Sunday 28 April 2024

افضلیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قطعی اجماعی عقیدہ ہے

0 comments

افضلیت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قطعی اجماعی عقیدہ ہے

محترم قارئینِ کرام : عقیدہ عقد سے ماخوذ ہے ۔ اور لغوی اعتبار سے عقیدہ ایقان لزوم ، استحکام ، وثوق" وغیرہ معانی میں مستعمل ہوتا ہے ۔ عقیدہ کی جمع عقائد ہے ۔ اور اصطلاح میں عقیدہ اس اعتقاد جازم کا نام ہے جس پر انسان کا دل اس مضبوطی سے بیٹھ جائے جو کسی بھی قسم کے شک اور گمان سے متزلزل نہ ہو ۔ اور خاص اصطلاح شرع میں عقیدہ اس اعتقاد (قلبی یقین) کو کہیں گے جو ارکان اسلام (اللہ کی وحدانیت ، انبیا ورسل کی نبوت ورسالت ، فرشتے ، کتاب ، روز قیامت ، تقدیر خیروشر اور بعث بعد الموت) پر مشتمل ہو ۔ جمیع اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد شیخین یعنی حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہما تمام انسانوں سے افضل ہیں ۔ یہ عقیدہ قطعی اجماعی عقیدہ ہے ، اس کا تعلق ضروریاتِ اہل سنت سے ہے ۔ اسلام میں سوئی کی نوک برابر بھی بعد از انبیاء علیہم السّلام حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کسی انسان کے افضل ہونے کی گنجائش نہیں ہے ۔ اس عقیدے سے انحراف کرنے والے لوگوں کو کسی بھی صورت اہل سنت ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا سکتا ۔ انہیں گمراہ ، بد مذہب اور بد عقیدہ ہی سمجھا جائے گا ۔ اس وقت بعض حضرات کو اس بات پر شدید اصرار ہے کہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ قطعی اجماعی نہیں بلکہ یہ عقیدہ جمہور ہے ۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ وہ تفضیل علی رضی اللہ عنہ کے قائل کو بھی دائرہ سنیت میں داخل سمجھتے ہیں ۔ جبکہ “قائلین اجماع” تفضیلیہ کو دائرہ سنیت سے خارج سمجھتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں جمہور کا قول کرنے والے حضرات اہل سنت میں تفضیل علی رضی اللہ عنہ گنجائش باقی رکھنا چاہتے ہیں جبکہ قائلین اجماع اس دروازے کو کلیتاً بند دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جب ہم نے اس پر غور و فکر کیا اور جید ائمہ کی کتب کھنگالیں تو قائلین اجماع بر حق نظر آئے اور “قائلین مذہب جمہور” بالکل کمزور نظر آئے ۔ جمہور کے قول والے حضرات کا کل سرمایہ کچھ کمزور ترین روایات ، چند غلط ترین استدلالات اور بعض مرجوح و مؤول حوالہ جات ہیں جو کسی بھی طور پر ایک عقل سلیم رکھنے والے دیانت دار شخص کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں ۔ اگرچہ قائلین مذہب جمہور اپنے باطل مٶقف پر رطب و یابس سے بھرپور کچھ ضخیم کتب بھی لکھ چکے ہیں لیکن یاد رہے کہ ایسی کتب خواہ لاکھوں کی تعداد میں کیوں نہ ہوں ان سے کوئی غلط نظریہ قطعا سند جواز حاصل نہیں کر سکتا ۔ دیکھیے ! وجودِ خدا کی نفی پر دہریوں نے کچھ کم کتابیں نہیں لکھیں ، اسی طرح ادیان باطلہ کے درست ہونے پر ان کے حاملین کی طرف سے دو چار نہیں لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، لیکن بایں ہمہ ان میں کسی بھی باطل و فاسد نظریے کو درست قرار دینے کی قطعا کوئی صلاحیت نہیں ہے ۔ اصل چیز دلیل کی قوت ہے نہ کہ کتب کی کثرت و ضخامت ۔ اور اس لحاظ سے قائلین مذہب جمہور بالکل ہی بے دست و پا نظر آتے ہیں ۔ ان کے دلائل سے کوئی عامی یا حجاب زدہ عالم یا عقیدت سے مغلوب شخص متاثر ہو جائے تو کچھ بڑی بات نہیں لیکن اصولِ دین ، اصولِ شرع ، اصولِ فقہ اور اصولِ اہل سنت پہ گہری نظر رکھنے والا کوئی ایک بھی شخص ان سے متاثر نہیں ہو سکتا ۔ تفضیلِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جمہور کا عقیدہ کہنے والے لوگ دراصل اسلام میں تفضیلِ علی رضی اللہ عنہ کی گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں جو کہ شعوری یا لا شعوری طور پر ایک قطعی اجماعی عقیدے کے خلاف نہایت سنگین قسم کی سازش ہے ، اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ساری کی ساری سنیت کا زمیں بوس ہو جانا چند منٹوں کا کھیل ہے ۔ آئیے ! ان تمہیدی کلمات کے بعد اب ہم عقیدہ افضلیت کے سو فیصد قطعی اجماعی ہونے پہ کلام کرتے ہیں ۔

المعجم الوسیط میں ہے : العَقِيدَةُ : الحُكْمُ الذي لا يقْبلُ الشكُّ فيه لدى معتقِدِه ۔ وفي الدِّين : ما يقصد به الاعتقاد دون العَمل ، كعقيدة وجود اللهِ وبَعْثة الرُّسُل ۔

