Saturday 27 April 2024

مسئلہ استعانت و وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں

0 comments
مسئلہ استعانت و وسیلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئین کرام : استمداد اور استعانت کا معنیٰ ’’طلب معونت‘‘ یعنی مدد طلب کرنا ہے ۔ ’’استغاثہ‘‘ فریاد خواہی کو کہتے ہیں ۔ (عامۂ لغات ، نیز دیکھیں الجواہر المنظم صفحہ ۱۲۴ المجمع الثقافی ابو ظبی)

اور توسل ، وسیلہ ، تشفع یہ استمداد اور استعانت کے قریب المعنی الفاظ ہیں جن کا معنی تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ(حاشیہ الصاوی علی الجلا لین ، جلد ۱ صفحہ ۲۸۲)

یہ بھی استعانت کی ایک نوع ہے ۔ اور ’توحید‘’شرک‘ کی ضد ہے ،توحید کا حقیقی مفہوم الوہیت اور لوازمِ الوہیت کو صرف اللہ عز و جل کے لئے مخصوص ماننا اور اسی کی ذات میں منحصر سمجھنا ہے ۔ بلفظ دیگر اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات میں یکتا و منفرد اعتقاد کرنا اور شریک سے پاک ماننا ہے ۔ (حاشیہ صحیح البخاری جلد ۲ صفحہ ۱۰۹۶ تعریف علامہ بدرالدین عینی حنفی)

زیرِ نظر مضمون میں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ اہل سنت و جماعت میں رائج و معمول انبیاء علیہم السلام ، اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے استمداد ’’استعانت اور استغاثہ و توسل‘‘ آیا تصور توحید کے منافی ہے یا یہ کہ یہ اسلامی معتقدات اور معمولات ہی کا ایک حصہ ہے ؟

اسلام کی ابتدائی تین صدیوں سے لے کر ساتویں صدی ہجری تک تمام اہل اسلام میں انبیاء علیہم السلام و صالحین علیہم الرحمہ سے طلبِ معونت ، فریاد خواہی اور قضائے حاجت کے لئے انہیں وسیلہ بنانا ایک حقیقتِ ثابتہ رہی اور بلا تفریق جمہور مسلمین اس کے جواز و استحسان پر قولاً و عملاً متحد و متفق رہے ۔ خیر القرون میں صحابہ و تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم ، کتاب و سنت کے حاملین خود ساتویں صدی ہجری کے علمائے راسخین و فقہاء و محدثین کا یہی موقف رہا ، اور بے کسی اختلاف و نزاع کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے صحیح و حقیقی جانشین آج بھی اسی پاکیزہ موقف پر گامزن ہیں ۔ ان میں سے کسی نے بھی انبیاء و صلحاء سے’’استمداد و توسل‘‘ کو اسلامی تصورِ توحید کے منافی نہیں جانا ۔

اسلامی معتقدات ومعمولات کے شارح حجۃ الاسلام امام غزالی (متوفی ۵۰۵؁ھ) قُدِّسَ سِرُّہُ فرماتے ہیں : مَنْ یُّسْتَمَدُّ فِیْ حَیَا تِہٖ یُسْتَمَدُّ بَعْدَ وَفَا تِہٖ  ۔(احیاء العلوم للغزالی) ، جس سے زندگی میں مدد مانگی جاتی ہے بعد وفات بھی اس سے مدد مانگی جائے گی ۔

امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی شافعی مکی (۹۷۴؁ھ) رحمة اللہ علیہ ’’الجوہر المنظم‘‘ میں چند حدیثیں نقل فرماتے ہیں جو استمداد اور توسل کے جواز و استحباب کی دلیل ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : ہر طرح کے ذکر خیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وسیلہ اور ان سے استعانت کی جاتی ہے ۔ آپ کے اس دنیا ئے فانی میں ظہور سے قبل بھی اور بعد ظہور بھی ، آپ کی حیات ظا ہری میں بھی اور بعد وصال بھی ، یوں ہی میدانِ قیامت میں بھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں گے اور یہ ان امور میں سے ہے جن پر اجماع قائم ہے اور اس تعلق سے اخبار تواتر کی حد تک ہیں ۔ (الجواہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبی المکرم ؍ص۱۷۸ ابو ظبی،چشتی)

فقیر نے صرف دو اقوال نقل کیے ، اگر علمائے راسخین کے اس قسم کے اقوال نقل کیے جائیں تو ایک کامل کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ پوری جماعت اہل سنت کی جانب سے مسئلہ ’’استمداد اور توسل‘‘ کی وکالت کےلیے یہ دو اقتباسات کافی ہیں ۔ ’’استمداد و توسل‘‘ کا یہ نظریہ ہر دور اور ہر قرن میں موجود رہا ۔ اس میں پہلا رخنہ ڈالنے والا اور اس نظریۂ فکر کا پہلا منکر (نیز غیر اللہ سے استمداد وتوسل کو شرک وبت پرستی سے تعبیر کرنے والا) ساتویں صدی ہجری کے وسط کی پیدا وار ابن تیمیہ ہے (جس کی ولادت ۶۶۱ھ؁ میں ہوئی) اس دور کے علماء نے ابن تیمیہ کے دیگر تفردات کی طرح اس مسئلہ میں بھی اس کا شدید ردو ابطال فرمایا ۔ جس کے نتیجہ میں کوئی چار سو سال تک یہ فتنہ زیرِ زمین دفن رہا ۔ بارہویں صدی کے آغاز میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی نے اس فتنہ کو ابھارا اور اسی صدی کے اخیر میں شیخ نجدی کے ایک ریزہ خوار مولوی اسماعیل دہلوی قتیل نے ہندوستان میں اس فتنہ کو ہوادی ، اور ان کے سُر سے سر ملا کر آج کل کے غیرمقلدین اور ان کے راستے پر چلتے ہوۓ بعض دیوبندی اس فاسد نظریہ کے داعی بن گئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون میں ہم اہل سنت کے نظریہ استمداد پر ٹھوس دلائل وثبوت فراہم کریں گے ۔

واضح رہے کہ استمدادو استعانت (غیر اللہ سے مدد طلب کرنا) کے وسیع مفہوم میں ’’استغاثہ‘‘ (فریاد خواہی) ’’توسل‘‘تشفع‘‘ مدد کے لئے ندا سبھی شامل ہیں ، یوں ہی انبیاء وصلحاء سے ’’استمداد وتوسل‘‘ خواہ ان کی ظاہری زندگی میں ہو یا بعد وصال اعمال صالحہ سے استعانت ووسیلہ کی طرح یہ بھی جائز و مستحسن ہے ۔

علامہ ابن حجر ہیتمی مفتی مکہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولا فرق بین ذکر التوسل والاستغاثۃ والتشفع والتوجہ بہ او بغیرہ من الانبیاء و کذا الاولیاء ۔ (الجواہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبی المکرم صفحہ ۱۷۵ ابو ظبی)
ترجمہ : لفظ توسل و استعانت ذکر کیا جائے ، یا تشفع وتوجہ ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جائز ودرست ہیں یونہی دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاءاللہ علیہم الرحمہ ۔ سے جائز و درست ہیں یونہی ۔

فقیر اوپر بیان کر چکا ہے کہ آغاز اسلام سے لے کر اب تک ہر دور میں انبیاء علیہم السّلم ، صلحاء ، اولیاء سے استمداد و توسل کا عام دستور رہا ’ علمائے راسخین اور کتاب و سنت کے حاملین سے ہر قرن و صدی معمور رہی ، مگر کسی نے اس پر نکیر نہیں فرمائی سبھی بالاتفاق جائز و مستحسن اور قضائے حاجات کا ذریعہ سمجھتے رہے پچھلی امت میں بھی ذوات واشخاص اور اعمال سے استمداد و استعانت و توسل کا دستور رہا ۔

اہلسنت و جماعت کے نزدیک استمدادِ اولیا اللہ کا عقیدہ برحق ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت اور اقوالِ آئمہ سے آگے پیش کریں گے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے اہلسنت و جماعت کے نزدیک اولیا اللہ سے مدد صرف توسل ہے یعنی حقیقی مدد اللہ عزوجل ہی کی جانب سے ہوتی ہے اور چونکہ انبیا واولیا اللہ عزوجل کے فیض کے مظہر ہیں اس لیے انہیں فیضِ الہٰی کا واسطہ سمجھ کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر بھکاری بھی جب آپ سے بھیک مانگتا ہے اور جواب میں کچھ نہیں ملتا تو طرح طرح کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے نام پر کچھ دے دو ، اپنے اہل وعیال کے نام پر کچھ دے دو ۔

اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے ۔ ہاں غیراللہ سے اس عقیدہ سے مدد مانگنا کہ بغیر عطائے الہٰی اپنی ذات سے مدد کریں تو یہ عقیدہ بیشک باطل ہے اور اس کی تردید علما و فقہا نے واضح الفاظ میں کی ہے۔ لیکن بغیر دلیل مسلمان کی نیت پر شک کرنا بھی غلط ہی ہے، کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا ۔

قرآن و حدیث میں انبیاء علیہم السلام و اولیاء سے مدد مانگنے سے کہیں منع ہی نہیں کیا گیا ، پھر بھی تشفی قلب کےلیے کچھ آیات و احادیث پیش خدمت ہیں جن سے انبیاء علیہم السلام و اولیاء سے مدد مانگنے کا ثبوت حاصل ہوتا ۔ مگر اس سے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے ، ان شاء اللہ تعالیٰ بہت سے شبہات و وَساوس دور ہوں گے اور یہ اصول بہت جگہ کار آمد ہوگا ۔

پہلی بات یہ یاد رکھیے کہ شرک ہر حال میں شرک ہے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں تو شرک تھی اور آج نہ ہو ، یا کوئی بات ان کے دور میں شرک نہیں تھی اور آج آکر وہ بات شرک ہو جائے ، دوسری بات یہ کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک کام جس کا تعلق اگر زندہ کے ساتھ ہو تو وہ شرک نہ ہو اور اگر وہی کام مردہ سے متعلق ہو جائے تو شرک ٹھہرے ، کیونکہ اگر مردہ خدا کا شریک نہیں ہو سکتا تو زندہ بھی نہیں ہو سکتا ۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دینے والی ذات اللہ کریم ہی کی ہے اگر وہ نہ چاہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا لیکن وہ جسے چاہے ، جتنا چاہے عطا کرے، اور اللہ عزوجل ہی کی عطا سے انبیاء علیہم السلام  و اولیاء اسی کی نعمتیں جس کو چاہیں اور جس قدر چاہیں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اور جب وہ تقسیم کرسکتے ہیں تو ان سے مانگنے میں کیا حرج ہے ؟ مزید یہ کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا فرض یا واجب نہیں اور نہ ہی یہ کہ جو غیر اللہ سے مدد نہ مانگے وہ گنہگار ہے ، بلکہ یہ ایک جائز فعل ہے ۔

اِستغاثہ کے جواز پر قرآن و سنت کے جمیع اَحکام اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنھم سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیوی زِندگی میں تو ایک دُوسرے کے کام آنا ممکن ہے لہٰذا مدد مانگنا اور مدد کرنا بھی جائز ٹھہرا ، لیکن موت کے بعد تو بندہ اپنے بدن پر بھی قادِر نہیں ہوتا ، تب اُس سے کیونکر مدد طلب کی جا سکتی ہے ؟ اور چونکہ وہ مدد پر قدرت نہیں رکھتا لہٰذا یہ شِرک ہے ۔

اِس کج فہمی کے بارے میں ہم دو چیزوں کی وضاحت بطورِ خاص کرنا چاہیں گے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ بندہ زِندہ ہو یا قبر میں آرام کر رہا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے وُجود پر قطعاً قادرِ مطلق نہیں ہوتا ۔ یہ محض اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ وہ اِختیارات ہوتے ہیں جنہیں ہم حیاتِ دُنیوی کے دوران اِستعمال کرتے اور دُنیا بھر کے معاملات سراِنجام دیتے پھرتے ہیں ۔ یہ اِختیار ﷲ ربّ العزّت کی عطا سے قائم ہے ، اور اگر اِس ظاہری حیات میں بھی ﷲ تعالیٰ اپنا دِیا ہوا یہ اِختیار چھین لے تو بندہ ایک تنکا توڑنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔ سوجس طرح اِس عالمِ اَسباب میں بندے کے جملہ اِختیارات کا حقیقی مالک ﷲ تعالی ہے اور اِس کے باوجود بھی اُس سے مدد طلب کرنا شِرک نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے ، بالکل اِسی طرح موت کے بعد بھی اگر کسی بندۂ بشر سے اِمداد طلب کی جائے تو اُسے اللہ تعالی ہی کی طرف سے مختار مانا جائے گا ۔ جس طرح زِندگی میں کسی بھی صورت میں بندے کو مُستغاث و مختارِ حقیقی ماننا شِرک ہے لیکن مجازاً اُسے مدد کے لئے پُکارا جا سکتا ہے اِسی طرح بعد اَز موت اولیاء و صلحاء کو مُستغاثِ مجازی مان کر اُن سے اِستغاثہ کرنا بھی جائز ہے ۔ شِرک زِندہ سے ہو یا فوت شدہ سے شِرک ہی ہے اور مجازی مالک مان کر مدد مانگنا زِندہ سے ہویا اہلِ مزار سے دونوں صورتوں میں شِرک نہیں ہوگا ۔ 

میرا منکرینِ استمداد انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ سے سوال ہے کہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کس جگہ یہ کہا کہ دنیا میں اگر کسی سے مدد طلب کرو گے تو شرک نہیں اگر یہی مؤمن وفات پا جائے تو اگر ان سے دعا اور مدد مانگوں گے تو شرک ہو جاۓ گا ؟

لہٰذا ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ شرک ایک جگہ تو شرک کہلاۓ مگر دوسری جگہ شرک نہ کہلاۓ ۔ شرک جہاں بھی ہو شرک شرک ہی ہوتا ہے اور اللہ کو شرک ناپسند ہے ۔ اس لیے ان لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ اولیاء کرام سے مدد مانگنا شرک ہے ۔

قرآنِ کریم میں اس ضمن میں اتنی واضح آیات وارد ہیں ۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَاغِبُونَ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 59)
ترجمہ : اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول، ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔

أَغْنَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 74)
ترجمہ : ان کو اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے غنی کر دیا ۔

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً ۔ (سورۃ النسا آیت 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِيۤ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ ٱللَّهِ آمَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت 52)
ترجمہ : پھر جب عیسٰی نے اُن سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللّٰہ کی طرف حواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں ہم اللّٰہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلإِثْمِ وَٱلْعُدْوَانِ ۔ (سورۃ المائدہ آیت 2)
ترجمہ : اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ۔

يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔ (سورۃ محمد آیت 7)
تعجمہ : اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے ۔

وَإِن يُرِيدُوۤاْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ هُوَ ٱلَّذِيۤ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ ۔ (سورۃ الانفال آیت 62)
ترجمہ : اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللّٰہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زوردیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا ۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِير ۔ (سورۃ التحریم آیت 4)
ترجمہ : تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاَثَةِ ءَالَٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلاۤئِكَةِ مُنزَلِينَ ۔ (سورۃ آعمران آیت 124)
ترجمہ : جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ۔

قَالَ إِنَّمَآ أَنَاْ رَسُولُ رَبِّكِ لأَهَبَ لَكِ غُلاَماً زَكِيّاً ۔ (سورۃ المریم آیت 19)
اے مریم میں تمہارے رب کا قاصد ہوں۔ آیا ہوں تاکہ تم کو پاک فرزند دوں ۔

قرآن میں منکرینِ استمدادِ اولیا کا احوال بھی بیان فرمادیا گیا ۔

أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً ۔ (سورۃ النسا آیت 52)
ترجمہ : یہ ہیں جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا ۔

قرآن مجید سے انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کے زندہ ہونا کا ثبوت

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ۔
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اُن کی زندگی کا) شعور نہیں ۔ (البقره، 2 : 154)

اِسی مضمون کو سورۂ آل عمران میں کچھ مختلف اَلفاظ کے ساتھ یوں اِرشاد فرمایا گیا : وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ۔
ترجمہ : اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُنہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں، اُنہیں (جنت کی نعمتوں کا) رِزق دیا جاتا ہے ۔ (آل عمران، 3 : 169)

ان آیاتِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کی ساری زندگی آللہ کی راہ میں گزرتی ہے اور قرآن فرما رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مُردہ مت کہو ۔ ان آیات میں اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو میدان جنگ میں یا جو صرف تلوار سے مارا جاۓ وہ شہید ہے باقی کوئی نہیں ۔ بلکہ اللہ پاک نے فرمایا کہ جو ہماری راہ میں مارے جائیں انہیں مُردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ۔ چانچہ ثابت ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کی ساری زندگی آللہ کی راہ میں گزرتی ہے اس لیے وہ ذندہ ہیں انہیں مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے ۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہے کہ جو لوگ اللہ کی محبت میں مارے جائیں وہ شہید ہیں ۔ چانچہ شہید تو  زندہ ہوتے ہیں ۔

متفرق احادیث میں ایسے شہداء کی چالیس سے زیادہ قسمیں مذکور ہیں،تمام کا احاطے کا یہاں موقع نہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :

حدیث مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ڈوب کر موت آئے یا کسی آسمانی آفت میں اس کی موت آجائے یا ہیضہ ، طاعون یا دیگر ایسے اسباب سے اس کی موت واقع ہو یا مسافر کا سفر میں انتقال ہوجائے وغیرہ۔علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے حاشیہ رد المحتار میں تمام اقسام کو جمع کیا ہے ۔

چانچہ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی روشنی میں ثابت ہوا کہ انبیاء اور اولیاء اللہ شہید ہوتے ہیں انہیں مردہ کہنے سے منع کیا گیا ۔ جو لوگ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو معاذاللہ مردہ تصور کرتے ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ کیونکہ وہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آیات قرآن اور حدیث مبارکہ کا انکار کر رہے ہیں ۔

کچھ کم علم لوگ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ کفار ومشرکین بھی اپنی قبروں میں ہیں سماعت کی اہلیت رکھتے ہیں مگر مشرک ہونے کی وجہ سے کسی کی مدد نہیں کر سکتے مثال کے طور پر غزوۂ بدر کے بعد سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود کفار و مشرکین میں سے قتل ہو جانے والوں کو نام لے لے کر پکارا اور اُن سے پوچھا : فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ۔
ترجمہ : تحقیق ہم نے اپنے ربّ کے وعدے کوبالکل درست پایا، سو (اے کفار و مشرکین) کیا تم نے بھی اپنے ربّ کا وعدہ سچا پایا ؟
اِس موقع پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم میں یوں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپ ایسے جسموں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح ہی نہیں ۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابۂ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا : وَ الَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَع لِمَا أَقُوْلُ مِنْهُمْ ، اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی جان ہے ، میں اُن (کفار و مشرکین) سے جو باتیں کر رہا ہوں وہ اُنہیں تم سے بڑھ کر سننے پر قادر ہیں ۔ (صحيح البخاری کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 566،چشتی)

صحیح بخاری کی اِس حدیثِ مبارکہ سے تو کفار و مشرکین تک کی بعد از موت برزخی زِندگی میں میسر قوتِ سماعت نہ صرف عام زِندہ اِنسانوں بلکہ زِندہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی سماعت سے بھی بڑھ کر قرار پا رہی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم واشگاف اَلفاظ میں بار ہا یہ اِعلان فرما چکے ہیں کہ : إِنَّ ﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الْأنْبِيَآءِ، فَنَبِیُّ ﷲِ حَیٌّ يُّرْزَقُ ۔
ترجمہ : اللہ تعالی نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔ پس اَنبیاء علیھم السلام زندہ ہیں اور اُنہیں رِزق بہم پہنچایا جاتا ہے ۔ (سنن النسائی کتاب الجمعه جلد 1 صفحہ 204)(سنن اَبوداؤد کتاب الصلوٰة جلد 1 صفحہ 157)(سنن اِبن ماجه کتاب الجنائز صفحہ 119)

اِس حدیث مبارکہ سے بالصراحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے انبیاء علیہم السلام اپنی قبور میں زِندہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں تو یہاں تک وارِد ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اُمت کے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیک اَعمال پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں جبکہ بداَعمالیوں پر اللہ کے حضور اُمت کی مغفرت کے لئے دُعا فرماتے ہیں ۔ حدیثِ مبارکہ کے اَلفاظ یہ ہیں : تُعرضُ علیّ أعمالُکم فما رأيتُ مِن خيرٍ حمدتُ ﷲَ عليهِ وَ ما رأيتُ مِن شرِّ نِاسْتغفرتُ ﷲَ لکُم ۔
ترجمہ : مجھ پر تمہارے اَعمال پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں اگر اَعمال اچھے نہ ہوں تو اللہ کے حضور تمہاری مغفرت کے لئے دُعا کرتا ہوں ۔ (مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 24،چشتی)

صحیح سند کے ساتھ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ روایت کرتے ہیں : ایک دن مروان آیا تو دیکھا کہ ایک آدمی قبر (رسول اللہ پر) اپنا چہرا رکھے ہوئے تھا ۔ مروان نے کہا : تجھے پتا ہے تو کیا کر رہا ہے ؟ اس نے جب مروان کی طرف چہرہ کیا تو وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے اور کہنے لگے ہاں مجھے پتا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سنا آپ نے فرمایا : جب اہل کی حکومت ہو تو دین پر نہ رونا لیکن جب نا اہل کی حکومت ہو پھر دین پر رونا ۔ إسناده حسن ، و صححه الحاكم والذهبي و حسنه السّبكي والسمهودي والصالحي الدمشقي ، والمناوي ۔ اس کی سند حسن ہے ، حاکم اور ذہبی نے اس کو صحیح کہا ہے جبکہ سمہودی ، صاکحی دمشقی اور مناوی نے اسے حسن کہا ہے ۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری قبر اطہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آنے کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آنا قرار دیتے تھے ۔

وصالِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد صحابی حضرت بلال بن سلیمان کا استغاثہ

امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ قحط میں گرفتار ہوئے ایک آدمی قبرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کی طرف آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی امت کے لیے بارش طلب کیجیے قریب ہے کہ (آپ کی امت) ہلاک ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس کے خواب میں آئے اور کہا : عمر کے پاس جاؤ اس کو میرا سلام پہنچاؤ اور اس کو بتاؤ کہ تم سیراب ہوگے اور اسے کہو : تم پر بخشش لازم ہے تم پر بخشش لازم ہے ۔ وہ عمر کے پاس آیا اور اسے خبر دی ۔ عمر نے گریہ کیا اور کہا : اے میرے رب! میں اس سلام کے قابل نہیں۔ مجھ سے لوگوں کی جو خدمت ہوگی وہ کرونگا ۔ (المصنف في الأحاديث والآثار جلد ج 6 صفحہ 356 ، حدیث نمبر 32002،چشتی)(امام ابن کثیر دمشقی نے کہا ہے : وهذا اسناد صحيح ، یہ سند صحیح ہے ، البداية والنهاية جلد 7 صفحہ 92)

امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے : وقد روى سيف في الفتوح أن الذي رأى المنام المذكور هو بلال بن الحارث المزني أحد الصحابة ۔ سیف نے فتوح میں روایت کی ہے کہ : جس نے خواب دیکھا تھا وہ بلال بن حارث المزنی تھا جو صحابہ میں سے ہے ۔ (فتح الباري شرح جلد 2 صفحہ 495 تحقيق : محب الدين الخطيب، ناشر: دار المعرفة - بيروت. طبق برنامه الجامع الكبير)

اللّٰہ تَعَالیٰ کی عطا سے انبیائے کرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامو اولیاءِ عِظام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ تَـعَالٰی مدد فرماتے ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃُ التحریم پارہ 28 کی آیت 4 میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ (۴) ۔ (پ۲۸،التحريم:۴)
ترجمہ : تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔

حدیث شریف میں حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں : جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے : اے اللّٰہ کے بندو ! میری مدد کرو ، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو ، کہ اللّٰہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا ۔ (معجم کبیر جلد ۱۵ صفحہ ۱۱۷ حدیث نمبر ۲۹۰)

جس طرح ظاہری زندگی میں ان سے توسّل کرنا اور مدد مانگنا جائز ہے اسی طرح ان کے وصال کے بعد بھی جائز ہے ۔ اللّٰہ تَعَالیٰ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ولی اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں ۔

وسیلہ خواہ  تقرب کےلیے ہو یا حاجت روائی کےلیے ہوخواہ  کسی نیک اعمال کا ہو یا کسی نیک بندے کا ہو ۔ خواہ  وہ نیک ہستی حیات ہو ۔ یا ظاہری وفات پا چُکی ہو ۔ خواہ وَسیلہ کلام حقیقی ذاتی کی صورت میں ہو ۔ یا کلام مجازی کی صورت میں ہو ۔ یہ قرآن و احادیث کی روشنی میں ایک ثابت شدہ امر ہے ۔ اور جائز ہے ۔ اِسے  شرک کہنا عام مسلمانوں بلکہ بڑے بڑے محدثین تابعین اور صحابہ کرام  علیہم الرضوان پر الزام کے مترادف ہے ۔ بلکہ اِن نفوسِ قُدسیہ کو شرکیہ افعال میں مبتلا ہونے والا ۔ کہنے کے مترادف ہے ۔ حالانکہ قرآن کی کسی آیت اور کسی حدیث میں وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔ اور جو حضرات ہٹ دھرمی دِکھاتے ہوئے قرآن کی  وہ آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں کہ جس میں بتوں کو پوجنے اور ان سے مدد مانگنے سے منع کیا گیا ہے ۔ جُو کہ صریح گُستاخی تُو ہے ہی لیکن علمی خیانت بھی ہے ۔ کہ جانتے بُوجھتے آیات کا محل بدل دِیا جائے ۔ یہ قُرانی آیات کی تفسیر بالرائے کے مترادف ہے ۔ جس کی اِسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ  اپنی جانب سے قران کی تفسیر کرنا بالاجماع علما و محدثین حرام عمل ہے ۔

مثلاً : قُلْ اَنَدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰینَا اللہُ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ  کیا ہم اللّٰہ کے سوا اس کو پوجیں جو ہمارا نہ بھلاکرے۔ نہ بُرا۔  اُور الٹے پاؤں پلٹا دیئے جائیں بعد اس کے کہ اللّٰہ نے ہمیں راہ دکھائی ۔

اور ان آیات میں لفظ’’ دعا‘‘ پکار  کے معنی میں نہیں بلکہ عبادت کے معنی میں ہے  مگر ہٹ دھرمی دیکھئے کہ قرآن  میں اپنی رائے سے تفسیر کر تے ہوئے کہتے  ہیں  کہ دعا سے مُراد’’ پکارنا‘‘ ہے لہذا کسی نبی ولی کو پکارنا جائز نہیں ہے یہ شرک ہے العیاذ باللہ تعالی حالانکہ تمام مفسرین نے  ان مقامات پر لفظ دعا کا معنی  عبادت کرنا بیان کیا ہے مگر جس کا کام ہی مسلمانوں پر شرک کا فتوی صادر کرنا ہو تو  اُسے اپنے ایمان کی بھی  کیا فِکر ہُوگی ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ‘‘ یعنی : جس نے قرآن میں بغیر علم کے کچھ کہا پس اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے ۔ (سنن الترمذی باب تفسیر القران حدیث نمبر۲۱۰۱،چشتی)

بالفرض محال آپ اس کا معنی ’’پکارنا‘‘ ہی لو تو جناب یہ بتایئے کہ  دنیا میں کون مسلمان  پھر شِرک سے باہررہا۔۔۔ ہر شخص کسی نہ کسی شخص کو دنیا میں اپنی مدد وغیرہ کے لئے ضرور پکارتا ہے۔۔۔ تو جن حضرات نے مطلق پکارنے کو ہی شرک کہا تو اس صورت میں دنیا میں سب کے سب ہی معاذ اللہ کافر و مشرک ہو گئے ۔ کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے اس آیت میں جس کو آپ نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ مطلقاً  بَندوں کو پکارنے سے منع کیا ہے۔ تو اب آپ کسی کو بھی نہیں پکار سکتے ۔ اُور اگر آپ یہ کہیں کے زِندوں کو پکار سکتے ہیں ۔ مگر مُردہ کو نہیں پکار سکتے ۔

تو حضرت موسی علیہ السلام نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وصال مبارک کے کئی سو سال بعد مدد فرمائی ۔ پچاس نمازوں کو پانچ نمازوں میں تبدیل کرواکر۔۔۔۔ تو اعتراض کرنے والوں کو چاہیئے کہ،، وُہ  پُوری پچاس نماز ہی پڑھا کریں ۔ کہ ،، آپ تو مرنے کے بعد مدد کے قائل نہیں ہیں ۔ نیز آپ نے یہ مُردہ اور زندہ کی تفسیرکہاں سے کی ہے ؟

ذرااس کا حوالہ دیجیے وگرنہ  آپ کا یہ عمل تفسیر بالرائے کرنا ہے ۔ جو کہ حرام ہے ۔ اور اگر زندہ کو پکار سکتے ہیں تو کیا فرعون کے ساتھی جو اسے خدا سمجھ کر پکارتے تھے ۔ تو کیا وہ جائز تھا ؟

یا آج اگر کوئی کسی کو خدا سمجھ کر پکارے تو کیا یہ جائز ہو گا ؟ تو معلوم یہ  ہُوا ۔ کہ ، زندہ یا مرد ہ کا فرق نہیں بلکہ خدا سمجھ کر پکارنا ممنوع ہے ۔ اُور یہی شرک ہے ۔

الحمد للہ کوئی بھی ذی شعور مسلمان کسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا  صالحین علیہم الرحمہ کو خدا سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا ۔ اور جو پکارے وہ یقیناً مشرک ٹھہرے گا ۔ اب بھی اگر  کوئی ان آیات  کو جو کہ کفار کے حق میں نازل ہوئیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرتا دَکھائی دے ۔ تو درحقیقت وہ اسلام کے لِبادے میں اہل خوارج بے دین لوگوں میں سے ہیں ۔کیونکہ بخاری شریف میں یہ خوارجیوں کی نشانی بیان کی گئی ہے ۔

حضرت ابن عمر رضی ﷲ تعالی عنہ خارجیوں کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ وقال إنہم انطلقوا إلی آیات نزلت فی الکفار فجعلوہا علی المؤمنین ‘‘ یعنی : فرمایا کہ (خارجیوں کی نشانی یہ ہے کہ) وہ آیات جو کفار کے حق میں نازل  ہوئی ہیں مسلمانوں پر تھوپتے ہیں ۔ (صحیح بخاری باب قتل الخوارج قبل حدیث نمبر ۶۵۳۱۔چشتی)

ہم مسلمان الحمدللہ رب العلمین ہر طرح کے شرک سے محفوظ ہیں ۔ کیونکہ اس بات کی ضمانت خود اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے صحیح بخاری میں ہے ’’ وانی واللہ ما اخاف علیکم ان تشرکو بعدی ۔یعنی ’’ اور بے شک میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی خوف نہیں ۔ (صحیح بخاری باب الصلوٰۃ علی الشہید کتاب الجنائز جلد ا جزء ۲ صفحہ ۹۴ مکتبہ دارالفکر بیروت)

اس بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن  وحدیث میں وسیلہ کی ممانعت نہیں ہے ۔

استعانت ، استمداد ، استغاثہ اور وسیلہ کسے کہتے ہیں ؟

استعانت یہ عون سے بنا ہے جس کا معنی ہے مدد طلب کرنا ۔

استمداد یہ مدد سے بنا ہے اس کا معنی ہے مدد طلب کرنا ۔

استغاثہ یہ غوث سے نکلا ہے اس کا معنی ہے کسی کو مشکل میں مدد کےلیے پکارنا ۔

توسل یا وسیلہ اس کا معنی ہے ذریعہ یعنی جس کے ذریعے بندہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے اسے وسیلہ کہتے ہیں ۔

کیا اِن کے مابین کوئی فرق ہے یا نہیں ؟

یہ چاروں حقیقت میں ایک ہی شئی ہیں ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔ یو ں سمجھ لیجئے۔ کہ،، ایک ہی شئے کے چارنام ہیں مگر ان میں ایک باریک سا فرق ہے ۔

وہ یہ کہ استمدا د ، استعانت اورا ستغاثہ میں بندہ فاعل حقیقی یعنی اللہ تعالی کے بجائے سبب (وسیلہ) کی طرف اپنے کلام کی نسبت کرتا ہے مگر اس کی مراد فاعل حقیقی سے ہی ہوتی ہے ۔ (یعنی اصل مدد اللہ تعالی ہی فرمائے گااس کے اذن کے بغیر مدد ممکن نہیں) اور یوں (مجاز عقلی والا ) کلام لاتا ہے ۔

استعانت ۔ استمداد اور استغاثہ جیسے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدد فرمایئے ۔ اب اس جملے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کی گئی ہے ۔ جو کہ وسیلہ ہیں ۔ تو اس جملے میں بندے نے وسیلے کی طرف نسبت کی ۔ مگر مدد مانگنے والے کی مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں اِس کےلیے دعا فرمائیں گے ۔ اور اللہ تعالی کے اذن سے اس کی مدد فرمائیں گے ۔ یہ گمان ہرگز نہیں ہوتا کہ اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی مدد کر سکتے  ہیں ۔ یا معاذ اللہ عزوجل یہ نیک ہستی مالک کائنات جل جلالہ کو دعا قبول کرنے پر مجبور کر دے گی اگر یہ عقیدہ رکھا جائے تو یہ کفر و شرک ہے الامان والحفیظ ۔

جبکہ وسیلہ میں بندہ حقیقی معنیٰ کی ہی طرف اپنے کلام کی نسبت کرتا ہے اور یوں دعا کرتا ہے اے اللہ عزوجل تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے (صدقے یا طفیل) سے میری مدد فرما ۔

یا اس طرح اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میری مدد فرمائے ۔

اب اگرذہن میں یہ سوال ابھرے کہ جب وسیلے کو کلام میں ذکر کر کے  نسبت مسبب الاسباب  فاعل حقیقی  جل جلالہ کی طرف کی جائے ۔ تو یہ کلام حقیقت ہو گا ۔ اور جب استعانت یا استغاثہ کی صورت میں کلام لائے ۔ اُور سبب (وسیلہ) کی طرف کلام کی نسبت کر دی جائے ۔ تو  یہ کلام مجاز عقلی ہو گا ۔ یہ قاعدہ اور اصول کس نے بنایا اور کہاں سے یہ اصول سمجھا گیا ؟

تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید  میں رب تعالی نے اس اصول کو بیان فرمایا ہے ۔ مگر اس کو سمجھا عقل والوں نے  ہے ۔ قرآن مجید میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ مگر میں طوالت کے بجائے  تفہیم کی غرض سے فقط دو ہی مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ایک مقام پر موت دینے کی نسبت اپنی طرف فرماتا ہے ۔ جبکہ دوسری آیت  میں موت دینے کی نسبت موت کے فرشتے (حضرت عزرائیل علیہ السلام) کی طرف فرما رہا ہے :  اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنۡفُسَ  ترجمہ : اللّٰہ جانوں کو وفات دیتا ہے ۔ ( سورۃ الزمر آیت نمبر ۴۲)

قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے ۔(سورہ السجدہ آیت ۱۱)

اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ایک مقام پر اولاد دینے کی نسبت اپنی طرف فرماتا ہے ۔ جبکہ دوسری آیت  میں اولاد دینے کی نسبت (حضرت جبرائیل علیہ السلام) اپنی  طرف فرما رہا ہے : لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنٰثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ۔
ترجمہ : اللّٰہ ہی کےلیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے ۔ (سورہ الشوری آیت نمبر ۴۹)

لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا : میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں ۔ (سورہ المریم آیت ۱۹)

اب ان دونوں  مثالوں کو یہاں پر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں شرک  وحرام ہونے یا نہ ہونے  کا قاعدہ و اصول بیان فرمادیا  کہ حقیقی فاعل اللہ تعالی  ہی ہے ۔باقی حضرت عزرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم اور اللہ کی دی ہوئی طاقت سے  موت دیتے ہیں ۔ اور اس کے حکم اور اذن کے بغیر کسی کو موت نہیں دے سکتے ۔ اسی طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام کا معاملہ تھا کہ حقیقی خالق اور اولاد دینے والا اللہ ہی ہے ۔ باقی حضرت جبرائیل علیہ السلام  نےاللہ کے اذن سے اولاد  دی ۔

تو معلوم ہوا قرآن پاک میں جس مقام پر یہ فرمایا کہ اللہ ہی موت دیتا  ۔اولاد دیتا ہے وغیرہ (یعنی اللہ کی طرف نسبت ہو) تو یہ کلام حقیقت ہو گا  کیونکہ حقیقی فاعل اللہ ہی ہے ۔ اور جس مقام پر موحد (توحید کا اقرار کرنے والا) نے اس طرح کا کلام کیا کہ میں موت دیتا ہوں ۔ یا اُولاد دیتا ہوں ۔ یا مدد کرتا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ تو  یہ کلام مجازی ہو گا ۔ کیونکہ اس میں بندے نے سبب کی طرف صرف  اپنےکلام  کی نسبت کی ہے ۔ مگر اس کا اعتقاد یہی ہے ۔ کہ حقیقی فاعل اللہ ہی ہے ۔ اللہ ہی مد د فرمائے گا ۔ اللہ ہی موت دے گا ۔ اللہ ہی اولاد دے گا ۔ اس کی مرضی اور اذن کے بغیر پتہ ہل بھی نہیں سکتا ہے ۔ تو یہ جائز ہے اور شرک و حرام نہیں ہے ۔ وگرنہ حضرت جبرائیل و عزرائیل علیہ السلام  کے بارے میں قرآن میں یوں ذکر نہ آتا ۔

اسی قاعدے  واصول کو علامہ سعد الدین تفتازانی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (سن وصال 791ہجری) کتاب ’’المطول ‘‘ جو کہ درس نظامی عالم کورس میں پڑھائی جاتی ہے ۔ میں  وضاحت فرماتے ہیں ’’ جب موحد (مسلمان) یہ کہے ’’انبت الربیع البقل‘‘ یعنی موسمِ بہار نے سبزہ اگایا ‘‘ تو یہ اسناد مجاز ی ہے ۔ کیونکہ موحد کا یہ عقیدہ نہیں ہے ۔ کہ اُگانا بہار کی صفت ہے ۔ (یعنی مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ اُگانا اللہ تعالی کا کام ہے اور موسم بہار یہ سبزہ اگنے کا سبب ہے) جبکہ یہی جملہ اللہ تعالی کے وجود کا منکر کہے گا ۔ تو اسے حقیقت کہا جائے گا (کیونکہ وہ اللہ تعالی کے وجود کا ہی منکر ہے تو پھر تاثیر کا کیونکر قائل ہو گا) ۔ (المطول صفحہ نمبر ۱۰۶،چشتی)

علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ مزید اسی اصول کی وضاحت فرماتے ہیں : اگر دہریہ نے کہا کہ طبیب نے مریض کو شفاء دی تو یہ حقیقت ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کی تاثیر کا قائل ہی نہیں ہے ۔ مگریہی بات اگرمومن نے کہی تو اسے مجاز عقلی کہاجائے گا۔ اور اس کا ایماندار ہو نا اس بات کی علامت ہوگا کہ وہ شفاء کی نسبت طبیب کی طرف اس لئے کر رہا ہے۔ کہ،، وہ شفاء کا سبب ہے ۔اس لئے نسبت نہیں کررہا ہے۔ کہ،، فی الواقع طبیب نے شفاء دی ہے شفاء دینا اللہ تعالی کا کام ہے ۔ مزید فرماتے ہیں : اس گفتگو پر غور کرنے سے مسئلہ استعانت (مدد طلب کرنا) کی حیثیت بالکل واضح ہوجاتی ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام و اولیاء علیہم الرحمۃ سے مدد چاہنے والا اگر مومن ہے ۔ تو اس کا ایماندار ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے نزدیک کارساز حقیقی مقاصد کو پورا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ان امور کی نسبت اولیاء و انبیاء کی طرف مجاز عقلی کے طور پر کی گئی ہے ۔کہ،،  وہ مقاصدکوپورا کرنے کےلیے سبب اور وسیلہ ہیں ۔ (عقائد و نظریات صفحہ نمبر ۱۸۴ مکتبہ قادریہ)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسی اصول کو اپنے انداز میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ غیر اللہ سے اس طرح مدد مانگنا ۔ کہ اسی پر اعتماد ہو ۔ اور اس کو اللہ کی مدد کا مظہر نہ جانا جائے حرام ہے ۔ اور اگر توجہ حضرت حق ہی کی طرف ہے ۔ اور اس کو اللہ کی مدد کا مظہر جانتا ہے ۔ اور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب پر نظر کرتے ہوئے ظاہری طور پر غیر سے مدد چاہتاہے ۔ تو یہ عرفان سے دور نہیں ۔ اور شریعت میں بھی جائز اور روا ہے۔ اور انبیاء اور اولیاء نے ایسی استعانت کی ہے ۔ اور درحقیقت یہ استعانت غیر سے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ حضرت حق سے ہی استعانت ہے ۔ (تفسیر فتح العزیز تفسیر عزیزی تفسیر سورہ فاتحہ افغانی دارالکتب دہلی صفحہ نمبر ۸،چشتی)

فقیہ محدث امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں : ولا فرق  بین ذکر التوسل و الاستغاثہ ‘‘ یعنی : توسل اور استغاثہ ذکر کرنے میں کوئی فرق نہیں ۔ مزید فرماتے ہیں : فالتوجہ والاستغاثہ بہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیرہ لیس لہما معنی فی قلوب المسلمین غیر ذٰلک ولایقصد بہما احد منہم سواہ فمن لم یشرح صدرہ لذٰلک فلیبک علی نفسہ نسأل اللہ العافیۃ والمستغاث بہ فی الحقیقۃ ہو اللہ و النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطۃ بینہ وبین المستغیث ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور انبیاء علیہم اسلام و اولیاءاللہ علیہم الرحمہ کی طرف توجہ اور ان سے استغاثہ (فریاد) کے یہی معنیٰ مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنیٰ نہیں سمجھتا ہے نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے وہ آپ اپنے حال پر روئے ، ہم اللہ تبارک و تعالٰی سے عافیت مانگتے ہیں حقیقتاً استغاثہ (فریاد) اللہ عزوجل کے حضور ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے اور اس فریادی کے بیچ میں وسیلہ و واسطہ ہیں ۔ (الجوہر المنظم الفصل السابع فیما ینبغی للزائر الخ  مکتبہ مدبولی قاہرہ صفحہ نمبر ۱۱۰)

