ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 222)
ترجمہ : بیشک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو ۔
خطاٶں اور معصیت (گناہ) سے جس توبہ کا ہم سے بار بار مطالبہ کیا گیا ہے اس کی حقیقت سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اگر توبہ کی حقیقت سے واقفیت نہ ہو تو صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں ہے ۔ لغت میں توبہ کے معنی و مفہوم لوٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں ۔ علامہ رازی علیہ الرحمہ نے مختار الصحاح میں لکھا ہے : توبہ گناہ اور معصیت و نافرمانی سے تائب ہو کر نیکی کی طرف لوٹنے کو کہا جاتا ہے ۔ شریعت کی رو سے اللہ کی نافرمانی اور معصیت و گناہ کو ترک کر کے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرنے کو توبہ کہتے ہیں اور طریقت کی رو سے ۔ فَفِرُّوٓا اِلَی اللّٰہ ۔ ’’دوڑو اللہ کی طرف‘‘ یعنی اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کو اختیار کر کے ماسویٰ اللہ سے تائب ہونے اور واحد اللہ کی طرف رجوع کرنے کو توبہ طریقت کہا جائے گا ۔
حقیقی توبہ کےلیے علما کرام نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (یقیناً سچی اور حقیقی توبہ) یہ ہے کہ (اس میں درج ذیل چیزیں پائی جائیں)
1 ۔ گناہ پر دل سے نادم ہونا ۔
2 ۔ فوری طور پر ترکِ گناہ ۔
3 ۔ پکا ارادہ کرے کہ دوبارہ اس معصیت کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔
4 ۔ اور مندرجہ بالا تمام افعال سے توبہ اللہ ربّ العزت کی حیا کی بنا پر ہو ۔
توبہ کے تین مراتب ہیں : ⬇
1 ۔ توبہ کا سب سے اہم اور لازمی درجہ ترکِ کفر اور قبولِ ایمان ہے ۔
2 ۔ دوسرا درجہ کبیرہ گناہوں سے توبہ کا ہے ۔
3 ۔ تیسرا درجہ صغائر یعنی گناہِ صغیرہ سے توبہ کرنا ۔
توبہ کی دو اقسام ہیں : ⬇
1 ۔ واجب توبہ
2 ۔ مستحب توبہ
واجب توبہ : کسی بھی حکمِ الٰہی کو ترک کرنے یا ممنوع و خلافِ شریعت کام کرنے سے توبہ کرنا فی الفور واجب اور ضروری ہے اور یہ توبہ کرنا تمام اہلِ ایمان مکلفین پر واجب ہے ۔
مستحب توبہ : مکروہات کو ترک کرنا اور مکرو ہات کے مرتکب ہونے پر توبہ کرنا مستحب ہے ۔
حقیقی اور سچی توبہ کی شرائط : ⬇
1 ۔ تائب ہونا ۔ جلد از جلد معصیات و گناہ سے باز آنا ۔
2 ۔ ندامت و شرمندگی ۔ تمام سابقہ گناہوں پر دل سے نادم ہو نا ۔
حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے :
الندم التوبہ ۔ ترجمہ : گناہوں ، خطائوں پر ندامت توبہ ہے ۔
ندامت ہی توبہ کا رکنِ اعظم ہے ۔
3 ۔ دوبارہ گناہ و معصیت نہ کرنے کا عزم کرنا ۔
4 ۔ حقوق العباد کی ادائیگی یا ان سے معاف کرانا ۔ (تفسیر ابنِ کثیر)(تفسیر الخازن)
ریاض الصالحین میں امام شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر معصیت کا تعلق آدمی سے ہو تو اس کے لئے چار شرائط ہیں۔ تین تو وہ ہیں جن کا تذکرہ اوپر گزر چکا ہے اور چوتھی شرط یہ ہے کہ خود کو حقوق العباد سے بری کرے مثلاً اگر کسی کا مال یا اس طرح کی کوئی اور چیز لی ہے تو وہ حقدار کو واپس لوٹا دے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت وغیرہ لگائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے اور اگر کسی کی غیبت کی ہے تو اس کی بھی معافی مانگے ۔
5 ۔ توبہ النصوح یعنی حقیقی سچی توبہ کی پانچویں شرط یہ ہے کہ طالب توبہ اخلاص کو اختیار کرے ۔
اخلاص کیاہے ؟ اللہ کے عذاب کے خوف اور اس کی رحمت، مغفرت اور ثواب کی امید پر گناہوں کو ترک کرنا اخلاص کہلاتا ہے ۔
6 ۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ توبہ کرنے کا عمل ’’توبہ کے وقت‘‘ میں سر انجام دے بلکہ ہر وقت توبہ کرے ۔
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے : ’’توبہ‘‘ روح کا غسل ہے ۔ یہ جتنی بار کی جائے روح میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔
فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے : وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ۔
ترجمہ : خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔ (مشکواۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 434 حدیث نمبر 2323،چشتی)
اللہ عزوجل کے سارے انبیائے کرام علیہمُ السَّلام معصوم ہیں ، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو سب انبیاء و رُسُل کے سردار ہیں ۔ علمائے کرام و محدثینِ عظام علیہم الرحمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِستغفار کرنے (یعنی مغفرت مانگنے) کی مختلف حکمتیں بیان فرمائی ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِستِغفَار کرنے کی حکمتیں : ⬇
علّامہ بدرُالدّین عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطورِ عاجزی یا تعلیمِ اُمّت کےلیے اِستِغفَار کرتے تھے ۔ (عمدۃ القاری جلد 15صفحہ 413 تحت الحدیث : 6307)
علّامہ ابنِ بطّال مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیائے کرام علیہمُ السَّلام (کسی گناہ پر نہیں بلکہ) لوگوں میں سب سے زیادہ شکر گزاری و عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا کما حقّہ حق ادا نہ ہوسکنے پر اِستِغفَار کرتے ہیں ۔ (شرح بخاری لابن بطال جلد 10 صفحہ 77)
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر اِستِغفَار کرتے ہیں ۔ (فتح الباری جلد 12 صفحہ 85 تحت الحدیث : 6307)
حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں : توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 3 صفحہ 353)
نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو گناہوں سے پاک ہونے کے باوجود ہماری تعلیم کےلیے اِستغفار کریں اور ایک ہم ہیں کہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہونے کے باوجود اِستغفار کی کمی رکھیں، ہمیں چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں خوب خوب توبہ و استغفار کرتے رہیں ۔ اِستغفار کرنے سے گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی فوائد ملتے چند فوائد ملاحظہ ہوں : ⬇
(1) اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ (پ2، البقرۃ: 222)
(2) جو اِستغفار کو لازم کرلے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہرغم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو ۔ (سنن ابو داؤد جلد 2 صفحہ 122 حدیث نمبر 1518)
(3) اِستغفار سے دِلوں کا زنگ دور ہوتا ہے ۔ (مجمع البحرین جلد 4 صفحہ 272 حدیث نمبر 4739)
(4) جب بندہ اپنے گناہو ں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ عزوجل لکھنے والے فرشتوں کواس کے گناہ بُھلا دیتا ہے ، اسی طرح اس کے اَعْضاء (یعنی ہاتھ پاؤں )کو بھی بُھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مِٹا ڈالتا ہے ۔یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا ۔ (الترغیب والترھیب جلد 4 صفحہ 48 رقم : 17،چشتی)
حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے خُشک سالی کی شکایت کی ، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اِستغفار کرنے کا حکم دیا ، دوسرا شخص آیا ، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا ، اُس نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ، پھر چوتھا شخص آیا ، اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ۔ حضرت رَبیع بن صَبِیح رحمۃ اللہ علیہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی : آپ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے مختلف حاجتیں پیش کیں ، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ اِستغفار کرو ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں (جن میں اِستغفار کو بارش ، مال ، اولاد اور باغات کے عطا ہونے کا سبب فرمایا گیا ہے) : فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ ۔ یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ ۔ وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ ۔
تَرجمہ : تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے، تم پر شرّاٹے کا مینہ (موسلا دھار بارش) بھیجے گا اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا ۔ (تفسیر خازن سورہ نوح جلد 4 صفحہ 335 الآیۃ : 10-11،چشتی)
قال عمر رضي الله عنه : جالسوا التوّابین فإنهم أرقّ شيء أفئدۃ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : کثرت سے توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیونکہ ان کے دل نہایت ہی نرم ہوتے ہیں ۔(أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177)
قال عمر رضي الله عنه : حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے نفسوں کو تولو(یعنی تزکیہ کرو) قبل اس کے کہ تمہیں تولا(یعنی جواب دہی کے لیے طلب کیا ) جائے ۔ (أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 177)
قال أبو هریر رضی اللہ عنہ ما جلست إلی أحد أکثر استغفارا من رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر استغفار کرنے والے کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا ۔ (أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 67)
قال أبو ذر رضي الله عنه : هل تری الناس ما أکثرهم ما فیهم خیر إلا تقي أو تائب ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گناہوں سے توبہ کرنے والا اور متقی انسان لوگوں میں سے بہترین افراد ہیں ۔ (أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء ، 1 / 161)
قال الإمام جعفر الصادق رضي الله عنه : من استبطأ رزقه، فلیکثر من الاستغفار ۔
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس کا رزق تنگ ہو اسے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 51،چشتی)
