر پہنچی ہے کہ گزشتہ رات تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے صالحین کو بخش دیا اور گنہگاروں کے حق میں نیکو کاروں کی شفاعت قبول کرلی ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے عرش ! تم نے سچ کہا ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کےلیے میرے پاس بڑی عزت اور کرامت ہے اور ایسی نعمتیں ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا کبھی خیال آیا ۔ (تفسیر روح المعانی جز 30 صفحہ 349 - 350 دارالفکر بیروت،چشتی)

فرشتوں کے زمین پر نزول کے بارے میں مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ زمین پر انسانوں کی عبادات کو دیکھنے کےلیے آتے ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے : تنزل المئکۃ والروح فیھا باذن ربہم ، فرشتے اور جبریل امین اللہ تعالیٰ کی اجازت سے زمین پر نازل ہوتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بشمول جبرائیل تمام فرشتے اللہ تعالیٰ سے زمین پر آنے کی پہلے اجازت طلب کرتے ہیں ، پھر اس کے بعد زمین پر اترتے ہیں اور یہ چیز انتہائی محبت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ پہلے وہ ہماری طرف راغب اور مائل تھے اور ہم سے ملاقات کی تمنا کرتے تھے ، لیکن اجازت کے منتظر تھے اور جب اللہ تعالیٰ سے اجازت مل گئی تو قطار درق طار صف باندھے زمین پر اتر آئے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود فرشتے ہم سے ملاقات کی تمنا کیوں کرتے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو ہمارے گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوحِ محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں کا پتا نہیں چلتا کیونکہ جب وہ لوحِ محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمانوں کی عبادات کو تفصیل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جب گناہوں پر پہنچتے ہیں تو لوح محفوظ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اس وقت فرشتوں کی زبان سے بےاتخیار یہ کلمات نکلتے ہیں : سبحان ہے وہ ذات جس نے نیکیوں کو ظاہر کیا اور گناہوں کو چھپالیا ۔ (تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 234 - 235 دار احیاء التراث العربی بیروت)

اگر یہ کہا جائے کہ فرشتے خود عبادات سے مالامال ہیں ، تسبیح ، تقدیس اور تہلیل کے تونگر ہیں ، قیام ، رکوع اور سجود کون سی عبادت ہے جو ان کی جھولی میں نہیں ہے ، پھر انسانوں کی وہ کون سی عبادت ہے جسے دیکھنے کے شوق میں وہ انسانوں سے ملاقات کی تمنا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے زمین پر اترنے کی اجازت طلب کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی شخص خود بھوکا رہ کر اپنا کھانا کسی اور ضرورت مند کو کھلا دے ، یہ وہ نادر عبادت ہے جو فرشتوں میں نہیں ہوتی ، گناہوں پر توبہ اور ندامت کے آنسو بہانا اور گڑگڑانا، اللہ تعالیٰ سے معافی چاہنا، اپنی طبعی نیند چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی یاد کےلیے رات کے پچھلے پہر اٹھنا اور خوف خدا سے ہچیکاں لے لے کر رونا، یہ وہ عبادت ہے جس کا فرشتوں کے ہاں کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : گناہ گاروں کی سسکیوں اور ہچکیوں کی آواز اللہ تعالیٰ کو تسبیح اور تہلیل کی آوازوں سے زیادہ پسند ہے ، اس لیے فرشتے یاد خدا میں آنسو جانے والی آنکھوں کے دیکھنے اور خوف خدا سے نکلنے والی آہوں کے سننے کےلیے زمین پر اترتے ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت میں فرشتے مسلمانوں کی زیارت کریں گے اور آ کر سلام عرض کریں گے ” الملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم “ فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور آ کر سلام کریں گے اور لیلۃ القدر میں یہ ظاہر فرمایا کہ اگر تم میری عبادت میں مشغول ہو جاٶ تو آخرت تو الگ رہی دنیا میں بھی فرشتے تمہاری زیارت کو آئیں گے اور آ کر دنیا میں بھی تم کو سلام کریں گے۔ امام رازی نے دوسری وجہ یہ لکھی ہے کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ علماء اور صالحین کے سامنے زیادہ اچھی اور زیادہ خضوع و خشوع سے عبادت کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ اے انسانوچ تم عبادت گزاروں کیم جلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو ، آٶ ! اب ملائکہ کی مجلس میں خضوع اور خشوع سے عبادت کرو ۔ (تفسیر کبیر جلد 11 صفحہ 235 داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کی پیدائش کے وقت فرشتوں نے اعتراض کی صورت میں کہا تھا کہ اسے پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے جو زمین میں فسق و فجور اور خون ریزی کرے گا ؟ اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ان کی امیدوں سے بڑھ کر اجر وثواب کا وعدہ کیا ، اس رات کے عبادت گزاروں کو زبان رسالت سے مغفرت کی نوید سنائی ، فرشتوں کی آمد اور ان کی زیارت اور سلام کرنے کی بشارت دی ، تاکہ اس کے بندے یہ رات جاگ کر گزاریں ، تھکاوٹ اور نیند کے باوجود اپنے آپ کو بستروں اور آرام سے دور رکھیں ، تاکہ جب فرشتے آسمان سے اتریں تو ان سے کہا جا سکے : یہی وہ ابن آدم ہے ، جس کی خونریزیوں کی تم نے خبر دی تھی ، یہی وہ شر رخا کی ہے ، جس کے فسق و فجور کا تم نے ذکر کیا تھا ، اس کی طبیعت اور خلقت میں ہم نے رات کی نیند رکھی ہے ، لیکن یہ اپنے طبعی اور خلقی تقاضوں کو چھوڑ کر ہماری رضا جوئی کےلیے یہ رات سجدوں اور قیام میں گزار رہا ہے ، تم نے فسق و فجور اور خن ریزی دیکھی تھی، ہماری خاطر راتوں کو جاگ کر سجدہ کرنے والی جبینیں نہیں دیکھی تھیں ، ہماری یاد کے سبب آنکھوں میں مچلنے والے آنسو نہیں دیکھے تھے ، دیکھوچ اللہ تعالیٰ بڑے مان سے تمہاری عبادت دکھانے کےلیے آسمان سے فرشتے اتارتا ہے ، کہیں تم یہ رات گناہوں میں گزار کر اس کا مان نہ توڑ دینا ۔