امام تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رحمۃ اللہ علیہ کتاب شفاء السقام میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کر کے ارشاد فرماتے ہیں : والمستغاث بہ  فی الحقیقۃ ھو اللہ تعالی والنبی  صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم واسطۃ بینہ و بین المستغیث ۔
ترجمہ : مستغاث بہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے) حقیقت میں اللہ تعالی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستغیث (مدد طلب کرنے والا) اور مستغاث بہ (اللہ تعالی ) کے درمیان واسطہ (وسیلہ) ہیں ۔ (شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل الخ دار الکتب العلمیۃ صفحہ نمبر ۳۷۹)

مذکورہ تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ استعانت ، استمداد ، استغاثہ اور وسیلہ ایک ہی شئی ہیں بس فرق یہ ہے کہ استعانت ، استمداد ، استغاثہ میں وسیلہ کے طرف نسبت کر کے کلام مجازی کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وسیلہ میں  کلام حقیقی ذاتی کو  لایا جاتا ہے اور اس کلام میں فاعل حقیقی کی طرف نسبت کر دی جاتی ہے ۔ اور اس طرح اللہ تعالی سے دعا کرنا ایک جائز امر ہے اسے ناجائز و شرک کہنا شریعت پر بہتان باندھنا ہے ۔ اُور سخت گناہ کا کام ہے ۔

اب اگر یہ سوال ذہن میں آئے کہ  مذکورہ دلائل میں کبار علمائے کرام کے اقوال  ہیں اور قرآن پاک سے وسیلہ اور استغاثہ پر جو دلیل دی ہے وہ صراحت کے ساتھ اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتی ہے تو اس شبہ کا ازالہ قرآن واحادیث صحیحہ کی روشنی میں ہم پیش کر رہے ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : جب اس بات کااثبات ہوگیا کہ مسلمان جب اللہ تعالی کے علاوہ کسی بندے کی طرف کسی کام کی نسبت کرے تو وہ کلام مجازی ہوتاہے۔ حقیقت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک مسلمان کا یہی عقیدہ ہوتاہے کہ حقیقی تاثیر اللہ ہی پیدا فرماتا ہے ۔ یہ بندہ تو فقط سبب (وسیلہ) بن رہا ہے ۔ اور اس طرح کلام کرنا جائز ہے ۔ اور قرآن کریم سے ثابت ہے ۔

لیکن ذہن میں ابھرتا ایک سوال کہ ،،کیا قرآن مجید میں اور احادیث طیبہ میں وسیلہ اور استغاثہ پر صراحت کے ساتھ کوئی دلیل موجو دہے ؟ ۔ تو آئیے رب تعالی کے فرمان مبارک کو پڑھیں اور شیطانی وَسوسُوں اُور شبہات کو ذائل کیجئے : ⬇

تو سل کی دلیل نمبر1 : پروردگار عزوجل ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلہ وَجٰہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو اللّٰہ سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔ (سورہ المائدہ آیت نمبر35)

قرآن عظیم کی اس آیت مبارکہ میں رب تعالی نے ’’مطلق وسیلہ تلاش کرنے ‘‘ کا حکم ارشاد فرمایا ہے کسی قید کے ساتھ نہ فرمایا کہ صرف اعمال کا وسیلہ تلاش کرو ۔۔۔ بندوں کا نہ کرو ۔۔۔یا۔۔۔زندہ کا وسیلہ تلاش کرو مردہ کا نہ کرو۔۔۔بلکہ مطلق حکم دیا کہ جو اعمال اللہ کے ہاں مقبول ہو ں یا جو بندے اللہ کے ہاں مقبول ہوں ۔۔۔کسی کا بھی و سیلہ اختیار کرلو رب تم کو اس وسیلے کے ذریعے فلاح پانے والوں میں داخل فرمادےگا ۔ اس آیت کریمہ میں وسیلہ کی تمام اقسام کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت قرآنی کا یہ اعجاز ہے کہ یہ وسیلہ کی تمام اقسام کو خُود میں سَموئے ہُوئےہے ۔

توسل کی ابتداء دو اقسام ہیں :

(1) توسل لقرب اللہ تعالی ۔ (2) توسل فی الدعاء

(1) توسل لقرب اللہ تعالی : اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا ۔

(2) توسل فی الدعاء: حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا ۔تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی بدولت مُراد پوری فرمائے ۔

(1) توسل لقرب اللہ تعالی ۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا ۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں (1) توسل بالعبادۃ ۔ (2) توسل بالذات ۔

(1) توسل بالعبادۃ : یعنی عبادات ونیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اللہ کے نیک بندں میں شامل ہونا ۔

توسل کی دلیل نمبر 2 : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔ (سورہ البقرۃ آیت 153)

اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے توسل لقرب اللہ تعالی ا ور توسل فی الدعا د ونوں کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرو اور پنی دفع حاجات کے واسطے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا مانگو رب تمہاری دعاوں کو کو جلد قبول فرمائے گا ۔

(2) توسل بالذات : یعنی اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کرنا ۔۔۔تاکہ وہ اس کو شریعت کے احکام ظاہریہ (نماز ۔روزہ وغیرہ)واحکام باطنیہ(عبادات میں خشوع و خضوع لانے کے طریقے اورآداب) سیکھائیں۔ اور یو ں اس بندے کی صحبت اختیار کرنے سے دین کا علم اور دین پر عمل نصیب ہواور اس طرح یہ مرشد و رَہنما اس کو اللہ کے قریب کرے ۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی صحبت اختیا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا چنانچہ حکم ربانی عزوجل ہے ۔

توسل کی دلیل نمبر 3 : وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنَاکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنۡ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ۔
ترجمہ : اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔۔۔ اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا ۔ (سورہ الکہف آیت نمبر 28)

اسی بنا پر اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دیا فرمایا ۔

توسل کی دلیل نمبر 4 : مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد لایعد مک من صاحب المسک اما ان تشتریہ اوتجد ریحہ وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منہ ریحاخبیثۃ وفی حدیث ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ، رواہ البخاری ۔ یعنی : اچھے مصاحب اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تو تو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا۔ اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا ۔ (بخاری شریف ، حدیث نمبر 5214 دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت،چشتی)

(2) توسل فی الدعاء

یعنی کسی حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی برکت سے مراد پوری فرمائے ۔

پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں :

(1) مقبول اعمال کووسیلہ بنانا ۔

(2) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا ۔

(1) مقبول اعمال کووسیلہ بنانا ۔

توسل کی دلیل نمبر 5 : اس کی دلیل وہ مشہور و معروف قصہ ہے ۔ جو صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ : جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے ۔ (1) ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹادے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا ۔ (2) دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا ۔ (3) تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا ۔۔۔ لہذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی ۔ (بخاری شریف، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث 3465 دار ابن كثير اليمامة بيروت،چشتی)

اس مسئلہ پر کثیر احادیث طیبہ شاہد ہیں مگر چونکہ کسی کو اس مسئلہ میں اختلاف نہیں اس لیے اختصار کے پیشِ نظر فقط ایک جامع روایت ذکر کردی ۔

(2) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا : مقبول بندہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو اس کو وسیلہ بنانا درست ہے ۔

ظاہری حیات میں وسیلہ بنانے کی دلیل

توسل کی دلیل نمبر 6 : حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رُخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے ۔ (صحیح بخاری کتاب الاستسقاء، حدیث نمبر : 963، دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت٠چشتی)(سنن ابن ماجه شریف کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها حدیث نمبر 1272 دار الفكر بيروت)

جس ہستی کے رخ زیبا کےوسیلے کا یہ کمال کہ ،، جیسے ہی اس رخ انور کے توسل سے دعا مانگتے رب خالی جھولیوں کو اسی وقت مرادوں سےبھرنا شروع فرمادیتا ۔

توسل کی دلیل نمبر 7 : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی ۔ (بخاری شریف کتاب الاستسقاء حدیث نمبر 964 دار ابن كثير اليمامة بيروت)

جس کی رب کائنات جل جلالہ نے یہ عظمت و شان رکھی ہو کہ جس کسی کو فقط اس سے نسبت ہو جائے اس کے بھی وسیلے سے کوئی دعا کی جاتی تو رب اپنی رحمتوں کی بارش ان پر چھما چھم برسانا شروع فرمادیتا تو وہ ہستی کسی کے لئے رب کی بارگا ہ میں دعا کے واسطے اپنے دست مبارک کو بلند فرمائیں تو رب کی کیسی رحمتیں اس شخص پر برستی ہونگی ۔

اے گناہگارو ! اے شفاعت کے طلب گارو ! اے غم کے مارو ! اٹھو ابھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی حاجات و پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے عرض کرو خدا کی قسم گر یہ دست پاک تمہارے واسطے اٹھ گئے ۔۔۔ تو تمہارا بیڑہ پار ہے اور کیوں نہ اٹھے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب تعالی نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرم دل بنا کر بھیجا ہے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الۡاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیۡنَ ۔
ترجمہ : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہاری گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں ۔ (سورہ العمرآن آیت 159)

شفاعت کرنا یہ بھی از قسم وسیلہ اور دعا ہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہگار امتی کے گناہوں کی معافی کی دعا کریں گے اور رب تعالی اپنے بندوں کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل (وسیلہ سے) معاف فرمائے گا ۔ معاف رب عز و جل نے ہی فرمانا ہے مگر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بھی دِکھانا ہے ۔

توسل کی دلیل نمبر 8 : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا : اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو ۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما : (غیر مقلدین کے مشہور و مستند عالم اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ قال الشيخ الألباني : صحيح ۔ (ترمذی شریف، کتاب الدعوات حدیث نمبر: 3578، دار إحياء التراث العربي - بيروت ،چشتی)(ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر : 1385، دار الفكر - بيروت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا طریقہ بیان فرما رہے ہیں اور چاہتے تو صحابی کواس نماز کا حکم نہ دیتے بلکہ فورا ان کے واسطے دعا فرماتے مگر چونکہ اپنے گناہگار امتیوں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرنا مقصود تھا ۔ کہ اے میرے امتیوں میرے وسیلے سے دعا کرنا چاہتے ہو تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی پابندی کرنا ۔۔۔کسی حال میں بھی نماز قضا نہ کرنا ۔ کہیں ایسا نہ کرنا کہ میرے نام کے وسیلے سے دعا مانگتے رہو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے غفلت بر تو ۔ بلکہ اس عمل کو غو ر سے دیکھ لو کہ میرا صحابی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (بینائی) کےلیے آیا تو میں نے اس کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا حکم دیا اور پھر اپنے وسیلے سے دعا کرنے کو کہا ۔

تو آج وہ حضرات اپنے اعمال پر غو ر کریں کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کوحاضر نہیں ہوتے شریعت پر عمل نہیں کرتے اور حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے کس قدر محبت فرمایا کرتے تھے روایتوں میں آتا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی کسی اہم کام کی طرف متوجہ ہوتے تو سب سے پہلے اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کےلیے حاضر ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے و سیلہ سے دعا مانگنے کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو بھی اپناؤ یہی حقیقی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لَا يَخلُقُونَ شَيًا وَّهُم يُخلَقُوُنَ ۔ اَموَاتٌ غَيرُ اَحيآءٍ ، وَمَا يَشعُرُونَ اَيَّانَ يُبعَعَثُونَ ۔ (سورہ نحل آیت نمبر 20 ، 21)
ترجمہ : اور جو لوگ پوجتے ہیں اللہ تعالی کے سوا (غیروں کو) وہ نہیں پیدا کر سکتے کوئی چیز ، بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں ، وہ مردہ ہیں وہ زندہ نہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ کب انہیں اٹھایا جائے گا ۔

آئیے پڑھتے ہیں کہ اکابرین اسلام علیہم الرحمہ نے اس کی کیا تفسیر کی ہے اور کیا فرمایا ہے : مُستند مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت میں مذکور لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی عبادت کرنا لکھا ہے جیسا کہ ابو سعید عبداللّٰہ بن عمر بیضاوی ، امام جلال الدین سیوطی ، ابو سعود محمد بن محمد اور علامہ اسماعیل حقی علیہم الرّحمہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’ اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن معبودوں کی کفار عبادت کرتے ہیں ۔ (تفسیر بیضاوی جلد ۳ صفحہ ۳۹۱)(تفسیر جلالین صفحہ ۲۱۷)(تفسیر ابو سعود جلد ۳ صفحہ ۲۵۶)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۲۳ - ۲۴)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے لفظ ’’یَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ’’یَعْبُدُوْنَ‘‘ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں لفظ’’ دعا‘‘ عبادت کے معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۲۳)

امام ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کفار اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ ا س بات پر قادر نہیں کہ کوئی چیز پیدا کر سکیں بلکہ وہ خود پتھروں اور لکڑی وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں ۔ (تفسیر سمرقندی جد ۲ صفحہ ۲۳۲)

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے علاوہ جن بتوں کی کفار عبادت کرتے ہیں وہ اپنی ذات میں بھی ناقص ہیں کہ انہیں دوسروں نے بنایا ہے اور اپنی صفات میں بھی ناقص ہیں کہ یہ کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کر سکتے ۔ (تفسیرکبیر جلد ۷ صفحہ ۱۹۵،چشتی)

عن قتادہ فی قولہ (اَفَمَن يَّخلُقُ كَمَن لَّا يَخلُقُ) قال، اللَّه هو الخالقُ الازقُ، وهذه الأوثانُ التى تُعبَدُ من دونِ اللَّهِ تُخلُقُ شيئاً، ولا تملكُ لأ هلِها ضرَّ ولا نفعًا، قال اللَّهُ، (أَفَلَا تَذَكَرُونَ) وفى قوله، (وَالَّذِينَ يَدعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ) الآية، قال هذه الأوثانُ التى تُعبَدُ من دونِ اللَّهِ أمواتٌ لا أرواح فيها، وتملِكُ لأهلِها ضرًّا ولا نفعًا ۔
ترجمہ : حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے (اَفَمَن يَّخلُقُ كَمَن لَّا يَخلُقُ) کے تحت روایت کیا ہے کہ اللہ تعالی ہی پیدا کرنے والا اور رزق دینے والا ہے اور یہ بت جن کی اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے، خود گھڑے گئے ہیں، انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا، نہ ہییہ اپنے پجاریوں کے نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کے، اللہ تعالی نے فرمایا، کیا تم اتنا نہیں سمجھتے وہ جن کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جاتی ہے، وہ بت مردہ ہیں ان میں روحیں نہیں ہیں اور اپنے مالکوں کے نہ نفع کے مالک ہیں نہ خیر پہنچانے کے مالک ہیں ۔ (تفسیر القرآن العظیم، امام ابن ابی حاتم، جلد7، رقم12497)(جامع البيان عن تأويل القرآن،امام ابن جریر طبری، جلد، 14، ص196 ،197 ازتفسیر سورہ نحل، آیت 21،22،چشتی)(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، امام سیوطی، جلد9، ص، 27،از تفسیر سورہ نحل، آیت 21)

امام ابو جعفر محمن بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ متوفى هجرى،310 فرماتے ہیں : وقولهُ ؛ (وَالَّذِينَ يَدعُونَمِن دُونِ اللّهِ،لَا يَخلُقُونَ شَيئاً وَهُم يُخلَقُونَ) يقولُ تعال ذكره؛ وأوثنُكم الزين تدعون مِندونِ اللّهِ، أيُها الناسُ، آلهةًلاتَخلُقُ شيئاً وهى تُخلَقُ: فكيف يَكُونُ إلهًا ما كان مصنوعًا مُدَبَّرًا، لا تَملِك لأ نفسِها نفعًا ولا ضرَّا ؟ ۔
ترجمہ : الله تعالی ذکر فرماتا ہے، اور تمہارےوہ بتجن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، اے لوگو یہ معبود کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے یہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں، پس جو خود بنایا ہوا ہو، اور اپنے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کا مالک نہ ہو وہ کیسے معبود ہو سکتا ہے ۔ (جامع البيان عن تأويل القرآن،امام ابن جریر طبری، جلد، 14،ص196ازتفسیر سورہ نحل، آیت 21،22)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، المتوفی، ہجری،606 ۔ فرماتے ہیں : المراد بقوله (من لا يخلق) الاصنام ۔
ترجمہ : اس آیت سے اللہ تعالی نے اصنام (بتوں) کی کئ وصف ذکر فرمائے ہیں :
(1) وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور خود پیدا کیے ہوئے ہیں ۔
(2) وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ وہ حقیقت میں معبود ہوتے تو زندہ ہوتے مردہ نہ ہوتے حالنکہ ان اصنام (بتوں) کا معاملہ برعکس ہے ۔
(3) وما یشعرون ایان یبعثون وما یشعرون کی ضمیر اصنام کی طرف لوٹتی ہے یعنی یہ بت نہیں جانتے کی ان کو کس وقت اٹایا جائے گا ۔ (تفسیر کبیر، امام رازی، ج20، ص12ازتفسیر آیت سورہ نحل آیت 20،21،چشتی)

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوذی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ ، المتوفی ہجری، 593 ۔ فرماتے ہیں : اموات غیر احیا ۔ اس سے مراد اصنام(بت) ہیں ۔
ترجمہ : فراء نے کہا اموات کا معنی یہاں پر ہے ان میں روح نہیں ہے ، اخفش نے کہا غیر احیاءاموات کی تاکید ہے ، اور ما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھا، اس میں دو قول ہیں :
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نہ کہا : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالی حشر میں اصنام (بتوں) کو بھی اٹھائے گا ، ان کے ساتھ روحیں ہو گی اور ان کے ساتھ ان کی شیاطین ہوں گے، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ۔
(2) مقاتل نے کہا:وما یشعرون سے مراد کفار ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (زاد المیسر، ابن جوزی، جلد4،ص436، از تفسیر سورہ نحل آیت 18.22)

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ہجری، 668 فرماتے ہیں : اموات غیر احیاءسے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان میںروحیں نہیں ہیں اور نہ وہ سنتے اور دیکھتے ہیں، یعنی وہ جمادات ہیں سو تم کیسے ان کی عبادت کرتے ہو جبکہ تم زندہ ہونے کی بناء پر ان سے افضل ہو ، وما یشعرون ، اس سے مراد یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ عقل اور علم رکھتے ہیں اور اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے تو ان کے عقیدہ کے اعتبار سے ان سے خطاب فرمایا، اور ایک تفسیر یہ ہےقیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحی ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانت کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔(الجامع الحکام القرآن، امام طبری، جلد10، ص75. 76،ان تفسیر سورہ نحل آیت 20.21،چشتی)

امام علاءالدین علی بن محمد بن ابرھیم البغدادی اشہیر بالخازن رحمۃ اللہ علیہ ، متوفی، 765 ۔ فرماتے ہیں : والذین تدعون من دون اللہ، یعنی اصنام (بت) ۔
ترجمہ : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالی حشر میں اصنام (بتوں) کو بھی اٹھائے گا، ان کے ساتھ روحیں ہو گی اور ان کے ساتھ ان کی شیاطین ہوں گے، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ، قیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحی ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانت کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (تفسیر خازن، جلد3، ص72)

ممدوح وہابیہ علامہ حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافع دمشقی متوفی 774 ۔ لکھتے ہیں : اللہ تعالی نے یہ خبر دی ہے کہ یہ اصنام(بت) جن کی کفار اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ، (اَتَعبُدُونَ مَا تَنحِتُونَ) الصّفت:95) ۔ کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم خودتراشتے ہو ۔ (تفسیرابن کثیر، ج6، ص262)

امام جلال الدین محمد بن احمد المحلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 863 ، امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 911 ۔ دونوں فرماتے ہیں اللہ کی سوا جن بتوں کی تم ۔ پوجا کرت ہو ان کا یہ حال ہے کی وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ جود پیدا کئے گئے ہیں، وہ مردے ہیں نہ کی زندہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائیں جائیں گے ۔ (تفسیر جلالین، امام سیوطی، ج2، ص214،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اکابرین اسلام علیہم الرحمہ ان اس آیت کی کیا تفسیر فرماتے ہیں اصنام سے مراد بت ہیں جنہیں کفّار پوجتے اور پکارتے تھے مگر ابن وہاب نجدی خارجی کے پیروکار ان آیات کو انبیاء علیہم السّلام ، اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں ۔ کیونکہ خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیہم السلام اور اولیاءاللہ و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔
خارجیوں کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539،چشتی)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے ، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خارجیوں نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ۔ (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے ۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ . ترجمہ : کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171)

اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خارجیوں ہی کی روش اختیار کیے ہوئے ہے اللہ تعالیٰ خارجی فتنہ کے شر سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرماۓ آمین ۔

سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بکثرت تخلیقات ذکر فرمائی تھیں اور ان تخلیقات سے اپنی الوہیت اور توحید پر استدلال فرمایا تھا ، مشرکین مکہ پتھر کی بےجان مورتیوں کی عبادت کرتے تھے اور ان مورتیوں کو اس جہان کا پیدا کرنے ، پالنے والا اور خدا مانتے تھے، ان کی عبادت کرتے تھے ، اور یہ مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سامنے ان کی سفارش کریں گے ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ان تمام باتوں کا رد فرمایا ہے ۔

پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بت کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے ، وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں اور خدا مخلوق نہیں ہوتا بلکہ وہ ساری کائنات کا خالق ہوتا ہے، پھر فرمایا : وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں اور خدا زندہ ہوتا ہے مردہ نہیں ہوتا ، اس کے بعد فرمایا : اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے ، مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ بت قیامت کے دن ان کی سفارش کریں گے ، اللہ تعالیٰ نے بتایا یہ سفارش کیا کریں گے ، یہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ قیامت کب ہوگی، ان کو کب اٹھایا جائے گا ، امام رازی اور علامہ قرطبی علیہما الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بتوں کو اٹھائے گا ، ان کے ساتھ ارواح ہوں گی اور ان کے شیاطین ہوں گے پھر ان سب کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ۔

والذین یدعون من دون اللہ کی وہ تفسیر جو خارجی جماعت کی کڑی سید مودودی نے کی : ہم نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ والذین یدعون من دون اللہ ، اور وہ جن غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے ، اس سے مراد بت ہیں ، تمام قدیم اور مستند مفسرین نے والذین یدعون من دون اللہ کی تفسیر بتوں کے ساتھ کی ہے لیکن اس کے برخلاف سید ابو الاعلی مودودی متوفی 1399 ھ نے اس کی تفسیر انبیاء اور اولیاء کے ساتھ کی ہے اور جو لوگ انبیاء علیہم السّلام اور اولیا کو پکارتے ہیں انہوں نے اس پکارنے کو عبادت قرار دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ فرشتے یا جن یا شیاطین یا لکڑی اور پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحاب قبور ہیں اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں، ان پر اموات غیر احیاء کا اطلاق نہیں ہوسکتا، اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لیے ما یشعرون ایان یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں ۔ اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیا، اولیا، شہدا ، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا ، مشکل کشا ، فریاد رس ، غریب نواز ، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں ۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ جاہلیت عرب کی تاریخ سے اس کی ناواقفیت کا ثبوت ہے ۔ کون پڑھا لکھا نہیں جانتا ہے کہ عرب کے متعدد قبائل ربیعہ ، کلب ، تغلب ، قضاعہ ، کنانہ ، حرث ، کعب ، کندہ وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیا ، اولیا اور شہدا کی پرستش سے آلودہ تھے ، پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے ، جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا ، بخاری میں ابن عباس کی روایت ہے کہ ود ، سواع ، یغوث ، یعقو ، نسر یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے ، حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے ، اسی طرح کی روایات لات ، منات اور عزی کے بارے میں بھی موجود ہیں ، اور مشرکین کا یہ عقیدہ بھی روایات میں آیا ہے کہ لات اور عزی اللہ کے ایسے پیارے تھے کہ اللہ میاں جاڑا لات کے ہاں اور گرمی عزی کے ہاں بسر کرتے تھے ، سبحانہ و تعالیٰ عما یصفون ۔ (تفہیم القرآن جلد 2 صفحہ 533 مطبوعہ لاہور 1402 ھ)

مودودی کی تفسیر پر بحث و نظر

ابو الاعلی مودودی نے والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین کو قرار دیا یہ خالص تفسیر بالرائے ہے ، قدیم اور مستند تفاسیر کے خلاف ہے ، پہلے ہم مستند تفاسیر کے حوالہ جات کے ساتھ والذین یدعون من دون اللہ کا معنی اور اس کا صحیح مصداق بیان کریں گے ، اور احدیث صحیحہ سے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی وفات کے بعد ان سے سے مدد طلب کرنے کے جواز بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں محققین علماء کرام اور خصوصاً ابو الاعلی مودودی کے مسلم بزرگوں کی تصریحات نقل کریں گے اور مشکل کشا اور فریاد رس ایسے الفاظ کا ثبوت بھی ان ہی کے مسلم بزرگوں کے حوالوں سے بیان کریں گے ان شاء اللہ ۔

والذین یدعون من دون اللہ میں یدعون کا صحیح ترجمہ عبادت کرنا ہے پکارنا نہیں ہے ۔

ابو الاعلی مودودی نے اس آیت میں یدعون کا ترجمہ پکارتے ہیں کیا ہے جبکہ ایسے مواقع پر یدعون کا صحیح ترجمہ ہے عبادت کرتے ہیں ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی 1176 ھ اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : و آنانکہ مے پر ستند کافراں ایشاں را بجز خدا نے آفریدند چیزے راد خود شان آفریدہ مے شوند ۔
اور شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ لکھتے ہیں : اور جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود ہی مخلوق ہیں ۔
اور سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت میں والذین یدعون من دون اللہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : والالھۃ الذین تعبدونھم ایھا الکفار ۔ اور وہ معبود جن کی تم عبادت کرتے ہو اے کفار ۔ (تفسیر روح المعانی جز 14، ص 176، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1417 ھ)
دراصل سید مودودی نے اس آیت میں یدعون کا معنی پکارتے ہیں اس لیے کیا ہے کہ اس آیت کو ان مسلمانوں پر چسپاں کرسکیں جو اپنی مہمات میں انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو پکارتے ہیں کیونکہ اگر وہ اس آیت کا معنی عبادت کرتے تو پھر وہ اس آیت کو مسلمانوں پر چسپاں نہیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی بہرحال عبادت نہیں کرتے ۔

والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق اصنام اور بت ہیں ، انبیاء علیہم السلام اور اولیاءاللہ علیہم الرحمہ نہیں ۔

ابو الاعلی مودودی نے لکھا ہے کہ یہاں خاص طور پر جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جارہی ہے وہ لکڑی یا پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحابِ قبور ہیں ، لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے ، اس لیے ما یشعرون ایان یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں ، اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیاء ، اولیاء ، شہداء ، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں ۔

اب دیکھیے قدیم اور مستند مفسرین نے الذین یدعون من دون اللہ سے مراد کس کو لیا ہے : ⬇

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے : اور تمہارے وہ بت جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ، اے لوگو یہ معبود کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے یہ خود پیدا کیے ہوئے ہیںِ پس جو خود بنایا ہوا ہو ، اور اپنے لیے بھی کسی نفع اور ضرر کا مالک نہ ہو وہ کیسے معبود ہو سکتا ہے ۔ اور اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں : قتادہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بت جن کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی ہے مردہ ہیں، ان میں روحیں نہیں ہیں اور یہ اپنی پرستش کرنے والوں کے لیے کسی ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں ۔ (جامع البیان جز 14 صفحہ 125 مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس رازی ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قتادہ نے کہا یہ بت جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے مردہ ہیں، ان میں روحیں نہیں ہیں ، الخ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : 12497، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ،چشتی)

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 593 ھ لکھتے ہیں : اموات غیر احیاء اس سے مراد اصنام (بت) ہیں فرا نے کہا اموات کا معنی یہاں پر ہے ان میں روح نہیں ہے ۔ اخفش نے کہا غیر احیاء اموات کی تاکید ہے ، اور ما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس میں دو قول ہیں ۔ (1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : اس سے مراد اصنام (بت) ہیں ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حشر میں اصنام کو بھی اٹھائے گا ، ان کے ساتھ روحیں ہوں گی اور ان کے ساتھ ان کے شیاطین ہوں گے ، اور وہ کفار کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے ، پھر شیاطین کو اور ان بتوں کی عبادت کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا ۔ (2) مقاتل نے کہا وما یشعرون سے مراد کفار ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (زاد المسیر جلد 4 صفحہ 437 ۔ 438 مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت 1412 ھ)

امام فخرالدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی 606 ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصنام (بتوں) کی کئی صفات ذکر فرمائی ہیں ۔ (1) وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے اور خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ (2) وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ حقیقت میں معبود ہوتے تو زندہ ہوتے مردہ نہ ہوتے حالانکہ ان اصنام (بتوں) کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ (3) وما یشعرون ایان یبعثون، وما یشعرون کی ضمیر اصنام کی طرف لوٹتی ہے یعنی یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کس وقت اٹھایا جائے گا ۔ (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 195 ۔ 196 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ،چشتی)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن مالکی قرطبی متوفی 668 ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اموات غیر احیا سے مراد اصنام (بت) ہیں ، ان میں روحیں نہیں ہیں اور نہ وہ سنتے اور دیکھتے ہیں یعنی وہ جمادات ہیں سو تم کیسے ان کی عبادت کرتے ہو جبکہ تم زندہ ہونے کی بنا پر ان سے افضل ہو ۔ وما یشعرون اس کا معنی یہ ہے کہ یہ بت نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، ان کو آدمیوں کے صیغے سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ کافروں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ عقل اور علم رکھتے ہیں اور اللہ کے پاس ان کی شفاعت کریں گے تو ان کے عقیدہ کے اعتبار سے ان سے خطاب فرمایا۔ اور ایک تفسیر یہ ہے کہ قیامت کے دن ان بتوں کو اٹھایا جائے گا اور ان کی روحیں ہوں گی اور وہ کافروں کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور دنیا میں یہ بت جماد ہیں، یہ نہیں جانتے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (الجامع الاحکام القرآن جز 10 صفحہ 85 ۔ 86 مطبوعہ دار الفکر بیروت 1415 ھ)

ممدوحِ وہابیہ و دیابنہ حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی دمشقی متوفی 774 ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ اصنام (بت) جن کی کفار اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے ، اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اتعبدون ما تنحتون ۔ (سورہ الصافات :95) ، کیا تم ان بتوں کی عبادت کرتے ہو جن کو تم خود تراشتے ہو ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 626 مطبوعہ دار الفکر بیروت 14189 ھ)

وہابیوں کے امام محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی 1250 ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے یہ بیان شروع کیا کہ اصنام کسی بھی چیز کو پیدا کرنے سے عاجز ہیں تو وہ عبادت کے کس طرح مستحق ہوسکتے ہیں۔ اموات غیر احیا یعنی یہ اصنام مردہ اجسام ہیں اور وما یشعرون ایان یبعثون کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ان بےجان بتوں کو یہ بتا نہیں ہے کہ جو کفار ان کی عبادت کرتے ہیں ان کو کب اٹھایا جائے گا ۔ (فتح القدیر جلد 3 صفحہ 215 ۔ 216 ۔ مطبوعہ دار الوفاء بیروت 1418 ھ،چشتی)

اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ تمام معتمد اور قدیم مفسرین نے والذین یدعون من دون اللہ کا مصداق بتوں کو قرار دیا ہے اور سید ابو الاعلی مودودی نے جو اس کا مصداق انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین کو قرار دیا ہے یہ ان کی منفرد رائے ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خوارج بدترین مخلوق ہیں ، جو آیات کافروں کے متعلق نازل ہوتی ہیں وہ ان کو مومنین پر چسپاں کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب استتابۃ المرتدین باب 6 قتل الخوارج) ۔ اور ابو الاعلی مودودی نے جو آیت بتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اس کو انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین پر منطبق کیا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

والذین یدعون من دون اللہ سے انبیاء اور اولیاء مراد لینے کے شبہات اور ان کے جوابات ۔

ابو الاعلی مودودی نے لکھا ہے کہ لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم متعدد مفسرین کے حوالوں سے لکھ چکے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ بتوں کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا ، ان میں روح ڈالی جائے گی اور وہ ان کافروں سے بیزاری کا اظہار کریں گے جو ان کی عبادت کرتے تھے، اور حضرت ابن عباس کی تفسیر سید مودودی کی تفسیر پر بہرحال مقدم ہے، نیز انہوں نے لکھا ہے کہ وما یشعرون ایا یبعثون کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کردیتے ہیں ، سید ابو الاعلی مودودی کی یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مفسرین نے اس کی دو تفسیریں کی ہیں : ایک یہ ہے کہ وما یشعرون کی ضمیر بتوں کی طرف لوٹتی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : بتوں کے لیے ذوی العقول کا صیغہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ کفار ان کے لیے علم ، عقل اور شفاعت کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے اور معنی یہ ہے کہ بتوں کو شعور نہیں ہے کہ ان کو کب اٹھایا جائے گا، اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ وما یشعرون کی ضمیر بتوں کی طرف لوٹتی ہے اور یبعثون کی ضمیر کفار کی طرف لوٹتی ہے اور معنی یہ ہے کہ یہ بت نہیں جانتے کہ کافروں کو کب اٹھایا جائے گا، اس لیے یہ الفاظ خارج از بحث نہیں ہیں ۔

نیز مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ عرب کے متعدد بقائل ربیعہ ، کلب ، تغلب وغیرہ میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے ، اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء ، اولیاء اور شہداء کی پرستش سے آلودہ تھے ۔ یہ استدلال بھی باطل ہے کیونکہ جن قبائل کا مودودی صاحب نے ذکر کیا ہے یہ مدینہ اور اس کے مضافات میں تھے اور سورة النحل مکی ہے اور اس میں مکہ کے مشرکین سے خطاب ہے ، یہود و نصاری کی اعتقادی خرابیوں پر مدنی سورتوں میں خطاب کیا گیا ہے ۔

نیز مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ پھر مشرکین عرب کے اکثر نہیں تو بہت سے معبود وہ گزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا، بخاری میں ابن عباس کی روایت ہے کہ ود، سواع، یغوث ، یعوق ، نسر یہ سب صالحین کے نام ہیں ، جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے ، یہ استدلال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مشرکین نے صالحین کی فرضی صورتیں اور مورتیاں بنا لی تھیں، وہ ان صالحین کی پرستش اور عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان فرضی صورتوں اور مورتیوں کی عبادت کرتے تھے اور ان فرضی صورتوں اور بتوں کا ان نیک بندوں سے کوئی تعلق نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کا یہ قول نقل فرمایا ہے : اتجادلوننی فی اسماء سمیتموھا انتم واباؤکم ما نزل اللہ بھا من سلطان ۔ (سورہ الاعراف :71) ، کیا تم مجھ سے ان ناموں کے متعلق جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔
اللات، العزی اور لمنات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم واباؤکم ما انزل اللہ بھا من سلطان ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس ۔ (سورہ النجم : 23) ، یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ داد نے رکھ لیے ہیں ، اللہ نے ان کے متعلق کوئی دلیل نازل نہیں کی وہ صرف گمان کی اور اپنی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں ۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : کفار نے جن اصنام کا نام خدا رکھا ہے یہ محض اسماء ہیں ان کا کوئی مسمی نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ما تعبدون من دونہ الا اسماء ۔ (سورہ یوسف :40) ، تم اللہ کے سوا جن کی پرستش کرتے ہو وہ صرف اسماء ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی جز 27 صفحہ 88 مطبوعہ دار الفکر بیروت 1417 ھ)

اس لیے مودودی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ صالحین کی عبادت کرتے تھے بلکہ وہ خالی ناموں کی عبادت کرتے تھے جن کا کوئی نام والا نہ تھا ۔ مشرکین صالحین کی عبادت کرتے تھے اس پر مزید استدلال کرتے ہوئے سید مودودی صاحب اس سیاق میں لکھتے ہیں کہ یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے، وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اساف اور نائلہ دونوں انسان تھے ۔ حیرت ہے کہ مودودی نے بتوں کو صالحین قرار دینے کے وفور شوق میں اساف اور نائلہ کا بھی ذکر کر دیا حالانکہ یہ صالح انسان نہ تھے بلکہ بدکار انسان تھے ، اساف اور نائلہ کا ذکر صحیح مسلم کی حدیث 1277 میں ہے ، اس کی شرح میں قاضی عیاض بن موسیٰ اندلسی متوفی 544 ھ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے حوالے سے دیگر شارحین اساف اور نائلہ کے متعق لکھتے ہیں : مرد کا نام اساف بن نقاد تھا اور عورت کا نام نائلہ بنت ذئب تھا ، ان دونوں کا تعلق قبیلہ جرھم سے تھا ان دونوں نے کعبہ کے اندر زنا کیا ، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسخ کر کے پتھر بنادیا اور ان دونوں پتھروں کو کعبہ میں نصب کردیا گیا ، ایک قول یہ ہے کہ ان کو صفا اور مروہ پر نصب کردیا گیا تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور نصیحت حاصل کریں ، پھر قصی نے ان کو وہاں سے نکالا اور ایک پتھر کو کعبہ میں نصب کیا اور ایک کو زمزم کے پاس ، ایک قول ہے کہ دونوں کو زمزم کے پاس نصب کیا ، اور ان پتھروں کے پاس قربانی کرنے اور ان کی عبادت کا حکم دیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مکہ فتح کیا تو ان پتھروں کو توڑ ڈالا ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم جلد 4 صفحہ 353،چشتی)(المفہم جلد 3 صفحہ 385)(المسلم مع شرح النواوی جلد 5 صفحہ 3479)(اکمال المعلم جلد 4 صفحہ 338)

ان دلائل سے معلوم ہو گیا کہ مشرکین مکہ انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین کی عبادت نہیں کرتے تھے ، وہ صرف ان ناموں کی عبادت کرتے تھے جن کی انہوں نے فرضی مورتیاں بنا رکھی تھیں اور ناموں کا کوئی مسمی نہیں تھا اور وہ ان بدکار انسانوں کی عبادت کرتے تھے جن کو مسخ کر کے اللہ تعالیٰ نے پتھر بنادیا تھا ۔

انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین کی حیات کا ثبوت

مودودی لکھتے ہیں : اب لا محالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللہ سے مراد وہ انبیاء، اولیاء ، شہداء صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہی ہیں جن کو غالی معتقدین داتا ، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز ، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کردیتے ہیں ۔

مودودی صاحب کا شہداء کو اموات غیر احیاء میں شامل کرنا صراحتاً قرآنِ عظیم کے خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے : ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات، بل احیاء ولکن لا تشعرون ۔ (سورہ البقرہ : 154) ، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے ۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون ۔ (سورہ آل عمران : 169) ، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ گمان (بھی) مت کرو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے ۔

اور انبیاء علیہم السلام بھی اپنی قبروں میں زندہ ہیں کیونکہ جن کی صرف موت فی سبیل اللہ ہے جب وہ زندہ ہیں تو جن کی موت اور حیات دونوں فی سبیل اللہ ہے تو وہ تو بطریق اولی زندہ ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قل ان صلوتی ونسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ۔ (سورہ الانعام : 162) ، آپ کہیے کہ میری نماز اور میرا حج و قربانی اور میری زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے ۔

اور خصوصیت کے ساتھ قبر میں انبیاء (علیہم السلام) کی حیات پر یہ حدیث دلیل ہے : اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے ، اسی دن حضرت آدم کو پیدا کیا، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی ، اسی دن صورت پھونکا جائے گا ، اسی دن لوگ بےہوش ہوں گے ، تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جائے گا ، حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ پوچکا ہوگا ، آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم کو کھانا حرام فرما دیا ہے ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1047، سنن النسائی رقم الحدیث : 1373)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1085 ۔ 1636)

حافظ ابن کثیر اور مفتی محمد شفع دیوبندی نے انبیاء علیہم السلام کی حیات کی تصریح کی ہے ۔

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی 774 ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گناہ گاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آئیں اور آپ کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ درخواست کریں کہ آپ بھی ان کے لیے اللہ سے درخواست کریں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے ۔ مفسرین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ ان میں الشیخ ابو منصور الصباغ بھی ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عتبی کی یہ مشہور حکایت لکھی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا : السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، میں نے اللہ عز وجل کا یہ ارشاد سنا ہے : ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جائوک، الایۃ : اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں، پھر اس نے دو شعر پڑھے :
اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں
جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے
میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں
اسی میں عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف و کرم ہے
پھر وہ اعرابی چلا گیا ، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی، میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے عتبی ! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبردی دو کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 589)(الجامع الاحکام لقرآن ج 5 ص 265)(البحر المحیط جلد 3 صفحہ 694،چشتی)(مدارک التنزیل علی ہامش الخازن جلد 1 صفحہ 399)

مفتی محمد شفیعدیوبندی متوفی 1396 ھ لکھتے ہیں : یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس کےلیے دعا مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے اس کے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکور الصدر حکایت بیان کی ۔ (معارف القرآن جلد 2 صفحہ 260 ۔ 259 مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)

ان آیات ، احادیث اور ایسے علماء کی تصریحات سے ، جن کی ثقاہت سید مودودی کے نزدیک بھی مسلم ہے ، یہ ثابت ہوگیا کہ انبیا (علیہم السلام) اور شہداء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور رہے اولیاء کرام اور صالحین علیہم الرّحمہ سو وہ بھی اپنی قبروں میں برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کو قبروں میں ثواب ہوتا ہے بلکہ برزخی حیات کے ساتھ تو کفار بھی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور اسی وجہ اسے ان کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے، اگر برزخی حیات نہ مانی جائے تو عذاب قبر اور ثواب قبر کا کوئی معنی ہی نہیں ہے، اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ انبیاء ، شہداء ، اولیاء اور صالحین کو اموات غیر احیا کا مصداق قرار دینا باطل ہے ، اموات غیر احیا کا مصداق صرف بت ہیں جن میں حیات کی کوئی رمق نہیں ہے ۔

غوث اعظم اور غوث الثقلین ایسے القاب کا ثبوت

مودودی نے اپنے زعم میں الذین یدعون من دون اللہ کا مصداق انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور صالحین کو ثابت کر کے لکھا ہے کہ جن کو غالی معتقدین داتا ، مشکل کشا، فریاد رس، غریب نواز ، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کےلیے پکارنا شروع کردیتے ہیں ۔

