Thursday, 18 April 2024

نکاح مسیار قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں

نکاح مسیار قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : تفصیلی گفتگو سے پہلے چند باتیں بطور تمہید پیشِ خدمت ہیں : اسلام میں نکاح ایک عبادت کا درجہ رکھتا ہے ، اور اسی کے ساتھ اس میں معاملہ اور معاہدہ کا پہلو بھی ہے ۔ مرد و عورت فریق کے بجائے رفیق کی حیثیت سے پوری زندگی ایک ساتھ رہنے کا ایک خوبصورت ، مضبوط اور پاکیزہ عہد کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کےلیے حلال لباس بن جاتے ہیں اور اس کے سبب مرد پر مہر ، نان ونفقہ اور رہائش کا نظم کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے ذریعے ایک اجتماعی نظام اور خاندان وجود میں آتا ہے  اور کسی بھی اجتماعی نظام میں ایک سربراہ کا ہونا ضروری ہے ورنہ تو نظم برقرار نہیں رہ پائے گا ، مرد کی بعض امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اسے خاندانی نظام کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ، اور اسے پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سسٹم کی حفاظت و رعایت اور تربیت و نگرانی اور مالی ضرورتیں پوری کرے ۔ شریعتِ  مطہرہ میں میاں بیوی کے درمیان نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف جنسی خواہش کی تکمیل نہیں ، بلکہ نکاح جسم و روح کا باہمی رشتہ ہے ، اس مقدس رشتے میں میاں بیوی ایک دوسرے سے  ہمیشہ وابستہ رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں ، میاں بیوی کے اس قدر گہرے تعلق کو قرآنِ کریم نے یوں بیان کیا ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے : هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَّ ۔ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 187)
ترجمہ : وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ : وقوله : هن لباس لكم وأنتم لباس لهن قال ابن عباس و مجاهد و سعيد بن جبير والحسن وقتادة والسدي ومقاتل بن حيان: يعني هن سكن لكم وأنتم سكن لهن، وقال الربيع بن أنس: هن لحاف لكم وأنتم لحاف لهن، وحاصله: أن الرجل والمرأة كل منهما يخالط الآخر ويماسه ويضاجعه، فناسب أن يرخص لهم في المجامعة في ليل رمضان لئلا يشق ذلك عليهم ويحرجوا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 375 مطبوعہ دار الکتب العلمیة)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، حسن ، قتادہ ، سیدی اور مقاتل بن حیان علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ یعنی وہ تمہارے لیے سکون کا باعث ہیں اور تم ان کےلیے سکون کا باعث ہو ، اور ربیع بن انس علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ تمہارے لیے لحاف ہیں اور تم ان کےلیے لحاف ہو ۔

نکاح کا رشتہ  عفت و پاک دامنی کا سبب اور گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے ، اسی وجہ سے  نکاح کو دو تہائی دین کہا گیا ہے ، چنانچہ تفسیر مظہری میں ہے کہ چوں کہ مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے سے لپٹے ہیں اور ہر ایک دوسرے پر لباس کی طرح مشتمل ہو جاتا ہے اس لیے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسر کے لباس سے تشبیہ دی اور یا اس  لیے کہ لباس جس طرح لباس پہننے والے کو چھپا لیتا ہے ، اسی طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کو حرام سے چھپاتے اور روکتے ہیں ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نکاح کرلیا اس نے دو تہائی دین جمع کر لیا ۔ ولما كان الرجل والمرأة يعتنقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه باللباس- او لان اللباس كما يستر صاحبه كذلك يكون كل واحد منهما لصاحبه ستراعما لا يحل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد احرز ثلثى دينه ۔ (تفسیر مظهری جلد 1 صفحہ 203 مطبوعہ مكتبه رشيديه پاكستان،چشتی)

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا مقصد یہ بیان فرمایاہے : مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 25) ۔ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْ اَخْدَان ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 5)  یعنی نکاح کرو اس حال میں کہ تم پاک دامنی چاہتے ہو ، شہوت رانی مقصود نہ ہو اور نہ ہی چوری چھپے یاری لڑانا ۔ اگر نکاح کے وقت شہوت پوری کرنا ہی غرض ہو تو یہ شرعی نکاح کے مقاصد کے خلاف ہے ، جسے نفلی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔

نکاح کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد نسل کی حفاظت ہے ، چنانچہ عظیم مفسر علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ قرآنِ کریم کی آیت  ،،وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ،، کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ : وابتغوا مَا كَتَبَ الله لَكُمْ : أي اطلبوا ما قدره الله تعالى لكم في اللوح من الولد ، وهو المروي عن ابن عباس والضحاك ومجاهد  رضي الله تعالى عنهم وغيرهم . والمراد الدعاء بطلب ذلك بأن يقولوا : اللهم ارزقنا ما كتبت لنا ، وهذا لا يتوقف على أن يعلم كل واحد أنه قدر له ولد ، وقيل : المراد ما قدره لجنسكم والتعبير بما نظراً إلى الوصف كما في قوله تعالى : والسماء وَمَا بناها ۔ (سورہ الشمس : 5) وفي الآية دلالة على أن المباشر ينبغي أن يتحرى بالنكاح حفظ النسل لا قضاء الشهوة فقط لأنه سبحانه وتعالى جعل لنا شهوة الجماع لبقاء نوعنا إلى/ غاية كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية ، ومجرد قضاء الشهوة لا ينبغي أن يكون إلا للبهائم ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 1 صفحہ 462 مطبوعہ دار الکتب العلمیة،چشتی)
ترجمہ : تلاش کرو جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے ، یعنی تلاش کرو جو اللہ تعالی نے تمہاری قسمت میں مباشرت کے ساتھ اولاد لوحِ محفوظ میں لکھ دی ہے اور یہی حضرت ابن عباس ، ضحاک اور مجاہد رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، اور تلاش سے مراد یہ ہے کہ یوں دعا مانگو کہ اے اللہ جو آپ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے وہ رزق (اولاد) عطا فرمائیے ۔ اور اس آیت میں اس بات کی راہ نمائی ہے کہ نکاح کی وجہ سے مباشرت کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے پیشِ  نظر نسلِ انسانی کی حفاظت ہو ، نہ کہ صرف جنسی خواہش کی تکمیل ، اس لیے کہ اللہ ر ب العزت نے  نوعِ انسانی کے بقا کےلیے ہی ہمارے اندر جماع کی شہوت کو پیدا کیا ہے جیسا کہ کھانے کی چاہت کو شخصیت کی بقا  کےلیے بنایا ہے ، اور صرف جنسی خواہش کی تکمیل تو جانوروں کا عمل ہے ۔