مفسرین علیہم الرحمہ لکھتے ہیں کہ شبِ قدر میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح الامین آ کر سلام کرتا ہے اور اس سے مصافحہ کرتا ہے تو اس پر خوف خدا کی ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے ، یاد خدا سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور خشیت الٰہی سے بدن کا رونگٹا رونگٹھا کھڑا ہو جاتا ہے ، امام رازی فرماتے ہیں : فرشتوں کا سلام کرنا ، سلامتی کا ضامن ہے ۔ سات فرشتوں نے آ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی ۔ شب قدر کے عابدوں پر جب اس رات لاتعداد فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں تو کیونکہ نہ یہ امید کی جائے کہ جہنم کی آگ ان پر سلامتی کا باغ بن جائے گی ۔


فیض و برکاتِ شبِ قدر : ⏬

شب کا معنی رات ، قدر کا معنی قدرو منزلت ، اندازہ ، فیصلہ کرنا اور تنگی ہے ۔ اس میں سال بھر کےلیے فیصلے کئے جاتے ہیں اسی لیے اسی لیلۃ الحکم بھی کہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے اسی لیے اسے شب قدر یعنی تنگی کی رات ۔ قدر و منزلت مالی رات ا س لیے کہلاتی ہے کیونکہ جو بھی خوش بخت مومن اس رات کو عبادت کرتا ہے اللہ عزوجل کے ہاں اس کی قدر و منزلت بڑھ جاتی ہے ۔

سميت بها للعظمة والشرف لان العمل فيه يکون ذا قدر عندالله ۔ (تفسير مظهری حضرت علامه قاضی محمد ثناء الله عثمانی مجددی پانی پتی)
ترجمہ : اس رات کو شرف و عظمت والی شب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات کو کیا جانے والا ہر عمل خیر اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت والا ہو جاتا ہے ۔

اسی طرح علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے ۔ سميت بذالک لانه انزل فيها کتابا ذا قدر علی رسول ذي قدر علی امة ذات قدر ۔ (تفسير قرطبی حضرت امام ابو عبدالله محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی)
ترجمہ : اسے شب قدر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدرو منزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے رسول پر اور بڑی قدرو منزلت والی امت پر نازل فرمائی ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اری رؤياکم قد تواطأت فی السبع الاواخر ، فمن کان متحريها فليتحرها فی السبع الاواخر ۔ (صحيح بخاری کتاب فضل ليلة القدر رقم الحديث :1911،چشتی)
ترجمہ : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے ۔