گویا کسی صالح انسان کو داتا ، مشکل کشا اور فریاد رس وغیرہ کہنا اس آیت کی رو سے ممنوع اور ناجائز ہے ، ہم ان القاب میں سے صرف فریاد رس کے متعلق گفتگو کر رہے اور فریاد رس کو عربی میں غوش کہتے ہیں اور سید مودودی کے مسلم بزرگوں نے حضرت عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے ۔

اسماعیل دہلوی قتیل 1246 ھ لکھتے ہیں : بے سمجھ طالب جب معرفت ذات کے مقام پر پہنچتے ہیں اور سلوک متعارف کو ختم کرلیتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہم بھی حضرت غوث اعظم اور حضرت خواجہ بزرگ نائب رسول اللہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت قطب الاقطاب حضرت خواجہ بختیار کا کی اور پیشوائے شریعت و طریقت، حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند اور حضرت امام ربانی قیوم زمانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی وغیرہم قدس اللہ اسرارہم اجمعین جیسے بڑے اولیاء اللہ کے ہم پایہ اور ہم مقام ہو گئے ۔ (صراط مستقیم فارسی صفحہ 132)(صراط مستقیم اردو صفحہ 225،چشتی)

اس عبارت میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم کہا ہے ۔

اسماعیل دہلوی قتیل ، سید احمد بریلوی کی روحانی تربیت کے متعلق لکھتے ہیں : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی روح مقدس آپ کے متوجہ حال ہوئیں اور قریبا عرصہ ایک ماہ تک آپ کے حق میں ہر دو روح مقدس کے مابین فی الجملہ تنازع رہا کیونکہ ہر ایک ان دونوں عالی مقام اماموں میں سے اس امر کا تقاضا کرتا تھا کہ آپ کو بتامہ اپنی طرف جذب کرلے تاآنکہ تنازع کا زمانہ گزرنے اور شرکت پر صلح کے واقع ہونے کے بعد ایک دن ہر دو مقدس روحیں آپ پر جلوہ گر ہوئیں اور تقریبا ایک پہر کے عرصہ تک وہ دونوں امام آپ کے نفس نفیس پر توجہ قوی اور پرزور اثر ڈالتے رہے، پس اسی ایک پہر میں ہر دو طریقہ کی نسبت آپ کو نصیب ہوئی ۔ (صراط مستقیم اردو صفحہ 283 مطبوعہ لاہور)(صراط مستقیم فارسی صفحہ 166 طبع لاہور)

ان عبارات میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث اعظم اور غوث الثقلین کہا ہے یعنی سب سے بڑے فریاد رس اور جن و انس کے فریاد رس ، نیز دوسرے اقتباس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ حضرت غوث اعظم اور خواجہ بہاء الدین جو اولیاء اور صالحین امت میں سے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی تطہیر ، تزکیہ اور ان کی تربیت بھی کرتے ہیں ، چناچہ انہوں نے سید احمد بریلوی پر اپنی توجہ ڈالی اور ان کو اپنی نسبت سے مشرف فرمایا ، اور یہ سب امور مودودی کے خلاف ہیں ، ہم نے لکھا تھا کہ یہ لکھنے والے مودودی کے مسلم بزرگ ہیں ، سو ملاحظہ فرمائیں : ⬇

حجرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ اسماعیل دہلوی کا مودودی کے نزدیک حجت ہونا : مودودی ، شیخ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کے متعلق لکھتے ہیں : یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کر کے رکھ گئے تھے ، سید صاحب کے خطوط اور ملفوظات اور شاہ اسماعیل شہید (سید صاحب 1201 ھ/1786 ء میں پیدا ہوئے اور 1246 ھ میں شہادت پائی ۔ شاہ اسماعیل صاحب 1193 ھ میں پیدا ہوئے، 1246 ھ /1831 ء میں شہادت (قتل ہوا) پائی ۔ انقلابی تحریک کی چنگاری سید صاحب کے دل میں غالبا 1810 ء کے لگ بھگ زمانے میں بھڑک اٹھی تھی ۔ (حاشیہ تجدید واحیاء دین ص 124، 125 ۔ مطبوعہ لاہور 1955 ء) کی منصب امامت ، عبقات ، تقویۃ الایمان اور دوسری تحریریں دیکھیے ، دونوں جگہ وہی شاہ ولی اللہ صاحب کی زبان بولتی نظر آتی ہے ۔ شاہ صاحب نے عملا جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ حدیث اور قرآن کی تعلیم اور اپنی شخصیت کی تاثیر سے صحیح الخیال اور صالح لوگوں کی ایک کثیر تعداد پیدا کردی ، پھر ان کے چاروں صاحبزادوں نے ، خصوصا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اس حلقہ کو بہت زیادہ وسیع کیا ، یہاں تک کہ ہزارہا ایسے آدمی ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے جن کے اندر شاہ صاحب کے خیالات نفوذ کیے ہوئے تھے، جن کے دماغوں میں اسلام کی صحیح تصویر آچکی تھی اور جو اپنے علم و فضل اور اپنی عمدہ سیرت کی وجہ سے عام لوگوں میں شاہ صاحب اور ان کے حلقے کا اثر قائم ہونے کا ذریعہ بن گئے تھے ۔ اس چیز نے اس تحریک کے لیے گویا زمین تیار کردی جو بالآخر شاہ صاحب ہی کے حلقے سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گھر سے اٹھنے والی تھی ۔ (تجدید و احیاء دین صفحہ 125، 124 مطبوعہ لاہور 1955،چشتی)

بہر حال مودودی کے مسلم بزرگ مولوی اسماعیل قتیل کی تحریر سے ثابت ہوگیا کہ اولیاء اللہ زندہ ہوتے ہیں اور اس جہان میں تصرف بھی کرتے ہیں جیسا کہ حضرت غوث اعطم اور خواجہ بہاء الدین نے سید احمد بریلوے پر تصرف فرمایا اور ان کو اپنی نسبتوں سے نوازا ۔

انبیاء علیہم السلام سے حاجت روائی

اس بحث کو مکمل کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی واضح کر دیں کہ مودودی نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام سے حاجت روائی کو اس آیت کے تحت کافروں کا فعل قرار دیا ہے ، ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور خلافت میں صحابہ اور تابعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے حاجت روائی کی ہے ، لہذا انبیاء علیہم السلام سے حاجت روائی کرنا صحابہ اور تابعین کی سنت اور ان کی اقتدا ہے ، کافروں اور مشرکوں کا فعل نہیں ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے دعا کی درخواست کرنا : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے روضہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اپنی امت کےلیے بارش کی دعا کیجیے : ⬇

حافظ ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مالک الدار رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا ، ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ، ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی ، اور ان سے کہو تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ، تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ، پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی۔ حضرت عمر رونے لگے اور کہا : اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 12 صفحہ 32)(البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 167،چشتی)(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 390 ، 398)(حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ فتح الباری جلد 2 صفحہ 496 ، 495 طبع لاہور)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے دعا کی درخواست کرنا :

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ۔ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ، اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے اس بات کی شکایت کی ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جاکر وضو کرو ، پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو ، پھر یہ کہو اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی ، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے واسطے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں ۔ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا، دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا، حضرت عثمان نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا ، حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا : تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا : جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا، پھر وہ شخص حضرت عثمان کے پاس سے چلا گیا اور جب اس کی حضرت عچمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، حضرت عثمان میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے، حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی ۔ حضرت عثمان بن نیف نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان سے کوئی بات نہیں کی، لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں موجود تھا ، آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : کیا تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھو، پھر ان کلمات سے دعا کرو۔ حضرت عثمان بن حنیف نے کہا : ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا درآنحالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المعجم الصغیر جلد 1 صفحہ 183)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : 8311)(حافظ منذری حافظ الہیثمی اور شیخ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ الترغیب والترہیب جلد 1 صفحہ 476 ۔ 474،چشتی)(مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 279)(فتاوی ابن تیمیہ جلد 1 صفحہ 195 ، 194)

اولیاء اللہ سے حاجت روائی

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی 1239 ھ رحمۃ اللہ علیہ بھی مودودی کے مسلم بزرگ اور حجت ہیں ، لہذا ہم اولیاء اللہ سے حاجت روائی کے جواز پر ان کی عبارت نقل کر رہے ہیں ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں : از اولیاء مدفونین و دیگر صلحا مومنین انتفاع و استفادہ جاری است و آنہار افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ ہائے سوختہ کہ این چیزہا اصلا نسبت بآنہادر اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست ۔ (وصال پانے والے اولیاء اور دیگر صلحاء مومنین سے استفادہ اور استعانت جاری وساری ہے اور ان اولیاء و صلحاء سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے ، بخلاف ان مردوں کے جن کو جلا دیا جاتا ہے کیونکہ ان سے یہ امور ان کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں ۔ (تفسیر عزیزی پارہ 30 مطبوعہ افغانستان،چشتی)
نیز شاہ صاحب لکھتے ہیں : و بعضے از خواص اولیاء اللہ را کہ آلہ جارحہ تکمیل و ارشاد بنی نوع خود گردانیدہ دریں حالت ہم تصرف در درنیا دادہ و استغراق آنہابہ جہت کمال و سعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمے گردد و اویسیاں تحصیل کمالات باطنی از آنہامے نمایندو ارباب حاجات و مطالب حل مشکلات خود از آنہامے بلندو مے یا بند و زبان حال آنہا در آنوقت بہم مترنم بایں مقالات است۔ مصرعہ ۔ من آیم بجاں گر تو آئی بہ تن ۔ (وہ خاص الیاء اللہ جنہوں نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے وفات کے بعد بھی دنیا میں تصرف کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور ان کا امور اخروی میں مستغرق ہونا بسبب وسعت ادراک کے دنیا کی طرف توجہ کرنے سے مانع ہیں ہوتا ۔ اویسی سلسلہ کے حضرات اپنے باطنی کمالات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں اور حاجت مندان سے حاجت طلب کرتے ہیں اور مراد پاتے ہیں اور ان کی زبان حال اس وقت یوں گویا ہوتی ہے کہ اگر تم بدن سے میری طرف بڑھو گے تو میں روح سے تمہاری طرف پیش قدمی کروں گا ۔ (تفسیر عزیزی پارہ 30 صفحہ 113 مطبوعہ افغانستان)

مودودی اور دیگر خارجیوں کی من گھڑت کی تفسیر کے رد میں بحث طویل ہو گئی لیکن فقیر کی خواہش یہ تھی کہ اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے اور یہ وضح ہو جائے کہ والذین یدعون من دون اللہ اور اموات غیر احیاء کا مصداق انبیاء علیہم السلام ، اولیاء کرام اور شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ نہیں ، اس کا مصداق صرف بت ہیں اور اس سلسلہ میں سید ابو الاعلی مودودی اور دیگر خارجیوں کے تمام شبہات کا جواب الحمد للہ فقیر نے پیش کر دیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام ، اولیاء کرام اور شہداء اور صالحین علیہم الرّحمہ کی تعظیم و تکریم اور ان کی حرمت جو اس فقیر کے دل میں جاگزین ہے اس کے تقاضے سے فقیر نے یہ مضمون مرتب کیا ہے ، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔


لفظِ استغاثہ کی لُغوی تحقیق : لفظِ استغاثہ کا مادۂ اِشتقاق ’’ غ ، و ، ث‘‘ (غوث) ہے ، جس کا معنی ’’مدد‘‘ کے ہیں ۔ اِسی سے اِستغاثہ بنا ہے ، جس کا مطلب ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے ۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اِستغاثہ کا لُغوی معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں : الغَوثُ : يقال فی النُّصرةِ ، و الغَيثُ : فی المطرِ ، واستغثته : طلبت الغوث أو الغيث ۔ ترجمہ : غَوث کے معنی ’’مدد‘‘ اور غَیث کے معنی ’’بارش‘‘ کے ہیں اور استغاثہ کے معنی کسی کو مدد کےلیے پکارنے یا اللہ تعالی سے بارش طلب کرنے کے ہیں ۔ (المفردات صفحہ 617)

لفظِ استغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں بھی متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اللہ ربّ العزت کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے : اذْ تَسْتَغِيْثُونَ رَبَّکُمْ . ترجمہ : جب تم اپنے ربّ سے (مدد کےلیے) فریاد کر رہے تھے ۔ (الانفال آیت نمبر 9)

سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعے کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ استغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے ۔ سورۂ قصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهِ عَلَی الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّه .
ترجمہ : تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ (القصص آیت نمبر 15)

اَہلِ لُغت کے نزدیک استغاثہ اور استعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : وَ الْاسْتِعَانَةُ : طَلَبُ الْعَوْن . ترجمہ : استعانت کا معنی مدد طلب کرنا ہے ۔ (المفردات صفحہ 598،چشتی)

لفظِ استعانت بھی قرآنِ مجید میں طلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ دُعا سکھاتے ہوئے قرآنِ مجید فرماتا ہے : ايَّاکَ نَسْتَعِيْنُ ۔
ترجمہ : اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ (سورہ فاتحه ، 1 : 4)

اِستغاثہ کی اَقسام : عرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے۔ جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : (1) استغاثہ بالقول ۔ (2) استغاثہ بالعمل ۔

مُشکل حالات میں گِھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب کرے تو اِسے اِستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے تو اِسے اِستغاثہ بالعمل کہیں گے ۔

اِستغاثہ بالقول : قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے : وَ أَوْحَيْنَآ الٰی موسیٰ اذِ اسْتَسْقٰهُ قَوْمُه أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 160)

اِسلام دینِ فطرت ہے اور سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبیء آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء کا دِین ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ شریعتِ مصطفوی سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا مددگارِ حقیقی کوئی نہیں، جبکہ اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے ۔ اگر یہ عمل شِرک ہوتا تو اِس مطالبۂ شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے شِرک کی تمام تر راہیں مسدُود کرنے کےلیے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورۃُ الصّدر آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ قومِ موسیٰ کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے ۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب میں ہی ہوں مگر اے موسیٰ علیک السلام ! میں اِظہارِ معجزہ کےلیے اپنے اِختیارات تمہیں تفویض کرتا ہوں ۔

اِستغاثہ بالعمل : مصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا استغاثہ بالعمل کہلاتا ہے ۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب و مکرم انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنی قمیض بھائیوں کے ہاتھ والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف بغرضِ اِستغاثہ بھیجی اور فرمایا کہ اِس قمیض کو والد گرامی کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اِس واقعہ کا ذکر اللہ ربّ العزّت نے کلامِ مجید میں کچھ اِن الفاظ میں کیا ہے : اذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ هٰذَا فَأَلْقُوْهُ عَلٰی وَجْهِ أَبِيْ يَأْتِ بَصِيْراً ۔
ترجمہ : میری یہ قمیض لے جاؤ ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا وہ بینا ہو جائیں گے ۔ (سورہ يوسف آیت نمبر 93)

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جب وہ قمیض لے جا کر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں سے مَس کی تو وہ فی الحقیقت مشیّتِ اَیزدی سے بینا ہو گئے۔ قرآنِ مجید میں ہے : فَلَمَّآ أَنْ جَآءَ الْبَشِيْرُ أَلْقَاهُ عَلٰی وَجْهِه فَارْتَدَّ بَصِيْراً ۔
ترجمہ : پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی ۔ (سورہ يوسف آیت نمبر 96)

اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام کا عملِ مبارک جس سے اُن کی بینائی لوٹ آئی ، عملی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے اِستغاثہ ہے ۔ یہ اِستغاثہ بالعمل کی بہترین قرآنی مثال ہے ، جس میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیض اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حصولِ بینائی کا وسیلہ و ذرِیعہ بنی ۔ منکرین استغاثہ کیا فتویٰ لگائیں گے یہاں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے رَحْم دل اُمّتیوں  سے حاجتیں  مانگو رزْق پاؤگے ۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی صفحہ ۷۲ حدیث نمبر ۱۱۰۶) 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بھلائی اوراپنی حاجتیں  اچّھے چِہرے والوں  سے مانگو ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی جلد ۱۱ صفحہ ۶۷ حدیث نمبر ۱۱۱۱۰)

اللہ عزوجل فرماتا ہے :  فَضْل میرے رَحْم دل بندوں  سے مانگو ان کے دامن میں آرام سے رہوگے کہ میں نے اپنی رحمت ان میں رکھی ہے ۔ (مسندُ الشّہاب جلد ۱ صفحہ ۴۰۶ حدیث نمبر ۷۰۰)

ان دونوں حدیثوں میں زندہ یا مردہ کی قید ہی نہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم میں  سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے یا راہ بھول جائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم (یعنی یارو مددگار) نہیں تو اُسے چاہیے یوں پکارے : یَا عِبَادَاللہِ اَغِیْثُوْنِیْ ، یَاعِبَادَاللہِ اَغِیْثُوْنِی ، اے اللہ (عزوجل) کے بندو ! میری مدد کرو ، اے اللہ (عزوجل) کے بندو ! میری مدد کرو ۔ ‘‘ کہ اللہ (عزوجل) کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں  دیکھتا ۔ (المُعجَم الکَبِیر جلد ۱۷ صفحہ ۱۱۷ حدیث نمبر ۲۹۰)

امام مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : بعض ثِقَہ (یعنی قابلِ اعتماد)  علماءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث ِپاک حَسَن ہے اور مسافِروں کو اس کی ضَرورت پڑتی ہے ،  اور مشائِخ کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم سے مروی ہے کہ یہ اَ مْرمُجرَّب  (یعنی تجرِبہ شدہ) ہے ۔(مِرقاۃُ المَفاتیح جلد ۵ صفحہ ۲۹۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم میں سے کسی ایک کی سواری  (کاجانور ) ویران زمین میں بھاگ جائے تو یوں  پکارے : ’’ یَا عِبَادَ اللہِ !  اِحْبِسُوْا ،  یَا عِبَادَ اللہِ ! اِحْبِسُوْا ، یعنی اے اللہ (عزوجل) کے بندو !  روک دو ، اے اللہ (عزوجل) کے بندو ! روک دو ۔ ‘‘  اللہ (عزوجل)   کے کچھ بندے روکنے والے ہیں  جواسے روک دیں  گے ۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی جلد ۴ صفحہ ۴۳۸ حدیث نمبر ۵۲۴۷،چشتی)

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو کی تحقیق

محترم قارئین کرام : یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے ۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ ِﷲِ عزوجل مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ : عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنَا أَوْ أَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَةَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ أَوِ احْتَاجَ إِلَی عَوْنٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَلْيَقُلْ : أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ ﷲُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721،چشتی.والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132)

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَـلَاةٍ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا، سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبََرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے ۔ اس حدیث کو امام ابویعلی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132،چشتی)

عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضی الله عنه عَنْ نَبِيِّ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ : يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ. وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا ۔
ترجمہ : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، یقینا ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) ۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے ۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیئے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے): اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا ۔ 

اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے ۔
ابوشجاع الدیلمی الھمذانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: ج ۱، ص ۳۳۰،چشتی)
شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے : باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴)۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔
اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)

امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں؛ کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے: بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷،چشتی)
یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اس کو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی ۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اس کو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اس کو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے ۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا : اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ۔
پھر امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موقوفا بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر ۔ اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے ۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبد اللہ بن بریدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اس کےلیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں ۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں ۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہے اور وہ روایت جو کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اس کے رجال ثقہ ہیں ۔

امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میرے ایک استاذِ محترم جو کہ بَہُت بڑے عالِم تھے ،  ایک مرتبہ ریگستان میں  ان کی سواری بھاگ گئی ، اُن کو اِس حدیثِ پاک کا عِلْم تھا ، اُنہوں  نے یہ کلمات کہے (یعنی دو بار کہا : یَاعِبَادَ اللہِ اِحْبِسُوْایعنی اے اللہ کے بندو ! اسے روک دو) تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس سواری کو اُسی وَقْت روک دیا ۔ (الاذکار صفحہ ۱۸۱)

حضرتِ امام علّامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (یہاں)  بندوں  سے یا تو فِرِشتے یا مسلمان جِنّ یا رِجالُ الغیب یعنی اَبدال مُراد ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفر لھم الرسول لوجدواللہ توابا رحیما ، اس کا ترجمہ ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کی بارگاہ میں آ جاتے پھر خدا سے اپنی مغفرت مانگتے اور یہ رسول بھی ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے تو یہ لوگ آپ کے پاس اللہ کو پا لیتے ۔ مگر کس شان میں توابا رحیما توبہ قبول فرمانے والا مہربان یعنی آپ کے پاس آنے سے ان کو خدا مل جاتا ۔
اشعتہ اللمعات کی طرح مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اسی حدیث کے ماتحت فرمایا ہے فعطی لمن شآء ماشآء کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کو چاہیں دے دیں ۔ تفسیر کبیر جلد سوم پارہ 7 سورہ انعام زیر آیت ولو اسرکوا الحبط عنھم ماکانوا یعملون ہے ۔ وثالثھا الانبیآء وھم الذین اعطاھم اللہ تعالٰی من العلوم والمعارف مالا جلہ یقدرون علی التصرف فی بواطن الخلق وارواحھم وایضا اعطاھم من القدرۃ والمکنۃ مالا جلہ یقدرون علی التصرف فی ظواھر الخلق ۔ (اَلْحِرْزُالثَّمِین شَرْح حِصنِ حَصِین صفحہ نمبر 254)
ترجمہ : تیسرے ان میں انبیاء علیہم السلام ہیں یہ وہ حضرات ہیں جن کو رب نے علوم اور معارف اس قدر دئیے ہیں ۔ جن سے وہ مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کر سکتے ہیں اور ان کو اس قدر قدرت و قوت دی ہے جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کر سکتے ہیں ۔ اسی تفسیر کبیر پارہ الم واذ قال ربک للمئکۃ اس کی تفسیر میں ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی جنگل میں پھنس جائے تو کہے ۔ اعینونی عبداللہ یرحمکم اللہ “اے اللہ کے بندو میری مدد کرو رب تم پر رحم فرمائے ۔

تفسیر روح البیان سورہ مائدہ پارہ 6 زیر آیت ویسعون فی الارض فسادا ہے کہ شیخ صلاح الدین فرماتے ہیں ۔ مجھ کو رب نے قدرت دی ہے کہ میں آسمان کو زمین پر گرادوں اگر میں چاہوں تو تمام دنیا والوں کو ہلاک کردوں اللہ کی قدرت سے لیکن ہم اصلاح کی دعاء کرتے ہیں ۔
مثنوی شریف میں ہے
اولیاء راست قدرت ازالہ
تیر جستہ باز گرواند زراہ
اولیاء کو اللہ سے یہ قدرت ملی ہے
کہ چھوٹا ہوا تیر واپس کرلیں
اشعۃ اللمعات شروع باب زیارت القبور میں ہے امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شور بوے درحیات استمداد کردہ مے شودبوے بعد از وفات یکے از مشائخ گفتہ دیدم چہارکس راز مشائخ کہ تصرف می کنند در قبور جود مانند تسر فہا ایشاں درحیات خود یا بیشتر ۔ قومے مے گویند کہ امداد جی قومی نزاست ومن مے گویم کہ امداد میت قوی ر اولیاء را تصرف درا کون حاصل است وآں نیست مگر ارواح ایشاں راوارواح باقی است ۔
ترجمہ : امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس سے زندگی میں مدد مانگی جاتی ہے اس سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگی جاوے ایک بزرگ نے فرمایا کہ چار شخصوں کو ہم نے دیکھا کہ وہ قبروں میں بھی وہ ہی عمل در آمد کرتے ہیں جو زندگی میں کرتے تھے یا زیادہ ایک جماعت کہتی ہے کہ زندہ کی مدد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں کہ مردہ کی امداد زیادہ قوی اولیاء کی حکومت جہانوں میں ہے اور یہ نہیں مگر انکی روحوں کو کیونکہ ارواح باقی ہیں ۔

حاشیہ مشکوٰۃ باب زیارت القبور میں ہے : واما الاستمداد باھل القبور فی غیر النبی علیہ السلام اوالانبیاء فقد انکرہ من الفقھاء واثبتہ المشائخ الصوفیہ وبعض الفقھاء قال الامام الشافعی قبر موسی الکاظم تریاق مجرب لاجابۃ الدعاء وقال الامام الغزالی من یستمد فی حیاتہ یستمد بعد وفاتہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و دیگر انبیائے کرام علیہم السّلام کے علاوہ اور اہل قبور سے دعاء مانگنے کا بہت سے فقہائے نے انکار کیا اور مشائخ صوفیہ اور بعض فقہاء نے اس کو ثابت کیا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ موسٰی کاظم کی قبر قبولیت دعاء کیلئے آزمودہ تریاق ہے اور امام محمد غزالی نے فرمایا کہ جس سے زندگی میں مدد مانگی جا سکتی ہے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جا سکتی ہے ۔

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے مدد مانگنے میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ قبور اولیاء اللہ سے مدد مانگنے میں اختلاف ہے علمائے ظاہربین نے انکار کیا صوفیاء کرام اور فقہاء اہل کشف نے جائز فرمایا ۔

حصن حصین صفحہ نمبر 202 میں ہے : زیارت قبور میں شامی کی عبارت نقل کریں گے ۔ جس میں امام شافعی فرماتے ہیں جب مجھے کوئی حاجت پیش ہوتی ہے تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار پر آتا ہوں ان کی برکت سے کام ہو جاتا ہے ۔

نزہۃ الخاطر الفاتر فی ترجمہ سیدی الشریف عبدالقادر ملا علی قاری صفحہ 61 میں حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول نقل فرمایا : من استغاث بی فی کریۃ کشف عنہ ومن نادانی باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ فے حاجۃ قضیت ۔
ترجمہ : جو کوئی رنج و غم میں مجھ سے مدد مانگے تو اس کا رنج و غم دور ہوگا اور جو سختی کے وقت میرا نام لیکر مجھے پکارے تو وہ شدت دفع ہوگی اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بنائے تو اس کی حاجت پوری ہوگی ۔

پھر اسی جگہ ہے کہ حضرت شخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نماز غوثیہ کی ترکیب بتاتے ہیں کہ دو رکعت نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں 11، 11 بار سورہ اخلاص پڑھے۔ سلام پھیر کر 11 بار صلوٰۃ و سلام پڑھے پھر بغداد کی طرف (جانب شمال) 11 قدم چلے ہر قدم پر میرا نام لیکر حاجت عرض کرے اور دو شعر پڑھے :
ایدرکنی ضیم وانت دخیرتی
واظلم فی الدنیا وانت نصیری
دعار علی حامی الحمی وھو منجدی
اذا ضاع فی البیداء عقال بعیری
یہ کہہ کر امام ملاعلی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقد جرب ذالک مرار افصح یعنی بارہا اس نماز غوثیہ کا تجربہ کیا گیا۔ درست نکلا کہئیے کہ حضور غوث پاک مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ مصیبت کے وقت مجھ سے مدد مانگو اور حنفیوں کے بڑے معتبر عالم ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسے بغیر تردید نقل فرما کر فرماتے ہیں اس کا تجربہ کیا گیا بالکل صحیح ہے۔ معلوم ہوا کہ بزرگوں سے بعد وفات مدد مانگنا جائز اور فائدہ مند ہے ۔

حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوا اور بیٹھ کر خاک سر پر ڈالتا رہا اور یہ کہتا رہا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے سنا ، آپ نے اللہ سے لیا اور ہم نے آپ سے لیا اور ہم نے آپ سے جو قرآن مجید لیا اس میں یہ بھی ہے : وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورہ النساء، 4 : 64)
ترجمہ : اور (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کےلیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ۔
يا رسول الله صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ظلمت نفسی وجئتک نستغفرلی فنودی من القبر انه قد غفرلک ۔ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں اس لیے کہ میری معافی کےلیے دعا فرمائیں ۔ قبر انور سے آواز آئی کہ تمہاری مغفرت ہوگئی ۔ (الجامع لاحکام القرآن، امام قرطبی، جلد نمبر 3 جزو 5 صفحه نمبر 172،چشتی)

یہ واقعہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور کثیر ائمہ دین نے بیان کیا ہے۔ اس طرح بزرگان دین کے مزارات پر جانا اور وہاں پر اپنی حاجت کے لیے وسیلہ پیش کرنا مستحب ہے ۔

مَنت خاص اللہ تعالی کےلیے ہوتی ہے ۔ صرف اس کا ثواب کسی بزرگ کو پہنچانا جائز ہے ۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ طعام کو خاص مزار پر لے جا کر تقسیم کیا جائے ، بلکہ جہاں بھی تقسیم ہو ثواب پہنچتا ہے ۔ وسیلہ کرنا مستحب ہے ۔

اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتا ہے  اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ۔
ترجمہ : اے مسلمانو ! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے  ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔ (سورۃ المائدۃ،آیت 55)

 علامہ احمد بن محمد الصاوی علیہ الرحمۃ (متوفی 1241ھ) تفسیر صاوی میں آیت ﴿ وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ﴾ کے تحت لکھتے ہیں : المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول ۔ ترجمہ : آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے ، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ، خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ، کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے ، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔ (تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 1550 مطبوعہ لاہور)

امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی رحمة اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : سیدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ۔ ان کے جانور کا پاؤں پھسلا،  باآواز پکارا ”یا سیدی محمد یا غمری“ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں ؟ کہا :میرے شیخ، کہا: میں ذلیل بھی کہتا ہوں ، یا سیدی یا غمری لاحِظنی“اے میرے سردار! اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو،  ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت سیّدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی ،  مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۔ (لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار ترجمہ الشیخ محمد الغمری ،جلد2،صفحہ88، مصر،چشتی)

لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار میں ہے : حضرت سیدی محمدشمس الدین حنفی  رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے : من کانت حاجۃ فلیأت الی قبری و یطلب حاجتہ اقضھا لہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل ۔
ترجمہ : جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے ، وہ مرد کس چیز کا ہے ۔ (لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی، جلد 2 ، صفحہ نمبر 96،مصر،چشتی)

 حضرتِ سیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری اُمّت پر پچاس نَمازیں فَرْض فرمائی تھیں ۔ جب میں  مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)  کے پاس لَوٹ کر آیا تو مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نے دریافت کیا کہ اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اُمَّت پر کیا فَرض کیا ہے ؟  میں  نے انہیں  بتایا تو کہنے لگے: اپنے ربّ تعالیٰ کے پاس لَوٹ کر جائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمَّت اِتنی طاقت نہیں  رکھتی ۔ میں  لوٹ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس گیا،  اُن سے کچھ حصّہ کم کردیا گیا۔ جب پھر مُوسٰی (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)  کے پاس لوٹ کر آیا تو اُنہوں  نے مجھے پھر لَوٹا دیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا :  اچّھا پانچ ہیں اورپچاس کی قائم مقام ہیں  کیونکہ ہمارے قول میں تبدیلی نہیں  ہوتی ۔  مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے پاس لوٹ کر آیا ۔ اُنہوں نے کہا : پھر اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ کے پاس لوٹ جائیے ۔ میں  نے جواب دیا : مجھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شَرْم محسوس ہونے لگی ہے ۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلام نے اپنی وفاتِ ظاہِری کے ڈھائی ہزار برس بعد اُمّتِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مدد فرمائی کہ شبِ مِعراج میں پچاس نَمازوں  کے بجائے پانچ کرا دیں ۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ نَمازیں پانچ رہیں گی مگر پچاس مقرَّر فرما کر پھر دو پیاروں کے ذَریعے سے پانچ مُقَرَّر فرمائیں ۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ شیطان کے وَسوَسوں میں آ کر وَفات یا فتگان کی مدد اور تعاوُن کا انکار کر دیتے ہیں وہ بھی 50 نہیں  پانچ نَمازیں  ہی پڑھتے ہیں حالانکہ پانچ نمازوں کے تقرُّر میں  یقینی طور پر غیرُاللہ کی مدد شامل ہے ۔

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جنّتی جنّت میں علماءِ کرام  (رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم) کے مُحتاج ہوں گے ، اِس لیے کہ وہ ہرجُمُعہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار سے مُشَرَّف ہوں  گے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا : تَمَنَّوْا عَلَیَّ مَا شِئْتُمْیعنی مجھ سے مانگو جو چاہو ! وہ جَنَّتی، علماءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی طرف مُتَوَجِّہ ہوں  گے کہ اپنے ربِّ کریم سے کیا مانگیں ؟ وہ فرمائیں  گے : یہ مانگو وہ مانگو ۔ فَہُمْ یَحْتَاجُوْنَ اِلَیْہِمْ فِی الْجَنَّۃِ کَمَا یَحْتَاجُوْنَ اِلَیْہِمْ فِی الدُّنْیَا ۔ تو جیسے لوگ دنیا میں علماءِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم کے مُحتاج تھے جنّت میں  بھی اُن کے مُحتاج ہوں گے ۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی صفحہ ۱۳۵ حدیث ۲۲۳۵،چشتی)

بستان المحدثین میں حضرت شاہ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ شیخ ابو العباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں :
انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ
ترجمہ : میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں ۔
جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں
اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو
تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا ۔
قصیدہ نعمانیہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
یا اکرم الثقل ، ین یا کنز الورٰی
بدلی بجودک وارضنی برضاک
انا طامع بالجود منک لم یکن
لابی حنیفہ فی الانام سواک
ترجمہ : اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں ۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہ رہنما
یہ شعر کسی "بریلوی" کا نہیں بلکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ کسی میں دم ہے تو لگائے فتوٰی حضرت خواجہ صاحب پر ۔ تاکہ ہم بھی ان مفتیوں کے فتاوٰی کا معیار دیکھیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے ۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے ۔ (حیات الموات صفحہ 55)

یہی شاہ ولی اللہ دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس فقیر نے شیخ ابو طاہر کردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی ۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں ، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم ، یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہو جاتا ہے ۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا صفحہ 157،چشتی)

یہاں تک تو ہم نے قرآن آیات اور احادیث اور اقوال فقہاء و علماء مشائخ سے ثبوت دیا اب خود منع کرنے والوں کے اکابرین کے اقوال سے ثبوت ملاحظہ ہوں :

مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندیوں کے شیخ الہند اپنے ترجمہ قرآن میں جس کے چار پاروں کا حاشیہ انہوں نے لکھا باقی کا مولوی شبیر احمد صاحب نے ۔ اس میں ایاک نستعین کے ماتحت لکھتے ہیں : ہاں اگر کسی مقبول بندے کو واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقبل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے۔ کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالٰی ہی سے استعانت ہے ۔
بس فیصلہ ہی کردیا ۔ یہ ہی ہمارا دعوٰی ہے کوئی مسلمان بھی کسی نبی ی ولی کو خدا نہیں جانتا نہ خدا کا فرزند محض وسیلہ مانتا ہے ۔
مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے فتاوٰی رشیدیہ جلد اوّل کتاب الخطر والا باحتہ صفحہ نمبر 64 پر ایک سوال و جواب ہے :
سوال : اشعار اس مضمون کے پڑھنے ۔
یارسول اللہ کبریا فریاد ہے
یا محمد مصطفٰی فریاد ہے
مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفٰی
میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے
کیسے ہیں ؟
الجواب : ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال کے جائز ہیں ۔
فتاوٰی رشیدیہ جلد سوم صفحہ نمبر 5 پر ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی سے کسی نے سوال کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ یا ورد پڑھنا کیسا ہے :
یارسول اللہ انظر حالنا
یارسول اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذیدی سھل لنا اشکالنا
یا قصیدہ بردہ کا یہ شعر وظیفہ کرنا
یا اکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
جواب دیا کہ : ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔
ان دونوں عبارتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگنے کو کفر و شرک نہیں بلکہ جائز ، زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی کہا ۔
قصائد قاسمی میں مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی کہتے ہیں :
مدد کر اے احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامی کار
اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگی ہے اور عرض کیا ہے آپ کے سوا میرا کوئی بھی حامی نہیں یعنی خدا کو بھی بھول گئے ۔
صراط مستقیم اردو خاتمہ تیسرا افادہ صفحہ 103 مولوی اسمٰعیل دہلوی قتیل لکھتا ہے : اسی طرح ان مراتب عالیہ اور مضاصب رفیعہ صاحبان عالم مثال اور عالم شہادت میں تصرف کرنے کے ماذون مطلق اور مجاز ہوتے ہیں ۔
مرشد اکابرینِ دیوبند حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جہاز امت کا حق نے کر دیا ہے آپ کے ہاتھوں
تم اب چاہے ڈباؤ یا تراؤ یارسول اللہ
فتاوٰی رشیدیہ جلد اول کتاب البدعات صفحہ 99 میں ہے : اور بعض روایات میں جو آیا ہے۔ اعینونی یا عباداللہ یعنی اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ۔ تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباداللہ جو صحرا میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالٰی نے ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے ۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگلوں میں کچھ اللہ کے بندے اللہ کی طرف سے اسی لئے رہتے ہیں کہ لوگوں کی مدد کریں ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ مدعٰی ہمارا بھی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے استمداد جائز ہے ۔
مولوی محمود حسن دیوبندی اپنی کتاب اولہ کاملہ میں صفحہ نمبر 12 پر لکھتے ہیں : آپ اصل میں بعد خدا مالک عالم ہیں جمادات ہوں یا حیوانات ، بنی آدم ہوں یا غیر بنی آدم ۔ القصہ آپ اصل میں مالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عدل و مہر آپ کے ذمہ واجب الادانہ تھا ۔
صراط مستقیم دوسری ہدایت کا پہلا افادہ صفحہ نمبر 60 میں مولوی اسمٰعیل دہلوی قتیل لکھتا ہے : اور حضرت مرتضٰی رضی اللہ عنہ کےلیے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرماں برداروں کا زیادہ ہونا اور مقامات ولایت بلکہ قطبیت و غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانہ سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہوتا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارات میں آپ کو وہ دخل ہے جو عام ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔
اس عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ سلطنت امیری ولایت غوثیت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو ملتی ہے ۔
دیوبندیوں کے پیرو مُرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ضیاءالقلوب میں فرماتے ہیں : اس مرتبہ میں پہنچ کر بندہ خدا کا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اور ظاہر میں بندہ باطن میں خدا ہو جاتا ہے اس کو برزخ کہتے ہیں اور اس میں وجوب و امکان مساوی ہیں۔ کسی کو کسی پر غلبہ نہیں اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر منصرف ہو جاتا ہے ۔ (ضیاء القلوب مطبوعہ کتب خانہ اشرفیہ راشد کمپنی دیوبند صفحہ نمبر 29 کے مراتب کا بیان،چشتی)
غور فرماٸیں اکابرینِ دیوبند کے پیر و مرشد نے بندہ کو باطن میں خدا مان لیا عالم میں منصرف ۔
یکشنبہ 9 جولائی 1961ء کے جنگ راولپنڈی میں خبرشائع کہ صدر پاکستان محمد ایوب خاں صاحب امریکہ کے دورے پر کراچی سے روانہ ہوئے تو مولوی احتشام الحق دیوبندی نے صدر کے بازو پر امام ضامن باندھا اور 10 جولائی 61ء دو شنبہ کے جنگ میں مولوی صاحب کا فوٹو شائع ہوا جس میں صدر کے بازو پر امام ضامن باندھ رہے ہیں ۔ امام ضامن کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کا روپیہ مسافر کے بازو پر باندھتے ہیں امام ضامن اس کے ضامن ہیں ۔ ان کے سپرد کرتے ہیں ۔ جب مسافر بخیریت واپس آوے تب اس روپیہ کی فاتحہ امام حسین کے نام کی جاوے جن کے سپرد مسافر کیا گیا تھا ۔ دیکھو اس میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدد بھی لی گئی ۔ ان فاتحہ بھی کی گئی ان کی نذر بھی مانی گئی۔ جناب صدر کو ان کے سپرد بھی کیا سبحان اللہ کیسا ایمان افروز کام ہے خدا کا شکر ہے کہ دیوبندی بھی اس کے قائل ہو گئے ۔
امداد الفتاوٰی مصنفہ مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی جلد نمبر 4 کتاب العقائد والکلام صفحہ نمبر 99 میں ہے : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو وہ شرک ہے اور جو باعتقاد علم و قدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائے تو جائز ہے ۔ خواہ مستمد منہ حی ہو یا میت ۔
بس فیصلہ ہی فرما دیا کہ مخلوق کو غیر مستقل قدرت مان کر ان سے استمداد جائز ہے ۔ اگرچہ میت ہی سے مانگی جائے یہ ہی ہم کہتے ہیں ۔
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نےاپنی کتاب نشر الطیب کے آخر میں شیم الحبیب کے عربی کے اشعار کا ترجمہ کیا جس کا نام شیم الطیب رکھا ۔ جس میں حضور علیہ السلام سے بے دریغ امداد مانگی اشعار حسب ذیل ہیں۔
شیم الطیب ترجمہ شیم الحبیب مصنفہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی صفحہ نمبر 145 پر ہے :
ٰٰیا شفیع العباد خذبیدی
“دستگیری کیجئے میری نبی“
انت فی الضطرار معتمدی
“کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی“
لیس لی ملجاء سواک اغث
“جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ“
مسنی الضر سیدی سندی
“فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی“
غشنی الدھر ابن عبداللہ
“ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف“
کن مغیثا فانت لی مدری
“اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری“
“نام احمد چوں حصینے شد حصین“
“پس چہ باشد ذات آں روح الامین“
“نشر اطیب فی ذکر ابن الحبیب ۔
مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہیں اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتا ہے : حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے ۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔ (صراط مستقیم، ص 98،چشتی)
یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتا ہے : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 242)
اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتا ہے کہ :
کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے
یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے ، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں ۔ (سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، صفحہ 50)
ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں ۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں ۔ الغرض ذوات واشخاص سے استعانت واستمداد بلا شبہ جائز و مستحسن ہے ۔ کوئی بھی مسلمان انبیاء ، اولیاء ،صلحاء سے استمدادا نہیں مستقل بالذات سمجھ کر نہیں کرتا ہے ۔ نہ ہی انہیں قادر بالذات سمجھتا ہے بلکہ انہیں قضائے حاجات کا وسیلہ اور وصول فیض کا واسطہ جانتا ہے اور یہ معنیٰ تو غیر خدا ہی کے ساتھ خاص ہے ۔اس استمداد و استعانت کو تصور توحید کے منافی قرار دینا اور مشرک گرداننا توحید اور شرک کے شرعی مفہوم سے جاہل و ناواقف رہنے کی بین دلیل ہے ۔ جیسا کہ ابن تیمیہ اور اس کے ریزہ خوار محمد ابن عبد الوھابنجدی و اسماعیل دہلوی قتیل نے اسے شرک قرار دیا ہے ۔ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ پورے عالمِ اسلام کا مسئلہ استمداد پر اجماع و اتفاق رہا ہے کہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تقریبا سات سو سال تک کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہ گذرا ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام و اولیاء اللہ سے استمداد توحید کے منافی عمل ہے ۔ رہا ابن تیمیہ و محمد بنعبد الوھاب نجدی اور ان کے پیرو کاروں کا اسے حرام و شرک بتانا تو یہ جمہور اہلِ اسلام کی مخالفت ہے جسے ان کے دور کے علماء نے اسے مسترد کر دیا تھا ۔ در اصل ابن تیمیہ اور اس کے متبعین شرک و توحید کا معنیٰ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ لوگ اس بنیادی نکتہ پر غور نہ کر سکے کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرکین کا اصل شرک کیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے اپنے خود ساختہ تصورِ توحید کو اسلامی تصورِ توحید قرار دے دیا حالانکہ اسلامیات کے ماہرین نے اس بات کی خوب صراحت کر دی ہے ، کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرکین کا شرک ان کا چند معبود جاننے کا نظریہ تھا اور اللہ سبحانہ کےلیے اولاد ماننے کا عقیدہ تھا اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو نظام کائنات کی تدبیر میں خدا کا شریک سمجھنا تھا ۔ شرک توحید کی ضد ہے ۔
امام بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ نے توحید کا معنیٰ یہ بیان کیا ہے : توحید اصل میں وَحَّدَ یُوَحِّدُ کا مصدر ہے اور وَحّدْتُ اللہ کے معنیٰ ہیں میں نے اللہ کو اس کی ذات وصفات میں منفرد اعتقاد کیا ۔ جس کی نہ تو کوئی نظیر ہے ، نہ ہی اس کی کوئی شبیہ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ توحید نام ہے اللہ کی ذات کےلیے یہ ثابت کرنا کہ وہ دوسری ذات کے مشابہ نہیں ہے اور نہ صفات سے عاری ہے ۔ (حاشیہ بخاری جلد نمبر دوم صفحہ نمبر ۱۰۹۶،چشتی)
اسی کے ساتھ ساتھ شرک کا مفہوم بھی ذھن میں بسالیں علامہ سعد الدین تفتازانی رحمة اللہ علیہ شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں : شرک کرنے کے معنیٰ یہ ہیں ۔ الوہیت بمعنٰی وجوب وجود میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ مجوسیوں کا شرک ہے ۔ یا الوہیت بمعنیٰ استحقاق عبادت میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ اصنام پرستوں کا شرک ہے ۔ (شرح العقائد للنسفی صفحہ ۶۱ مجلس برکات مبارکپور اعظم گڑھ)
شرک کی اس تعریف سے بخوبی عیاں ہے کہ خدا کی عطا کردہ قوت امداد مان کر انبیاء علیہم السّلام اولیاء اللہ سے مدد طلب کرنا ہرگز ہرگز شرک کے خانے میں نہیں آتا ۔ نہ ہوگا کہ دینی و دنیاوی کسی بھی طرح کی مدد کسی غیر اللہ سے چاہنا شرک ٹھہرے گا ۔ والعیاذ باللہ ۔ تو حق وہی ہے جس پر عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک مسلمانانِ عالم کا اجماع ہے ۔ بلکہ پچھلی اُمتوں کا بھی کہ قضائے حاجات کےلیے صالحین سے استمداد تصوّرِ توحید کے منافی نہیں ۔