وجعل كل من الرجل والمرأة لباسا للآخر لتجردهما عند النوم واعتناقهما واشتمال كل منهما على الآخر أو لأن كلا منهما يستر حال صاحبه ويمنعه من الفجور وعما لا يحل كما جاء في الحديث (من تزوج فقد احرز ثلثى دينه) او المعنى هن سكن لكم وأنتم سكن لهن كما قال تعالى وَجَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها ولا يسكن شىء الى شىء كسكون أحد الزوجين الى الآخر ۔ (تفسیر روح البیان جلد 1 صفحہ 299 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

وقوله تعالى : {وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ} إشارة في تحري النكاح إلى لطيفة، وهي أن الله تعالى جعل لنا شهوة النكاح لبقاء نوع الإنسان إلى غاية، كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية، فحق الإنسان أن يتحرى بالنكاح ما جعل الله لنا سعلى حسب ما يقتضيه العقل والديانة، فمتى تحرى به حفظ النسل وحصن النفس على الوجه المشروع ، فقد ابتغى ما كتب الله له ۔ (تفسیر الراغب جلد 1 صفحہ 399 مطبوعہ كلية الآداب جامعة طنطا)

اسی طرح مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ میں ہے کہ : رابعاً : حفظ النسل ويراد به حفظ النوع الإنساني على الأرض بواسطة التناسل ذلك أن الإسلام يسعى إلى استمرار المسيرة الإنسانية على الأرض حتى يأذن الله بفناء العالم ويرث الأرض ومن عليها . ومن أجل تحقيق هذا المقصد شرع الإسلام المبادئ والتشريعات التالية : شريعة الزواج : فقد شرع الإسلام الزواج ورغب فيه واعتبره الطريق الفطري النظيف الذي يلتقي فيه الرجل بالمرأة لا بدوافع غريزية محضة ولكن بالإضافة إلى تلك الدوافع ، يلتقيان من أجل تحقيق هدف سام نبيل هو حفظ النوع الإنساني وابتغاء الذرية الصالحة التي تعمر العالم وتبني الحياة الإنسانية وتتسلم أعباء الخلافة في الأرض لتسلمها إلى من يخلف بعدها حتى يستمر العطاء الإنساني وتزدهر الحضارة الإنسانية في ظل المبادئ النبيلة والقيم الفاضلة ۔ (مقاصد الشريعة الاسلامية جلد 1 صفحہ 24 مطبوعہ الكتاب منشور على موقع وزارة الأوقاف السعودية)
یعنی : نکاح کی مشروعیت اور اس کی ترغیب اور اس کو فطری طریقہ قرار دینے کی وجہ یہی ہے کہ نوعِ انسانی کی حفاظت ہو  اور ایسی نیک صالح اولاد  کا وجود ہو جو اس عالم کی تعمیر کر سکے ، انسانی زندگی کو بنا سکے اور خلافت کی چادر کو سنبھال سکے ، تاکہ اپنے بعد والے کو یہ امانت حوالہ کر دے ، اور یہ سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں داخل ہو جائے ۔

نکاح کے مقاصد کے حصول اور نوعِ  نسانی کی بقا  کےلیے ضروری ہے کہ  میاں بیوی کا آپس میں تعلق دائمی ہو ، وقتی نہ ہو ، بلکہ عارضی شادی مذہبِ اسلام میں حرام ہے ۔ ہر چمکدار چیز موتی اور ہر سرخ دھات سونا نہیں ہوتی ، فی زمانہ شیطانی کاوشوں سے نت نئے فتنے جنم لیتے ہیں اور فتنہ پرور اتنی اخلاقی جرات نہیں رکھتے کہ وہ اسلامی احکام سے انکار کا برملا اظہار کر کے شیطانی فلسفے پھیلا سکیں ۔ وہ منافقت اور شدید عوامی رد عمل کے خوف سے کہیں نہ کہیں سے تنکوں کا سہارا لے کر اس پر ’’اسلامی حکم‘‘ کا لیبل لگانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو تباہ کرتے ہیں ۔ نکاح کی یہ اصطلاح نہ جانے کہاں سے ڈھونڈھ کر لائی گئی ہے ، ہمارے علم میں تو نہیں ۔ اسلام میں نکاح عورت و مرد میں ایک پختہ شریفانہ عمرانی معاہدہ ہے ۔ جس کی درج ذیل تعریف ابو منصور محمد بن احمد الازہری نے کی ہے اور اس کو محمد بن مکرم بن منظور الافریقی ، یحییٰ بن شرف نووی ابوزکریا ، تقی الدین ابو بکر محمد بن الحسنیی الحصینی الدمشقی الشافعی اور امام بدر الدین محمود بن احمد العینی علیہم الرحمہ نے نقل کیا ہے : أصل النکاح في کلام العرب الوطيء وقيل للتزوج نکاح لأنه سبب للوطيء المباح ۔
ترجمہ : کلام عرب میں نکاح کا مطلب ’’وطی‘‘ یعنی عمل ازدواج ہے تزوج یعنی شادی کو بھی نکاح اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عمل ازدواج کا سبب ہے ۔ (الأزهري، تهذيب اللغة، 4: 64، بيروت: دار احياء التراث العربي)(ابن منظور، لسان العرب، 2: 626، بيروت: دار صادر،چشتی)(النووي، تحرير ألفاظ التنبيه، 1: 249، دمشق: دار القلم)(تقي الدين الدمشقي، کفاية الأخيار، 1: 345، دمشق:دار الخير)(العيني، عمدة القاري،20: 64، بيروت:دار احياء التراث العربي)