اسی طرح ایک روایت جو کہ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف میں بیٹھے پھر بیس تاریخ کی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انی اريت ليلة القدر ثم انسيتها او نسيتها فالتمسوها فی العشر الاواخر فی الوتر وانی رايت انی اسجد فی ماء وطين فمن کان اعتکف مع رسول فليرجع ۔ (صحيح بخاری کتاب فضل ليلة القدر رقم الحديث : 1912)
ترجمہ : مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی لیکن بھلادی گئی یا میں خود بھول گیا ۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے (خواب میں) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں ۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے ۔

خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی ۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا ۔

شریعتِ مطہرہ نے شبِ قدر کی تعیین نہیں فرمائی بلکہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے رکھ دیا گیا ۔ اس کی حکمتیں تو اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے ۔ تاہم علماء کرام نے اپنی بصیرت سے اس کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ زیادہ عبادت کرسکے ۔ اگر اس کی تعیین فرمادی جاتی تو امت مسلمہ کا ہر فرد صرف اسی متعین شدہ ایک ہی رات شب بیداری کرتا اور عبادت کرتا۔ تاہم اس کی تعیین نہ ہونے سے مفاد یہ ہے کہ لوگ کم از کم اسے پانے کےلیے پانچ طاق راتیں جاگیں گے اور اپنے خدا کے حضور استغفار کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے ۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں پورا ایک باب قائم فرمایا ہے : باب تحری ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر ۔
ترجمہ : عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کا باب ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صدیقہ کائنات حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تحرواليلة القدر فی الوتر من العشر الآواخر ۔
ترجمہ : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (صحيح البخاری رقم الحديث : 1913،چشتی)(صحيح المسلم رقم الحديث : 1165)

اسی طرح ایک روایت حضرت ابوسعید خدری سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اسے اکیسویں ، تئیسویں اور پچیسویں رات میں ڈھونڈو ۔ (راوی کہتا ہے) میں عرض گزار ہوا کہ اے حضرت ابو سعید (رضی اللہ عنہ) آپ اس شمار کو ہم سے بہتر جانتے ہیں ۔ فرمایا : ہاں ، میں نے نویں ، ساتویں اور پانچویں کہا ہے یعنی جب اکیسویں رات گزر جائے تو اس کے ساتھ والی نویں ہے اور جب تیئسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی ساتویں ہے اور جب پچیسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی پانچویں ہے ۔ (سنن ابوداؤد باب فی لیلۃ القدر رقم الحدیث : 1369)

شب قدر اور معمولِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⏬

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کا خاص اہتمام فرماتے اور عبادت کرتے ۔ چنانچہ موضوع کی مناسبت سے چند روایات حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب رمضان کے (آخری عشرہ) کے دس دن باقی رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے اور اپنے اہل خانہ سے الگ ہوکر (عبادت و ریاضت) میں مشغول ہو جاتے ۔ (مسند احمد بن حنبل رقم الحدیث : 24422)

حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں گھر والوں کو (عبادت کے لئے) جگاتے ۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث:774)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں (عبادت کی) جس قدر کوشش فرماتے اتنی دوسرے دنوں میں نہ فرماتے‘‘۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث775،چشتی)

شب قدر کے وظائف : ⏬

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہیے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں تلقین فرمائی ۔

اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ۔
ترجمہ : اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ۔ پس مجھے (بھی) معاف فرمادے ۔

علاوہ ازیں علماء کرام نے اور بھی مختلف اوراد و وظائف تحریر فرمائے ہیں ۔ جن میں سے چند حسب ذیل ہیں :

بارہ (12) رکعت نماز تین سلام سے پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ القدر ایک مرتبہ اور سورہ الاخلاص سات بار پڑھیں اور سلام کے بعد سات سو مرتبہ استغفار پڑھیں ۔ استغفرالله ربی من کل ذنب واتوب اليه ۔

دو (2) رکعت نماز نفل پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر تین تین مرتبہ اور سورہ اخلاص پانچ پانچ مرتبہ پڑھیں۔ بعد از سلام سورۃ اخلاص 7 مرتبہ پڑھیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔

چار (4) رکعت نماز دو سلام (یعنی دو دو رکعتیں) سے پڑھنی ہیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ التکاثر ایک ایک بار اور سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھنی ہے ۔ قبر سے چھٹکارا ہوگا ۔ ان شاء اللہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ماہ جو تم پر آیا ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا ۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو ۔ (سنن ابن ماجه)