ذوات و اشخاص ہی کے ساتھ استمداد و توسل خاص نہ تھا بلکہ انبیاء علیہم السلام و صلحاء علیہم الرحمہکی طرف منسوب اشیاء سے بھی لوگ توسل کرتے اور مدد چاہتے تھے ۔ چنانچہ ’’تابوت سکینہ‘‘ کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور جسے کتاب اللہ نے عظیم الشان نشانی قرار دیا ہے ۔ (سورۃ البقرہ آیت ۲۴۸)

علامہ قاضی بیضاوی اور دیگر مفسرین علیہم الرحمہ کی صراحت کے مطابق ’’تابوت سکینہ‘‘ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا مبارک اور آپ کے کپڑے ، آپ کے نعلین ، حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ مبارکہ اور توریت کے ٹکڑے تھے ۔ (تفسیر بیضاوی بقرہ صفحہ ۱۶۱)

اس تابوت کے تعلق سے کتب تفاسیر میں یہ ذکر ہے کہ جب بنی اسرائیل کو کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو وہ اس تابوت کے وسیلہ سے دعائیں کرتے اور دشمنوں کے مقابلے میں فتح پاتے’’وکانوا یستفتحونہٗ علی عدوھم ویقدمون فی القتال ویسکنون الیہ ۔  (تفسیر جلالین بقرہ صفحہ  ۳۸)

بنی اسرائیل اس تابوت کے توسل سے اپنے دشمنوں پر فتح یابی طلب کرتے اور اسے معرکۂ جنگ میں آگے رکھتے اور اس سے سکون حاصل کیا کرتے تھے ‘‘ظاہر ہے کہ ’’تابوت سکینہ‘‘ اللہ نہیں ہے ، غیر اللہ ہے تو اس کے توسل سے فتح یابی چاہنا غیر اللہ سے استعانت ہوئی ۔اور قرآن کریم نے نکیر نہ فرمائی بلکہ موقع مدح میں ذکر فرمایا۔اس لئے قرآن وتفاسیر کا مطالعہ کرنے والااور اس پر ایمان لانے والا کوئی بھی شخص استعانت بغیراللہ کا انکار کرہی نہیں سکتا ۔ ان چیزوں سے استعانت اس لئے تھی کہ یہ چیزیں انبیاء کرام علیہم السلام کی جانب منسوب تھیں ۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زیب تن کیا ہوا جُبّہ ملا تو وہ اسے مریضوں کےلیے نکالا کرتی اور دھو کر اس کا غسالہ مریضوں کو پلایا کرتی تھیں اور اس سے شفا چاہتی تھیں ۔ (صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰۃ صفحہ ۳۷۴)

رب کریم ارشاد فرماتا ہے ’’ واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ ۔ (سورۃ البقرہ آیت ۱۵۳) ’’صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ نہ صبر خدا ہے ، نہ نماز بلکہ دونوں غیر اللہ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اعمالِ صالحہ سے استمداد و استعانت جائز و مستحسن ہے ۔

اللہ عزوجل اشخاص وذوات سے بھی استمداد کا حکم فرماتا ہے ۔ ارشاد ہے ’’تعاونوا علی البر والتقویٰ‘‘ ۔ (سورۂ مائدہ آیت ۲) ’’ نیکی اور پر ہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ‘‘ اس آیت میں اشخاص سے استمداد و استعانت کا حکم فرمایا گیا ہے ۔ ائمہ مجتہدین شخصیت اور عمل دونوں کے وسیلے سے متعلق استدلال میں درج ذیل آیت کریمہ پیش کرتے ہیں : یاایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ (سورئہ مائدہ آیت ۳۵) ’’ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ لیا ۔ اور ان کے وسیلہ سے بارش ہوئی ۔ تو حضرت عمر نے فرمایا ’’ھذا واللہ الوسیلۃ الی عزوجل والمکان منہ ‘‘ خدا کی قسم حضرت عباس اللہ کی بارگاہ کے وسیلہ اور رتبہ والے ہیں ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر) ۔ اس روایت نے واضح کر دیا کہ مذکورہ آیت کریمہ میں صرف اعمال صالحہ کا وسیلہ مطلوب نہیں ۔ بلکہ صلحاء کی ذات کا بھی وسیلہ مطلوب ہے ۔ یعنی خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بناناجو غیر اللہ سے استمداد کی ایک اہم صورت ہے کیا کوئی دعویٰ اسلام کے بعد یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ معاذ اللہ غیر اللہ سے استمداد و استعانت کاحکم دے کر اللہ عزوجل نے ناجائز و حرام بلکہ شرک کا حکم دیا ۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ استمدادو استعانت اور توسل ذوات و اشخاص کا بھی درست ہے پھر یہ اپنے عموم میں زندہ ووصال یافتہ دونوں کو شامل ہے ۔

احادیث سے استمداد بغیر اللہ کا ثبوت

استمداد و استعانت خواہ اعمال سے ہو یا ذوات واشخاص سے قبل وصال ہو یا بعد وصال اس کا ثبوت کثیر وافر احادیث سے ہے ۔ علماء راسخین نے غیراللہ سے استمداد و وسلیہ کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے ۔ (۱) عمل صالح سے استمداد و توسل (۲) نیک اشخاص سے استمداد و توسل ۔

اعمالِ صالحہ سے استمداد و توسل کے تعلق سے مندرجہ ذیل حدیث پاک سے استدلال بہت معروف ہے جسے امام بخاری نے کتاب الاجارہ میں ، امام مسلم علیہما الرحمہ نے کتاب الذکر والدعا والتوبہ والاستغفار ، باب قصۃ اصحاب الغار الثلثۃ میں ذکر فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین آدمی جارہے تھے کہ بارش ہونے لگی ان لوگوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ، غار کے منہ پر ایک چٹان آگئی جس سے غار کا منہ بند ہو گیا ، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا ، اللہ کےلیے جو نیک کام تم نے کیا اس پر غور کرو اور ان اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگو ، شاید اللہ عزوجل یہ مصیبت تم سے دور فرمادے ، تو ان تین میں سے ایک نے یہ دعا کی ۔ اے اللہ ! میرے ماں ، باپ بوڑھے تھے ، میری بیوی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ، میں ان کےلیے بکریاں چراتا جب میں واپس لوٹتا تو دودھ دُوہتا ، اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودھ پلاتا ، ایک دن درختوں نے مجھے دور پہونچا دیا تو رات سے پہلے میں لوٹ نہ سکا ، میرے والدین میرے لوٹنے تک سوچکے تھے ، میں نے حسب معمول دودھ دُوہا اور ایک برتن میں دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہو گیا ، ان کو نیند سے بیدار کرنا میں ناپسند کرتا تھا اور ان سے پہلے بچوں کو دودھ پلانا بھی مجھے نا پسند تھا ، باوجودیکہ میرے بچے میرے قدموں کے پاس چیخ رہے تھے ، فجر طلوع ہونے تک میرا اور میرے ماں ، باپ کا یہی حال رہا ، اے اللہ تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا جوئی کےلیے کیا تھا ، تو ہمارے اس غار میں کشادگی کر دے کہ ہم اس غار سے آسمان کو دیکھ لیں ، تو اللہ عزوجل نے کچھ کشادگی کر دی اور ان تینوں نے اس غار سے آسمان کو دیکھ لیا ۔ پھر دوسرے شخص نے دعا کی اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جس سے مجھے بے پناہ محبت تھی جیسا کہ مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، میں نے اس سے ملاقات کی درخواست کی ،اس نے انکار کیا اور سودینار کی طلبگار ہوئی ، میں نے بڑی مشقّت سے سو دینار اکٹھا کئے اور اسے لے کر اپنی محبوبہ کے پاس گیا ، جب میں اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے بیٹھا تو اس نے کہا ، اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور حرام طریقے سے مہر نہ توڑ ، تو میں اسی وقت اس سے علیحدہ ہوگیا ۔ اے اللہ! تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے تیری رضا مندی کےلیے ایسا کیا تھا ، تو ہمارے لیے اس غار کو کچھ کھول دے ، تو اللہ تعالیٰ نے غار کو کچھ کھول دیا ۔ اور تیسرے شخص نے کہا ، اے اللہ ! میں ایک شخص کو ایک فرق چاول کی اجرت پر اجیر رکھا تھا ، جب اس نے اپنا کام پورا کرلیا تو کہا میری اجرت دے دو ، میں نے اس کو مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس سے اعراض کیا ، پھر میں ان چاولوں سے کاشت کرتا رہا تاآنکہ اس کی آمدنی سے میں نے گائے اور چرواہے جمع کر لیے ، ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا ۔ اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو ، میں نے کہا جاؤ اور ان گایوں اور چرواہوں کو لے لو ، اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو ۔ میں نے کہا میں تم سے مذاق نہیں کرتا یہ گائے اور چرواہے لے لو ، وہ انہیں لے کر چلا گیا ۔ اے اللہ ! تجھے یقیناً علم ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضاجوئی کےلیے کیا تھا ، تو غار کے منھ کا جو حصہ کھلنے سے رہ گیا ہے اسے کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے کھول دیا بعض روایتوں میں ہے کہ وہ غار سے نکل کر روانہ ہو گئے ۔ (صحیح المسلم جلد دوم صفحہ ۳۵۳۔چشتی)

ان تینوں آدمی نے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کی اور وہ دعا بارگاہ ِالٰہی میں قبول ہوئی اور یہ حدیث موقع مدح میں ہے تو اس سے وسیلے کا جواز واستحسان ثابت ہوا ۔

بخاری ونسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ ’’استعینوا بالغدوۃ والروحۃ وشئی من الدجلۃ ‘‘ صبح کی عبادت سے استعانت کرو ، شام کی عبادت سے استعانت کرو ، کچھ رات کا حصہ باقی ہو تو اس کی عبادت سے استعانت کرو ۔

ابن ماجہ اور حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ فرمایا ’’ استعینوا بطعام السحر علے صیام النھار و بالقیلولۃ علے قیام اللیل ‘‘ سحر کے کھانے سے دن کے روزے پر استعانت کرو اور دوپہر کے سونے سے قیام لیل پر استعانت کرو ۔

ظاہر ہے کہ نہ تو صبح کی عبادت خدا ہے ، نہ شام کی ، نہ سحر کی ، نہ دوپہر کا سونا ۔ تو ان سے استمداد و استعانت کا حکم دیا گیا ۔ جس سے ثابت ہوا کہ غیر اللہ سے استمداد و استعانت جائز اور ، مستحسن و مستحب ہے ۔

ذوات و اشخاص سے استمداد و توسل

ائمہ دین علیہم الرحمہ نے مندرجہ ذیل احادیث کریمہ سے مسئلۂ استمداد واستعانت وتوسل میں استدلال فرمایا ہے ۔ حضرت عثمان ابن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خود ایک دعا تعلیم فرمائی ۔ جس کے الفاظ یہ ہیں ’’ اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک نبیک محمد نبی الرحمہ یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہٖ لتقضی لی حاجتی ۔ اللھم فشفعہ ۔ (جامع ترمذی شریف جلد دوم صفحہ ۱۹۷)
ترجمہ : اے اللہ ! میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نبیِ رحمت ہیں ۔ کے وسیلے سے تجھ سے مانگتا اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو ، الٰہی !حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ۔ ‘‘ یہ حدیث صرف امام ترمذی نے اخذ نہیں کی ہے بلکہ امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ،ابن ماجہ نے سنن صلوۃ الحاجۃ میں ،نسائی نے عمل الیوم واللیلۃ میں ،ان کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی اس کی تخریج فرمائی اور متعدد محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی صراحت بھی فرمائی اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ و رابطہ بنا کر قضائے حاجات کےلیے ان سے استمداد واستعانت منصوص ہے ۔ حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں مذکورہے کہ ایک شخص کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ایک اہم کام تھا جو پورا نہیں ہو رہا تھا ۔ وہ حضرت عثمان بن حنیف کے پاس آیا آپ نے نماز حاجت کے سوا مذکورہ دعا ’’اللھم انی اسئلک الخ‘‘کی تعلیم فرمائی ۔ اس طرح اس کی حاجت پوری ہوگئی ،پھر جب اس شخص کی ملاقات حضرت عثمان بن حنیف سے ہوئی تو اس نے کہا ’’ جزاک اللہ خیرا ماکان ینظر ولا یلتفت اِلَیَّ حتّٰی کلمتُہ فی‘‘اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے وہ میری طرف التفات کرتے ہی نہ تھے پھر میں نے اپنی ضرورت کے تعلق سے گفتگو کی اور وہ پوری ہوئی ۔ (الترغیب والترہیب جلد اول)(الخصائص الکبریٰ جلد دوم صفحہ ۱ ۲۰)

روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف نے اس شخص سے کہا کہ ،خلیفۃ المسلمین سے آپ کے بارے میں میری کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر تھے ۔ایک نابینا صحابی بھی حاضر بارگاہ ہوئے ،اور اپنی بینائی کے لئے دعاکی درخواست کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے صبر کی تلقین کی ۔مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے ۔تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں وضو،نماز اور اسی دعا کی تلقین فرمائی ۔ وہ نابینا صحابی دعا کرنے کےلیے گئے ،اور ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دیر تک رہے ۔ تو ہم نے دیکھا کہ وہ نابینا صحابی حضور کی بارگاہ میں اس حال میں آئے کہ ان کی دونوں آنکھیں بالکل صحیح تھیں ۔(وفاء الوفاء جلد چہارم صفحہ ۱۳۷۳ للعلامہ السمھودی۔چشتی)

غور فرمائیں کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ان حضرات سے بڑھ کر احادیث رسول کو سمجھنے والے کون ہو سکتے ہیں ؟ ۔ انہوں نے دعائے حاجت والی حدیث سے یہی سمجھا کہ یہ دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استمدادو استعانت ، نداء اور پکار ان کی ظاہری زندگی کے بعد بھی خود صحابہ کا معمول ہے ۔ پھر حضرت عثمان ابن حنیف کے کہنے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے پاس آنے والے حاجت مند یا تو صحابی تھے یا کم از کم کبار تابعین میں سے تھے ۔ انہوں نے بلا چون و چرا اس عملِ توسل واستعانت پر عمل کیا جس سے واضح ہے کہ بعد رحلت بھی  استمداد و وسیلہ و نداء جائز و مستحسن ہیں ۔۔۔ ربیعہ ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں’’کنت أبیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فأتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل فقلت اسئلک مرافقتک فی الجنۃ قال أوغیر ذلک قلت ھو ذاک ،قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود ۔ (رواہ مسلم)(مسلم شریف بحوالہ مشکوٰۃ صفحہ ۸۴)
ترجمہ : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہاں رات میں رہتا ۔ ایک دفعہ رات میں آپ کےلیے وضو کا پانی اور دیگر ضرورت کی چیزیں لایا۔ آپ نے فرمایا کہ ربیعہ !مانگ کیا مانگتا ہے ؟ عرض کی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت ہو ، فرمایا کچھ اور مانگنا ہے ۔ عرض کی میری مراد تو بس یہی ہے ، فرمایا تو تم اپنے نفس پر میری مدد زیادہ سجدہ کر کے کرو ۔

مذکورہ حدیث پاک میں وارد دو ، تین الفاظ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں ۔ (۱) ایک تولفظ’’ سَلْ‘‘ ہے ۔ (۲) دوسرا ’’ اسئلک مرافقتک‘‘ یعنی جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کا سوال ۔ (۱) سَلْ امر کا صیغہ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیعہ بن کعب سے مانگنے کو کہا ، اس کا مفعول مذکور نہیں کیونکہ کوئی خاص مفعول یہاں مطلوب نہیں ، تو جس چیز کا بھی مطالبہ ہو وہ صحیح ہو گا ۔ کہ اس میں نا کسی چیز کی تقید ہے ، نا کسی امر کی تحصیص تو اس سے صاف واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کی حاجت و ضرورت پوری فرما سکتے ہیں ، ہر طرح کی مدد کر سکتے ہیں ۔ (۲) جنت میں حضور کی رفاقت کا سوال خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی کیا گیا ، جنت میں رفاقت عظیم ترین نعمت ہے ۔ مگر اس نعمت کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہ فرمایااور نہ یہ فرمایا کہ ربیعہ یہ شرک ہے ۔بلکہ مزید مانگنے کا مطالبہ فرمایا۔یہ غیر خدا سے مدد مانگنا ہوا ۔ (۳) لفظ أعِنِّیْ کا معنی ہی ہے ’’ میری مدد واعانت کر ‘‘ اسی کو استعانت کہتے ہیں ۔ تو غیر اللہ سے استعانت ہوئی ۔ اگر یہ تصور توحید کے منافی ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر گز ارشاد نہ فرماتے ۔ شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ  اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ’’سل‘‘ فرما کر سوال کو مطلق رکھا ، کسی خاص چیز سے مقید نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ تمام معاملات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست کرم میں ہیں ، جو چاہیں ، جس کو چاہیں اپنے رب کے حکم سے عطا کر دیں ۔ (اشعۃ اللمعات للشیخ عبد الحق باب السجود و فضلہ)

شیخ محقق کی یہ تشریح استمداد کو تصور توحید کے منافی قرار دینے والوں کےلیے تا زیانۂ عبرت ہے ۔

قحط میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا

جب اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی۔تو خوب جم کر بارش ہوئی ۔ مدینہ منورہ کے آس پاس کے لوگوں نے حاضر ہوکر عرض کی ہم ڈوب جائیں گے ۔پھر آپ نے دعا کی اور بارش صرف ارد گرد میں ہوئی ۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ولو ادرک ابو طالب ھذا الیوم لسرہ فقال لہ بعض اصحابہ یا رسول اللہ ۔ اردت بقول ۔ وابیض یستقی الغمام بوجھہ ثمال الیتامیٰ عصمۃللارامل ۔
’’ قال نعم‘‘ یعنی اگر ابو طالب اس دن کو پاتے تو خوش ہوتے ایک صحابی نے عرض کیا ۔ حضور آپ کا اشارہ ان کے اس شعر کی جانب ہے ۔ گورے رنگ والے جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگی جاتی ہے ۔ یتیموں اور ناداروں کے ماویٰ و ملجاء ، فرمایا ہاں ۔ (السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد ۱ صفحہ ۱۷۹)(صحیح البخاری باب الاستقاء جلد ١ صفحہ ۱۳۷)

وسیلہ بالانسان کے متعلق بخاری باب الاستقاء میں روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یہ تھا کہ جب قحط پڑتا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے آپ اللہ سے بارش کا سوال کرتے ۔ دعا کے الفاظ یہ ہوتے ۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون۔ (صحیح بخاری جلد ١ صفحہ ۱۳۷)
ترجمہ : اے اللہ ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر حاضر ہوتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ، ہم پر بارش برسا ۔ راوی کہتے ہیں تو مینہ برستا ۔

یہ حدیث اس پر واضح دلیل ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین کو اللہ زوجل کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا اور ان کے سہارے مدد طلب کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ہوا اور بلا نکیر سب نے اس پر عمل کیا تو توسل و استعانت کے مستحب ہونے پر صحابہ کا اجماع ہو گیا ۔ توسل سے یہاں دعاکی درخواست مراد نہیں ، جیسا کہ ابن تیمیہ کے ریزہ خوار کہتے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں صاف تصریح ہے کہ اے اللہ ! ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ لاتے ہیں ۔ ہم پر بارش نازل فرما ۔ اس کو دعا کی درخواست پر محمول کرنا حدیث کی تحریفِ معنوی ہے ۔ ابن تیمیہ کے پیروکاروں کا یہ کہنا ہے کہ اگر بعد رحلت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو سل جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس سے کیوں وسیلہ لیتے ۔ دھوکہ اور فریب و جہالت ہے کیونکہ کسی چیز کے مختلف طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کو اپنانا دوسرے کی نفی کی دلیل نہیں بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ بر تر کے ہوتے ہوئے اس سے کم رتبے والے سے بھی وسیلہ لیا جا سکتا ہے ۔ پھر یہ کہ حضرت عباس سے توسل میں ایک اہم افادہ مقصود تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل واستعانت کا مستحب مستحسن ہونا سب کو معلوم تھا ممکن ہے کہ کسی کو یہ وہم ہو کہ غیر نبی سے تو سل جائز نہیں تو حضرت عمر نے حضرت عباس کو وسیلہ بنا کر واضح کر دیا کہ غیر نبی سے توسل بھی مستحب ہے ، بالخصوص رشتۂ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لینا ، حدیث کے الفاظ ’’کنا نتوسل‘‘ سے ظاہر ہے کہ یہ تو سل و استعانت صرف عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا بعد میں بھی صحابہ کا یہ معمول رہا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وصال کے بعد استمداد و وسیلہ لینا جائز نہیں ، وہ در اصل صحیح روایتوں کے منکر ہیں۔چنانچہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اور علامہ قسطلانی نے ’’المواھب اللدنیہ‘‘ میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے یہ روایت بیان فرمائی ۔ اس کے راوی حضرت عمر کے خازن مالک الدار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اصاب الناس قحط فی زمان عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ!استق اللہ لامتک فانھم قد ھلکو افاتاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی المنام فقال ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انھم یسقون ۔ (فتح الباری جلد ٢ صفحہ ۱۳۷)
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں لوگ قحط میں مبتلاء ہوئے تو ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہوا ، اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کےلیے بارش کی دعا فرمائیں ، لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں ایک شخص کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر سے جا کر عرض کرو کہ عنقریب بارش آئے گی ۔

بعض لوگوں نے اس شخص کا نام بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ بتایا ہے ۔ اس حدیث کو علامہ ابن حجر اور علامہ قسطلانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ بیہقی نے’’ دلائل النبویہ‘‘ میں یہ حدیث ذکر کیا ہے ۔ تو اس حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ وقتا فوقتا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضر ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت و استمداد کرتے تھے ۔

منکرین استمداد کےلیے یہ آیت کریمہ کافی ہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے : ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک فاستغفروااللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر ۶۴)
ترجمہ : اور جب وہ اپنی جانو ںپر ظلم (یعنی گناہ) کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور معافی مانگیںان کےلیے رسول تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دے کر ان سے معافی مانگنے اور توبہ واستغفار کرنے کا یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے ساتھ خاص نہیں ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد بھی یہ حکم جو ں کا تو ںباقی ہے ۔ صحابۂ کرام اور ائمۂ اسلام نے اس آیت کریمہ سے یہی سمجھا ہے ۔ چنانچہ علامہ نور الدین علی ابن احمد سمہودی اپنی کتاب’’وفاء الوفاء ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’علماء اسلام نے اس آیت کریمہ سے یہی سمجھا ہے کہ یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات اور بعد وصال دونوں کو عام ہے اور آپ کی قبر انور پر حاضر ہونے والوں کے لئے اس آیت کریمہ کی تلاوت اور توبہ کرنے اور مغفرت چاہنے کو مستحب قرار دیا ہے‘‘ چنانچہ ذیل میں عہد صحابہ کے دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے علامہ سمہودی علیہ الرحمہ اور دیگر علمائے راسخین کی رائے اور مسلک اہلسنت و جماعت کی تائید ہوتی ہے ۔

محمد عتبی سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی دیہاتی آیا اور وہ السلام علیک یا رسول اللہ کے بعد کہنے لگا ، اے رسولوں میں سب سے بہتر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے ، اور اس میں ارشاد فرمایا ہے جب لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کی بار گاہ میں حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی ان کے لئے سفارش کریں تو اللہ ضرور توبہ قبول فرمائے گا ۔میں آپ کے پاس اپنے گناہوں کی مغفرت کےلیے آیا ہو ں یارسول اللہ ! میں آپ کو اپنے رب عزوجل کی بارگاہ میں شفیع بناتا ہوں ، پھر روتے ہوئے اس نے یہ اشعار پڑھے ۔

یا خیرمن دفنت بالقاع أعظمہ
فطاب من طیبھن لاقاع والاکم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم

ترجمہ : اے ان تمام لوگوں میں سب سے افضل جو زمین میں دفن کر دیے گئے تو ان کی خوشبو سے چٹیل میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ۔ میری جان اس قبر پر فدا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں جو پاک دامنی اور جود وکرم کا خزانہ ہے ۔

راوی کہتے ہیں کہ وہ اعرابی دوبارہ مغفرت طلب کر کے لوٹا اتنے میں میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یا عتبی الحق الاعرابی فبشرہ بان اللہ تعالیٰ قد غفرلہ ۔ جاؤ اس اعرابی سے مل کر بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے میری سفارش سے اس کی مغفرت فرمادی ہے ۔ (ابن عساکر فی تاریخہ،چشتی)(الجواہر المنظم لابن حجر الھیتمی صفحہ ۱۵۳)

دوسری روایت ابو سعید السمعانی کی ہے ۔ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے تین دن بعد ایک اعرابی آپ کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور انہوں نے خود کو قبر شریف پر گرا دیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگے اور کہتے جاتے تھے ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ آپ نے فرمایا ہم نے سنا اور ہم نے آپ کے بتائے ہوئے کو محفوظ کرلیا یا رسول اللہ ! آپ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ’’ولو انھم اذ ظلموا ۔۔۔ الخ‘‘ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اب میں آپ کی بار گاہ میں حاضر آیا ہوںکہ آپ اپنے رب سے میرے لیے استغفار کریں ۔ تو قبرِ انور سے آواز آئی کہ تیری مغفرت ہو گئی ۔(وفاء الوفاء جلد ۴ صفحہ ۱۳۶۱،چشتی)(الجواہر المنظم صفحہ ۱۵۵)

ان دونوں روایتوں میں صاف وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد قبر انور پر حاضر ہو  کر استغفار و استمداد و استعانت و استشفاء جائز و مستحب ہے اور یہ صحابۂ کرام کا طریقہ ہے ۔ عہد صحابہ کے بعد کے ائمہ ، علماء و اولیاءاللہ نے بھی استمداد و استعانت و توسل کو جائز و مستحسن سمجھا ۔ اس تعلق سے مستند کتابوں میں اتنا کچھ ہے کہ اس کےلیے دفتر در کار ہے ۔ یہاں سید الاولیاء حضرت غوث الثقلین کا ایک ارشاد نقل کیا جارہا ہے ۔ حضور سیدنا غوث اعظم کا یہ ارشاد’’ بہجۃ الاسرار شریف ‘‘میں مذکور ہے ۔’’جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے وہ تکلیف دفع ہواور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دور ہواور جو کسی حاجت میں اللہ تعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے وہ حاجت بر آئے اور دورکعت نماز پڑھے ،ہر رکعت میںبعد فاتحہ کے سورۂ اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام پھیر کر نبی اپر درود بھیجے اور مجھے یاد کرے پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے ان میں میرا نام لیتا جائے اور اپنی حاجت یاد کرے‘‘۔اس طرح بہت سے اقوال حضرت غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں ۔ان کے علاوہ بہت سے بزرگان دین سے اس طرح کے اقوال مروی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء وصلحاء سے استمداد جائز ودرست ہے ۔

حضرت شیخ حسن عدوی حمزاوی نے ’’مشارق الانوار‘‘ میں شیخ الاسلام شہاب الدین رملی کا یہ عقیدہ بیان فرمایا۔’’شیخ الاسلام رملی سے پوچھا گیا کہ عوام مصیبت وپریشانی کے وقت یا شیخ فلاں اور اس قسم کے الفاظ کہتے ہیں تو کیا مشائخ کرام وصال کے بعد امداد فرماتے ہیں ؟تو آپ نے جواب دیا کہ انبیاء،اولیاء، صالحین اور علماء سے استغاثہ (فریاد خواہی) جائز ہے۔کیونکہ یہ حضرات وصال کے بعد ایسی ہی امداد فرماتے ہیں ۔جیسی وہ اپنی حیات ظاہری میں امداد فرمایا کرتے تھے کیونکہ انبیاء کے معجزے ، اولیاکی کی کرامتیں ہیں۔ مشارق الانوار ،للشیخ الحسن العدوی الحمزاوی ۔

خاتم الفقہاء علامہ ابن عابدین شامی کی رد المختار کے حاشیہ میں ہے’’زیادی نے یہ بات بہ تحقیق بیان کی ہے، جب کسی انسان کی کوئی چیز گم ہوجائے اور وہ یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز واپس فرمادے تو اسے چاہییٔ کہ کسی بلند جگہ قبلہ رو کھڑا ہو جائے اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبیٔ کریم ا کو پہونچائے پھر سیدی احمد بن علوان کو ایصال ثواب کرے۔’’یا سیدی احمد یا ابن علوان ان لم ترد علی ضالتی والانزعتک من دیوان الاولیاء‘‘یعنی اس طرح کہے یا سیدی احمد اے ابن علوان !اگر آپ نے میری گم شدہ چیز واپس نہ کی تو میں آپ کا نام دفتر اولیاء سے کاٹ دوں گاتو اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے کہنے والے کو واپس فرمادے گا۔(رد المختار کتاب اللقطہ جلد ۶ صفحہ ۴۴۷)

شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح العزیز‘‘میں سورئہ فاتحہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غیراللہ سے استمدادو استعانت اگر بایں طور ہے کہ اس غیراللہ پر کلی اعتماد کرتا ہے اور اسے عون الٰہی کا مظہر نہیں جانتا تو وہ حرام ہے اور اگر التفات تو حق تعالیٰ کی طرف ہے اور غیر اللہ سے استمداد بایں طور ہے کہ اسے مدد الٰہی کا مظہر جانتا ہے جس کو استعانت ظاہری کہتے ہیں یہ شرعا جائز ودرست ہے ۔ انبیاء ، اولیاء سے اس قسم کی استعانت کی جاتی ہے ۔ (فتح العزیز تفسیر سورۂ فاتحہ)

الغرض ذوات و اشخاص سے استعانت و استمداد بلا شبہ جائز و مستحسن ہے ۔ کوئی بھی مسلمان انبیاء ، اولیاء ، صلحاء سے استمدادا نہیں مستقل بالذات سمجھ کر نہیں کرتا ہے۔نہ ہی انہیں قادر بالذات سمجھتا ہے بلکہ انہیں قضائے حاجات کا وسیلہ اور وصول فیض کا واسطہ جانتا ہے اور یہ معنیٰ تو غیر خدا ہی کے ساتھ خاص ہے ۔اس استمدادواستعانت کو تصور توحید کے منافی قرار دینا اور مشرک گرداننا توحید اور شرک کے شرعی مفہوم سے جاہل وناواقف رہنے کی بین دلیل ہے۔جیسا کہ ابن تیمیہ اور اس کے ریزہ خوار محمد ابن عبد الوھاب واسماعیل دہلوی نے اسے شرک قرار دیا ہے ۔ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ پورے عالم کا مسئلہ استمدادپر اجماع واتفاق رہا کہ عہد رسالت سے تقریبا سات سو سال تک کسی کے دل میں یہ خیال بھی نہ گزرا ہوگا کہ انبیاء واولیاء سے استمداد توحید کے منافی عمل ہے۔رہا ابن تیمیہ کا اسے حرام وشرک بتانا تو یہ جمہور اسلام کی مخالفت ہے جسے اس کے دور کے علماء نے اسے مسترد کردیا ہے ۔در اصل ابن تیمیہ اور اس کے متبعین شرک وتوحید کا معنیٰ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ لوگ اس بنیادی نکتہ پر غور نہ کر سکے کہ عہد رسالت کے مشرکین کا اصل شرک کیا تھا ۔اس لئے انہوں نے اپنے خود ساختہ تصور توحید کو اسلامی تصور توحید قراردے دیاحالانکہ اسلامیات کے ماہرین نے اس بات کی خوب صراحت کردی ہے ، کہ عہد رسالت کے مشرکین کا شرک ان کا چند معبود جاننے کا نظریہ تھا اور اللہ سبحانہ کے لئے اولاد ماننے کا عقیدہ تھا اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو نظام کائنات کی تدبیر میں خدا کا شریک سمجھناتھا ۔شرک توحید کی ضد ہے۔علامہ عینی نے توحید کا معنیٰ یہ بیان کیا ہے۔ ’’توحید اصل میں وَحَّدَ یُوَحِّدُ کا مصدر ہے اور وَحّدْتُ اللہ َ کے معنیٰ ہیں میں نے اللہ کو اس کی ذات وصفات میں منفرداعتقاد کیا ۔ جس کی نہ تو کوئی نظیر ہے ،نہ ہی اس کی کوئی شبیہ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ توحید نام ہے اللہ کی ذات کے لئے یہ ثابت کرنا کہ وہ دوسری ذات کے مشابہ نہیں ہے اور نہ صفات سے عاری ہے ۔ (حاشیہ بخاری جلد ٢ صفحہ ۱۰۹۶)

اسی کے ساتھ ساتھ شرک کا مفہوم بھی ذھن میں بسالیں علامہ سعد الدین تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں ۔شرک کرنے کے معنیٰ یہ ہیں۔الوہیت بمعنٰی وجوب وجود میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ مجوسیوں کا شرک ہے ۔ یا الوہیت بمعنیٰ استحقاق عبادت میں کسی کو خدا کا شریک ثابت کرنا جیسا کہ اصنام پرستوں کا شرک ہے ۔ (شرح العقائد للنسفی صفحہ ۶۱ مجلس برکات مبارکپور اعظم گڑھ)

شرک کی اس تعریف سے بخوبی عیاں ہے کہ خدا کی عطا کردہ قوت امداد مان کر انبیاء اولیا ء سے مدد طلب کرنا ہرگز ہرگز شرک کے خانے میں نہیں آتا …نہ ہوگا کہ دینی و دنیاوی کسی بھی طرح کی مدد کسی غیر اللہ سے چاہنا شرک ٹھہرے گا ۔والعیاذ باللہ ! تو حق وہی ہے جس پر عہد رسالت سے لیکر آج تک مسلمانان عالم کا اجماع ہے ۔بلکہ پچھلی اُمتوں کا بھی کہ قضائے حاجات کے لئے صالحین سے استمداد تصوّرِ توحید کے منافی نہیں ۔

اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے ڈائریکٹ مانگنے کے حوالے سے چند بزرگانِ دین کے اقوال  ملاحظہ ہوں ۔ چنانچہ حضور پر نور حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : من استغاث بی فی کربۃ کشف عنہ و من نادانی  باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی ﷲ فی حاجۃ قضیت لہ ومن صلی رکعتین یقرا فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ سورۃ الاخلاص احدی عشرۃ مرۃ ثم یصلی ویسلم علی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعد السلام ویذکر نی ثم یخطو الی جھۃ العراق احدی عشرۃ خطوۃ ویذکر اسمی ویذکر حاجتہ فانھا تقضی باذن ﷲ تعالی“ترجمہ:جو کسی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے وہ مصیبت دور ہو اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دفع ہو اور جو اللہ عزوجل کی طرف کسی حاجت میں مجھ سے وسیلہ کرے وہ حاجت پوری ہو اور جو دورکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں بعد فاتحہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے پھرسلام پھیر کر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پردرود وسلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے اور اپنی حاجت کاذکر کرے تو بیشک اللہ تعالی کے حکم سے وہ حاجت روا ہو۔(بھجۃ الاسرار ذکر فضل اصحابہ وبشراھم  صفحہ 102 مصر)

امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ربانی  تحریرفرماتے ہیں:”سیدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ۔ ان کے جانور کا پاؤں پھسلا،  باآواز پکارا ”یا سیدی محمد یا غمری“ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں ؟ کہا :میرے شیخ، کہا: میں ذلیل بھی کہتا ہوں ، یا سیدی یا غمری لاحِظنی“اے میرے سردار! اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو،  ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت سیّدی محمد غمری رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی،  مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۔ (لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار،ترجمہ الشیخ محمد الغمری ،جلد2،صفحہ88،مصر،چشتی)

لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار میں ہے :”حضرت سیدی محمدشمس الدین حنفی  رضی اللہ تعالی عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے”من کانت حاجۃ فلیأت الی قبری و یطلب حاجتہ اقضھا لہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل“یعنی :جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے ، وہ مرد کا ہے کا۔(لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی جلد 2 صفحہ 96 مصر)

شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوی میں ہے :”سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم “یعنی ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء ومرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسول اللہ ،یاعلی ،یا شیخ عبدالقادر جیلانی )اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟اوراولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں ۔ (فتاوی رملی ،مسائل شتی تفضیل البشر علی الملائکہ جلد 4 صفحہ 382 مکتبۃ الاسلامیہ)

مسلمان اللہ عزوجل کے نیک بندوں سےجو مددمانگتے ہیں ، وہ ان کوواسطہ  وصول فیض اوروسیلہ قضائے حاجات سمجھتے ہیں  کہ اولیاء اللہ مانگنے والے اوررب عزوجل کے درمیان  واسطہ ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی مددکے مظہرہیں اوریہ قطعایقینادرست ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں ﴿ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ﴾ یعنی اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔کاحکم فرمایاہے ۔حقیقی استعانت صرف اللہ عزوجل  کے ساتھ خاص ہےکہ وہ قادربالذات ومالک مستقل وغنی بے نیازہے ۔استعانت حقیقیہ کا اعتقاد اگر کوئی کسی ولی کےلیے رکھے ، تویہ شرک ہے ۔ بحمداللہ کوئی مسلمان بھی اس معنیٰ کا اعتقاد کسی ولی کےلیے نہیں رکھتا ۔ چنانچہ امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات و مالک مستقل و غنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتا ہے ، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے ۔ خود رب العزت تبارک وتعالی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا : وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ بایں معنیٰ استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصر ایاک نستعین کے منافی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 303 رضا فاونڈیشن لاھور،چشتی)

فتاوی رضویہ میں ہے : استعانت بالغیروہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسہ کرے ، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتا ہے تو شرک و حرمت بالائے طاق ، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء و اولیاء علیہم الصلوۃ والسلام و علیہم الرحمہ نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 325 رضافاؤنڈیشن لاھور)

اولیاء سے استعانت کا اہل ایمان کیامعنی مرادلیتے ہیں ؟ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلی حضرت الشاہ احمدرضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہل استعانت سے پوچھو تو کہ تم انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلوۃ والثنا کو عیاذا باللہ خدا یا خدا کا ہمسر یا قادر بالذات یا معین مستقل جانتے ہو یا اللہ عزوجل کے مقبول بندے اس کی سرکار میں عزت و وجاہت والے اس کے حکم سے اس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو ؟ دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتاہے ۔ اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ناصر السنۃ ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی علیہ الرحمہ کتاب مستطاب ”شفاء السقام “ میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں : لیس المراد نسبۃ النبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم إلی الخلق والاستقلال بالأفعال ھذا لا یقصدہ مسلم فصرف الکلام إلیہ ومنعہ من باب التلبیس في الدین والتشویش علی عوام الموحدین “ یعنی : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں ۔ یہ تو اس معنی پر کلام کو ڈھال کر استعانت سے منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور عوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے ۔ فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ المکی کتاب افادت نصاب ”جوہر منظم“ میں حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں : فالتوجہ والاستغاثۃ بہ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بغیرہ لیس لھما معنی في قلوب المسلمین غیر ذلک ولا یقصد بھما أحد منھم سواہ فمن لم ینشرح صدرہ لذلک فلیبکِ علی نفسہ نسأل ﷲ العافیۃ والمستغاث بہ في الحقیقۃ ھو ﷲ، والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث فھو سبحانہ مستغاث بہ والغوث منہ خلقاً وإیجاداً والنبي صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم مستغاث والغوث منہ سبباً وکسباً“یعنی : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلاۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے فریاد کے یہی معنیٰ مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنیٰ نہیں سمجھتا  ، نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے ۔