مسلمانوں کےلیے یوں تو تمام عقائد اہم ہیں ، مگر دو قسم کے عقائد زیادہ اہم ہیں : ⬇

(1) ضروریاتِ دین ۔

(2) ضروریاتِ مذہب اہل سنت ۔

ضروریات دین

دین کے وہ احکام و مسائل جو قرآن کریم یا حدیث متواتر یا اجماع سے اس طرح ثابت ہوں کہ ان میں نہ کسی شبہ کی گنجائش ہو، نہ تاویل کی کوئی راہ ۔ اور ان کا دین سے ہونا خواص و عوام سب جانتے ہوں ۔ جیسے اللہ عزوجل کی وحدانیت ، انبیا مرسلین علیہم الصلاۃ والسلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شان عظمت کا اعتقاد ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آخری نبی ہونا ۔

ضروریات دین کا حکم

ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار ، بلکہ ان میں ادنٰی سا شک کرنا بھی کفر قطعی ہے ۔ اور اس کا منکر کافر ہے ۔ اور ایسا کافر کہ اس کے کفر پر مطلع ہوکر اس کے کافر ہونے میں جو ادنٰی سا شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔

ضروریات اہل سنت

وہ مسائل ہیں جن کا مذہب اہل سنت وجماعت سے ہونا خواص و عوام سب کو معلوم ہو ، ساتھ ہی ان کا ثبوت دلیل قطعی سے ہو ، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوع شبہ اور احتمال تاویل ہو ۔ جیسے عذاب قبر ، وزن اعمال ، قیامت کے دن رویت باری تعالیٰ کے ثبوت کا اعتقاد ۔

ضروریات اہل سنت کا حکم

ضروریات مذہب اہل سنت میں سے کسی بھی امر کا انکار کفر نہیں ، البتہ ضلالت و گمراہی ضرور ہے ، اس کا منکر گمراہ ، بد مذہب ، سخت فاسق و فاجر ہے ۔ (ماہنامہ اشرفیہ فروری 2015 مجلس شرعی کے فیصلے)

ان تمہیدی باتوں کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔

مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ : انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اور امت کے اسلافِ فخام کا ہے ۔

اس مسئلہ اجماعی کی چند تصریحات ہدیہ قارئین ہیں : ⬇

صحیح البخاری میں ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔ (صحیح البخاری ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ابوبکر ،پھر عمر ، پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔

مسند الحارث میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ : أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسند الحارث ج:2،ص:888،رقم : 959، مرکزخدمۃالسنۃ والسیرۃ المدینۃ المنورۃ)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے : افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق ہیں ، پھر عمر فاروق ۔

السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے :
قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ؟ قَالَ: فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ : مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔ (السنۃ لابی بکر بن الخلال،ج:2، ص:379،رقم:529،دارالریۃ،ریاض)

حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : شیخین افضل یا علی ؟ اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا،اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر  کسی کو بتائیں گے ۔

ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین میں تفضیلِ شیخین پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔

بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔ (الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد،ص:369،دارالافاق الجدیدۃ،بیروت،چشتی)
ترجمہ : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔

اسی طرح عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع  منقول ہے ، یا کم از کم  بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔

امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)
ترجمہ : اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر ۔

ابو منصور بغدادی علیہ الرحمہ "اصول الدین" میں فرماتے ہیں : أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم ، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور ۔ (اصول الدین لابی منصور صفحہ 304)
ترجمہ : ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ترتیب مذکور پر ۔

تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر ، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی جلد 1 صفحہ 28 فصل فی حقیقۃ الصحابی،چشتی)
ترجمہ : اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔

امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك ۔ (ارشاد الساری جلد 6 صفحہ 430 رقم 3655،فضل أبی بکر بعد النبی)
ترجمہ : انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح  نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ و تابعین نقل کرتے ہیں ۔

مواہب اللدنیہ میں ہے : أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر ، ثم عمر ۔ (المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 545 الفصل الثالث ذکر محبۃ أصحابہ،چشتی)
ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ، پھر عمر ۔

الصواعق المحرقہ میں ہے : أن مالك رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ، ثم عمر ۔ ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ نمبر 86)
ترجمہ : امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق ۔ پھر ارشاد فرمایا : کیا اس بارے میں کوئی شک ہے ؟

اور شرح عقائد نسفی میں ہے : أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی صفحہ 321, 322 ، مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)
ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کے بعد  افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق ، پھر  عمر فاروق ہیں ۔

حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند ۔ (تکمیل الایمان صفحہ 104 باب فضل الصحابہ،چشتی)
ترجمہ : جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔

فتاوی رضویہ میں ہے : اہل سنت وجماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل و انبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق اِلہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں  کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت و عزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں  پہنچتا ۔ { وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ} ۔ فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں  ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ پھر ان میں  باہم ترتیب یوں  ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم ، ومولا ھم وآلہ وعلیھم وبارک وسلم ۔ (الفتاوی الرضویۃ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)

بہار شریعت میں ہے : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں  ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر  عثمٰن  غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 241 امامت کا بیان مکتبۃ المدینہ)

ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام،تابعین عظام اور اکابر علما کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا ، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو ۔

شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے : من أنکر یوشک أن فی ایمانہ خطرا ۔ (شرح بدء الامالی تحت شعر : 34)