قال ذو النون المصري رحمۃ اللہ علیہ : حقیقۃ التوبۃ أن تضیق علیک الأرض بما رحُبتْ حتی لا یکون لک قرار، ثم تضیق علیک نفسک ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین باوجود اپنی فراخی کے تمہارے لئے اس قدر تنگ معلوم ہو کہ تمہیں قرار حاصل نہ ہو بلکہ تمہارا نفس بھی تمہارے لئے تنگ ہو جائے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال ذو النون المصري رحمۃ اللہ علیہ : الاستغفار من غیر إقلاع هو توبۃ الکاذبین ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا کذاب لوگوں کی توبہ ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
سُئِلَ ذو النّون المصري رحمۃ اللہ علیہ عن التوبۃ ، فقال : توبۃ العوام من الذنوب، وتوبۃ الخواص من الغفلۃ ۔
ترجمہ : حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے توبہ کی نسبت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی غفلت سے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
أوحی اللہ عزوجل إلی داود علیه السلام : لو یعلم المُدْبِرُوْنَ عنّي کیف انتظاري لهم ورفقي بهم وشوقي إلی ترکِ مَعَاصِيْهِمْ لماتوا شوقاً إليّ، وانقطعت أوصالهم من محبّتي، یا داود، هذه إرادتي في المُدْبِرِيْنَ عنّي، فکیف إرادتي في مُقْبِلِيْنَ إليّ ؟
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کے معصیت کاریوں کو ترک کرنے کو کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا ؟ ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 332،چشتی)
10۔ قال یحیی بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ : زلۃ واحد بعد التوبۃ أقبح من سبعین قبلها ۔
ترجمہ : حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ کے بعد کی لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال محمد الزقاق رحمۃ اللہ علیہ : سألت أبا علي الروذباري عن التوبۃ، فقال : الاعتراف، والندم، والإقلاع۔
ترجمہ : محمد زقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے ابو علی روذباری رَحِمَهُ اللہ سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : (گناہوں کا) اعتراف، ندامت اور (گناہوںکا) ترک کرنا (توبہ ہے) ۔ (أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 357،چشتی)
قال مطرف بن عبد الله رضي الله عنه : اللّٰھم ارض عنا، فإن لم ترض فاعف فإن المولی قد یعفو عن عبده، وهو غیر راض عنه ۔
ترجمہ : حضرت مطرف بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ (اللہ کے حضور دعا کرتے ہوئے عرض کرتے) : اے اللہ! ہم سے راضی ہو جا اگر تو راضی نہ ہو تو معاف فرما کیونکہ کبھی مالک راضی نہ ہونے کے باوجود اپنے غلام کو معاف کر دیتا ہے ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 53)
قال أبو الحسن الشاذلي رحمۃ اللہ علیہ : علیک بالاستغفار وإن لم یکن هناک ذنب، واعتبر باستغفار النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد البشارۃ والیقین بمغفرۃ ما تقدم من ذنبه، وما تأخر۔ هذا في معصوم لم یقترف ذنباً قط وتقدس عن ذلک فما ظنک بمن لا یخلو عن العیب، والذنب في وقت من الأوقات ۔
ترجمہ : شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : استغفار لازم کرو اگرچہ کوئی گناہ نہ ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے استغفار سے عبرت حاصل کرو جبکہ آپ کو آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہوں کی بخشش کی بشارت اور یقین حاصل تھا اور یہ اس عظیم معصوم کا معاملہ ہے جن میں کسی گناہ کا کبھی تصور تک نہیں اور اس سے ہمیشہ پاک ہیں تو اس کے متعلق تیرا کیا گمان ہے جو کسی وقت بھی عیب اور گناہ سے خالی نہیں ۔ (أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 301)
سُئل البوشنجي رحمۃ اللہ علیہ عن التوبۃ، فقال : إذا ذکرت الذنب، ثم لم تجد حلاوته عند ذکره فهو التّوبۃ ۔
ترجمہ : شیخ بوشنجی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے توبہ کی نسبت سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : جب تو گناہ کا ذکر کرے اور تجھے اس کے ذکر سے اس کی مٹھاس محسوس نہ ہو تو یہی توبہ ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96،چشتی)
قال إبراهیم الأطروش رحمۃ اللہ علیہ : کنا قعوداً ببغداد، مع معروف الکرخي رَحِمَهُ الله، علی نهر الدجلۃ، إذ مر بنا قوم أحداث في زورق، یضربون بالدف ویشربون، ویلعبون، فقلنا لمعروف : ألا تراهم کیف یعصون الله تعالی مجاهرین؟ أدع الله علیهم۔ فرفع یده وقال : إلهي کما فرحتهم في الدنیا ففرحهم في الآخرۃ۔ فقلنا : إنما سألناک أن تدعو علیهم، فقال : إذا فرحهم في الآخرۃ تاب علیهم ۔
ترجمہ : حضرت ابراہیم الاطروش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ہم بغداد میں حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ دریائے دجلہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کشتی میں نو عمروں کی ایک ٹولی دف بجاتے، شراب پیتے اور کھیلتے ہوئے گزری۔ ہم نے حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ انہیں دیکھ رہے ہیں یہ لوگ علی الاعلان خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بددعا کیجئے۔ یہ سن کر حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا : خدایا! جس طرح تو نے انہیں دنیا میں خوش کر رکھا ہے آخرت میں بھی خوش رکھنا۔ لوگوں نے کہا : ہم نے آپ کو بددعا کرنے کو کہا تھا(اور آپ نے ان کے حق میں دعا فرمادی) ؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جب اللہ ان کو آخرت میں خوش رکھے گا تو (دنیا میں)ان کی توبہ بھی قبول فرمائے گا ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 137)
قال النوري رحمۃ اللہ علیہ : التوبۃ أن تتوب من کل شيء سوی الله عزوجل ۔
ترجمہ : شیخ نوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توبہ یہ ہے کہ تو اللہ کے سوا ہر چیز سے توبہ کر ے (یعنی رجوع کرے) ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 95)
قال عبد الله التمیمي رحمۃ اللہ علیہ : شتان ما بین تائب یتوب من الزلات، وتائب یتوب من الغفلات، وتائب یتوب من رؤیۃ الحسنات ۔
ترجمہ : شیخ عبد اللہ بن علی تمیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ان تین شخصوں کی توبہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے : ایک وہ جو اپنی لغزشوں سے توبہ کرتا ہے، دوسرا وہ جو اپنی غفلتوں سے توبہ کرتا ہے اور تیسرا وہ جو اپنی نیکیوں کو دیکھنے سے توبہ کرتا ہے ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ صفحہ 95)
قال الإمام القشیري رحمۃ اللہ علیہ : قال بعضهم : توبۃ الکذابین علی أطراف ألسنتهم، یعني أنهم یقتصرون علی قولهم : أستغفر الله ۔
ترجمہ : امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی کا قول ہے کہ کذابین کی توبہ، ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے، ان کی مراد استغفر اللہ کہنے سے ہے (یعنی وہ زبان سے توبہ یا اِستغفار کہتے رہتے ہیں مگر دل پر کچھ اثر نہیں ہوتا) ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ : 96)
قال الإمام القشیري رحمۃ اللہ علیہ : قال رجل لرابعۃ العدویۃ : إني قد أکثرت من الذنوب والمعاصي، فلو تبت هل یتوب الله عليّ؟ فقالت : لا، بل لو تاب علیک لتبت۔
ترجمہ : امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا سے کہا : میں نے بہت سے گناہ اور معاصی کئے ہیں۔ اب اگر میں توبہ کروں تو کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے گا؟ انہوں نے فرمایا : اصل معاملہ یوں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ (پہلے) خدا تجھے معاف کر دے گا تو تب ہی تو توبہ کرے گا ۔ (أخرجه القشیري في الرسالۃ صفحہ 96،چشتی)
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سچی توبہ سے مراد یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی جان کر اس کے کرنےپر شرمندہ ہوتے ہوئے رب سے معافی مانگے اور آئندہ کےلیے اس گناہ سے بچنے کا پکّا ارادہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کےلیے کوشش کرے ، مثلاً نماز قضا کی تھی تو اب ادا بھی کرے،چوری کی تھی یا رِشوت لی تھی تو بعدِ توبہ وہ مال اصل مالک یا اس کے وُرَثاء کو واپس کرے یا معاف کروالے اور اگر اصل مالک یا وُرَثاء نہ ملیں تو ان کی طرف سے راہِ خدا میں اس نیّت سے صدقہ کر دے کہ وہ لوگ جب ملے اور صدقہ کرنے پر راضی نہ ہوئے تو اپنے پاس سے انہیں واپس دوں گا ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 121)
توبہ و اِستغفارکی تمام تر اہمیت اور فضائل کے باوجود بعض بد نصیب نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر توبہ و اِستغفار کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ۔ توبہ کا موقع ملنا بھی بہت بڑی سعادت کی بات ہے بہت سے لوگوں کو توبہ کا موقع بھی نہیں ملتا اور وہ بغیر توبہ کیے اس دارِ فانی سے چلے جاتے ہیں ، موت کا کوئی بھروسا نہیں اس لیے ہمیں بھی بکثرت توبہ و اِستِغفار کرنی چاہیے ۔
اب سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ توبۃ النصوح یعنی حقیقی توبہ کسے کہتے ہیں ؟ : ⏬
اللہ جل شانہٗ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اپنے بندوں کو ’’توبۃ النصوح‘‘ یعنی حقیقی توبہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ۔ (سورۃ التحریم آیت 8)
ترجمہ : اے ایمان والو ! توبہ کرواللہ کی طرف ، صاف سچے دل کی توبہ ۔
مندرجہ بالا سوال کا جواب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین کرام ، سلف الصالحین اور مفسرین کرام کے اقوال کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں ۔
’’نصوحاً‘‘ النصح سے ماخوذ ہے اور عربی میں سلائی کرنے کو النصح کہا جاتا ہے۔ گویا ’’توبۃ النصوح ’’ حقیقی توبہ‘‘ گناہوں کے باعث ہونے والی پھٹن کو رفو کرکے ایسے ختم کر دیتی ہے جس طرح ایک درزی اور رفوگر کسی پھٹے ہوئے کپڑے کو سلائی اور رفو کر کے اس کی پھٹن کو بالکل ختم کر دیتے ہیں۔ توبۃ النصوح کو حقیقی، خالص، سچی، محکم و پختہ توبہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ’’ نصوحًا‘‘ کو ’’ن‘‘ کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جس سے مراد ایسی ’’ توبہ‘‘ ہے کہ جس سے مومن نصیحت حاصل کرے ۔ (تفسیر روح المعانی)