ہم نے جب اس بات کو قرآن و احادیث مبارکہ سے جان لیا ۔ کہ : حضرات انبیاء کرام علیہم السلام و اولیائے کاملین علیہم الرّحمہ کے وسیلہ کا انکار قرآن و حدیث میں نہیں ملتا بلکہ قرآن حدیث سے وسیلے کے جائز ہو نے کا اثبات ہے ۔ توا ب اگر دِل میں یہ وہم پیدا ہو کہ ان آیا ت واحادیث سے ظاہری زندگی میں وسیلہ بنانے کا بیان ہے اگرچہ بعد از وفات وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔ مگر کیا دنیا میں تشریف آوری سے قبل اور دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی وسیلہ بنانے پر کوئی واضح دلیل ہے ؟ ۔ تو آئیے اس وہم کا ازالہ فرمایئے ۔ بعثت سے قبل اور بعد از وفات ظاہری وسیلہ بنانے کی دلیل : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے ان کی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا ۔

توسل کی دلیل نمبر 9 : وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۔
ترجمہ : اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر ۔ (سورہ البقرۃ آیت 89)

توسل کی دلیل نمبر 10 : سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۔
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ،چشتی)

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا : اے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا ، تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : اے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا ۔ (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690)(معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243)(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457)(كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37۔چشتی)(تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج,1,ص,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت (دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے ۔ ذرا غور فرمائیے کہ انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی اور وہ دعا بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے قبول فرمائی گئی ۔ اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد پوری ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فر مائیں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی دعا قبول فرمائے گا اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔

درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سےحسا ب شروع فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا و مقام محمود عطا فرما کر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی شان دیکھائے گا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے عطا نہ فرمائی ۔

بعد از وفاتِ ظاہری توسل

توسل کی دلیل نمبر 11 : امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311،چشتی)(شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371 دار الکتب العلمیۃ)(احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی میں اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے ، حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ، بلکہ علامہ ابن تیمیہ نے کہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کو فتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح لکھا ہے)

اس سے معلو م ہوا کہ صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے توسل کو فقط آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہ کیا بلکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس توسل کے طریقہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ظاہری کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رکھا تو جب صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خود کا عمل یہ واضح کر رہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وسیلہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی و فات ظاہری کے بعد بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتی میں جائز امر تھا اگر بعد وفات ناجائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہرگز اس طرح کےعمل کی تعلیم کسی دوسرے کو نہ دیتے اور و ہ صاحب قرون ثلاثہ بھی اس عمل کو نہ اپناتے بلکہ ناجائز ہی بتلاتے لہذا صحابہ کا بعد وفات ظاہری بھی اس عمل کو جاری رکھنا اس کے جائز ہونے پرواضح دلیل ہے ۔

نیز اگر بعد از وفات یہ ناجائز ہوتا تونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی جب اپنے صحابہ کو اپنے وسیلہ سے دعا کی تعلیم ارشاد فرمارہے تھے ضرور اس بات پر بھی متنبہ فرماتے کہ اے میر ے صحابی میرے وسیلہ سے دعا تم میری حیاتی تک کرنا اس کے بعد نہ کرنا کیونکہ یہ ایک لازمی امر ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے وسیلہ سے دعا کی مطلق تعلیم دی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتی میں اور ظاہری وفات کے بعد بھی جائز ہے اسی لیے حضرت عثمان بن حنیف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھا کیونکہ کوئی ایسا قرینہ تھا ہی نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ یہ حکم فقط نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ تک ہے ۔

توسل کی دلیل نمبر 12 : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتا ب مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ ۔
ترجمہ : مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی امت کےلیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے پھر وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور ان کو خبر دی حضر ت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا کہ اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔ (مصنف بن ابی شیبہ حدیث نمبر 32665) ، اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے بھی روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت صحيح ہے البدایہ والنہایہ ج۷صفحہ۹۱ دار الفکر بیروت۔چشتی) ، اسی طرح اما م المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو صحیح فرمایا ہے اور فرمایا کہ وہ خواب دیکھنے والے صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ (فتح الباری جلد ۲ صفحہ۴۹۵نشر الکتب اسلامیہ)(سنن بیہقی ، وفاء الوفاء ، انجاح الحاجہ ، ابن عبدالبر)

صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ دیکھیئے معلوم تھا کہ جس بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں وہ حیات میں وہ میری فریاد کو سنیں گے بھی اور اپنی امت کی مدد بھی فرمائیں گے اور رب کے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلّم رحمت کی بارش کی دعا کریں گے پھر رب تعالی اپنے بندوں پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے میں رحمت بھری بارش نازل فرمائے گا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے غلام صادق پر کرم فرمایا اور خواب میں تشریف لا کر یہ بتلا دیا کہ اے میرے غلاموں مایوس نہ ہو میں اپنے غلاموں کی رب تعالی کے عطا سے فریاد سنتا ہوں اور پھر رب ہی کے اذن و عطا سے ان کی مدد بھی کرتا ہوں ۔

اگر اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بارش وغیرہ کےلیے مدد مانگنا شرک یا حرام ہوتا تو صحابہ کرم رضی اللہ عنہم یہ عمل ہرگز نہ اپناتے اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سارا واقعہ بیان کیا اگر یہ ناجائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آنے والے صحابی رضی اللہ عنہ کو اس عمل کے ناجائز ہو نے کا جواب ارشاد فرماتے بلکہ آپ کا اس کی تصدیق فرمانا اس کے جائز ہونے پر دلیل ہے ۔ نیز یہ بھی غور طلب امر ہے کہ بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر جزم فرمایا اگر یہ ناجائز یا شرک ہوتا معاذا للہ تو اس قدر بلند پایہ کے علماء و فقہاء و محدثین علیہم الرّحمہ اس حدیث کے صحیح ہونے کا حکم لگانا توکجا وہ اس کے موضوع ہونے کا حکم بیان فرماتے اور وسیلے کے ناجائز و شرک ہونے کو ضرور بیان فرماتے ۔

حاکمُ حکیم داد و دوا دیں یہ کچھ نہ دیں
مَردُود یہ مُراد کِس آیت خبر کی ہے

حاکم مُستَغیث کو داد دیتے ہیں ، حکیم مریض کو دوا دیتے ہیں ، وہابی بھی ان باتوں کو مانتے ہیں مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ نہیں دیتے ، اگر غیرِ خدا سے مانگنا شرک ہے تو حاکمُ حکیم سے داد یا دوا مانگنا کیوں نہ شرک ہُوا ؟ اور اگر واسطہ عطائے خدا جان کر ان سے مانگنا شرک نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مانگنا کیوں شرک ہُوا ؟ یہ فرق کون سی آیت و حدیث میں ہے ؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ وَالْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ ۔ (پارہ نمبر 28 سورہ التحریم آیت نمبر 4) 
ترجمہ :  تو بیشک اللّٰہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مددگار ہیں ۔

بیشک اللّٰہ تعالیٰ ان کا مددگار ہے ، حضرت جبریل علیہ السلام نیک ایمان والے اور ان کی مدد کے بعد فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ۲۸۵،چشتی)(تفسیر مدارک صفحہ ۱۲۵۷)

 (1) اگرچہ حضرت جبریل علیہ السلام بھی فرشتوں  میں داخل ہیں مگر چونکہ وہ تمام فرشتوں کے سردار ہیں  اس لیے خصوصیَّت سے ان کا علیحدہ ذکر ہوا ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں  کے ایسے مدد گار ہیں ، جیسے بادشاہ رعایا کا مددگار اور مومن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایسے مددگار جیسے خُدّام اور سپاہی بادشاہ کے ، لہٰذا اس آیت کی بناء پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمانوں  کے حاجت مند ہیں ۔

(3) اس آیت میں حضرت جبریل علیہ السلام اور نیک مسلمانوں کو مولیٰ یعنی مدد گار فرمایا گیا اور فرشتوں  کو ظہیر ، یعنی معاون قرار دیا گیا ، اس سے معلوم ہواکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بندے مدد گار ہیں  ، یاد رہے کہ جہاں  غیرُاللّٰہ کی مدد کی نفی ہے وہاں حقیقی مدد مراد ہے ، لہٰذا آیات میں تعارُض نہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ یُّضْلِلْ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ۔ (سورہ کہف آیت نمبر 17)
ترجمہ : اور جسے وہ (اللہ عزّ و جل) گمراہ کرے تو تم ہرگز اس کیلئے کوئی راہ دکھانے والا مددگار نہ پاؤ گے ۔
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوۡنَ نَحْنُ اَنۡصَارُ اللہِۚ اٰمَنَّا بِاللہِۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوۡنَ ۔ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنۡزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوۡلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیۡنَ ۔ ۔ (سورہ العمران آیت نمبر 52 ، 53)
ترجمہ :  پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) سے کفر پایا تو فرمایا : اللہ کی طرف ہو کر کون میرا مددگار ہوتا ہے ؟ مخلص ساتھیوں نے کہا : ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس پر گواہ ہوجائیں کہ ہم یقینا مسلمان ہیں ۔ اے ہمارے رب ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے ۔

فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیۡسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ : پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفرپایا ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ یہودی اپنے کفر پر قائم ہیں اور آپ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں اور اتنی روشن آیات اور معجزات سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے پہچان لیا تھا کہ آپ علیہ السلام ہی وہ مسیح ہیں جن کی توریت میں بشارت دی گئی ہے اور آپ علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کریں گے ، تو جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعوت کا اظہار فرمایا تو یہ ان پر بہت شاق گزرا اور وہ آپ علیہ السلام کے ایذا اور قتل کے درپے ہوئے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ کفر کیا ۔ آپ علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ کون ہے جو اللہ عزوجل کی طرف ہوکر میرا مددگار بنے ۔ اس پر حواریوں نے آپ علیہ السلام کی مدد کا وعدہ کیا ۔ (تفسیر خازن ، اٰل عمران جلد ۱ صفحہ ۲۵۳)

حواری وہ مخلصین ہیں جو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دین کے مددگار تھے اور آپ پر اوّل ایمان لائے ، یہ بارہ اَشخاص تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بوقتِ مصیبت اللہ عزوجل کے بندوں سے مدد مانگنا سنت ِپیغمبر ہے ۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور پھر کہا کہ آپ علیہ السلام ہمارے مسلمان ہونے پر گواہ بن جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان و اسلام ایک ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام کا دین اسلام تھا ، یہودیت و نصرانیت نہیں ۔ اسی لیے ایمان لانے والوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا ، عیسائی نہیں ۔

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ۔ (پارہ نمبر 6 سورہ المائدہ آیت نمبر 55) 
ترجمہ : تمہارے دوست (مددگار) نہیں مگر اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والے ۔

 اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا : تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں ۔ گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا بیان ہوا جن کے ساتھ دلی دوستیاں لگانا حرام ہے ، ان کا ذکر فرمانے کے بعد اب ان کا بیان فرمایا جن کے ساتھ مُوالات واجب ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کے متعلق حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی ، یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ہماری قوم نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھالیں کہ وہ ہمارے پاس نہیں بیٹھا کریں گے اور دوری کی وجہ سے ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت میں بھی نہیں بیٹھ سکتے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ  تعالیٰ اور اس کا رسول اور ایمان والے تمہارے دوست (مددگار) ہیں تو حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے  نبی ہونے پر اور مؤمنین کے دوست ہونے پر ہم راضی ہیں ۔ (تفسیر قرطبی المائدۃ جلد ۳ صفحہ ۱۳۱ الجزء السادس۔چشتی)

واقعہ اعرابی اور استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)

معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جائز ہے ۔

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی۔(تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 ،چشتی)

بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)

وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔

اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس کاثبوت قرآنی آیات ‘ احادیث نبویہ’ اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اور رب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ ، 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرماؤ اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک و صاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔

معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔

وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89)

مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ” ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ ، 37)
ترجمہ : آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔

بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کا بھی وسیلہ ہیں ۔

اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں :

(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔

(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔

اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔(المائده، 5 : 2)

ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے ۔

اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔

یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔

دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔

تیسرا نکتہ : تفہیمِمسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔

صحیح اِسلامی عقیدہ

’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کےلیے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔

چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔

جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے ۔

حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے

نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے ، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو ۔ (الانبياء، 21 : 112)

دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہو گیا ؟

فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز

مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟

حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّا ۔
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔ (مريم، 19 : 19)

مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام ۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اللہ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے ۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہو گی ؟

جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ (آل عمران، 3 : 49)

اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے :

1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا

2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج

3۔ سفید داغ (برص) کا علاج

4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)

5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا

یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔

حقیقی کار ساز اللہ ربّ العزت ہی ہے

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔

کیا یہ معجزہ نہیں ؟

اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی ۔

چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔

پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا ۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔

ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟

سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں ، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے ۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (المائده، 5 : 110)

اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۔(المائده، 5 : 110)

رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کے لئے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جاۓ گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔

آپ احباب آئے دن پڑھتے ، سنتے ہونگے کہ نجد کی شرک کی فیکٹری سے تیار شُدہ لوگ آئے دن مسلمانانِ اہلسنّت پر شرک کے فتوے صادر کرتے رہتے ہیں اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی کی شان میں توہینِ آمیز باتیں کرتے اور توہین کرتے رہتے ہیں نجد کی خود ساختہ شرک کی فیکٹری کی آڑ میں ۔ اس کا مدلّل جواب پڑھتے ہیں :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ، اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے) اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطاء کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطاء فرماتا ہوں ۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر 6021)

حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے: محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر ۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی (علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں ۔

لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے ۔

حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے ۔

بزرگان دین فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے : 1. سود ۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت ۔

حضرت علامہ علی قاری مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے ، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)

حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔  جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلین  صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے ۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا ، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے ۔

حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن ، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پاؤں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اب اس کا سننا، دیکھنا ، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے) اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے ؟ '' تو قرآن مجید سورہ نمل آیت نمبر 40 میں ہے : اس شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہا : میں آپ کے پاس وہ تحت آپکی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں ۔

یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے ۔

اس حدیث میں اولیاء اللہ کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں ، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے ۔

روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة و السلام کا ارشاد ہے ، جوکہ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔

حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لاؤڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا ، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : اشعۃ اللمعات شروع باب زیارت القبور میں ہے امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ شور بوے درحیات استمداد کردہ مے شودبوے بعد از وفات یکے از مشائخ گفتہ دیدم چہارکس راز مشائخ کہ تصرف می کنند در قبور جود مانند تسر فہا ایشاں درحیات خود یا بیشتر۔ قومے مے گویند کہ امداد جی قومی نزاست ومن مے گویم کہ امداد میت قوی ر اولیاء را تصرف درا کون حاصل است وآں نیست مگر ارواح ایشاں راوارواح باقی است ۔

ترجمہ : جن سے زندگی میں استمداد (مدد) حاصل کی جاتی ہے، ان سے بعد از وصال بھی استعانت (مدد مانگنا) کی جاتی ہے ، مشائخ عظام علیہم الرّحمہ میں سے بعض نے کہا ہے کہ میں نے چار حضرات کو دیکھا کہ وہ جس طرح اپنی زندگی میں تصرف کرتے تھے اسی طرح اپنی قبروں میں بھی تصرف کرتے ہیں ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ، ایک شیخ معروف کرخی اور دوسرے شیخ عبدالقادر جیلانی ، اور ان کے علاوہ دو (2) کا نام اور لیا ، ان کا مقصود ان چار میں حصر کرنا نہیں تھا بلکہ محض اپنے مشاہدے کو بیان کرنا تھا ۔  (اشعۃ اللمعات مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر  923 مطبوعہ فرید بکسٹال،چشتی)

شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : چار بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندگی کی طرح تصرف فرماتے ہیں ۔ (زبدۃُ الآثار صفحہ 21 مترجم صفحہ 31 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ان ارشادات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ کے معتقدات وہی ہیں جو اہل سنت و جماعت کے معتقدات ہیں اور شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کے خلاف اگر کوئی عقیدہ بیان کرتا ہے اور شیخ کو اپنا مقتدیٰ بھی مانتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹاہے ۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتقادی افکار ان کی دوسری تصانیف میں بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی عقیدہ حیات الاولیاء بعد از وصال کے قائل ہیں جبھی تو لکھا ہے کہ : وہ (حضور غوث پاک) شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ذات گرامی ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں "زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں ۔ (ہمعات اردو صفحہ نمبر 127 مطبوعہ سندھ ساگر اکادمی لاہور) 

یعنی حضور غوث پاک نہ صرف اپنے مزار شریف میں زندہ ہیں بلکہ زندوں کی طرح تصرف بھی فرماتے ہیں یعنی کہیں بھی آجا سکتے ہیں اور اسی بنا پر اگر اِن سے استمداد و استعانت کی جائے کہ یہ اللہ کی عطا سے مدد پر قادر ہیں بگڑی بنا دیں گے تو ایسا عقیدہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ شرک کے ٹھیکیدارو لگاؤ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پر شرک کا فتویٰ اور کہو کہ وہ بھی مشرک تھے تاکہ تمہاری خود ساختہ نجد کی شرک کی فیکٹری سے کوئی مقدس ہستی بچ نہ سکے ؟

علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے ۔

حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے : تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں ۔

اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے ۔

چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 356 طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خواب میں فرمایا :عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔

حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتے ہیں ۔

اللہ تعالی بالذات و حقیقی مددگار ہے اور اس کے بندے اس کی عطا سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو بندوں کا مدد کرنا غیر حقیقی ہے حقیقت میں مدد اللہ تعالٰی ہی فرماتا ہے یہ بندے تو صرف سبب ہیں کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک سبب مقرر فرمایا ہے جیسے بارش کےلیے بادل ، روشنی کےلیے سورج ، کھیتی باڑی کےلیے اس کے اسباب الغرض ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے جیسے موت دینا یہ اللہ تعالی کی شان مبارک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا تو کیا حقیقۃ پولیس والوں نے انہیں موت دی ہے تو ہر مسلمان یہ ہی کہے گا کہ اللہ تعالی نے ہی حقیقۃ انہیں موت دی ہے یہ تو صرف سبب بنے ہیں اسی طرح موت کا فرشتہ بھی حقیقۃ موت نہیں دیتا بلکہ وہ بھی سبب ہے اور اللہ کے حکم و قدرت سے ہی موت دیتا ہے تو کیا یہ کہنا شرک ہوا کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا اسی طرح کوئی مریض مر رہا ہو اور ڈاکٹر اس کا علاج کر کے بچالے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کو موت کے منہ سے بچا لیا یا ڈاکٹر نے اسے نئی زندگی دی ہے تو کیا یہ کہنا بھی شرک ہوگا حالانکہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوتا ہے حقیقۃ ڈاکٹر نے بچایا ہے اسی طرح ہم لوگوں کا یوں کہنا ’’ بارش یا سیلاب نے تباہی مچادی ‘‘اور اسی طرح کے مختلف جملے تو ان تما م جملوں میں ہم صرف سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر یہ تمام کام اللہ تعالی کے حکم سے ہیں اسی طرح ہمارا انبیا ء واولیاء کرام سے مدد مانگنا بھی اسی معنی پر ہے کہ حقیقی مدد اللہ ہی کی ہے مگر یہ تو صرف سبب ہیں وسیلہ ہیں اور صفات الہی کا مظہر ہیں لہٰذا یہ بھی شرک نہیں ہے ۔

اہلسنت و جماعت کے نزدیک استمدادِ اولیاء اللہ کا عقیدہ برحق ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت اور اقوالِ آئمہ سے آگے پیش کریں گے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے اہلسنت و جماعت کے نزدیک اولیاء اللہ سے مدد صرف توسل ہے یعنی حقیقی مدد اللہ عزوجل ہی کی جانب سے ہوتی ہے اور چونکہ انبیا و اولیاء اللہ عزوجل کے فیض کے مظہر ہیں اس لیے انہیں فیضِ الہٰی کا واسطہ سمجھ کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر بھکاری بھی جب آپ سے بھیک مانگتا ہے اور جواب میں کچھ نہیں ملتا تو طرح طرح کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے نام پر کچھ دے دو، اپنے اہل وعیال کے نام پر کچھ دے دو ۔

اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے ۔ ہاں غیراللہ سے اس عقیدہ سے مدد مانگنا کہ بغیر عطائے الہٰی اپنی ذات سے مدد کریں تو یہ عقیدہ بیشک باطل ہے اور اس کی تردید علما و فقہا نے واضح الفاظ میں کی ہے۔ لیکن بغیر دلیل مسلمان کی نیت پر شک کرنا بھی غلط ہی ہے، کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا ۔

قرآنِ کریم میں اس ضمن میں اتنی واضح آیات وارد ہیں : وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَاغِبُونَ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 59)
ترجمہ : اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول، ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔

أَغْنَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۔ (سورۃ التوبہ آیت 74)
ترجمہ : ان کو اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے غنی کر دیا ۔

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً ۔ (سورۃ النسا آیت 64)
ترجمہ : اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِيۤ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ ٱللَّهِ آمَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت 52)
ترجمہ : پھر جب عیسٰی نے اُن سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللّٰہ کی طرف حواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں ہم اللّٰہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلإِثْمِ وَٱلْعُدْوَانِ ۔ (سورۃ المائدہ آیت 2)
ترجمہ : اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو ۔

يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔ (سورۃ محمد آیت 7)۔
ترجمہ : اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے ۔

وَإِن يُرِيدُوۤاْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ هُوَ ٱلَّذِيۤ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ ۔ (سورۃ الانفال آیت 62)
ترجمہ : اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللّٰہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زوردیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا ۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورۃ التحریم آیت 4)
ترجمہ : تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاَثَةِ ءَالَٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلاۤئِكَةِ مُنزَلِينَ ۔ (سورۃ آعمران آیت 124)
ترجمہ : جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ۔

قَالَ إِنَّمَآ أَنَاْ رَسُولُ رَبِّكِ لأَهَبَ لَكِ غُلاَماً زَكِيّاً ۔ (سورۃ المریم آیت 19)
ترجمہ : اے مریم میں تمہارے رب کا قاصد ہوں ۔ آیا ہوں تاکہ تم کو پاک فرزند دوں ۔

قرآن میں منکرینِ استمدادِ اولیا کا احوال بھی بیان فرمادیا گیا : أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً ۔ (سورۃ النسا آیت 52)
ترجمہ : یہ ہیں جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا ۔

بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلی ، شیخ ابو العباس احمد زردنی علیہما الرحمہ کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں : 

انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ

وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ

ترجمہ : میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں ۔ جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں ۔ اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو ۔ تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا ۔

قصیدہ نعمانیہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :

یا اکرم الثقل،ین یا کنز الورٰی
بدلی بجودک وارضنی برضاک

انا طامع بالجود منک لم یکن
لابی حنیفہ فی الانام سواک

ترجمہ : اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں ۔

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہ رہنما

یہ شعر کسی "بریلوی" کا نہیں بلکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کا ہے ۔ کسی میں دم ہے تو لگائے فتوٰی حضرت خواجہ صاحب پر۔ تاکہ ہم بھی ان مفتیوں کے فتاوٰی کا معیار دیکھیں ۔

شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے۔(حیات الموات صفحہ 55،چشتی)

یہی شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی ۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں ، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا ۔ ہر پریشانی اور غم ، یا نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم آپ کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا صفحہ 157)

مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہیں اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتے ہیں؛حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لے کر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے ۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 98،چشتی)

یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتے ہیں : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 242)

اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ :

کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے

یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں ؛: بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے ، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں ۔ (سفرنامہ لاہور و لکھنؤ صفحہ 50)

ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں ۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں ۔ اور خود اللہ عزوجل عزوجل نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا ﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا ﷲ توابا رحیما ۔ اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کےلیے رسول ، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے ۔ (القرآن الکریم پارہ نمبر 5)

کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا ۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضرہوں اور تو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے ۔ یہی ہمارا مطلب ہے ۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے کہ ﷲ تعالی اپنے حبیب کی شان عظمت ورفعت بتلانا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ تم کبھی بھی ڈائریکٹ مت ہونا بلکہ حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ہی رب کی بارگاہ عالی میں آنا تو تم رب کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے ۔

قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۔ وَ اشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ (سورہ العمران آیت نمبر ۵۲)

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔ (سورہ بقرہ پارہ ٢)
ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔

کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے ۔

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ۔
ترجمہ : تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر ۵۵)

فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۱ وَ الْمَلآیِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ۔ 
ترجمہ : تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔(سورہ تحریم آیت ۴)
ترجمہ : وتعاونوا علی البر والتقوٰی آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔

کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مدد لینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا ، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ۔

جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے : إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم ۔ (جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰) ۔ اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔

اور اگر کوئی بدمذہب پھر اس بات کو نہ ماننے اور کہے کہ جو بھی غیر ﷲ سے مدد مانگے خواہ کسی بھی عقیدے سے مانگے تو اس نے شرک کیا تو اس سے کہیے کہ جناب آپ ان حضرات کے بارے میں بھی مشرک ہونے کے فتوی لیکر آئیں اور انہیں بھی مشرک کہیں جنہوں نے انبیاء علیہم السلام و اولیاء کرام علیہم الرحمہ سے مدد مانگنے کو جائز فرمایا ہے اور خود مدد بھی مانگی ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا : لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بدہد مسؤل ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند و می گویند آنچہ می گویند اھ ۔
ترجمہ : نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیاچاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کامنکر ہے ۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو وسیلہ بناتا ہے یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجیے اور خدا سے دعا کیجیے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہیے کہ اولیاء اللہ کو ان کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب ومستحسن اور دین معروف و مشہور ہے۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کےلیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو خدا ہمیں عافیت میں رکھے اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔ (اشعۃ اللمعات باب حکم الاسراء جلد نمبر ۳ فصل نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۰۱ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر،چشتی)

جزا کم ﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم ﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء ، جئنا یا صاحبی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۔
ترجمہ : اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہمیں بھی ، بیشک وہ ہر مہر والے سے زیادہ مہر والا ہے ۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے ، اے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں یارو ! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں ۔ (الاختیار والتعلیل مراقی الفلاح فتاوی عالمگیری،چشتی)

اپنے مشائخ حدیث وطریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا کہ : میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہوکہ جواہرخمسہ میں کیا لکھا ہے : نادعلی ہفت بار یا سہ بار یا یکب ار بخواند وآں اینست ناد علیا مظھرالعجائب تجدہ عونالک فی النوائب کل ھم وغم سینجلی بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی ۔ نادعلی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھو اور وہ یہ ہے : پکار علی کو جو عجائب کے مظہر ہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مدد گار پائے گا ، ہر پریشانی اور غم ختم ہوگا آپ کی مدد سے یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (فتوح الغیب ضمیمہ جواہر خمسہ مترجم اردو نادعلی کا بیان مطبعہ دارالاشاعت کراچی صفحہ ۴۵۳،چشتی)

علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی سے کسی نے سوا ل کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟ ’’ یا رسول ﷲ انظر حالنا یا حبیب ﷲ اسمع قالنا ۔ اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا ‘

یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم

تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳ صفحہ ۵ )

علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اس کو نہ دیئے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور ﷲ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہوجائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے ) حی ہو (زندہ ہو) یا میت (مردہ ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴ صفحہ ۹۹)

منکرین استمداد اولیاءاللہ علیہم الرحمہ سے میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا حضرات جو استمداد اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ بھی مشرک ہیں یا معاذاللہ ان کو چھوٹ حاصل ہے ؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ ۔ (سورۃ الفاتحہ)
تر جمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔

اس آیت کی غلط تفسیر : اِس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ ، یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے ، جس طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کر نا شرک ہے ۔ اسی لیے ہم دوسرے بابا اور ولیوں کی بات تو دور ، اللہ کے رسول سے بھی مدد نہیں مانگ سکتے ۔ کیونکہ اِس آیت میں ہمیں یہیں سیکھا یا گیا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور صرف اسی سے مدد مانگیں ۔

غلط تفسیر کا جواب : شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلق غیر اللہ سے مدد مانگنا ناجائز و حرام نہیں ہے اگر ما نگنے والا  اُس غیر کو مظہر عونِ الٰہی کا جان کر مانگے تو یہ جائز و ثابت ہے ۔ (تفسیر عزیزی جلد 1 صفحہ 29 مترجم دیوبندی عالم)

علامہ ابن کثیر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خالص اللہ کےلیے عبادت کریں (نہ کسی کو دکھانے کےلیے اور نہیں کسی اور مقصد کےلیے) اور اپنے معاملات میں اس سے مدد مانگیں ۔ رہی بات کہ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ” کو ” اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ” سے پہلے کیوں بیان کیا گیا ؟ یعنی عبادت کا بیان مدد کے بیان سے پہلے کیوں ہوا ؟ تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت تو صرف اسی کےلیے ہوتی ہے اور اِس میں کسی بھی دوسری چیزوں کے وسیلے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کی مدد ، تو اللہ نے اس کے لئے بہت سارے ذریعے بھی بنائے ہیں جن ذریعوں سے بندہ اللہ کی مدد پاتا ہے ۔ یعنی عبادت صرف ڈائرکٹ ہوتی ہے اور مدد ڈائرکٹ بھی اور اِن ڈائراکٹ بھی ۔ اِس لیے عبادت کو پہلے اور مدد کو بعد میں بیان کیا گیا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اوّل مترجم صفحہ نمبر 63 ، 64 مطبوعہ ضیاء القرآن۔چشتی)

حکیم الامتِ دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : زندہ اور وفات یافتہ بزرگوں سے فیض حاصل ہوتا ہے اور مستعان حقیقی اللہ کو سمجھتے ہوئے مخلوق سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور نفع کا اعتقاد جائز ہے۔ (اشرف التفاسیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 48 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

حکیم الامت دیوبند اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ :

کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے

یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں ۔ عجیب رعب ہے ، وفات کے بعد بھی سلطنت کر رہے ہیں ۔ (سفرنامہ لاہور و لکھنؤ صفحہ 50)

یہی ہم اہلسنت کہتے ہیں مکتبہ فکر دیوبند کے احباب سے گذارش ہے آؤ اپنے حکیم الامت کی ہی بات مان لو اور فتوے لگا کر امتِ مسلمہ تفرقہ و اتنشار پھیلانا اور آپس میں لڑانا چھوڑ دو ۔

شیخ الاسلام دیوبند جناب علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں : اللہ کے مقبول بندوں کو واسطہ سمجھ کر اگر مدد مانگیں تو جائز ہے ۔ (تفسیر عثمانی پہلا ایڈیشن صفحہ نمبر 72 دوسرا ایڈیشن صفحہ نمبر 49 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی،چشتی)

یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت کا ہے کہ حقیقی مستعان اللہ رب العزت کی ذات ھے اللہ کے مقبول بندے واسطہ و وسیلہ ھیں ان سے مدد مانگنا در حقیقت اللہ سے مدد مانگنا ہے جیسا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے لکھا آپ احباب خود پڑھیے اور فیصلہ کیجیے ۔

مکتبہ فکر دیوبند کے لوگوں سے سوال یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت رکھیں تو مشرک و گمراہ کے فتوے لگاتے ہیں آپ لوگوں سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام دیوبند علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب یہی عقیدہ لکھ کر مشرک و گمراہ ہوئے کہ نہیں ؟

اگر مشرک و گمراہ ہوئے تو کس کس دیوبندی عالم نے ان پر فتویٰ لگایا ہے ؟

اگر فتویٰ نہیں لگایا تو خدا را امت مسلمہ پر رحم کیجیے اور شرک شرک کے فتوے کے کھیل کھیل کر امت میں انتشار و فساد مت پھیلایے ۔

مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہے اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتا ہے : حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے ۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 98)

یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتا ہے : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپ کے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔ (صراط مستقیم صفحہ 242،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے ۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے ۔ (حیات الموات صفحہ نمبر 55)

یہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم ، یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے ۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا صفحہ 157)

کیوں جی منکر نجدیو ابن وھاب نجدی گمراہ کے پیروکارو مسلمانوں کو مشرک کہنے والو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مشرک ہوئے کہ نہیں ؟ کیا شاہ ولی توحید کو نہیں جانتے تھے اور شرک کی تعلیم دیتے تھے ؟

بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ ابو العباس احمد زردنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں :

انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ
میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں
جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں
اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو
تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا

نوٹ : اوپر جو آیت کریمہ کی غلط تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ اُس کے غلط ہو نے کی بہت ساری وجہیں ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ اس آیت کی ایسی تفسیر ،نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ،نہ صحابہ نے اور نہ کسی بھی مفسر نے۔یعنی کہ یہ تفسیر صرف اپنی خاص سمجھ اور عقل کی روشنی میں کی گئی،نہ کہ احادیث یا اقوال صحابہ کی روشنی میں۔اور حضور نے فر مایا کہ:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔اور بالفرض اگر اس نے صحیح بھی کہا تب بھی غلط ہے ۔ (جامع ترمذی تفسیر القرآن)

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر میں جو یہ کہا گیا کہ ” غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک ہے ایسے جیسے غیر اللہ کی عبادت کر نا شرک ہے ” بالکل ہی درست نہیں کیو نکہ یہ قرآن اور احادیث رسول کے خلاف ہے۔قرآن شر یف میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ۔ اے ایمان والو !صبر اور نماز سے مدد چاہو ، بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔ (سورہ بقرہ،آیت:۱۵۳) ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں ہمارے رب نے جس “صبر اور نماز” سے مدد چاہنے کا حکم دیا وہ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ۔ جس میں اللہ نے بندوں کی مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلٰىہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ۔بے شک اللہ اُن کا مدد گار ہے اور جبرئیل اور نیک مومن اور اس کے بعد فر شتے مدد پر ہیں ۔ (سورہ تحریم آیت ۴)

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : اللہ مدد کر نے والا ہے اور جبر ئیل اور نیک مومن یعنی اللہ کے اولیا اور فر شتے ۔ یہ سب مدد کر نے والے ہیں ۔جبکہ جبر ئیل اور اللہ کے نیک بندے اور فر شتے ۔ یہ سب غیر اللہ ہیں ، اور اللہ ہی نے ان سب حضرات کو مدد کر نے کی طاقت عطا فر مائی ہے ۔ اب سوال ہوتا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے جیسا کہ غلط تفسیر بیان کر نے والے کہتے ہیں ۔ تو پھر خود اللہ تعالیٰ ہی نے ایمان والوں کو کیوں اپنے علاوہ ”صبر اور نماز” سے مدد مانگنے کا حکم دیا ؟ اور یہ کیوں بیان فر مایا کہ ” جبرئیل اور نیک مومن اور فر شتے بھی مدد کر نے والے ہیں ” تو کیا اب غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ اِن آیتوں کا انکار کر یں گے یا پھر یہ کہہ کر اللہ کے نازل کیے ہوئے اسلام کو چھوڑ دیں گے کہ اِس میں شر ک کی تعلیم ہے ۔ اور ہمیں شرک بالکل پسند نہیں اس لیے ہم اپنے بنائے ہوئے اسلام کو مانیں گے ، اللہ کے اُتارے ہوئے اسلام کو نہیں ۔ نعوذ باللہ من ذالک ۔

حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رات گزاراتو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا : مانگ ۔ تو میں نے عرض کی کہ : میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ مانگتا ہوں کہ میں جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا کہ : اور کچھ ؟ میں نے عرض کی : میری مراد توبس یہی ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا کہ : تب تو کثرت سجود سے میری اعانت یعنی مدد کر ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ۴۸۹،چشتی)(سنن ابی داود رقم الحدیث : ۱۳۲۰)

اِس حدیث میں آیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سے مانگنے کےلیے کہا اور جب مانگنے والے نے ایک بہت ہی پیاری چیز مانگی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکار نہیں فر مایا بلکہ فر مایا کہ اِس کے علاوہ اور بھی کچھ چاہیے ؟ جب انہوں نے کہا کہ نہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے فر مایا کہ تب تم زیادہ سے زیادہ سجدہ کر کے میری مدد کرو ۔ اگر اللہ کے علاوہ سے مانگنا شر ک ہوتا تو ۔ پہلی بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دنیا سے شرک مٹانے کےلیے تشریف لائے کبھی اپنے سے مانگنے کےلیے نہیں کہتے ۔ دوسری بات خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے اپنی مدد کےلیے نہیں کہتے ۔ مگر جو ہوا وہ حدیث میں پوری امانت داری کے ساتھ محدثین نے بیان کر دیا ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ “ غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے ” اور جو لوگ اِسے شر ک قرار دیتے ہیں وہ بالکل غلط نظر یہ ہے کیو نکہ اُس کو صحیح ماننے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ نعوذ باللہ خود ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک کیا جبکہ اِسے کوئی بھی مسلمان مان ہی نہیں سکتا ہے ، بلکہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔

ایک غلط فہمی کا اِزالہ : 

غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ کہتے ہیں کہ : اس حدیث میں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سے مانگنے کےلیے کہا یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خود اپنی مدد کےلیے کہا یہ سب زندوں سے مدد مانگنے کا واقعہ تھا ۔ اور ہم لوگ بھی زندوں سے مدد مانگنے کو شرک نہیں کہتے بلکہ مُردوں سے مدد مانگنے کو شر ک کہتے ہیں ۔
یاد رکھیں شر یعت بنانے کا حق اللہ عزوجل اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے ۔ اِن غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگوں کو نہیں کہ یہ جس کو شرک کہہ دے وہ شرک اور یہ جس کو ایمان کہہ دے وہ ایمان ہو جائے گا ۔ اور اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شر یعت میں جو چیز شرک ہوتی ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت شر ک ہوتی ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی چیز دن میں شرک ہو اور رات میں ایمان بن جائے ۔ جیسے اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ تو اب اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی زندہ شخص کی عبادت کرے تو بھی شرک ہوگا اور اُس کے مر نے کے بعد اُس کی عبادت کرے تب بھی شرک ہوگا ، رات میں کرے گا تب بھی شرک ہوگا اور دن میں کرے تب بھی شرک ہوگا ۔ یہ قاعدہ کہ زندوں سے مدد مانگنا شرک نہیں اور وفات کے بعد مانگنا شرک ہے ۔ ایسا کس آیت یا کس حدیث میں ہے ؟ لوگوں کو اُن سے پو چھنا چاہیے ۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ “غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے بلکہ جائز ہے” جیسا کہ اوپر کےبیان سے ظاہر ہے ۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر صرف “غیر اللہ” سے مدد مانگتے رہیں۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں اپنے رب سے مدد مانگیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اُس کا بندہ اُس سے مانگے ۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ “دعا” صرف اللہ سے ہوتی ہے ۔ جبکہ مدد کی فر یاد اللہ کے علاوہ سے بھی ہوتی ہے ۔ تو ایسا نہیں کہ ہم صرف غیر اللہ کے سامنے فر یاد کرتے رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں فر یاد کر نا چھوڑ دیں ۔ اور ہاں کسی بھی غیر اللہ سے مدد مانگنے کے وقت یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں ہونی چاہئے کہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مدد کی طاقت رکھی ہے اور حقیقت میں ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر غیر اللہ سے ہم مدد نہیں مانگ سکتے بلکہ صرف انہیں سے مدد مانگ سکتے ہیں جن کے بارے میں قرآن واحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کے اندر مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔ جیسے انبیاعلیہم السّلام ، اولیاء اللہ ، شہدا علیہم الرّحمہ اور فر شتے علیہم السّلام وغیرہ ۔

اِس آیتِ مبارکہ میں تقدیم مفعول مفید حصر ہے ۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ تیرے غیر کی نہ عبادت کرتے ہیں اور نہ تیرے غیر سے مدد چاہتے ہیں ۔ عبادت کے معنی ہیں بندگی ۔ بندگی کا مفہوم ہے ، غایت تذلل اور خشوع و خضوع ، دوسرے لفظوں میں غایت تعظیم سے بھی اسے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا تعلق محض اعتقاد سے ہے ۔ بعض لوگ عبادت کے معنی میں اعتقاد کو شامل نہیں کرتے ، بلکہ محض اعمال کو عبادت قرار دیتے ہیں ۔ وہ سخت غلطی پر ہیں ۔ اگر عبادت کے معنی میں اعتقاد کا اعتبار نہ کیا جائے اور محض عمل کو عبادت قرار دے دیا جائے تو سجدہ تحیت و تعظیم اور سجدہ عبادت سب کا ایک ہی حکم ہو ، کیونکہ ہر صورت میں عمل صرف سجدہ ہے ۔ لیکن بالاجماع غیر اللہ کےلیے سجدہ تحیت و تعظیم محض نا جائز و حرام ہیں اور سجدہ عبادت شرک خالص ہے ۔ یہ فرق نیت اور اعتقاد کے بغیر نہیں نکل سکتا ۔ ثابت ہوا کہ عبادت اعتقاد قلبی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ رہا فقہاء کرام کا بعض اعمال کو غیر اللہ کی عبادت قرار دے کر حکمِ تکفیر جاری کرنا ، تو یاد رہے کہ وہ تکفیر فقہی ہے ، کلامی نہیں ، فقہاء کی بحث عمل سے ہوتی ہے ۔ اعتقاد ان کا مبحث نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی تعظیم اس کی عبادت نہیں ، بلکہ غایت تعظیم عبادت ہے ۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۔ جب شعائر اللہ کی تعظیم ان کی عبادت کے بجائے قلوب کا تقویٰ ٹھہری تو اللہ کے وہ مقرب اور محبوب بندے ، جن کے ساتھ شعائر دین وابستہ ہیں ، کی تعظیم ان کی عبادت کیونکر قرار پا سکتی ہے ؟ بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ محبوبانِ خدا تعالیٰ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو یقینا صحیح اور درست ہو گا ۔