افضلیت و فضیلت میں فرق تفضیلیوں کے فریب کا جواب


محترم قارئینِ کرام : فضیلت باب فضائل سے ہے ۔ اس کے واسطے ضعیف احادیث بھی کافی ہیں ، لیکن افضلیت باب عقائد سے ہے ۔ اس کے ثبوت کے لیے ضعیف احادیث نا کافی ہیں ۔ عہدِ حاضر میں نیم روافض تفضیلیوں نے ادھم مچا رکھا ہے ۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضیلت قطعی دلیل سے ثابت ہے ۔ اس کے بالمقابل ضعیف احادیث پیش کر کے شیر خداحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ احادیثِ ضعیفہ سے افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی ۔ افضلیت باب عقائد سے ہے ، خالص باب فضائل سے نہیں ۔ باب فضائل میں بھی احادیثِ ضعیفہ اسی وقت قابل قبول ہیں ، جب کسی قوی دلیل کے مخالف نہ ہوں ۔اگر قوی دلیل کی مخالفت ہو تو حدیث ضعیف فضائل میں بھی مقبول نہیں ۔

 

اہل سنت و جماعت کا متفقہ اور  اجماعی عقیدہ ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء و مرسلین (رسل بشر اور رسل ملائکہ) کے  بعد علی الاطلاق تمام انس و جن اور فرشتوں سے "افضل" ہیں ۔


اس معنیٰ "افضلیت" کی تفہیم و تعیین میں معاون چند ضروری امور ہدیہ قارئین ہیں ۔


افضل : افعل کے وزن پر اسم تفضیل کا صیغہ ہے ، جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے  دوسرے کی بہ نسبت زیادتی ہوتی ہے ۔ اور معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ "افضل و مفضول"  دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم ۔


کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ افضل میں "صفت فضیلت" ہوتی ہے اور مفضول میں نہیں ہوتی ۔ جیسے زید عالم ہو اور حامد جاہل تو کہا جاتا ہے کہ زید حامد سے افضل ہے ۔ 


شرعی اعتبار سےافضلیت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے : (1) ظاہری افضلیت یعنی نیک اعمال جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی زیادتی ۔ (2) باطنی افضلیت یعنی خلوص دل ، پرہیزگاری اور اجرو ثواب کی زیادتی ۔ 


یہ بھی مد نظر رہے کہ کثرت اجر و ثواب کا مفہوم اللہ تعالی کے نزدیک زیادتِ کرامت اور کثرتِ قرب و وجاہت ہے ۔ (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اسی معنیٰ کے لحاظ سے ہے) ۔ نہ کہ جنت کے مطاعم و ملابس و ازواج و خدم و حور و قصور میں زیادتی ۔


شرح مقاصد میں ہے : الكلام في الأفضليت بمعنى الكرامة عند الله تعالى ، و كثرة الثواب ۔ (شرح مقاصد جلد 3 صفحہ 523 الفصل الرابع في الامامة)


الصواعق المحرقہ میں ہے : ثم يجب الايمان والمعرفة بأن خير الخلق و أفضلهم و أعظمهم منزلة عند الله بعد النبيين والمرسلين وأحقهم بخلافة  رسول الله أبو بكر الصديق ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 706 خاتمہ فی امور مہمۃ)


باطنی افضلیت کا مفہوم "زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت ہے" ، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک عقلی دلیل بھی پیش فرمائی ، تاکہ ہر عام و خاص کے ذہن میں افضلیت کا معنیٰ واضح ہو جائے ۔ فرماتے ہیں: دو درباریوں نے بادشاہ کو اپنی عمدہ کار گزاریوں سے راضی کیا بادشاہ نے ایک کو ہزار اشرفی دے کر پائے تخت کے نیچے جگہ دی ۔ دوسرے کو انعام تو ایک لاکھ اشرفی ملا، لیکن مقام اس پہلے کی کرسی منصب سے نیچے ۔ پھر فرماتے ہیں : اے انصاف والی نگاہ : اہل دربار میں افضل کسے کہا جائے گا ؟

اس مثال سے واضح ہوا کہ بلاشبہ جس کو بادشاہ سے زیادہ قرب ہے ، وہی سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ۔

اس کے بعد اس معنی کو کثیر دلائل سے ثابت فرمایا اور  اخیر میں تحریر فرمایا : بالجملہ سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو قرب و وجاہت ، و عزت و کرامت ، و علو شان ، و رفعت مکان ، و غزارتِ فخر ، و جلالتِ قدر  بارگاہ حق تبارک و تعالیٰ میں ، حضرا ت خلفائےاربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو حاصل ، ا ن کا غیر اگر چہ کسی درجہ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو  آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہر گز اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مگر شیخین رضی اللہ عنہما کو امورِ مذکورہ میں ختنین رضی اللہ عنہما پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذا باللہ فضل و کمال ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفح 120 رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین)

  

یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ افضلیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں :


افضلیت جزئیہ : یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو ۔

جیسے زید عمر سے علم نحو میں افضل ہے ۔


افضلیت کلیہ افرادیہ : یعنی افضل فضیلت کے ہر باب میں مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔


افضلیت کلیہ مجموعیہ : یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔ جیسے مرد مجموعی طور پر عورت سے افضل ہے ۔


اس افضلیت کو افضلیت مطلقہ بھی کہتے ہیں ۔ جیسے زید کو جتنے مسائل یاد ہوں ، بکر کو بھی اتنے ہی مسائل یاد ہوں ، مگر زید کو ان کی معرفت دلائل کے ساتھ ہو اور بکر کو دلائل کے بغیر تو علی الاطلاق کہیں گے کہ زید بکر سے افضل ہے ۔


افضلیت جزئیہ اور افضلیت مطلقہ میں منافات نہیں ۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ زید کو عمرو پر "افضلیت مطلقہ" حاصل ہو اور عمرو کو زید پر افضلیت جزئیہ ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعد باطنی افضلیت کلیہ افرادیہ تو درکنار ظاہری افضلیت کلیہ افرادیہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ،