علامہ شمس الدین سرخسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : النکاح في اللغة عبارة عن الوطيء تقول العرب تناکحت العري أي تناتجت ۔
ترجمہ : عربی زبان میں نکاح کا مطلب قربت کرنا ہے ۔ عرب کہتے ہیں خالی گود والی نے بچے کو جنم دیا ۔ (سرخسي، المبسوط، 4: 192، بيروت: دار المعرفة)

زین الدین ابن نجیم حنفی ، علی بن محمد علی الجرجانی ، شیخ نظام اور ان کے ساتھی علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : هو عقد يرد علی ملک المتعة قصداً ۔
ترجمہ : شرع میں نکاح ایسے عقد کو کہتے ہیں جو قصدا ملک متعہ یعنی نفع اٹھانے پر وارد ہوتا ہے ۔ (ابن نجيم، البحرالرائق، 3: 85، بيروت: دار المعرفة)(الجرجاني، التعريفات، 1: 315، بيروت: دار الکتاب العربي)(الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوي الهندية، 1: 267، بيروت: دار الفکر)

قرآن مجید میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس ، تسکین اور حقوق کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔هُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ’’وہ عورتیں تمہارا لباس اور تم مرد ان کا لباس ہو ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 187)

وَمِنْ اٰيٰـتِهِ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَ ۔ اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ (سورہ الروم آیت نمبر 21)

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۔ واللہ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ ۔
ترجمہ : اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے ، اور اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے ۔ (سورہ البقرة آیت 228)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حقوق پورے کرنے کی خاطر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو نفلی روزوں اور قیام اللیل میں کمی کرنے حکم فرمایا جیسا کہ متفق علیہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ان سے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عبد اللہ ! مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تم ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور راتوں کو قیام کرتے ہو ؟ میں نے جواب دیا : یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہی بات ہے ۔ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَلَا تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَيْکَ حَقًّا ۔
ترجمہ : ایسا نہ کرو بلکہ ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے روز چھوڑ دو ، قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے ۔ (بخاري، الصحيح، 5: 1995، رقم: 4903، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)(مسلم، الصحيح، 2: 813، رقم: 1159، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 198، رقم: 6867، مصر: مؤسسة قرطبة)

شارع علیہ السلام نے نکاح کو شرمگاہ کی حفاظت قرار دیا ہے : عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللہ رضی الله تعالیٰ عنه فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَهَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ ۔
ترجمہ : حضرت علقمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کر سکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو کنٹرول کرتا ہے ۔ (بخاري، الصحيح، 2: 673، رقم: 1806)(مسلم، الصحيح، 2: 1019، رقم: 1400)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 378، رقم: 3592)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نکاح اسلامی تو زوجین کو حلال طریقے سے ازدواجی رشتے میں منسلک کرتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے کا پابند کرتا ہے جبکہ نکاح مسیار میں دونوں ایک دوسرے کے حقوق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مالدار لڑکی نکاح کرے تو نان ونفقہ اور سکنیٰ سے دستبردار ہو جائے لیکن حق زوجیت سے کیوں دستبردار ہو ؟ ایک مرد تو دوسری شادی کے ذریعے بھی اپنی خواہش پوری کر سکتا ہے جبکہ عورت تو نکاح میں ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی نہیں کر سکتی ۔ اگر وہ اپنے سارے حقوق سے دستبردار ہونا چاہتی ہے تو نکاح کی کیا ضرورت ہے ؟ اس طرح بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں ۔ چونکہ نکاحِ مسیار ، قرآن وسنت کی واضح ہدایات کی مخالفت ہے ، اس لیے ہمارے نزدیک یہ نام اور کام دونوں ہی شرعی اصول کے خلاف ہیں ۔

تمام کتبِ فقہ میں یہ بات موجود ہے کہ نکاحِ  متعہ اور نکاحِ  مؤقت (یعنی نکاحِ مسیار) باطل ہے ۔ متعین وقت اور معلوم مدت کےلیے کیا جانے والا نکاح ، نکاحِ مؤقت کہلاتا ہے ۔ نکاحِ مؤقت معنیٰ و حکم کے اعتبار سے نکاحِ متعہ کی مثل ہے ۔ فقہ حنفی کے مشہور امام علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ نے نکاحِ مؤقت (یعنی نکاِ مسیار) کے تصور اور اس کی قانونی حیثیت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے : وَمَعْنَاهُ الْمَشْهُورُ أَنْ يُوجَدَ عَقْدًا عَلَى امْرَأَةٍ لَا يُرَادُ بِهِ مَقَاصِدُ عَقْدِ النِّكَاحِ مِنْ الْقَرَارِ لِلْوَلَدِ وَتَرْبِيَتِهِ ، بَلْ إلَى مُدَّةٍ مُعَيَّنَةٍ يَنْتَهِي الْعَقْدُ بِانْتِهَائِهَا أَوْ غَيْرِ مُعَيَّنَةٍ بِمَعْنَى بَقَاءِ الْعَقْدِ مَا دَامَ مَعَهَا إلَى أَنْ يَنْصَرِفَ عَنْهَا فَلَا عَقْدَ، فَيَدْخُلُ فِيهِ مَا بِمَادَّةِ الْمُتْعَةِ وَالنِّكَاحِ الْمُؤَقَّتِ أَيْضًا فَيَكُونُ مِنْ أَفْرَادِ الْمُتْعَةِ، وَإِنْ عَقَدَ بِلَفْظِ التَّزَوُّجِ وَأَحْضَرَ الشُّهُودَ ۔
ترجمہ : عرفِ عام میں (نکاحِ مؤقت) کا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ایسا عقدِ نکاح کرے جس میں بچے کی پیدائش اور اس کی تعلیم و تربیت وغیرہ جیسے مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ کیا گیا ہو ، بلکہ مدتِ معینہ مکمل ہونے پر عقد بھی ختم ہو جائے ۔ یا ایسا نکاح جس میں مدت تو متعین نہ کی گئی ہو بلکہ یہ ارادہ کیا گیا ہو کہ عقد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک شوہر اور بیوی اکٹھے رہیں گے ، جب الگ ہو جائیں تو عقد ختم ہو جائے گا ۔ نکاحِ متعہ ، نکاحِ مؤقت اور متعین مدت کے لیے ہونے والے نکاح میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس طرح ہونے والا ہر نکاح دراصل نکاحِ متعہ ہی ہے اگرچہ اس میں زوجیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور گواہ بھی حاضر ہوں ۔ (ابنِ عابدین، ردالمختار، 3: 51، بیروت، دارالفکر)

نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح یا زواج کا نام دیا جائے ، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں ہے ، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے  علامہ سرخسی علیہ الرحمہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء ۔ (المبسوط للسرخسی کتاب النکاح جلد 4 صفحہ 192مطبوعہ دار المعرفة بیروت)
ترجمہ : اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت و نگرانی ، ان کا نان و نفقہ ، زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتوں کی کثرت ، (بروزِ قیامت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فخر کا متحقق ہونا ، جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ " نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ ، تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا ، نکاح کا سبب اس بقا  کا تعلق ہے جو اپنے وقتِ مقررہ تک کےلیے مقدر ہے ، اور یہ بقا  تناسل سے ہی ممکن ہوگا ۔

ہدایہ میں ہےکہ : "ونكاح المتعة باطل" وهو أن يقول لامرأة أتمتع بك كذا مدة بكذا من المال وقال مالك هو جائز لأنه كان مباحا فيبقى إلى أن يظهر ناسخه قلنا: ثبت النسخ بإجماع الصحابة رضي الله عنهم وابن عباس رضي الله عنهما صح رجوعه إلى قولهم فتقرر الإجماع "والنكاح المؤقت باطل" مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام وقال زفر هو صحيح لازم لأن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ۔ ولنا أنه أتى بمعنى المتعة والعبرة في العقود للمعاني ولا فرق بين ما إذا طالت مدة التأقيت أو قصرت لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة وقد وجد ۔ (هدایہ کتاب النکاح جلد 2 صفحہ 333 مطبوعہ مکتبه رحمانیه،چشتی)
ترجمہ : نکاحِ متعہ باطل ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی عورت سے کہے کہ میں تم سے اتنے مال کے بدلہ اتنی مدت تک کےلیے فائدہ اٹھا ؤں گا،اور نکاحِ مؤقت بھی باطل ہے اور اس کی صورت یہ ہےکہ آدمی عورت سے دو گواہوں کی موجودگی میں (کچھ مدت ، مثلاً) دس دن کےلیے نکاح کرے،اور اس کی وجہ  یہ ہے کہ معناً یہ متعہ ہی ہے ، اور عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے ، اور اس میں کوئی قرق نہیں ہے کہ طویل مدت ذکر ہو یا قلیل ، کیوں کہ مدت کا ذکر کرنا ہی متعہ کی جہت کو متعین کردیتا ہے ۔

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے کہ : والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ۔ والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان : أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا في نكاح المتعة ۔ والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة ( وقال زفر هو صحيح لازم ) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح ، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ( ولنا أنه أتى بمعنى المتعة ) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة ( والعبرة في العقود للمعاني ) دون الألفاظ ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة ۔ (عنایہ شرح ہدایہ جلد 4 صفحہ 394،چشتی)
ترجمہ : مصنف کی عبارت سے ان دونوں (نکاحِ متعہ اور نکاحِ مؤقت) کے مابین فرق کے سلسلے میں دو چیزیں سمجھ میں آتی ہیں : (1) ایسے لفظ کا وجود جو اشتقاق میں متعہ کے ساتھ شریک ہیں ۔ (2) نکاحِ مؤقت میں دو گواہوں کا موجود ہونا ، ساتھ اس کے کہ اس میں لفظِ  تزویج یا نکاح بھی مذکور ہوتا ہے ، اور مدت بھی متعین ہوتی ہے ۔ اور (نکاحِ مؤقت کے عدمِ  جواز کی) دلیل یہ ہے کہ یہ متعہ کے معنی میں ہی آتا ہے اگرچہ نکاح کے  لفظ سے ہو ، اس لیے کہ متعہ در اصل مقاصدِ  نکاح کے ارادے کے بغیر عورت سے فائدہ ٹھانے کا نام ہے ، اور نکاحِ مؤقت (یعنی نکاحِ مسیار) میں بھی یہ معنی پایا جاتا ہے ، اس لیے کہ مقاصدِ  نکاح مدتِ قلیلہ میں حاصل نہیں ہوسکتے،اور عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کا ، جیسے کہ کفالت ، اصیل کی براءت کی شرط کے ساتھ حوالہ بن جاتا ہے ، اور حوالہ ، اصیل سے مطالبہ کی شرط لگانے سے کفالت بن جاتا ہے ۔

مذکورہ حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عقدِ نکاح جس میں ہمیشگی اور مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ ہو‘ باطل ہے ۔ نکاحِ مسیار میں بھی فریقین کی نیت و ارادہ ہمیشگی و مقاصدِ نکاح کے حصول کا نہیں ہے اس لیے یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا ۔ یہ لڑکا اور لڑکی ، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے درمیان شرعاً عقدِ نکاح قائم ہی نہیں ہوا ۔