استحقاقِ عبادت

پوجا ، بندگی ، غایتِ تعظیم انتہائے تذلل و خشوع و خضوع اور عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں مستقل بالذات ہو ، کسی کا محتاج نہ ہو ۔ جس کا وجود واجب بالذات ہو گا ، وہ اپنے ہر کمال اور اپنی ہر صفت میں بھی استقلالِ ذاتی سے متصف ہو گا ۔ یعنی اس کا کوئی کمال اور کوئی صفت کسی کی دی ہوئی نہ ہو گی بلکہ اس کے تمام کمالات و صفات بمقتضائے ذات ہوں گے ۔ جو موجود یہ شان نہیں رکھتا وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی واجب الوجود ہے اور اپنے ہر کمال میں مستقل بالذات ہے ۔ لہٰذا عبادت کے قابل وہی اور صرف وہی ہے ۔ اس کے سوائے کسی کو معبود ٹھہرانا گویا اسے واجب الوجود اور ہر صفت میں مستقل بالذات ماننا ہے ۔ اگرچہ اس ماسویٰ اللہ کو معبود ٹھہرانے والا اس کے حق میں وجوب وجود اور استقلالِ ذاتی کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ، لیکن جب وہ اسے الٰہ اور معبود سمجھتا ہے تو گویا وہ اسے واجب الوجود مستقل بالذات بھی قرار دیتا ہے ۔ کیونکہ معبود برحق کا ان صفات سے متصف نہ ہونا عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا جو اپنے باطل معبودوں یعنی بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے ۔ کہ باوجود انہیں مخلوق تسلیم کرنے کے بھی انہیں معبود مانتے تھے۔ مخلوق کا معبود ہونا عقل و شرع کی رو سے قطعاً محال اور ممتنع ہے اور شرک ہمیشہ امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد ہی ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس محال عقلی کے معتقدین کو مشرک قرار دیا ۔

استعانت کے معنیٰ ہیں طلب عون یعنی مدد مانگنا ، جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی ، اسی طرح استعانت بھی اسی معبودِ حقیقی کے ساتھ خاص ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت میں حقیقی مجازی کی تقسیم محال اور یہاں ممکن بلکہ واقع ہے ۔ یعنی معبود مجازی محال ہے اور مستعان مجازی ممکن ، بلکہ واقع ہے ۔

فقیر ابھی عرض کر چکا ہے کہ استحقاقِ عبادت کےلیے استقلالِ ذاتی شرط ہے ۔ جب استقلالِ ذاتی غیر کے حق میں متصور نہیں تو غیر کی معبودیت کسی اعتبار سے ممکن نہیں ، البتہ استعانت میں دو پہلو نکل سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مستعان مستقل بالذات ہو ، دوسرے یہ کہ اسے کسی کی مدد کرنے کی قدرت غیر مستقلہ خدا کی طرف سے عطا کی جائے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کسی بندے کو غیر مستقل قدرت عطا کر دے اور جو چیز تحتِ قدرت ہو وہ ممکن بالذات ہوتی ہے ۔ اور کسی امر ممکن کا اعتقاد کسی صورت میں شرک نہیں ہو سکتا ۔

بعض لوگ اللہ کے مقبول بندوں کو قضائے حاجات کا وسیلہ بنانا بھی شرک سمجھتے ہیں ، وہ بڑی غلطی میں مبتلا ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں ، جن کے نزدیک خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت غیر مستقلہ کا اعتقاد بھی شرک ہے ۔ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ جب تک کسی امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد نہ ہو شرک نہیں ہو سکتا ۔ اور ظاہر ہے کہ کسی کا وسیلہ ہونا ممکن ہے ۔ اسی طرح قدرتِ غیر مستقلہ کی عطا بھی محال نہیں ، تو ایسی صورت میں یہ دونوں اعتقاد کیسے شرک ہو سکتے ہیں ۔ ہاں ، البتہ عطائے الوہیت اور قدرتِ مستقلہ کا دینا عقلاً محال ہے ۔ اس لیے جو شخص کسی مخلوق کے حق میں یہ اعتقاد رکھے گا کہ معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ نے اس کو الوہیت کا درجہ عطا کر دیا ، مستقل قدرت دے دی ، وہ قطعاً مشرک قرار پائے گا ۔ کیونکہ اس نے ایک ایسے امر کا اعتقاد کیا ، جو عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال اور ممتنع بالذات ہے ۔

ہمارے اس بیان سے وہ تمام شکوک و شبہات رفع ہو گئے ، جنہیں بعض لوگ ناسمجھی کی وجہ سے پیش کر دیا کرتے ہیں ۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ قضائے حاجات میں کسی بزرگ کو اللہ ڈزوجل کے دربار میں وسیلہ بنانا اس لیے شرک ہے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بتوں کو خدا کے دربار میں وسیلہ ہی بناتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مشرک قرار دیا ۔

اس کا ازالہ ہمارے بیان سے ہو گیا ۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو محض اس لیے مشرک قرار نہیں دیا کہ وہ اپنے بتوں کو اللہ کے دربار میں وسیلہ سمجھتے ہیں (اگرچہ پتھر کے بتوں کو وسیلہ سمجھنا عقل سلیم کی روشنی میں قطعاً محال ہے) بلکہ انہیں اس لیے مشرک قرار دیا کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے ۔ کسی چیز کو وسیلہ قرار دے کر اس کی عبادت کرنا یقینا شرک ہے ۔ یعنی وسیلہ بنانا شرک نہیں بلکہ اس کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ مشرکین عرب کا اپنے بتوں کی عبادت کرنا ، اسی آیت میں مذکور ہے جس میں ان کے وسیلہ بنانے کا ذکر ہے ۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے ان کا مقولہ اس طرح بیان فرمایا : وَمَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقِرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ۔
ترجمہ : ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں ۔

بے شک بتوں کا مقرب الی اللہ ہونا قطعاً باطل ہے لیکن مدارِ شرک ان کی عبادت پر ہے ، توسل پر نہیں ۔

نظامِ عالم پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس جہان کا پورا نظم و نسق مخلوق کے باہم امداد و اعانت پر چل رہا ہے ۔ ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچنا اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا گویا قانونِ فطرت ہے ۔ کیونکہ زمین سے لے کر آسمان تک ، موجوداتِ کائنات میں ارتباط پایا جاتا ہے ۔ اس قانون کے بغیر ممکن نہیں ، بالخصوص بنی نوع انسان کا گزارہ تو اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر کسی مخلوق سے مدد لینا ناجائز ہو تو انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے ۔ مثال کے طور پر انسان کے ایک فرد کو لیجیے اور دیکھیے کہ اس کی ضروریاتِ زندگی کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ سب سے پہلے اس کی ولادت پر نظر کیجیے کہ والدین کے بغیر پیدا نہیں ہوا ۔ پیدائش کے بعد اس کی تربیت والدین اور دیگر افراد سے متعلق ہے ۔ وہ اپنی غذا ، لباس ، رہائش و دیگر امور میں بے شمار چیزوں کا محتاج اور لا تعداد افراد کا مرہونِ منت ہے ۔ بچپن سے لے کر جوانی اور بڑھاپے سے تک بلکہ پیدائش سے موت تک اور مہد یعنی گود سے لے کر لحد تک ہر مرحلے پر دوسروں کی امداد و اعانت سے وابستہ ہے ۔ اس کو غذا کےلیے غلہ کی ضرورت ہے ۔ لباس کےلیے کپڑے اور جوتے کی حاجت ہے ۔ بیمار ہو جائے تو علاج کےلیے طبیبوں ، ڈاکٹروں اور دواؤں کا محتاج ہے ۔ رہنے کے لیے مکان اور اس کی تعمیر کےلیے کاریگروں اور مزدوروں کی ضرورت ہے ۔ غلہ کی پیداوار کاشتکاروں کے عمل سے متعلق ہے ، آٹا پیسنے کےلیے چکی اور روٹی پکانے کےلیے باورچی کی ضرورت ہے اور کپڑا سینے کےلیے درزی کی حاجت ہے ۔ جوتے کےلیے چمڑا اور چمڑے سے جوتا بنانے کےلیے کاریگر کا ہونا لازمی ہے ۔ دواؤں کے حصول کےلیے ہر مرحلہ پر سینکڑوں قسم کے کارکنوں کی ضرورت درپیش ہے۔ چلنے کےلیے زمین ، سانس لینے کےلیے ہوا ، پیاس بجھانے کےلیے پانی ، گرمی حاصل کرنے کےلیے آگ اور اسی طرح بقیہ ضروریات اجتماعی نظام کے ماتحت بے شمار افراد کی امداد و اعانت پر موقوف ہیں ۔ کوئی شخص کسی کو ایک خط لکھنا چاہے تو ہزاروں افراد کی مدد اور اعانت کو حاصل کیے بغیر وہ خط نہیں لکھ سکتا ۔ قلم کی تیاری ، روشنائی اور کاغذ کا وجود کتنے مراحل سے گذر کر ہم تک پہنچتا ہے ۔ چاند سورج کی شعاعیں ، شب و روز کا اختلاف ، ستاروں کی گردشیں ، نظام کائنات اور انسانی زندگی پر اس قدر اثر انداز ہیں کہ محتاج بیان نہیں ۔ صرف زندگی نہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کو قبر کی منزل تک انسانوں کی مدد درکار ہے ۔ یہ تو ظاہری اعتبار سے کہا گیا ، اس سے آگے بڑھ کر باطنی اور معنوی حیثیت سے نظر کی جائے تو مخلوقات کی اس مدد و اعانت کا سلسلہ اس سے بھی آگے پہنچتا ہے ۔ مثلاً غذائے روح کےلیے ایک علیحدہ روحانی نظام ہے ، جس کی احتیاج سے کوئی فرد خالی نہیں ہو سکتا ۔ قربِ خداوندی اور معرفتِ الٰہی کا حصول جو عین مقصدِ تخلیق انسانی ہے ۔ انبیاء و رسل علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ سے وابستہ ہے ۔

عبادات و معاملات و دیگر احکامِ شرعیہ و مسائل دینیہ وحیٔ ربانی و تعلیماتِ نبوی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے ۔ اگر اس اجمال کی تفصیل کی جائے تو احتیاج کے دامن کی وسعت اور اس کے پورا ہونے میں افرادِ کائنات سے حصول نفع اور باہم امداد و اعانت کا اتنا طویل اور وسیع سلسلہ سامنے آجاتا ہے ، جس کا احصار ممکن نہیں ۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ کسی مخلوق سے نفع و ضرر کا عقیدہ رکھنا یا غیر اللہ سے امداد و اعانت طلب کرنا شرک و کفر ہے ، انتہائی مضحکہ خیز اور لا یعنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہاں ، اس میں شک نہیں کہ جس چیز میں جس نفع کی صلاحیت نہ ہو ، اس سے اس نفع کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا لغو اور بے ہودگی ہے ۔ مثلاً زہر سے تریاق کے نفع کی امید رکھنا ، آگ سے پانی کا کام لینا ، جہل سے حصولِ علم کی توقع قائم کرنا ، قطعاًخلافِ عقل و دانش ہے ۔ اسی طرح جس شخص کو جس کام کی قدرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں ہوئی ، اس سے وہ کام لینا یقینا حماقت ہے ۔ لیکن ایسے شخص کو بلا دلیل شرعی مطلقاً کافر و مشرک کہہ دینا بھی سراسر حماقت و جہالت ہے ۔ خلاصہ یہ کہ غیر اللہ سے مدد لینا ، اس مدد کے جواز کا عقیدہ رکھنا ، اسی وقت کفر و شرک قرار پا سکتا ہے ، جب کہ اس غیر اللہ کو مستقل بالذات مانے اور اقصیٰ غایت تعظیم کا عقیدہ اس کے حق میں رکھے اور جب کس کو مظہرِ عونِ الٰہی تسلیم کرے اور استقلالِ ذاتی کی اس سے نفی کرتے ہوئے اس کی امداد و اعانت کا عقیدہ رکھا جائے اور اسی اعتقاد کیساتھ اس سے مدد طلب کی جائے تو ہرگز کفر و شرک نہیں ہو سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کام کا اہل نہ ہو اور اس وجہ سے یہ مدد مانگنا لغو اور بے ہودہ قرار پائے ۔ مگر اس کو کفر و شرک کہنا یقینا باطل ہو گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو مظہر عون الٰہی تسلیم کر لیا جائے اور اس کے حق میں الوہیت یا لوازم الوہیت کا کوئی عقیدہ نہ ہو تو اس کی مدد اور اعانت در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی امداد و اعانت ہو گی ، جو کہ ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کی مدلول ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں کفار بتوں کو مستحق عبادت قرار دیتے تھے اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرتے تھے ‘ لیکن جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو ، اور نہ اولیا اللہ کو متصرف بالذات سمجھتا ہو ‘ نہ ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو ، بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء اللہ ‘ اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے ۔

اولیاء اللہ سے استعانت کا صحیح طریقہ

ہونا یہ چاہیے کہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کی جائے کیونکہ زیارت قبور سنت ہے ‘ ان کے مزارات پر ایصال ثواب کیا جائے ‘ یہ بھی احادیث سے ثابت ہے ‘ ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کےلیے دعا کی جائے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں وفات یافتہ مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی تعلیم ہے ‘ اور ان کے وسیلہ سے اپنی حاجات کی قبولیت کی دعا کی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی مغفرت کےلیے اپنے اور انبیاء سابقین علیہم السّلام کے وسیلہ سے دعا فرمائی ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہماری حاجت روائی کےلیے اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں اور اس کی اصل نابینا کی حدیث ہے ۔

وسیلہ اور غیر اللہ سے استمداد

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیء ویتقرب بہ : جس چیز سے کسی شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (علامہ محمد بن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ نہایہ ج ٥ ص ١٨٥‘ مطبوعہ مؤسسۃ مطبوعاتی ‘ ایران ‘ ١٣٦٤ ھ۔چشتی) 

علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الجوھری : الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر ‘ امام لغت علامہ جوہری (رح) نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧١١ ھ ‘ لسان العرب ج ١١ ص ٧٢٥۔ ٧٢٤ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران ١٤٠٥ ھ) 

علامہ زبیدی نے ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے وسیلہ کی تعریف میں مذکور الصدر عبارات نقل کی ہیں ۔ (تاج العروس ج ٨ ص ١٥٤‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ) 

علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : جس چیز سے غیرکا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (الصحاح ج ٥ ص ١٨٤١‘ مطبوعہ دارالعلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ،چشتی)

ائمہ لغت کی ان تصریحات سے واضح ہو گیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمال صالحہ اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے ‘ تاہم انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہت حاصل ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کےلیے اس عزت اور وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ۔

انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی ذوات سے توسل کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات :

امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ آداب دعا میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے ۔ (حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٣٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البانی ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : مصنف نے کہا : دعا میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا امور مستحبہ میں سے ہے کیونکہ ” صحیح بخاری “ کی کتاب الاستقاء میں ہے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اللہ ! ) تو بارش نازل فرماتا تھا ‘ اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں تو ہم پر بارش نازل فرما ‘ پھر ان پر بارش ہوجاتی ‘ اور جیسا کہ نابینا کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کا ذکر ہے جس کا کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ” مستدرک “ میں روایت کیا اور کیا یہ کہا کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق صحیح ہے ‘ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : یہ حدیث صحیح ‘ غریب ہے اور ہم نے اس کو ” حصن “ میں ذکر کیا ہے اور حدیث ابوامامہ کی بناء پر جس کو ہم نے صبح کی دعاؤں میں ذکر کیا ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” معجم کبیر “ اور ” کتاب الدعاء “ میں ذکر کیا ہے ۔ (الحرز الثمین ص ١٧٦‘ مطبوعہ مطبعہ امیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ،چشتی)

امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوامامہ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : اسئلک بنور وجھک الذی اشرقت لہ السموات والارض وبکل حق ھو لک وبحق السائلین علیک : (امام محمد بن جزری متوفی ٨٣٣ ھ ‘ حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٦٨‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : سوال کرنے والوں کا اللہ پر اس لیے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے کرم سے) ان کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے : گویا کہ بندے نے اللہ تعالیٰ سے بندوں پر اس کے حق کے وسیلہ سے ‘ اور سائلین کا اللہ پر جو حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کیا ‘ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں ‘ اس کی حمد وثناء کریں ‘ اس کے احکام پر عمل کریں ‘ اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے رکیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدہ کے مطابق ان کو ثواب عطا کرے ‘ کیونکہ اس کے وعدہ کا پورا ہونا واجب ہے ‘ کہ اس کا وعدہ حق ہے اور اس کی خبر صادق ہے ۔ (الحزر الثمین صفحہ ١٧٦ مطبوعہ امیریہ مکہ مکرمہ ١٣٠٤ ھ,چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق سے سوال کرتا ہوں یافلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو ، اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے ‘ جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کر سکتا ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد ١ صفحہ ٢١١ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز)

غیرمقلدین کے امام قاضی شوکانی لکھتے ہیں : یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق میں مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو مسترد نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے : مجھ سے دعا کرو ‘ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ (تحفۃ الذاکرین صفحہ ٦٩ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ مصر ١٣٥٠ ھ)
قاضی شوکانی مزید لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کر کے کہا : یہ حدیث حسن ‘ صحیح اور غریب ہے ‘ امام نسائی ‘ امام ابن ماجہ ‘ اور امام ابن خزیمہ علیہم الرّحمہ نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم نے اس کو روایت کرکے کہا یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت بحال کر دے ‘ آپ نے فرمایا : یا میں رہنے دوں ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر نابینائی بہت دشوار ہے ‘ آپ نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور محمد نبی رحمت کے وسیلہ سے میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ الحدیث ۔ ” حصن حصین “ کے باب صلوۃ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا ‘ اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ۔ (تحفہ الذاکرین صفحہ ٣٧ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ مصر ١٣٥٠ ھ،چشتی)

حضرت آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا

محترم قارئینِ کرام : ہمارے جدِّ اَمجد حضرت سیدنا آدم علیہ الس:لام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے :

برِّ صغیر کے نامور محقق و محدث حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت آدم علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی فتلقیٰ آدمُ وہ کلمات یہ تھے اسئلک بحق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر انہیں پیدا نہ کرتا تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (تفسیر عزیزی صفحہ نمبر 339 مترجم اردو) ۔ یہی عقیدہ اہلسنت ہے معتزلہ منکر ہیں اس کے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا : امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (اجتہادی) خطاء ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے رب ! میں تجھ سے بہ حق (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے جانا حالانکہ میں نے ابھی ان کو پیدا نہیں کیا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور تو نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں سراٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ‘ سو میں نے جان لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے وہ تجھ کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم تم نے سچ کہا وہ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور کیونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے سوال کیا ہے اس لیے میں نے تم کو بخش دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں تم کو پیدا نہ کرتا ۔ (دلائل النبوۃ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)

اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ایک ضعیف راوی ہے لیکن فضائل میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے ۔ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ (معجم صغیر ج ٢ ص ٨٣۔ ٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ‘ ١٣٨٨ ھ)

امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ‘ اور حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس مضمون کی حدیث کو روایت کیا ہے ۔ (الوفاء ص ٣٣‘ مطبویہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
علامہ ابن تیمیہ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو روایت کیا ہے ‘ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ ابونعیم حافظ نے اس حدیث کو ” دلائل النبوۃ “ میں روایت کیا ہے ‘ اس نسبت میں ابن تیمیہ کو خطا لاحق ہوئی ‘ یہ حدیث حافظ ابونعیم کی ” دلائل النبوۃ “ میں نہیں ہے بلکہ حافظ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی ” دلائل النبوۃ “ میں ہے ‘ ان دونوں حدیثوں کے متعلق ابن تیمیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثیں احادیث صحیحہ کی تفسیر کے درجہ میں ہیں ۔ (مجموع الفتاوی ج ٢ س ٩٦‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو حافظ الہیثمی نے بھی ذکر کیا ہے ‘ وہ اس روایت کو درج کرنیکے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم صغیر “ اور ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کے ایک راوی کو میں نہیں پہچانتا ۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)

شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)

امام حاکم نیشا پوری نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح الاسناد لکھا ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥ دار الباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ) ۔ امام حاکم نیشا پوری نے ایک اور حدیث اس کے مقارب روایت کی ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : یہ حدیث مبارکہ مکمل حوالہ جات اور صحیح اسناد کے ساتھ یہ حدیث پاک پیش خدمت ہے پڑھیئے اور پہچانیئے محمد ابن عبدالوھاب نجدی کے پیروکاروں کو جو بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اتنا اندھے ہوچکے ہیں کہ صحیح احادیث کو ضعیف کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے اتنا متعصب و اندھے ہوچکے ہیں کہ احادیث کے بھی منکر ہو گئے اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا : اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین)(كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر : 6690،چشتی)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة : 37 مکتبۃ الرشد)

مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه، كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690) (معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243) (مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ، حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457) (كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 ) (تفسير در منثور, سورة البقرة:37،چشتی)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37) (تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج ,1,ص ,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320،چشتی)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل") (الحج النقلیہ صفحہ 84 ، 85 علامہ ابن تیمیہ ممدوح وہابیہ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ وحی کی : اے عیسیٰ علیہ السلام ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاؤ ‘ اور جو تمہاری امت میں سے ان کا زمانہ پائے اس کو بھی ان پر ‘ ایمان لانے کا حکم دو ‘ کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا اور میں نے عرش کو پانی پر پیدا کا تو وہ ہلنے لگا ‘ پھر میں نے اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ساکن ہوگیا ۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ،چشتی)

علامہ سیوطی نے امام حاکم ‘ امام بیہقی ‘ امام طبرانی ، امام ابونعیم اور امام ابن عساکر علیہم الرّحمہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان کیا ہے ۔ (خصائص کبری ج ١ ص ٦‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
علامہ قسطلانی نے بھی حضرت عمر کی روایت کو امام حاکم کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ (المواہب اللدنیہ مع الزرقانی ج ١ ص ٤٤ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

علامہ زرقانی نے اس کی شرح میں امام حاکم اور ابو الشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم اور ابوالشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ سبکی نے ” شفاء القام “ میں اور علامہ بلقینی نے اپنے فتاوی میں اس تصحیح کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی ‘ اس لیے یہ حدیث حکما مرفوع ہے ‘ علامہ ذہبی نے کہا : اس کی سند میں عمرو بن اوس ہے ‘ پتا نہیں وہ کون ہے ؟ اور امام دیلمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت کو پیدا کرتا نہ نار کو پیدا کرتا ۔ (شرح المواہب اللدنیہ ج ١ ص ٤٤‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

ملاعلی قاری نے بھی امام دیلمی کی اس روایت کو استشہاد کے طور پر پیش کیا ہے ۔ (موضوعات کبیر ص ٥٩ مطبوعہ مطبع مجتبائی ‘ دہلی ‘ ١٣١٥ ھ)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقت محمدی پر بحث کرتے ہوئے یہ دو حدیثیں لکھی ہیں : اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا ‘ اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا ۔ (مکتوبات دفتر سوم ‘ حصہ دوم ‘ مکتوب نمبر ١٢٢) ۔ یہ حدیثیں ہرچند کہ ان الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں مذکور نہیں ہیں لیکن یہ معنی ثابت ہیں ۔ ان حادیث سے یہ واضح ہو گیا کہ مقربین بارگاہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ابتداء آفرینش سے مشروع اور معمول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام مدح میں اس دعا کا ذکر فرما کر اس کے جواز اور استحسان کو بیان فرما دیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا فرمانا

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی لحد کھودنے سے فارغ ہوگئے تو آپ ان کی لحد میں لیٹ گئے اور یہ دعا کی : اللہ ہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ اور وہی زندہ ہے جسے موت نہیں آئے گی ‘ اے اللہ ! اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ سے میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما ‘ ان کو حجت القا فرما ‘ اس کی قبر کو وسیع کر ‘ بلاشبہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ‘ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ نے ‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو قبر میں اتارا ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے ‘ اس میں روح بن صلاح نام کا ایک روای ہے ‘ امام حبان اور امام حاکم نے اس کی توثیق کی ہے اور اس میں ضعف ہے ‘ اور اس کے باقی روای حدیث صحیح کے روای ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
اس حدیث کو علامہ نورالدین سمہودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے ۔ (وفاء الوفاء ج ٣ ص ٨٩٩۔ ٨٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٢‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام کی بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی سنت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے کی ہدایت دینا

انبیاء کرام علیہم السلام اور بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اس نے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھیں ٹھیک کردے آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ‘ اس نے کہا : آپ دعا کردیجیے آپ نے فرمایا : تم اچھی طرح وضو کرو دو رکعت نماز پڑھو ‘ اس کے بعد یہ دعا کرو :” اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٩٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی،چشتی)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (جامع ترمذی ص ٥١٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٣٨‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مستدرک ج ١ ص ٥١٩‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
اس حدیث کو امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ٣٠٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو عمارہ بن خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس سند کے علاوہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے اس روایت میں یہ اضافہ ہے : قال عثمان : فو اللہ ماتفرقنا ولا طال الحدیث حتی دخل الرجال وکانہ لم یکن بہ ضرقط۔ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٧‘ مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بہ خدا ! ابھی ہم اس مجلس سے اٹھے نہیں تھے اور نہ ابھی سلسلہ گفتگو دراز ہوا تھا کہ وہ (نابینا) شخص اس حال میں داخل ہوا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف نہیں تھی ۔
امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے ‘ جس میں مذکورہ الصدر اضافہ ہے ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ مجلس الدائرۃ المعارف ‘ دکن ‘ ١٣١٥ ھ)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے بیان کیا اور اس میں یا محمد کے الفاظ ہیں ‘ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح لکھا ہے ۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سنن کبری (ج ٦ ص ١٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١١ ھ) میں روایت کیا ہے ۔
امام محمد جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے ذکر کیا اور اس میں بھی یا محمد کے الفاظ ہیں ۔ (الاذکار ص ١٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٧٥ ھ،چشتی)
قاضی شوکانی ” حصن حصین “ کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ” مستدرک “ میں اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے جیسا کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تمام اسانید بیان کرنے کے بعد کہا : یہ حدیث صحیح ہے ‘ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ‘ سو ان ائمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے البتہ نسائی کی روایت میں یہ تفرد ہے کہ اس میں یہ ذکر بھی ہے : اس نے دو رکعت نماز پڑھی ‘ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنے کے جواز کی دلیل ہے ‘ اس لیے ساتھ یہ اعتقاد لازم ہے کہ حقیقۃ دینے والا اور منع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ‘ جو وہ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٣٨۔ ١٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث جس کی بکثرت محدثین نے اپنی اپنی تصانیف میں صحت سند کی صراحت کے ساتھ روایت کیا ہے اس مطلوب پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز اور مستحسن ہے اور چونکہ آپ کی ہدایات قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حجت ہیں ‘ اس لیے آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے اور بالخصوص آپ کے وصال کے بعد آپ کے توسل سے دعا کے جواز پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص کو اس کی قضاء حاجت کے لیے یہ دعا تعلیم کی ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی تصانیف میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ جیسا کہ عنقریب ہم بیان کریں گے۔ یہاں تک جو ہم نے احادیث بیان کی ہیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہرہ میں آپ کے توسل پر دلیل ہے ‘ اب ہم ایسی احادیث پیش کررہے ہیں جن میں آپ کی وفات کے بعد آپ کے توسل پر دلیل ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے ۔
حافظ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مالک الدار ‘ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا ‘ ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا : اے اللہ ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ (المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ،چشتی)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) ، حافظ ابوعمرو بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ (حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)
علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خازن مالک الدار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہورہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ ،چشتی) ۔ اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا :
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے ‘ اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ‘ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے اس بات کی شکایت کی ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جا کر وضو کرو ‘ پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر یہ کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا ‘ پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں ‘ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ‘ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ‘ دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس لے گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا ‘ تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا کام کردیا : تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا : جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم میرے پاس آجانا ‘ پھر وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر دے ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی بات نہیں کی ، لیکن ایک مرتبہ میں رسول کی خدمت میں موجود تھا ‘ آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو ‘ پھر دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر ان کلمات سے دعا کرو ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا درآں حالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی، یہ حدیث صحیح ہے ۔ (حافظ زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری متوفی ٦٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ نے ” الترغیب والترہیب “ ج ١ ص ٤٧٦۔ ٤٧٤‘ مطبوعہ دار الحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤٠٧ ھ) میں اور حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٧٩‘ مطبوعہ بیروت) میں اس حدیث کو بیان کرکے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید ‘ توثیق اور تصیح : امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور شعبہ سے اس حدیث کو صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور وہ اس روایت کرنے میں متفرد ہے (یعنی اس کا کوئی متابع نہیں ہے اور یہ حدیث غریب ہے) اور حدیث صحیح ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ نے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا کہ اس حدیث کو شعبہ سے روایت کرنے میں صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ متفرد نہیں ہے بلکہ روح بن عبادہ نے بھی اس حدیث کو شعبہ سے روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس کا خلاصہ یہ ہے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت دو صحیح سندوں سے مروی ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ کی اصل عبارت یہ ہے :
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور اس کا نام عمر بن ابی یزید ہے اور وہ ثقہ ہے ‘ عثمان بن ابی عمر ‘ شعبہ سے اس روایت میں متفرد ہے ۔ ابوعبد اللہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اور حدیث صحیح ہے ۔

علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مبلغ علم کے اعتبار سے عثمان بن ابی عمر کو متفرد کہا ہے ‘ ان کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ روح بن عبادہ نے بھی شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ عثمان بن ابی عمر رضی اللہ عنہ اس روایت میں متفرد نہیں ہے ۔ (مجموع الفتاوی جلد ١ صفحہ ١٩٥ ۔ ١٩٤ مطبوعہ دارالجیل ریاض ١٤١٨ ھ)

ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو امام ترمذی ‘ امام ابن ماجہ ‘ امام احمد اور امام ابن سنی علیہم الرّحمہ نے روایت کیا اور اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وسیلہ کے ساتھ دعا کا ذکر نہیں ہے ‘ اس کے برخلاف امام طبرانی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی حضور سے توسل کرنے کا ذکر کیا ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے ؟ 

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک حدیث کو بعض ائمہ اختصار کے ساتھ روایت کرتے ہیں اور بعض ائمہ تفصیل کے ساتھ روایت کرتے ہیں ‘ اعتراض کا محل یہ تھا کہ اس روایت کی سند صحیح نہ ہوتی یا ضعیف ہوتی اور جب علامہ ابن تیمیہ نے خود بیان کیا کہ طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی مفصل حدیث دو صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہے تو پھر اعتراض کی کب گنجائش ہے ؟

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دوسندوں کے ساتھ اس حدیث کو اختصارا روایت کیا ۔ (دلائل النبوۃ جلد ٢ صفحہ ١٦٧ ۔ ١٦٦)

پھر اس حدیث کو روح بن قاسم عن ابی جعفر مدینی عن ابی امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا جیسا کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس کے بعد مزید یہ کہا : اس حدیث کو ہشام دستوائی نے از ابو جعفر از ابوامامہ بن سہل از عم خود روایت کیا ہے ‘ ابوامامہ کے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (لائل النبوۃ جلد ٦ صفحہ ١٦٨ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) 

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس مفصل روایت کا اور اس دوسری سند کا شیخ ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے ‘ لکھتے ہیں : امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سند کے ساتھ قصہ کو روایت کیا ہے اور اس سے آپ کے وصال کے بعد آپ سے توسل پر استدلال کیا جاتا ہے ‘ بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد ١ صفحہ ٢٦٨ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)

توسل بعد از وصال پر علامہ ابن تیمیہ کے اعتراضات کے جوابات

علامہ ابن تیمیہ نے یہ تو کہا ہے کہ اگر اس حدیث کی سند صحیح ہو تو اس حدیث سے وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہے ‘ لیکن انہوں نے اس حدیث کی سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس میں کوئی ضعف نہیں نکال سکے ‘ علاوہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہکی روایت بیان کرنے کے بعد انہوں نے اسی روایت کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ بیان کرچکے ہیں ‘ لہذا جب امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت صحیح ہے اور اس روایت کی دوسری سند بھی صحیح ہے تو ابن تیمیہ کے اپنے اقرار کے مطابق وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہوگیا اور یہ واضح ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ سے دعا کی درخواست کرنا اور آپ کو یا محمد کے صیغہ سے ندا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک جائز تھا، جبھی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ دعا تلقین کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری حاجت پوری کر دے ۔

ابن تیمیہ نے اس بحث میں جو آخری اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے : حافظ ابوبکر بن خیثمہ نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :  حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : میری بینای چلی گئی ہے ‘ آپ اللہ تعالیٰ سے میری لیے دعا کیجئے ‘ آپ نے فرمایا : جا کر وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنے رب کے حضور اپنی بصارت لوٹانے کے لیے آپ کی شفاعت طلب کرتا ہوں ‘ اے الہ ! میرے حق میں میری شفاعت کو قبول کر اور میری بصارت لوٹانے میں میری نبی کی شفاعت قبول فرما ‘ اور اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو پھر اسی طرح کرنا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت لوٹا دی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد ١ صفحہ ٢٧٥ مطبویہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود،چشتی)

اس روایت پر ابن تیمیہ نے حسبِ ذیل اعتراضات کیے ہیں

(1) اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو اسی طرح کرو “ یہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں ۔

 

(2) دوسرے راویوں کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں (جیسا کہ گزر چکا ہے) اور اگر بالفرض یہ الفاظ ثابت ہوں تب بھی یہ دلیل نہیں ہے ‘ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا کے بعض الفاظ کافی ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے مشروع دعا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ دعا کے بعض الفاظ کہنے کا حکم دیا ہے ۔

(3) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی اس طرح (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ‘ حالانکہ حدیث کے الفاظ اس کے خلاف ہیں ‘ کیونکہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں اور اس کو یہ یقین تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں گے اور آپ نے اس کو حکم دیا تھا کہ وہ دعا میں یہ کہے کہ اے اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ! اور اس طریقہ سے یہ دعا اس وقت صحیح ہوگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کی دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے، اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے ‘ اس طریقہ سے دعا کرنا اور شفاعت طلب کرنا آپ کی حیات دنیاوی میں ہی درست تھا اور یا قیامت کے دن درست ہوگا جب آپ شفاعت فرمائیں گے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد ١ صفحہ ٢٧٦ ۔ ٢٧٤ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز،چشتی)

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ : اگر یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہ ہوں بلکہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہی کے ہوں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کے جائز ناجائز ہونے میں ابن تیمیہ کی بہ نسبت صحابی رسول کی فہم اور ان کے اجتہاد پر اعتماد کرنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : حافظ ابن ابی خیثمہ کی اس روایت سے ہمارا استدلال نہیں ہے ‘ اگر اس پر ابن تیمہ کو اعتراض ہے تو اس روایت کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ ہمارا استدلال تو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے جس کے متعلق خود ابن تیمیہ نے تصریح کی ہے کہ یہ دو صحیح سندوں سے مروی ہے ۔

تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس درخواست کی طرف متوجہ کردیتا ہے یا اس درخواست پر مطلع کردیتا ہے ‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری دعا کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کرتے ہیں اور اس میں کون سا شرعی یا عقلی استبعاد ہے ؟ 

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ٢٠٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ١٣٧٥ ھ) 

اس حدیث کے پیش نظر جب آپ کا کوئی امتی آپ سے دعا کی درخواست کرے گا تو آپ کو اس کا علم ہوجائے گا اور آپ اس کی شفاعت فرمائیں گے ‘ کیونکہ آپ نے خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے اور دعا کی درخواست کرنے کی ہدایت دی ہے اور اس ہدایت کو عام رکھا ہے اور اس میں حیات یا بعد از وفات کی قید نہیں لگائی ‘ اس لیے ابن تیمیہ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” اور اس طریقہ سے دعا اس وقت صحیح ہوگی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کے دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے “ کیونکہ حیات اور ممات میں وسیلہ کے جواز اور عدم جواز کا فرق علم کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے ہوسکتا تھا اور آپ کے ہر دو صورت میں علم حاصل ہے ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام مسلمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے حجت ہیں اور آپ کے افعال مسلمانوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں ‘ اگر آپ کا کوئی حکم صرف آپ کی حیات مبارکہ کے ساتھ مخصوص ہو اور بعد کے لوگوں کے لیے اس کا کرنا جائز ہو تو آپ پر لازم ہے کہ آپ یہ بیان فرمائیں کہ یہ حکم میری زندگی کے ساتھ خاص ہے اور بعد کے لوگوں کے لیے اس حکم عمل کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کو ایک شش ماہہ بکرے کی قربانی کرنے کا حکم دیا اور فرما دیا : تمہارے بعد کسی کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے ‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اور قربانی کرو ‘ انہوں نے کہا : میرے پاس صرف چھ ماہ کا ایک بکرا ہے جو سال کے بکرے سے فربہ ہے آپ نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اس کی قربانی کردو ‘ اور تمہارے بعد کسی اور کے لیے شش ماہہ بکرے کی قربانی جائز نہیں ہوگی ۔ (صحیح بخاری جلد ٢ صفحہ ٨٣٤ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی ١٣٨١ ھ،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ استثناء اس لیے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اقوال اور افعال مسلمانوں کے حق میں قیامت تک کے لیے حجت ہیں اگر آپ یہ استثناء نہ فرماتے تو چھ ماہ کے بکرے کی قربانی سب کے لیے قیامت تک جائز ہوجاتی ‘ ابن تیمیہ کہتے ہیں : وفات کے بعد کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کرنا شرک کی طرف لے جاتا ہے : ہر چند کہ انبیاء علیہم السّلام اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ وہ زندوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور بیشک اس کی تائید میں احادیث بھی ہیں ‘ پھر بھی کسی شخص کے لیے ان سے دعا کو طلب کرنا جائز نہیں ہے اور پہلے لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کیا کیونکہ یہ شرک کا سبب ہے ‘ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کا ذریعہ ہے ‘ اس کے برخلاف اگر ان کی زندگی میں ان سے دعا طلب کی جائے تو یہ شرک نہیں ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ جلد ١ صفحہ ٣٣٠ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)

ابن تیمیہ کا یہ قاعدہ باطل ہے کیونکہ وفات کے بعد کسی سے دعا کی درخواست کرنا شرک کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سے فرما دیتے کہ اس طریقہ سے دعا کرنا صرف میری زندگی میں جائز ہے اور میرے وصال کے بعد اس طریقہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے ‘ بلکہ شرک کا سبب ہے ‘ کیونکہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی شرک کی بیخ کنی کرنا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر کسی استثناء کے نابینا صحابی کو دعا کا یہ طریقہ تعلیم کیا تو معلوم ہوا کہ قیامت تک اس طریقہ سے دعا کرنا جائز ہے اور صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا تھا ‘ اسی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی ایک شخص کو دعا کا یہ طریقہ بتلایا اور ہمارے لیے صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی اتباع کرنا ‘ ابن تیمیہ کے افکار کی اتباع کرنے سے بہتر ہے ۔

توسل بعد از وصال کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کاش میری عقل ان لوگوں کے پاس ہوتی ‘ جو لوگ اولیاء اللہ سے استمداد اور ان کی امداد کا انکار کرتے ہیں ‘ یہ اس کا کیا مطلب سمجھتے ہیں ؟ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا ‘ اللہ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجت کو طلب کرتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے اپنے اس بندہ مکرم پر جو رحمت فرمائی ہے اور اس پر جو لطف و کرم کیا ہے اس کے وسیلہ سے میری اس حاجت کو پورا فرما ‘ کہ تو دینے والا کریم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ولی کو ندا کرتا ہے اور اس کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے بندہ خدا اور اے اللہ کے ولی ! میری شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ میرا سوال اور مطلوب مجھے عطا کرے اور میری حاجت برلائے ‘ سو مطلوب کو دینے والا اور حاجت کو پورا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور یہ بندہ درمیان میں صرف وسیلہ ہے ‘ اور قادر ‘ فاعل اور اشیاء میں تصرف کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور اولیاء اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے فعل ‘ سطوت ‘ قدرت اور غلبہ میں فانی اور ہلاک ہیں اور ان کو اب قبر میں افعال پر قدرت اور تصرف حاصل ہے اور نہ اس وقت قدرت اور تصرف حاصل تھا ‘ جب وہ زندہ تھے ۔ اور امداد و استمداد کا جو معنی میں نے ذکر کیا ہے اگر موجب شرک اور غیر اللہ کی طرف توجہ کو مستلزم ہوتا جیسا کہ منکر کا زعم فاسد ہے تو چاہیے یہ تھا کہ صالحین سے طلب دعاء اور توسل زندگی میں بھی ناجائز ہوتا حالانکہ یہ بجائے ممنوع ہونے کے بالاتفاق جائز اور مستحسن ومستحب ہے ‘ اور اگر منکر یہ کہیں کہ موت کے بعد اولیاء اللہ اپنے مرتبہ سے معزول ہوجاتے ہیں اور زندگی میں جو فضیلت و کرامت انہیں حاصل تھی وہ باقی نہیں رہی تو اس پر کیا دلیل ہے ؟
اور اگر یوں کہیں کہ بعد موت کے وہ ایسی آفات وبلیات میں مبتلا ہوئے کہ انہیں دعا وغیرہ کی فرصت نہ رہی تو یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور نہ اس پر دلیل ہے کہ اولیاء کے لیے ابتلا قیامت تک رہتا ہے ‘ زیادہ سے زیادہ جو کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر اہل قبر سے استمداد سود مند نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اولیاء جذب و استغراق کی کیفیت میں ہوں اور عالم لاہوت کے مشاہدہ میں اس طرح منہمک ہوں کہ اس دنیا کے حالات کی طرف توجہ اور شعور نہ رہے تو وہ اس دنیا میں تصرف نہ کریں جیسا کہ دنیا میں بھی اولیا اللہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں اگر اولیاء اللہ کے حق میں زائرین کا یہ اعتقاد ہو کہ وہ مدد کرنے میں مستقل ہیں اور اللہ کی جانب میں توجہ کئے بغیر بطور خود ذاتی قدرت سے امداد کرتے ہیں ‘ جیسے بعض جہلاء کا عقیدہ ہے کہ وہ قبرکو بوسہ دیتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ‘ یہ تمام افعال ممنوع اور حرام ہیں اور ناواقف عوام کے افعال کا کوئی اعتبار نہیں ‘ اور وہ خارج از بحث ہیں اور عارف بشریعت و عالم بہ احکام بہ احکام دین ان تمام منکرات سے سخت بیزار ہیں اور مشائخ اور اہل کشف سے ارواح کا ملہ سے استفادہ کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ حصر سے خارج ہے اور ان کی کتابوں میں مشہور اور مذکور ہے ‘ حاجت نہیں کہ ہم اس کا ذکر کریں اور ممکن ہے کہ وہ منکر متعصب کو فائدہ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس بدعقیدگی سے محفوظ رکھے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد ٣ صفحہ ٤٠٢ ۔ ٤٠١ مبطوعہ مطبع تیج کمار لکھنو،چشتی)

