Monday, 22 April 2024

بدعت کی تعریف ، معنیٰ ، مفہوم اور اقسام

بدعت کی تعریف ، معنیٰ ، مفہوم اور اقسام

محترم قارئینِ کرام : بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں ، وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ حیاتِ ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہو‏ئے ۔ بدعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے ۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ ، اَصل ، مثال ، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ، یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں ۔ امام ابنِ حجر عسقلان رحمۃ اللہ علیہ ، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں : البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق ۔
ترجمہ : بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو ۔ (فتح الباری جلد 4 صفحہ 253)

قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ عزوجل ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے : بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ ۔ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 117)
ترجمہ : نیا پیدا کرنے والا آسمانوں اور زمین کا اور جب کسی بات کا حکم فرمائے تو اس سے یہی فرماتا ہے کہ ہو جا وہ فورًا ہو جاتی ہے ۔

ابداع اور بدعت کا معنی : اللہ تعالیٰ نے ” بدیع “ فرمایا ہے یہ لفظ ” بدع “ سے بنا ہے ۔ علامہ راغب اصفہانی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کسی صنعت کو کسی کی اقتداء اور پیروی کئے بغیر بنانا ‘ (یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی چیز کو بغیر مثال اور نمونہ کے بنانا) جو نیا کنواں کھودا ہو ‘ اس کو ” رکیتہ بدیع “ کہتے ہیں اور جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کا معنی ہے : کسی چیز کو بغیر آلہ ‘ بغیر مادہ اور بغیر نمونہ کے بنانے والا ‘ اور مذہب میں بدعت کا معنی ہے : کسی ایسے قول کو وارد کرنا جس کے قائل اور فاعل نے صاحب شریعت کی اتباع نہ کی ہو ‘ اور نہ اس کو سابقہ شرعی مثالوں اور شرعی قواعد سے مستنبط کیا ہو ‘ اس کے متعلق حدیث میں ہے : (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں ہے۔ (المفردات صفحہ ٣٩ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ایران ١٣٤٢ ھ،چشتی)

اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی ، روحانی اور اخلاقی اُمور ، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہو گا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو ۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کےلیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے : ⏬

(1) دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو ۔

(2) نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے ۔

بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : ⏬

امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : المحدثه والمراد بها ما أحدث ، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا ۔
ترجمہ : محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو ۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں ۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 253،چشتی)

امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ متوفی 1014 ھ مرقات شرح مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں امام نووی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں  : قال النووی البدعۃ کل شئے عمل علی غیر مثال سبق ۔
ترجمہ : یعنی بدعت وہ کام ہے جو بغیر گذری مثال کے کیا جائے ـ

نتیجہ یہ نکلا کہ بدعت شرعی دو طرح کی ہوئی ـ بدعت اعتقادی ، اور بدعت عملی ، بدعت اعتقادی ان برے عقائد کو کہتے ہیں جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانہ پاک کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے اور بدعت عملی ہر وہ کام ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظاہرہ زمانہ مبارک کے بعد ایجاد ہوا ـ

مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ و سلم ۔
ترجمہ : یعنی بدعت شریعت میں اس کام کا ایجاد کرنا ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو ـ

بدعت دو طرح کی ہے ـ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ـ پھر بدعت حسنہ تین طرح کی ہے ، بدعت جائز ، بدعت مستحب ، بدعت واجب ، اور بدعت سیئہ دو طرح کی ہے ـ بدعت مکروہ ، اور بدعت حرام ، اس تقسیم کے لئے حوالہ ملاخطہ ہو ـ

مرقات شرح مشکوۃ میں امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص منہ البعض ہے ـ شیخ عز الدین بن عبد السلام " کتاب القوائد " کے آخر میں لکھتے ہیں کہ :  بدعت یا تو واجب ہے جیسے علم نحو کا پڑھنا (تاکہ قرآن و حدیث کو سمجھا جا سکے) اور اصول فقہ کا جمع کرنا ، اور حدیث کے راوی میں جرح و تعدیل کرنا ، اور یا حرام ہے ـ جیسے جبریہ و قدریہ وغیرہ کا مذہب ، اور ایسے نو ایجاد گمراہ فرقوں کا رد کرنا بھی بدعت واجبہ ہے کیونکہ شریعت کو ان بدعات اور نئے مذہبوں سے بچانا فرض کفایہ ہے ، اور یا مستحب ہے ، جیسے مسافر خانے ، اور مدرسے بنانا، اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی ، اور جیسے عام جماعت سے نماز تراویح پڑھنا ، اور صوفیاء کرام کی باریک باتوں میں کلام کرنا ، اور یا مکروہ ہے ـ جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا مباح ہے ، جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا ، اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں اور مکانوں کو وسعت دینا ـ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : جو نیا کام کتاب و سنت یا اثر و اجماع کے مخالف ہو تو وہ گمراہی ہے ، اور جو ایسا اچھا کام نیا ایجاد کیا جائے کہ کتاب و سنت ، اثر و اجماع کے خلاف نہ ہو ، تو وہ مذموم و برا نہیں ـ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت تراویح ادا کرنے کے بارے میں بارے میں فرمایا تھا ـ کہ یہ کام ہے تو نیا مگر اچھا ہے ـ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : مسلمان جس کام کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے ـ اور حدیث مرفوع میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ـ

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی ـ
ترجمہ : جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کےلیے لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی ـ (صحیح مسلم ، جلد 2 ، صفحہ نمبر 341،چشتی)

اس حدیث شریف کی شرح میں امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثوں اس بات پر رغبت دلانے میں صریح ہیں کہ اچھے کاموں کا ایجاد کرنا مستحب ہے ـ اور برے کاموں کا ایجاد کرنا حرام ہے ـ اور یہ کہ جو کوئی کسی اچھے کام کو ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے اجر کی مثل اس ایجاد کنندہ کو ملے گا ، اور جو کوئی برا کام ایجاد کرے تو قیامت تک جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان سب کے گناہ کی مثل اسکے نامہ اعمال میں درج ہوگا ـ

امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم عارف باللہ امام عبد الغنی نابلسی متوفی 1143 ھ مطابق 1730 ء رحمۃ اللہ علیہ " الحدیقۃ الندیّہ شرح الطریقۃ المحمدیّہ " میں فرماتے ہیں : بعض علماء سے ان عمارتوں کے متعاق سوال کیا گیا جو کہ کعبہ کے اردگرد تعمیر کی گئی ہیں جن میں چاروں مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھا کرتے ہیں کہ یہ طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ تھا یو نہی تابعین ، تبع تابعین ، اور ائمہ اربعہ کے عہد میں بھی نہ تھا اور ان حضرات نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کو طلب کیا تھا ـ تو انہوں نے جواب دیا کہ : یہ بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے سیئہ نہیں ، کیونکہ سنت (طریقہ) حسنہ میں داخل ہے ـ کہ اس سے مسجد اور نمازیوں اور عام اہل سنت و جماعت کو کوئی ضرر اور حرج نہیں ـ بلکہ بارش اور گرمی و سردی میں اس سے فائدہ پہنچتا ہے ـ اور جمعہ وغیرہ میں یہ امام سے قریب ہونے کا ذریعہ بھی ہے ـ تو یہ بدعت حسنہ ہے اور لوگوں کے اس فعل کو " سنّۃ حسنہ " کہا جائے گا ـ اگرچہ یہ اہلسنت کی بدعت ہے ، مگر اہل بدعت کی بدعت نہیں ـ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ سنّۃ حسنۃ الخ ـ تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نےاس کی ایجاد کردہ حسنہ کو سنت میں داخل اور شمار فرمایا ـ مگر اس کے ساتھ " بدعت " کو بھی ملایا اور اگرچہ وہ نو پیدا اچھا کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فعل میں تو وارد نہیں ہوا مگر اس حدیث کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قول میں تو وارد ہو چکا ہے ـ لہٰذا کسی ایسے اچھے کام کا ایجاد کرنیوالا سنّی ہے بدعتی نہیں ـ کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے کام کو " سنّۃ " قرار دیا ہے ـ

مذکورہ بالا تعریفات سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل ، شرعی اصل ، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے ، لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متصادم ہو ۔

اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے ، مشہور غیر ُمقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی کا قول اہلحدیث عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها، والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة، بل هی مباح الأصل ۔
ترجمہ : بدعت ضلالہ جو کہ حرام ہے وہ ہے جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اور جس بدعت سے کوئی سنت نہ چھوٹے وہ بدعت نہیں ہے بلکہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (ھدية المهدی صفحہ 117)

علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان (تروایح کی جماعت) کے متعلق فرمایا ” نعم البدعۃ ھذہ “ یہ کیا اچھی بدعت ہے “۔ (صحیح بخاری جلد ١ صفحہ ٢٦٩) ۔ بدعت کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک بدعت ہدایت ہے اور ایک بدعت ضلال ہے ‘ جو چیز اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو وہ مذموم اور واجب الانکار ہے ‘ اور جو چیز کسی ایسے عموم کے تحت داخل ہو جس کو اللہ اور اس کے رسول نے پسند فرمایا ہو اور اس کی طرف رغبت دلائی ہو وہ مستحسن ہے اور لائق تعریف ہے ‘ اور جس چیز کا پہلے کوئی نمونہ نہ ہو جیسے جودوسخا کی اقسام اور نیک کاموں کے ایجاد کےلیے ثواب بیان کیا ہے ‘ آپ نے فرمایا : جس نے کسی نیک کام کو ایجاد کیا اس کو خود بھی اس نیکی اجر ملے گا اور اس نیکی پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا ۔ (صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ٣٢٧،چشتی)(مسند احمد جلد ٤ صفحہ ٣٥٧) ۔ اور جو کسی برے کام کو ایجاد کرے اس کےلیے عذاب کو بیان کیا ہے ‘ آپ نے فرمایا : جس نے کسی برے کام کو ایجاد کیا اس کو اپنی برائی کا بھی گناہ ہوگا اور اس برائی پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب وہ کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو ‘ اور بدعت ہدایت میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا (تراویح کی جماعت کےلیے) یہ فرمانا ہے :” نعم البدعۃ ھذہ “ جب کہ تراویح کی جماعت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کےلیے سنت نہیں قرار دیا ‘ آپ نے تین راتیں تراویح پڑھیں ‘ پھر اس کو ترک کردیا آپ نے اس کی حفاظت نہیں کی اور نہ مسلمانوں کو اس کے لئے جمع کیا اور نہ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تھی ‘ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت کو قائم کیا اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی ‘ اس اعتبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدعت فرمایا اور چونکہ یہ نیک کاموں میں سے ہے اور لائق تعریف عمل ہے اس لیے اس کی مدح کی اور فرمایا : کیا ہی اچھی بدعت ہے ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدعت کہا لیکن درحقیقت یہ سنت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث کے تحت داخل ہے : تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے ۔ (جامع ترمذی صفحہ ٣٨٣)(سنن ابن ماجہ صفحہ ٥،چشتی)(سنن دارمی صفحہ ٤٣)(مسند احمد جلد ٤ صفحہ ١٢٧۔ ١٢٦) ۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جو میرے بعد ہیں ان کی اتباع کرو ۔ (طبرانی بحوالہ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٥٣) اسی تاویل کے مطابق اس حدیث کو محمول کیا جائے گا جس میں ہے : ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ (صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ٢٨٥) ۔ اس سے مراد وہ بدعت ہے جو اصول شریعت کے مخالف ہو اور سنت کے موافق نہ ہو ‘ بدعت کا زیادہ استعمال بدعت مذمومہ میں ہی ہوتا ہے ۔ (نہایہ جلد ١ صفحہ ١٠٧۔ ١٠٦ مطبوعہ موسسۃ مطبوعاتی ایران ١٣٦٤ ھ)

امام یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بدعت کی پانچ اقسام ہیں ‘ واجبہ ‘ مستحبہ ‘ محرمہ ’ مکروہ اور مباحہ ‘ بدعت واجبہ کی مثال ہے متکلمین کے وہ دلائل جو انہوں نے ملحدوں اور بدعتیوں کے رد پر قائم کئے ہیں اور اس کی امثال ‘ بدعت مستحبہ کی مثال ہے : علم کی کتابوں کو تصنیف کرنا ‘ دینی مدارس اور سرائے وغیرہ بنانا ‘ بدعت مباحہ کی مثال ہے : لباس اور طعام میں وسعت کو اختیار کرنا ‘ بدعت حرام اور مکروہ ظاہر ہیں ‘ میں نے ” تہذیب الاسماء واللغات “ میں اس کی تفصیل کی ہے ۔ (شرح مسلم جلد ١ صفحہ ٢٨٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ١٣٧٥ ھ)

علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے جس تفصیل کا حوالہ دیا ہے اس کے متعلق انہوں نے ” تہذیب الاسماء واللغات “ میں لکھا ہے : بدعت واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے ‘ قرآن اور حدیث کے معانی جاننے کےلیے علم لغت کو حاصل کرنا ‘ علم فقہ کو مرتب کرنا ‘ سند حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا ‘ تاکہ صحیح اور صعیف حدیث میں امتیاز حاصل ہو سکے ‘ بدعت محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ ‘ جبریہ ‘ اور مجسمہ کے نظریات (اسی طرح شعیہ ‘ وہابیہ اور منکرین حدیث کے نظریات) اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعت واجبہ میں داخل ہے ۔ بدعت مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : سرائے اور مدارس بنانا ‘ ہر وہ اصلاحی اور فلاحی کام جو عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نہیں تھا ‘ تراویح کی جماعت ‘ تصوف کی دقیق ابحاث ‘ بدعقیدہ فرقوں سے مناظرے کرنا اور جلسے منعقد کرنا (قرآن مجید کے اعراب ‘ مصحف شریف میں سورتوں کے نام ‘ آیات کی تعداد اور رکوعات کا لکھنا ‘ قرآن مجید اور ” صحیح بخاری “ کو پاروں میں تقسیم کرنا اور مسجد میں محراب بنانا وغیرہ) بدعت مکروہہ ‘ مساجد کو مزین کرنا ‘ مصحف کو سجانا (عصر کے بعد التزام سے مصافحہ کرنا ‘ کسی مستحب کام کے ساتھ واجب اور لازم کا معاملہ کرنا ‘ کسی مستحب کام پر ملامت کرنا) بدعت مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : کھانے اور لباس میں وسعت کو اختیار کرنا ‘ سبز چادریں اوڑھنا ‘ کھلی آستنوں کی قمیص پہننا وغیرہ ۔ (تہذیب الاسماء واللغات جلد ١ صفحہ ٢٣ ۔ ١٢ مطبوعہ موسسۃ مطبوعات ایران ١٣٦٤ ھ)

علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بدعت کی پانچ اقسام ذکر کی ہیں ۔ (فتح الباری جلد ٤ صفحہ ٢٥٣ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور ١٤٠١ ھ)

علامہ قرطبی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل سے بدعت کی دو قسمیں ذکر کی ہیں بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ جس طرح علامہ جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن جلد ٢ صفحہ ٨٧ ۔ ٨٦ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ١٣٨٧ ھ)

امام ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی علامہ نووی کی ” تہذیب الاسماء “ علامہ مناوی کی ” شرح الجامع الصغیر “ اور برکلی کی ” کی ” الطریقۃ المحمدیہ “ کے حوالے سے بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں اور بدعت سیۂ کی یہ تعریف کی ہے : جو نیا عقیدہ یا نیا عمل یا نیا حال کسی شبہ یا کسی استحسان کی وجہ سے اختراع کیا گیا ہو اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے خلاف ہو اور اس کو صراط مستقیم اور دین قویم بنالیا گیا ہو ۔ (رد المختار جلد ١ صفحہ ٣٧٧ ۔ ٣٧٦ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت ١٤٠٧ ھ)

علماء دیوبند کے مشہور عالم شیخ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی (رح) کے حوالے سے بدعت کی پانچ مشہور اقسام لکھی ہیں ۔ (فتح الملہم جلد ٢ صفحہ ٤٠٦ مطبوعہ مکتبہ الحجاز کراچی)

مشہور غیر مقلد عالم شیخ وحید الزمان نے چار قسمیں لکھی ہیں ‘ بدعت مباحہ ‘ بدعت مکروہہ ‘ بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ ۔ (ہدیۃ المھدی صفحہ ١١٧ مطبوعہ میور پریس ‘ دہلی ‘ ١٣٢٥ ھ)

اور مشہور نجدی عالم شیخ محمد بن علی شوکانی نے ” فتح الباری “ سے نقل کرکے بدعت کی پانچ اقسام لکھی ہیں ۔ (نیل الاوطار جلد ٣ صفحہ ٢٢٥ مطبوعہ مکتبۃ الکایات الازہریہ ‘ ١٣٩٨ ھ)