نکاح مِسیار : مِسیار مفعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے بمعنی بہت زیادہ چلنے والا ، اور یہ لفظ ‘‘سیر’’ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی چلنے کے ہیں ، (مفردات راغب اصفہانی صفحہ ۲۴۷)

چونکہ نکاح کے اس قسم میں بیوی کے ساتھ رہنے کےلیے کوئی متعین وقت نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کو جب موقع ملتا ہے اس کے پاس چلا جاتا ہے اس لیے اس کو نکاح مِسیار کہاجاتا ہے ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نجد کے علاقے میں یہ لفظ دن میں کسی کے پاس جانے کےلیے استعمال ہوتا ہے ، اور اس نکاح میں بھی عام طور پر شوہر دن ک وقت بیوی کے پاس جاتا ہے ، اس لیے اسے نکاح مِسیار کہاجانے لگا ۔ (لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۲۵۲)

علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں : یہ عوامی لفظ ہے جس سے مراد کسی کے پاس  سے گزرنا اور تھوڑی دیر کےلیے رکنا ہوتا ہے ۔ (معجم علوم اللغۃ صفحہ ۳۶۱ محمد الاشقر)

نکاحِ مسیار کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے : نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح یا زواج کا نام دیا جائے ، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں ہے ، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے  علامہ سرخسی علیہ الرحمہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء ۔ (المبسوط للسرخسی کتاب النکاح جلد 4 صفحہ 192مطبوعہ دار المعرفة بیروت)
ترجمہ : اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت و نگرانی ، ان کا نان و نفقہ ، زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتوں کی کثرت ، (بروزِ قیامت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فخر کا متحقق ہونا ، جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ " نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ ، تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا ، نکاح کا سبب اس بقا  کا تعلق ہے جو اپنے وقتِ مقررہ تک کےلیے مقدر ہے ، اور یہ بقا  تناسل سے ہی ممکن ہوگا ۔

سابقہ مضمون میں قرآن وحدیث کی رو سے واضح ہو چکا ہے کہ جس نکاح میں صرف شہوت رانی مقصود ہو وہ شرعی نکاح کے مقصد کے خلاف ہے ۔

اس عمل کے ذریعہ شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام  کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوتا ہے ، چنانچہ اس نام نہاد  نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہتی ہے ، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی  ہے ، "علامہ ابن نجیم" علیہ الرحمہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلی ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ : بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں ، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا ، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا ، حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا ، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں ۔ وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطء لا في الحيض والنفاس والإحرام، وفي الظهار قبل التكفير ووجوبه قضاء مرة واحدة وديانة فيما زاد عليها، وقيل يجب قضاء أيضا، ومنها حل النظر والمس من رأسها إلى قدمها إلا لمانع ومنها ملك المنفعة، وهو اختصاص الزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا، ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع ۔ (البحر الرائق کتاب النکاح جلد 3 صفحہ 139 مطبوعہ دار الکتب العلمیة،چشتی)

اگر یہ کہا جائے کہ "نکاحِ مسیار"  میں عدمِ نفقہ یا طلاق دینے کی شرط یا نیت سب باطل شرطیں ہیں  جو خود ساقط ہو جائیں گی اور نکاح درست رہے گا ۔
جواب : شریعت کے اصل اور ضابطہ کے مطابق نفقہ نہ دینے یا طلاق دینے کی  شرائط باطل ہو کر عقد صحیح ہو جائے گا ، لیکن عرف میں ان شرائط پر عمل کرنے کو لازم سمجھاجاتا ہے ، ان شرائط پر عمل کرنا نکاح کی روح اور مقاصد کے خلاف ہے ، لہٰذا شرط باطل ہو جانے کے بعد بھی اس قسم کے عقد کے جواز کا فتویٰ دینا مفاسد سے خالی نہیں ہے ۔

کسی عورت سے  متعین رقم کے عوض ایک مدت تک کےلیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے ، اس نکاح میں گواہ کی موجودگی شرط  نہیں  ہے ، اور نہ طلاق ہوتی ہے بلکہ مقررہ مدت کے بعد طلاق کے بغیر علیحدگی  ہو جاتی ہے نیز  نکاح کے دوسرے حقوق اور  ذمہ داریاں بھی کسی پر عائد نہیں ہوتی ہیں ، مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ میں تم سے ایک دن ، ایک ماہ یا ایک سال کےلیے  متعہ کرتا ہوں یا میں تمہیں اتنی رقم دوں گا اس شرط کے ساتھ کہ جب تک اس شہر میں میرا قیام رہے گا میں تم سے فائدہ حاصل کرتا رہوں گا ۔ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نکاح المتعۃ باطل و ھو ان یقول للمرأۃالتمتع بک کذامدۃبکذا من المال ۔ (الہدایۃ جلد ۳ صفحہ ۳۸)
ترجمہ : نکاح متعہ باطل ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی عورت سے کہے کہ میں اتنی مدت کےلیے اتنے مال کے عوض تم سے متعہ کر رہا ہوں ۔

نکاح موقت کی تعریف کرتے  ہوئے  علامہ مرغینانی علیہ الرحمہ  لکھتے ہیں : نکاح الموقت باطل مثل ان یتوزج بامرأۃ بشہادۃ شاہدین الی عشرۃ ایام ۔ (الہدایہ جلد ۳ صفحہ ۳۸،چشتی)
ترجمہ : نکاح موقت باطل ہے ، جیسے کہ کوئی دو گواہوں کی موجودگی میں کسی عورت سے دس دن کےلیے نکاح کرے ۔

نکاح متعہ اور موقت کے درمیان فرق : علامہ ابن ہمام علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : متعہ اور موقت میں دو حیثیت سے فرق ہے ایک کہ متعہ میں م ت ع کا مادہ استعمال کیاجاتا ہے اور موقت میں نکاح یا زواج کا لفظ استعمال ہوتا ہے دوسرے یہ کہ متعہ میں نہ گواہوں کی موجودگی کی شرط ہوتی ہے اورنہ مدت متعین ہوتی ہے ، اس کے برخلاف نکاحِ موقت میں گواہوں کی موجودگی مشروط ہے اور مدت کی تعیین ضروری ہے ۔ (رد المختار جلد ۴ صفحہ ۱۴۸)