توسل بعد از وصال کے متعلق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ

علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد آپ کی عزت اور وجاہت کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کرنے میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے ‘ اور آپ کی وجاہت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مراد ہے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی آپ سے وہ کامل محبت جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو مسترد نہ کرے اور آپ کی شفاعت کو قبول فرمائے ‘ اور جب کوئی شخص دعا میں کہتا ہے : اے اللہ ! میں اپنی اس حاجت کے پورا ہونے میں تیری محبت کو وسیلہ بناتا ہوں اور اس دعا میں اور تمہارے اس قول میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اے اللہ ! میں تیری رحمت کو وسیلہ بناتا ہوں کہ تو میرا یہ کام کردے ‘ بلکہ میں یہ کہنا بھی جائز سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ ! میں تجھ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کی قسم دیتا ہوں کہ تو یہ کام کر دے ۔ وجاہت اور حرمت کے ساتھ سوال کرنے میں ایک جیسی بحث ہے ‘ توسل اور ذات محض کی قسم دینے میں یہ بحث جاری نہیں ہوگی ‘ ہاں وجاہت اور حرمت کے وسیلہ سے دعا کرنا کسی صحابی سے منقول نہیں ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم وسیلہ کے ساتھ دعا کرنے سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ لوگوں کے ذہنوں میں کوئی بدعقیدگی جگہ نہ پکڑے ‘ کیونکہ ان کا زمانہ بتوں کے ساتھ توسل کرنے کے قریب تھا ‘ اس کے بعد ائمہ طاہرین نے بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں وسیلہ کے ساتھ دعا نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی اس وقت کی عمارت کو منہدم کر کے بناء ابراہیم پر اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن چونکہ آپ کی قوم تازہ تازہ کفر سے نکلی تھی ‘ اس لیے آپ نے فتنہ پیدا ہونے کے خدشہ سے اپنے ارادہ کو ترک کردیا جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ‘ میں نے وجاہت سے توسل اور قسم دینے کا جواز اور اس کی توجیہ اس لیے بیان کی ‘ تاکہ عام مسلمانوں کو اس دعا میں حرج نہ ہو ‘ کیونکہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کے وسیلہ سے دعا کرنے پر گمراہی کا حکم لگانے کا دعوی کرتے ہیں ، اس تقریر سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس طرح وسیلہ سے دعا کرنا ان دعاؤں سے افضل ہے ‘ جو قرآن مجید اور احادیث میں مذکور ہیں اور جن دعاؤں پر صحابہ کرام رضی  الہ عنہم کار بند رہے اور اخیار تابعین رضی  الہ عنہم نے جس طریقہ کو اپنا یا ‘ یقیناً دعا کا یہی طریقہ زیادہ اچھا ‘ زیادہ جامع ‘ زیادہ نفع آور اور زیادہ سلامتی والا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ٦ صفحہ ١٢٨ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی بیروت۔چشتی)

بعد وفات انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، و اولیاء کرام علیہم الرحمۃ سے مدد مانگنا بلا شبہہ جائز ہے  جب کہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور یہ سب حضرات اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شے کا حقیقی مالک و مختار صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرّہ کی بھی مالک و مختار نہیں ہو تی ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے اپنے  پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام و اولیائے عِظام اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے (یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے) مدد فرما سکتے ہیں ۔

 جیسا کہ قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ ۔ (سورۃ التحریم آیت ۴)
ترجمہ : تو بیشک اللّٰہ خود ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے  اور اس کے بعد فرشتے  مدد گار ہیں ۔

حضرت سیدنا عتبہ بن غزوان  رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جب تم میں سے  کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے  یوں پکارے : اے اللّٰہ کے بندو ! میری مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، کہ اللّٰہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا ۔ ( معجم کبیر جلد ۱۵ صفحہ ۱۱۷ حدیث نمبر ۲۹۰) ۔ (اس حدیث پر فقیر سابقہ مضامین میں تفصیل سے لکھ چکا ہے)

بزرگان دین کے مزارات اور ان کے ذوات سے وسیلہ جائز ہے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے روضہ اقدس سے مختلف طریقے سے توسل کیا کرتے تھے ۔ حضرت ابو الجوزاء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : قال قحط اھل مدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الیٰ عائشۃ فقالت انظر و اقبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاجعلوا منہ کوی الی السماء حتی لایکون بینہ وبین السماء سقف ففعلوا مطروا مطرا حتی نبت العشب سمنت الابل حتی لفتقت من الشحم فسمیٰ عام الفتق ۔
ترجمہ : حضرت ابو جوزاء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں سخط قحط پڑ گیا لوگوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی جانب چھت میں سوراخ کر دو یہاں تک کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان حجاب نہ رہے پس انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس زور کی بارش ہوئی کہ خوب سبزہ اگا اور اونٹ فربہ ہو گئے یہاں تک  کہ ان کی چربی پھٹی پڑتی تھی تو اس سال کو خوشحالی کا سال کہا جانے لگا ۔ (سنن دارمی ، مشکوٰۃ صفحہ ۴۵۵)

اور امام بیہقی وابن ابی شیبہ نے مالک الدار سے روایت کی ہے : اصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب فجاء رجل (بلال بن حارث مزنی صحابی) الیٰ قبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا رسول اللہ استسق اللہ لامتک فانھم قد ھلکوا فاتاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی المنام فقال ائت عمر فاقراہ السلام واخبرھم انھم سیسقون  ۔
ترجمہ : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا تو ایک صحابی یعنی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے مزار اقدس پر حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کےلیے اللہ تعالیٰ سے پانی مانگئے کہ وہ ہلاک ہوئے جاتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا عمر کو جاکر سلام کہو اور لوگوں کو خبر کردو کہ جلد پانی برسنے والا ہے ۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے قرۃ العینین میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھا کہ رواہ عمر فی الاستیعاب اور امام قسطلانی نے مواہب میں فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔

اور حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا : کہ جس سے زندگی میں مدد طلب کی جاتی ہے اس سے اس کی وفات کے بعد بھی مدد طلب کی جا سکتی ہے ۔ 

مشائخ میں سے ایک نے فرمایا : کہ میں نے بزرگوں سے چار شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے قبروں میں ویسے ہی تصرف کرتے ہیں جیسے اپنے زندگی میں یا کچھ زیادہ شیخ معروف کرخی و شیخ عبدالقادر جیلانی اور دوسرے حضرات کو اور مقصود حصر نہیں ہے جو خود دیکھا پایا کہا ۔ اور سیدی احمد بن مرزوق جو عظماء فقہاء وعلماء ومشائخ  مغرب میں سے ہیں انہوں فرمایا کہ ایک دن شیخ ابو العباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے یا فوت شدہ کی میں نے کہا کہ ایک قوم کہتی ہے کہ زندہ کی امداد زیادہ قوی ہے اور میں کہتا ہوں فوت شدہ کی امداد زیادہ قوی ہے توشیخ ابوالعباس نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ بارگاہ حق میں ہے اور اس کے حضور میں اور اس گروہ سے اس معنیٰ کی نقل حصر و احصار کی حد سے باہر ہے اور کتاب و سنت نیز اقوال سلف میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو اس کے منافی ہو ۔ (اشعۃ اللمعات جلد ١ صفحہ ۷۱۷)

کتاب و سنت میں جب کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی جو غیر اللہ سے استمداد کے منافی ہو تو یہی قرآن و حدیث سے اس کے جواز کی اصل ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔ مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین و اولیائے کرام علیہم الرحمہ سے بعد وفات بھی مدد مانگنا جائز و درست ہے ۔

معتزلہ کے علاوہ تمام اُمت کا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ حیاتِ برزخیہ برحق ہے ۔ معتزلہ نے درحقیقت مُردوں کی حیات کی نفی کر کے عذابِ قبر کا انکار کیا تھا ۔ اما سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں : وأنکر عذاب القبر بعض المعتزلۃ والروافض لأن المیت جمادُ لا حیاۃ لہُ ولا إدراک فتعذیبہ محال ۔ (شرح عقائد نسفی صفحہ 72)
ترجمہ : بعض معتزلہ اور روافض نے عذابِ قبر کا انکار اس بنا پر کیا کہ ان کے نزدیک میت پتھروں کی طرح ہے جس میں نہ کوئی زندگی ہے نہ شعور اس لیے اسے عذاب دینا محال ہے ۔

ہمارا موضوع بحث اِس وقت حیاتِ انبیاء علیہم السلام و اولیاءاللہ علیہم الرحمہ نہیں ہے اِس موضوع پر ہم الگ سے لکھ چکے ہیں ۔ سرِ دست اس قدر بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ عام اموات اور بالخصوص انبیاء علیہم السلام ، شہداء اور اولیاءاللہ علیہم الرحمہ کی حیاتِ برزخی پر پوری اُمت کا اجماع ہے ۔

اسی وجہ سے علامہ ابنِ قیم جوزی ممدوح دیانہ و وہابیہ نے لکھا ہے : والسلف مجمعون علی ہذا، وقد تواترت الآثار عنهم بأن المیت یعرف زیارۃ الحیی له ویستبشر به ۔ (کتاب الروح جلد 1 صفحہ 5،چشتی)
ترجمہ : سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے اور ان سے تواترِ آثار سے مروی ہے کہ بے شک عام میت (قبر میں) اپنے پاس آنے والے زندہ کی زیارت کو پہچانتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے ۔

لہٰذا استعانت کے باب میں حیات و ممات کا امتیاز درست نہیں کیونکہ استعانت جسم سے نہیں روح سے ہوتی ہے اور روح نہ وقتِ وفات مرتی ہے نہ قبر میں مُردہ ہوتی ہے ۔ وصال کے بعد اِستعانت کے بارے میں قرآن و حدیث میں متعدد دلائل موجود ہیں ۔

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے آیت : اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ آتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ ۔ (سورہ الانعام، 6: 89) کے تحت لکھا ہے کہ : انبیاء کرام علیہم السلام کو باذنِ الٰہی مخلوق کے ظاہر و باطن پر قدرت و تصرف کا اختیار حاصل ہے ۔ {فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا} کے تحت امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں کہ قرآن حکیم میں وارِد ان پانچ کلمات - النازعات ، الناشطات ، السابحات ، السابقات اور المدبرات - کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ ان سے مراد اَرواحِ انسانیہ ہیں : ثم إِنَّ ہذہ الأرواح الشریفۃ العالیۃ لا یبعد أن یکون فیها ما یکون لقوتها وشرفها یظهر منها الآثار فی أحوال هذا العالم فهی المدبرات امراً ألیس أن الإنسان قد یری أستاذه فی المنام ویسأله عن مشکلۃ فیرشده إلیھا؟ ألیس أن الابن قد یری أباه فی المنام فیھدیه إلی کنز مدفون؟ ألیس أنّ جالینوس قال: کنت مریضاً فعجزت عن علاج نفسی فرَأیت فی المنام واحدًا أرشدنی إلی کیفیۃ العلاج ۔ (التفسیر الکبیر جلد 13 صفحہ 67 ، 68)(تفسیر الکبیر، 31: 29)
ترجمہ : پھر یه بلند مرتبت ارواحِ طیبہ، بعید نہیں کہ ان میں ایسی اَرواح بھی ہوں جو اپنے شرف اور قوت کے لحاظ سے اس جہان کے احوال میں اثر انداز اور مدبرات امر کے مرتبہ پر فائز ہوں۔ جیسے کبھی شاگرد یا مرید کو کوئی مشکل پیش ہو تو اُستاد اور شیخ خواب میں اس کی رہنمائی کردیتا ہے اور کبھی باپ فوت ہوجانے کے بعد بیٹے کو مدفون خزائن کی خبر دے دیتا ہے ۔ جالینوس نے کہا : جب میں اپنے مرض کے علاج میں ناکام ہوا تو میں نے خواب میں کسی کو دیکھا کہ اس نے مجھے طریقۂ علاج بتلایا (جس پر عمل پیرا ہو کر میں صحت یاب ہو گیا) ۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : أن التضییق والانحصار لا یتصور فی الروح. وإنما یکون فی الجسد والروح إذا کانت لطیفۃ یتبعها الجسد فی اللطافۃ فتصیر بجسدھا حیث شاء ت و تتمتع بما شاء ت وتأوی الی ما شاء اللہ لها کما وقع لنبینا علیه الصلوۃ والسلام فی المعراج۔ ولأتباعه من الأولیاء حیث طویت لهم الأرض وحصل لهم الأبدان المکتسبۃ المتعددۃ، وجدوھا فی أماکن مختلفۃ فی آن واحدٍ واللہ علی کل شیئٍ قدیر۔ وهذا فی العالم المبنی علی الأمر العادی غالباً فکیف وأمر الروح والآخرۃ کُلها مبنیۃ علی خوارق العادات ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 4 صفحہ 31،چشتی)
ترجمہ :محل اور مقام میںتنگی و پابندی اور قید و حبس روح کے لحاظ سے تصور نہیں کی جاسکتی بلکہ صرف جسد عنصری میں ہوتی ہے۔ روح جب لطیف اور پاکیزہ تر ہوجائے تو جسم بھی نورانیت اور لطافت میں اس کے تابع ہوجاتا ہے اور بدن کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے اور جہاں فائدہ اٹھاتا ہے اور جہاں تک اللہ تعالیٰ اسے پہنچانا چاہے پہنچاتا ہے جیسے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شبِ معراج یہ بلند ترین مقام نصیب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع اولیاء اللہ کے لئے بھی جب کہ ان کے لئے زمین سمیٹ دی جاتی ہے اور انہیں بہت سے مثالی بدن حاصل ہوجاتے ہیں جنہیں وہ آنِ واحد میں مختلف مکانوں میں موجود پاتے ہیں اور اللہ جل شانہ ہر چیز پر کامل قدرت والا ہے۔ روح کے لئے یہ لطافت اور نورانیت اور قدرت و طاقت اس عالم میں ہے جو کہ غالباً اُمورِ عادیہ پر مبنی ہے اور جب یہاں ان اُمور میں استبعاد نہیں تو دارِ بقاء و آخرت میں کون سا اِستبعاد ہو سکتا ہے کیونکہ روح کے اور آخرت کے تمام معاملات خرقِ عادت پر مبنی ہیں ۔

امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ (م 973ھ) مشہور ولی اللہ شیخ موسیٰ ابو عمران رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی میں تحریر کرتے ہیں : وکان إذا ناداہُ مریدہُ أجابہُ من مسیرۃ سنۃ أو أکثر ۔ (لواقع الأنوار في طبقات الأخیار جلد 2 صفحہ 21)
ترجمہ : ابو عمران رحمۃ اللہ علیہ کا مرید جب اِن کو ایک سال یا اِس سے بھی زائد عرصہ سفر کی مسافت سے پکارتا تو وہ اِس کی پکار کا جواب دیتے تھے ۔

شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بعد از وصال اَولیاء اللہ علیہم الرحمہ کی ارواحِ مقدّسہ کے تصرف کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : قرآن و احادیث سے قطعاً ثابت ہے کہ روح باقی رہتی ہے فنا نہیں ہوتی۔ اِس کو زائرین اور اِن کے احوال کا علم و شعور بھی حاصل ہوتا ہے۔ کاملین کی ارواح کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عظیم میں قرب اُسی طرح ہوتا ہے جیسے حیاتِ دنیوی میں تھا بلکہ اِس سے بھی زیادہ۔ اولیاء اللہ کو کرامات اور دنیا میں تصرف حاصل ہے اور اِ س کا ثبوت صرف اُن کی ارواح کے لئے ہے اور ارواح باقی رہتی ہیں اور متصرف حقیقی بالذات و مستقل سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں اور تمام قدرت اُسی کی ہے اور وہ اولیاء اللہ اپنی حیاتِ ظاہری میں اور موت میں اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو چکے ہیں پس اگر کسی شخص کو اِن کے واسطہ سے کچھ عطا کیا جائے اُس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اِن کے لئے ثابت ہے تو یہ امر بعید نہیں ہے جیسا کہ زندگی میں اِن کو تصرف حاصل تھا۔ فعل اور تصرف ہرحال میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور کوئی چیز نہیں جو زندگی اور موت میں فرق کرے اور نہ ہی اس فرق پر کوئی دلیل پائی گئی ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد 1 صفحہ 716،چشتی)

مزید بعد از وصال مدد و اِستعانت کے موضوع پر شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’أشعۃ اللمعات (3: 401، 402)‘‘ پر سیر حاصل بحث کرکے ثابت کیا ہے کہ اہلِ قبور سے بعد از وصال استعانت و استمداد جائز ہے اور یہ کہ اولیاء اللہ ارادۂ الٰہی میں فنا ہوجانے کے باعث غیر نہیں رہتے۔ ان سے استعانت بھی حقیقت میں استعانت باللہ ہوتی ہے ۔ وہ محض درمیان میں وسیلہ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انبیاء و اولیاء مظہرِ عونِ الٰہی ہیں ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’لمعات التنقیح (1: 140، 141)‘‘ میں لکھا ہے کہ مرید کے استمداد و استعانت پر شیخ اس کی مدد کرتا ہے خواہ شیخ قریب ہو یا بعید، زندہ ہو یا وصال کر گیا ہو ۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علومِ ظاہری و باطنی کے مجمع البحرین علامہ سید عبدالاوّل جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : چہ نفس ولی و نبی قوتی می باید کہ در خارج بدن تصرف می کند ہمچنان کہ در بدن و چون روحِ مقدّس حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جان ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ عالم است باید کہ در ہمہ اجزایئ عالم متصرف باشد و ازینجاست کہ باشارت قمر را دو شق کرد گوئیا فضلۂ ناخن از ناخن جدا فرمود ۔ (اخبار الاخیار صفحہ 255)
ترجمہ : انبیاء و اولیاء کے نفوس و ارواح ایسی قدرت و قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ جسم سے باہر یعنی دوسری اشیاء میں اس طرح تدبیر و تصرّف کرتے ہیں جیسے کہ اپنے اجسام میں اور جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسِ مبارک اور روح مقدّسہ تمام جہان کی جان ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ تمام جہان میں متصرف ہو اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا گویا ناخن کے زائد حصہ کو ناخن سے جدا فرما دیا ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بلند پایہ تصنیف ’’ہمعات‘‘ میں حضرت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مزار میں تصرف کرنے کے بارے میں لکھا ہے : ودر اولیائے امت و اصحابِ طرق اقوی کسیکہ بعد تمام راہِ جذب باکد وجوہ باصل این نسبت میل کردہ است و در آنجا بوجہ اتم قدم زدہ است حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اند۔ و لہذا گفتہ اند کہ ایشاں در قبر خود مثل احیاء تصرف می کنند ۔ (ہمعات صفہ 61)
ترجمہ : اولیائے امت اور اصحابِ طریقت میں سے قوی ترین حال کی حامل ہستی حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ہے جنہوں نے راہِ جذب کو پختہ ذرائع سے طریقت کی اصل سے جوڑا اور اس مقام پر کامل ترین قدم رکھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کر رہے ہیں ۔

انہوں نے اسی کتاب کے صفحات نمبر 14 ، 60 ، 62 ، 83 ، 84 اور 121 پر اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے استعانت و استمداد اور ان کے روحانی تصرفات اور توجہات کے بارے میں لکھا ہے ۔ یاد رہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’ہمعات‘‘ کوئی سطحی نظریات و تصورات کی حامل کتاب نہیں بلکہ یہ حکمتِ ولی اللّٰہی کے فہم کےلیے بنیادی اہمیت کی حامل کتاب ہے ۔ علامہ عبید اللہ سندھی دیوبندی ’’ہمعات‘‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں : حکمت ولی اللّٰہی میں یہ رسالے ابتدائی قاعدوں (primers) کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں ، اِس کے بعد امام ولی اللہ کی حکمت کی تعلیم شروع کی جاتی ہے ۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اَولیاء اللہ کی امداد بعد از وصال کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : از اولیاء مدفونین و دیگر صلحا مؤمنین اِنتفاع و استفادہ جاری است و آنہا را افادہ و اعانت نیز متصور بخلاف مردہ پائے سوختہ کہ این چیزہا اصلاً نسبت بآنہا در اہل مذہب آنہا نیز واقع نیست ۔ (تفسیر عزیزی ، 30 : 50)
ترجمہ : وفات یافتہ اَولیاء اللہ اور دیگر صالحین مؤمنین سے اِستفادہ اور استمداد و اِستعانت جاری و ساری ہے اور اِن اولیاء اللہ سے افادہ اور امداد بھی متصور ہے۔ برخلاف اُن لوگوں کے جن کو جلا دیا جاتاہے۔ اِس لئے کہ اِن سے یہ اُمور اِن کے مذہب میں بھی جائز نہیں ہیں ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیرِ عزیزی (1: 7 اور 30: 113)‘‘ میں بھی اولیاء اللہ سے استعانت و استمداد کے جواز کو ثابت کیا ہے ۔

جمہور اُمت کے نزدیک اِستعانت و توسل کی حکمت یہ ہے کہ اِس سے دعا أقرب اِلی الإجابت ہو جاتی ہے یا کم از کم امکانِ قبولیت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض اولیاء و مقربین کی دعا سے قضاء مبرم بدل جاتی ہے ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر المظہری‘‘ میں سورۃ الرعد کی آیت نمبر 39 - یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ج وَعِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ - کے تحت حضرت عمر اور حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی شقاوت کو سعادت سے اور بعض اوقات سعادت کو شقاوت سے بدل دیتا ہے : عن ابن مسعود في بعض الأثار أن الرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثون سنۃ فیقطع رحمہ فیرد إلی ثلاثۃ أیام والرجل قد یکون قد بقی لہ من عمرہ ثلاثۃ أیام فیصل رحمۃ فیمد إلی ثلاثین سنۃ۔ ثم روی البغوي بسندہ إلی أبي الدرداء رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ینزل اللہ في أخر ثلاث ساعات یبقین من اللیل۔ فینظر في الساعۃ الأولی منھن في الکتاب الذي لا ینظر فیہ أحد غیرہ۔ فیمحو ما یشاء و یثبت ۔ (تفسیر المظہری جلد 5 صفحہ 246،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی بعض آثار میں آیا ہے : کسی شخص کی عمر تیس سال باقی ہوتی ہے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے قطع تعلقی کرتا ہے تو اس بناء پر اس کی عمر تین دن کر دی جاتی ہے اور ایک آدمی کی بسا اوقات تین دن عمر باقی رہ گئی ہوتی ہے سو وہ صلہ رحمی کرتا ہے پس اس کی عمر تیس برس کر دی جاتی ہے۔ امام بغویؒ اپنی سند سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی ذات رات کی تین گھڑیوں میں جلوہ افروز ہوتی ہے تو وہ پہلی گھڑی میں کتاب (تقدیر) کو دیکھتا ہے جو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا پس وہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے ۔

اس سے یہ امر مترشح ہوا کہ اولیاء اللہ اور مقربین کی دعاؤں سے تقدیر مبرم ٹل جاتی ہے۔ اسی مقام پر قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنے تفصیلاً لکھا ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے صاحبزادگان حضرت محمد سعید اور حضرت محمد معصوم کے معلم حضرت ملا طاہر لاہوری کی پیشانی سے لفظِ شقی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کی بدولت لفظِ سعید سے بدل گیا ۔

رُوح کےلیے قرب و بعد کا معنی و مفہوم : یہ ایک بدیہی اَمر ہے کہ روح کےلیے قرب و بعد یکساں حقیقت کے حامل ہیں اوریہ کہ ارواحِ کاملین کو بعد از وفات بھی تدبیر و تصرف حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح دنیوی زندگی میں انسانوں کے مختلف مدارج ہیں ۔ ان کی ذہنی ، نفسیاتی ، بدنی اور روحانی قوتیں ایک جیسی نہیں، بعینہٖ عالم برزخ میں اہلِ ایمان کے مختلف مدارج اور طبقات ہوتے ہیں ۔ یہ طبقات اور مدارج یقینا ان کی دنیوی زندگی کے احوال پر منطبق ہونے والے انجام اور ثمرات کی بناء پر متشکل ہوں گے ۔

برزخی احوال سے متعلق جن علماء اسلام نے اپنے اپنے حسبِ حال تفصیلات بیان کی ہیں ان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بطورِ خاص قابل ذکر ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں برزخ کے چار مدارج تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ مزید آپ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 41، 42 )‘‘ اور ’’ہمعات (صفحہ 57)‘‘ پر مقبولانِ بارگاہ الٰہی اور راندۂ درگاہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مقبولانِ بارگاہ ملاء اعلیٰ کی مخلوق ہیں اور راندۂ درگاہ ملاء سافل ۔ ملاء اعلیٰ معزز اور مقرب فرشتوں پر مشتمل مجلسِ بالا ہے جس میں نیک اور مقرب انسانوں کی ارواح بھی شامل ہوتی ہیں۔ پھر انہوں نے ان کی تین اقسام پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور نتیجے کے طور پر ’’حجۃ اللہ البالغہ (1: 111)‘‘ پر لکھا ہے : وإذا تمکنت العدالۃ من الإنسان وقع اشتراک بینہُ بین حملۃ العرش ومغربی الحضرۃ من الملائکۃ الذین ہم وسائط نزول الجود والبرکات وکان ذالک باباً مفتوحاً بینہ وبینہم وممد النزول ألوانہم وصبغہم بمنزلۃ تکمیل النفس من ألہام الملائکۃ والانبعاث حسبھا ۔
ترجمہ : پس جب انسان میں صفتِ عدالت متمکن ہو جاتی ہے تو اس میں اور حاملینِ عرش اور مقربین فرشتوں میں جو جودِ الٰہی اور برکاتِ الٰہی کے لئے ذریعہ و واسطہ ہیں، اِشتراک پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس میں اور ان فرشتوں میں فیضان کا دروازہ کھل جاتا ہے اور یہ صفت اس پر ان کے رنگ اور اثر نازل کرنے میں مددگار بن جاتی ہے۔ اس طور پر کہ نفس میں ملائکہ کے الہام سے مستفیض ہونے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ ان کے علوم کے لئے آمادہ رہتا ہے ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ارواحِ نیکاں بعد از قبض درآں جامی رسند و مقرّبان یعنی انبیاء و اولیاء درآں مستقر میمانند۔ وعوام صلحا بعد از نویسانیندن و رسانیندن نا مہائے بر حسبِ مراتب در آسمانِ دنیا یا درمیان آسمان و زمین یا در چاہ زمزم قرار می دہند و تعلق بقبر نیز ایں ارواح را میباشد کہ بحضور زیارت کنندگان واقارب و دیگر دوستان بر قبر مطلع و مستانس میگردند زیرا کہ روح را قرب وبُعد مکانی مانع ایں دریافت نمی شود ۔ (تفسیر عزیزی جلد 1 صفحہ 100،چشتی)
ترجمہ : نیک لوگوں کی اَرواحِ قبض کیے جانے کے بعد علیین کے قیام میں پہنچ جاتی ہیں۔ انبیاء و اولیاء اسی مقام پر قرار پکڑتے ہیں۔ عام صلحاء و اتقیاء کی ارواح کے نام اعلیٰ علیین میں لکھوانے اور وہاں پہنچانے کے بعد ان کے مرتبہ و درجات کے مطابق آسمانِ دنیا میں یا آسمان و زمین کے درمیان زمزم کے چشمہ میں ٹھکانا دیتے ہیں اور ان ارواح کو قبر کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے، حتی کہ زیارت کرنے والوں کی حاضری اور اقارب اور دوست احباب کی قبر پر آمد سے مطلع ہو جاتے ہیں اور اُنس و راحت و محبت حاصل کرتے ہیں کیونکہ روح کیلئے مکان کے لحاظ سے قریب یا بعید ہونا اس علم و اداراک میں رکاوٹ نہیں ہو سکتا ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 54 - وَ لَا تَقُوْلُوا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہ اَمْوٰتٌ - کی تفسیر میں لکھتے ہیں : إن اللہ تعالی یعطی لأرواحھم قوۃ الجساد فیذھبون من الأرض والسماء والجنۃ حیث یشاؤون وینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم إن شاء اللہ تعالی ومن أجل ذٰلک الحیٰوۃ لا تأکل الأرض أجسادھم ولا أکفانھم. قال البغوی: قیل أن أرواحھم ترکع و تسجد کل لیلۃ تحت العرش إلی یوم القیامۃ ۔ (تفسیر المظہري جلد 1 صفحہ 152)
ترجمہ : اللہ تعالیٰ ان کی ارواح کو جسموں جیسی قوت عطا کرتا ہے سو وہ زمین، آسمان اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے اولیاء (دوستوں، ساتھیوں) کی مدد کرتے ہیںاور اپنے دشمنوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں اور اسی زندگی کے سبب زمین ان کے جسموں اور کفنوں کو نہیں کھاتی۔ امام بغویؒ نے فرمایا: یہ بھی قول ہے کہ ان کی ارواح قیامت تک ہر رات اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے رکوع و سجود کرتی رہیں گی ۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : ولذلک قالت الصوفیۃ العلیۃ: أرواحنا أجسادنا وأجسادنا أرواحنا وقد تواتر عن کثیر من الأولیاء أنھم ینصرون أولیاء ھم ویدمرون أعداء ھم ویہدون إلی اللہ تعالٰی من یشاء اللہ تعالٰی ۔ (تفسیر المظہري جلد 1 صفحہ 152)
ترجمہ : اسی لیے بلند پایہ صوفیاء کا قول ہے: ہماری ارواح ہمارے جسم اور ہمارے جسم ہماری ارواح ہیں اور بہت سے اولیاء سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف ہدایت دیتے ہیں ۔

4۔ علامہ ابنِ قیم جوزی ممدوح دیابنہ و ویابیہ اس حوالے سے لکھتے ہیں : فللروح المطلقۃ من أسر البدن وعلائقہ وعوائقہ من التصرف والقوۃ والنفاذ والھمۃ وسرعۃ الصعود إلی اللہ والتعلق باللہ، ما لیس للروح المھینۃ المحبوسۃ فی علائق البدن و عوائقہ۔ فإذا کان ھذا وھی محبوسۃ فی بدنھا فکیف إذا تجردت و فارقتہ واجتمعت فیھا قواھا وکانت فی أصل شانھا روحاً علیۃ زکیۃ کبیرۃ ذات ھمۃ عالیۃ فھذہ لھا بعد مفارقۃ البدن شان آخر و فعل آخر ۔ (کتاب الروح صفحہ 103،چشتی)
ترجمہ : جسم کی قید سے آزاد اور اس کے تعلقات اور عوارضات و موانعات سے مبرا روح کےلیے ایسا تصرّف ، قوت ، نفوذ ، ہمت اور اللہ رب العزت کی طرف فوری طور پر بلند ہونے اور اس سے تعلق قائم کرنے کی قوت و صلاحیت حاصل ہوتی ہے ، جو جسم کی قید میں مقید و محبوس اور بدنی تعلقات اور عوارضات و موانعات میں جکڑی ہوئی روح کو حاصل نہیں ہوتی۔ روح کا جب جسم سے محبوس و مقید ہوتے ہوئے یہ حال ہے تو اس وقت اس کی حالت کیا ہو گی جب جسم سے مجرد اور جدا ہو جائے او راس میں اس کی تمام تر قوتیں جمع ہو جائیں اور اپنی حالت کے اعتبار سے بھی پاکیزہ فطرت، بلند ہمت اور عالی قدر ہو تو جسم سے مفارقت و جدائی کے بعد اس کی شان نرالی ہو گی اور فعل و تاثیر بھی انوکھی و عمدہ ہو گی ۔

کعبۃ اللہ مسجود لہٗ نہیں مسجود اِلیہ ہے : حقیقت اور مجاز کے ضمن میں ایک تمثیل ملاحظہ کیجیے ۔ جو لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر بوقتِ حاضری اِستمداد کرتے ہیں وہ اُنہیں مستعانِ حقیقی سمجھ کر استعانت و اِستغاثہ نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ کامل اُمید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے مقبول اور محبوب بندوں کے مقامات اور اطاعت و اعمالِ صالحہ کے طفیل ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے گا ۔ یہ اس طرح ہے جیسے لوگ کعبۃ اللہ میں جا کر یا دور سے اسی رخ پر سجدہ کرتے ہیں ۔ بیت اللہ شریف بھی پتھروں سے تعمیر کیا ہوا ایک مکان ہے اور وہ بھی یقینا اللہ تعالیٰ کا غیر ہے عین نہیں۔ پھر جمادات یعنی پتھروں کے ساتھ اس قدر تعظیم کا سلوک کیوں کیا جاتا ہے ؟ اللہ رب العزت نے تو صرف اپنی ذات کو سجدہ جائز قرار دیا ہے اور اپنی ہی عبادت کو جائز کیا ہے۔ پتھروں کی طرف رُخِ سجدہ کرنے کا آخر کیا مطلب ہے صاف ظاہر ہے وہ کعبۃ اللہ کی عبادت نہیں مگر اس میں اس کی تعظیم تو یقینا مضمر ہے ۔ یہی معاملہ طواف اور دیگر بہت سے اُمور کا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کعبہ معظمہ کی سمت سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیت اللہ شریف میں حاضری کے وقت بظاہر دیوارِ کعبہ سے لپٹ کر ہم رو رہے ہوتے ہیں۔ التجائیں کر رہے ہوتے ہیں، مگر کبھی کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ بیت اللہ شریف کی دیواروں میں چنے ہوئے پتھروں کو ہم اپنا معبود گردانتے ہیں یا اُن سے مرادیں اور حاجات مانگتے ہیں تو پھر اُن لوگوں کے حق میں یہ بدگمانی کیوں کی جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے دُعا و التجا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے توسل اور برکت سے ہماری حاجات پوری فرما دے گا۔ مسجود اِلیہ تو پتھروں ہی کا بنا ہوا گھر تھا مگر وہ مسجود لہ نہیں تھا۔ اِس سے ثابت ہوا کہ ہم دن میں کئی مرتبہ غیر اللہ کی سمت سجدہ کرتے ہیں اور یہ سجدے کر کے بھی مسلمان ہی رہتے ہیں ۔ اِسی طرح ہم مقامِ ابراہیم کی سمت - جو کہ حضرت ابراہیم عَلَیهِ‌السَّلام کے قدموں کے نشان والا پتھرہے - رُخ کرکے نماز پڑھنے کے بعد بھی مسلمان ہی رہے۔ کیوں؟ صرف اِسی لیے کہ ہمارے نزدیک مسجود وہ پتھر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سو اِسی دلیل کی بنیاد پر یہ عمل بھی استوار ہے کہ جب ہم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں تو وہاں بھی مرادیں اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں اور ان کو وسیلہ بناتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت کا مظہر کعبۃ اللہ کو قرار دیا ہے اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء و اولیاء بھی اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مظہر ہیں ۔ بقول غالب :

پرے ہے حدِ اِدراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

اس ساری بحث سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کی ارواح بعد از وصال مُدَبِّرَاتِ اَمر میں سے بن جاتی ہیں او رملائِ اعلیٰ کے ساتھ شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیت کے مطابق تدبیر و تصرّف کرتی ہیں اور اہلِ محبت کی بالخصوص مدد کرتی ہیں ، لہٰذا ان سے ان کی شان کے لائق استمداد و استعانت کرنا اسی طرح جائز ، مباح اور صحیح ہے جیسے کہ حیاتِ ظاہری میں مباح اور مستحسن ہے ۔ حیاتِ ظاہری اور حیاتِ برزخی میں فرق روا رکھنا باطل ہے کیونکہ بعض ائمہ علیہم الرحمہ کے نزدیک بعد از وصال امداد و اعانت قوی طریقہ پر متحقق ہو جاتی ہے لہٰذا معترضین اور منکرین کا انبیاء علیہم السلام و اولیاءاللہ علیہم الرحمہ کو بعد از وصال اس دنیا میں رہنے والے اعانت کے طلب گاروں سے بے خبر غافل اور لاتعلق بتلانا اور بتوں والی آیات ان پرمنطبق کرتے ہوئے ان کی امداد و اعانت سے عاجز و قاصر اور مجبور و معذور اور بے بس قرار دینا باطل ہے ۔

غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی عطاء سے اللہ کے بندے مدد کرتے ہیں اِس نیت سے استغاثہ لغیرِ اللہ شرک نہیں ۔ ( یعنی مدد مانگنا) ۔ (ہدیۃُ المہدی عربی صفحہ نمبر 20 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)

نوٹ : یہی ہم مسلمانانِ اہلسنت کہتے ہیں وہابی حضرات ہماری نہ مانیں اپنے بڑوں کی ہی مان لیں اور مسلمانوں پر شرک کے فتوے لگا لگا کر انتشار و فتنہ نہ پھیلائیں ۔

توسل بعد ازوصال کے متعلق غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : جب دعا میں غیر اللہ کے وسیلہ کا جواز ثابت ہے تو اس کو زندوں کے ساتھ خاص کرنے پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی تھی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ممانعت پر دلیل نہیں ہے ‘ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے اس لیے دعا کی تاکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ساتھ دعا میں شریک کریں ‘ اور انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ‘ اسی طرح شہداء اور صالحین بھی زندہ ہیں ‘ ابن عطاء نے ہمارے شیخ ابن تیمیہ کے خلاف دعوی کیا ‘ پھر اس کے سوا اور کچھ ثابت نہیں کیا کہ بطور عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت کرنا جائز نہیں ہے ‘ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو آپ کے وسیلہ سے دعا تعلیم کی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے تھے، اس دعا میں یہ الفاظ تھے : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سند متصل کے ساتھ ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے : کاش میری عقل ان منکرین کے پاس ہوتی ! جب کتاب اور سنت کی تصریح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے تو صالحین کے وسیلہ کو بھی اس پر قیاس کیا جائے گا اور امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ کے آداب دعا میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے ‘ اور ایک اور حدیث میں ہے : یا محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ سید نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے موضوع نہیں ہے ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،چشتی، ایک حدیث میں ہے : میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اس کو علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ” نہایہ “ میں اور علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ نے ” مجمع بحار الانوار ،چشتی“ میں ذکر کیا ہے ‘ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی اس دعا کو روایت کیا ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے بحق محمد سوال کرتا ہوں ‘ اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے : اے اللہ ! تیرے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو وجاہت اور عزت ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ وسیلہ پیش کرنا ‘ مدد طلب کرنا اور شفاعت طلب کرنا مستحسن ہے ‘ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آہ وزاری کرنے کا متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا حتی کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے انکار کیا ‘ قاضی شوکانی نے کہا کہ انبیاء میں سے کسی نبی ‘ اولیاء میں سے کسی ولی اور علماء میں سے کسی عالم کا بھی وسیلہ پیش کرنا جائز ہے جو شخص قبر پر جا کر زیارت کرے یا فقط اللہ سے دعا کرے اور اس میت کے وسیلہ سے دعا کرے کہ اللہ میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے فلاں بیماری سے شفاء دے اور میں اس نیک بندے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ قاضی شوکانی کا کلام ختم ہوا ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 47 تا 49 مطبوعہ اسلامی کتبخانہ سیالکوٹ)

توسل بعد از وصال کے متعلق غیرمقلد وہابیوں کے امام قاضی شوکانی کا نظریہ

غیرمقلد وہابی عالم علامہ مبارکپوری ” الدرالنضید “ سے قاضی شوکانی کی عبارت نقل کرتے ہیں : انبیاء اور صالحین کے توسل سے منع کرنے والے قرآن مجید کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں : ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ (الزمر : ٣) اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ (جن : ١٨) اسی کو (معبود سمجھ کر) پکارنا بر حق ہے ‘ اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے ہیں جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ (الرعد : ١٤) ان آیات سے استدلال صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ سورة زمر کی آیت نمبر ٣ میں یہ تصریح ہے کہ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اسی کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اس کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ اس طرح سورة جن کی آیت نمبر ١٨ میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرکے پکارنے (یا عبادت کرنے) سے منع کیا ہے ‘ مثلا کوئی شخص کہے : میں اللہ اور فلاں کی عبادت کرتا ہوں ‘ اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور اللہ کے بعض نیک بندوں کے اعمال صالحہ کے وسیلہ پیش کرتا ہے، جیسا کہ ایک غار میں تین شخص تھے اور اس غار کے منہ پر ایک چٹان گرگئی تو انہوں نے اپنے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا کی ‘ اسی طرح سورة رعد کی آیت نمبر ١٤ میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو ان لوگوں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے تھے جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے اور اپنے رب کو نہیں پکارتے تھے جو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور کسی اور سے دعا نہیں کرتا ‘ اللہ کے بغیر نہ اللہ کے ساتھ ۔ (تحفۃ الاحوذی ج ٤ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ نشر السنۃ ملتان،چشتی)

انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین سے براہ راست استمداد

انبیاء علیہم السلام اور بزرگاں دین سے براہ راست مدد طلب کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کراما کاتبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے بندو ! تم پر اللہ رحم فرمائے میری مدد کرو ۔ (المصنف ج ١٠ ص ٣٩٠ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗ ٦۔ ١٤ ھ)

حافظ ابوبکر دینوری معروف بابن السنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! اس کو روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو اس کو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ عزوجل کے کچھ روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ١٦٢‘ مطبوعہ مطبع مجلس الدائرۃ المعارف ‘ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٥ ھ)

امام بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا ‘ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل کی سرزمین میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ٤ ص ٣٤‘ مطبوعہ، وسستہ الرسالۃ بیروت،چشتی)