بدعت حسنہ و بدعت سیئہ

محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  : میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ اب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا بھی یہی موقف تھا کہ ہم جو نیا کام کرنے جا رہے ہیں وہ منع کہاں ہے ؟ ۔ اور شہنشاہِ صداقت امیرالمومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی یہ موقف اسی وقت بدل گیا جب سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی گفتگو ہوئی ۔ قرآن مجید فرقان حمید اس طرح کتابی شکل میں موجود نہ تھا جس طرح آج ہمارے پاس موجود ہے بلکہ متفرق صفحات اور دیگر اشیاء پر لکھا ہوا تھا حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے امیر المومنین اسے دوجلدوں کے درمیان جمع کریں یعنی اسے کتابی شکل میں تشکیل دیں ۔ سیدنا صدیق اکبر کے ذہن مبارک میں یہ حدیث موجود تھی کہ "کل بدعة ضلالہ" ہر بدعت گمراہی ہے ۔ اور انہوں نے یہی بات عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہی بھی کہ اے عمر میں وہ کام ہرگز نہ کرونگا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آخر کار فرمایا کہ اس کام میں خیر ہی خیر ہے یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ منع کہاں ہے ؟ ۔ اب آپ کے سمجھانے کے بعد وہی موقف سیدنا ابوبکر صدیق کا ہوگیا کہ واقعی منع کہاں ہے ؟ حضرت سیدنا عمر نے 3 دن تراویح پڑھ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روکے ہوئے عمل کو دوبارہ  شروع کیا اور اس میں ایک تو 27 دن کا اضافہ کیا اور اس پہ ہمیشگی کی مہر ثبت کردی کیونکہ انکا بھی یہی موقف تھا کہ منع کہاں ہے ؟ ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمعے کی ایک اذان کا اضافہ کیا وہ بھی کل بدعة ضلالہ کا مفہوم و معانی سمجھتے تھے مگر جمعے کی دو اذانیں کرکے واضح موقف پیش کردیا کہ منع کہاں ہے ؟ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پہلے تین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مقرر کردہ دارالخلافہ "مدینہ" کو تبدیل کیا اور  "کوفہ" کو مملکت ِ اسلامیہ کا دارالخلافہ بنایا وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا منع کہاں ہے ؟ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلبیہہ کیا پڑھتے تھے ؟ اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمة لک والملک لا شریک لک ۔ اب سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس تلبیہہ کو پڑھ کر  اس تلبیہہ سے آگے مزید الفاظ کا اضافہ کر کے پڑھا کرتے تھے ۔ ان کو بھی کل بدعة ضلالہ کے حکم کی خبر تھی مگر وہ بھی یہی موقف رکھتے تھے کہ منع کہاں ہے ؟ ۔ اب آج کے جہلا لونڈے لپاڑے اس منع کہاں ہے ؟ ۔ کا مذاق اڑاتے اور اہلسنت کی من گھڑت دلیل کہتے ہیں جبکہ فقیر چشتی نے ثابت کر دیا کہ یہ ہماری نہیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی دلیل اور سنت ہے ۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پڑھیں : علیکم بسنتی و سنت الخلفائے راشدین المھدین ، میری سنت کو اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو ۔ الحَمْدُ ِلله ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بھی پکڑے ہوئے ہیں اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو بھی ۔ ہم بھی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کیطرح کسی جائز عمل کو کرنے سے پہلے اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں کہ یہ نیا کام کرنا منع کہاں ہے ؟ ۔ اور اس بات کا دھیان بھی رکھتے ہیں کہ یہ نیا کام کسی نص کے خلاف تو نہیں ؟ ۔ کل بدعة ضلالہ کے زمرے میں تو نہیں آتا ؟ ۔ اور جب ہماری تسلی ہوجائے تو ہم پھر بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو لازم پکڑتے ہوئے کہتے ہیں نعمة البدعة ھذہ ۔ اب کسی بدعت کی فیکٹری میں پلے لونڈے یا اس جیسے کسی دوسرے لگڑ بھگڑ کے پاس کوئی جواب ہے تو پیش کرنے کی ہمت کرے ۔ مگر ان شاءاللہ مر کر بدبو چھوڑ جائیں گے اور اس کے بعد مٹی میں مل جائینگے مگر جواب نہ دے پائیں گے ۔ اب ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام علیہم الرّحمہ کے اشادات کی روشنی میں بدعت کے متعلق مزید تفصیل پڑھتے ہیں : ⏬

ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاءِ اسلام علیہم الرّحمہ نے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی روشنی میں خاص علمی نظم سے بدعت کی درجِ ذیل اقسام بیان کی ہیں : (1) بدعتِ حسنہ ۔ (2) بدعتِ سیئہ ۔

لفظ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو ، مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا ۔ اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین ، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو ، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ’’بدعتِ سیئہ‘‘ ہو گی۔

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : والتحقيق انها ان کانت مما تندرج تحت مُستحسن فی الشرع فهی حسنة وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة ۔
ترجمہ : ثابت یہ ہوا کہ اگر بدعت شریعت میں کسی مُستحسن امر کے تحت داخل ہے تو وہ اچھی ہے اور اگر وہ شریعت کی نا پسندیدگی کے تحت آتی ہے تو وہ غیر پسندیدہ ہوگی ۔ (ابن حجر عسقلانی فتح الباری جلد 4 صفحہ 253،چشتی)( شوکانی نيل الاوطار جلد 3 صفحہ 63)

اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : مَنْ سَنَّ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّة حَسَنَةً، فَلَهُ أجْرُهَا، وَأجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِيْ الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أنْ يَنْقُصَ مِنْ أوْزَارِهِمْ شَيْئٌ ۔
ترجمہ : جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کرے اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہو گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ (مسلم، الصحيح جلد 2 صفحہ 705 کتاب الزکوٰة باب الحث علی الصدقه رقم : 1017،چشتی)(مسلم الصحيح کتاب العلم باب من سن سنة حسنة او سيئة جلد 4 صفحہ 2059 رقم : 2674)

اگر غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں لفظِ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ سنّتِ لغوی ہے۔ اگر من سنَّ فی الاسلام سُنّۃً سے مراد شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے سُنّۃً حَسَنَۃ اور سُنَّۃً سَیِّئَۃً میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا ۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے ، اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے ۔

تقسیمِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بعض اوقات ایک کام محض لُغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں ۔ بعض لوگ بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں ۔ لفظِ بدعت ، چونکہ بَدَعَ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’نیا کام’’ کے ہیں ۔ اس لیے لُغوی اعتبار سے ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا ، صالح ہو یا فاسد ، مقبول ہو یا نامقبول بدعت کہہ دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے اِس اِبہام سے بچنے کےلیے بدعت کی ایک اُصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی ، دو اقسام میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اور بدعت کو بلا اِمتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا ، مذموم ، حرام اور باعث ضلالت قرار نہیں دیا بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعتِ لغویہ’’ کے زمرے میں رکھا ہے اور کسی کو ’’بدعتِ شرعیۃ’’ کے زمرے میں ۔ اس طرح صرف بدعتِ شرعیہ کو ہی بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے ۔


بدعتِ لغوی سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو صراحتاً کتاب و سنت سے ثابت نہ ہوں لیکن ان کی اَصل ، مثال یا نظیر شریعت میں موجود ہو اور یہ شریعت کے مستحسنات کے ذیل میں آتے ہوں جیسے نمازِ تراویح کی جماعت ، قرآنی آیات پر اِعراب ، دینی علوم کی تفہیم کےلیے صرف و نحو کی درس و تدریس ، اُصولِ تفسیر ، اُصولِ حدیث ، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام وغیرہ ۔ یہ سب اُمور بدعاتِ لغویہ میں شامل ہیں ۔

بدعت کا لغوی معنیٰ : ⏬

بدعت کا لغوی معنی : بدعت عر بی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہو تا ہے ۔ کسی سابقہ نمونہ کے بغیر کو ئی نئی چیز ایجاد کر نا ۔ چنانچہ عر بی لغت کی مشہور کتاب المنجد میں بدعت کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے’اخترعہ وصنعہ لا علی مثال ،، یعنی کسی سابقہ مثال کے بغیر کو ئی نئی چیز بنا نا اور ایجاد کر نا ۔

علامہ اِبن تیمیہ (728ھ) اپنی کتاب منہاج السنۃ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذهِ کے ذیل میں بدعتِ لغوی کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : اِسے(یعنی باجماعت نمازِ تراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لُغوی ہے ، بدعتِ شرعی نہیں ہے۔ بدعتِ شرعی وہ گم راہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر اَنجام دی جائے ۔ (منہاج السنۃ جلد 4 صفحہ 224)

حافظ عماد الدين اسماعيل ابن کثير تفسير القرآن العظيم ميں بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسيم بيان کرتے ہوئے لکھتے ہيں : بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإنّ کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے ۔ (تفسير القرآن العظيم جلد 1 صفحہ 161،چشتی)

مذکورہ بحث میں حافظ ابنِ کثیر نے بدعت کو بدعتِ شرعیہ اور بدعتِ لغویہ میں تقسیم کر دیا ۔ اِس میں بدعتِ ضلالہ کو بدعتِ شرعیہ کا نام دیا ہے ان کے نزدیک ہر بدعت ضلالت و گمراہی نہیں بلکہ صرف ’’کل بدعة سيئة ضلالة’’ ہے ۔ بصورتِ دیگر وہ اُسے بدعت لغویہ کہتے ہیں ۔ وہ اِس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه میں بدعت سے مراد بدعتِ لغوی ہے نہ کہ بدعت ضلالہ ۔

اَہم نکتہ : علامہ اِبن تیمیہ اور حافظ ابنِ کثیر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان نعمت البدعة هذه میں بدعت کو بدعتِ لغوی شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہیں نہیں فرمایا کہ هذه بدعة لغوية بلکہ انہوں نے بدعت کے ساتھ لفظ ’’نعم’’ اِستعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اُنہوں نے اِسے نعم البدعۃ یا بدعتِ حسنہ کہا ہے ۔ اِس مفہوم کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ ص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۔ (سورہ ص آیت 30)
ترجمہ : (حضرت سلیمان علیہ السلام ) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا تھا ۔
اس آیت میں لفظ نِعْمَ اِستعمال ہوا ہے اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اِس کا معنی ’’اَچھا’’ یعنی ’’حسنہ’’ ہوتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جسے نعم البدعۃ ھذہ کہا ہے لغت ہی کی رُو سے اِس کا معنی بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت بدعتِ لغوی سے مراد بدعتِ حسنہ ہے ۔

بدعت کا شرعی معنیٰ : ⏬

بدعتِ شرعی سے مراد اَیسے نئے اُمور ہیں جو نہ صرف کتاب و سنت سے متخالف و متناقض ہوں اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کے بھی مخالف ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل، شرعی اَصل ، مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو ، ’’بدعت شرعی’’ ہے ۔ شر یعت میں بد عت ہر اس کام کو کہتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہ ہوا ، چنا نچہ اما م یحییٰ بن شر ف نووی علیہ الرحمہ بد عت کی تعریف کرتے ہو ئے لکھتے ہیں : البدعۃ ھی احداث ما لم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، بدعت ایسے نئے کام کا ایجاد کر نا ہے جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو ۔ (تہذیب الاسماء واللغت جلد ۳ صفحہ ۲۲)

علامہ ابن تیمیہ (728ھ) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے معروف فتاویٰ میں لکھتے ہیں : بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اور اَخیارِ اُمت کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج ، روافض ، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد ۔ (مجموع الفتاویٰ جلد 3 صفحہ 195)

شیخ ابن رجب حنبلی (المتوفی 795ھ) بدعت شرعی کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : بدعت (شرعی) سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہوگا ۔ (جامع العلوم والحکم جلد 1 صفحہ 252)

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هَذا مَا لَيْسَ مِنْه فَهُوَ رَدٌّکی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے ۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہوگی اور دین اس چیز سے بری ہوگا اور اس میں اعتقادی ، عملی ، قولی ، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں ۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گذر چکا ہے پس وہ بدعتِ لغویہ میں سے ہے ، بدعتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718)(ابن ماجه، السنن،المقدمه، باب تعظيم حديث رسول اللہ، 1 : 7، رقم : 14،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372)

اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالمِ دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں : ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس کے نتیجے میں کوئی سنت متروک ہو جائے ۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے ۔

اس تقسیم کو صراحتاً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے ابنِ تیمیہ (728ھ) ، ابنِ کثیر (774ھ) ، ابنِ رجب حنبلی (795ھ) ، علامہ شوکانی (1255ھ) اور علامہ بھوپالی (1307ھ) سے لے کر شیخ عبد العزیز بن باز (1421ھ) تک ، ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے بعض علماء اور محدّثین جو اپنے آپ کو ’’سلفی’’ کہتے ہیں ، سوادِ اَعظم سے اپنے آپ کو جدا قرار دیتے ہیں اور کسی لحاظ سے بھی بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم جائز نہیں سمجھتے وہ بھی بدعت کو بدعتِ لُغوی اور بدعتِ شرعی میں تقسیم کرتے ہیں۔ جب کہ ہم بدعتِ حسنہ اور سیئہ کے ساتھ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم کو بھی مانتے ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کو وہ بدعتِ شرعی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ سیئہ ، بدعتِ ضلالہ یا بدعتِ قبیحہ بھی کہتے ہیں اور جس کو وہ بدعتِ لُغوی کہتے ہیں ہم اسے بدعتِ حسنہ، بدعتِ صالحہ اور بدعتِ خیر سے بھی موسوم کرتے ہیں ۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت وحرمت کو جانچنے کےلیے اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا ۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ حسنہ’’ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ’’ یا ’’بدعتِ مذمومہ ۔

کچھ لوگ بدعت کی تعریف اس طر ح سے کرتے ہیں کہ : وہ کام جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں نہ ہوا وہ بدعت ہے ۔ حالانکہ یہ تعریف خود ساختہ ہے جسے کسی عالم یا محدث نے نہیں بیان کیا ۔ اور صحیح حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں تراویح کے نمازکی با ضابطہ جماعت قائم کرنے کے بعد ارشاد فر مایاکہ : یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ اب آپ خود ہی غور کریں کہ جو کام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد ہو وہ بدعت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو کیسے بدعت کہا جو خود ان کے زمانے میں ہوا ؟ کیا نعوذباللہ وہ بدعت کی تعریف نہیں جانتے تھے ؟ یقیناً ایسا نہیں تو معلوم ہو گیا کہ یہ تعریف بالکل صحیح نہیں ۔ صحیح وہی ہے جو اوپر امام نووی علیہ الرحمہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ۔

مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی ۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور’’ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ہے ۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعة ضلالة’’ درست ہے ، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعةٍ سيّئةٍ ضلالةٌ’’ ہے لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی ۔ وہ اِس طرح کہ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی’’ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ’’ ’’بدعتِ مذمومہ’’ یا ’’بدعتِ ضلالہ’’ ہوگی لیکن اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہو گی ۔

بدعتِ حسنہ کی اَہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی کی گئی ہے سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہو گی ، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہو گی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالتاً اَمرِ خیر اور اَمرِ صالح ہو گا جسے شریعتِ اِسلامیہ کے عمومی دلائل و اَحکام کی اُصولی تائید میسّر ہو گی ۔ اِسی لیے تمام اَئمہ و محدّثین اور فقہاء و محققین علیہم الرحمہ نے ہر زمانے میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے ۔

اگر ہر نیا کام محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو لامحالہ تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آ جائے گا ۔ اِجتہاد کی ساری صورتیں ، قیاس اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی ۔ اسی طرح دینی علوم و فنون اور ان کو سمجھنے کےلیے جملہ علومِ خادمہ جو فہمِِ دین کےلیے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا ، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ۔ انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا ۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت ، اُصول ، اِصطلاحات ، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں لہٰذا بلا شک و شبہ یہ سب بدعتِ لُغوی کے زمرے میں آتے ہیں ۔ مزید برآں اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تو دینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے طریق پر درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے تعلیم حاصل کی تھی ۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا۔ یہ فقط قرآن و حدیث کے سماع و روایت پر مبنی تھا ۔ لہٰذا قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لے کر حرمِ کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا ۔ اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اِشکال دور کرنے کے لیے بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم ناگزیر ہے ۔

بدعت کی دوسری تقسیم : (1) بدعتِ حسنہ ۔ (2) بدعتِ سیّئۃ : ⏬

بدعتِ حسنہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جس کی اَصل ، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو اوروہ احکامِ شریعت سے متخالف و متناقض نہ ہو بلکہ شریعت کے مستحسنات کے تحت داخل ہو ۔

اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی علیہ الرحمہ بدعت کو بنیادی طور پر حسنہ اور سیّئہ میں تقسیم کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات’’ میں فرماتے ہیں : بدعت کو بدعتِ حسنہ اور بدعتِ قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد’’ میں فرماتے ہیں ۔ بدعت کو بدعت واجبہ ، محرمہ ، مندوبہ ، مکروھہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ’’ اور ’’بدعت ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں : امام شافعی نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل’’ میں روایت کیا ہے ۔ (کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه جلد 20 صفحہ 16)

بدعتِ سیّئۃ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب و سنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امرِ دین کو توڑے ۔

علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ (1137ھ) بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بدعت صرف اُس عمل کو کہا جائے گا جو سنتِ رسول یا عملِ صحابہ و تابعین کے خلاف ہو، فرماتے ہیں : بدعت اس فعل کو کہا جاتا ہے جو نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سنت کے خلاف گھڑا جائے ایسے ہی وہ عمل صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے بھی مخالف ہو ۔ ( تفسير روح البيان جلد 9 صفحہ 24)

اِمام ملا علی قاری علیہ الرحمہ حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا ۔ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی ۔ بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا ۔ (مسلم الصحيح کتاب الزکوٰة باب الحث علی الصدقه جلد 2 صفحہ 705 رقم : 1017،چشتی)( مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح جلد 1 صفحہ 216)

پس ثابت ہوا کہ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرنے والوں کے نزدیک بھی بدعتِ حسنہ سے مراد بدعتِ لغوی ہے ۔

بدعتِ سیّئۃ ہی بدعتِ شرعی ہے : ⏬

بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاء اسلام نے ہرگز نہیں رکھی بلکہ اُنہوں نے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی ہی تشریح و توضیح کی ہے اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے ، لہٰذا امام نووی علیہ الرحمہ (676ھ) فرماتے ہیں : بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں : شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے ، اور یہ بدعت ‘‘حسنہ’’ اور ‘‘قبیحہ’’ میں تقسیم ہوتی ہے ۔

اسی طرح اِمام ابن اثیر جزری علیہ الرحمہ (606ھ) بھی بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة بدعتان : بدعة هدی وبدعة ضلال ۔ بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (النهاية فی غريب الحديث والأثر جلد 1 صفحہ 106)

لفظِ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل ، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو ، قواعدِ دین ، احکامِ دین ، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ‘‘بدعتِ سیئۃ’’ ہو گی لہٰذا فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدعَة ضَلَالَةٌ خود بخود ‘‘کُلُّ بِدْعَةٍ سَيِّئةٍ ضَلَالَة ٌ’’ پر محمول ہو گا تاکہ بدعتِ حسنہ اس سے مستثنیٰ ہو سکے ۔