شب قدر کا نام شب قدر اس لیے پڑا کہ یہ قدر یعنی مقام ومرتبے سے بنا ہوا ہے . کہتے ہیں فلاں عظیم القدر ہے یعنی مرتبے والا ہے ۔

یا یہ قدر یعنی تقدیر سے بنا ہے کیونکہ اس میں اس سال ہونے والی تمام چیزوں کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ لکھا جاتا ہے. یہ اللہ تعالٰی کی حکمت، اس کی مضبوط کاریگری اور تخلیق کا بیان ہے ۔

کہتے ہیں کہ یہ نام اس لیے پڑا کہ اس رات میں عبادت کا بہت عظیم مرتبہ ہے . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان ہے : قال رسول الله صلي الله عليه واله وسلم من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ۔

ترجمة : جو شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں . (متفق علیہ)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ : قُولِي: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي ۔
ترجمة : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پڑھو ”اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعف عني“ اے اللہ تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے ، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے ، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔ (سنن الترمذي،چشتی)

راجح بات یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اور ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ﻓﺎﻟﺘﻤﺴﻮﻫﺎ ﻓﻲ اﻟﻌﺸﺮ اﻷﻭاﺧﺮ ﻓﻲ اﻟﻮﺗﺮ ۔
ترجمة : اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (صحیح بخاری)

شب قدر کی علامات : ⏬

اس رات کے بعد صبح کو سورج میں تپش نہیں ہوتی ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ﻭﺃﻣﺎﺭﺗﻬﺎ ﺃﻥ ﺗﻄﻠﻊ اﻟﺸﻤﺲ ﻓﻲ ﺻﺒﻴﺤﺔ ﻳﻮﻣﻬﺎ ﺑﻴﻀﺎء ﻻ ﺷﻌﺎﻉ ﻟﻬﺎ ۔
ترجمة : اس رات کی نشانی یہ ہے کہ سورج اس کی صبح بالکل سفید طلوع ہوتا ہے اس میں کوئی تپش نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم)

اس رات موسم بالکل معتدل رہتا ہے نہ بہت سرد نہ بہت گرم . نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ليلة القدر ليلة سمحة طلقة لا حارة ولا باردة تصبح الشمس صبيحتها ضعيفة حمراء ۔
ترجمة : شب قدر وہ رات ہے جو بالکل نرمی اور سادگی والی رات ہوتی ہے نہ گرم نہ ٹھنڈی، سورج اس کی صبح کو ہلکا سرخ ہوتا ہے ۔ (صحیح الجامع)

اس رات چاند کسی تھالی کے ٹکڑے کی مانند طلوع ہوتا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أَيُّکُمْ يَذْکُرُ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ وَهُوَ مِثْلُ شِقِّ جَفْنَةٍ ۔
ترجمة : تم میں سے کسی کو یاد ہے کہ جس وقت چاند طلوع ہوا (وہ کیسا تھا) لیلة القدر وہ رات ہے کہ جس میں چاند طشت کے ایک ٹکڑے کی طرح طلوع ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم)

امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الدعاء في الليلة أحب إلي من الصلاة ، وإذا كان يقرأ وهو يدعو ويرغب إلى الله في الدعاء والمسألة لعله يوافق ۔
ترجمة : اس رات میرے نزدیک دعا نماز سے زیادہ محبوب ہے ۔ جب کہ وہ قرآن پڑھتے ہوئے دعا کرتا ہو اور اللہ کی طرف دعا اور سوال کرنے میں رغبت رکھتا ہو تو شاید اس رات کا اجر پا لے ۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ويُستحب أن يُكثر فيها من الدعوات بمهمات المسلمين، فهذا شعار الصالحين، وعباد الله المؤمنين الموحدين ۔ (شرح مسلم)
ترجمة : مستحب یہ ہے کہ اس رات مسلمانوں کے اہم امور کے تعلق سے زیاد سے زیادہ دعا کریں ۔ یہی صالحین اور اللہ کے مومن موحد بندوں کا شعار ہے .