نکاح متعہ اور موقت کا حکم : چاروں اماموں کے نزدیک حکم کے اعتبار سے نکاحِ متعہ اور موقت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح سے نکاحِ متعہ باطل ہے اسی طرح سے نکاحِ موقت بھی باطل ہے ، اور باطل ہونے کی وجہ مدت کا ذکر کرنا ہے کیونکہ نکاح میں دوام اور ہمیشگی مطلوب ہے اور ایک مدت کےلیے نکاح کرنے میں اس کی خلاف ورزی ہے ، اور متعہ کی حرمت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے اور موقت بھی متعہ کی ایک شکل ہے : فیکون من افراد المتعۃوان عقد بلفظا لتزویج و احضرالشھود ۔ (البحرالرائق جلد ۳ صفحہ ۱۹۰)

حنابلہ کے نزدیک صحیح اور راجح یہ ہے کہ نکاح باطل ہے ، کیونکہ یہ بھی متعہ  کی ایک شکل ہے ، امام اوزاعی علیہ الرحمہ بھی اسی کے  قائل ہیں اور بہرام مالکی علیہ الرحمہ کا بھی یہی نقطہ نظر بشرطیکہ عورت مرد کے مقصد کو سمجھ جائے ۔ (الموسوعۃالفقہیۃ جلد ۴۱ صفحہ ۳۴۴)

امام مالک علیہ الرحمہ جواز کے قول کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں : لیس ھذا من اخلاق الناس (المنہاج جلد ۵ صفحہ ۳۰۲،چشتی)
ترجمہ : انسانی اخلاق کے اعتبار سے گری ہوئی بات ہے ۔

اسی طرح سے شافعیہ نے  بھی اسے مکروہ  کہا ہے ، کیونکہ بعض لوگوں نے اسے باطل قرار دیا ہے اور اختلاف سے بچنے کےلیے اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے ، نیز جن چیزوں کی صراحت  کی وجہ سے عقد باطل  ہو جاتا ہے اگر انہیں دل میں پوشیدہ رکھا جائے تو  اس کی وجہ سے عقد مکروہ ہوتا ہے ۔ (الموسوعۃالفقہیۃ جلد ۴۱ صفحہ ۳۴۴)

علامہ ابن حمام علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نکاح متعہ کا مشہور مفہوم یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح تو کیا جائے لیکن اس میں مقاصد نکاح کا حصول مطلوب نہ ہو یعنی بچے کی پیدائش اور اس کی تربیت  کےلیے رشتے کو برقرار رکھنا مقصود نہ ہو ۔ (فتح القدیر جلد ۳ صفحہ ۲۴۶)

عنایہ شرح ہدایہ میں ہے : مقاصدِ نکاح کےحصول کے بغیر کسی عورت سے فائدہ اٹھانے کا نام متعہ ہے اور نکاحِ موقت میں بھی یہ چیز موجود ہے کیونکہ قلیل مدت میں ان مقاصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ (عنایہ شرح ہدایہ جلد ۴ صفحہ ۳۹۴)

اور مقاصدِ نکاح کی تکمیل اور ایک مثالی خاندان کی تشکیل اور نسلِ انسانی کی تربیت و تعلیم کےلیے ضروری ہے کہ عورت کے تمام مصارف کو مرد برداشت کرے اور اسے شوہر کی محبت اور بھرپور توجہ حاصل ہو تاکہ یکسوئی کے ساتھ وہ اپنے فریضے کو ادا کر سکے ۔ اور نکاح مِسیار کے دونوں شکلوں میں یہ چیزیں موجود نہیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عورت اپنی زندگی میں ایک خلا بلکہ اہانت محسوس کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں اولاد کی تعلیم و تربیت پر بڑے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے شدید ضرورت کے بغیر نکاح مِسیار سے بچنا چاہیے اور اللہ سے عہد و پیماں کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دلوں کے بھید سے بخوبی واقف ہے ۔

اس وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے  کی پرورش  اور ثبوتِ نسب میں بھی مسائل پیش آسکتے ہیں ، اول تو یہ ممکن ہے کہ بچے کے نسب کا انکار کرے ، لیکن اگر بچے کو اپنا نام دے بھی تو پرورش کے مسائل پیش آئیں گے ، یوں اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اس طرز پر نہیں ہوسکتی جس طرح شرعی نکاح کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی پرورش ہوتی ہے ، کیوں کہ مقررہ مدت پوری ہو جانے کے بعد شوہر طلاق دےکر چلا جائے گا ، چوں کہ اس تعلق کی غرض حقیقت میں اپنی طبعی تقاضا پورا کرنا تھا تو شوہر بچے سے بے فکر ہو کر چلا جاتا ہے ، اولاد بغیر باپ کے عمر کے مراحل طے کرتی ہے ، انہیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے والا باپ میسر نہیں آتا ، پھر جب اولاد کی تربیت صحیح اور محکم طریقہ سے نہیں ہو تی اور وہ مکمل نشو و نما نہیں پاتے، تو اس سے ا س کی شخصیت پر منفی اثر ہوتا ہے ۔

اس قسم کی شادی میں عورت مرد کو اپنا نگران اور مسئول نہیں سمجھتی ، جس کے نتیجے میں شوہر کے ساتھ سلوک میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ  کو بھی اور معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے ۔

اس قسم کے عقد میں خواتین کی تذلیل ہے ، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف وقتِ متعینہ تک اپنی خواہش کی تکمیل ہے ، وقتِ مقررہ کے بعد عورت کو مستعمل اوراق کی طرح پھینک دیا جائے ، عورت کو اس قسم کی تذلیل سے محفوظ رکھنے  کےلیے شریعت نے پہلے شوہر کےلیے بیوی کو حلال کرنے کےلیے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہِ تحریمی (ناجائز) قرار دیا ہے ۔