کوئی معترض یہاں پر یہ اِعتراض وارد کر سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ‘‘کُلُّ بِدعَةٍ ضَلَالَةٌ’’ یعنی ہر بدعت کو ضلالت فرمایا ہے ۔ پھر بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئۃ کی تقسیم کہاں سے نکل آئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم نئی نہیں بلکہ شروع سے لے کر آج تک تمام اکابر ائمہ و محدِّثین علیہم الرحمہ نے حدیثِ نبوی کی روشنی میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے ۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاں سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم ماخوذ ہے وہیں سے بدعتِ حسنہ اور سیئہ نکلی ہیں ۔ مثلاً حدیث ‘‘ نعم البدعة هذه’’ میں باجماعت نمازِ تراویح کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ بدعتِ حسنہ نہیں بلکہ بدعتِ لغوی ہے ، پس جس حدیث سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی نکلی ہے اسی سے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح ماخوذ ہے ۔

ایک اور اَہم بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں لغوی اور شرعی کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے بلکہ حسنہ اور سیئہ کے الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں۔ جیسے حدیث نعم البدعة هذه(1)میں لفظِ ‘‘نعم’’ بدعتِ حسنہ کی طرف اور ‘‘من سنّ فی الاسلام سنة سيئة’’ (2) میں لفظِ ‘‘سیئۃ’’ بدعتِ سیئہ پر دال ہے۔ لہٰذا جس کو وہ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کہتے ہیں اسی کو جمہور ائمہ و محدّثین علیہم الرحمہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کہتے ہیں ۔ پس اگر بدعتِ لغوی اور شرعی کی تقسیم جائز ہے تو حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کیوں جائز نہیں اور اگر بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم جائز نہیں تو لغوی اور شرعی کی تقسیم بھی جائز نہیں ۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک ہر بدعت ، بدعتِ ضلالہ ہے اگر اِن کی یہ بات مان لی جائے تو پھر لفظِ بدعت کے ساتھ لفظِ شرعی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید برآں اگر بدعت کی بدعتِ لغوی اور شرعی میں ہی تقسیم کرنی ہے تو پھر حدیث میں لفظ ‘‘نعم’’ کہاں جائے گا ؟ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں ‘‘نعم البدعۃ’’ یعنی اچھی بدعت۔ ان دلائل و اِشارات سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم اَقرب الی متن الحدیث ہے ۔ یعنی لفظِ ‘‘نعم’’ کو لفظ ِحسنہ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ (بخاری الصحيح کتاب صلاة التراويح جلد 2 صفحہ 707 رقم : 1906،چشتی)

بدعتِ حسنہ کی مزید تین اقسام ہیں : (1) بدعتِ واجبہ (2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) (3) بدعتِ مباحہ : ⏬

(1) بدعتِ واجبہ وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو جیسے قرآنی آیات پر اعراب، دینی علوم کی تفہیم کےلیے صرف و نحو کا درس و تدریس، اُصولِ تفسیر ، اُصول حدیث ، فقہ و اصولِ فقہ اور دیگر علوم عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اہتمام ، دینی مدارس کا قیام ، درسِ نظامی کے نصابات ، ان کی اِصطلاحات اور اس کے علاوہ فِرقِ باطلہ (قدریہ ، جبریہ ، مُرجیہ ، جہمیہ اور مرزائی وغیرہ) کا ردّ سب ‘‘بدعاتِ واجبہ‘‘ ہیں ۔ ( شاطبی ،الاعتصام، 2 : 111)(آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 14 : 192،چشتی)نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22)

(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب، بلکہ عام مسلمان اسے ثواب اور مستحسن اَمر سمجھ کر کریں بدعتِ مستحبہ کہلاتا ہے ۔ اس کے نہ کرنے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے جیسے مسافر خانے ، مدارس کی تعمیر اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا ، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت ، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد ، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اوران میں شرکت نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہوتا ۔ (نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23)(نواب وحيد الزمان غیر مقلد وہابی ، هدية المهدی : 117)

اُمت کی بھاری اکثریت کی طرف سے کیے جانے والے ایسے اَعمالِ حسنہ کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ما رأه المؤمن حسنا فهو عند اللہ حسن وما رأه المؤمنون قبيحًا فهو عند اللہ قبيح ۔
ترجمہ : جس عمل کو (بالعموم) مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے ۔ (بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816)0أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600،چشتی)(حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465)(طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583)

بدعتِ مباحہ وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اختیار کرلیں بدعتِ مباحہ کہلاتا ہے ۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ لذیذ کھانے اور مشروبات کے اِستعمال کو ‘‘بدعت مباحہ’’ سے تعبیر کیا ہے ۔

بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں : (1) بدعتِ محرّمہ ۔ (2) بدعتِ مکروہہ : ⏬

(1) بدعتِ محرّمہ وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اختلاف اور انتشار واقع ہو یا وہ نئے اُمور جو اُصولِ دین سے متخالف و متناقض ہوں مثلاً نئے مذاہب ، جیسے قدریہ ، جبریہ ، مرجیہ (اور آج کل مرزائی و قادیانی و دیگر) وغیرہ کا وجود ، جبکہ ان مذاہبِ باطلہ کی مخالفت ‘‘بدعتِ واجبہ’’ کا درجہ رکھتی ہے ۔

(2) بدعتِ مکروہہ جن نئے کاموں سے سنت موکدہ یا غیر موکدہ چھوٹ جائے ۔ اس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلا ضرورت اور فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے ۔ ( الفتاوی الحديثية صفحہ 130)

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف فتح الباری میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے ، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ) ۔ (فتح الباری شرح صحيح البخاری جلد 4 صفحہ 253،چشتی)

اگر لفظِ ‘‘بدعت’’ اور ‘‘اِحداث’’ کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم نہ ہوتی اور اِن کا معنیٰ ہی ضلالت و گمراہی ہوتا تو اِن اَلفاظ کی نسبت کبھی بھی اَعمالِ حسنہ اور اَفعالِ خیر کی طرف نہ کی جاتی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے استعمال کرتے ۔

تقسیمِ بدعت پر اِستدلال کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درج ذیل فرمان نہایت اہم ہے جسے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اُون کے کپڑے پہنے ہوئے کچھ دیہاتی حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بدحالی اور ان کی ضرورت کو دیکھا تو لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی ۔ لوگوں نے کچھ دیر کی ، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے ، پھر ایک انصاری درہموں کی تھیلی لے کر حاضر ہوا ، پھر دوسرا آیا اور پھر لانے والوں کا تانتا بندھ گیا ، حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے ، تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِهِمْ شَيْئٌ وَ مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِهِمْ شَيْئٌ ۔
ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کسی ‘‘نیک طریقہ ’’ کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی ، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554،چشتی)(ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359)(دارمی، السنن، 1 : 141، رقم : 514)(ابن ابی شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803)(بيهقی، السنن الکبریٰ، 4 : 175، رقم : 7531)

جس طرح بدعت کی دو قسمیں ہیں ، بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی ، اسی طرح سنت کی بھی دو قسمیں ہیں ، سنتِ شرعی اور سنتِ لغوی ۔ سنتِ شرعی سے مراد سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنتِ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہے اور جو سنت شرعی نہیں صاف ظاہر ہے وہ سنت لغوی ہو گی ۔ سنتِ لغوی سے مراد نیا کام ، نیا عمل ، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ ہے ۔ ائمہ اور محدثین علیہم الرحمہ نئے کام اور نئے عمل کو بدعت بھی کہتے ہیں اِس طرح آپ سنتِ لغوی کو بدعتِ لغوی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ جو کام سنت نہیں صاف ظاہر ہے پھر وہ بدعت ہی ہو گا اور اسی بدعت کو مصطلحین نے حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا ہے ۔

بدعتِ حسنہ کی اصل ‘‘سنۃ حسنۃ‘‘ ہے : ⏬

مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :‘‘منْ سنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً’’ یعنی جس کسی نے اسلام میں کسی ‘‘نیک طریقہ‘‘ کی ابتداء کی ۔ اب یہاں مطابقت پیدا کرنے اور نفسِ مسئلہ کو سمجھنے کےلیے صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ‘‘مَنْ اَحْدَثَ فی اَمْرِنَا هَذَا’’ کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہر اِحداث ممنوع و مردود نہیں بلکہ صرف وہ اِحداث ممنوع ہو گا جس کی کوئی اصل یا نظیر دین میں نہ ہو ۔ زیرِ بحث حدیثِ مبارکہ میں اس نئے راستے کو ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کہا گیا ہے یعنی وہ راستہ تھا تو نیا مگر اپنے نئے پن کے باوجود اچھا تھا ، بھلائی اور خیر کا راستہ تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نئے راستے کو جسے سنۃ حسنۃکے ساتھ ساتھ دیگر اَحادیث مبارکہ میں سنۃ صالحۃ ، (1) سنۃ خیر ، (2) سنۃِ ہدیٰ ، (3) نعم البدعۃ ، (4) اور بدعۃ ھدی ، (5) وغیرہ بھی کہا گیا ہے ۔ شریعت اس نئے راستے یا طریقے کو اپنانے کے بارے میں کیا راہنمائی فراہم کرتی ہے ۔ اس حوالے سے اسی حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا : ‘‘فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ کُتِبَ لَهُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أجُوْرِهِمْ شَيْئٌ’’ (اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہو گی) اب اس حدیث کی رو سے اچھا نیا راستہ نکالنا بدعتِ حسنہ ہو گیا ، لہٰذا ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ کی اصل سنتِ حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعتِ حسنہ اپنی اپنی اصل میں سنت ہے ۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ جس نے مسلمانوں میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا جس نے وہ برا طریقہ ایجاد کیا ۔ امام مسلم کے مذہب، اس حدیث کے باب اور متنِ حدیث سے ثابت ہو گیا کہ سنتِ حسنہ سے مراد بدعتِ حسنہ ہے اور سنتِ سیئہ سے مراد بدعتِ سیئہ ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673)(ترمذي، السنن، کتاب العلم ، باب ما جاء فيمن دعا إلی هدی فاتبع او إلی ضلالة، 5 : 43، رقم : 2675)(ابن عبد البر، التمهيد،24 : 327)(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674)

ان اَحادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ‘‘سنۃ حسنۃ’’ کے ساتھ ساتھ دوسری اصطلاحات ‘‘سنۃ صالحۃ’’ اور ‘‘سنۃ ھدی’’ بھی استعمال فرمائی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اَحادیث میں مختلف اِصطلاحات اس لیے استعمال فرمائی ہیں تاکہ یہ تصور واضح ہو جائے کہ لفظِ سنت ہر جگہ اپنے معروف اور متداول معنی میں نہیں بلکہ اس کے حسنہ اور سيِّئہ ہونے کا اِنحصار اُس ‘‘نئے کام’’ پر ہے جس کی طرف اِس کی نسبت کی جا رہی ہے ۔ اس حدیثِ مبارکہ اور اس سے قبل بیان کی گئی دیگر اَحادیثِ مبارکہ میں ایک قدرِ مشترک ہے اور ان میں باقاعدہ ایک منطقی ربط ہے وہ یہ کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز میں جوڑا جوڑا ہوتا ہے اِسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصطلاحات کے بھی متقابل جوڑے بیان فرمائے ہیں یعنی اگر اللہ کے نظامِ تخلیق اور نظامِ قدرت میں متقابل جوڑے مثلاً بیٹا بیٹی ، عورت مرد ، بھائی بہن ، نر مادہ ، اسی طرح اچھا برا ، اونچا نیچا ، امیر غریب ، مشرق و مغرب ، زمین و آسمان ، ظاہر و باطن وغیرہ ہو سکتے ہیں تو پھر وہی جوڑا جوڑا بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز کو دُہرا دُہرا جوڑا اور دو دو کر کے بیان فرمایا ہے تو پھر بدعت کی تقسیم میں یہ جھگڑا کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی ، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر اَحادیثِ مبارکہ میں اصطلاحات کے متقابل جوڑے بیان کیے ہیں مثلاً تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اِصطلاحات کے درج ذیل متقابل جوڑوں کو اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے : نعم البدعۃ (1) بدعت ضلالۃ (2) دعوتِ ھُدًی (3) دعوتِ ضلالۃ (4) سنۃ حسنۃ (5) سنۃ سیئۃ (6) سنۃ ھدیً (7) سنۃ ضلا لۃ (8) سنۃ صالحۃ (9) سنۃ ضلا لۃ (10) سنۃ خیر (11) سنۃ شر (12) ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، و من دعا إلی هدی او ضلالة، 4 : 2060، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سنَّ فی الاسلام سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2673)

ان ساری تفصیلات سے ثابت ہوا کہ جوڑوں کے اس فطری نظام کو نہ ماننا اصل میں اللہ کے نظامِ تخلیق ، نظامِ قدرت ، نظامِ شریعت ، نظامِ احکام اور نظامِ اجر و ثواب کا انکار کرنا ہے ۔

معروف غیرمقلد وہابی عالم صدیق حسن خان بھو پالی (1307ھ) بھی واضح طور پر لکھتے ہیں : ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقض نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے ۔ غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزماں (1327ھ) اپنی کتاب ‘‘ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

گویا بھوپالی صاحب نے ہر اُس نئے عمل کو بدعت ماننے سے اِنکار کر دیا ہے جس کے مدِّ مقابل کوئی خاص سنت ترک نہ ہو ۔ اُن کے نزدیک ایسا ہر نیا عمل اپنی اصل میں مباح اور جائز ہے ۔ اس حوالے سے ایک بہت اہم دلیل یہ ہے کہ وہ نیا کام جسے اُمت کی اکثریت اچھا سمجھ کر کر رہی ہو اور ان کرنے والوں میں صرف ان پڑھ دیہاتی لوگ اور عوام الناس ہی نہ ہوں بلکہ اُمت کے اکابر علماء ، فقہاء ، محققین اور مجتہدین بھی شامل ہوں تو وہ کام کبھی برا یعنی بدعتِ ضلالہ نہیں ہو سکتا لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہور اُمت کا کسی کام کو کثرت کے ساتھ کرنا دلیل شرعی بنا دیا یعنی جمہور امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی ۔

اِمام طبرانی علیہ الرحمہ (360ھ) المعجم الکبیر میں اس روایت کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں : مَارَاٰهُ المُؤْمِنُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللہ حَسَنٌ وَ مَارَاٰهُ المُوْمِنُوْنَ قَبِيْحًا فَهُوَ عِنْدَ اللہ قَبِيْحٌ ۔
ترجمہ : جس کام کو مومنین اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو مومنین برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے ۔ (طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583)(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600)(حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465،چشتی)(بيهقی، المدخل اِلی السنن الکبری ، 1 : 114)(طيالسی، المسند، 1 : 33، الحديث رقم : 246)

اب یہاں پر قرآن و حدیث کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک نئی دلیل دی جا رہی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی قبیح کام پر متفق نہیں ہو سکتی ۔ اس لیے فرمایا مسلمان جسے عام طور پر اچھا جانیں وہ اللہ عزوجل کے ہاں بھی اچھا ہے اور مسلمان جسے برا جانیں وہ اللہ عزوجل کے نزدیک بھی برا ہے ۔ یعنی مسلمانوں کا کسی چیز کو بالعموم اچھا جاننا شرعًا دلیل ہے ۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص عمل جو اپنی ہیئت کذائیہ میں نیا ہے ۔ کتاب و سنت کی نصوص ، عہدِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ثابت نہیں مگر اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے۔ اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے حسنہ ہو گیا تو اس کا جواب مذکورہ روایت میں ہے کہ جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ حسنہ ہے ۔ لہٰذا اگر اس کی ہئیت کذائیہ ثابت نہیں تو مذکورہ دلیل کی بنا پر اس کی اصل اور دلیل ثابت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعتِ سیّئہ نہ رہی ۔ اَب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانا اس میں ذکر و اَذکار ، صلوۃ و سلام ، عرس بزرگانِ دین ، نعت خوانی ان تمام اَعمالِ حسنہ کی اصل مذکورہ روایت ہے ۔ اس حدیثِ مبارکہ میں بہت ہی اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ ہر وہ نیا کام جو مصلحتِ دینی پر مبنی ہو اور اسے کوئی مردِ مؤمن جو متقی ، عالم ، فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجتہدانہ بصیرت کا حامل بھی ہو ، وہ اسے اچھاجانے تو وہ مباح اور جائز ہے ۔ یعنی دلائلِ شرعیہ پر نظر رکھنے والا مردِ مو من کبھی بھی غیر شرعی اُمور کو جائز نہیں کہتا ۔

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لئے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے ۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس نئے کام کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں ؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے ؟ یا پھر وہ کام اس لئے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب ، سنت یا مستحب وغیرہ پر اثر پڑتا ہے یا اس کا ان کے ساتھ اختلاف یا تعارض رونما ہوتا ہے ۔ اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے ۔

بدعت کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے اِس پر بار بار زور دیا جا چکا ہے کہ کوئی بھی نیا کام اس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو اور اسے ضروریاتِ دین سمجھ کر قابلِ تقلید ٹھہرا لیا جائے یا پھر اسے ضروریاتِ دین شمار کرتے ہوئے اس کے نہ کرنے والے کو گناہگار اور کرنے والے کو ہی مسلمان سمجھا جائے ، تو اس صورت میں بلاشبہ جائز اور مباح بدعت بھی ناجائز اور قبیح بن جاتی ہے اور اگر جائز اور مستحسن بدعت میں ناجائز امور کو شامل کر دیا جائے جن کی رو سے روحِ اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہو تو بلاشبہ وہ بدعت بھی قابلِ مذمت ہو گی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں ۔


یہ کہنا کہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے سراسر غلط ہے اور جہالت پر مبنی ہے بلکہ مطلق ہر نیا کام بدعت ہے خواہ وہ دین کا ہو یا دنیا کا اور ہر بدعت بھی گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی مختلف صورتیں ہیں ۔ بدعت تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے : (1) نیا کام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد ہوا ۔ (2) خلاف سنت کام جو سنت کو مٹانے والا ہو ۔ (3) برے عقائد جو بعد میں پیدا ہوئے ۔

بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اس نئے کام کو جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو اور جائز ہو جیسے محفل میلاد اور دینی مدارس ۔ نئے نئے عمدہ کھانے ، دینی کتابوں کا چھا پنا اور بدعت سیۂ ہو ہے جو کسی سنت کو مٹانے والی ہو یا کسی سنت کے خلاف ہو جیسا کہ اردو زبان وغیرہ میں خطبہ جمعہ یا عیدین پڑھنا کہ اس طرح سنت خطبہ یعنی عربی (میں خطبہ کہنے ) کی سنت اٹھ جاتی ہے ۔ بدعت حسنہ جائز بلکہ بعض اوقات مستحب اور واجب بھی ہے اور بدعتِ سئیہ مکروہ تنزیہی یامکروہ تحریمی یا حرام ہے جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے : ای صاحب بدعۃ محرمۃ والا فقدتکون واجبۃ کنصب الادلۃ وتعلم النحو ومندوبۃ کاحداث نحورباط ومدرسۃ وکل احسان لم یکن فی الصدر الاول ومکروھۃ کزخرفۃ المسجد ومساحۃ کا لتوسع بلذیذ لمأکل والمشارب والثیاب کما فی شرح الجامع الصغیر ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 299 باب الامامۃ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
ترجمہ :  حرام بدعت والے کے پیچھے نماز مکروہ ہے ورنہ بدعت تو کبھی واجب ہوتی ہے جیسے کہ دلائل قائم کرنا اور علم نحو سیکھنا اور کبھی مستحب جیسے مسافر خانہ اور مدرسے اور ہر وہ اچھی چیز جو کہ پہلے زمانہ میں نہ تھی ان کا ایجاد کرنا اور کبھی مکروہ جیسے کہ مسجدوں کی فخریہ زینت اور کبھی مباح جیسے عمدہ کھانے شربتوں اور کپڑوں میں وسعت کرنا ۔ اسی طرح جامع صغیر کی شرح میں ہے ۔

اس عبارت سے بدعت کی پانچ قسمیں واضح ہوئی اور یہ صرف ہمارے نزدیک نہیں بلکہ جو دیوبندیوں ، غیر مقلدوں وہابیوں کے بہت بڑے علماء شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی بدعت کی مختلف اقسام ذکر کیں ہیں : ⏬

علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔
ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے ۔ ( منهاج السنة جلد 4 صفحہ 224 )

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي اللہ عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اللہ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اللہ صلي اللہ عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔
ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت ، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے ۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے ۔  (کتب و رسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه جلد 20 صفحہ 16،چشتی)

حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔
ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 161)

یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔
ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔ (نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار جلد 3 صفحہ 63،چشتی)

غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی میں بدعت کے حوالے سے نواب صدیق حسن خان بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدی صفحہ 117)

مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اللہ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔
ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ ، بدعت مکروھہ ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح ۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا ، دلہن کےلیے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے ۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدی صفحہ 117)

عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة ۔ (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه) ۔ (2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ (جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي جلد 3 صفحہ 378،چشتی)

مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية ، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اللہ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث ۔ و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک ۔ ۔ ۔ ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اللہ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه ۔
ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے ، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کےلیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة جلد 2 صفحہ 325،چشتی)

ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه ۔ أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اللہ ۔
ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے) ۔ (فتاويٰ اللجنة جلد 2 صفحہ 329)

بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء ۔
ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے ۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں ، ریلوے انجن ، بجلی کا سامان ، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کےلیے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم ، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر ، فساد ، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة جلد 2 صفحہ 321 )

مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتا ہے : اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ۔
ترجمہ : بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔ (ہدیة المہدی صفحہ 117 مطبوعہ میور پریس دہلی)

اور نواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( ھدیتہ المھدی)

مشہو ر وہابی غیرمقلد عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں : لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔ (نیل الاوطار جلد 3 صفحہ 325 مکتبۃ الکلیات الازہریۃ)

اسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ (فتح الملھم جلد 2 صفحہ 406 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی)

بدعت بدعت کہنے والوں کے اکابرین کی ان عبارات سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر علیہما الرحمہ کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اس نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں : و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند،چشتی)
ترجمہ : ان دلائل کی بنا پر حدیث ”ہر نیا کام بدعت ہے“ کی تاویل کی جائے گی اور اس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصولِ شریعت کے مخالف ہوں اور سنت کے موافق نہ ہوں ۔

اگر آج کل کے دیابنہ اور وہابیہ ہر بدعت کو گمراہی کہیں گے تووہ خود بھی نہیں بچ سکیں گے کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعتِ حسنہ سے خالی نہیں ۔ مثلاً مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتا ہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرونِ ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ اور ان کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے اور ان کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارے بنانا ۔ ان میں رکوع قائم کرنا ، اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ، اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ضعیف ہے یہ سب بدعت ہے ۔ اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”نعمت البدعۃ“ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔ بسوں ، گاڑیوں اور موٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ اس زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتا تھا ۔ پھر یہ کہنا کہ ہر دینی کام بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے اور دنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیا جائے تو اس پر بھی ثواب ملتا ہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ 167 پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہٰذا مسلمان کا ہر دنیاوی کام دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کےلیے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہواتھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے آمین ۔

قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق جو قول و فعل ہے جائز اور جو اس کے خلاف ہے بدعتِ سیئہ ہے یعنی بری بدعت ۔ جس کی مذمت حدیث پاک میں یوں فرمائی گئی ہے : من ابتدع بدعه ضلاله لا يرضاها الله و رسوله کان عليه من الاذم مثل اثام من عمل بها لا ينقص ذلک من اوزارهم شياء۔
ترجمہ : جس نے گمراہ کن بدعت نکالی جسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پسند نہیں کرتے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جتنا (مجموعی) گناہ ہوگا اور اس کا گناہ ان کے گناہوں میں کچھ بھی کمی نہ کریں گے ۔ (مشکوة المصابیح صفحہ 30 بحواله ترمذی ، ابن ماجه)

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ما احدث قوم بدعه الارفع مثلها من السنه فتمسک بسنه خير من احدث بدعه ۔
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت نکالی اس کے برابر سنت ختم ہوئی سو سنت پر عمل پیرا ہونا بدعت پیدا کرنے سے بہتر ہے ۔ (مشکوة صفحہ 31 ، بحواله مسند احمد،چشتی)

بری بدعت کی علامت : حضرت حسان سے روایت ہے فرمایا : ما ابتدع قوم بدعه فی دينهم الا نزع الله من سنتهم مثلها ثم لا بعيدها اليهم الی يوم القيامه ۔
ترجمہ : جب بھی کسی قوم نے اپنے دین میں بدعت نکالی اللہ ان کی سنت میں سے اتنی سنت ختم کر دیتا ہے ۔ پھر قیامت تک اللہ اس سنت کو نہیں لوٹائے گا ۔ (مشکوة صفحہ 31 بحواله دارمی)

یہ اور ان جیسے متعدد دوسرے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ مذموم بدعت وہ ہے جو سنت یعنی اسلامی ہدایت کے خلاف ہو ۔ جو اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدہ ہو۔ ہر بدعت یعنی نئی چیز شرعاً ممنوع نہیں ہوتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ۔

من سن فی الاسلام سنة حسنة فله اجرها و اجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيئی و من سن فی الاسلام سنه شيئه کان عليه وزرها و وزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اوزارهم شئی ۔ (صحیح مسلم بحواله مشکوة صفحہ 33)
ترجمہ : اسلام میں جس نے کوئی اچھا طریقہ نکالا اور اس کے لیے اس کا اجر بھی ہے اور اس کے بعد جو کوئی اس پر عمل کرے اس کا بھی ، عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی کئے بغیر اور جس نے اسلام میں کوئی بری رسم ایجاد کی اس پر اس کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل پیرا کریں گے ان کے گناہ میں کمی کئے بغیر ۔

ہر وہ نیا کام جس کی کوئی شرعی دلیل ، شرعی اصل مثال یا نظیر پہلے سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود نہ ہو وہ ’’بدعت‘‘ ہے لیکن ہر بدعت غیر پسندیدہ یا ناجائز و حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہی بدعت ناجائز ہوگی جو کتاب و سنت کے واضح احکامات سے متعارض و متناقص ہو ۔ دوسرے لفظوں میں بدعتِ سیئہ یا بدعتِ ضلالہ صرف اُس عمل کو کہیں گے جو واضح طور پر کسی متعین سنت کے ترک کا باعث بنے اور جس عمل سے کوئی سنت متروک نہ ہو وہ نا جائز نہیں بلکہ مباح ہے۔ اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے معروف غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ) لکھتے ہیں : ہر نئے کام کو بدعت کہہ کر مطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو۔ جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ’’ہدیۃ المہدی‘‘ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں : البدعة الضّلالة المحرّمة هی التی ترفع السّنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل ۔
ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔

رہی وہ بدعت جو مستحسن اُمور کے تحت داخل ہے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے ٹکراتی بھی نہیں تو وہ مشروع ، مباح اور جائز ہے ، اسے محض بدعت یعنی نیا کام ہونے کی بنا پر مکروہ یا حرام قرار دینا کتاب و سنت کے ساتھ نا اِنصافی ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگ ایک من گھڑت قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’للدین‘‘ (یعنی دین کےلیے) نیا اچھا کام جائز ہے اور ’’فی الدین‘‘ (دین میں بدعت) نیا اچھا کام ایجاد کرنا ناجائز ہے ۔ یا پھر ’’لغوی بدعت‘‘ کہہ کر اپنے جدید کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ذکر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صلوۃ و سلام اور ایصال ثواب کی محافل وغیرہ کو بدعت کہتے ہیں ۔ اس فریب کے جواب سے قبل ہم دین سمجھ کر نہیں کرتے کہنے والوں سے کچھ سوال : ⬇

کیا دین اور دنیا الگ ہیں ؟

(1) اس زمین کا خالق کون ؟

(2) اس آسمان کا خالق کون ؟

(3) اس سورج ، چاند ، اور ستاروں کا خالق کون ؟

(4) ہمارا خالق کون ؟

(5) ہمیں سوچنے سمھجنے کی صلاحیت کس نے دی ؟

(6) ہمیں اچھے اور برے کی کس نے پہچان کروائی ؟

(7) وہ قوانین جو سائنس کے ذریے ہم دریافت کر رہے ہیں کس نے بناٸے ؟

(8) وہ چیزیں جنہیں ہم کھا پی کر زندہ ہیں کس نے پیدا کی ؟

(9) کیا اللہ ہماری بات سننے پے قادر ہے ؟

(10) کیا وہ ہماری ہر بات سنتا اور ہر خیال جانتا ہے ؟

(11) کیا وہ ہمارا ہر عمل دیکھتا ہے ؟

(12) کیا وہ ہماری نیتوں سے واقف ہے ؟

(13) کیا جس طاقت کے ذریہ ہم اس دنیا میں عمل بجا لاتے ہیں اور ہماری اپنی یعنی ذاتی ہے یا حاصل کی ہوئی ہے ؟

(14) کیا قیامت میں ہمارے عمل کا حساب ہو گا ؟

(15) کیا ہم اپنی مرضی سے ہر وہ کام کر سکتے ہیں جس کا خیال ہمارے دل میں آئے ؟

(16) کیا اگر وہ رسول نہ بھیجتا تو ہم اس اکبر ، سبحان ، علی ، حی خدا کو پہچان سکتے ؟

(17) آخرت کےلیے ثواب اور ہم نیکیاں کہاں کماتے ہیں ؟

(18) کیا ہم نیکی اس کے حکم پے عمل کر کے کماتے ہیں یا جس کام کو ہم صحیح سمجھیں اس کام کی نیکی کا اجر الله دے گا ؟

(19) کیا یہ دنیا آخرت کی کھیتی نہی ہے ؟

(20) کیا اس دنیا کی قدرتی موجودات کو ہم نے تخلیق کیا ہے ؟

(21) کیا اجرام فلکی ہمارے تابع ہیں ؟

(22) کیا اس دنیا میں ہم اپنی مرضی سے آئے ہیں ؟

(23) ہم کیوں پیدا ہوئے ہیں ؟

(24) ہم کہاں جائیں گے ؟

(25) کیا الله اپنے علم سے ہر جگہ موجود نہیں ہے ؟

(26) کیا قرآن میں ہر شئی کا علم نہیں ہے ؟

(27) کیا موجودات الله کی اجازت کی محتاج نہیں کوئی بھی کام کرنے کےلیے ؟

(28) کیا الله محتاج ہے اور اس کا علم ہر شٸی کا احاطہ نہی کرتا ؟

(29) کیا ہم الله کی مخلوق نہی ؟

(30) کیا قرآن و حدیث میں کہیں یہ حکم ہے کہ ایک مسلمان کا دین اور دنیا الگ الگ ہیں ؟

ذرا سوچیے تو پھر دین اور دنیا الگ کہاں ہوئے ؟

للدین دین ، ’فی الدین اور لغوی بدعت کی تاویل کا جواب : ⬇

بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگ ایک من گھڑت قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’للدین‘‘ (یعنی دین کےلیے) نیا اچھا کام جائز ہے اور ’’فی الدین‘‘ (دین میں بدعت) نیا اچھا کام ایجاد کرنا ناجائز ہے۔یا پھر ’’لغوی بدعت‘‘ کہہ کر اپنے جدید کاموں کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ذکر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صلوۃ و سلام اور ایصال ثواب کی محافل وغیرہ کو بدعت کہتے ہیں ۔

جواب : (1) سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دیوبندی اور وہابی حضرات اپنے اصول کے مطابق ’’للدین‘‘ اور ’’فی الدین‘‘ کا یہ قاعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت کریں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت کریں یا تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت کریں ۔ عجیب بات ہے کہ ہم سنیوں سے تو ہر ہر بات پر ثبوت مانگا جاتا ہے لیکن خود اتنے بڑے قاعدے جس پر شریعت کا دار و مدار قائم کیا اس پر دیوبندی اور وہابی کوئی ایک بھی دلیل پیش نہیں کر سکتے لہٰذا ہم دیوبندیوں اور وہابیوں سے اس قاعدے کے ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں ؟

(2) دوسری بات یہ ہے کہ منکرین تو حدیث ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ (ہرنیا کام گمراہی ہے) کے تحت کہتے ہیں کہ یہاں ’’کل‘‘ عمومیت کیلئے ہے لہٰذا ہر نیا کام گمراہی ہے ۔ تو اب ہم وہابیوں سے سوال کرتے ہیں کہ ’’للدین‘‘ یا ’’ لغوی بدعت‘‘ وغیرہ کہہ کر جن نئے کاموں کو دیوبندی اور وہابی جائز قرار دیکر انہیں اختیار کرتے ہیں ۔ وہ سب اس ’’کل‘‘ کی عمومیت سے کس طرح خارج ہو گئے ہیں ؟ جب ہر بدعت (نیا کام) گمراہی ہے تو پھریہ کہاں لکھا ہے کہ دین اسلام کےلیے (للدین) گمراہی نکالنا جائز ہے ؟ گمراہی تو بہر صورت گمراہی ہے اور یہ بات حدیث شریف میں قطعاََ نہیں کہ دین کےلئے ’’للدین‘‘ گمراہی جائز و ضروری ہے ۔ اور اُس گمراہی پر عمل کرنا درست ہے ۔ پس یا تو دیوبندیوں اور وہابیوں کے اس قاعدے میں خرابی ہے یا کہ (معاذ اللہ) اِس دین میں ، جس کی تقویت کےلئے گمراہی پر عمل کی ضرورت پڑے ۔ اب دین (اسلام) میں تو ہر گز ہرگز خرابی نہیں اس لیے ماننا پڑے گا کہ دیابنہ اور وہابیہ کے اس من گھڑت قاعددے میں خرابی ہے ۔

(3) تیسری بات یہ ہے کہ پورا ماہِ رمضان تروایح با جماعت پڑھنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے دیا اور پھر اس کے بارے میں فرمایا ’’نعمۃ البدعۃِ ھذا‘‘ (یعنی) یہ اچھی بدعت ہے ۔ (بخاری شریف باب فصل من قام رمضان)(مشکوۃ شریف جلد اول باب قیام شھر رمضان صفحہ ۲۷۶،چشتی)

تو اب ہم بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ یہ تراویح کا طریقہ نماز ’’للدین‘‘ ہے یا ’’فی الدین‘‘ ؟ اب دیوبندی اور وہابی جو بھی جواب دیں اس کا ثبوت پیش کریں ۔ اگر للدین ہے تو کیا اس کو عبادت کا درجہ دینا اور کارِ ثواب سمجھنا جائز ہو گا ؟ اور اگر یہ عمل ’’فی الدین‘‘ہے تو کیا یہ ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ کے مخالف ہے کہ نہیں ؟ اور دین میں اضافہ ہے کہ نہیں ؟

اسی طرح دیوبندی اور وہابی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ نماز تراویح کا مذکورہ عمل ’’لغوی بدعت‘‘ ہے تو فقیر چشتی یہ سوال کرتا ہے کہ بالفرض یہی مان لیا جائے تو کیا یہ لغوی بدعت ’’عبادت‘‘ ہے کہ نہیں ؟ اس پر اجر و ثواب ملے گا کہ نہیں ؟ اور اسی طرح اگر کوئی محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو للدین سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو یہ عمل بدعت ضلالہ سے خارج ہو کر جائز قرار پائے گا کہ نہیں ؟

(4) چوتھی بات یہ ہے کہ مخالفین کا یہ خود ساختہ قاعدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عدم اعتماد کا مظہر ہے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فی الدین (دین اسلام میں) کو مستحسن فرما رہے ہیں اور جو دین اسلام میں نہ ہو للدین سے منع فرما رہے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ’من سن فی الاسلامہ سنہ حسنہ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعد ہ من غیر ان ینقض من اجور ھم شئی‘‘ جو کوئی (دین) اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا اِس کو اُس (نئے طریقہ کے جاری کرنے پر) ثواب ملے گا ۔ اور اُس کو بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔اور ان کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ ۱/ ۳۲۷،چشتی)(ترمذی کتاب العلم ۲/۹۲)(نسائی ۱/۱۹۱)(سنن ابن ماجہ شریف ۱۸)

لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تودین اسلام میں نیا طریقہ ، اچھے نئے کام کو ایجاد کرنے پر اجر و ثواب کی خوشخبری سنا رہے ہیں لیکن اعتراض کرنے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے ’’فی الاسلام‘‘ (یعنی دین اسلام میں) ایجادات کو منع کر رہے ہیں ۔ اب خود سوچیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الدین (دین اسلام میں نئے کاموں) کو جائز فرما رہے ہیں اور اعتراض کرنے والے فی الدین (دین اسلام میں نئے کاموں) کو گمراہی و جہالت کہہ رہے ہیں ۔ معاذﷲ یہ کلیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہوا کہ نہیں ؟ کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت نہیں کی جا رہی ؟