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے درآن حالیکہ وہ کسی اجنبی جگہ پر ہو تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو ‘ کیونکہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے ۔ یہ امر مجرب ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا اور اس کے بعض راویوں کے ضعف کے باوجود ان کی توثیق کی گئی ہے ‘ البتہ یزید بن علی نے حضرت عتبہ کو نہیں پایا ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا اللہ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب کسی ویران زمین پر کسی کو مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٣٠١٤ ھ)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے روکنے والے ہیں جو اس کو عنقریب روک لیں گے ‘ اس کو امام ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے : وہ اس کو تمہارے لیے روک لیں گے ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ،چشتی)

رجال غیب (ابدال) سے استمداد کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے بیان کیا جو بہت بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی، ان کو اس حدیث کا علم تھا انہوں نے یہ کلمات کہے : (اے اللہ کے بندو ! روک لو) اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو اسی وقت روک دیا ۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھا ‘ اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی ‘ وہ اس کو روکنے سے عاجز آگئے ‘ میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی اور سبب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ سواری اسی وقت رک گئی ۔ (کتاب الاذکار ص ٢٠١‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ طبع رابع ‘ ١٣٧٥ ھ)

ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کو نقل کیا ہے۔ (الحرز الثمین شرح حصن حصین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المبطعۃ المنیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

غیرمقلدوں کے امام قاضی شوکانی نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کو نقل کیا ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین ص ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ ” یاعباد اللہ “ کی شرح میں لکھتے ہیں : ” اے اللہ کے بندو “ اس سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن یا اس سے مردان غیب مراد ہیں جن کو ابدال کہتے ہیں (یعنی اولیاء اللہ) ۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ میں اس حدیث کو طبرانی ‘ ابویعلی ‘ ابن السنی ‘ بزار اور ابن ابی شیبہ کے حوالوں سے درج کیا ہے ‘ ان تمام ورایات کو درج کرنے کے بعد ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض ثقہ علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اور مشائخ سے مروی کہ یہ امر مجرب ہے۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٩‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)

وہابیوں کے امام قاضی شوکانی ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں لکھتے ہیں : مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کے روای ثقہ ہیں ‘ اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں ‘ جیسے فرشتے اور صالح جن ‘ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ جیسا کہ جب سواری کھسک جائے یا بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کرنا جائز ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٥٦۔ ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ،چشتی)

امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر کے حوالوں سے عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں ندائے یا محمداہ کا رواج : عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں مسلمانوں کا یہ شعار تھا کہ وہ شدائد اور ابتلاء کے وقت ” یا محمداہ “ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ندا کرتے تھے ۔ جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ‘ اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں : پھر حضرت خالد بن ولید نے دشمن کو للکارا اور للکارنے والوں کو دعوت (قتال) دی ‘ پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق یا محمداہ کہہ کر نعرہ لگایا ‘ پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اس کو قتل کر دیتے تھے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦‘ مطبوعہ دار الکتاب العربیہ بیروت)

حافظ ابن کثیر بھی جنگ کے اس منظر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پھر حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے معمول کے مطابق نعرہ لگایا اور اس زمانہ میں ان کا معمول یا محمداہ کا نعرہ لگانا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ٣٢٤‘ مطبوعہ دارا الفکر ‘ بیروت,چشتی)

حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن کثیر نے یہ تصریح کی ہے کہ عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں شدائد اور ابتلاء کے وقت یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ندائے غائب کے منکرین کے ہاں حافظ ابن کثیر کی بہت پذیرائی ہے اور ان کا یہ لکھنا کہ عہد صحابہ وتابعین میں یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ان کے خلاف قوی حجت ہے ۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” المطالب العالیہ “ میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر عیسیٰ میری قبر پر کھڑے ہو کر ” یا محمد “ کہیں تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا ۔(المطالب العالیہ جلد ٤ صفحہ ٣٤٩ مطبوعہ مکہ مکرمہ)

شریعت مطہرہ  کی روشنی میں اولیاءاللہ علیہم الرحمہ کو ڈائریکٹ مخاطب کر کے اپنی حاجت بیان کرنا اور ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ اللہ عزوجل کے نیک بندوں سے مدد مانگنے کے جواز پر قرآن و احادیثِ مبارکہ شاہد ہیں ۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ۔  (سورۃ المائدۃ آیت نمبر 55)
ترجمہ : اے مسلمانو ! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے  ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔

علامہ احمد بن محمد الصاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1241ھ) تفسیر صاوی میں آیت ” وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ “ کے تحت لکھتے ہیں : المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول ۔
ترجمہ : آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے ، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ، خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ، کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے ، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔ (تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 1550 مطبوعہ لاہور,چشتی)

صحیح مسلم شریف وسنن ابی داود وسنن ابن ماجہ میں سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے : كنت أبيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتيته بوضوئه وحاجته فقال لي : «سل» فقلت : أسألك مرافقتك في الجنة. قال: «أو غير ذلك» قلت: هو ذاك. قال: «فأعني على نفسك بكثرة السجود ۔
ترجمہ : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا ۔ ایک شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے آب وضو وغیرہ ضروریات لایا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بحرِ رحمت جو ش میں آیا) ارشاد فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں ۔ میں نے عرض کی : میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطا فرمائیں ۔ فرمایا : کچھ اور ؟ میں نے عرض کی : میری مراد تو صرف یہی ہے ۔ فرمایا : تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے ۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ جلد 1 صفحہ 353 دار إحياء التراث العربي بيروت)

احادیثِ مبارکہ میں نیک لوگوں سے ڈائریکٹ حاجات و مددمانگنے کی ترغیب موجود ہے ۔ چنانچہ المعجم الکبیر کی حدیث پاک ہے : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۔
ترجمہ : بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگو جن کے چہرے عبادت الہٰی سے روشن ہیں ۔ (المعجم الکبیر مجاھد عن ابن عباس جلد 11 صفحہ 81 مطبوعہ القاھرۃ,چشتی)

مسند اسحاق بن راہویہ فضائل الصحابۃ لاحمدبن حنبل ، مسندابی یعلی موصلی ، المعجم الاوسط ، الاسماء والصفا للبیہقی ، شعب الایمان میں بھی یہ حدیث موجودہے ۔ المستدرك على الصحيحين للحاكم میں ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اطلبوا المعروف من رحماء أمتي تعيشوا في أكنافهم ۔
ترجمہ : میرے نرم دل امتیوں سے نیکی و احسان مانگو ، ان کے ظل عنایت میں آرام کرو گے ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم کتاب الرقاق جلد 4 صفحہ 357 دار الكتب العلمية،بيروت)

مکارم الاخلاق  للخرائطی ، مسند الشہاب للقضاعی ، ابن حبان ، التاریخ للحاکم میں ہے : (واللفظ للاول) اطلبوا الفضل عند الرحماء من أمتي تعيشوا في أكنافهم فإن فيهم رحمتي ۔
ترجمہ : فضل میرے رحم دل امتیوں کے پاس طلب کرو کہ ان کے سائے میں چین کرو گے کہ ان میں میری رحمت ہے ۔ (المنتقى من كتاب مكارم الأخلاق ومعاليها باب ما جاء في السخاء ۔۔ الخ ، جلد 1 صفحہ 125 دار الفكر دمشق سورية)

امام اہلسنت اعلی حضرت امام الشاہ احمدرضاخان  رحمۃ اللہ علیہ اس مضمون کی سترہ احادیث نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : انصاف کی آنکھیں کہاں ہیں ؟ ذرا ایمان کی نگاہ سے دیکھیں یہ سولہ بلکہ سترہ حدیثیں کیسا صاف صاف واشگاف فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نیک امتیوں سے استعانت کرنے ان سے حاجتیں مانگنے، ان سے خیر و احسان کرنے کا حکم دیا کہ وہ تمہاری حاجتیں بکشادہ پیشانی روا کریں گے ، ان سے مانگو تو رزق پاؤ گے ، مرادیں پاؤ گے ، ان کے دامنِ حمایت میں چین کرو گے ان کے سایہ عنایت میں عیش اٹھاؤ گے ۔یارب ! مگر استعانت اور کس چیز کا نام ہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا صورتِ استعانت ہو گی ، پھر حضرات اولیاء سے زیادہ کون سا امتی نیک و رحم دل ہوگا کہ ان سے استعانت شرک ٹھہرا کہ اس سے حاجتیں مانگنے کا حکم دیا جائے گا ، الحمدللہ حق کا آفتاب بے پردہ و حجاب روشن ہوا ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 317 رضافاؤنڈیشن لاہور)

مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابان بن صالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : إذا نفرت دابۃ أحد کم أو بعیرہ بفلاۃ من الأرض لا یری بھا أحدا، فلیقل : أعینونی عباد اللہ ، فإنہ سیعان ۔
ترجمہ : جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ بیابان جگہ پر بھاگ نکلے جہاں وہ کسی کو نہیں دیکھتا (جو اس کی مدد کرے) تو وہ یہ کہے : اے اللہ کے بندو میری مدد کرو ۔ تو بے شک اس کی مدد کی جائے گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الدعاء جلد 6 صفحہ 103 مطبوعہ الریاض)

المعجم الکبیرمیں ہے : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا وهو بأرض ليس بها أنيس ، فليقل : يا عباد الله أغيثوني ، يا عباد الله أغيثوني ، فإن لله عبادا لا نراهم ۔
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے یا اسے مدد کی حاجت ہو اور وہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہیے یوں پکارے : اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ، اے اللہ کے بندو ! میر ی مدد کرو کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے ، وہ اس کی مدد کریں گے ۔ (المعجم الكبير للطبراني ما أسند عتبة بن غزوان جلد 17 صفحہ 117 مطبوعہ القاهرة,چشتی)

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد: يا عباد الله احبسوا، يا عباد الله احبسوا، فإن لله حاضرا في الأرض سيحبسه 
ترجمہ : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے تویوں ندا کرے ، اے اللہ کے بندو ! روک دو ، اے اللہ کے بندو ! روک دو ، زمین پر اللہ عزوجل کے کچھ بندے حاضر رہتے ہیں ، وہ اس جانور کو روک دیں گے ۔ (مسند أبي يعلى الموصلي جلد 9 صفحہ177 دار المأمون للتراث دمشق)

امام اہلسنت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ان تین احادیث کونقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت فرمائیں قدیم سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول و معمول و مجرب ہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 318 رضافاؤنڈیشن لاہور)

امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں : سیدی محمد غمری رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ۔ ان کے جانور کا پاؤں پھسلا ،  باآواز پکارا ”یا سیدی محمد یا غمری“ ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے ،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں ؟ کہا : میرے شیخ ، کہا : میں ذلیل بھی کہتا ہوں ، یا سیدی یا غمری لاحِظنی “ اے میرے سردار! اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو ، ان کا یہ کہنا ہے کہ حضرت سیّدی محمد غمری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی ، مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۔ (لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار ترجمہ الشیخ محمد الغمری جلد 2 صفحہ 88 مصر)   

لواقح الانوار فی طبقات الاخیار میں ہے : حضرت سیدی محمدشمس الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے ” من کانت حاجۃ فلیأت الی قبری و یطلب حاجتہ اقضھا لہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل ۔
ترجمہ : جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کر دے ، وہ مرد کا ہے کا ۔ (لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، ترجمہ سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی جلد 2 صفحہ 96 مصر,چشتی)

شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوی میں ہے : سئل عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان و نحو ذالک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اغاثۃ بعد موتھم ام لا ؟فاجاب بما نصہ ان الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصالحین جائزۃ وللانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثۃ بعد موتھم ۔
ترجمہ : ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء و مرسلین واولیاء و صالحین سے فریاد کرتے اور یاشیخ فلاں (یارسول اللہ ، یاعلی ، یا شیخ عبدالقادر جیلانی) اوران کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اور اولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں ۔ (فتاوی رملی مسائل شتی تفضیل البشر علی الملائکہ جلد 4 صفحہ 382 مکتبۃ الاسلامیہ)

مسلمان اللہ عزوجل کے نیک بندوں سےجو مدد مانگتے ہیں ، وہ ان کو واسطہ  وصولِ فیض اوروسیلہ قضائے حاجات سمجھتے ہیں کہ اولیاء اللہ مانگنے والے اوررب عزوجل کے درمیان  واسطہ ہیں ، وہ اللہ عزوجل کی مدد کے مظہر ہیں اوریہ قطعاً یقیناً درست ہے کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں ”وابتغوا الیہ الوسیلۃ“ یعنی اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ کا حکم فرمایا ہے ۔ حقیقی استعانت صرف اللہ عزوجل کے ساتھ خاص ہےکہ وہ قادر بالذات و مالک مستقل و غنی بے نیاز ہے ۔ استعانت حقیقیہ کا اعتقاد اگر کوئی کسی ولی کےلیے رکھے ، تویہ شرک ہے ۔ بحمداللہ کوئی مسلمان بھی اس معنیٰ کا اعتقاد کسی ولی کےلیے نہیں رکھتا ۔ امام اہلسنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات و مالک مستقل و غنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتا ہے ، اس معنیٰ کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنیٰ کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصولِ فیض و ذریعہ و وسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے ۔ خود رب العزت تبارک وتعالی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا : وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۔ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔ بایں معنیٰ استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصر ایاک نستعین کے منافی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 303 رضافاونڈیشن لاہور)

فتاوی رضویہ میں ہے : استعانت بالغیر وہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہرِ عونِ الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے ، اور اگر مظہرِ عونِ الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتا ہے تو شرک و حرمت بالائے طاق ، مقامِ معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء علیہم السلام و اولیاء علیہم الرحمہ نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 325 رضافاؤنڈیشن لاہور)

قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب ” یا رسول اللہ انظرحالنا ‘ یا نبی اللہ اسمع قالنا “ کے جواز یاعدم جواز کی بحث میں لکھتے ہیں : یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ ندا غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کہ حق تعالیٰ انکو مطلع فرما دیوے گا یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہو جاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا کہ درود کی نسبت وارد ہے ‘ یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں ‘ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک ہیں نہ معصیت مگر ہاں بہ وجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ابہام بھی ہے ‘ لہٰذا نہ ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مولف پر طعن ہوسکتا ہے (الی قولہ) مگر اسی طرح پڑھنا اور پڑھوانا کہ اندیشہ عوام کا ہو بندہ پسند نہیں کرتا گو اس کو معصیت بھی نہیں کہہ سکتا مگر خلافِ مصلحت وقت کے جانتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل صفحہ ٢٨ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)

گو یامحمد یارسول اللہ کے نعروں سے علماء دیوبند کا منع کرنا ذاتی نا پسندیدگی کی وجہ سے ہے کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ شیخ گنگوہی سے سوال کیا گیا : 

سوال : اشعار اس مضمون کے پڑھنے : ” یا رسول کبریا فریاد ہے ‘ یا محمد مصفطے فریاد ہے ‘ مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے “ کیسے ہیں ؟ 
جواب : ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال سے جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کے شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقائد کو فاسد کرتے ہیں ‘ لہٰذا مکروہ ہوں گے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٩٥ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)

عام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب نہیں سمجھتے ‘ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ البتہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے آپ پر حقائق غیبیہ منکشف ہو جاتے ہیں جس طرح ہم کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے ہم پر عالم شہادت کے واقعات منکشف ہوجاتے ہیں ‘ نہ ہم بذاتہ شہادت (عالم ظاہر) کے عالم ہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتہ غیب کے عالم ہیں ۔ ہم پر اللہ تعالیٰ نے عالم شہادت منکشف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ عزوجل نے عالم غیب بھی منکشف کیا ۔ یہی عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور شیخ گنگوہی کی تصریح کے مطابق یہ شرک اور معصیت نہیں ہے بلکہ جائز ہے ‘ علماء اہل سنت اپنی تقاریر اور تصانیف میں عوام کو یہ فرق ہمیشہ سے ہر دور میں بتاتے رہتے ہیں اور عام مسلمان اس فرق کو جانتے ہیں ‘ اس لیے عوام کے جلسوں میں بھی اس قسم کے اشعار پڑھنا جائز ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتا ہے اور اس کی عبادت بجا لاتا ہے اس کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستقل سامع یا مستقل عالم گردانتا ہے ‘ البتہ ذاتی ناپسندیدگی کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔

قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں : اور اولیاء کی نسبت بھی یہ عقیدہ ایمان ہے کہ حق تعالیٰ جس وقت چاہے ان کو علم و تصرف دیوے اور عین حالت تصرف میں حق تعالیٰ ہی مصرف ہے ‘ اولیاء ظاہر میں مصرف ہی معلوم ہوتے ہیں ‘ عین حالت کرامت و تصرف میں حق تعالیٰ ہی ان کے واسطے سے کچھ کرتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل صفحہ ٤٩ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)

علامہ محمود الحسن دیوبندی (آیت) ” ایاک نستعین “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ‘ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے ۔ (حاشیتہ القرآن الحکیم صفحہ نمبر ٢ مطبوعہ تاج کمپنی ‘ کراچی،چشتی)

مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روانہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے ‘ کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں ۔ (معارف القرآن ‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف ‘ کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ : دعا میں بحق رسول وولی اللہ کہنا ثابت ہے یا نہیں ‘ بعض فقہا ومحدثین منع کرتے ہیں ‘ اس کا کیا سبب ہے ؟ 
جواب : بحق فلاں کہنا درست ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو تو نے اپنے احسان سے وعدہ فرمالیا ہے اس کے ذریعہ سے مانگتا ہوں مگر معتزلہ اور شیعہ کے نزدیک حق تعالیٰ پر حق لازم ہے اور وہ بحق فلاں کے یہی معنی مراد رکھتے ہیں ‘ سو اس واسطے معنی موہم اور مشابہ معتزلہ ہوگئے تھے ‘ لہذا فقہاء نے اس لفظ کا بولنا منع کردیا ہے تو بہتر ہے کہ ایسا لفظ نہ کہے جو رافضیوں کے ساتھ تشابہ ہوجاوے فقط ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل صفحہ ٩٤ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)

علاّمہ محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہاں ہم صرف ” المہند “ کی عبارت پر اکتفاء کرتے ہیں جو علماء دیوبند کے نزدیک ایک اجماعی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 
جواب : ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء واولیاء و صدیقین کا توسل جائز ہے ‘ ان کی حیات میں یا بعد وفات کے بایں طور کہے کہ یا اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں ‘ اسی جیسے اور کلمات کہے ‘ چناچہ اس کی تصریح فرمائی ہے ہمارے مولانا محمد اسحاق دہلوی ثم المکی نے ‘ پھر مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی میں اس کو بیان فرمایا ہے جو چھپا ہوا آج کل لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اور یہ مسئلہ اس کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ٩٣ پر مذکور ہے ‘ جس کا جی چاہے دیکھ لے ۔ (انتہٰی المہند صفحہ ١٢ ۔ ١٣) (تسکین الصدور صفحہ ٤١٣ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ)

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : (ف) اس سے توسل بعد الوفات بھی ثابت ہوا اور علاوہ ثبوت بالروایۃ کے درایۃ بھی ثابت ہے کیونکہ روایت اول کے ذیل میں جو توسل کا حاصل بیان کیا گیا تھا ‘ وہ دونوں حالتوں میں مشترک ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ ٢٥٣ مطبوعہ تاج کمپنی کراچی)

حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کےلیے درخواست کی تھی اس کے متعلق دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں اور حافظ ابن کثیر ‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس روایت کو صحیح کہتے ہیں ‘ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٧ ھ اور ١٨ ھ کی ابتداء (تاریخ طبری جلد ٤ صفحہ ٩٨‘چشتی)(البدایہ والنہایہ جلد ٧ صفحہ ٩١) ۔ اور مورخ عبدالرحمان بن محمد بن خلدون (المتوفی ٨٠٨ ھ) فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٨ ھ کا ہے ۔ (ابن خلدون جلد ٢ صفحہ ٩٦٩)

یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات سے تقریبا سات آٹھ سال بعد پیش آیا ‘ اس وقت بکثرت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے ۔ خواب دیکھنے والے کوئی مجہول شخص نہیں تھے ‘ بلکہ جلیل القدر صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی (المتوفی ٦٧ ھ) رضی اللہ عنہ تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہو کر طلب دعا اور سوال شفاعت شرک نہیں ورنہ یہ جلیل القدر صحابی یہ کارروائی ہرگز نہ کرتے ۔ یہ معاملہ نرے خواب کا نہیں ہے بلکہ اس سچے خواب کو خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید وتصویب حاصل ہے اور اس کارروائی کا حکم پہلے تو ” علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین الحدیث “ کے تحت سنیت کا ہوگا ورنہ استحباب اور اقل درجہ جواز سے کیا کم ہوگا ۔ (تسکین الصدور صفحہ ٣٥٢ ۔ ٣٤٩ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ،چشتی)

نیز یہی دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : علاوہ ازیں متعدد کتابوں میں آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر طلب دعا کا تذکرہ ہے ‘ چناچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک جماعت نے عتبی سے یہ مشہور حکایت نقل کی ہے جس جماعت میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب ” الشامل “ میں بیان کیا ہے کہ عتبی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا ‘ کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے ” اور اگر بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پس وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور ان کے لیے رسول بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے “ اس لیے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگے کے لیے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی پیش کرنے آیا ہوں۔ اس کے بعد اس نے درد دل سے چند اشعار پڑھے اور جذبہ محبت کے پھول نچھاور کرکے چلا گیا ‘ اور اسی واقعہ کے آخر میں مذکور ہے کہ خواب میں اس کو کامیابی کی بشارت بھی مل گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عتبی ! جا کر اعرابی سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ١ صفحہ ٥٢٠) یہ واقعہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کتاب الاذکار “ صفحہ ١٨٥‘ طبع مصر میں اور علامہ ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٧١٠ ھ نے اپنی تفسیر ” مدارک جلد ١ صفحہ ٣٩٩ میں اور علامہ تقی الدین سبکی نے ” شفاء السقام صفحہ ٤٦ میں اور شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے ” جذب القلوب “ میں صفحہ ١٩٥ میں اور علامہ بحرالعلوم عبدالعلی نے ” رسائل الارکان صفحہ ٢٨٠ طبع لکھنؤ میں نقل کیا ہے ‘ اور علامہ علی بن عبد الکافی السبکی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ۔ عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ‘ اس اسی طرح دیگر متعدد علماء نے قدیما وحدیثا اس کو نقل کیا ہے اور تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ مواہب میں بسند امام ابومنصور صباغ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن النجار رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیاررت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیرالرسل ! اللہ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے : (آیت) ” ولوانہم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “ ۔ (النساء : ٦٤) اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے ‘ اور اس محمد بن حرب کی وفات ٢٢٨ ھ میں ہوئی ہے ‘ ١ ھ۔ غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں بس حجت ہوگیا ۔ (نشر الطیب صفحہ ٢٥٤) اور بانی دیوبند جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب یہ آیت کریمہ لکھ کر کہتے ہیں : ” کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں ‘ اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں ‘ ١ ھ ۔ (آب حیات صفحہ ٤٠) اور علامہ ظفر احمد عثمانی دیوبندی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ (اعلاء السنن جلد ١٠ صفحہ ٣٣٠) ان دیوبندی اکابرین کے بیان سے معلوم ہوا کہ قبر پر حاضر ہو کر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے ‘ بلکہ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے ۔ (شفاء القام صفحہ ١٢٨) ، اور خیر القرون میں یہ کارروائی ہوئی مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اس کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ (تسکین الصدور صفحہ ٣٦٥ ۔ ٣٦٢ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم گوجر انوالہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے کو ناجائز ثابت کرنے کے لیے علامہ ابن تیمیہ ‘ علامہ ابن قیم اور شیخ ابن الہادی وغیرہم کی ایک یہ دلیل ہے کہ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘ ائمہ دین اور سلف صالحین سے ایسی کارروائی ثابت نہیں ‘ اگر یہ جائز ہوتی تو وہ ضرور ایسا کرتے ‘ اس کے جواب میں جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہ ان حضرات کا ایک علمی مغالطہ ہے کیونکہ قبر کے پاس حاضر ہو کر سفارش کرانا اور طلب دعا ‘ نہ تو فرض و واجب ہے اور نہ سنت مؤکدہ ‘ تاکہ یہ حضرات اس پر خواہ مخواہ ضرور عمل کر کے دکھاتے اور اس کا رروائی کے نہ کرنے پر وہ ملامت کئے جاتے ‘ اس کارروائی کے مقر اس کو صرف جائز ہی کہتے ہیں اور جواز کے اثبات کے لیے حضرت بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ کا یہ فعل جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تائید کی ہے کیا کم ہے ؟ اگر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما صحابی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں کیا تو یقین جانئے کہ بلال بن الحارث اور ان کی اس کارروائی کے مصدقین بھی صحابہ کرام (رض) ہیں ‘ اگرچہ حافظ ابن تیمیہ یہ کارروائی تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ کارروائی بعض متاخرین سے ثابت ہے ۔ (محصلہ قاعدہ جلیلہ صفحہ ٧٢،چشتی)(تسکین الصدور صفحہ ٣٥٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجر انوالہ)

خلاصہ یہ ہے کہ تمام اکابر اور اصاغر علماءِ دیوبند کے نزدیک یا رسول اللہ کہنا جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مقربین کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ بلکہ سنت اور مستحب ہے اور ہم بھی اس سے زیادہ نہیں کہتے ۔

انبیا کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ سے استمداد کے متعلق جو فقیر چشتی نے احادیثِ مبارکہ اور فقہاء اسلام علیہم الرّحمہ کی عبارات نقل کی ہیں اس سے فقیر کا صرف یہ منشاء ہے کہ عام مسلمان جو شدائد اور ابتلاء میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر پکارتے ہیں ‘ ان کا یہ پکارنا شرک نہیں ہے اور اس نداء کو شرک کہنا شدید ظلم اور زیادتی ہے کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہرحال اللہ کی مخلوق اور اس کا مقرب بندہ گردانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام کا ہر فعل اور ہر تصرف اللہ کے اذن ‘ اس کی مشیت اور اس کی دی ہوئی قدرت کے تابع ہے ‘ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام ہوں یا عام انسان ‘ اس کائنات میں جس سے بھی جو فعل صادر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت سے صادر ہوتی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی انسان کو کسی شے پر ذرہ بھی قدرت نہیں ہے ‘ اور اس اعتقاد کے ساتھ ندائے غیر اللہ کو علماء دیوبند بھی جائز کہتے ہیں ‘ جیسا کہ علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے حوالے سے گزر چکا ہے ۔ اس اعتقاد کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد اور استغاثہ کرنا جائز ہے ۔

شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : البتہ یہ ظاہر ہے کہ جب حقیقی حاجت روا ‘ مشکل کشا اور کارساز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو احسن اور اولی یہی ہے کہ اسی سے مانگا جائے اور اسی سے درخواست کی جائے اور انبیاء علیہم السّلام واولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کا وسیلہ اس کی بارگاہ میں پیش کیا جائے ‘ کیونکہ حقیقت ‘ حقیقت ہے اور مجاز ‘ مجاز ہے ‘ یا بارگاہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے درخواست کی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آسان فرمادے اور حاجتیں برلائے اس طرح کسی کو غلط فہمی بھی پیدا نہیں ہوگی اور اختلافات کی خلیج بھی زیادہ وسیع نہیں ہوگی ۔ (ندائے یا رسول اللہ صفحہ ١٢ مطبوعہ مرکزی مجلس رضا لاہور ١٤٠٥ ھ)

خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہلِ ایمان پر چسپاں کرتے ہیں

محترم قارئینِ کرام : کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔ ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے ۔ خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔

وہابیوں کے محقق ڈاکٹر علی محمد صلابی و وہابی مترجم ابو عبد اللہ لکھتے ہیں : آج کل جوشیلے (وہابیوں) نے خارجیوں کا راستہ اختیار کر لیا ہے بتوں کی مذمّت میں نازل ہونے والی آیات کو اہلِ ایمان و صالحین پر چسپاں کرتے ہیں جن میں تفقہ فی الدین نہیں ہے ۔ (فکرِ خوارج خطرناک فتنوں کی حقیقت مترجم صفحہ نمبر 186)

خوارج کے بارے میں منقول ہے : کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت،چشتی)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)،(صحیح بخاری مترجم جلد سوم صفحہ نمبر 1033،چشتی)،(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)،(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خوارج کو اس لئے اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا آج بھی اوثان اور اصنام والی آیاتِ قرآنیہ کو مقبولانِ الٰہی اور اُن کے محبین اور اُن کا احترام بجا لانے والوں پر چسپاں کرنا اسی طرح قابلِ مذمت نہیں ؟ قابلِ مذمت ہے ، خوارج نے تو حضرت سیدنا علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم جیسی شخصیت کو بھی مشرک کہا جو سرچشمۂ ولایت و روحانیت ہیں ۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی صداقت کا بھی انکار کر دیا تھا اور بغاوت اختیار کرتے ہوئے وہ تاریخِ اسلام کے پہلے بڑے اعتقادی فتنے کا سبب بنے تھے ۔ خوارج نے باقاعدہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شرک کا مرتکب ٹھہرایا اور بزعمِ خویش اِس شرک کو قرآن حکیم کی آیت : إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ. (یوسف، 12 : 40) ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔) سے ثابت کرکے تحکیم کا انکار کیا ۔ اور ہر جگہ یہ نعرہ لگانا شروع کر دیا : لَا حُکْمَ إِلَّاِ ﷲ. ’’حکم کا اختیار صرف ﷲ کو ہے۔‘‘ ان کا اپنے خلاف پراپیگنڈہ دیکھ کر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے واضح فرمایا تھا :کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.ترجمہ:کلمہ تو برحق ہے مگر اِس سے مراد لیا جانے والا معنی باطل ہے ۔ (مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاة، باب التحريض علي قتل الخوارج، 2 : 749، رقم : 1066)(ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939،چشتی)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 171) ۔ اِسی طرح اہلِ ایمان کو آیات کی غلط تعبیر اور اطلاق کے ذریعے مشرک قرار دینے والا موجودہ طبقۂ فکر بھی خوارج ہی کی روش اختیار کئے ہوئے ہے ۔

خارجیوں کے عقائد نظریات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کی نشانیاں

خارجیت دراصل منتشرالخیالی اور منتشرالعملی کا ابلیسی فتنہ ہے جس کی کوکھ سے جہالت ، درندگی ، وحشت و دہشتگردی جنم لیتی ہے ۔ یہ تاریخ اسلام میں یہ فتنہ ابتدائی زمانے میں ہی پیدا ہوگیا تھا جس نے پہلا منظم حملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی مقدس جماعت پر کیا اور (نعوذباللہ) امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو کافر و مشرک قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کردیا ۔ یہ ایک انتہا تھی ۔ قانونِ فطرت کے تحت اس کا رد عمل دوسرے بڑے فتنہ روافض کی صورت میں سامنے آیا جو کہ ایک دوسری انتہا تھی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اعتقادی ، فکری ، کلامی فسادات رونما ہونے میں یہی دو فتنے (خوارج و روافض) کارفرما رہے ۔ البتہ فتنہ خوارج سے آگہی و پہچان قرآن و سنت میں واضح کروا دی گئی ہے ۔ آئمہ تاریخ کی تحقیقات کے مطابق خوارج کے تقریبا بیس مختلف فرقے ہیں لیکن احادیث مبارکہ کی روشنی میں انکے دو گروہ نمایاں ہیں ۔ پہلا نجدیہ دوسرا حروریہ ۔

البتہ تاریخ اسلام میں اہل حق طبقہ ہمیشہ اعتدال، سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، صبر ، قربانی ، باہمی رواداری اور جمعیت کا دامن تھامے نظر آتا ہے ۔ جسے عام اصطلاح یں ’’اہلسنت و جماعت‘‘کہا جاتا ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا ۔ (صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم)

صحیح بخاری کی کتاب ’استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم (باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے اور ان کے قتل کا بیان)‘ کے باب ’قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم (خارجیوں اور بےدینوں سے ان پر دلیل قائم کر کے لڑنا)‘ کے تحت امام بخاری سب سے پہلے سورہ التوبہ (9) کی آیت نمبر 115 تحریر کرتے ہیں ، وقول الله تعالى ‏: ‏وما كان الله ليضل قوما بعد إذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون‏ ۔ ترجمہ : اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کےلیے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہیے ، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سُورة الْتوبہ 9 ، آیت : 115)

پھر اس آیت کے فوراََ بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کوئی حدیث بیان کرنے کے بجائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وہ قول درج کرتے ہیں جو یوں ہے : وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله وقال إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين‏ ۔ شارحینِ حدیث کے مطابق اس قول میں گمراہ گروہ خوارج کا ذکر ہے ۔

خوارج ہی وہ طبقہ ہے جو کافروں کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتا ہے ۔

خوارج کون ہیں اور ان کے عقائد کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‫: نافع بن الازرق خارجی اور اس کے ساتھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب تک ہم شرک کے ملک میں ہیں تب تک مشرک ہیں اور جب ملک شرک سے نکل جائیں گے تو مومن ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ جس کسی سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا وہ مشرک ہے اور جو ہمارے اس عقیدے کا مخالف ہوا وہ بھی مشرک ہے جو لڑائی میں ہمارے ساتھ نہ ہو وہ کافر ہے ‫۔ ابراہیم الخارجی کا عقیدہ تھا کہ دیگر تمام مسلمان قوم کفار ہیں اور ہم کو اُن کے ساتھ سلام و دُعا کرنا اور نکاح ورشتہ داری جائز نہیں اور نہ ہی میراث میں اُن کا حصہ بانٹ کر دینا درست ہے ۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے بچے اور عورتوں کا قتل بھی جائز تھا کیونکہ اللہ تعالٰی نے یتیم کا مال کھانے پر آتش جہنم کی وعید سنائی ہے لیکن اگر کوئی شخص یتیم کو قتل کر دے یا اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے یا اس کا پیٹ پھاڑ ڈالے تو جہنم واجب نہیں ۔ (تلبس ابلیس علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ صفحہ 126 ، 127،چشتی)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں خارجیوں کی نشانیاں : ⬇

(1) أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے ۔
(بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066)

(2) سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے ۔

(3) کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے ۔

(4) مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے ۔

(5) يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے ۔

(6) لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔

(7) لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔

(8) يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673،چشتی)

(9) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری) تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا ۔

(10) لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)

(11) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ . وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی ۔

(12) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔

(13) يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا ۔

(14) يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج) وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا ۔

(15) يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے ۔ (بخاری)

(16) يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی ۔ (طبرانی)

(17) يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765،چشتی)

(18) هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے ۔ (مسلم)

(19) يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے ۔
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.

(20) يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ . وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا ۔ (متفق علیہ)

(21) يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ . وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔ (متفق علیہ)

(22) يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے ۔ (مسلم)

(23) يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ . (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها) ۔ وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔) (حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657)

(24) يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه) . وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے ۔ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما) (امام طبری۔عسقلانی)

(25) يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی ۔ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)

(26) ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ . (من قول ابن عمر رضی الله عنهما) (بخاری) ۔ وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں ۔ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)

(27) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ . وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے ۔

(28) اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا ۔ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066،چشتی)

(29) وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے ۔ (ترمذی)

(30) کلاب النار ۔۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں ۔ (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶

متعدد احادیث مبارکہ میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کے گروہ امت مسلمہ کے اندر یکے بعد دیگرے نکلتے رہیں گے۔ حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ جا کر ملے گا ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یخرج قوم من قبل المشر یقروون القرآن ، لایجاوز تراقیم کلما قطع قرن نشا قرن، حتی یخرج فی بقیتھم الدجال ۔

ترجمہ : مشرق کی طرف سے کئی لوگ نکلیں گے ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اترے گا، جب ایک شیطانی سینگ یعنی دہشت گرد گروہ کو کاٹ دیا جائے گا تو دوسرا نکلے گا ، یعنی گروہ در گروہ پیدا ہوتے رہیں گے ۔ حتی کہ ان کے آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا ۔ (احمد بن حنبل المسند۔ ۲، ۲۰۹، رقم ۶۹۵۲)(طبرانی المعجم الاوسط۔ ۷: ۴۱، رقم ۶۷۹۱،چشتی)(امام حاکم المستدرک ۔ ۴: ۵۵۶، رقم ۸۵۵۸)

خارجیوں کے مسلمانوں پر شرک کے فتوے :⬇

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی یہ روایت پڑھیں ۔ میں نےاس کے دیگرحوالہ جات بھی دے دیئے ہیں ۔ اسکے بعد قرآن مجید کھولیں وہ آیات پڑھیں اپنے عقیدے و عمل پر غور کریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنیوالے اس کی شرح کرنیوالوں تمام پر اپنے احکامات لاگو کریں ۔ روایت یہ ہے ۔ أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَوْلُ ﷲِ تَعَالَي : (وَمَا کَانَ ﷲُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّي يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ) (التوبة، 9 : 115) وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ . وقال العسقلاني في الفتح : وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد ﷲ بن الأشج : أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَي ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَةِ ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ ﷲِ، انْطَلَقُوْا إِلَي آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ.
قلت : وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضي الله عنه في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَاءِشَةَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضي الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.وفي رواية عبيد ﷲ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم : مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ ﷲِ إِلَيْهِ.وفي حديث عبد ﷲ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَي أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا . وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ . و هذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم ۔
ترجمہ : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان (ترجمۃ الباب) کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : ﷲ تعالیٰ کا فرمان : ’’اور ﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے ۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘ اور عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما ان (خوارج) کو ﷲ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے ۔ (کیونکہ) انہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا ۔
اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد ﷲ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں ﷲ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے ﷲ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا ۔ میں ’’امام عسقلانی‘‘ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے ۔
اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے ۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے ۔

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔

اور امام مسلم نے عبیدﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) ﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں ۔

اور امام طبرانی کے ہاں عبدﷲ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں۔‘‘ ایسا تین دفعہ فرمایا۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے ۔

ہر بات پر بلاوجہ ، بلا تحقیق داد و تحسین دینے والو اپنےطریق کار پر غور کرو اپنےحسد ، تعصب،جہالت،کم علمی اور لادینیت سے قرآن مجید کی تعلیمات کو مسخ کرنیکی سزا کا بھی کبھی تصور کر لیا کرو ۔ ہر واعظ بدبخت کی بات مان کر اپنے عقیدے گھڑتے ہو ۔
دوسروں پر شرک کے فتوے لگاتے ہو اپنے کو سب سے بڑا مومن گردانتے ہو ۔ ذرا ان احادیث کو بھی غور سے پڑھو ۔ پھر دیکھو کہاں کھڑے ہو ۔(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539،چشی)(مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 / 750، الرقم : 1067، وفي کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765)(والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم : 4103، وابن ماجه في السنة، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 170، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم : 11133، 13362، 4 / 421، 424)

عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّي إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَي مَاشَاءَ ﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَي عَلَي جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ ﷲِ، أَيُّهُمَا أَوْلَي بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي.رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک ﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے ﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا۔(أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، وفي مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم : 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، وقال : إسناده حسن، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266۔چشتی)

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ أَقْوَامٌ مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْمَنَاوِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، والمناوي في فيض القدير، 4 / 118)

ذکر ابن الأثير في الکامل : خَرَجَ الْأَشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلَي النَّاسِ حَتَّي مَرَّ عَلَي طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أُدَيَةِ أَخُوْ أَبِي بِلَالٍ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ : تَحَکَّمُوْنَ فِي أَمْرِ ﷲِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ ۔
ترجمہ : امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ تعالیٰ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا ۔ (أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 5 / 123۔چشتی)

عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه أَنَّهُ کَتَبَ إِلَي الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ : بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ ﷲِ عَلِيٍّ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَي زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ ﷲِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ. أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ ﷲِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًي مِنَ ﷲِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسُّنَّةِ وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِيءَ ﷲُ مِنْهُمَا وَرَسُوْلُهُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأَقْبِلُوْا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُوْنَ إِلَي عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلَي الْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.فَکَتَبُوْا (الخوارج) إِلَيْهِ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلَي نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلَي سَوَاءٍ، إِنَّ ﷲَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.فَلَمَّا قَرَأَ کِتَابَهُمْ أَيِسَ مِنْهُمْ وَرَأَي أَنْ يَدَعَهُمْ وَيَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّي يَلْقَي أَهْلَ الشَّامِ حَتَّي يَلْقَاهُمْ.رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأَثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب اہل ایمان ان سے بری ہو گئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں ۔ اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کے لئے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہلِ شام سے جا ملے ۔ (أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117،چشتی)(ابن الأثير في الکامل، 3 / 216)(ابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287)(ابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132)

عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ أَنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَبَقِيَ إِلَي أَيَامِ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه. ثُمَّ أَتَي إِلَي زِيَادِ بْنِ أَبِيْهِ وَمَعَهُ مَولَي لَهُ، فَسَأَلَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : کُنْتُ أَوَالِيَ عُثْمَانَ عَلَي أَحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأَحْدَاثِ الَّتِي أَحْدَثَهَا، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَأَلَهُ عَنْ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنه فَقَالَ : کُنْتُ أَتَوَلَّاهُ إِلَي أَنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأْتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَشَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَأَلَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا... فَأَمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ ۔
ترجمہ : زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک انہیں میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ تو وہ انہیں سخت گالیاں دینے لگا۔۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا ۔ (أخرجه عبدالکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137)

عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ أَنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوْسِ وَشَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أَحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأَخَذَهُ أَبُوْهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ : أَلَمْ تَرَ أَنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّي رَجَعَ عَنْ رَأْيِهِمْ فَرَدَّ ﷲُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَتَابَ.رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دستِ مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور اسے وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں۔ پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے سچی توبہ کر لی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856،چشتی)(ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904)(الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال : رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق)(عسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972)

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ : سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ ، أَوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ ۔ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ) ۔ أَوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ : ضَعْ عَنْ رَأْسِکَ ، فَإِذَا لَهُ وَفْرَةٌ ، فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه : أَمَا وَﷲِ لَوْ رَأَيْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ ، ثُمَّ قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ إِلَي أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَوْ قَالَ إِلَيْنَا. أَنْ لَا تُجَالِسُوْهُ ، قَالَ : فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِائَةٌ تَفَرَّقْنَا.رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’ الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ ‘‘ کے کیا معنی ہیں ؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو ، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے ۔ انہوں نے فرمایا : بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں ۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہو جاتے تھے ۔ (ابنِ تيمية في الصارم المسلول جلد 1 صفحہ 195) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