امام قرطبی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ کا مطلب خالص ہونا ہے ۔ ملاوٹ سے پاک شہد کو ’’ عسل ناصح‘‘ کہتے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ ’’نصاحۃ‘‘ بمعنی سلائی سے ماخوذ ہے اس ماخذ کی دو وجوہات ہیں : ⬇
1 ۔ تو بہ حقیقی مومن کا اطاعت ِ الٰہی کو محکم و پختہ کرنا ہے جس طرح کہ درزی سلائی سے کپڑے کو محکم و پختہ کر دیتا ہے ۔
2 ۔ توبہ حقیقی نے اسے یعنی توبہ کرنے والے کو اللہ کے اولیا کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار کرنے کی توفیق بخشی ، جوڑ دیا اور ملادیا اور جمع کیا جیسا کہ درزی سلائی کے ذریعے کپڑے کو اور اس کے مختلف حصوں کو آپس میں ملا اور جوڑ دیتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’ توبۃ النصوح‘‘ یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے ہوئے گناہ سے نادم ہو کر اللہ کی طرف یوں دوڑے کہ دوبارہ گناہ کی طرف نہ لوٹے یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے ۔ (تفسیر در المنشور)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے توبۃ النصوح حقیقی توبہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آدمی بُرے عمل سے تائب ہو اور پھر کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہ جائے ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا : توبۃ نصوح یہ ہے کہ تو گناہ سے ویسے ہی نفرت کرے جیسے کہ تو نے اس سے محبت کی اور جب تجھے یاد آئے تو اس سے توبہ و استغفار کر ۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
امام دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ یعنی حقیقی توبہ یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے، دل سے ندامت اختیار کرے اور اپنے بدن کو قابو میں رکھے ۔ (تفسیر الخازن)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچی نصیحت آمیز توبہ کو ’’توبۃ النصوح‘‘ کہتے ہیں ۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ توبۃ النصوح‘‘ مقبول توبہ کو کہتے ہیں اور توبہ اس وقت تک قبول نہیں کی جاتی جب تک اس میں مندرجہ ذیل تین چیزیں نہ پائی جائیں : ⬇
1 ۔ عدم قبولیت کا خوف موجود رہے ۔
2 ۔ قبولیت کی امید ہو ۔
3 ۔ طاعت پر ثابت قدمی ہو ۔
امام محمد بن سعید قرطبی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ’’توبۃ النصوح‘‘ چار شرائط کے پائے جانے کانام ہے ۔
1 ۔ زبان سے استغفار کرنا ۔
2 ۔ بدن سے گناہوں کو اکھیڑ پھینکنا ۔
3 ۔ دل سے دوبارہ لوٹنے کے ترک کا اظہار کرنا یعنی استقامت کے ساتھ اس پر قائم رہنا ۔
4 ۔ برے دوستوں کی صحبت سے دوری اختیار کرنا ۔
حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : چار چیزیں ’’توبۃ النصوح‘‘ مقبول توبہ کی علامت ہیں : ⬇
1 ۔ گناہوں کو زائل کرنا ۔
2 ۔ اللہ کی یاد میں دل لگانا یا تشویش میں مبتلا ہونا یعنی نادم و شرمندہ ہونا ۔
3 ۔ انکساری اور تابعداری اختیار کرنا ۔
4 ۔ گناہوں سے دوری و جدائی اختیار کرنا ۔
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نے فرمایا : توبہ کے بعد گناہ اس کی آنکھوں میں کھٹکے گویا گناہ کو برابر دشمنی کی نگاہ سے دیکھے یا دیکھ رہا ہو ۔
ابوبکر واسطی علیہ الرحمہ نے فرمایا : ’’توبۃ النصوح‘‘ خالص توبہ کا نام ہے نہ کہ معاوضہ کا۔ اس لئے کہ جس نے دنیا میں اپنے نفس کی سہولت اور مفاد کی خاطر گناہ کیا اور پھر اس نفس کی سہولت کے پیش نظر توبہ کی تو اس کی توبہ اپنے نفس کے لئے ہوگی نہ کہ اللہ کےلیے ۔ (تفسیر ثعلبی ۔9۔35)
حضرت رابعہ بصری رحمة اللہ علیہا نے کہا : ایسی توبہ جس میں گناہ کی طرف لوٹنے کا خیال نہ ہو مقبول و حقیقی توبہ کہلاتی ہے ۔
حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ نے فرمایا توبۃ النصوح کی تین علامتیں ہیں : ⬇
1 ۔ قلت ِ کلام (کم بولنا)
2 ۔ قلتِ طعام ( کم کھانا)
3 ۔ قلتِ منام ( کم سونا)
شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ توبۃ النصوح کرنے والا بکثرت اپنے نفس پر ملامت کرے اور ندامت اس سے کبھی جد انہ ہو تاکہ وہ گناہوں کی آفتوں سے سلامتی کے ساتھ نجات پا سکے۔
حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’توبۃ النصوح‘‘ ایمان والوں کو اصلاحِ نفس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے کہ جس کی توبہ درست قرار پائی تو وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ سب لوگ اس کی طرح توبۃ النصوح کرنے والے ہوں ۔ (تفسیر ثعلبی)
حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ نے فرمایا : توبۃ النصوح یہ ہے کہ انسان گناہوں کو ایسے بھول جائے کہ پھر اس کا تذکرہ بھی نہ کرے کیونکہ جس کی توبہ درست قرار پائی وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی وہ اللہ کے ماسویٰ کو بھول گیا ۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ نے فرمایا : توبۃ النصوح اہل ِسنت والجماعت کی توبہ کا نام ہے اس لیے کہ بدعتی و بدمذہب کی کوئی توبہ نہیں‘‘ اور انہوں نے یہ استدلال حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس ارشاد ِ مبارکہ کی وجہ سے کیا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ہر صاحب ِبدعت کو توبہ کرنے سے محجوب کر دیا ہے ۔
ابو عبداللہ علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ دس چیزوں کا نام توبۃ النصوح ہے : ⬇
1 ۔ جہل سے نکلنا
2 ۔ اپنے برے فعل پر نادم ہونا
3 ۔ خواہشات (نفسانی) سے دوری اختیار کرنا
4 ۔ سوال کئے جانے والے نفس کی پکڑ کا یقین
5 ۔ ناجائز معاملات کی تلافی کرنا
6 ۔ ٹوٹے ہوئے رشتوں کا جوڑنا
7 ۔ جھوٹ کو ساقط کرنا
8 ۔ بُرے دوست کو چھوڑنا
9 ۔ معصیت سے خلوت اختیار کرنا
10 ۔ غفلت کے طریق سے جدائی اختیار کرنا
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں : توبۃ النصوح حقیقی توبہ سے مراد صاف دل کی توبہ ہے وہ یہ کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے ۔ اگر توبہ کے بعد انہی خرافات و معصیات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی ۔ ( تفسیر عثمانی سورۃ التحریم)
ہر انسان اپنی زندگی میں موت کا وقت آنے سے پہلے پہلے توبہ کرلے کیونکہ سانسیں اکھڑنے کے بعد کی جانے والی توبہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے : وَلَیْسَت ِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِج حَتّٰیٓ اِذَاحَضَرَ اَحَدَ ھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ ولَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌط اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ (سورۃ النساء۔18)
ترجمہ : اور ایسوں کی توبہ (قابل ِ قبول) نہیں جو گناہ اور بُرے کام کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت آجائے تو کہے ’’میں توبہ کرتا ہوں‘‘ اور نہ ایسوں کی توبہ جو حالت ِ کفر میںمر جاتے ہیں ۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰہ یقبل توبۃ العبد مالم یعرغر ۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات)
ترجمہ : بے شک اللہ رحمتہ اللعالمین بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اس کی روح گلے تک نہ پہنچے ۔
اس سے پہلے پہلے توبہ کر لے ۔ یعنی جب تک اس کی سانسیں نہ اکھڑ جائیں ۔
ایک اور حدیث مبارکہ کے مطابق توبہ اس وقت تک قابل ِقبول ہے جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہونے لگے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : من تاب قبل تطلع الشمس من مغربھا تاب للّٰہ علیہ ۔
ترجمہ : جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کی اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعا)
اللہ ربّ العزت کی جانب سے توبہ کی توفیق ملنے کے اعتبار سے لوگوں کی مختلف اقسام کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
1 ۔ قسمِ اوّل : قسم اوّل ان لوگوں کی ہے جن کو زندگی بھر سچی توبہ کی توفیق نہیںملتی۔ ان کی تمام عمر گناہوں کی انجام دہی میں صرف ہو جاتی ہے۔ وہ زبانی توبہ کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقتاً گناہوں سے تائب نہیں ہوتے ۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ان کو موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ۔ اس حالت کو بدبخت لوگوں کی حالت کہا جاتا ہے جن کو توفیق ِ توبہ نہیں ملتی ۔
2 ۔ قسمِ دوم : اس سے بھی بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کا ابتدا سے لے کر آخر عمر تک تمام عرصہ حیات نیک اعمال میں صرف ہوتا ہے مگر آخری وقت میں کسی بُرے عمل میں مبتلا ہوجاتے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے ’’تم میں سے بعض لوگ اہلِ جنت والے اعمال (اعمالِ صالح) اختیار کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر ان پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمی لوگوں والا عمل اختیار کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہونے کے حق دار بن جاتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری کتاب الانبیاء،چشتی)
3 ۔ قسمِ سوم ۔ اعلیٰ و ارفع قسم : قسم سوم ان لوگوں کی ہے جو اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزارتے ہیں ۔ پھر موت سے قبل ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اب اللہ سے ملاقات کا وقت آن پہنچا ہے تو وہ اس ملاقات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایسا زادِ راہ و توشہ اختیار کرتے ہیں جو اس ملاقات کے شایانِ شان ہو۔ یہ مومنوں کی سب سے اعلیٰ و ارفع قسم ہے ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : توبۃ النصوح کی اعلیٰ و ارفع مثال اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بارے میں اشارہ فرمایا گیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی تمام تر صلاحیتیں، توانائیاں اور کوششیں (اپنی اُمت کے لئے مثال چھوڑنے کے لئے) آخرت میں کام آنے والے اعمالِ صالحہ میں صرف کرنے لگے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا معمول تھا۔ ( تفسیر الدرالمنشور، سورۃ النصر، تفسیر ابن ِ کثیر)
حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیات کے آخری لمحات میں اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے ہر وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ کہا کرتے تھے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم سے اس کثرتِ ذکر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سورۃ النصر کی تلاوت فرمائی ۔ (تفسیر ابن ِ کثیر سورۃ النصر، تفسیر القرطبی سورۃ النصر،چشتی)
توبۃ النصوح کا طریقہ : ⬇
علما کرام فرماتے ہیں کہ بندہ جن گناہوں کا مرتکب ہو ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ گناہ کا تعلق اور نوعیت کس طرح کی ہے، گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے یا حقوق العباد سے ۔ اگر اللہ ربّ العزت کے حقوق میں سے کوئی حق ہے جیسا کہ ترکِ نماز، ترکِ روزہ یا ترکِ زکوٰۃ وغیرہ تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے ۔ اسی طرح روزہ اور زکوٰۃ کا معاملہ ہوگا کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرے گا اسوقت تک اس کی توبہ حقیقی اور کامل نہ ہوگی ۔
اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے یعنی کسی کو ناحق قتل کیا تو اسلام میں اس کا قصاص درج ہے۔ پس اپنے آپ کو قصاص کےلیے پیش کرے اگر مقتول کے ورثا نے اس کا تقاضا کیا ہے ورنہ دیت ادا کرے ۔ اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی ہے جس سے ’’حد‘‘ لازم آتی ہے تو اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرے ۔ اگر قتل اور تہمت کے معاملات میں اسے معاف کر دیا گیا ہے تو نہایت اخلاص کے ساتھ ندامت اختیار کرے اور آئندہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرے ۔ اسی طرح چور ، ڈاکو ، زانی ، شرابی بھی توبہ کو بجا لائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کی توبہ درست ہو جائے گی ۔ اگر گناہوں کا تعلق کسی کے حقوق کی ادائیگی سے ہے اور اگر قدرت اور استطاعت رکھتا ہے تو فوراً صاحب ِحق کا حق ادا کرے اور اگر فوری ادائیگی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا پکا سچا ارادہ و عزم کرلے ۔ اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا تو فوری طور پر اس سبب ِ نقصان کو زائل کر دے مثلاً کسی کو سود پر رقم دی ہو تو سود معاف کر دے اسطرح اسکا یہ سبب ِ پریشانی و نقصان زائل ہو جائے گا پھر اپنے اس مسلمان بھائی سے معافی بھی طلب کرے اور اس کے لیے اور اپنے لئے استغفار بھی کرے اور اگر صاحبِ حق نے معاف کر دیا تو اس گناہ سے بری ہو جائے گا ۔ اسی طرح کسی کو کسی بھی طرح کا ضرر یا نقصان پہنچایا ہو یا ناحق اسے ستایا ہو تو صاحبِ حق سے نادم ہو کر معافی مانگے اور آئندہ کسی کے بھی ساتھ ایسا نہ کرنے کا عزمِ مصمم کرے اور برابر صاحب ِ حق سے معافی طلب کرے یہاں تک کہ مظلوم اسے معاف کر دے تو اس کے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے ۔ (تفسیر القرطبی)
مندرجہ بالا بَحَث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ والدین ، اساتذہ ، بزرگوں کی دل آزاری کرنا یا کسی مجبور و لاچار کی دل آزاری کرنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور والدین، اساتذہ ، بزرگوں اور مرشدِ کامل کی دل آزاری سخت گناہ میں شمار ہوتی ہے اس لیے اولاد ، طالبِ علم اور سالکین کو ان معاملات میں ان گناہوں سے بچنا چاہیے اور والدین ، اساتذہ ، بزرگوں اور مرشد کامل اکمل کی دل آزاری اور نافرمانی سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ وہ نفوس ہیں جن کی وجہ سے انسان اور اس کے ارادے و عقائد پرورش پاتے اور استحکام حاصل کرتے ہیں ۔ ان کی نافرمانی گناہ بن کر راہِ حق میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ یہی طریقہ تمام معاصی و گناہوں اور لغزشوں کا ہے ۔
طریقِ سلف الصالحین علیہم الرحمہ : ⬇
سلف الصالحین علیہم الرحمہ کی رائے مبارکہ ہے کہ جس شخص کی موت کسی نیک عمل کی ادائیگی روزہ، حج ، عمرہ یا جہاد کے دوران یا فوراً بعد واقع ہو جائے تو اللہ ربّ العزت کی رحمت ِکاملہ سے امید ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ بذاتِ خود اکابرین سلف الصالحین عمر بھر نیک اعمال کی انجام دہی میں صرف کرنے کے باوجود موت سے قبل اور بوقت آثارِ موت توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے اور اپنا عمل استغفار اور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘اور ذکر الٰہی پر ختم کیا کرتے ۔
دعوتِ توبۃ النصوح : ⬇
آج کے دور میں انسان گناہ و معصیات کے بحر عمیق میں ڈوبا ہوا ہے ۔ نفسِ بشری خطا و لغزشوں سے بچا ہوا نہیں لیکن لا تقنطومن رحمۃ اللّٰہ کے مصداق اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ہر وہ شخص جس نے گناہ و معصیت کے ذریعے اپنے نفس پر ظلم و زیادتی کی ہے اسے اللہ کریم غفور الرحیم اپنے کلام پاک میں انہیں توبہ و رجوع الی اللہ کی دعوت دے رہا ہے اور یہ اعلانِ عالی شان بھی فرما رہا ہے کہ وہ تمام گناہوں اور معصیات کی لغزشوں کو معاف کرنے والا بھی ہے قرآنِ مجید میں ربّ العالمین کا ارشادِ گرامی ہے : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذَّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْالَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ۔ (سورۃ الزمر ۔54۔53)
ترجمہ : (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ بے شک اللہ تمام گناہ بخشنے والا ہے ۔ وہی تو ہے جو تمام گناہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور تم اپنے ربّ کی طرف توبہ کرو اور اس کے اطاعت گزار بن جاؤ ۔ اس سے پہلے کہ تم پر عذاب نازل ہو تو پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا ۔
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنْ وَعمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی ۔ (سورۃ طہٰ آیت نمبر 82)
ترجمہ : اور بیشک میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس کو جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے کام کرے اور پھر اسی راہ پر قائم رہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : جس نے اس کے بعد اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا تو گویا اس نے کتاب اللہ کا انکار کیا ۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر)
حماد بن سلمہ علیہ الرحمہ جب سفیان ثوریؒ کی عیادت کے لئے آئے تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے شخص کی مغفرت فرمائے گا ؟
تو حماد بن سلمہؒ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور اپنے والدین میں سے کسی ایک کا محاسبہ اختیار کرنے کا کہا جائے تو میں اللہ کے محاسبہ کواختیار کروں گا۔ وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ میرے والدین سے زیادہ رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے ۔
امام ابنِ قدامہحنبلی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’کتاب التوابین‘‘ میں ایک نوجوان کا قصہ نقل کیا ہے کہ رجاء بن سور کہتے ہیں : ایک دن حضرت صالح علیہ الرحمہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ گفتگو فرما رہے تھے ۔ انہوں نے اپنے پاس بیٹھے ایک نوجوان سے کہا ’’اے نوجوان ! قرآن میں سے پڑھو ۔ ‘‘ اس نوجوان نے اللہ تعالیٰ کے کلام میں سے اس آیت کی تلاوت کی : وَ اَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْاَزِفَۃِ اِذَا الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کٰظِمِیْنَ ۔ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَ لَا شَفِیْعٍ یُطَاعُ ۔ (المومن۔18)
ترجمہ : اور آپ ان کو قریب آنے والی آفت کے دن سے ڈرائیں جب ضبط ِ غم سے کلیجے منہ کو آئیں گے ۔ ظالموں کے لیے نہ کوئی مہربان دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے ۔
اگر ہم میں سے کوئی وہ منظر دیکھ لے کہ جب گناہ گاروں کو زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ننگے پائوں اور برے حال جہنم کی طرف لایا جائے گا اور ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں پیلی اور جسم خوف سے پگھلے جا رہے ہوں گے اور وہ پکا رہے ہوں گے اے ہماری ہلاکت اے ہماری موت ! یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ؟ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے وہ کیسا دردناک منظر ہوگا جب ملائکہ انہیں آگ کی لگاموں کے ذریعے ہانکتے لے جارہے ہوں گے کبھی ان کو منہ کے بل گھسیٹا جا رہا ہوگا اور کبھی اس حال میں کہ وہ خون کے آنسو رورہے ہوں گے دل ان کے حیران ہونگے اور وہ خود تکلیف سے چلا رہے ہونگے اور وہ منظر اتنا ہیبت ناک او ردرد ناک ہوگا کہ کوئی آنکھ اس کو دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتی کسی دل میں اتنا حوصلہ کہاں کہ بے قرار نہ ہو قدم اس دن کی شدت کی وجہ سے بے قابو ہوں گے ۔ پھر روتے ہوئے فرمانے لگے کیا ہی برا منظر اور کیا ہی برا انجام ہوگا ۔ ان کے ساتھ سامعین بھی رونے لگے ۔ حاضرین محفل میں ایک گناہ و مستی و معصیت میں ڈوبا ہو اجوان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے امام ابن قدامہ حنبلی علیہ الرحمہ کی یہ گفتگو سن کر کہا : اے بو البشر! کیا یہ سارا کچھ جو آپ علیہ الرحمہ نے بیان کیا قیامت کے دن ہوگا ؟ شیخ نے فرمایا : ہاں ! اے میرے بھتیجے اس سے بھی بڑھ کر حالات ہوں گے ۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ آگ میں چیخ رہے ہوں گے یہاں تک کہ چیختے چیختے ان کی آواز بیٹھ جائے گی اور عذاب کی شدت کی وجہ سے صرف ایک بھنبھناہٹ باقی رہ جائے گی ۔ اس غافل جوان نے یہ سن کر ایک چیخ ماری اور کہا اے اللہ ! ہائے میری زندگی کے غفلت کے ایام اے میرے آقا و مولا ! میں نے تیری اطاعت میں کوتاہی سے کام لیا ۔ ہائے افسوس صد افسوس میں نے اپنی عمر فانی زندگی کےلیے برباد کی ۔ اس کے بعد اس نوجوان نے رونا شروع کر دیا اور قبلہ رخ ہو کر کہنے لگا ’’اے اللہ جل شانہٗ آج میں ایسی سچی توبہ (توبۃ النصوح) کے ساتھ تیری طرف رجوع کرتا ہوں اے اللہ! اگر تو میری توبہ قبول نہیں کرے گا تو یہ میری ہلاکت اور بربادی ہے ۔‘‘ اسی دوران وہ جوان بے ہوش ہو کر غشی کھا کر گر پڑا۔اسے وہاں سے منتقل کیا گیا ۔ شیخ صالح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ دنوں تک اس کی عیادت کرتے رہے پھر اس جوان کا انتقال ہو گیا ۔ اس جوان کی نمازِ جنازہ میں خلقِ خدا نے شرکت کی ۔ وہ روتے ہوئے اس کےلیے دعائے مغفرت کر رہے تھے ۔ شیخ صالح گاہے بگاہے اس جوان کا اپنی مجلس میں تذکرہ کرتے اور فرماتے ’’میرے والدین اس نوجوان پر قربان ہوں یہ قرآن کا قتیل ہے ، وعظ اور غم و حزن کا قتیل ہے یعنی اس آیت اور اس کی تفسیر نے اس نوجوان پر اتنا اثر ڈالاکہ وہ قیامت کے دہشت ناک احوال کے خوف سے جان سے گزر گیا ۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اس جوان کو خواب میں دیکھا تواس سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ اس جوان نے کہا کہ شیخ صالح علیہ الرحمہ کی مجلس کی برکت سے اللہ کی رحمت و مغفرت میرے شاملِ حال ہوئی اور میں اللہ کی وسیع رحمت کا مستحق بن گیا یعنی میری مغفرت کر دی گئی ۔
توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں ، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے ۔ تاہم شریعت نے ایسی کوئی علامت یا نشانی بیان نہیں کی جس سے انسان یقینی طور پر جان سکے کہ میری توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور وہی اس کا حقیقی علم رکھتا ہے ۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو کرقلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے ۔ حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں ، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو ۔ عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے : ندامت و شرمندگی ، ترکِ گناہ و معصیت ، توبہ پر پختہ رہنے کا عزم ، اصلاحِ احوال ، اخلاص ۔ ان شرائط کی تفصیل درج ذیل ہے : ⬇
توبہ کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے برے طور طریقوں اور اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے ۔ یہ ندامت دراصل برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے ۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ اور اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے اور اس پر عذاب کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے ۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔ ندامت ہی توبہ ہے ۔ (أحمد بن حنبل، المسند جلد 1 صفحہ 376 رقم : 3568،چشتی)
انسان اخلاص کے ساتھ حقیقی ندامت کے طفیل ایک ہی قدم میں مغفرت کی منزل پا لیتا ہے ۔ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ جب بندہ مولیٰ کی توفیق سے اپنے اعمال پر غور کرتا ہے تو اسے اپنے کیے ہوئے برے افعال پر افسوس ہوتا ہے جس سے ندامت جنم لیتی ہے۔ جب کسی سے محبت کا قلبی تعلق قائم ہو جائے تو اس کی نافرمانی کرنے سے شرم آتی ہے ۔ یہی شرم و حیا بندے کو توبہ کے دروازے پر لے جاتی ہے۔ حقیقی ندامت کی نشانی یہ ہے کہ دل میں رِقّت آجائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اِجْلِسُوْا إِلٰی التَّوَّابِيْنَ فَإِنَّهُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً ۔
ترجمہ : توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو اس لئے کہ ان کے دل سب سے زیادہ رقیق ہوتے ہیں (تاکہ اُن کی صحبت سے تمہیں بھی رقت نصیب ہو جائے) ۔ (احياء علوم الدين جلد 4 صفحہ 15)
توبہ کے عمل میں داخل ہونے کا یہ پہلا قدم ہے کہ انسان ندامت محسوس کرتے ہوئے ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کش ہو جائے ۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس سے بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ ۔ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ ۔
ترجمہ : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے ۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ (ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، 5: 434، رقم: 3334،چشتی)
حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَيْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَةُ الْکَاذِبِيْنَ ۔
ترجمہ : گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے ۔
(قشيري ، الرسالة : 95)
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : زَلَّةٌ وَّاحِدَةٌ بَعْدَ التَّوْبَةِ أَقْبَحُ مِنْ سَبْعِيْنَ قَبْلَهَا ۔
ترجمہ : توبہ کے بعد کی ایک لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے ۔ (قشيري ، الرسالة : 97)
محمد زُقاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو علی روذباری سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : گناہوں کا اعتراف، غلطیوں پر ندامت اور گناہوں کا ترک کرنا توبہ ہے ۔ (طبقات الصّوفية : 272)
زندگی ایک میدانِ عمل ہے جس میں حقیقی کامیابی عملِ صالح کے بغیر ممکن نہیں اور ترکِ گناہ کے بغیر عملِ صالح کا کوئی تصور نہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقۂ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے ۔ بیک وقت لُوٹ کھسُوٹ ، ظلم و ناانصافی ، حلق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادات کے نظام پر بھرپور توجہ بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے ۔
انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں ، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاﷲِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ ِﷲِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ وَسَوْفَ يُؤْتِ اﷲُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا ۔
ترجمہ : مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا ۔ (سورہ النساء ، 4 : 146)
اس آیت مبارکہ میں ،،الَّذِيْنَ تَابُوْا،، کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کر رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گِڑگِڑا کر اللہ رب العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے ۔ درحقیقت بندے کا اپنے سابقہ کیے گئے اعمال پر ندامت محسوس کرنا اپنے جملہ گناہوں سے رو گردانی کے مترادف ہے ۔ بندہ جب تک نادم رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی ۔
اِس ضمن میں حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ توبہ کے باب میں ایک حکایت لائے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا : اے جبرائیل ! اگر میری توبہ کی قبولیت کے بعد بھی مجھ سے اس بارے میں سوال ہوا تو میرا ٹھکانہ کیا ہو گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی : اے آدم ! آپ نے اپنی اولاد کےلیے بطور وراثت رنج و تکلیف بھی چھوڑی اور توبہ بھی ۔ ان میں سے جو مجھے پکارے گا تو میں اس کی دعا قبول کروں گا جس طرح آپ کی دعا قبول کی ہے ۔ جو مجھ سے بخشش مانگے ، میں اس سے بخل نہیں کروں گا کیونکہ میں قریب ہوں اور دعا قبول کرنے والا بھی ۔ اے آدم ! میں توبہ کرنے والوں کو قبروں سے اس طرح باہر لاؤں گا کہ وہ خوش ہوں گے اور ہنس رہے ہوں گے اور ان کی دعا قبول ہو گی ۔ (اِحياء علوم الدين، 4: 5)
محض زبان سے توبہ کرنا منافقین کا عمل ہے ۔ گناہ کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور حقیقی توبہ کے بعد بشری تقاضے کے باعث گناہ کا سر زد ہو جانا دو جدا باتیں ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے ۔ اُس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے ۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہونا ممکن ہے لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد ستر بار بھی معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی لیکن اگر کوئی لوگوں کے سامنے خود کو نیک و پارسا ظاہر کر کے دھوکہ دینے کی غرض سے توبہ کرے گا اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گا تو اس کا معاملہ جدا ہے ۔ اس لیے کہ اس نے تو علیم و خبیر رب تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) اپنے طور پر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ اگرچہ بظاہر دیکھنے میں مذکورہ دونوں افراد کا عمل ایک جیسا نظر آتا ہے کہ گناہ پر گناہ کیے جارہے ہیں مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے معاملے کے اعتبار سے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
توبہ کی یہ شرط تائب سے اگلے مرحلے کا تقاضا کرتی ہے اور وہ مرحلہ سنور جانے یعنی اصلاحِ احوال کا ہے ۔ حقیقی ندامت انسان کے اندر ایک ہمہ گیر تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ ندامت صرف توبہ کے الفاظ ادا کرنے اور خالی آنسو بہانے کا نام نہیں ۔ ندامت اور اس کے نتیجہ میں توبہ کا اختیار کر لینا احوالِ حیات کا مکمل طور پر تبدیل ہو جانا ہے ۔ جب تک توبہ کرنے والا اصلاح کی فکر نہیں کرتا وہ تائب ہی نہیں ہوتا ۔ گناہوں سے شرمندگی کے باعث آنکھوں کا اشک ریز ہونا بھی قیمت پاسکتا ہے اگر اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ، فسق و فجور ، ظلم و ناانصافی ، شہوت رانی اور ہوس پرستی جیسے جملہ رذائلِ اخلاق کلیتاً خارج ہو جائیں اور انسان گناہوں سے یکسر پاک ہو کر اطاعت و بندگی کا پیکر بن جائے ۔
توبہ کرنا کوئی معمولی فعل نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا مقام ہے جیسے کہ خود باری تعالی نے ارشاد فرمایا : اِنَّ ﷲَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ (سورہ البقرة ، 2 : 222)