اور پھریہ لوگ جو فی الدین سے خارج ہو اس کو ’’للدین‘‘ (دین اسلام کےلیے) کا نام دے کر اچھا قرار دیتے ہیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی دین سے خارج کو بُرا فرماتے ہیں جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’ما لیس منہ‘‘ جو دین میں سے نہ ہو ‘‘ یعنی جس کی اصل دین میں ثابت نہ ہو وہ رد ہے ۔ پس ان فی الدین کے منکروں کو ’’جو دین میں سے نہ ہو‘‘ کے الفاظ پر غور کر نا چاہیے ۔

نہ معلوم ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جو دین میں نہ ہو ’’ یعنی جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رد فر ما رہے ہیں اُس ’’مردود‘‘ کو یہ منکر ’’للدین،، کا نام دیکر اچھا کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’سنہ حسنہ‘‘ کہہ کر ’’فی الاسلام‘‘ میں داخل کر رہے ہیں اس کو یہ منکر ’’فی الدین‘‘ کا نام دے کر ناجائز قرار دے رہے ہیں ۔ گو کہ جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھا فرما رہے ہیں اس کو یہ ناجائز کہہ رہے ہیں اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردود فرما رہے ہیں اس کویہ منکرین جائز کہہ رہے ہیں ۔ معاذﷲ ! لہٰذا اعتراض کرنے والوں کا یہ کلیہ سراسر ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے اس لئے دیابنہ اور وہابیہ کا ’’للدین‘‘ کا یہ قاعددہ ، کلیہ مخالف حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے باعث مردود و باطل ٹھہرا ۔

(5) پھر بدعت کے دوروں میں مبتلا لوگوں کے نزدیک صرف میلاد ، عرس ، ذکر ، صلوۃ و سلام ہی ایسے کام ہیں جو فی الدین ہیں اور باقی وہابیوں کی محافل ، جلسے جلوس ، اجتماعات کو وہابی حضرات ’’للدین‘‘ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں ؟ للدین اور فی الدین کا یہ معیار کسی اصولِ شریعت کے مطابق نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ اصولِ شریعت بتایا جاتا محض للدین اور فی الدین کی لفاظی کا چکر نہ چلایا جاتا ۔

خدا را انصاف فرمایئے شرک و بدعت کی اس خانہ ساز شریعت میں میلاد و عرس جیسے کام (جن میں عظمتِ انبیاءِ کرام علیہم السّلام و اولیاء عظام علیہم الرّحمہ ہے) بدعت و حرام ہیں ۔ اور اُن پر اپنی طرف سے فی الدین کا چکر چلاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ ان کے اپنے من گھڑت نئے کام بدعات کے کی فہرست سے نکل کر جائز ہو جاتے ہیں ۔ کیا کتاب و سنت سے کوئی ایسا حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں میلاد و عرس وغیرہ کو تو بدعت و حرام قرار دیا ہو اور دیگر متذکرہ امور کو سنت و جائز قرار دیا ہو ؟ ھاتوا برھانکم ان کنتم صدیقین ۔


بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں سے چند سوال ؟ : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عرض کرتا ہے کہ : لفظ بدعت جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے ایسا واضح ہے کہ جس نے فقہائے کرام کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ضرور اس لفظ کے صحیح مفہوم سے واقف ہوگا لیکن اس پرفتن زمانہ میں دو لفظ ۔ (1) بدعت ۔ (2) شرک ۔ ایسے ہر کسی کی زبان پر جاری ہیں کہ اس کی مثال پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں کو اس کا صحیح مطلب معلوم نہیں یا پھر یہ جان بوجھ کر بدعت اور شرک کا غلط معنیٰ بتاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مطلب ان دو لفظوں (بدعت اور شرک) کا اس زمانے میں دیابنہ اور وہابیہ نے لیا ہے وہ بالکل اس مطلب کے خلاف ہے جو محدثین و فقہائے کرام علیہم الرحمہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔ آپ دیکھیں کہ اسلام کو چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے ، تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد غوث قطب ابدال علیہم الرحمہ ہمیشہ یہ حضرات یہی فرماتے رہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کا مرتبہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی محبت تمام امت پر واجب اور مدارِ ایمان ہے لیکن تیرہ سو چون (1354) سال کے بعد دیوبندیوں اور وہابیوں نے بدعت اور شرک کا بہت عجیب اور نرالا مطلب نکالا ہے ۔ یہ مطلب نہ ان کانوں نے کبھی سنا تھا اور نہ ان آنکھوں نے دیکھا تھا ۔ آپ دیکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کا مرتبہ اللہ عزوجل کے ذکر کے بعد ہے لیکن دیوبندی وہابی اسے بدعت کہتے ہیں ۔ وہ بھی محض دو وجہ سے ، ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب کسی سنی بھائی نے اپنے ہاں میلاد کروایا (جس کو دوسرے معنوں میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کہتے ہیں) اور میلاد میں روشنی کی اس روشنی کی وجہ سے دیوبندیوں ، وہابیوں نے اس پر فضول خرچی ہونے کا حکم صادر کردیا اور اگر ربیع الاول کے مہینے میں کیا تو اس کو تخصیص یعنی اس مہینے میں خاص کرنے کی وجہ سے بدعت کہا ۔ یہ دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرام قرار دیا گیا ۔ رہا مسئلہ قیامِ میلاد کا جو کہ اصل میں تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، اس کو شرک قرار دے دیا لیکن اللہ عزوجل اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا ہے ۔

اسی لیے ﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کےلیے ایک ہستی امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو مامور فرمایا ۔ متاخرین میں ایسی ہستی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ آپ چونکہ عاشقِ خدا عزوجل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ، دیوبندیوں ، وہابیوں کی گستاخانہ تحریروں کو دیکھ کر چپ نہ رہ سکے ۔ اس لیے آپ نے ہر باطل مذہب کا رد کیا لیکن دیوبندیوں کا وہابیوں کا رد ایسا لاجواب کیا کہ اعلیٰ حضرت کی زندگی میں کسی کو اس کا جواب لکھنے کی جرات نہ ہوئی ۔ آپ کے وصال کے بعد دیوبندیوں ، وہابیوں نے سوچا کہ اب کوئی جواب دینے والا نہیں اور اہل سنت و جماعت پر اعتراضات شروع کردیے ۔ جب حد سے زیادہ اعتراضات ہو گئے تو اکابرین کی طرح اس فقیر نے اس بات کا ارادہ کیا کہ جو شخص یا فرقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے گا جب تک فقیر کی زندگی باقی ہے اس کے رد میں  ان شاء اللہ فقیر لکھتا رہے گا اور ہر وہ مسئلہ جس میں ہمارے اور دیوبندیوں ، وہابیوں کے درمیان اختلاف ہے ، اس کو نہایت وضاحت سے لکھ کر مسلمانوں کے سامنے پیش کرے گا جس کو دنیا دیکھے گی کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ۔  ان شاء اللہ ۔ الغرض چند سوالات ہر اس شخص کے سامنے یہ فقیر پیش کرتا ہے جوکہ دیوبندی وہابی خیالات رکھتا ہو ۔ امید ہے تسلی بخش جواب دیا جائے گا ۔

عیدین کی نماز کے بعد دعا اکابرِ دیوبند سے ثابت ہے ، اس لیے جائز ہے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد پنجم صفحہ 178)

دیوبندی : عیدین کی نماز کے بعد دعا زمانہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں مگر اکابر سے ثابت ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو پھر ہمارا سوال یہ ہے کہ : جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا جوکہ محدثین رحمہم اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے ، اس پر بدعت کا فتویٰ کیوں ؟

سوال نمبر 1 : بدعت کس کو کہتے ہیں ؟

سوال نمبر 2 : کیا بدعت کی ایک ہی قسم ہے یا فقہا کے نزدیک اس کی چند قسمیں ہیں ؟

سوال نمبر 3 : کیا بدعت سیۂ کا کرنا ہی حرام ہے یا ہر بدعت کا یہی حکم ہے ؟

سوال نمبر 4 : کیا ہر وہ کام جس پر بدعت کا اطلاق ہوگا وہ حرام ہوگا یا نہیں ؟

سوال نمبر 5 : حدیث مبارکہ میں من سن سنۃ حسنۃ الخ ۔ (مشکوٰۃ شریف) کا کیا مطلب ہے ؟

سوال نمبر 6 : حدیث مبارکہ کل محدث بدعتہ وکل بدعتہ ضلالۃ اور سوال نمبر 5 کی ذکر کردہ حدیث میں کیا فرق ہے ؟ اس احداث (نئے کام) سے کون سا احداث مراد ہے ؟ ۔ ہر احداث (نیا کام) مراد ہے یا کوئی خاص احداث (نیا کام) ؟

سوال نمبر 7 : کیا ہر وہ کام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہرہ زمانہ اقدس میں نہ ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس کے بعد نکالا جائے وہ کل محدث کے تحت میں داخل ہوگا یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟

سوال نمبر 8 : کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں ختم حدیث شریف کے بعد طلباء کو پگڑیاں پہنائی جاتی تھیں جیسے کہ آپ مدارس میں طلباء کو ختم حدیث شریف کے بعد پگڑیاں بندھوائیں جاتی ہیں یا نہیں ؟

سوال نمبر 9 : کیا زمانہ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ختم حدیث کے بعد جبہ مبارک بھی دیا جاتا تھا ؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں رواج ہے ؟

سوال نمبر 10 : کیا زمانہ اقدس میں حدیث شریف کے ختم ہونے پر سالانہ امتحان لیا جاتا تھا ؟ جیسا کہ آپ کے مدارس میں نہایت اہتمام سے لیا جاتا ہے ؟

سوال نمبر 11 : اپنے مدرسہ میں چھ دن پڑھا کہ ساتویں دن جمعہ کی چھٹی دینا کیا یہ طریقہ زمانہ اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی تھا ؟

سوال نمبر 12 : ختمِ حدیث شریف کے بعد آپ کے مدارس میں جو اسناد تقسیم کی جاتی ہیں ، کیا یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں ؟

سوال نمبر 13 : ہر سال شعبان کے مہینہ میں جلسہ کرنا اور علماء کو جمع کرنا ، یہ طریقہ جلسے وغیرہ کا خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا یا نہیں ؟

سوال نمبر 14 : نکاح کےلیے خاص دن مقرر کرنا ، تاریخ مقرر کرنا ، اور خطوط بھیج کر یا کال کر کے لوگوں کو بلانا ، کیا یہ طریقہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھا یا نہیں ؟ ۔ اور ایسی سنت جس میں بدعت شامل ہو جائے ، اس کا کیا حکم ہے ؟

سوال نمبر 15 : علماء کے آنے پر بڑے بڑے اخبارات اور اشتہارات شائع کرنا اور ان میں ’’حد سے زیادہ بڑھا کر‘‘ علماء کے القاب لکھنا کیا یہ باتیں ان پابندیوں اور اہتمام سے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھیں یا نہیں ؟ اگر تھیں تو ثبوت دیجیے کیونکہ آپ صاحبان کا دعویٰ ہے کہ ہم وہی کام کرتے ہیں جو زمانہ مبارک میں ہوا ہو اور ہم بغیر سنت کے قدم نہیں اٹھاتے ۔ اگر یہ باتیں زمانہ اقدس میں نہ تھیں اور بعد میں نکالی گئی ہیں تو فرمایئے کہ یہ طریقے آپ کے استدلال کل محدث بدعت کے تحت میں داخل ہوئے یا نہیں ؟ اس دعوے سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے یہ جتنے کام جو اوپر بیان ہو چکے ہیں کل محدث بدعۃ کے تحت میں داخل ہیں ۔ اس کے باوجود ان کو کرنا جن کی اصل کسی زمانہ میں بھی موجود نہیں تھی ، بدعت ضلالۃ ہے یا نہیں اور اگر ان کاموں کا حدیث شریف میں استثنا ہو تو وہ فرمادیجیے اور اگر بعض داخل اور بعض خارج ہیں تو پھر اہل سنت و جماعت کے ہر کام پر آپ کااس حدیث شریف کو پیش کر دینا درست ہے یا نہیں ؟ ۔ (چشتی)

سوال نمبر 16 : آپ (دیوبندی وہابی) کہتے ہیں کہ جو کام زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جیسے تھا ، ویسے ہی کرنا چاہے اس کو نئے اور مخصوص طریقے سے کرنا ناجائز ہے چنانچہ میلاد شریف اس کے باوجود کہ اس کی اصل زمانہ اقدس میں موجود تھی مگر مخصوص نہ تھی آپ نے اس کے باوجودیکہ اللہ عزوجل کے ذکر کے بعد ذکر رسول کا درج ہہے بہت کم امور کی وجہ سے اس کو ناجائز کردیا جن امور کی وجہ سے اسے ناجائز کیا وہ یہ ہیں (1) وقت مخصوص کرنا (2) فرش وغیرہ بچھانا (3) ہار اور پھول لاکر مجلس میں رکھنا (4) محفل میلاد میں روشنی کرنا (5) لڑکوں کا نعتیں پڑھنا (6) یہ وہ کام ہیں جن کی وجہ سے محفل میلاد کو حرام کہا گیا حتی کہ یہاں تک بے ادبی کی کہ اس کو کنھیا (ہندو) کے جنم دن منانے کی طرح کہا حالانکہ (دیوبندی ، وہابی) اس سے زیادہ کاموں کو مخصوص کرکے انجام دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ علم زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید پڑھنے یا پڑھانے کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں تھا لیکن دیوبندیوں نے اس علم کو اتنی قیدیوں میں مقید کیا کہ چار دیواریاں پکی بنوانا جس میں لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے جو بالکل سراسر فضول خرچی ہے اس کے اندر چند کمرے بنوانا اس میں قالین وغیرہ بچھانا پھر چند مولویوں کو چندہ جمع کرکے اس میں پڑھانے کے لئے مقرر کرنا پھر اس کو کسی زمانہ کے مخصوص کرنا صبح مثلاً 10 بجے سے لے کر 2 بجے سے شام تک پڑھانا ۔ غرض یہ ساری باتیں آپ نے اس علم کے ساتھ مخصوص کی ہیں ۔ یہ زمانہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انہیں پابندیوں اور اہتمام کے ساتھ تھیں یا نہیں ؟ ۔ لہٰذا یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے نزدیک بدعت ہوئیں یا نہیں ؟ ۔ ظاہر ہے کہ یہ پابندیان آپ کے قاعدے کے مطابق سخت بدعت ہوئیں اور بدعت کرنا آپ کے نزدیک حرام ہے یا نہیں ؟ ۔ تو فرمایئے کہ آپ کے مدارس بدعت ہوئے یا نہیں ؟ ۔ اگر یہ پابندیاں اور اہتمام آپ کے مدارس میں جائز ہیں تو میلاد شریف ان امور کی وجہ سے کیوں ناجائز اور حرام ہے ؟ ۔ ان دونوں میں فرق اور وجہ ترجیح تفصیل سے بیان کریں ۔

سوال نمبر 17 : جب کوئی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے جواب میں آپ کا آخری جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان باتوں کو عادتاً کرتے ہیں اور تم میلاد شریف عبادتاً کرتے ہو لہٰذا ہمارے کام جائز اور تمہارے ناجائز ہیں لہٰذا آپ کے اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب محض مسلمانوں کو دکھانے کےلیے گڑھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ بات ثابت نہ ہو کہ دیوبندی وہابی لاجواب ہو گئے ہیں ۔ تمہارے اس جواب میں چند اعتراضات لازم آتے ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک جو کام عادتاً کیا جائے اگرچہ وہ شریعت میں منع ہو تب بھی اس کا کرنا جائز ہے لہٰذا اگر کوئی شخص زنار (یعنی وہ دھاگا جو ہندو گلے اور بغل کے درمیان ڈالے رہتے ہیں) پہنے اور آپ سے فتویٰ طلب کرے کہ میں ان چیزوں کو عادتاً کرتا ہوں میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ تو آپ اس کو جائز کہیں گے ؟ اگرآپ کے نزدیک یہ کام بصورت فتویٰ جائز ہو سکتے ہیں ، تب تو پھر ایک اور نئی شریعت بنانی پڑے گی اور پہلے علماء کے تمام فتاویٰ جات آپ کو دریا میں پھینکنے پڑیں گے چنانچہ آپ نے ایک نئی شریعت اور نیا دین تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کھینچ تان کر نکال ہی لیا کیونکہ جن کی تعظیم تمام انبیاء اور رسل اور ملائکہ علیہم السلام حتیٰ کہ تمام کائنات نے کی تھی ۔ ان کی تعظیم تو آپ کے نزدیک فضول کام ہے اور جو کام شریعت میں منع ہو پھر اس کو عادتاً کرنا کیسے جائز ہے ؟ اس واسطے کہ جیسے پکڑ عبادت میں ہے ، ویسے ہی عادت میں بھی ہے دوسری بات یہ کہ حدیث کل محدث بدعۃ (ہر نیا کام بدعت ہے) کا مطلب عام ہے اس میں تمام نئے کام (خواہ وہ عادتاً ہوں یا عبادتاً) شامل ہیں ۔ حدیث پاک جوکہ واضح ہو اس میں اپنی رائے سے پابندی لگانا باطل ہے ۔ تیسری بات یہ کہ اگر آپ کہیں کہ اس کے برعکس عبادت اور عادت میں یہ فرق ہے کہ عبادت میں ثواب ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس عادت میں ثواب نہیں ہوتا تو مجھے بتایئے کہ اگر کوئی آدمی اپنے بچوں کے کانوں میں کوئی زیور پہنا دے اور کہے کہ میں عادتاً اس کو پہناتا ہوں تو کیا اس کا یہ کام آپ کے نزدیک جائز ہو گا ؟ چوتھی بات یہ کہ اگر آپ کی مراد عادت اور عبادت سے یہ ہے کہ ان کاموں کو ہم رسماً کرتے ہیں تو جواب دیجیے کہ آپ کے بیان سے کیا رسموں کا کرنایا ان کی پیروی کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟ حالانکہ آپ کی کتابوں میں رسموں کاکرنا اور ان کی پیروی کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے پھر یہاں کیوں ان رسموں کا کرنا یا ان کی پیروی جائز ہوئی ؟ اگر آپ اس کا جواب یوں دیں کہ ہمارے یہاں رسوم جاہلیت کا کرنا اور ان کی پیروی کرنا منع ہے ، بزرگوں کی رسم کی پیروی کرنا ہمارے یہاں منع نہیں ، ان کاموں میں ہم رسمِ بزرگان کی پیروی کرتے ہیں ، حالانکہ کسی کام میں پابندی اور اہتمام بدعت ہے ۔ اس کے باوجود رسمِ صالحین پابندیوں اور اہتمام کے باوجود درست ہے ۔ تو بتایئے کہ میلاد شریف جوکہ اصل میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اس سے زائد کون سا کارِ خیر ہے اور کون سی رسم صالحین ہو سکتی ہے جس پر تمام حرمین شریفین کے علماء اور تمام امت متفق ہے) کو کیوں حرام کر دیا ؟ آپ کے نزدیک تلک ہندو کی برسی میں شامل ہونا (جوکہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کا بدترین دشمن تھا) اور ہندوٶں کے لیڈروں کی دہلی کی جامع مسجد کے ممبروں پر چڑھ کر تعریفیں کرنا جائز ہے اور میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے نزدیک ایک فضول کام ہے (نعوذ باﷲ) ۔ فقیر چشتی کہتا ہے کہ جومولوی صاحبان دین فروش ہیں ایسے علماء کا مسلمانوں کو خطاب سننا اور ان کی پیروی کرنی حرام ہے ، ایسے ہی ہر اس عالم کا ذکر ہے جو کسی کافر سے ملے ۔ (چشتی)