رجب المرجب ، شعبان المعظم ، رمضان المبارک اور اس ميں تین راتں بابرکت ہيں اس لیے شب معراج ، شب برات ، ليلة القدر اس لے اس مہینوں میں برکت ہيں ۔

فضائلِ شبِ قدر ، قدر و منزلت والی رات

محترم قارئینِ کرام : رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے ۔ شب قدر، قدر و منزلت والی رات ہے ۔ اس رات کی بے شمار برکات ہیں۔ قرآن و حدیث میں اس رات کے بے شمار فضائل و برکات موجود ہیں ۔ شب قدر کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔ رب تبارک و تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : ترجمہ : بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کےلیے ۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک ۔ (سورۂ قدر)

حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے لیلۃ القدر میں ایمان واحتساب کے ساتھ قیام فرمایا ، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔ (بخاری شریف)

قیام کے معنی : قیام کے معنی ایک تو قیام فی الصلوٰۃ کے ہیں یعنی لیلۃ القدر میں نماز پڑھنا یا قیام نیند کے قیام ہے ، یعنی لیلۃ القدر کو جاگ کر گزارنا ، خواہ نماز کے ساتھ یا اذکار کے ساتھ ۔ قیام سے مراد رات کا قیام ہے یا بعض کا ۔ اکثر شارحین نے اس سے بعض رات کے حصہ کا قیام مراد لیا ہے ۔

ایمان و احتساب کے معنی : احادیث میں احتساب کے لفظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے ۔

یہ تو ظاہر ہے کہ ہر عمل کا مدار ایمان پر ہے اور اعمال کا ثواب نیت پر موقوف ہے لیکن نیت مرتبہ علم کا ہے اور احتساب علم العلم کا مرتبہ ہے یعنی احتساب کی نیت سے بھی اوپر ایک درجہ ہے اور مراد اس سے نیت کا استحضار اور نیت کی زیادتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال شارع نے ذھول و مشقت کے مواقع پر کیا ہے ۔ مثلا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کا بچہ مرجائے تو اس کو چاہئے کہ صبرکرے اور احتساب کرے۔ اب دیکھیے بچہ کا مرجانا آفت سماوی ہے ۔ اس میں انسان کے اختیار کو کچھ دخل نہیں ہے اور یہ کہ اس مصیبت کے وقت آدمی کو وہم بھی نہیں ہوتا کہ مجھے ثواب مل سکتا ہے تو یہ ذھول کی جگہ تھی ۔ اس لیے شارع نے فرمایا کہ اگرچہ یہ آفت سماوی ہے لیکن خلوص نیت کے ساتھ اگر کوئی اس مصیبت پر صبر کرے تو اس کا ثواب مل جائے گا ۔

امام مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی ۔ اس پر ﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطا امام مالک صفحہ 260،چشتی)

حضرت مجاہد رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہ خدا کے لئے ہتھیار اٹھائے رکھے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس پر تعجب ہوا تو ﷲ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شب قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا ۔ (سنن الکبریٰ بیہقی جلد 4 صفحہ 306،)(تفسیر ابن جریر،چشتی)

حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جب شب قدر ہوتی ہے ، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کےلیے) دعا کرتے ہیں ۔ (بیہقی)

جس شخص نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ ثواب کے حصول کی غرض سے شب قدر میں قیام کیا (عبادت کی) تو اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ (بخاری شریف و مسلم شریف)

حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔ (بخاری، مشکوٰۃ،چشتی)

حضرت عبادہ بن صامت رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاقت راتوں یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29 کی رات میں ہے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے ان رات میں عبادت کرتا ہے ﷲ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیتا ہے ۔ اسی رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ یہ رات کھلی ہوئی اور چمکدار ہوتی ہے ۔ صاف و شفاف گویا انوار کی کثرت کے باعث چاند کھلا ہوا ہے۔ یہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارتے جاتے ۔ اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے ۔ بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح جیسا کہ چودھویں کا چاند کیونکہ شیطان کےلیے یہ روا نہیں کہ وہ اس دن سورج کے ساتھ نکلے ۔ (مسند احمد جلد 5 صفحہ 324)(مجمع الزوائد)

شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں حکمتیں : لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ شب قدر کو پوشیدہ رکھنے میں کیا حکمتیں ہیں ؟

جواب یہ ہے کہ اصل حکمتیں تو ﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ یہ وہ جواب ہے جو صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہ نبوی میں اس وقت دیا کرتے جب انہیں کسی سوال کے جواب کا قطعی علم نہ ہوتا۔ وہ فرماتے ﷲ و رسولہ اعلم ۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فیوض و برکات سے اکتساب فیض کرتے ہوئے علمائے کرام نے شب قدر کے پوشیدہ ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں : ⏬

(1) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے اب لوگ آخری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں ۔

(2) شب قدر ظاہر کردینے کی صورت میں اگر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ دلجمعی سے عبادت نہ کرپاتا ۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں ۔