اس قسم کی شادی میں  خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے ، کیوں کہ نہ میاں بیوی کی ایک ساتھ ہمیشہ کےلیے  رہائش ہوتی ہے ، اور نہ ہی دونوں میں مکمل مودت و محبت ہوتی ہے جوکہ نکاح کا لازمی جز اور مقصد ہے ۔

قرآنِ کریم میں ہے : ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودةً ورحمةً إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون ۔ (سورہ روم آیت نمبر 21)
ترجمہ : اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی بے شک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کےلیے ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ : ثم من تمام رحمته ببني آدم أن جعل أزواجهم من جنسهم، وجعل بينهم وبينهن مودة وهي المحبة، ورحمة وهي الرأفة، فإن الرجل يمسك المرأة إنما لمحبته لها أو لرحمة بها بأن يكون لها منه ولد، أو محتاجة إليه في الإنفاق أو للألفة بينهما وغير ذلك ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 278 مطبوعہ دار الکتب العلمیة،چشتی)
ترجمہ : بنی آدم پر اللہ تعالی کی رحمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان ہی کی جنس میں سے ان کےلیے جوڑے پیدا فرمائے ، اور ان کے ما بین محبت اور رحمت کا رشتہ قائم فرمایا ۔ اور رحمت انتہائی مہربانی کو کہتے ہیں ، مرد عورت کو اپنے پاس یا تو اس لیے رکھتا ہے کہ مرد کو اس سے محبت ہے یا عورت پر مہربانی کی وجہ سے چوں کہ اس سے اس کا بچہ پیدا ہونا ہے یا نان نفقے میں عورت اس کی محتاج ہے یا دونوں کے درمیان باہمی محبت و الفت کی وجہ سے ۔

اس رشتے اور تعلق میں دوام نہیں ہے ، بلکہ أبغض المباحات "طلاق " دینے کی نیت ہے ، اس لیے نکاحِ مسنون کی روح سے ہم آہنگ نہ ہونے ، عمرانی حقوق کے خاطر خواہ تحفظ کا ضامن نہ ہونے اور دیگر مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس طریقہ نکاح کے جواز کا قول بھی نہیں کیا جا سکتا ، علامہ سرخسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : وإيقاع الطلاق مباح وإن كان مبغضا في الأصل عند عامة العلماء ومن الناس من يقول لا يباح إيقاع الطلاق إلا عند الضرورة لقوله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله كل ذواق مطلاق» وقال صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة اختلعت من زوجها من نشوز فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين» وقد روي مثله في الرجل يخلع امرأته ولأن فيه كفران النعمة فإن النكاح نعمة من الله تعالى على عباده قال الله تعالى: {ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا} [الروم: 21] وقال الله تعالى: {زين للناس حب الشهوات من النساء} [آل عمران: 14] الآية وكفران النعمة حرام، وهو رفع النكاح المسنون فلا يحل إلا عند الضرورة وذلك إما كبر السن لما روي أن سودة لما طعنت في السن طلقها رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وإما لريبة لما روي «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم  وقال: إن امرأتي لاترد يد لامس، فقال صلوات الله عليه: طلقها، فقال: إني أحبها، فقال صلى الله عليه وسلم: أمسكها إذن»...ومبغض لما فيه من معنى كفران النعمة ثم معنى النعمة إنما يتحقق عند موافقة الأخلاق ۔ (المبسوط للسرخسی کتاب الطلاق جلد 6 صفحہ 2 مطبوعہ دار المعرفة بیروت)
ترجمہ : اصل کے اعتبار سے طلاق دینا ناپسندیدہ عمل ہے اور بعض کے ہاں بلاوجہ طلاق دینا مباح نہیں ہے ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ "لعن الله كل ذواق مطلاق"( یعنی  اللہ تعالی ٰ نے نکاح کا مزہ چکھنے کے بعد طلاق دینے والے پر لعنت فرمائی ہے) ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "أيما امرأة اختلعت من زوجها من نشوز فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين" (یعنی جو  نافرمان عورت شوہر سے خلع کا مطالبہ کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو) ،  اسی طرح جو مرد بلاوجہ خلع دے اس کے متعلق بھی روایت منقول ہے ، اس لیے کہ نکاح اللہ تعالی کی نعمت ہے اور طلاق اس نعمت کی ناشکری ہے ، اور نعمت کی ناشکری حرام ہے، اور یہاں ناشکری نکاحِ مسنون کو ختم کرنا ہے ؛ لہذا ضرورت کے علاوہ طلاق دینا حلال نہیں ہوگا ۔۔۔ اور طلاق کو مبغوض اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں نعمت کی ناشکری ہے اور نعمت کی ناشکری اس وقت ہوگی ، جب آپس میں اخلاق موافق ہو ۔