سوال نمبر 18 : آپ (دیوبندی و وہابی) کہتے ہیں کہ یہ کام عادتاً اور عبادتاً ناجائز ہیں ۔ کسی خاص مہینے یا تاریخوں میں کوئی کام کرنا بدعت ہے چنانچہ میلاد شریف کو آپ نے صرف ربیع الاول کے مہینے میں کرنے کی وجہ سے ناجائز قرار دیا اور جس شخص نے اس میں اپنی ذاتی کمائی کے ثند روپے خرچ کیے ، اس پر آپ نے فضول خرچی کا حکم دے دیا لہٰذا یہ دوسری وجہ ہے اس کے حرام ہونے کی ، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیوبندی ، وہابی اس سے زیادہ پابندی اور اہتمام سے فضول خرچی کرتے ہیں مگر وہ تمام کام یا تو مستحب تصور کرتے ہیں یا فعل مسنون جن کو پابندی سے کرتے کئی سال گزر گئے ۔ یہ فقیر ان کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ ملاحظہ ہو۔ شعبان کے مہینے میں جلسہ کرنا اور طلباء کےلیے چندہ مانگا جاتا ہے اس چندے سے بڑے بڑے اشتہارات چھپوانا جس میں ہزاروں روپیہ فضول خرچ ہوتا ہے ۔ ان پیسوں سے جلسہ میں کرایہ کی کرسیاں لاکر ڈالنا ، بڑے بڑے شامیانے لگوانا لوگوں کو دکھانے کےلیے ، اعلیٰ فرش بچھانا ، بجلی کی روشنی کرانا اب آپ ہی بتایئے کہ یہ پابندیاں اور اہتمام ہیں یا نہیں ؟ اور یہ سب فضول خرچی ہیں یا نہیں ؟ اور یہ بدعات ہیں یا نہیں ؟ اب ملاحظہ کریں کہ وہ چندہ جو طلباء کا حق ہے اس سے علماء کو سفر کےلیے پیسے دینا اور علماء کا س خرچ کو لینا جائز ہے یا نہیں ؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مانگا کسی اور کام کےلیے جائے اور خرچ کہیں کیا جائے ، کیا یہ خدا کی مخلوق کے سامنے جھوٹ بول کر لینا ہے یا نہیں ؟ بتایئے کہ دیوبندیوں ، وہابیوں کے جلسوں میں ایسے ناجائز کام جمع ہیں مگر ہمیشہ ان کو نہایت اہتمام سے کیا جاتا ہے ۔ ان کے جلسوں میں سب پابندیاں اور اہتمام مستحب ہیں لیکن میلاد شریف میں ایک پابندی بھی آپ کے نزدیک اس قدر حرام ہے کہ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے اپنے جلسوں اور محافل میلاد میں وجہ فرق بتایئے ۔

سوال نمبر 19 : حدیث شریف پڑھنا پڑھانا ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یا نہیں ؟ اگر آپ کے نزدیک یہ بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو بتایئے کہ اس کےلیے اہتمام کرنا فرش بچھانا ، جگہ صاف کرانا ، خاص کمرے مخصوص کرنا (جن کو دارالحدیث کہتے ہیں) حرام ہے یا نہیں ؟ اگر یہ اہتمامات اس اس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کرنا حرام نہیں تو فرمایئے کہ میلاد شریف آپ کے نزدیک اہتمام سے کرنا کیوں حرام ہوا ، وجہ فرق بتایئے ۔

سوال نمبر 20 : حدیث شریف پڑھنا پڑھانا ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یا نہیں ۔ اس کو آپ صاحبان عبادتاً کرتے ہیں یا عادتاً ؟ اگر آپ نے اس کو عادتاً کیا اور اس سے آپ کو ثواب مطلوب نہیں تھا ۔ تب بھی بتایئے اور اگر آپ نے اس فعل کو ثواب کی نیت سے کیا تو معلوم ہوا کہ آپ بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغرض ثواب کرتے ہیں ۔ تب تو یہ عبادت بھی شامل ہوا ، پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی نے میلاد شریف بغرض ثواب کیا تو وہ کیوں عبادت میں شامل ہو کر حرام ہو گیا اور حدیث شریف بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ یہ بطور عبادت کیوں جائز کرلیا گیا ہے ؟ (چشتی)

سوال نمبر 21 : آپ (دیوبندیوں ، وہابیوں) سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مدارس میں خرچ کیوں کرتے ہو ۔ یہ فضول خرچی نہیں ہے ؟ تو آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ دین کا کام ہے ۔ اس لیے نیک کام کرنے میں خرچ کرتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے نزدیک دنیا کا کام ہے اور فضول کام ہے ؟ کہ جس میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اس کام کو کیا الفاظ دیئے جائیں ۔

سوال نمبر 22 : سوئم کہلواتے اور چالیسویں کے کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

کیا آپ جیسے علماء کو جو ’’صاجی بدعت‘‘ اس کا کھانا جائز ہے ؟ اور غرباء کو اس کا کھانا حرام ہے ؟ یہ سوال یوں پیدا ہوا کہ اس فقیر نے بچشم خود سوئم اور چالیسویں کا کھانا (ان کو) کھاتے دیکھا ہے جس کا کھانا اغنیاء کو بالکل حرام ہے، تفصیلی جواب دیں۔

سوال نمبر 23 : کیا تعویذ گنڈوں کے بہانے سے لوگوں سے روپیہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟

سوال نمبر 24 : جب انبیاءِ کرام علیہم السلام کو باری تعالیٰ مخلوقات پر بھیجتا ہے تو اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو کوئی صلاحیت اور قابلیت ایسی عطا فرمائی جاتی ہے جس سے وہ علوم اور حقائق بغیر فرشتوں کے دریافت کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ۔ یا انبیاء علیہم السلام فرشتوں کے رحم پر چھوڑے جاتے ہیں کہ اگر فرشتے ان کے کان میں کچھ کہہ دیں تب تو ان کو خبر ہو جاتی ہے اور بغیر فرشتوں کے بالکل بے خبر اور ہر علم سے مبرا ہوتے ہیں جیسا کہ آپ کے عقائد سے بالکل واضح ہے ۔

سوال نمبر 25 : خاص کر شعبان کے مہینے میں جلسہ معہ اہتمام اور پگڑیاں وغیرہ بندھوانا یہ تمام افعال آپ صاحبان کے فعل مباح ہیں یا مستحب یا واجب ؟ اگر مستحب یا واجب ہیں تو دلیل دیجیے اور اگر فعلِ مباح ہیں تو ان افعال کو ہر سال الترام سے کرنا سنت یا واجب ہونے کا شبہ ڈالتا ہے یا نہیں ؟ ۔ لہٰذا ان کا چھوڑنا لازم ہے یا نہیں ؟

مقلد اور غیرمقلد وہابیوں کی بدعات : ⏬

علمائے اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں ، کوئی بھی موضوع اٹھا کر دیکھ لیجیے ہر ہر موضوع پر علماے اہل سنت نے قرآن و سنت سے دلائل اپنی اپنی کتب و رسائل میں پیش فرما دیے ہیں ۔لیکن مخالفینِ اہل سنت نے ہمیشہ آنکھیں بند کر کے اعتراضات و الزامات کا سلسلہ جاری رکھا ، انہی سلسلوں میں ایک ’’بدعت‘‘ کا مسئلہ بھی بڑا اہم ہے ۔ بات ہو یا نہ ہو بس مخالفین کی زبان سے بدعت کا فتویٰ گولی کی طرح نکلے گا ، لیکن ان لوگوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ خود جو مرضی ہے کریں نہ بدعت نظر آئی گی نہ قرآن و سنت کا مطالبہ ،نہ خیر القرون سے ثبوت یاد آتا ہے اور نہ ہی وہ تمام اصولِ بدعت جن کی بنیاد پر سنیوں کو بدعتی و جہنمی قرار دیا جاتا ہے ۔ (معاذ اللہ عزوجل) آج ہم آپ کے سامنے مخالفینِ اہل سنت کے اصولوں کے تحت ہی انہی کی چند بدعات و خرافات کو پیش کریں گے ، کہ وہ لوگ جو ہم سنیوں کو بدعتی بدعتی کہتے نہیں تھکتے خود کتنی بدعات کا شکارہیں ۔ لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے ۔

غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ اپنی آنکھ کا غافل ذرا شہتیر بھی

دیوبندیوں کے نزدیک صرف دو چار چیزیں ہی بدعت ہیں : علمائے دیوبند کے نزدیک صرف اہل سنت و جماعت (سنیوں) ہی کی دو چار چیزوں پر بدعت کے فتوے جاری ہوتے ہیں باقی وہابی خود جو مرضی ہے کریں سب جائز ہو جاتا ہے ۔

حتیٰ کہ داڑھی منڈے دیوبندی وہابی حضرات بھی ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کو بدعت بدعت کہتے دیکھائی دیتے ہیں لیکن خود ان کو اپنا بدعتی چہرہ نظر تک نہیں آتا ، داڑھی منڈانے پر ان کو بدعت و حرام کے فتوے بھول جاتے ہیں لیکن سنی ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا انعقاد کریں تو یہ ان کو بدعت نظر آتا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے علمائے دیوبند کو میلاد ، فاتحہ کے علاوہ باقی کچھ بدعت نظر نہیں آتا ۔ چنانچہ خود علماء دیوبند کے حکیم اشرفعلی تھانوی دیوبندی کہتے ہیں کہ : میں چاہتا ہوں کہ دین اپنی اصلی حالت پر آ جائے مگر اکیلے میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ جو لوگ متبع سنت ہیں اور اپنی ہی جماعت (دیوبندی فرقے) کے ہیں اُن کے یہاں بھی بس یہی دو چار چیزیں تو بدعت ہیں جیسے مولد کا قیام ، عرس ، تیجا ، دسواں ، اس کے علاوہ جو اور چیزیں بدعت کی ہیں اُنہیں وہ بھی بدعت نہیں سمجھتے ۔چاہیے وہ بدعت ہونے میں اُن سے بھی اشد ہوں ۔ مثلاََ بیعت ہی کو دیکھیے جس ہیئت اور جس عقیدہ سے آج کل لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں وہ بالکل بدعت اور غلط عقیدہ ہے لیکن کسی سے کہیں تو سہی ، اپنی ہی (دیوبندی) جماعت کے لوگ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں ۔ (الافاضات الیومیہ جلد دہم صفحہ نمبر 13،چشتی)

اہلِ دیوبند کے امام و حکیم اشرف علی تھانوی کے اس دو ٹوک اعلان سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ وہابی دیوبندی مذہب میں صرف میلاد و فاتحہ جیسے کام ہی پر بدعت بدعت کے فتوے لگائے جاتے ہیں ۔ ان کاموں کے علاوہ دیوبندی خود جو مرضی ہیں کرتے رہیں لیکن ان کو بدعت نہیں کہتے ، چاہیے وہ اصولِ وہابیہ کے مطابق بدعت ہونے میں میلاد و فاتحہ سے بھی اشد ہی کیوں نہ ہوں ۔

اسی طرح ایک غیر مقلد اہلحدیث ابو مسعود عبد الجبار سلفی نے کتاب لکھی ، جس میں انہوں نے اپنے ان وہابیوں کا رد کیا جو نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت کہتے ہیں ۔ ابو مسعود عبد الجبار سلفی کی اس کتاب کے بارے میں ان کے اپنے اہلحدیث علامہ تبصرہ کرتے ہیں کہ : انہوں (ابو مسعود عبد الجبار سلفی) نے بہت سے ایسے مسائل کی فہرست پیش کی ہے ۔ جن پر تمام اہل حدیث حضرات عمل کرتے ہیں ، اور ان مسائل پر بھی استدلال کی فنی نوعیت ویسے ہی ہے جیسا فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کی ہے ۔ مثلاََ انہوں نے دعائے اجتماعی کے منکرین اور اسے بدعت قرار دینے والوں سے یہ استفسار کیا ہے کہ وہ بتائیں کہ نمازِ تروایح میں سپارہ یا سوا سپارہ متعین کر کے مسلسل ایک مہینہ تک قرآن مجید کو پڑھنے کی کیا دلیل ہے اور بالخصوص ستائیسویں شب کو جو خصوصی اہتمام پورے عالمِ اسلام بشمول حرمین شریفین میں کیا جاتا ہے اس کا شرعی جواز کیا ہے ؟ اس طرح قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی شرعی نوعیت کیا ہے ؟ ہمارے ہاں نمازِ جمعہ کی جماعت میں دوسری رکعت میں ہاتھ اٹھا کر جو قنوت نالہ پڑھی جاتی ہے اس کا استشہاد کہاں سے ملتا ہے ۔ ان دنوں بہت سے بستیوں اور مقالات پر باقاعدہ اعلان کر کے شہداء کی نماز جناہ پڑھائی جاتی ہے ۔ اس غائبانہ نمازِ جنازہ کا مستقل عمل اور رویہ ازروئے شریعت کیا مقام رکھتا ہے ؟ ہمارے ہاں مرکزی مساجد کی موجودگی میں محلوں اور بستیوں کی چھوٹی چھوٹی مساجد میں جو نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اس کی مشروعیت بھی محل نظر ہے ۔ فاضل مرتب (یعنی ابو مسعود عبد الجبار سلفی) نے اس ضمن میں چند مزید سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ جن پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے اور ان کےلیے کوئی شرعی دلیل واضح طور پر ہمارے سامنے ادلہ شرعیہ میں موجود نہیں ہے ۔ مثلاََقرآن و سنت کی تعلیم پر اجرت کا وصول کرنا کیسا ہے اور کیا صفہ کے مدرسے کے طلبہ کےلیے بھی ایسے ہی قربانی کی کھالوں اور فطرانے کا نظام اختیار کیا جاتا تھا ۔ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں ظلم و ستم کے واقعات کے نتیجے میں جمعۃ المبارک کی نماز کی دوسری رکعت میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی تھی ۔ اس نوعیت کی بعض دیگر مثالیں دے کر مانعین دعا اجتماعی سے استفسار کیا گیا ہے کہ ان کے پاس مذکورہ مسائل یا اس نوعیت کے دوسرے مسائل میں جو طرز عمل انھوں نے اختیار کیا ہے اس کا شرعی جواز اور استدلا ل کیا ہے ۔ (نماز کے بعد دعائے اجتماعی صفحہ ۱۲ ، ۱۳۔چشتی)

دیکھیے کہ خود غیرمقلد وہابی مولوی صاحب اپنے ہی وہابیوں کے بہت سارے کاموں کے بارے میں ان سے سوالات کر رہا ہے کہ تم خود وہابی جو کام کر رہے ہو ، ان کا ثبوت کہاں ہے ؟ یعنی یہ بدعت کیوں نہیں ؟ لیکن ایسے کاموں کو وہابی بدعت نہیں کہتے بلکہ بڑی خوشی سے عمل پیرا ہیں ، ہاں بدعت کے فتوئے تو وہابیوں نے صرف سنیوں کےلیے سنبھال رکھے ہوتے ہیں ۔

بہرحال محترم قارٸینِ کرام : علماۓ وہابیہ بدعت کی جو تعریفیں بیان کرتے ہیں اور جو خود ساختہ بدعتی اصول پیش کرتے ہیں انہی تعریفوں و اصول کے پیش نظر آج ہم آپ کے سامنے علماے وہابیہ کی چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو کہ خود انہی کے قائم کردہ اصولوں اور تعریفوں کے تحت بدعت ضلالہ کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اور ان کے اصولوں کے مطابق ان کا ثبوت قرآن و سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین ، خیر القرون سے ہرگز ہرگز نہیں ملتا ۔ یعنی علماۓ وہابیہ کے پیش کیے جانے والے یہ تمام کام نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہیں اور نہ ہی تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہیں لیکن علماۓ وہابیہ جھوم جھوم کر ان پر عمل کرتے نظر آتے ہیں ۔جیسا کہ فقیر نے اس مضمون میں علماۓ وہابیہ کی متعدد بدعات کا ذکر کیا ہے جن کا ثبوت اصول وہابیہ کے مطابق ہرگز ہرگز موجود نہیں ۔

اتنی نہ بڑھا پاکٸ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ

نوٹ : دیابنہ اور وہابیہ کو بغض صرف اہلسنت و جماعت اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے خود سب کچھ کریں تو جائز اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانان اہلسنت پر بدعت کے فتوے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر یہ دہرا معیار و منافقت کیوں ؟ ۔