حضرت ابو محمد سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا : توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب کب بنتا ہے ؟ فرماتے ہیں : جب وہ ہر اس کام سے دور ہو جائے جسے حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا ۔ جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ ، توبہ کرنے والے (ہی) عبادت کرنے والے ہیں ۔ (قوت القلوب ، 1 : 384)
یعنی توبہ بندگی سے مشروط ہے ۔ عرفاء نے تائب کےلیے بعض امور کا بجالانا ضروی قرار دیا ہے ۔ جن میں چند اہم ترین یہ ہیں : ⬇
نافرمانوں کی صحبت سے اجتناب کیا جائے ۔
تائب کو ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ۔
کسی گناہ کو بھی معمولی خیال نہ کرے اور فضول کاموں سے الگ رہے ۔
جس گناہ سے توبہ کی اس کو کچھ اس طرح یاد رکھے کہ اس گناہ کا احساس اسے پریشان رکھے تاکہ آدابِ بندگی بجا لاتا رہے اور کبھی بھی اس کی حلاوت محسوس نہ کرے بلکہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرے اور اس سے سخت نفرت کرے ۔
حقوق العباد میں سے اگر کسی سے ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کےلیے دست بہ دعا رہے ۔
صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز ، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے ۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے ۔ توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جُڑ جانے کا نام ہے ۔ گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہ گار احساسِ گناہ سے بوجھل ہو گیا ، محبوب سے شرم آنے لگی ، عفو و بخشش کی دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے ، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہے ۔
توبہ میں اخلاص احساسِ ندامت سے جنم لیتا ہے ۔ گناہ پر شرمندگی اور پشیمانی جتنی زیادہ ہوگی توبہ اتنی ہی خالص ہوگی ۔ گویا توبہ میں اخلاص کا دار و مدار بندے کے اپنے من کی سچائی پر ہے ۔ اخلاص اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ دل سے احساسِ ندامت کبھی زائل نہ ہو اور گناہ سے بندے کو طبعی نفرت ہو جائے ۔ محض زبان سے استغفار کا ورد کرتے رہنا اور دل کا اس سے غافل رہنا یا دل میں معصیت کی حسرت کا پوشیدہ ہونا کوئی توبہ نہیں ۔ ہماری توبہ کا تو یہ حال ہے : ⬇
سبحہ در کف ، توبہ بر لب ، دل پُر از ذوقِ گناہ
معصیت را خندہ می آید ز استغفارِ ما
ترجمہ : تسبیح ہاتھ میں ، توبہ کا ذکر زبان پر اور دل میں گناہ سے لطف اندوزی کا داعیہ ، ایسی توبہ پر تو معصیت بھی ہنستی ہے کہ یہ کیسی توبہ ہے ۔
توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اللہ کےلیے وقف کر دے ۔ اس کا جینا ، مرنا ، مخلوق خدا کے ساتھ ملنا ، برتنا ، اٹھنا بیٹھنا ، چلنا پھرنا ، کمانا ، خرچ کرنا اور کھانا پینا سب کا سب اللہ کےلیے ہو جائے ۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اَ لَا ِﷲِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ۔
ترجمہ : (لوگوں سے کہہ دیں) سن لو طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کےلیے ہے ۔ (سورہ الزمر ، 39:3)
احادیثِ مبارکہ سے بھی اخلاص کی وضاحت ہمیں میسر آتی ہے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَخْلِصِ دِيْنَکَ يَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ ۔ ’’اپنے دین کو خالص کرو تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا‘‘ ۔ (حاکم، المستدرک، کتاب الرقاق، 4: 341، رقم: 4844،چشتی)
صرف اللہ تعالیٰ کےلیے عبادت و بندگی کا بجا لانا اخلاص ہے ۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔ اِسے میں اُس بندے کے دل میں رکھتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں ۔ (مسد الفردوس بمأثور الخطاب ، 3 : 187 ، رقم : 4513)
لفظ عبادت اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ معاملات عبادات و عقائد سب اس میں شامل ہیں ۔ مختلف معاملات زندگی جو بظاہر دنیاداری سے متعلق نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اگر یہ سب معاملات اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بجا لائے جائیں اور اس سلسلے میں کوئی ذاتی غرض پیشِ نظر نہ ہو مثلاً نہ مخلوق سے کسی تعریف و شہرت اور ناموری کی چاہت ہو ، نہ نیک نامی اور نام نہاد بزرگی کی خواہش، تویہ سب امور دین کا حصہ قررا پائیں گے ۔ چنانچہ اخلاص کی تعریف ہی یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنا ۔ اہلِ اخلاص کے نزدیک لوگوں کی اُن کے بارے میں تعریف کرنا یا مذمت کرنا برابر ہوتا ہے ۔ اپنے اعمال نہ تو ان کی نظر میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ان سے کسی اجر و ثواب کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔ الغرض اخلاص صرف اللہ تعالیٰ کےلیے فعل کو انجام دینا ہے ۔ چنانچہ ہر وہ فعل اور کام جو کسی معاوضہ کی نیت سے کیا جائے گا ، وہ خالِص نہیں ہو گا اور اخلاص سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اخلاص بندے اور رب کے درمیان راز ہے ۔ چنانچہ بندہ اپنے عمل پر اللہ عزوجل کے سوا کسی اور کو گواہ نہ بنائے ۔ اگر کسی نے مخلوق کی خاطر کوئی عمل ترک کیا تو یہ ریا ہے اور اگر مخلوق کی خاطر کیا تو شرک ۔
کسی سائل نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : أَيُّ شَيْئٍ أَشَدُّ عَلَی النَّفْسِ ؟ فَقَالَ : الْإِخْلَاصُ، لِأَنَّهُ لَيْسَ لَهَا فِيْهِ نَصِيْبٌ ۔
ترجمہ : نفس پر کون سی چیز سب سے زیادہ گراں ہے ؟ تو فرمایا : اخلاص (یعنی اپنے ہر فعل کو اللہ کےلیے خالص کرلینا) کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ۔ (قشيری ، الرساله : 209)
جو شخص صاحبِ اَخلاص ہو جاتا ہے وہ صرف خالق کا نیازمند ہوتا ہے ۔ وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی ذرہ برابر نیکی سے بھی آگاہ ہو کر اس کی تعریف کریں اور نہ ہی اس کا اس بات سے کوئی تعلق ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہیں گے بلکہ وہ اپنا ہر عمل صرف اللہ عزوجل کی رضا کےلیے سرانجام دیتا ہے ۔
توبہ کرنے والوں کے چند نصیحت آموز واقعات : ⬇
حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے سات سے بھی زیادہ مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ واقعہ بیان فرماتے سنا ۔ بنی اسرائیل میں کِفْل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ سے نہیں بچتا تھا ، ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮨﻮ ۔ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ
ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮐﯽ ﮨﻮ ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺳﺎﭨﮫ ﺩﯾﻨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ
ﭘﺮ ﻣﺴﺘﻌﺪ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻧﯿﮏ بخت بیدِ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﮭﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺟﮭﮍﯾﺎﮞ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻓﻖ ﭘﮍﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺭﻭﻧﮕﭩﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ ، ﮐﻠﯿﺠﮧ ﺑﺎﻧﺴﻮﮞ ﺍﭼﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ، ﮐﻔﻞ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮈﺭ ، ﺧﻮﻑ ، ﺩﮨﺸﺖ ﺍﻭﺭ ﻭﺣﺸﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ؟ ﭘﺎﮎ ﺑﺎﻃﻦ ، ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻟﻨﻔﺲ ، ﺑﺎﻋﺼﻤﺖ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍﺗﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺑﺪﯾﺘﯽ ﮨﮯ ن ﻣﺠﮭﮯ اللہ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺯﺑﻮﮞ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ اللہ ﻧﮯ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﻓﻌﻞ ﺑﺪ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺎﻟﮏ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺫﻟﯿﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ۔ ﻣﻨﻌﻢِ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻣﺤﺴﻦ ﻗﺪﯾﻤﯽ
ﮐﯽ ﯾﮧ ﻧﻤﮏ ﺣﺮﺍمی ﮨﮯ ۔ ﻭاللہ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ اللہ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﮐﯽ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﺣﺎﺟﺖ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﺮ ﻭ ﻓﺎﻗﮧ ، ﮐﻢ ﺻﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍﺳﺘﻘﻼﻟﯽ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﺑﺪ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﻮﺕ ﺩﺍﻣﻦ ﭘﺮ ﺩﮬﺒﮧ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮮ ﮐﻔﻞ ! ﺑﺨﺪﺍﺋﮯ ﻻﯾﺰﺍﻝ ، ﺧﻮﻑ اللہ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﻼﺋﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﭩﮑﺎ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮐﯿﻄﺮﺡ ﮐﮭﭩﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﺁﺝ ﮐﺎ ﺩﻭ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﺎ ﻟﻄﻒ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﺗﮭﮑﻮﺍﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﺑﻨﻮﺍﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﺍﮮ ﮐﻔﻞ اللہ کےلیے ﺍﺱ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﮐﺮ ۔ ﺁﺧﺮ اللہ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻧﯿﮏ ﻧﮩﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮎ ﺑﺎﻃﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﺼﻤﺖ ﺑﺂﺏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﭘﺮ ﺍﺛﺮ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻟﻮﺙ ﻣﺨﻠﺼﺎﻧﮧ ﺳﭽﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﺧﯿﺮ ﺻﻮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﻔﻞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺟﻮ ﺑﺎﺕ ﺳﭽﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮐﺮ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﺴﻢ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ، ﻗﺪﻡ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺩﻝ ﺗﮭﺮﺍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﺳﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﻔﻞ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ . ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺎﺭﯾﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﻭ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯﻟﮕﺎ ۔ ﺍﮮ ﭘﺎﮐﺒﺎﺯ ﻋﻮﺭﺕ ! ﺗﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﮔﻨﺎﮦ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﮐﺮﺩﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮐﺒﺮﯾﺎﺋﮯ ﺫﻭﺍﻟﺠﻼﻝ ﺳﮯ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮨﮯ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺪﮐﺎﺭﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﮧ ﺍﻋﻤﺎﻟﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺴﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﺎﻣﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﺧﻮﻑ اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﮭﭩﮑﻨﮯ ﺩﯾﺎ ۔ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﮩٰﯽ ﮐﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮧ ﮐﯽ ۔ ﮨﺎﺋﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻟﮏ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻏﺼﮯ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻣﯿﺮی تاﮎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯽ ﻏﯿﻆ ﻭ ﻏﻀﺐ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﺮ ﺁﻟﻮﺩﮦ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻗﺒﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﺑﭽﮭﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﯼ نسبت زﯾﺎﺩﮦ ﮈﺭﻧﺎ ﮈﭼﺎﮨﯿﮯ ۔ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥِ ﻣﺤﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﮮ ﺑﺰﺭﮒ ﻋﻮﺭﺕ ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮦ ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔ اللہ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﭘﮭﭩﮑﻮﮞ ﮔﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﻗﻢ ﺗﻤﮩﯿﮟ اللہ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ کےلیے ﺑﺎﺯ ﺁﯾﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﮔﺮﯾﮧ ﺯﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺗﻮﺑﮧ ﻭ ﺍﺳﺘﻐﻔﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﺮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﺩﮬﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺩﺍﻣﻦ ﺍﻣﯿﺪ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮﺩﺳﺖ ﺩﻋﺎ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺍلٰہَ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺮﮐﺸﯽ ﺳﮯ ﺩﺭﮔﺰﺭ ﻓﺮﻣﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺍﻣﻦ ﻋﻔﻮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﻟﮯ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ۔ نبی کریم ﺻﻠﯽ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ۔ ﺻﺒﺢ ﮐﻮ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻗﺪﺭﺗﺎً ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ ، صبح اس کے گھر کے دروازے پر لکھا ہوا تھا : إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْلِ ، بے شک اللہ عزوجل نے کِفْل کو بخش دیا ہے ۔ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﻧﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻻﺵ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺣﻠﯿﮧ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ۔ (ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب فیہ أربعۃ أحادیث ، ۴ / ۲۲۳ ، حدیث : ۲۵۰۴)
بصرہ ميں ايک انتہائی حسين و جميل عورت رہا کرتی تھی ۔ لوگ اسے "شعوانہ" کے نام سے جانتے تھے ۔ ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی ۔ اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے وہ گائيکی اور نوحہ گری میں مشہور تھی۔ بصرہ شہر ميں خوشی اور غمی کی کوئی مجلس اس کے بغير ادھوری تصور کی جاتی تھی۔ يہی وجہ تھی کہ اس کے پاس بہت سا مال و دولت جمع ہو گيا تھا ۔ بصرہ شہر ميں فسق و فجور کے حوالے سے اس کی مثال دی جاتی تھی ۔ اس کا رہن سہن اميرانہ تھا ، وہ بيش قيمت لباس زيب تن کرتی اور گراں بہا زيورات سے بنی سنوری رہتی تھی ۔ ايک دن وہ اپنی رومی اور ترکی کنيزوں کے ساتھ کہيں جا رہی تھی ۔ راستے ميں اس کا گزر "حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ" کے گھر کے قریب سے ہوا ۔ آپ اللہ عزوجل کے برگزيدہ بندوں ميں سے تھے ۔ آپ باعمل عالم دين اور عابد و زاہد تھے ۔ آپ اپنے گھر ميں لوگوں کو وعظ ارشاد فرمايا کرتے تھے ۔ آپ کے وعظ کی تاثير سے لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی اور وہ بڑی زور زور سے آہ و بکاء شروع کر ديتے اور اللہ عزوجل کے خوف سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑياں لگ جاتيں ۔ جب "شعوانہ" نامی وہ عورت وہاں سے گزرنے لگی تو اس نے گھر سے آہ و فغاں کی آوازيں سنيں ۔ آوازيں سن کر اسے بہت غصہ آيا ۔ وہ اپنی کنيزوں سے کہنے لگی : تعجب کی بات ہے کہ يہاں نوحہ کیا جا رہا ہے اور مجھے اس کی خبر تک نہيں دی گئی ۔ پھر اس نے ايک خادمہ کو گھر کے حالات معلوم کرنے کےليے اندر بھیج ديا ۔ وہ لونڈی اندر گئی اور اندر کے حالات ديکھ کر اس پر بھی خدا عزوجل کا خوف طاری ہوگيا اور وہ وہيں بيٹھ گئی ۔ جب وہ واپس نہ آئی تو شعوانہ نے کافی انتظار کے بعد دوسری اور پھر تيسری لونڈی کو اندر بھیجا مگر وہ بھی واپس نہ لوٹيں ۔ پھر اس نے چوتھی خادمہ کو اندر بھیجا جو تھوڑی دير بعد واپس لوٹ آئی اور اس نے بتايا کہ گھر ميں کسی کے مرنے پر ماتم نہيں ہو رہا بلکہ اپنے گناہوں پر آہ وبکاء کی جا رہی ہے ، لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ عزوجل کے خوف سے رو رہے ہيں ۔ شعوانہ نے يہ سنا تو ہنس دی اور ان کا مذاق اڑانے کی نيت سے گھر کے اندر داخل ہو گئی ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جونہی وہ اندر داخل ہوئی اللہ عزوجل نے اس کے دل کو پھیر ديا ۔ جب اس نے حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ کو ديکھا تو دل ميں کہنے لگی : افسوس! ميری تو ساری عمر ضائع ہو گئی، ميں نے انمول زندگی گناہوں ميں اکارت کر دی، وہ ميرے گناہوں کو کیونکر معاف فرمائے گا ؟
انہی خيالات سے پريشان ہو کر اس نے حضرت صالح المری علیہ الرحمۃ سے پوچھا : اے امام المسلمين ! کيا اللہ عزوجل نافرمانوں اور سرکشوں کے گناہ بھی معاف فرما ديتا ہے ؟
آپ نے فرمايا : ہاں ! يہ وعظ و نصيحت اور وعدے وعيديں سب انہی کےليے تو ہيں تاکہ وہ سيدھے راستے پر آ جائيں ۔ اس پر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو وہ کہنے لگی : ميرے گناہ تو آسمان کے ستاروں اور سمندر کی جھاگ سے بھی زيادہ ہيں ۔
آپ نے فرمايا : کوئی بات نہيں! اگر تيرے گناہ شعوانہ سے بھی زيادہ ہوں تو بھی اللہ عزوجل معاف فرمادے گا ۔
يہ سن کر وہ چيخ پڑی اور رونا شروع کر ديا اور اتنا روئی کہ اس پر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔ تھوڑی دير بعد جب اسے ہوش آيا تو کہنے لگی : حضرت ! ميں ہی وہ شعوانہ ہوں جس کے گناہوں کی مثاليں دی جاتی ہيں ۔
پھر اس نے اپنا قيمتی لباس اور گراں قدر زيور اتار کر پرانا سا لباس پہن ليا اور گناہوں سے کمايا ہوا سارا مال غرباء میں تقسیم کر ديا اوراپنے تمام غلام اور خادمائيں بھی آزاد کر ديں ۔ پھر اپنے گھر ميں مقيد ہو کر بيٹھ گئی ۔ اس کے بعد وہ شب و روز اللہ عزوجل ، کی عبادت ميں مصروف رہتی اور اپنے گناہوں پر روتی رہتی اور ان کی معافی مانگتی رہتی ۔ رو رو کر رب عزوجل کی بارگاہ ميں التجائيں کرتی : اے توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھنے والے اور گنہگاروں کو معاف فرمانے والے ! مجھ پر رحم فرما ، ميں کمزور ہوں تيرے عذاب کی سختيوں کو برداشت نہيں کر سکتی ، تو مجھے اپنے عذاب سے بچا لے اور مجھے اپنی زيارت سے مشرف فرما ۔ اس نے اسی حالت ميں چاليس سال زندگی بسر کی اور انتقال کر گئی ۔ (حکايات الصالحين صفحہ ۷۴)