کیوں کہ دنیا میں بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ایسا نیک کام کر لیتے ہیں جو دوسرے کیے ہوئے نہیں ہوتے ۔ رہی افضلیت جزئیہ تو وہ  حدیث اور قرآن کے مطابق بہت سے صحابہ کو ایک دوسرے پر حاصل ہے ، بلکہ اجمالاً بعض غیر صحابہ کو بھی حاصل ہے ۔


افضلیت کا اثبات دو طریقے سے  ہوتا ہے :


 پہلا طریقہ : یہ ہے کہ افضلیت نصوص شرعیہ سے ثابت ہو جائے ، کہ فلاں ، فلاں سے افضل ہے ۔ یہ احسن و اسلم طریقہ ہے ۔


دوسرا طریقہ : استدلال و استنباط اور ترتیب مقدمات کا ہے ۔ اور یہ طریقہ تنقیح طلب ۔


 اس کی توضیح یہ ہے کہ بنائے تفضیل دو چیزیں ہیں : اول : ما فیہ التفاضل ۔ اس میں افضل و مفضول دونوں مشترک ہوتے ہیں ۔ مگر بالتشکیک کہ افضل میں زیادہ اور مفضول میں کم ۔ دوم : ما بہ الافضلیت ، یعنی جو مافیہ التفاضل میں افضل کی زیادت کرے ۔ اور یہ صرف  ذات افضل کے ساتھ قائم  ہوتا ہے ۔ اور مفضول کا اس میں افضل کے  کم و کیف کے ساتھ اشتراک نہیں ہوتا ۔ جیسے شمشیرِ تیز براں کو تیغِ کند ناکارہ پر تفضیل ہے ۔


اس مثال میں ما فیہ التفاضل "قطع و جرح" ہے کہ "شمشیرِ براں" خوب کاٹتی ہے اور "تیغ کند" قطع میں قصور کرتی ہے ۔ اور ما بہ الافضلیت "خوش آبی و پاکیزہ جوہری" ہے ، جو "شمشیرِ براں" کے ساتھ مختص ہے ۔


"باب افضلیت" میں مافیہ التفاضل تو واضح ہے  اور ما بہ الافضلیت کا ادراک نہایت غامض اور مزلت اقدام ہے ۔ اہل سنت و جماعت کا مرجع ہر بات میں قرآن کریم، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اور مقام شرح و تفسیر میں پیشوا و مقتدا اکابر کے اقوال ۔ اس باب میں غور کریں تو تفسیر ، شرح حدیث اور اقوال سلف پر مابہ الافضلیت ۔ زیادت تقوی ، سبقت الی الخیرات ،  زمانہ غربت اسلام میں دین کی اعانت ، فضل صحبت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کثرت نفعِ اسلام وغیرہ امور کثیرہ وغیرہ اوصاف ہیں ۔ 


ان امور کی وضاحت کے بعد افضلیت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کا مفہوم یہ ہوا کہ : عند اللہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو  زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت حاصل ہے ۔ اور بعد انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اس مقام رفیع میں آپ کا کوئی سہیم نہیں ۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت ، افضلیت مطلقہ ہے ۔ یونہی مابہ الافضلیت والے اوصاف میں اس  کم و کیف کے ساتھ جو آپ کےلیے ہے ، آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں ۔


فضیلت و افضلیت میں فرق : فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ (فضیلت) اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول اور یہاں (افضلیت میں) بالاجماع مردود و نامقبول ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے جہاں ان کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعت حق غیر غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الاجوہ اندیشہ نہ ہو ۔ فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ، جن بندگان خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ان کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو اگر حدیث ضعیف میں آئے اس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ ان کا فضل تو خود صحاح سے ثابت ، یہ ضعیف اسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر و افضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اس کا تھا اور کہہ دیا اس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو ۔ پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے ، جہاں عقائد حقہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو ۔ اور اس کے خلاف احادیث مقام وضعاف سے استناد کیا جائے ، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادت شریعت و معاندت سنت ہے ۔ ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا ۔ کمابیناہ فی کتابنا المبارک "مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین"(۱۳۹۷ھ) ۔ بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرض باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر و اجماعی ہے کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور اور متواتر و اجماع کے مقابل احاد ہرگز نہ سنے جائیں گے ۔ ولہٰذا امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیر حدیث عرض علی عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرہ قالوا فما اولت ذلك یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال الدین (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا دین ۔ ت) فرماتے ہیں : لئن سلمنا التخصیص بہ (ای بالفاروق رضی اللہ تعالی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ فلا تعارضھا الاحاد، ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری باب تفاضل اہل ایمان فی الاعمال مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت جلد ۱ صفحہ ۱۰۶)

اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں لیکن اجماع اہلسنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے ۔ (ت)


الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں ۔ بلکہ موافقت وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح بھی نامسموع ، حیث قال لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیلتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین ۔ (شرح مواقف المرصد الرابع ازموقف سادس فی السمعیات مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم ایران جلد ۸ صفحہ ۳۷۲)

ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کےلیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ (ت)


امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فضیلت وافضلیت سے متعلق رقم فرمایا :


فائدہ : ۱ : نفیسہ جلیلہ ۔ (فضیلت وافضلیت میں فرق ہے ۔ دربارۂ تفضیل حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں) 


فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کافرق ہے۔ وہ اسی باب سے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول ، اوریہاں بالاجماع مردود و نامقبول ۔


اقول : جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افاداتِ سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا،ذہن نشین کرلیا ہے ، وہ اس فرق کو بنگاہِ اولیں سمجھ سکتا ہے ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے ، جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعتِ حق غیر ، غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الوجوہ اندیشہ نہ ہو ۔


 فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ۔ جن بندگانِ خدا کا فضل تفصیلی ، خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ، اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو ، اگر حدیث ضعیف میں آئے ، اُس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ اُن کا فضل تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی ۔ اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے،اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو، وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی ، خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر وافضل ماننا ہے ،  یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اُس کا تھا ، اور کہہ دیا اِس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو،پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے،جہاں عقائدِ حقہ میں ایک جانب کی تفضیل محقق ہو،اور اس کے خلاف احادیث سقام وضعاف سے استناد کیا جائے، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہماپر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے ، ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا:کمابیناہ فی کتابنا المبارک:مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین (۷۹۲۱؁ھ,چشتی)(جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارک کتاب“ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین“ میں بیان کیا ہے ۔ ت) 


بلکہ انصافًا اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے ، قطعاً واجب التاویل ہے ، اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو ، واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہے : کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور (جیسا کہ ہم نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے ۔ ت) اور متواتر واجماع کے مقابل آحاد ہرگز نہ سنے جائیں گے۔


ولہٰذا امام احمد قسطلانی ”ارشاد الساری شرح صحیح بخاری“ میں زیر حدیث : (عرض عَلَیَّ عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرّہ-قالوا:فما اولت ذلک یا رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) ؟ قال الدین) ۔ (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا : دین ۔ ت) 


فرماتے ہیں : (لئن سلّمنا التخصیص بہ(ای بالفاروق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علٰی افضلیۃ الصدیق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ فلا تعارضھا الاحاد-ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین،لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی) ۔ (اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دال ہیں اور آحاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں،اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں ، لیکن اجماعِ اہل سنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے،اور وہ قطعی ہے ، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے۔ ت)


بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں،بلکہ مواقف وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے، اور اس میں آحاد صحاح بھی نامسموع:(حیث قالا:لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیکتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین) ۔ (ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے، بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے، اس کے لیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ ت)


فائدہ ۲ : مہمہ عظیمہ ۔ (مشاجرات صحابہ میں تواریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں) 


افادہ : 23 : پر نظر تازہ کیجیے ۔ وہاں واضح ہوچکا ہے کہ کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں، مطعونوں، شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں ۔وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علما ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں ، وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے، پھر انصافًا یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلًا کسی کام کے نہیں ، اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے،ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں : کما لایخفی ۔


بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے ۔ بد مذہبی نہیں تو جنون ہے ۔ سیر جن بالائی باتوں کےلیے ہے ، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کر سکتے ۔ اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں ، نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات و معضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلیٰ آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا ، اعتراض نکالنا ، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، مگر گمراہ بددین مخالف و مضاد حق مبین ۔

 آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیر و خرافات تواریخ و امثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین و ام المومنین و طلحہ و زبیر و معاویہ و عمرو بن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم ، اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطاعن مردودہ ، اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش و مہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب و واحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے ، اور اُن سے قرآنِ عظیم و ارشاداتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقاببلہ چاہتے ہیں ۔ بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں۔اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنیٰ مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کے لیے مسموع نہیں ہو سکتے، نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں: جل جلالہ، وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔


امام حجۃ الاسلام مرشد الانام محمدمحمد محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں : (لا تجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق ۔ نعم یجوز ان یقال ان ابن ملجم قتل علیا فان ذلک ثبت متواترا) ۔ (کسی مسلمان کو کسی کبیرہ کی طرف بے تحقیق نسبت کرنا حرام ہے۔ ہاں، یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم شقی خارجی اشقی الآخرین نے امیرالمومنین مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شہید کیا کہ یہ بتواتر ثابت ہے ۔ ت)


حاش للہ ، اگر مؤرخین و امثالہم کی ایسی حکایات ادنیٰ قابلِ التفات ہوں تو اہل بیت و صحابہ درکنار خود حضرات عالیہ انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہم اجمعین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے کہ ان مہملات مخذولہ نے حضرات سعاداتنا و مولٰینا آدم صفی اللہ و داؤد خلیفۃ اللہ و سلیمان نبی اللہ و یوسف رسول اللہ سے سیدالمرسلین محمد حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و علیہم وسلم تک سب کے بارہ میں وہ وہ ناپاک بیہودہ حکایات موحشہ نقل کی ہیں کہ اگر اپنے ظاہر پر تسلیم کی جائیں تو معاذاللہ اصل ایمان کو رد بیٹھنا ہے ۔


ان ہولناک اباطیل کی بعض تفصیل مع رد جلیل کتاب مستطاب شفا شریف امام قاضی عیاض اور اس کی شروح وغیرہا سے ظاہر ۔ لاجرم ائمہ ملّت وناصحانِ اُمت نے تصریحیں فرمادیں کہ ان جہال وضلال کے مہملات اور سیر و تواریخ کی حکایت پر ہرگز کان نہ رکھا جائے ۔ شفا و شروح شفا و مواہب و شرح مواہب و مدارج شیخ محقق وغیرہا میں بالاتفاق فرمایا ، جسے میں صرف مدارج النبوت سے نقل کروں کہ عبارت فارسی ترجمہ سے غنی اور کلمات ائمہ مذکورین کا خود ترجمہ ہے ۔ فرماتے ہیں : رحمہ اللہ تعالیٰ : ازجملہ توقیر وبرآں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم توقیر اصحاب وبرایشاں است وحسن ثنا ورعایت ادب بایشاں ودُعا واستغفار مرایشاں را،وحق است مرکسے راکہ ثنا کردہ حق تعالیٰ بروے،وراضی ست ازوے کہ ثنا کردہ شودبروے ۔ و سب و طعن ایشاں اگر مخالف ادلہ قطعیہ است ، چناں کہ قذف عائشہ کفر است والا بدعت و فسق است ، کذا قال فی المواہب اللدنیہ ۔ وہم چنیں امساک وکف نفس از ذکر اختلاف و منازعات و وقائع کہ میان ایشاں شدہ و گذشتہ است ۔ و اعراض واضراب از اخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرمثالب ومعائب وقوادح وزلات ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافترا است ۔ و طلب کردن والتماس نمودن در آں چہ نقل کردہ شدہ است از ایشاں از مشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج از جہت بودن ایشاں اہل آں وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں از جہت آں کہ صحبت ایشاں بآں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقینی است وماورائے آں ظنی است ۔ و کافیست دریں باب کہ حق تعالیٰ برگزید ایشاں رابرائے صحبت حبیبہ خود صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔طریقہ اہل سنّت وجماعت دریں باب این است، درعقائد نوشتہ اند:(لا تذکر احدا منھم الا بخیر) وآیات واحادیث کہ درفضائل صحابہ عموماً وخصوصاً واقع شدہ است، دریں باب کافی است - اھ مختصرا ۔