امام بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور تقسیم کرتے ہوئے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ قبیحہ کے بارے میں لکھتے ہیں : البدعة علی نوعين : اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی بدعة حسنة واِن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی بدعة مستقبحة ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد11 صفحہ 126)
ترجمہ : بدعت کی دوقسمیں ہیں ، اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو یہ بدعتِ مستقبحۃ ہو گی ۔

امام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کو بنیادی طور پر حسنہ اور سیّئہ میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں : البدعة منقسمة الی حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علی امامته و جلالته و تمکنه فی انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام فی آخر ’’کتاب القواعد’’ البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق فی ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشريعة فان دخلت فی قواعد الايجاب فهی واجبة و إن دخلت فی قواعد التحريم فهی محرمة و إن دخلت فی قواعد المندوب فهی مندوبه و ان دخلت فی قواعد المکروه فهی مکروهة و ان دخلت فی قواعد المباح فهی مباحة ۔ (تهذيب الأسماء واللغات جلد 3 صفحہ 22،چشتی)(نووی، شرح صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 286)(سيوطی حسن المقصد فی عمل المولد صفحہ 51)
ترجمہ : بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد’’ میں فرماتے ہیں ۔ بدعت کو بدعت واجبہ ، محرمہ ، مندوبہ ، مکروھہ اور مباحہ میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے ، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ’’ اور ’’بدعت ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قال الشافعي رحمه اللہ : البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه ۔ هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح فی المدخل ۔ (بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269)(سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250)(ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه، 20 : 16)
ترجمہ : امام شافعی علیہ الرحمہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت ، اجماع اور بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے ۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت ، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل’’ میں روایت کیا ہے ۔

علامہ ابو اسحاق شاطبی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے اُصولی ، محدّث اور فقیہ گزرے ہیں ۔ آپ کا شمار آٹھویں صدی ہجری کے جدید فکر کے حامل فقہاء میں ہوتا ہے ۔ آپ بدعتِ حسنہ کا استناد و اِعتبار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنة حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة ۔
ترجمہ : مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا ۔ (الاعتصام جلد 2 صفحہ 111)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، وتطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، وإن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، وإلَّا فهی من قسم المباح وقد تنقسم إلی الأحکام الخمسة ۔
ترجمہ : بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے ، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں نا پسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا ۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ ، مندوبہ ، محرمہ ، مکروہہ اور مباحہ) ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 4 صفحہ 253)

اِمام ابن حزم اُندلسی رحمۃ اللہ علیہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ مذمومہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلی الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضی الله عنه نعمت البدعة هذه ۔ و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علی فساده فتمادی عليه القائل به ۔
ترجمہ : بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے ۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعة هذه قول ہے ۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے ۔ (مالک، المؤطا جلد 1 صفحہ 114 رقم : 250)(بخاری الصحيح کتاب صلاة التراويح باب فضل من قام رمضان جلد 2 صفحہ 707 رقم : 1906،چشتی)(ابن خزيمة الصحيح جلد 2 صفحہ 155 رقم : 1100)(بيهقی السنن الکبریٰ جلد 2 صفحہ 493 رقم : 4379)(بيهقی شعب الايمان جلد 3 صفحہ 177 رقم : 3269)(الأحکام فی اُصول الاحکام جلد 1 صفحہ 47)

بدعتِ سیئہ سے مراد وہ نیا عمل ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو اور اس کی اصل مثال یا نظیر بھی کتاب و سنت میں نہ ہو دوسرے لفظوں میں بدعت سیئہ سے مراد وہ بدعت ہے جو کسی سنت کے ترک کا باعث بنے اور امرِ دین کو توڑے ۔

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت صرف اُس عمل کو کہا جائے گا جو سنتِ رسول یا عملِ صحابہ و تابعین کے خلاف ہو ، فرماتے ہیں : أن البدعة هی الفعلة المخترعة فی الدين علی خلاف ما کان عليه النبی صلی الله عليه وآله وسلم وکانت عليه الصحابة والتابعون ۔
ترجمہ : بدعت اس فعل کو کہا جاتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے خلاف گھڑا جائے ایسے ہی وہ عمل صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کے طریقے کے بھی مخالف ہو ۔ (تفسير روح البيان جلد 9 صفحہ 24)

اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ حدیث مبارکہ کل بدعة ضلالة کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام : من سنّ فی الاسلام سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها ۔ وجمع أبوبکر وعمر القرآن و کتبه زيد فی المصحف و جدد فی عهد عثمان ۔
ترجمہ : ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا ۔ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554)(ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203)(أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359،چشتی)(ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216)

اِمام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اِسی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وفی الحديث کل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار ۔ وهو محمول علی المحرمة لا غير ۔
ترجمہ : اور جو حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی’’ اس حدیث کو بدعتِ محرمہ پر محمول کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں ۔ (أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607)(ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676)(ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126)(ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5)(طبرانی، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786،چشتی)(طبرانی، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624)(ابن حجر مکی،الفتاوی الحديثيه : 130)

علامہ ابن تیمیہ ’’نعمت البدعة هذه’’ کے ذیل میں نمازِ تراویح کو بدعتِ لغوی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی ۔
ترجمہ : اِسے(یعنی نمازِتراویح کو) بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعت شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیلِ شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے ۔ (منہاج السنۃ جلد 4 صفحہ 224)

علامہ ابن کثیر بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے نمازِ تراویح کو بدعتِ لغویہ قرار دیتے ہوئے لکھتت ہیس : والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله : فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة ۔ و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔
ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اَوقات یہ بدعت شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة ’’ اور بعض اَوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ اَمیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو نمازِ تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعة هذه’’ ہے ۔ (تفسير القرآن العظيم جلد 1 صفحہ 161)(أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة،4 : 200، رقم : 4607)(ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة، 5 : 44، رقم : 2676)(ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126،چشتی)(ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5)(مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250)(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100)(بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379)(بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269)

امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نئے اُمورِ صالحہ کو بدعتِ لغو ی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له فی الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة ۔
ترجمہ : بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا ۔ (جامع العلوم والحکم جلد 1 صفحہ 252)

ثابت ہوا کہ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرنے والوں کے نزدیک بھی بدعتِ حسنہ سے مراد بدعتِ لغوی ہے ۔

جمہور ائمہ و محدّثین اور اَکابر فقہاء علیہم الرحمہ نے حدیث نعمت البدعة هذه ۔ اور مَنْ سَنَّ فِيْ الْاِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَة ۔ اور اس جیسی دیگر احادیث کی روشنی میں بدعت کی تقسیم ’’حسنہ’’ اور ’’سیئہ’’ میں کی ہے جب کہ چند دیگر علماء نے بدعت لغوی اور بدعت شرعی میں تقسیم کی ہے۔ اگر ان دونوں تقسیمات پر تھوڑا سا تفکر و تدبر کیا جائے تو یہ امر واضح ہو جائے گا کہ نفسِ بدعت کا مفہوم اِن دونوں طبقات کے نزدیک ایک ہی ہے ۔ دونوں کے نزدیک بدعتِ سیّئہ ہی بدعتِ شرعی ہے اور بدعتِ شرعی ہی بدعتِ سیئہ ہے ۔ اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح جبکہ علامہ ابن تیمیہ ، حافظ ابن کثیر ، علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شوکانی غیرمقلد بدعتِ لغویہ اور بدعتِ شرعیہ کی اِصطلاح اِستعمال کرتے ہیں ۔ مختصراً یہ کہ دونوں طبقات کی اِصطلاحات کا باہمی موازنہ کرنے اور دونوں کے مقصود و مطلوب پر غور کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دونوں عملی طور پر بدعت کی تقسیم پر متفق ہیں۔ مزید برآں دونوں کے نزدیک بدعتِ حسنہ ہی بدعتِ لغوی ہے اور بدعتِ سیئہ ہی بدعتِ شرعی ہے ۔ (مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250)(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100)(بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379،چشتی)(بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، رقم : 1017)(نسائی، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، رقم : 2554)(ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359)

بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے ہرگز نہیں رکھی بلکہ اُنہوں نے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی ہی تشریح و توضیح کی ہے اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے ، لہٰذا امام نووی (676ھ) فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں : البدعة فی الشرع هی إحداث ما لم يکن فی عهد رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم وهی منقسمة إلی حسنة و قبيحة ۔
ترجمہ : شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، اور یہ بدعت ‘‘حسنہ’’ اور ‘‘قبیحہ’’ میں تقسیم ہوتی ہے ۔ (تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22)(شرح صحيح مسلم ، 1 : 286)(حسن المقصد فی عمل المولد : 51)(سبل الهدی والرشاد، 1 : 370)

اسی طرح اِمام ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ بھی بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة بدعتان : بدعة هدی وبدعة ضلال ۔
ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ۔ (النهاية فی غريب الحديث والأثر، 1 : 106)

لفظِ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ‘‘بدعتِ سیئۃ’’ ہو گی لہٰذا فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدعَة ضَلَالَةٌ خود بخود ‘‘کُلُّ بِدْعَةٍ سَيِّئةٍ ضَلَالَة ٌ’’ پر محمول ہو گا تاکہ بدعتِ حسنہ اس سے مستثنیٰ ہو سکے ۔

کوئی معترض یہاں پر یہ اِعتراض وارد کر سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ‘‘کُلُّ بِدعَةٍ ضَلَالَةٌ’’ یعنی ہر بدعت کو ضلالت فرمایا ہے۔ پھر بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئۃ کی تقسیم کہاں سے نکل آئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم نئی نہیں بلکہ شروع سے لے کر آج تک تمام اکابر ائمہ و محدِّثین علیہم الرحمہ نے حدیثِ نبوی کی روشنی میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے ۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاں سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم ماخوذ ہے وہیں سے بدعتِ حسنہ اور سیئہ نکلی ہیں۔ مثلاً حدیث ‘‘ نعم البدعة هذه’’ میں باجماعت نمازِ تراویح کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ بدعتِ حسنہ نہیں بلکہ بدعتِ لغوی ہے ، پس جس حدیث سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی نکلی ہے اسی سے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح ماخوذ ہے ۔

ایک اور اَہم بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں لغوی اور شرعی کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے بلکہ حسنہ اور سیئہ کے الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں۔ جیسے حدیث نعم البدعة هذه ۔ میں لفظِ ‘‘نعم’’ بدعتِ حسنہ کی طرف اور ‘‘من سنّ فی الاسلام سنة سيئة’’ ۔ میں لفظِ ‘‘سیئۃ’’ بدعتِ سیئہ پر دال ہے۔ لہٰذا جس کو وہ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کہتے ہیں اسی کو جمہور ائمہ و محدّثین بدعتِ حسنہ اور بدعت ِسیئہ کہتے ہیں۔ پس اگر بدعتِ لغوی اور شرعی کی تقسیم جائز ہے تو حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کیوں جائز نہیں اور اگر بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم جائز نہیں تو لغوی اور شرعی کی تقسیم بھی جائز نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک ہر بدعت، بدعتِ ضلالہ ہے اگر اِن کی یہ بات مان لی جائے تو پھر لفظِ بدعت کے ساتھ لفظِ شرعی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید برآں اگر بدعت کی بدعتِ لغوی اور شرعی میں ہی تقسیم کرنی ہے تو پھر حدیث میں لفظ ‘‘نعم’’ کہاں جائے گا؟ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں ‘‘نعم البدعۃ’’ یعنی اچھی بدعت۔ ان دلائل و اِشارات سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم اَقرب الی متن الحدیث ہے۔ یعنی لفظِ ‘‘نعم’’ کو لفظ ِحسنہ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ (مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250)(بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906)(ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100)(بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379)(بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674)(مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554)(ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359)

بدعتِ واجبہ : وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو جیسے قرآنی آیات پر اعراب ، دینی علوم کی تفہیم کےلیے صرف و نحو کا درس و تدریس ، اُصولِ تفسیر ، اُصول حدیث ، فقہ و اصولِ فقہ اور دیگر علوم عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اہتمام ، دینی مدارس کا قیام ، درسِ نظامی کے نصابات ، ان کی اِصطلاحات اور اس کے علاوہ فِرقِ باطلہ (قدریہ ، جبریہ ، مُرجیہ ، جہمیہ اور مرزائی وغیرہ) کا ردّ سب ‘‘بدعاتِ واجبہ‘‘ ہیں ۔  (شاطبی ،الاعتصام، 2 : 111)(آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 14 : 192)(نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22)

جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب ، بلکہ عام مسلمان اسے ثواب اور مستحسن اَمر سمجھ کر کریں بدعتِ مستحبہ کہلاتا ہے ۔ اس کے نہ کرنے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے جیسے مسافر خانے، مدارس کی تعمیر اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا ، جیسے نماز تراویح کی جماعت ، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد ، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اوران میں شرکت نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہوتا ۔ (نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23)(وحيد الزمان، هدية المهدی : 117)

اُمت کی بھاری اکثریت کی طرف سے کیے جانے والے ایسے اَعمالِ حسنہ کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ما رأه المؤمن حسنا فهو عند اللہ حسن وما رأه المؤمنون قبيحًا فهو عند اللہ قبيح ۔
ترجمہ : جس عمل کو (بالعموم) مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے ۔ (بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816)(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600،چشتی)(حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465)(طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583)

وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اختیار کرلیں بدعتِ مباحہ کہلاتا ہے ۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ لذیذ کھانے اور مشروبات کے اِستعمال کو ‘‘بدعت مباحہ’’ سے تعبیر کیا ہے ۔ (ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثية : 130،چشتی)(وحيد الزمان، هدية المهدی : 117)(نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23)

وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد ، اختلاف اور انتشار واقع ہو یا وہ نئے اُمور جو اُصولِ دین سے متخالف و متناقض ہوں مثلاً نئے مذاہب، جیسے قدریہ ، جبریہ ، مرجیہ (اور آج کل مرزائی و قادیانی) وغیرہ کا وجود ، جبکہ ان مذاہبِ باطلہ کی مخالفت ‘‘بدعتِ واجبہ’’ کا درجہ رکھتی ہے ۔ (نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22)(وحيد الزمان، هدية المهدی : 117)

جن نئے کاموں سے سنت موکدہ یا غیر موکدہ چھوٹ جائے ۔ اس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلا ضرورت اور فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے ۔ (ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثية : 130)

اباحت اصلی جاننے کا اصولی قاعدہ اور اباحت اصلی پر کتاب وسنت سے دلائل : ⏬

محترم قارئینِ کرام : کسی کام کی حلت و حرمت (حلال و حرام) جاننے کا اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ہم ہر اس کام کو جو عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھا اور بعد میں کسی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ، قرآن وسنت پر پیش کریں گے اگر قرآن و سنت کا اس کے ساتھ کسی اعتبار سے بھی تعارض ثابت ہو جائے تو وہ بلا شبہ ناجائز وحرام اور گمراہی تصور ہو گا ، لیکن اگر اس کا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض واقع نہ ہو تو اسے گمراہی یا حرام تصور کرنا حکمت دین کے منافی اور اسلام کے متعین کردہ نظامِ حلال و حرام سے انحراف بر تنے اور حد سے تجاوزکر نے کے مترادف ہو گا چھوٹے چھوٹے فروعی اور اختلافی معاملات پر بد عت و شرک کے فتوے صادر کرنے اور اپنی طرف سے بغیر کسی شرعی دلیل کے چیز وں کو حلال و حرام کہنے والے لوگوں کی مذمت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِ بَ ھَذَا حَلَالٌ وَّ ھَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ۔ اِنَّ الَّٰذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُو نَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر ۱۱۶)
ترجمہ : اور نہ کہو اسے جو تمھاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باند ھو ، بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا ۔

وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ : اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو از خود بغیر کسی شرعی دلیل کے کوئی بدعت ایجاد کرے یا محض اپنی رائے اور خواہش کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز وں کوحلال اور اللہ تعالیٰ کی مباح کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرا ئے ۔ (تفسیر ابن کثیر متر جم جلد ۲ صفحہ ۱۰۲۷)

زمانہ جا ہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دیا کرتے تھے اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللہ پر افتراء فرمایاگیا ، آج کل بھی جوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتا دیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شرینی فاتحہ گیارھویں عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انھیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ ۴۰۶۔چشتی)

اس قاعدے (الاصل فی الا شیا ء الاباجۃ) کو سمجھا نے کےلیے دو مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ اشیاء (چیزوں ) کا اصل مباح (جائز ہونا ہے نہ کہ حرام ۔

مثال نمبر 1 : اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ فلاں میرامقروض ہے تو اب دعویٰ کرنے والا خودہی گواہی پیش کرے گا اور ثابت کرے گا کہ فلاں میرا مقروض ہے مقروض سے یہ تقاضا نہیں کیا جا ئیگا کہ وہ اپنے مقروض نہ ہونے کا ثبوت پیش کرے ۔ کیونکہ اس طرح کا دعوی خلاف اصل ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے ۔
اَنَّ النَّبِیَّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ خُطْبَتِہٖ اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّ عِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّ عیٰ عَلَیْہِ ۔ (ترمذی جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۷۴ حدیث نمبر ۱۳۵۲ الواب الاحکام)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،گواہ مدعی کے ذمہ میں ہے اور قسم مدعیٰ علیہ پر ہے ۔

مثال نمبر 2 : اگر آپ نے کوئی نیک عمل کیا ۔کسی دوسرے شخص نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ فاتحہ کر نا ۔ میلاد شریف منانا ۔ انگوٹھے چومنا ۔ مزارات کی حاضری ۔ اور ایصالِ ثواب وغیرہ یہ سب اعمال حرام ہیں ۔ تواب آپ کو ان اعمال کے حلال وحرام ہونے کے دلائل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ آپ اس اعتراض کرنے والے سے کہیں کہ حدیث پاک اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِیْ کے تحت وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس عمل کے حرام اور ناجائز ہونے پر گواہی لائے ، کیونکہ اصلاً کوئی چیز حرام نہیں بلکہ مباح (جائز) ہوتی ہے جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کو حرام قرار نہ دیں ۔