(3) اگر شب قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے ، اسی طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا ۔ لہذا ﷲ تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجروثواب پائیں اور اپنی جہالت وہ کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہ سے باز نہ آئیں تو انہیں شب قدر کی توہین کرنے کا گناہ نہ ہو ۔

(4) جیسا کہ نزول ملائکہ کی حکمتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ فرشتوں کی عظمت بتانے کےلیے زمین پر نازل فرماتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں پر فخر کرتا ہے ۔ شب قدر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں فکر کرنے کا زیادہ موقع ہے کہ اے ملائکہ دیکھو ! میرے بندے معلوم نہ ہونے کے باوجود محض احتمال کی بناء پر عبادت و اطاعت میں اتنی محنت و سعی کررہے ہیں ۔ اگر انہیں بتادیا جاتا کہ یہی شب قدر ہے تو ان کی عبادت و نیازمندی کا کیا حال ہوتا ۔

(5) شب قدر کا پوشیدہ رکھنا اسی طرح سمجھ لیجیے جیسے موت کا وقت نہ بتانا ۔ کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کر لیتے ۔ اس لیے موت کا وقت پوشیدہ رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے ۔ اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاقت رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہئے کہ شاید یہی شب قدر ہو ۔ اسی طرح شب قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الٰہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کی باعث بہت سی اہم چیزوں کو پوشیدہ رکھا ہے ۔ امام رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ : ⏬

(1) ﷲ تعالیٰ نے اپنی رضا کو عبادت و اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں ﷲ تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔

(2) اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی (پوشیدہ) رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں ۔

(3) اپنے اولیاء کو مومنوں میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں ۔

(4) دعا کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارکہ کی تعظیم کریں ۔

(5) اسم اعظم کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ﷲ تعالیٰ کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں ۔

(6) صلوٰۃ الوسطیٰ (درمیانی نماز) کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ سب نمازوں کی حفاظت کریں ۔

(7) موت کے وقت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ ہر وقت اللہ عزّ و جل سے ڈرتے رہیں ۔

(8) توبہ کی قبولیت کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو ، توبہ کرتے رہیں ۔

(9) ایسے ہی شب قدر کو پوشیدہ رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔

ﷲ تعالیٰ کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ رب کریم جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے وطفیل ہمیں شب قدر جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرنی چاہیے تاکہ ہمیں بھی مغفرت کا پروانہ نصیب ہو ۔


فضائلِ شبِ قدر : ⏬

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ يْمَانًا وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔
ترجمہ : جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے ، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910)

مندرجہ بالا ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر اور طاعت و عبادت کی تلقین کی گئی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو ، دکھاوا اور ریا کاری نہ ہو پھر یہ کہ آئندہ برائی نہ کرنے کا عہد کرے ۔ اس شان سے عبادت کرنے والے بندے کےلیے یہ رات مژدۂ مغفرت بن کر آتی ہے ۔ لیکن وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو اس رات کو پائے مگر عبادت نہ کر سکے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کی آمد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ ماہ جو تم پر آیا ہے ، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ، گویا وہ ساری خیر سے محروم رہا ۔ اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتاً محروم ہو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2 : 309، رقم : 1644،چشتی)

ایسے شخص کی محرومی میں واقعتاً کیا شک ہو سکتا ہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے ۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کےلیے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتا ہے تو اَسّی (80) سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کےلیے جاگنا کوئی زیادہ مشکل کام تو نہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : شب قدر کو جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں ۔ وہ ہر اُس شخص کےلیے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے (کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو ۔ (بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 343، رقم : 3717،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان ایام میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کو یوں بیان کرتی ہیں : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، إذا دخل العشرُ ، أحيا الليلَ وأيقظ أهلَه وجدَّ وشدَّ المِئزَرَ ۔ (صحيح البخاري : 2024)(صحيح مسلم: 1174)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو عبادت وریاضت کےلیے اپنی کمر مضبوط کرلیتے ، شب بیداری کرتے اور اپنے گھروالوں کو کو بیدار کیا کرتے تھے ۔

آخر کیوں ؟ اس لیے کہ اسی عشرے کے طاق راتوں کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے جس کی عبادت وریاضت ہزار مہینے یعنی 83 سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا ، اس رات میں فرشتے اور روح الأمین نازل ہوتے ہیں ۔ اور اس رات میں پورے سال واقع ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ یہ رات فضائل کی ہے برکات کی شب ہے ، یہ رات فرشتوں کی ملاقات کی شب ہے ، یہ رات ریاضت کی مناجات کی شب ہے ، یہ رات فقط لطف و عنایات کی شب ہے ، اس رات کے لمحے میں تقدیس ہے شامل ، یہ رات اگر مل جائے تو ہے زیست کا حاصل ۔