(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے،ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے،اور ان کے لیے دعا وطلبِ مغفرت کرنی چاہئے، بالخصوص جس جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے ،اور اس سے راضی ہوا ہے، اس سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے، پس اگر ان پر طعن وسب کرنے والا دلائل قطعیہ کا منکر ہے تو کافر ، ورنہ مبتدع و فاسق ۔ 

اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہُوئے ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے ، اور ان اخبار واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں ، اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کرکے ان کی طرف منسوب کردیے ، اور ان کے ڈگمگا جانے سے ، کیوں کہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے ، اور ان کے درمیان جو محاربات ومشاجرات منقول ہیں، ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے ، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے ، بلکہ ان کے فضائل ، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے، کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ان کی صحبت یقینی ہے ، اور اس کے علاوہ باقی معاملات ظنی ہیں ۔ اور ہمارے ل یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام کی محبت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ اہل سنت وجماعت کا صحابہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے، اس لیے عقائد میں تحریر ہے کہ صحابہ میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے ، اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات و احادیث عموماً یا خصوصاً وارد ہیں،وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں ۔ اھ مختصرا۔ت)


امام محقق سنوسی وعلامہ تلمسانی ، پھر علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : (مانقلہ المؤرخون قلۃ حیاء وادب)(مؤرخین کی نقلیں قلت حیا وادب سے ہیں) 


امام اجل ثقہ مثبت حافظ متقن قدوہ یحییٰ بن سعید قطان نے کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں،عبداللہ قوایری سے پُوچھا:کہاں جاتے ہو؟ کہا: وہب بن جریر کے پاس سیر لکھنے کو ۔ فرمایا : (تکتب کذبا کثیرا)(بہت سا جھوٹ لکھوگے) ۔ (ذکرہ فی المیزان) (اس کا ذکر میزان میں ہے ۔ ت)


تفصیل اس مبحث کی اُن رسائل فقیر سے لی جائے کہ مسئلہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں تصنیف کیے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 585 - 580 جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)


انبیاء و مرسلین کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہستی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت ، فضیلتِ مطلقہ ہے  اور اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سے جو قرب و وجاہت ، عزت و کرامت ، علوِ شان و رفعتِ مکان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے ، کسی اور کو حاصل نہیں ، حسب نسب یا خلافت کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ہے ، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین کریمین پر بھی حاصل ہے ، البتہ بعض جزوی فضیلتیں دیگر ہستیوں کو حاصل ہیں ،جیسے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین ہونے کا شرف یقینا والدین کریمین رضی اللہ عنہما ہی کو حاصل ہے۔ اسی طرح دیگر کئی جزوی فضیلتیں ایسی ہیں ، جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں ، لیکن دیگر اصحاب کو حاصل ہیں اور اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلتِ مطلقہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔


امام ابو احمد ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 365 ھ ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أبو بكر وعمر خير الأولين وخير الآخرين وخير أهل السماوات وخير أهل الأرضين إلا النبيين والمرسلين ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پہلے والوں اور بعد والوں ، زمین والوں اور آسمان والوں میں سے انبیاء و مرسلین کے علاوہ باقی تمام سے بہترین ہیں ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 2 صفحہ 443 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)


افضلیت سے مراد کیا ہے ؟


اس سے متعلق علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : هما أعلى المؤمنين صفة وأعظمهم بعد الأنبياء قدرا ۔

ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما مومنین میں سے سب سے زیادہ صفت کے اعتبار سے اعلیٰ ہیں اور (بارگاہ الٰہی میں) انبیاء کے بعد مومنین میں سے سب سے بڑی قدر و منزلت والے ہیں ۔ (التیسیر شرح جامع الصغیر جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ بیروت)


شرح مواقف میں ہے : و مرجعھا ای مرجع الافضلیۃ التی نحن بصددھا الی کثرۃ الثواب و الکرامۃ عند اللہ ۔

ترجمہ : جس افضلیت سے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں  ، اس کا مرجع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثواب کی کثرت اور عزت و کرامت ( ان حضرات کی ) ہے ۔ (شرح المواقف المرصد الرابع المقصد الخامس الافضل بعد الرسول جلد 3 صفحہ 638 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)


نسب کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ، جیسا کہ شرح عقائد کی شرح نبراس میں ہے : ’’ ذکر المحققون ان فضیلۃ المبحوث عنھا فی الکلام ھی کثرۃ الثواب ای عظم الجزاء علی اعمال الخیر لاشرف النسب  ‘‘ ترجمہ : محققین نے ذکر کیا ہے کہ جس فضیلت سے متعلق ہم بات کر رہے ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ ثواب کا زیادہ ہونا اور اعمالِ صالحہ پر جزاء کا عظیم ہونا ، نہ کہ نسب کے اعتبار سے شرف حاصل ہونا ۔ (النبراس افضل البشر بعد الانبیاء الخ صفحہ 299 مطبوعہ ملتان)


نوٹ : علماء کے کلام میں افضلیت کی شرح میں جو کثرتِ ثواب کہا گیا ہے ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ کثرتِ ثواب سے زیادتِ قرب مراد لیتے ہیں ، کہ بنی نوع انسان میں قرب بذریعۂ اعمال حاصل ہوتا ہے ، اسی طرح کثرتِ نفع فی الاسلام قوت کیفیتِ ایمانیہ کا اثر و ثمرہ اور یہی کیفیت وجہِ تفاضلِ انبیاء و ملائکہ ہے ۔ (حاشیہ مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 124 مطبوعہ مکتبہ بہارِ شریعت لاہور )


افضلیت کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام کے بعد جو قرب و وجاہت و عزت و کرامت و علوِ شان و رفعتِ مکان و غزارتِ (وفور و کثرت) فخر و جلالتِ قدر بارگاہِ حق تبارک و تعالیٰ میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حاصل ، ان کا غیر اگرچہ کسی درجۂ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو یا آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہرگز اس تک نہیں پہنچ سکتا ، مگر شیخین کو امورِ مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذ باللہ فضل و کمالِ ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے اور تفضیلیہ دربارہ جناب مولیٰ اس کا عکس مانتے ہیں ۔ یہ ہی تحریر مادۂ نزاع ، بحمد اللہ اس نہجِ قویم و اسلوبِ حکیم کے ساتھ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ شک مشکک و وہمِ واہم کو اصلاً محلِ طمع نہیں ۔ ( مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 114 مطبوعہ مکتبہ بھارِ شریعت لاہور)


امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو نسب کی بناء پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص سے متعلق سوال ہوا ، تو جواباً آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء رضی اللہ عنہم کا اعظم و اعلیٰ ہے ، تو حق تھا ، مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے افضل کہا ، یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے ، اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ، ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل ۔ اگرجزئیت موجبِ افضلیت مرتبہ عنداللہ ہو ، تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اللہ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولیٰ علی سے افضل واعلیٰ ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 274 تا 276 رضا فاؤنڈیشن لاہور)


انبیاء و مرسلین علیہم  السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے اور اس عقیدے پر بہت ساری احادیثِ نبویہ ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین علیہم الرحمہ کے اقوال موجود ہیں ، کسی بھی صحابی کا اس کے خلاف عقیدہ نہیں تھا ، بلکہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شیخین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ہی سزا کی روایت منقول ہے اور یہی مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت حسب نسب  یا خلافت  کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ مطلقہ ہے ، یعنی بغیر کسی خاص وصف کا لحاظ کیے یوں ہے کہ قربِ الٰہی  و کثرتِ ثواب میں آپ بقیہ سب سے فائق ہیں ، جیسا کہ پہلے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔


حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رآني النبي (صلى اللہ عليه وسلم) وأنا أمشي أمام أبي بكر الصديق فقال يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا : اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے تھے ، جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے ۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 209 مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)


امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 509 ھ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أتاني جبريل قلت يا جبريل من يهاجر معي قال أبو بكر وهو يلي أمر أمتك من بعدك وهو أفضل أمتك ۔

ترجمہ : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے ، تو میں نے کہا : اے جبریل ! میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کے والی ہوں گے اور آپ کی امت میں سے سب سے افضل ہیں ۔(الفردوس بماثور الخطاب جلد 1 صفحہ 404 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)


صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و یسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاینکرہ ۔

ترجمہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم افضل ہیں ، پس یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔ (المعجم الکبیر جلد 12 صفحہ285 مکتبۃ العلوم و الحکم الموصل)


حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمدبن حنفیہ تابعی ہیں ، آپ فرماتے ہیں : قلت لابی ای الناس خیر بعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ؟ قال ابوبکر قلت ثم من ؟ قال عمر ۔

ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں ؟ توآپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ (صحیح بخاری باب فضل ابی بکر جلد 1 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی،چشتی)


امام اعظم امام ابو حنیفہ (تابعی) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمربن خطاب ، پھر عثمان بن عفان ، پھر علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔ (فقہ اکبر مع شرح صفحہ61 مطبوعہ کراچی)


حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ تابعی ہیں ، آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت علی افضل ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہم) ؟ تو یہ سنتے ہی آپ کا جسم لرز اٹھا اور آپ کے ہاتھ سے عصا گِر گیا اور فرمایا : ما كنت أظن أن أبقى إلى زمان يعدل بهما ۔

ترجمہ : مجھے گمان نہ تھا کہ میں ایسے زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ حضرت ابوبکر و عمر کے برابر کسی دوسرے کو ٹھہرائیں گے ۔ (تاریخ الخلفاء ، الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق صفحہ 31،چشتی)


صحابہ و تابعین کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا ، جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 923 ھ) فرماتے ہیں : الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکر رضی اللہ عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔

ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اور تابعین کا اجماع نقل کیا ۔(ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد 8 صفحہ 147 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 676 ھ) فرماتے ہیں : وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔

ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (تھذیب الاسماء و اللغات جلد 1 صفحہ 15 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)


حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتري ۔

ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 383 مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)