مزید یہ کہ متعد د آیات واحادیث مثلاً  : ’’وَاُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَا ءَ ذَالِکُمْ‘‘ ۔ (النساء آیت ۲۴) ۔ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ (الانعام آیت ۱۱۹) ۔ ’’وَمَاسَکَتَ عَنَہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَاعَنَہُ‘‘ ۔ (ترمذی جلد نمبر ۱ حدیث نمبر ۱۷۸۱) ، کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے ، معترضین کسی چیز کے ناجائز و حرام ہونے کا دعویٰ کیرتے ہیں تو یہ اُن کا دعویٰ خلاف اصل ہے ، لہٰذا معترضین کو دلیل لانا پڑے گی کہ یہ چیز حرام کس بنیاد پر ہے ؟ اگر وہ کہے کہ اس کا کہیں قرآن وحدیث میں ذکر نہیں تو اس جوا ب یہ ہے کہ جس عمل کا کتاب و سنت میں ذکر نہ ہو وہ حلال اور مباح ہوتا ہے ، یعنی اعمال کی حلت و حرمت کے بارے میں کتاب و سنت خاموش ہوں وہ حلال اور مباح ہوتے ہیں ۔


الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے : ⏬

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کیے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں ۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی ۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں ، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طور پر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیں خود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اور اختیار ہوتا ہے ، اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میں کہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے ۔

اسلام آسان دین ہے ، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے ، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔ فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ، زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے ، اس لیے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کےلیے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے ۔ اس تصور کو نظریہ اباحتِ اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

جامع ترمذی کتاب الباس : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ ۔
ترجمہ : سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھی ، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا ، اور حرام وہ ہے ، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۔

یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں ، اس کی تائید اس آیتِ کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جا سکتا ۔

مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن : ⏬

ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﳔ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةًؕ- وَ رَهْبَانِیَّةَ-ﰳابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ-فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْۚ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (سورہ الحدید آیت نمبر 27)
ترجمہ : پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اَور رسول بھیجے اور اُن کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اُسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں بہتیرے فاسق ہیں ۔

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس آیت میں  اللہ تعالیٰ نے رہبانیّت اختیار کرنے پر ان کی مذمت نہیں  فرمائی بلکہ اس پر جیسے عمل کرنے کا حق تھا (بعد والوں  کے) ویسے عمل نہ کرنے پر ان کی مذمت فرمائی ہے اوران کے ایجاد کیے ہوئے فعل کو بدعت کہا گیا اور ان کے بر خلاف اس امت نے جس نئے کام کو نیکی کے طریقے کے طور پر ایجاد کیا ، ان کی عظمت و شرافت کی وجہ سے اسے سنت (یعنی طریقہ) کہا گیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً ‘‘ جس نے اسلام میں  اچھی سنت ( طریقہ) ایجاد کیا ۔(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب الحثّ علی الصدقۃ ولو بشقّ تمرۃ ۔۔۔ الخ صفحہ ۵۰۸ الحدیث : ۶۹ ، ۱۰۱۷،چشتی)

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں  اسلام میں  نیک طریقے نکالنے کی اجازت دی ہے اور اس کا نام سنت رکھا ہے اور ا س طریقے کو نکالنے والوں  اور اس طریقے پر عمل کرنے والوں  کو اجر و ثواب کی بشارت دی ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۹ صفحہ ۳۸۴)

امام محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے تو جو اچھی بدعت نکالے اسے چاہیے کہ وہ اس پر ہمیشہ قائم رہے اور ا س کی ضد (یعنی مخالف چیز) کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت (میں  مذکور فسق) کی وعید میں داخل ہو گا ۔ (جبکہ وہ مخالفت شریعت کے برخلاف ہو) ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۹ صفحہ ۱۹۳ الجزء السابع عشر،چشتی)

صدر الآفاضل حضرت علامہ مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بدعت یعنی دین میں کسی بات کا نکالنا اگر وہ بات نیک ہو اور اس سے رضائے الٰہی مقصود ہو تو بہتر ہے اس پر ثواب ملتا ہے اور اس کو جاری رکھنا چاہیے ، ایسی بدعت کو بدعتِ حَسنہ کہتے ہیں البتہ دین میں بری بات نکالنا بدعتِ سَیِّئہ کہلاتا ہے ، وہ ممنوع اور ناجائز ہے اور بدعتِ سَیِّئہ حدیث شریف میں وہ بتائی گئی ہے جو خلافِ سنت ہو ، اس کے نکالنے سے کوئی سنت اُٹھ جائے ۔ اس سے ہزار ہا مسائل کا فیصلہ ہو جاتا ہے جن میں  آج کل لوگ اختلاف کرتے ہیں اور اپنی ہوائے نفسانی سے ایسے اُمورِ خیر کو بدعت بتا کر منع کرتے ہیں جن سے دین کی تَقْوِیَت و تائید ہوتی ہے اور مسلمانوں کو اُخروی فوائد پہنچتے ہیں اور وہ طاعات و عبادات میں ذوق و شوق کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ، ایسے اُمور کو بدعت بتانا قرآنِ مجید کی اس آیت کے صریح خلاف ہے ۔(خزائن العرفان صفحہ ۹۹۹)

مذکورہ آیتِ مبارکہ کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنے سے ہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصولِ رضائے الہٰی کےلیے اس عمل کو اختیار کر لیں تو انہیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہے دیکھیے آیت کےالفاظ میں ابتدعوھا بدعت سے مشتق ہے ۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلاً رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا ۔ دیکھیے ماکتبنٰھا کے الفاظ کیسے واشگاف انداز میں یہ اعلان کر رہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کے رسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا ۔اس لیے اللہ پاک نےامت عیسوی سے رہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہے لیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا ۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اس کے رسول نے نہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نے اسے بطور خود رضائےالہٰی کے حصول کی خاطر اپنالیا تھا ۔ جس پر اللہ پاک نے اُن کےاس عمل کو سندِ قبولیت سے نوازا اور یوں رہبانیت مشروع ہو کر شریعت عیسوی کا حصہ بنی ۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہے کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ۔ یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سے آئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہے ہیں کہ ماکتبنٰھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی ۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کے رسول نےکسی ایسے عمل سے روکا بھی نہ ہو اسے اگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کر لیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے ۔

جیسا کہ رھبانیت امتِ عیسوی میں ۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کے پیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصولِ رضائے الہٰی کےلیے ہی ایجاد کی تھی اسی لیے اللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرار د ے کر قبول کر لیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کے حصول کا زریعہ بن سکتا ہے ۔ اب اگر آپ اسی آیت کے اگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا ،، یعنی انہوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کے اس کا تقاضہ تھا ۔ تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آ جائے گی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہے مگر پھر اس کو ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کے ان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے کی مذمت کی ہے ۔ اس سے آگے کے الفاظ واشگاف اعلان کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اس یعنی بدعتِ رھبانیت کے تقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نے نہ صرف انہیں شرفِ قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم ،، کے الفاظ بتا رہےہیں کہ انہیں میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کے جملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔

مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلافِ شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہے بلکہ امرِ مستحسن کےطور پر اس پر اجر و ثواب کا بھی عندیہ دیتا ہے اور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انہیں مطلقاً ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دینا زیادتی کے مترادف ہے ۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ جس مقصد کےلیے وہ بدعتِ حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعتِ حسنہ کا سہارا لے کر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائے مگر اس کی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کر دیا جائے اور اسے محض رسمیت کے طور پر روا رکھا جائے جیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا ۔

ان دونوں آیات سے فقیر کے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کے ساتھ تصریح ہوتی ہے کہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کر دی اور اس کے سوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی ، پس ثابت ہوا کہ ترکِ ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے ۔ اور اسی اصول کی وجہ سے کسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کےلیے ضروری ہےکہ وہ اس کی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نے لکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائے گی کیونکہ اصل تمام اشیاء میں اباحت ہے ۔

نظریہ اباحتِ اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة ۔
ترجمہ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے ۔ (ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية)(الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية،چشتی)(رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر)

ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا ۔
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ (سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة)

الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع ۔
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔(ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية،چشتی)(ابن حزم، المحلی، 1: 177 بيروت لبنان: دار الآفاق الجديده)

الأصل في الأشياء الحل ’’ اشیاء میں اصل جواز ہے ۔ (زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه)(مبارک پوری غیرمقلد وہابی ، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية)

الأصل في الأعيان الحل ’’ اشیاء میں اصل جواز ہے ۔ (زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية)

الحل هو الأصل في الأشياء ’’ اشیاء میں جواز ہی اصل ہے ۔ (ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر)(ردالمحتار، 4: 167)

أصل الأفعال الإباحة ’’ اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے ۔ (إبن قيم جوزی ، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل)

الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر ’’ جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو ، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے ۔ (ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205)

الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع ’’ مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے ۔ (رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)

نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے ، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہو گی ۔ اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کےلیے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے ۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں ، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گذر سکتے ہیں یا نہیں ؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھر یہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے ، No entry ، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے ، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی ہر اس راستے سے گذرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے ۔ لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کےلیے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے ۔

شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام : ⏬

کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینے سے وہ حرام نہیں ہو جاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم سےکوئی سند نہیں ہے لہٰذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرے میں آجائے گا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئے عمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیے اسے دلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا اگر وہ عمل موافقِ شرع ہو تو بدعتِ حسنہ اور اگر خلافِ شرع ہو تو بدعتِ سئیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا ۔

مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان خان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں : اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعتِ مباح ، بدعتِ مکروہ ، بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیۂ ۔ ( ہدیة المہدی صفحہ 117 مطبوعہ میور پریس دہلی )

اور نواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلدین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ (ھدیة المھدی)

مشہور غیرمقلد عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسامِ بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں : لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاحِ شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعتِ سیۂ ہے ورنہ بدعتِ مباحہ ہے اور بلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( نیل الاوطار جلد 3 صفحہ 325 مکتبۃ الکلیات الازہریۃ) ۔ اسی طرح علامہ شیبر احمد عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ (فتح الملھم جلد 2 صفحہ 406 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی)

مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر علیہما الرحمہ کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ : حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اس نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلافِ شریعت ہو لکھتے ہیں : و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند)
ترجمہ : ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ہر نیا کام بدعت ہے‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اور سنت کے موافق نہ ہوں ۔

اگر آج کل کا وہابی ہر بدعت کو گمراہی کہیں گے تو وہ خود بھی نہیں بچ سکیں گے کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعتِ حسنہ سے خالی نہیں ۔ مثلاً مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتا ہے ہر ایمان کی دو قسمیں اور ان کا نام دونوں بدعت ہیں قرونِ ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ اور ان کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے اور ان کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارے بنانا ۔ ان میں رکوع قائم کرنا ، اس پر اعراب لگانا سب بدعت ہیں ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ، اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”نعمت البدعۃ ھذہ“ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔ بسوں ، گاڑیوں وغیرہ میں عرفات جانا بدعت جبکہ اس زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتا تھا ۔ پھر یہ کہنا کہ ہر دینی کام بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتا ہے اور دنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیا جائے تو اس پر بھی ثوا ب ملتاہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ 167 پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہٰذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے دیابنہ اور وہابیہ خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ دیابنہ اور وہابیہ کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کےلیے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں ان سے کوئی کام نہ ہوا تھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائے آمین ۔

بدعت بدت کی رٹ لگانے والوں کو دعوت فکر : ⏬

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ ۔ وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ ۔ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ (سورۂ المائدہ آیت نمبر 101)
ترجمہ : اے ایمان والوایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ۔

بانی جماعت اسلامی مودودی دیوبندی لکھتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی اور نہ دنیا ہی کے کسی معاملہ میں ۔ مثلاً ایک صاحب بھرے مجمع میں آپ سے پوچھ بیٹھے کہ میرا اصلی باپ کون ہے؟ اسی طرح بعض لوگ احکام شرع میں غیر ضروری پوچھ گچھ کیا کرتے تھے اور خوامخواہ پوچھ پوچھ کر ایسی چیزوں کا تعین کرانا چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معین رکھا ہے۔
مثلاً قرآن میں مجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے ایک صاحب نے حکم سنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا ۔ کیا ہر سال حج فرض کیا گیا ہے ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا انہوں نے پھر پوچھا آپ پھر خاموش ہو گئے ۔ تیسری مرتبہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پا جائے پھر تم ہی لوگ اس کی پیروی نہ کر سکو گے اور نہ فرمانی کرنے لگو گے ۔ ایسے ہی لایعنی اور غیر ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خوامخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے : إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَحُرِّمَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ ۔ مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال چھیڑا جو لوگوں پر حرام نہ کی گئی تھی اور پھر محض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیز ٹھہرائی گئی۔
ایک دوسری حدیث میں ہے :  إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلاَ تَعْتَدُوهَا ، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ رَحْمَةً بِكُمْ ، غَيْرَ نِسْيَانٍ ، فَلاَ تَبْحَثُوا عَنْهَا ۔ اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو لہٰذا ان کی کھوج نہ لگاؤ ۔ ان دونوں حدیثوں میں ایک اہم حقیقت پر متنبہ کیا گیا ہے جن امور کو شارع نے مجملاً بیان کیا ہے اور ان کی تفصیل نہیں بتائی یا جو احکام بر سبیل اجمال دیے ہیں اور مقدار یا تعداد یا دوسرے تعینات کا ذکر نہیں کیا ہے ان میں اجمال اور عدمِ تفصیل کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شارع سے بھول ہو گئی تفصیلات بتانی چاہیے تھیں مگر نہ بتائیں ۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شارع ان امور کی تفصیلات کو محدود نہیں کرنا چاہتا اور احکام میں لوگوں کےلیے وسعت رکھنا چاہتا ہے ۔ ( تفہیم القرآن جلد 1 صفحہ 507 ۔ 508)

حیران کن امر یہ ہے کہ جب اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وسعت عطا فرما دی اور جب تک منع کا حکم نہ آئے ممانعت نہیں تو ںھر اس اصول اور ضابطہ کو ہم اہلسنت پر فتویٰ داغنے کے وقت مدِّنظر کیوں نہیں رکھا جاتا ؟
محافل میلاد ، ایصال ثواب کے جلسے  ، کھانے پر قرآن پڑھنا ، اذان کے اول آخر برکت کےلیے درود و سلام پڑھنا و دیگر معمولاتِ اہلسنت کو بدعت کہتے وقت دیابنہ اور وہابیہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ممانعت کا حکم نہ ہو ممانعت نہیں اور جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کے متعلق اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خاموش ہوں وہ عمل جب شرعاً مباح ہے تو پھر شریعت کے اس قاعدے کو ماننے سے کونسی چیز مانع ہے جب کہ یہ اصول تو خود علماء دیابنہ اور وہابیہ کو بھی مسلّم ہے ۔

بدعت بدعت کی رٹ لگانے والوں  کو ان کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی دیوبندی کا جواب آپ لکھتے ہیں : ہر چیز میں اصل اباحت ہے  یعنی ہر چیز اصل میں جائز ہے : قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ  (سورۂ المائدہ آیت ١٠١ )
ترجمہ : اے ایمان والو مت پوچھو ایسی باتیں کہ اگر تم پر کھولی جاویں تو تم کو بری لگیں اور اگر پوچھو گے یہ باتیں ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہورہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جاویں گی اللہ نے ان سے در گزر کی ہے اور اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے ۔
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں : پچھلے دو رکوع کا حاصل احکامِ دینیہ میں غلو اور تساہل سے روکنا تھا یعنی جو طیبات خدا نے حلال کی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام مت ٹھہراؤ اور جو چیزیں خبیث و حرام ہیں خواہ وہ دائمی طور پر یا خاص احوال و اوقات میں ان سے پوری طرح اجتناب کرو ۔ ان آیات میں تنبیہ فرما دی کہ جو چیزیں شارع نے تصریحاً بیان نہیں فرمائیں ان کے متعلق فصول اور دور ازکار سوالات مت کیا کرو جس طرح تحلیل و تحریم کے سلسلہ میں شارع کا بیان موجبِ ہدایت و بصیرت ہے اس کا سکوت بھی ذریعہ رحمت و سہولت ہے ۔ خدا نے جس چیز کو کمال حکمت و عدل سے حلال یا حرام کر دیا وہ حلال یا حرام ہو گئی اور جس سے سکوت کیا اس میں گنجائش اور توسیع رہی ۔ مجتہدین کو اجتہاد کا موقع ملا عمل کرنے والے اس کے فعل و ترک میں آزاد رہے اب اگر ایسی چیزوں کی نسبت خوامخواہ کھود کرید اور بحث و سوال کا دروازہ کھولا جائے گا بحالیکہ قرآن شریف نازل ہو رہا ہے اور تشریح کا باب مفتوح ہے تو بہت ممکن ہے کہ سوالات کے جواب میں بعض ایسے احکام نازل ہو جائیں جن کے بعد تمہاری یہ آزادی اور گنجائشِ اجتہاد باقی نہ رہے ۔ پھر سخت شرم کی بات ہو گی کہ جو چیز خود مانگ کر لی ہے اس کو نباہ نہ سکیں ۔ پھر آگے لکھتے ہیں : یا تو مراد یہ ہے کہ ان اشیاء سے درگزر کی یعنی جب خدا نے ان کے متعلق کوئی حکم نہ دیا تو انسان ان کے بارے میں آزاد ہے خدا ایسی چیزوں پر گرفت نہ کرے گا ۔ چنانچہ اسی سے بعض علماء اصول نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے ۔ (یعنی ہر چیز اصل میں جائز ہے) ۔ ( تفسیر عثمانی جلد اوّل صفحہ 577  مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

معلوم ہوا کہ جب تک وحی نازل نہ ہو تو نہ کوئی چیز لازم ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز منع اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے حکم دیا ہے یا ترغیب دی ہے وہ فرض ، واجب ، سنت اور مستحب (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے ممانعت فرمائی یا ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے وہ حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی اور اسائت (علی حسب الحکم) قرار پاگئیں اور جن چیزوں کے متعلق شریعت مطہرہ نے سکوت فرمایا یعنی نہ حکم و ترغیب نہ ہی ممانعت و ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا وہ سب چیزیں بلاشبہ جائز ہیں ، یعنی محافل میلاد شریف ، ایصال ثواب کے جلسے , اذان سے قبل یا بعد درود و سلام ، دعا بعد نماز جنازہ وغیرہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...