ایک دن حضرت سَیِّدُنا مَنْصُوربن عمّار علیہ الرحمہ لوگوں کو وَعْظ ونصیحت کرنے کےلیے مِنْبر پرتشریف لائے اورانہیں عذابِِ اِلٰہی سے ڈرانے اور گُناہوں پر ڈانٹنے لگے ۔ قریب تھاکہ لوگ شِدَّتِ اِضْطِراب سے تَڑپ تَڑپ کر مَرجاتے ۔ اس محفل میں ایک گُنہگار نوجوان بھی مَوْجُود تھا ، جو اپنے گُناہوں کی وَجہ سے قَبْر میں اُترنے کے مُتَعَلِّق کافی پریشان تھا ۔ جب وہ آپ علیہ الرحمہ کے اِجتماع سے واپس گیا تو یُوں لگتاتھا جیسے بیان اس کے دل پر بہت زِیادہ اَثْراَنداز ہو چُکا ہو ۔ وہ اپنے گُناہوں پر نادِم ہو کر اپنی ماں کی خِدْمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے میری امّی جان! آپ چاہتی تھیں کہ میں شیطانی لَہْو و لَعِب اور اللہ عزوجل کی نافرمانی چھوڑ دوں ، لہٰذا آج سے میں اسے تَرک کرتا ہوں ۔ اوراس نے اپنی امّی جان کو یہ بھی بتایا کہ میں حضرت سیِّدُنا مَنْصُور بن عمّار علیہ الرحمہ کے اِجتماعِ پاک میں حاضر ہوا اور اپنے گُناہوں پر بہت نادِم ہوا ۔ چُنانچہ ، ماں نے کہا : اے میرے بیٹے ! تمام خُوبیاں اللہ عزوجل کےلیے ہیں ، جس نے تجھے بڑے اچھے اَنداز سے اپنی بارگاہ کی طرف لوٹایا اور گُناہوں کی بیماری سے شِفا عَطا فرمائی اور مجھے قَوِی اُمید ہے کہ اللہ عزوجل میرے تجھ پر رونے کے سبب تجھ پر ضَرور رَحم فرمائے گا اور تجھے قَبول فرماکر تجھ پر اِحْسان فرمائے گا ، پھر اس نے پوچھا : اے بیٹے ! نصیحت بھرا بیان سُنتے وَقْت تیرا کیا حال تھا ؟ تو اس نے جواب میں چند اَشْعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے : میں نے توبہ کےلیے اپنا دامن پھیلا دیا ہے اوراپنے آپ کو مَلامت کرتے ہوئے مُطِیْع و فرماں بردار بن گیا ہوں ۔ جب بیان کرنے والے نے میرے دِل کو اِطاعتِ خُداوَنْدی کی طرف بُلایا تو میرے دل کے تمام قُفْل (یعنی تالے) کُھل گئے ۔ اے میری امّی جان ! کیا میرا مالک ومولیٰ عزوجل میری گُنا ہوں بھری زِنْدگی کے باوُجُود مجھے قَبول فرمالے گا ۔ ہائے اَفْسوس!اگر میرا مالک مجھے ناکام و نامُراد واپس لوٹا دے یا اپنی بارگاہ میں حاضِر ہونے سے روک دے تو میں ہَلاک ہو جاؤں گا ۔ پھر وہ نوجوان دن کو روزے رکھتا اور راتوں کو قِیام کرتا ، یہاں تک کہ اس کا جسم لاغَر و کمزور ہو گیا ، گوشت جَھڑ گیا ، ہڈیاں خُشک ہو گئیں اور رَنگ زَرْد ہو گیا ۔ ایک دن اس کی والدۂ مُحترمہ اس کےلیے پیالے میں سَتُّو لے کر آئی اور اِصْرار کرتے ہوئے کہا : میں تجھے اللہ عزوجل کی قسم دے کر کہتی ہوں کہ یہ پی لو ، تمہاراجسم بہت مَشَقَّت اُٹھا چکا ہے ۔ چنانچہ ، ماں کی بات مانتے ہوئے جب اس نے پیالہ ہاتھ میں لیا تو بے چینی و پریشانی سے رونے لگا اور اللہ عزوجل کےاس فرمانِ عالیشان کو یاد کرنے لگا : یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ ۔ ترجمہ : بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گُھونٹ لے گا اور گلے سے نیچے اُتارنے کی اُمّید نہ ہوگی ۔ پھر اس نے زور زور سے رونا شُروع کر دیا اور زمین پر گِر گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا طائرِ رُوْح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گیا۔(حکایتیں اور نصیحتیں صفحہ ۳۶۳،چشتی)
حضرت رَبیعہ بن عُثمان تیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ایک شخص بہت زِیادہ گُناہ گار تھا،اس کے شب و روز اللہ عزوجل کی نافرمانی میں گُزرتے ۔ وہ گُناہوں کے گہرے سَمُنْدر میں غَرق تھا ۔ پھر اللہ عزوجل نے اس کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرمایا اوراس کے دِل میں اِحساس پیدا فرمایا کہ اپنے آپ پر غور کر ، تُو کس رَوِش پر چل رہا ہے ، اللہ عزوجل جب اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ کرتاہے تو اسے اِحساس اور گُناہوں پر نَدامت کی توفیق عَطا فرما دیتا ہے ، اس پر بھی اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور اسے اپنے گُناہوں پر شَرمِنْدَگی ہوئی ، غَفْلَت کے پردے آنکھوں سے ہَٹْ گئے ۔ سوچنے لگا کہ بہت گُناہ ہو گئے ، اب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کر لینی چاہیے ۔ چنانچہ اس نے اپنی زَوْجہ سے کہا : میں اپنے سابقہ تمام گُناہوں پر نادِم ہوں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ، وہ رحیم و کریم میرے گُناہوں کو ضَرور مُعاف فرمائے گا ۔ میں اب کسی ایسی ہَسْتی کی تلاش میں جارہا ہوں جو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سِفارِش کرے ۔ اتنا کہنے کے بعد وہ شخص صحراء کی طرف چل دیا ۔ جب ایک وِیران جگہ پہنچا تو زور زور سے پُکارنے لگا : اے زمین ! تُواللہ عزوجل کی بارگاہ میں میرے لیے شَفیع بن جا ، اے آسمان !تُو میرا شَفیع بن جا ، اے اللہ عزوجل کے مَعْصُوم فرشتو ! تم ہی میری سِفارِش کردو ۔ وہ زاروقطار روتا رہا اور اسی طرح صَدائیں بُلند کرتا رہا ۔ ہر ہر چیز سے کہتا کہ تم میری سفارش کرو ، میں اب اپنے گُناہوں پر شرمندہ ہوں اورسچے دل سے تائب ہو گیا ہوں ۔ وہ شخص مُسلسل اسی طرح پُکارتا رہا ، بالآخر روتے روتے بے ہوش ہو کر زمین پر مُنہ کے بَل گِر گیا ، اس کی اس طرح سے آہ وزاری اور گُناہوں پر نَدامت کا یہ اَنداز مقبول ہوا اوراس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا گیا ، جس نے اسے اُٹھایا اور اس کے سر سے گَرد وغیرہ صاف کی اور کہا : اے اللہ عزوجل کے بندے ! تیرے لیے خُوشخبری ہے کہ تیری توبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں قَبول ہو گئی ہے ۔ اس پر وہ بہت خُوش ہوا اور کہنے لگا : اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ، اللہ عزوجل کی بارگاہ میں میری سِفارِش کون کرے گا ؟ وہاں میرا شفیع کون ہوگا ؟ فرشتے نے جواب دیا : تیرا اللہ عزوجل سے ڈرنا ، یہ ایک ایسا عمل ہے جو تیرا شفیع ہوگا اور تیرا یہی عمل بارگاہِ خُداوَنْدی میں تیری سِفارِش کرے گا ۔ (عیون الحکایات صفحہ ۱۷۳،چشتی)
حضرت عبدُ اللہ بن مُبارَک علیہ الرحمہ ایک عام سے نوجوان تھے ، آپ علیہ الرحمہ کوایک کنیز سے عِشْق ہو گیا تھا اور مُعامَلہ کافی طُول پکڑ چُکا تھا ۔سخت سردیوں کے موسِم میں ایک بار دِیدار کے اِنتِظار میں اس کنیز کے مکان کے باہَر ساری رات کھڑے رہے یہاں تک کہ صُبح ہو گئی ۔ رات بے کا ر گُزرنے پر دل میں مَلامت (شرمندگی) کی کَیفیَّت پیدا ہو ئی اور اس بات کا شِدَّت سے اِحْساس ہوا کہ اس کنیز کے پیچھے ساری رات برباد کر دی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا ، کاش ! یہ رات عِبادت میں گُزاری ہوتی ۔ اس تصوُّر سے دل کی دنیا زَیر وزَبَر ہو گئی اور آپ علیہ الرحمہ کے قلب میں مَدَنی انقِلاب برپا ہو گیا ۔ آپ علیہ الرحمہ نے خالِص توبہ فرمائی ، کنیز کی مَحَبَّت سے جان چُھڑائی ، اپنے اللہ عزوجل سے لَو لگائی اورقلیل ہی عرصے میں وِلایَت کی اَعْلیٰ مَنْزِل پائی اور اللہ عزوجل نے شان اِس قَدربڑھائی کہ ایک بار والِدۂ ماجِدہ علیہا الرحمہ ، آپ علیہ الرحمہ کی تلاش میں نکلیں تو ایک باغ میں گُلْبُن یعنی گُلاب کے پودے کے نیچے آپ علیہ الرحمہ کو اس طرح مَحوِ خواب (یعنی سوتا) مُلاحَظَہ کیا کہ ایک سانپ مُنْہ میں نَرگِس کی ٹہنی لیے مَگس رانی کر رہا ہے یعنی آپ کے وُجُودِ مَسْعُود پر سے مکّھیاں اُڑا رہا ہے ۔ (تذکرۃ الاولیاء جلد ۱ صفحہ ۱۶۶،چشتی)
حضرتِ صالح مُرِّی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سِتار (ایک قسم کا باجا) بجانے والی ایک لڑکی کسی قارِیٔ قرآن کے پاس سے گُزری جو یہ آیت ِمُبارَکہ تِلاوت کر رہا تھا : وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ ۔ (پ۱۰،التوبۃ:۴۹)
تَرْجَمَہ : اور بےشک جہنّم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو ۔
آیتِ مُبارَکہ سنتے ہی لڑکی نے سِتار پھینکا ، ایک زور دار چیخ مار ی اور بے ہوش ہو کر زمین پر گِر گئی ۔ جب اِفاقہ ہوا تو سِتار توڑ کر عِبادت و رِیاضت میں ایسی مشغول ہو ئی کہ عابدہ وزاہدہ مَشہور ہوگئی ۔ ایک دن میں نے اُس سے کہا کہ ’’اپنے آپ پر نرمی کر ۔ ‘‘یہ سُن کر روتے ہوئے بولی : کاش ! مجھے معلوم ہو جائے کہ جہنّمی اپنی قبروں سے کیسے نکلیں گے ؟ پُلِ صِراط کیسے عُبور کریں گے ؟ قِیامت کی ہولناکیوں سے کیسے نَجات پائیں گے ؟ کھولتے ہوئے گر م پانی کے گُھونٹ کیسے پئیں گے ؟ اور اللہ عزوجل کے غَضَب کو کیسے برداشت کریں گے ؟ اتنا کہہ کر پھربے ہوش ہوکر گِر پڑی ۔ جب اِفاقہ ہوا تو بارگاہِ خُداوَندی میں یُوں عرض گُزار ہوئی : یااللہ عزوجل میں نے جوانی میں تیری نافرمانی کی اور اب کمزوری کی حالت میں تیری اِطاعت کر رہی ہوں،کیا تُو میری عبادت قُبول فرما لے گا؟‘‘پھر اس نے ایک آہِ سَردْ، دِلِ پُردَرْدْسے کھینچی اور کہا:’’آہ! کل بروزِ قیامت کتنے لوگوں کے عیب کُھل جائیں گے ۔‘‘پھر اس نے ایک چیخ ماری اورایسے دَرْد بھرے اَنداز میں روئی کہ وہاں مَوْجُود سب لوگ اُس کی شِدَّتِ گریہ وزاری سے بے ہوش ہو گئے ۔ (الروض الفائق صفحہ ۱۴۸)
حضرت ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : سردیوں کے دن تھے ، میں مسجِد کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا کہ قریب سے ایک شخص گُزرا ، جس نے دو گُدڑِیاں اَوڑھ رکھی تھیں ۔ میرے دِل میں بات آئی کہ شاید یہ بِھکاری ہے ، کیا ہی اچّھا ہوتا کہ یہ اپنے ہاتھ سے کَما کر کھاتا ۔ جب میں سویا تو خواب میں دو فرشتے آئےمجھے بازو سے پکڑا اور اُسی مسجد میں لے گئے ۔ وہاں ایک شخص دوگُدڑِیاں اَوڑھے سو رہا ہے ، جب اس کے چہرے سے گُدڑِی ہَٹائی گئی تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ یہ تو وُہی شخص ہے جو میرے قریب سے گُزرا تھا ۔ فرشتو ں نے مجھ سے کہا : اِس کا گوشت کھاؤ ۔ میں نے کہا : میں نے اس کی کوئی غیبت تو نہیں کی ۔ کہا : کیوں نہیں ! تُو نے دل میں اس کی غیبت کی ، اس کو حقیر جانا اور اس سے ناخُوش ہوا ۔ حضرت ابراہیم آجُرِی کبیر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : پھر میری آنکھ کُھل گئی ، خوف کی وَجہ سے مجھ پر لَرزَہ طاری تھا ، میں مُسَلْسَل تیس (30) دن اُسی مسجد کے دروازے پربیٹھا رہا ، صِرْف فرض نماز کےلیے وہاں سے اُٹھتا ۔ میں دُعا کرتا رہا کہ دوبارہ وہ شخص مجھے نظر آ جائے تاکہ اس سے مُعافی مانگو ں ۔ ایک ماہ بعد وہ پُراَسرار شخص مجھے نظر آ گیا ، پہلے کی طرح اُس کے جسم پر دو گُدڑِیاں تھیں ۔ میں فوراً اس کی طرف لَپکا ، مجھے دیکھ کر وہ تیز تیز چلنے لگا ، میں بھی پیچھے ہو لیا ۔ آخِر کار میں نے اُس کو پُکار کر کہا : اے اللہ عزوجل کے بندے ! میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ اُس نے کہا : اے ابراہیم ! کیا تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو دِل کے اَندر مومنین کی غیبت کرتے ہیں ؟ اس کے مُنہ سے اپنے بارے میں غیب کی خَبر سُن کر میں بے ہوش ہوکر گِر پڑا ۔ جب ہوش آیاتو وہ شخص میرے سِرہانے کھڑا تھا ۔ اُس نے کہا : کیا دوبارہ ایسا کرو گے ؟ میں نے کہا : نہیں ، اب کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا ۔ پھر وہ پُراَسرار شخص میری نظروں سے اَوجَھل ہو گیا اور دوبارہ کبھی نظر نہ آیا ۔ (عُیونُ الْحِکایات عربی صفحہ ۲۱۲)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment