Tuesday 2 April 2024

باجماعت نماز کےلیے صفوں کی ترتیب اور صف بندی کے احکام

0 comments
باجماعت نماز کےلیے صفوں کی ترتیب اور صف بندی کے احکام
محترم قارئین کرام : باجماعت نماز کےلیے صف کی ترتیب اس طرح ہو کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے پھر دوسری پھر تیسری علی ھٰذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أَتِمُّوا الصَّفَّ المُقَدَّمَ ثُمَّ الَّذِي يَلِيْهِ فَمَا کَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْيَکُنْ فِی الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلاة باب تسوية الصفوف جلد 1 صفحہ 258 ۔ 259 رقم : 671)
ترجمہ : پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف پس اگر صفوں میں کوئی کمی کی رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو ۔

اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی و گناہ ہے ، البتہ اگر صف دونوں کونوں تک مکمل ہو چکی ہو ، تو بہتر یہ ہے کہ پچھلی صف میں تنہا نماز شروع نہ کرے ، بلکہ رکوع تک کسی کے آنے کا انتظار کرے ، کوئی آ جائے ، تو دونوں مل کر صف بنا لیں ، اگر کوئی بھی نہ آئے اور رکعت فوت ہونے کا خوف ہو ، تو اگلی صف میں قریب سے کسی نمازی کو کھینچ لے اور اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے ، لیکن خیال رہے کہ جسے کھینچے وہ اس مسئلے کو جانتا ہو اور بہتر ہے کہ اچھے اخلاق والا بھی ہو کہ  کہیں مسئلہ نہ جاننے کے سبب اِس کے کھینچنے کی وجہ سے وہ اپنی نماز ہی توڑ بیٹھے اور غصے کی وجہ سے سمجھنے سے پہلے لڑائی ہی شروع نہ کردے ۔ یہاں علماء فرماتے ہیں کہ چونکہ ہمارے زمانے میں دینی مسائل سے ناواقفیت عام ہے ، لہٰذا اس زمانے کے اعتبار سے بہتر یہ ہے کہ اگلے نمازی کو نہ کھینچا جائے ، بلکہ تنہا ہی نماز شروع کر دے ۔ بہر حال اگر کسی نے بلا عذر بھی صف میں تنہا کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی ، تو اس کی نماز ہو  جائے گی، اگرچہ بلا عذر ایسا کرنا گناہ ہے ۔

اگر مردوں ، بچوں ، مخنثوں اور عورتوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے ۔ آگے مرد کھڑے ہوں ، پیچھے بچے ، پھر مخنث اور اس کے بعد عورتیں ۔ سمجھدار نابالغ بچوں کی صف مَردوں کی صف سے پیچھے بنانے کا حکم ہے تاہم اگر کوئی سمجھدار نابالغ ایک بچہ مَردوں کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے تو اس سے اس صف میں موجود یا اس بچے کے بالکل پیچھے پچھلی صف کے نمازی کی نماز میں کچھ اَثر نہیں پڑتا اور ایسے ایک بچے کو مَردوں کی صف میں کھڑا ہونا بھی جائز ہے ۔ امام اہلِ سنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس ضِمن میں اپنے ایک فتوے میں کلام کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اور یہ بھی کوئی ضروری اَمرنہیں کہ وہ صف کے بائیں ہی ہاتھ کو کھڑاہو علماء اسے صف میں آنے اور مَردوں کے درمیان کھڑے ہونے کی صاف اجازت دیتے ہیں ۔ درمختار میں ہے : لَوْوَاحِداً دَخَلَ فِیْ الصَّفِّ ۔ (یعنی اگر بچہ اکیلا ہو توصف میں داخل ہو جائے) مراقی الفلاح میں ہے : اِنْ لَمْ یَکُنْ جَمْعٌ مِنَ الصِّبْیَانِ یَقُوْمُ الصَّبِیُّ بَیْنَ الرِّجَال ۔ (اگر بچے زیادہ نہ ہوں تو بچہ مَردوں کے درمیان کھڑا ہو جائے) بعض بے عِلْم جو یہ ظُلم کرتے ہیں کہ لڑکا پہلے سے داخلِ نماز ہے ، اب یہ آئے تو اسے نیت بندھا ہوا ہٹا کر کنارے کر دیتے اور خود بیچ میں کھڑے ہو جاتے ہیں یہ محض جہالت ہے ، اسی طرح یہ خیال کہ لڑکا برابر کھڑا ہو تو مرد کی نماز نہ ہو گی غلط و خطا ہے جس کی کچھ اصل نہیں ۔ فتح القدیرمیں ہے : اَمَّا مُحَاذَاۃُ الْاَمْرَدِ فَصَرَّحَ الْکُلُّ بِعَدَمِ اِفْسَادِہٖ اِلَّامَنْ شَذَّ وَلَامُتَمَسِّکَ لَہُ فِی الرِّوَایَۃِ کَمَا صَرَّحُوْا بِہٖ وَلَا فِی الدِّرَایَۃ ۔ (بے ریش بچے کے مَحاذِی ہونے پر تمام علماء نے تصریح کی ہے کہ نماز فاسد نہ ہوگی مگرشاذ طور پر کوئی فسادِ نماز کاقائل ہے اور اس کےلیے کوئی دلیل نہ روایت میں ہے جیسا کہ فقہا نے اس کی تصریح کی ہے اور نہ ہی درایت میں ہے) ۔ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وعِلْمُہُ جَلَّ مَجْدُہُ اَتَمُّ وَاَحْکَم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 7 صفحہ 51،چشتی)

پہلے اگلی صف مکمل کرنے کا حکم ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اتموا الصف المقدم، ثم الذي يليه ، فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر ۔
ترجمہ : (پہلے) اگلی صف  مکمل کرو، پھر اسے جو اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے ، پس جو کمی ہو وہ آخری صف میں ہو ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب تسویۃ الصفوف جلد 1 صفحہ 107 مطبوعہ لاھور)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : عن عطاء في الرجل يدخل المسجد وقد تم الصف قال : ان استطاع ان يدخل في الصف دخل والا اخذ بيد رجل ، فاقامه معه ولم يقم وحده ۔
ترجمہ : حضرت عطاء بن رباح رضی اللہ عنہ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو مسجد میں آئے اور صف پوری ہو چکی ہو کہ اگر اسے (اگلی) صف میں داخل ہونا ، ممکن ہو ، توداخل ہو جائے ، ورنہ کسی شخص کا ہاتھ پکڑے اور اپنے ساتھ کھڑا کر لے ، تنہا کھڑا نہ ہو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلوۃ التطوع ۔۔ الخ جلد 2 صفحہ 34 مطبوعہ عرب شریف)

بدائع الصنائع میں ہے : وينبغي اذا لم يجد فرجة ان ينتظر من يدخل المسجد ليصطف معه خلف الصف، فان لم يجد احدا وخاف فوت الركعة جذب من الصف الى نفسه من يعرف منه علما و حسن الخلق لكي لا يغضب عليه ، فان لم يجد يقف حينئذ خلف الصف بحذاء الامام ۔
ترجمہ : مقتدی جب اگلی صف میں جگہ نہ پائے ، تو اسے چاہیے کہ کسی کے مسجد میں داخل ہونے کا انتظار کرے تاکہ اس کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو سکے ، پس اگر کوئی بھی نہ ملے اور رکعت کے فوت ہونے کا خوف ہو ، تو اگلی صف میں سے کسی ایسے شخص کو کھینچ لے جو مسئلہ جاننے والا اور خوش اخلاق ہو ، تا کہ وہ دوسرا شخص کھینچنے والے پر غصہ نہ کرے ، پس اگر ایسا شخص بھی نہ پائے ، تو اس صورت میں امام کے پیچھے تنہا کھڑا ہو جائے ۔ (بدائع الصنائع کتاب الصلوة باب بیان ما یستحب فی الصلوة وما یکرہ جلد 1 صفحہ 218 مطبوعہ بیروت،چشتی)

مجمع الانہر میں ہے : لکن الاولی فی زماننا القیام وحدہ لغلبۃ الجھل ، فانہ اذا جذب احداً ربما افسد صلاتہ ۔
ترجمہ : لیکن ہمارے زمانے میں جہالت عام ہونے کی وجہ سے اولیٰ یہ ہے کہ نمازی اکیلا کھڑا ہو جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کو کھینچے تو وہ اپنی نماز فاسد کر دے ۔ (مجمع الانھر کتاب الصلوۃ جلد 1 صفحہ 188 مطبوعہ کوئٹہ)

فتاویٰ فقیہ ملت میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ہے : اگر پہلی صف پُر (مکمل) ہو چکی ہے ، تو آنے والا شخص دوسرے کے آنے کا انتظار کرے ، اگر کوئی نہیں آیا اور امام رکوع میں چلا گیا ، تو وہ صفِ اول سے جو اس مسئلہ کا جانکار ہو ، کھینچ کر دوسری صف میں اپنے ساتھ ملا کر کھڑا ہو جائے اور اگر ایسا شخص نہیں جو اس مسئلہ کا جانکار ہو ، تو وہ اکیلے امام کی سیدھ میں کھڑا ہو سکتا ہے اور اگر بلا عذر بھی اکیلے کھڑا ہو جائے ، تو بھی نماز ہو جائے گی ۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد 1 صفحہ 157 شبیر برادرز لاھور)

اِعتکاف کےلیے اگر مسجِد میں پردہ لگائیں توکم سے کم جگہ گھیریں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر (مسجِد میں) چیزیں رکھے جن سے نَماز کی جگہ رُکے تو سخت ناجائز ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۸ صفحہ ۹۷)

صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر رکھنا  یعنی آپس میں ایسے مل کر کھڑا ہونا  واجب ہے کہ درمیان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو ، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں نمازکی صفوں کے حوالے سے تین چیزوں کی بہت زیادہ تاکید ہے : ⏬

(1) تسویہ : یعنی نماز کی صفیں بالکل سیدھی ہوں اس طرح  کہ مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں ، سب کی گردنیں ، شانے (کندھے) اور ٹخنےایک سیدھ میں ہوں ۔

(2) اتمام : یعنی جب تک اگلی صف مکمل  نہ ہو جائے ، اُس وقت تک دوسری صف شروع نہ کی جائے ۔

(3) تراصّ : یعنی نمازی ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کر کھڑے ہوں ، اس طرح کہ ایک کا کندھا  دوسرے کے کندھے کے ساتھ  ملا ہو ، ان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو ۔ یہ تینوں چیزیں واجب ہیں ، بِلاعذرِ شرعی ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنا ، ناجائز اور گناہ ہے ۔ البتہ صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے ، تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ  واجب نہیں ہو گا ۔

نماز میں صفوں کے مذکورہ واجبات کے چند دلائل  درج ذیل ہیں : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  تسویۂ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا : سووا صفوفکم ۔
ترجمہ : اپنی صفیں سیدھی کرو ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 182 مطبوعہ کراچی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتمامِ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا : اتموا الصف المقدم ثم الذی يليه فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر ۔
ترجمہ : آگے والی صف کو مکمل کروپھر اس کے بعد والی کو ، پس جو کمی ہو ، وہ آخری صف میں ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 21 صفحہ 114 مؤسسۃ الرسالہ بیروت،چشتی)

ایک اور حدیث میں تراص یعنی خوب مل کر کھڑا ہونے کا حکم دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الا تصفون خلفی کما تصف الملائکۃ عند ربھم ؟ قالو ! وکیف تصف الملائکۃ عند ربھم ؟ قال : یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون فی الصف ۔
ترجمہ : تم میرے پیچھے اس طرح صف کیوں نہیں بناتے ، جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور  صف بناتے ہیں ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا : فرشتے اپنے رب کے حضور کیسے صف بناتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا : وہ اگلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 106 مطبوعہ لاھور)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ  صف کے واجبات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : دربارۂ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیدِ اکید ماموربہ ہیں اور تینوں آج کل معاذاللہ کالمتروک ہو رہی ہیں ، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے ۔ اول تسویہ کہ صف برابر ہو ، خم نہ ہو ، کج نہ ہو ، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں ، سب کی گردنیں ، شانے ، ٹخنے آپس میں محاذی ایک خط مستقیم پرواقع ہوں جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر قبلہ معظمہ پر گزرا ہے ، عمود ہو ۔
 دوم : اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو ، دوسری نہ کریں ، اس کا شرع مطہرہ کو وہ اہتمام ہے کہ اگرکوئی صف ناقص چھوڑے ، مثلاً ایک آدمی کی جگہ اس میں کہیں باقی تھی ، اسے بغیر پورا کیے پیچھے اور صفیں باندھ لیں ، بعد کو ایک شخص آیا ، اس نے اگلی صف میں نقصان پایا ، تو اسے حکم ہے کہ ان صفوں کو چیرتا ہوا جا کر وہاں کھڑا ہو اور اس نقصان کو پورا کرے ، کہ انہوں نے مخالفتِ حکم شرع کر کے خود اپنی حرمت ساقط کی ۔ جو اس طرح صف پوری کرے گا ، اللہ تعالی اس کےلیے مغفرت فرمائے گا ۔
سوم : تراص یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ سے شانہ چھلے ۔ اللہ عزوجل فرماتاہے : صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرْصُوۡصٌ ۔ ترجمہ : گویا وہ عمارت ہے رانگاپلائی ہوئی ۔ رانگ پگھلا کر ڈال دیں ، تو سب درزیں بھرجاتی ہیں ، کہیں رخنہ فرجہ نہیں رہتا ، ایسی صف باندھنے والوں کو مولی سبحانہ و تعالی دوست رکھتا ہے ۔ یہ بھی اسی اتمامِ صفوف کے متممات سے اور تینوں امر شرعاً واجب ہیں ۔ کماحققناہ فی فتاوٰنا وکثیر من الناس عنہ غافلون ۔ ترجمہ : جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی  تحقیق کر دی ہے اور بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 7 صفحہ 219 تا 223 رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے ، تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ  واجب نہیں ہو گا ۔ چنانچہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ مدینہ طیبہ تشریف لائے ، تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ہمارے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے خلاف کون سی بات دیکھی ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ما انکرت شیئاً الا انکم لا تقیمون الصفوف ۔ ترجمہ : میں نے ایسی کوئی چیز نہیں  دیکھی ، سوائے اس  بات کے کہ تم صفوں کو سیدھا نہیں کرتے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 100 مطبوعہ کراچی)

اس حدیث  مبارک کے تحت علامہ بدر الدین  عینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ومع القول بوجوب التسوية فتركها لا يضر صلاته لانها خارجة عن حقيقة الصلاة الا ترى ان انس (رضی اللہ عنہ) مع انكاره عليهم لم يامرهم باعادة الصلاة ۔
ترجمہ : اور صف سیدھی رکھنے کے وجوب والے قول کے مطابق بھی اس کا ترکِ نماز میں نقصان پیدا نہیں کرے گا ، کیونکہ یہ نماز کی حقیقت سے خارج ہے ، کیا دیکھتے نہیں کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ  عنہ نے ان کے اس فعل کو ناپسند کرنے کے باوجود انہیں نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 359 مطبوعہ ملتان)

جب اقامت  کہی جائے ، تو اس کے بعد امام کا مقتدیوں کو صفیں درست کرنے کی تلقین کرنایا مخصوص اعلان کرنا کہ جس میں صفوں  کے واجبات کی طرف نمازیوں کوتوجہ دلائی جائے ، یہ بالکل جائز ہے ، بلکہ متعدد احادیثِ مبارکہ سے ثبوت ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقامت ہو جانے کے بعد صفیں درست کرواتے تھے ۔ نیز خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا بھی یہی معمول  تھا ۔

حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بھا القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ  لتستون صفوفکم لیخالفن اللہ بین وجوھکم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرواتے تھے کہ گویا ان کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں ۔ پھر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز کےلیے)تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کےلیے تکبیرِ تحریمہ کہتے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے  اللہ کے بندو ! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان  اختلاف (بغض و عداوت) پیدا کر دے گا ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 182 مطبوعہ کراچی،چشتی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : اقیمت الصلاۃ فاقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بوجھہ قال : اقیموا صفوفکم و تراصوا فانی اراکم من وراء ظھری ۔
ترجمہ : نماز کےلیے اقامت کہی گئی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رُخ  انور سے ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو اور مل کر کھڑے ہو ۔ بلاشبہ میں تمہیں پسِ پشت بھی دیکھتا ہوں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 100 مطبوعہ کراچی)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث  مبارک کے تحت فرماتے ہیں : مما یستفاد منہ جواز الکلام بین الاقامۃ و بین الصلاۃ و وجوب تسویۃ الصفوف وفیہ معجزۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔
ترجمہ : اس حدیث پاک سے یہ مسائل مستفاد (حاصل) ہوتے ہیں کہ اقامت اور نماز کے درمیان کلام کرنا ، جائز ہے اور صفیں سیدھی رکھنا واجب ہے اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (ایک) معجزے کا ثبوت ہے ۔ (عمدۃ القاری جلد 4 صفحہ 355 مطبوعہ ملتان،چشتی)

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین  کا بھی یہی معمول  تھا ۔ چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : روی عن عمر انہ کان یوکل رجلا باقامۃ الصفوف و لا یکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت و روی عن علی و عثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک و یقولان : استووا و کان علی یقول تقدم یا فلان  تاخر یا فلان ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک  شخص کو نماز کی صفیں سیدھی کرنے کےلیے مقرر فرماتے اور اُس وقت تک نماز کی تکبیر نہ کہتے  جب تک کہ وہ خبر نہ دے دیتا کہ صفیں سیدھی ہو چکی ہیں اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ و سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما  سے منقول ہے کہ وہ صفیں سیدھے کروانے کا خاص خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ صفیں سیدھی کر لو اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے  تھے : اے فلاں ! آگے ہو جاؤ ۔ اے فلاں ! پیچھے ہو جاؤ ۔ (جامع ترمذی جلد 1 صفحہ 53 مطبوعہ کراچی،چشتی)

فقیہِ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ ان احادیثِ مبارکہ اور ان جیسی دیگر روایات کے پیشِ نظرارشاد فرماتے ہیں : ان سب احادیث سے معلوم ہوا کہ اقامت کے بعد بھی اگر صفیں درست نہ ہوں ، تو جب تک صفیں درست نہ ہوں ، تکبیرِ تحریمہ میں تاخیر ہو سکتی ہے اور یہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا معمول تھا ۔ (نزھۃ القاری جلد 2 صفحہ 372 فرید بک سٹال لاھور)

نماز صف بندی کے دوران قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کا تحقیقی جائزہ : ⏬

نماز باجماعت کی صف بندی کے سلسلے میں احادیثِ مبارکہ میں بڑی تاکید آئی ہے جیسا کہ اوپر ہم عرض کر آۓ ہیں ۔ احادیثِ مبارکہ میں خوب مل کر ، برابر برابر کھڑے ہونے کو بیان کرنے کےلیے مختلف الفاظ آئے ہیں ، ان کی لفظی تشریح سمجھ لینے کے بعد ان احادیثِ مبارکہ کو سمجھنا قدرے آسان ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا پہلے احادیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں ، پھر ان الفاظ کی تشریح کے بعد اس طرح کی روایات کا صحیح معنی ومطلوب تک پہنچتے ہیں : ⏬

صحیح بخاری میں ہے :  عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ؛ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي ۔ وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ ۔ (صحیح البخاری کتاب الأذان صفحہ 180 رقم الحدیث : 725 ناشر دار ابن کثیر دمشق)

اسی میں ہے : وقال النعمان بن بشیر : رایت الرجل منا یلزق کعبه بکعب صاحبه ۔ (صحیح البخاری کتاب الأذان صفحہ 180 رقم الحدیث : 725 ناشر دار ابن کثیر دمشق،چشتی)

ایک اور حدیث ہے : قال : أقيمت الصلاۃ فأقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوجهه ، قال : أقيموا صفوفکم وتراصوا ۔
((صحیح البخاری کتاب الأذان صفحہ 179 رقم الحدیث : 719 ناشر دار ابن کثیر دمشق)

سنن ابی داؤد میں ہے : عن انس بن مالک عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا ، وحاذوا بالاعناق ،فوالذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنھا الحذف ۔ (سنن ابی داؤد جلد ١ صفحہ ٩٧ کتاب الصلاۃ اصح المطابع)

احادیثِ مبارکہ میں مذکور الفاظ کی تشریح : ⏬

یلزق منکبه بمنکب صاحبه ۔ یلزق ، فعل مضارع ، صیغہ واحد مذکر غائب ، باب: افعال ، معنیٰ : وہ اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے چپکاتے تھے ۔
رصوا صفوفکم ۔ رصوا ،فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ : ایک کو دوسرے سے ملانا ، جوڑنا، مضبوطی کے ساتھ جوڑنا ۔ قرآن مجید میں ہے : کانھم بنیان مرصوص (سورۃ الصف) گویا کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ معنیٰ : اپنی صفیں خوب اچھی طرح ملاؤ ۔
قاربوا ۔ فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ : قریب قریب ہوجاؤ ، اسی طرح ہے : قارب الخطو، قدم سے قدم ملانا ، قدم ملاکر چلنا ۔
حاذوا بالاعناق ۔ حاذوا ، فعل امر ، صیغہ جمع مذکر حاضر ، معنیٰ : گردنوں کو مقابل میں ، برابری کے ساتھ ، سیدھ میں رکھو ۔
تراصوا ۔ فعل امر ، صیغہ جمع مذکر حاضر ، معنیٰ : سیسہ پلائی دیوار ہوجاؤ، خوب جُڑجاؤ، اسی سے ہے: تراص القوم، لوگوں کا لڑائی یا نماز میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑا ہونا ۔

تفہیمِ معنیٰ : ⏬

ان الفاظ کے معانی جب معلوم ہو گئے تو اب غور کرتے ہیں کہ کیا ان کو اپنے ظاہری معنیٰ پر محمول کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہاں ، تو صف بندی کا وہ طریقہ جو دوسری کتب حدیث میں ہے ان پر بھی عمل ہو پائے گا کہ نہیں ؟

پہلی حدیث میں ہے : وکان أحدنا یلزق منکبه بمنکب صاحبه وقدمه بقدمه ۔
ترجمہ : اور ہم میں سے ہر شخص ، اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے ، اور اپنا قدم اس کے قدم سے چپکاتا (ملاتا) تھا ۔ یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ۔

اسی طرح دوسری حدیث ہے : قال النعمان بن بشیر : رایت الرجل منا یلزق کعبه بکعب صاحبه ۔ (صحیح البخاری جلد 1 صفحہ 180)
ترجمہ : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملاتا تھا ۔

ان دونوں حدیثوں میں ”الزاق“ سے مراد ”الزاقِ حقیقی“ نہیں ہو سکتا ، بلکہ محاذات (سیدھ میں ہونا) مراد ہو گا ۔ اس لیے کہ اگر کوئی الزاقِ حقیقی مراد لے گا تو خرابی یہ لازم آئے گی کہ صف بندی کے باب میں جو دوسری احادیث وارد ہیں ان پر عمل نہیں ہو پائے گا ، جب کہ عمل بالحديث کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے تمام تر احادیثِ مبارکہ پر عمل کیا جائے ، کہ اس باب میں اِعمال کا حکم دیا گیا ہے ، اِہمال کا نہیں ۔ بلکہ حقیقی مراد لینے کی صورت میں اسی حدیث پر عمل مشکل ہے ، اس طور پر کہ جس صیغہ سے قدم کا قدم سے الزاق مذکور ہے ، اسی طرح منکب کا منکب سے الزاق بھی منقول ہے اور دونوں کا ایک ساتھ الزاق نہیں ہو سکتا ۔

نیز صفیں درست کرنے کے باب میں کچھ احادیثِ مبارکہ میں ”رکبة“ (گھٹنا ، زانو) اور ”اعناق“ (گردنیں) جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، پھر ان پر عمل کیسے کیا جائے گا ؟ اس لیے کہ رکبة اور اعناق میں الزاقِ حقیقی ناممکن ہے ۔ لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ ان احادیثِ مبارکہ کے الفاظ سے حقیقی معنی مراد نہیں ، بلکہ ان سے محاذات ، صفوں کو سیدھی کرنا مراد ہے ۔

حدیث مذکورہ کی مراد سے متعلق شیخ الاسلام ، امام الشان ، علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمة الله عليه فرماتے ہیں : المراد بذلک المبالغہ فی تعدیل الصف وسد خللہ ۔
ترجمہ : ”الزاق“ سے مراد صف کو برابر کرنے اور خلل پُر کرنے کےلیے مبالغہ ہے ۔ (فتح الباری جلد 2 صفحہ 611 کتاب الاذان باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف ناشر دار طیبہ الریاض،چشتی)

واضح ہوگیا کہ ”الزاقِ قدم“ سے مراد صف کو برابر کرنا اور درمیانی خلا کو پر کرنا ہے ، اس سلسلے میں سنن ابوداؤد کی ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمائیں جسے میں نے اوپر میں حدیث نمبر ٤ کے تحت ذکر کیا ہے ۔

صحابی رسول ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی صفیں مضبوطی کے ساتھ ملاؤ ، انھیں قریب رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ میں رکھو، قسم ہے اس کی جس کی دست قدرت میں میری جان ہے ، میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے ، گویا وہ بھیڑ کا بچہ ہے ۔

اس حدیث میں صفوں کی درستی ، قریب قریب کھڑے ہونے اور ایک نمازی کو دوسرے نمازی کی سیدھ میں رہنے کی تاکید ہے ۔ معلوم ہوا کہ صف بندی ، اصل میں ان باتوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے ۔

خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل مبارک : ⏬

یہی معنیٰ و مراد ، خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و عمل سے ثابت ہے :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صفیں درست کرو، کیونکہ صفوں کا درست کرنا، نماز کی تکمیل سے ہے ۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان صفحہ 179)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے مدینہ تشریف لائے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں کونسی بات ناپسندیدہ پائی ؟ انہوں نے فرمایا : اور تو کوئی خاص بات نہیں ، البتہ یہ کہ تم لوگ صفوں کو سیدھی نہیں کرتے ہو ۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان صفحہ 180)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری صفوں کو سیدھی اور برابر فرماتے تھے ، ایک دن ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کےلیے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہو گئے ، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرما دیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی ، جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو ، ورنہ اللہ تعالٰی تمہارے درمیان مخالفت پیدا کردے گا ۔ (سنن الترمذی جلد1 صفحہ 53 ابواب الصلوۃ ناشر مجلس برکات مبارک پور،چشتی)

امیرالمومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صفوں کو درست کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو متعین کر دیتے ، صفوں کی درستی کی اطلاع کے بعد ہی تکبیر کہتے ۔ حضرت علی و حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔ دونوں کہتے تھے کہ تم سب سیدھے ہو جاؤ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے : تقدم یا فلاں ! تاخر یا فلاں ! فلاں آگے ہو جاؤ ، فلاں پیچھے ہو جاؤ ۔ ( صحیح البخاری کتاب الاذان)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صفیں قائم رکھو اور کندھوں کو برابر رکھو ، خالی جگہ کو پر کرو اور شیطان کےلیے خالی جگہ نہ چھوڑو ۔ جس نے صف کو ملایا ، اللہ عزوجل اس کو ملائے گا اور جس نے صف کو قطع کیا ، اللہ تعالیٰ اس کو قطع کرے گا ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 97 کتاب الصلاۃ)

مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں کی درستی کا کافی اہتمام کرتے تھے ۔ کسی بھی حدیث میں حکم الزاق نہیں ہے ، معلوم ہوا کہ اصل مقصود ٹخنوں سے ٹخنے چپکانا نہیں ، اگر یہ ضروری ہوتا تو ضرور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اس کا حکم دیتے ۔ بلکہ یہ تو ہمارے یہاں کے عرفِ عام میں بھی شامل ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے : (1) ہم آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں ۔ (2) قدم سے قدم ملا کر چلیں ۔ (3) کندھے کندھا ملاکر کھڑے ہوں ۔ تو ان کا مطلب کوئی یہ نہیں لیتا کہ ہمارا قدم فلاں کے قدم کے ساتھ یا ہمارا شانہ فلاں کے شانے کے ساتھ چپکا ہوا ہے ، اسی طرح کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے سے مراد بالکل ایک سیدھ میں کھڑا ہونا یا صف بندی کرنا مراد ہوتا ہے ۔ اسی طرح حدیث میں بھی قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے سے مراد محاذات (سیدھ میں ہونا) ہے ۔ خلاصۂِ کلام یہ ہے کہ شرع میں صف بندی کی بڑی تاکید ہے ، یہ اس انداز میں ہوکہ ایک نمازی کا مونڈھا دوسرے نمازی کے محاذات میں اور اس کا ٹخنہ دوسرے کی بالکل سیدھ میں ہو ۔ جن روایتوں میں الزاق کا حکم ہے ، اس سے مراد محاذات ہے ۔ یہی خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال سے ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