اب سوال یہ ہے کہ اس رات کو شب قدر یا لیلتہ القدر کیوں کہتے ہیں ؟ تو اس کی بابت مفسرین کرام کے درمیان اختلاف ہے کیوں کہ عربی زبان میں قدر کے بہت سارے معانی ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ قدر کا معانی تعظیم کے ہیں اس لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے : مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۔ (سورہ الحج 74) ۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے بعض لوگوں نے کہا : قدر کا معنی اندازہ وفیصلہ کرنے کے ہیں،اور چوں کہ اس رات سال بھر کے واقعات کے فیصلے کیے جاتے ہیں ، اس لیے اس رات کو شب قدرکہتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ۔ (سورہ الدخان آیت نمبر 4) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قدر کے معنی تنگی کے ہیں اور چوں کہ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اُترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ ( سورہ طلاق 7) اور جس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو ۔

جبکہ دوسرے لوگوں کا کہنا ہےکہ قدر کے معنی قدرو منزلت کے ہیں، چونکہ اس رات میں جو عبدت کی جاتی ہے اللہ تعالی کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے،اس پر بڑا ثواب ہے اس لیے اس کو شب قدر کہتے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔

اللہ تعالی نے اس رات کی اہمیت پر مشتمل ایک پوری سورہ نازل کردی ہے جسے ہم سورۃ القدر کے نام سے جانتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ﴿١﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ﴿٢﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ﴿٣﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ﴿٤﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ﴿٥﴾
ترجمہ : ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے (1) اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے(3) فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں (4) وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔

اور دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے، إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (سورہ الدخان 2-4) کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے (3) یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہوتا ہے ۔

اس رات کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : ومَن قامَ ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتِسابًا غُفِرَ لَهُ ما تقدَّمَ من ذنبِهِ (صحیح البخاری: 2014 صحیح مسلم: 760،چشتی)

یعنی جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ تعالی سے اجروثواب کی نیت سے عبادت میں مشغول رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے ۔

بڑا بد قسمت ہے وہ شخص جو اس رات کے فیضان سے محروم رہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا : إنَّ هذا الشَّهرَ قد حضركموفيه ليلةٌ خيرٌ من ألفِ شهرٍ من حُرِمها فقد حُرم الخيرَ كلَّه ولا يُحرمُ خيرَها إلَّا محرومٌ (سنن ابن ماجه: 1341)

یعنی تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اس رات سے محروم ہوگیا وہ سارے خیر سے محروم ہوگیا اور اس کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہتا ہے جو واقعی محروم ہو ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاشیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال:تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، منالعشرِ الأواخرِ من رمضانَ ۔ (صحيح البخاری: 2017،چشتی)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔

گویا کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے، البتہ اس رات کی تعین کے تعلق سے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے نیل الأوطار میں چالیس سے زائد اقوال نقل کیا ہے، ویسے اس سلسلے میں ٹھوس بات یہ کہی جا سکتی ہےکہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ اور رحمت کاملہ سے اس رات کو آخری عشرہ کی کسی طاق رات میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد اس کی تلاش و جستجو میں لگے رہیں ۔

شیخ محمد بن العثیمین لکھتے ہیں : شب قدر تمام سالوں میں کسی خاص رات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ منتقل ہوتی رہتی ہے، مثال کے طور پر کسی سال ستائس کی رات میں ہوتی ہے تو کبھی کسی دوسرے سال میں پچیسویں رات کو ہوتی ہے ۔

اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ کسی رات کی تخصیص کیے بغیر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش وجستجو کا اہتمام کیا جائے تاکہ کثرت سے انعامات خداوندی کے مستحق بن سکیں، اور اخفاء وپوشیدگی کا مقصد بھی پورا ہو جائے ۔

البتہ بعض احادیث میں مبارکہ میں شب قدر کی کچھ علامتیں بیان کی گئی ہیں جن کو دیکھ کر ہم شب قدر کی پہچان کر سکتے ہیں ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جسے امام مسلم نے روایت کیا ہے : أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها ۔ (صحيح مسلم: 762)