اس قسم کا نکاح معناً "نکاحِ  موقت" ہے ،  علامہ شامی علیہ الرحمہ نے نکاحِ موقت اور متعہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ : (قوله: وبطل نكاح متعة، ومؤقت) قال في الفتح: قال شيخ الإسلام في الفرق بينهما أن يذكر الوقت بلفظ النكاح والتزويج وفي المتعة أتمتع أو أستمتع. اهـ ۔ يعني ما اشتمل على مادة متعة. والذي يظهر مع ذلك عدم اشتراط الشهود في المتعة وتعيين المدة، وفي المؤقت الشهود وتعيينها، ولا شك أنه لا دليل لهم على تعيين كون المتعة الذي أبيح ثم حرم هو ما اجتمع فيه مادة (م ت ع) للقطع من الآثار بأنه كان أذن لهم في المتعة، وليس معناه أن من باشر هذا يلزمه أن يخاطبها بلفظ أتمتع ونحوه لما عرف أن اللفظ يطلق ويراد معناه، فإذا قيل تمتعوا فمعناه أوجدوا معنى هذا اللفظ،، ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته، بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دام معها إلى أن ينصرف عنها فلا عقد، فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح المؤقت أيضا فيكون من أفراد المتعة، وإن عقد بلفظ التزوج وأحضر الشهود. اهـ. ملخصا وتبعه في البحر والنهر، ثم ذكر في الفتح أدلة تحريم المتعة وأنه كان في حجة الوداع وكان تحريم تأبيد لا خلاف فيه بين الأئمة وعلماء الأمصار إلا طائفة من الشيعة ونسبة الجواز إلى مالك كما وقع في الهداية غلط، ثم رجح قول زفر بصحة المؤقت على معنى أنه ينعقد مؤبدا ويلغو التوقيت؛ لأن غاية الأمر أن المؤقت متعة وهو منسوخ، لكن المنسوخ معناها الذي كانت الشريعة عليه وهو ما ينتهي العقد فيه بانتهاء المدة، فإلغاء شرط التوقيت أثر النسخ، وأقرب نظير إليه نكاح الشغار وهو أن يجعل بضع كل من المرأتين مهراً للأخرى، فإنه صح النهي عنه وقلنا: يصح موجباً لمهر المثل لكل منهما فلم يلزمنا النهي، بخلاف ما لو عقد بلفظ المتعة وأراد النكاح الصحيح المؤبد فإنه لا ينعقد، وإن حضره الشهود؛ لأنه لايفيد ملك المتعة كلفظ الإحلال فإن من أحل لغيره طعاما لايملكه فلم يصح مجازاً عن معنى النكاح كما مر. اهـ ملخصاً ۔ (قوله: وإن جهلت المدة) كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم ح (قوله: أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح كما في المعراج؛ لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة، بحر ۔ (فتاوی شامیہ کتاب النکاح جلد 3 صفحہ 51 مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی،چشتی)
ترجمہ : نکاحِ متعہ اور مؤقت باطل ہے ، اور ان کے درمیان شیخ الاسلام نے یوں فرق بیان فرمایا ہے کہ نکاحِ مؤقت میں لفظِ نکاح یا تزویج استعمال کیا جاتاہے اور متعہ میں اتمتع ،استمتع جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ،یعنی وہ الفاظ جو متعہ کے مادہ (م۔ت۔ع) پر مشتمل ہو ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متعہ میں گواہ اور مدت کی تعیین شرط نہیں ہے ، جب کہ مؤقت میں گواہ بھی ہوتے ہیں اور مدت بھی متعین ہوتی  ہے ۔ اور بلاشبہ اس بات میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ شروع میں جو متعہ مباح تھا پھر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا، اس سے مراد وہی متعہ ہو جس میں ’’م۔ت۔ع‘‘  کا مادہ ہو ، اس  لیے کہ آثار سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ متعہ کہ اجازت تھی، لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ اس عمل کےلیے ’’اتمتع‘‘  جیسے الفاظ سے ہی عورت کوخطاب کرنا لازم ہو، اس لیے کہ یہ بات معروف ہے کہ لفظ کا اطلاق کرکے اس کا معنی مراد لیا جاتا ہے ؛ لہذا جب ’’تمتعوا ‘‘(یا متعہ  وغیرہ کے الفاظ )کہا جائےتو اس سےمراد وہ ہوتا ہے جس میں یہ معنی پایا جائے ، اور اس کا مشہور معنی یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ایسے عقد کو وجود میں لایا جائے جس سے نکاح کے مقاصد (اولاد کا حصول اور پرورش) کو پورا کرنا مقصود نہ ہو، بلکہ ایک متعین مدت تک (جنسی خواہش کی تکمیل کےلیے) عقد ہوتا ہے جو مدت کے پورا ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے ۔

ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دمت معك إلى أن أنصرف عنك فلا عقد والحاصل أن معنى المتعة عقد موقت ينتهي بانتهاء الوقت فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح الموقت أيضا فيكون النكاح الموقت من أفراد المتعة وإن عقد بلفظ التزويج وأحضر الشهود وما يفيد ذلك من الألفاظ التي تفيد التواضع مع المرأة على هذا المعنى ولم يعرف في شيء من الآثار لفظ واحد ممن باشرها من الصحابة رضي الله عنهم بلفظ تمتعت بك ونحوه ۔ والله أعلم ۔ (شرح فتح القدیر جلد 3 صفحہ 237 مطبوعہ دار الکتب العلمية)

اس قسم کے نکاح کی سب سے بڑی خرابی یہ ہےکہ یہ زنا کے متبادل کے طور پر متعہ کے جواز کےلیے چور دروازہ ہے ، اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ جن ممالک میں اس نکاح کی اجات دی گئی ہے وہاں امیر اور صاحبِ ثروت لوگوں نے اس کا فائد اٹھاتے ہوئے جب چاہا کسی بھی لڑکی کوخرید لیا اور اس کی عزت سے کھیل کر اس کو طلاق دےدی ، بلکہ اگر یہ کہا جائے گا کہ یہ زنا بالمال ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا ، اور اگر اس کی اجازت دے دی جائے تو معروف زنا کو چھوڑ کر دین بے زار لوگ اس طریقہ سے زنا کرنے لگ جائیں گے ۔

اگرچہ ابتدا میں اس نام نہاد نکاح کی وجہ طویل عرصے تک سفر میں رہنا بیان کی بھی جائے یا بطورِ شرط رکھی جائے ، لیکن اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اس قسم کے نکاح کو ظاہر کر کے گھروں سے گھر والوں کی اجازت کے بغیر چلے جائیں گے ، یوں اس نکاح کا جواز معاشرے کے شیرازہ بکھیرنے اور اس کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے ۔ ان تمام مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے "نکاح مسیار" (زواج مسیار) کی شرعاً اجازت نہیں ۔ اللہ عزوجل فتنوں سے بچنے اور شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرناۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...