یعنی شب قدر کے بعد کی صبح جب سورج طلوع ہوگا وہ سفید ہوگا اور اس میں روشنی نہیں ہوگی ۔

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ ۔ (صحيح الجامع: 5475)

یعنی اس کی رات صاف پر سکون سردی وگرمی سے خالی ہوتی ہے، اور اس کی صبح سورج دھیمی روشنی والا سرخ رنگ کا نکلتا ہے ۔

بہر کیف ان عظیم راتوں میں بکثرت نماز، تلاوت قرآن، ذکرو فکر اور توبہ واستغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی اس دعا کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے، کیوں کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول جب ہم اس رات کو پائیں تو کیا پڑھیں ؟ تو آپ نے یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی : اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي ۔

ترجمہ : اے میرے اللہ تو بڑا معاف کرنے والا ہے تو عفو درگزر کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرمادے ۔ (سنن الترمذي: 3513،چشتی)

لیکن ہائے افسوس : جب ہم اس تعلق سے مسلمان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے، کہ اکثر لوگ اس رات کی اہمیت سے باکل بے خبر ہیں، عام راتوں کی طرف ان راتوں کو بھی گزار دیتے ہیں، طرفہ تماشہ یہ کہ کچھ لوگ ان مبارک راتوں میں اللہ کی نافرمانی اور کفر وعصیان کے کاموں میں لگے رہتے ہیں ۔

کچھ لوگ ان راتوں میں جاگتے بھی ہیں تو ان کا جاگنا بطور فنکشن ہوتا ہے، مساجد میں روشنی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن دل کا چراغ بجھا ہوتا ہے، لوگوں کا ہجوم، گرم گرم چائے، مٹھائیوں کا دور، لاؤڈ اسپیکر پر قرآن خوانی اور نعتیہ کلام کے پروگرام ضرور ہوتے ہیں لیکن دل لذت آشنائی سے خالی ہوتا ہے ۔

ضرورت ہے کہ ہم شب قدر کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائی سے جانیں، اس رات کی عبادت ہزار مہینے یعنی 83 سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے، اس اہم نکتے کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھائیں اور آج ہی سے کمرکس لیں کہ عشرہ اواخراوربالخصوص اس کی طاق راتوں 21/23/25/ 27/ 29 میں سستی و کسلمندی کو بالکل قریب نہ ہونے دیں گے، اس تعلق سے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہم سب اس کی توفیق بخشے ۔

ان ایام سے فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر جمعیت باطنی پیدا کرنے کا سب سے آسان طریقہ اعتکاف ہے کیوں کہ اس میں انسان اپنی دنیاوی مشغولیات سے الگ ہوکر صرف اللہ تعالی کی رضا جوئی اور اس کے تقرب کے حصول میں لگ جاتا ہے ، یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس کی خاطر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عشرہ اواخر میں ہرسال دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے اور انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔

اس سے پہلے شب قدر ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم آپسی عداوت وچبقلش، بغض و حسد، جھگڑا لڑائی اور نزاع سے بالکل دوری اختیار کرلیں، کیوں کہ یہ چیزیں خیرو بھلائی کے روکنے کا باعث ہیں ۔

صحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : خرج النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُخبرنا بليلةِ القدرِ، فتلاحَى رجلانِ من المسلمينَ، فقال : ( خرجت لأخبركم بليلةِ القدرِ، فتلاحَى فُلانٌ وفُلانٌ فرفعت (صحيح البخاری: 2023)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں اس بیچ دو آدمی باہم جھگڑنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نکلا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی بابت بتاؤں لیکن فلاں فلاں باہم جھگڑ نے لگے اس لیے اس کی تعیین اُٹھا لی گئی ۔

ذرا غور کریں کہ لعن طعن ، گالم گلوچ اور عداوت و دشمنی کیسا ناسور ہے کہ اس کے باعث شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی اس لیے عشرہ اواخر ہمیں اپنے معاشرتی معاملات کی بھی سدھار کر لینی چاہیے ۔ الغرض شب قدر نہایت عظیم اور مہتم بالشان رات ہے اس میں کی جانے والی دعائیں اللہ تعالی رد نہیں فرماتے ، اس لیے ہم عشرہ اواخر اور اس کی طاق راتوں کو عبادت و ریاضت ، ذکر و فکر ، تلاوت قرآن ، اور شب بیداری سے آباد کریں اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ صاحبِ حیثیت اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑا بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : ⏬
03009576666
03215555970
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