یہ افضلیت خلافت کے اعتبار سے ہے یا ولایت کے اعتبار سے ؟


اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سلسلہ تفضیل عقیدہ اہلسنت میں یوں منتظم ہوا کہ افضل العٰلمین و اکرم المخلوقین محمد رسول رب العٰلمین ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، پھر انبیاء سابقین ، پھر ملائکہ مقربین ، پھر شیخین ، پھر ختنین ، پھر بقیہ صحابہ کرام صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور پُر ظاہر کہ سلسلہ واحدہ میں مافیہ التفاضل یعنی وہ امر جس میں کمی بیشی کے اعتبار سے سلسلہ مرتب ہوا ، ایک ہی ہوگا ۔ پس بالضرورۃ وہ امر یہاں بھی ایک ہی ہوگا اور جس بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء اور انبیاء کو تمام ملائکہ اور ملائکہ مقربین کو شیخین پر زیادتی مانی گئی ہے ، بعینہ اسی امر میں شیخین کو جنابِ عثمان و حضرت مرتضوی پر پیشی ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین ۔ اب ہم پوچھتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور انبیاء سے افضل کہا جاتا ہے ، تو آیا اس کے سوا کچھ اور معنیٰ و مفہوم ہوتے ہیں کہ حضور کا رتبۂ عالی اور قرب و وجاہت و عزت و کرامت ان سے زیادہ ، اسی طرح جب انبیاء کو ملائکہ اور ملائکہ کو صحابہ سے افضل کہتے ہیں ،  اس معنیٰ کا غیر ذہن میں نہیں آتا ، تو شیخین کو جو مولیٰ علی سے افضل کہا ، وہاں بھی قطعاً یہی معنیٰ لیے جائیں گے ، ورنہ سلسلہ بکھر جائے گا اور ترتیب غلط ہوجائے گی اور جو یہاں زیادتِ اجر وغیرہا معانی مخترع مراد لیتے ہو ، تو بحکمِ مقدمۂ مذکورہ اوپر بھی یہی لینا پڑے گا ، حالانکہ فرشتے بایں معنیٰ اہل ثواب نہیں ، نہ بعض ملائکہ مقربین مثل حملۂ عرشِ عظیم میں باعتبار نفع فی الاسلام کلام جاری ہو اور خلافت تو خلفاء اربعہ سے اوپر کسی میں نہیں ، پھر یہ معانی تراشیدہ کیوں کر درست ہوسکتے ہیں ؟ لطف یہ ہے کہ جیسے اوپر کی ترتیبوں میں تفضیل بمعنیٰ علوِ شان و رفعتِ مکان لیتے آئے ، یوں جب نیچے آکر مولیٰ علی کو بقیہ صحابہ سے افضل کہتے ہیں ، وہاں بھی اسی معنیٰ پر ایمان لاتے ہیں ، بیچ میں شیخین کی نوبت آتی ہے ، تو اگلا پچھلا یاد نہیں رہتا ، نئے نئے معنیٰ گڑھے جاتے ہیں اور اس معنیٰ کے رد پر بڑے بڑے اہتمام ہوتے ہیں ۔ اب بھی دعویٰ انصاف باقی ہے ۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ (مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 123 تا 124 مکتبہ بہارِ شریعت لاہور )


مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام تابعین عظام رضی اللہ عنہماور امت کے اسلاف علیہم الرحمہ کا ہے ۔ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم  اجمعین  کا اس بات پر اجماع  ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ  والسلام کے بعد تمام مخلوق میں افضل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھرحضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور یہی عقیدہ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا ہے اور اس عقیدے پر  بکثرت احادیث نبویہ ، آثارِ صحابہ و اقوال ائمہ ، بلکہ خود حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فرمان موجود ہے اور جمہور اہلسنت کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔ جو شخص مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرات ِشیخین کریمین صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت دے ، وہ شخص اہلسنت سے خارج ہے ۔

افضلیت ابوبکر صدیق کے متعلق آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کا اجماعی فیصلہ

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور)

اجماع کیا ہے ؟ ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع کیا ہوتا ہے ۔ اصول فقہ کی معروف کتاب نور الانوار میں ہے : وفی الشریعۃ اتفاق مجتہدین صالحین من امۃ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی عصر واحد علی امر قولی او فعلی ۔ ( نورالانوار)
ترجمہ : شرعا امت محمدیہ کے صالح مجتہدین کا عصر واحد میں کسی قولی یا فعلی مسئلے پر متفق ہو جانا اجماع کہلاتا ہے ۔

تفضیلیہ کا کہنا ہے کہ اگر افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عقیدہ قطعی اجماعی ہوتا تو تفضیل علی رضی اللہ عنہ کے قائل کو کافر قرار دیا جاتا لیکن علماء اہل سنت تفضیل علی کے قائل کو کافر نہیں کہتے ۔ تفضیلیہ کی یہ غیر عالمانہ بات سن کر اتنی حیرت ہوتی ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ، یہ لوگ تو اجماع کے متعلق ابتدائی بنیادی معلومات بھی نہیں رکھتے ۔ یاد رکھیں کہ اجماع کی صرف ایک ہی قسم اور ایک ہی حکم نہیں ہے بلکہ اس کی تین قسمیں ہیں اور ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ حکم ہے ۔ اصول فقہ کی مشہور کتاب “توضیح تلویح” میں ہے : ثُمَّ الْإِجْمَاعُ عَلَى مَرَاتِبَ” فَالْأُولَى بِمَنْزِلَةِ الْآيَةِ وَالْخَبَرِ الْمُتَوَاتِرِ يَكْفُرُ جَاحِدُهُ ۔ وَالثَّانِيَةُ بِمَنْزِلَةِ الْخَبَرِ الْمَشْهُورِ يُضَلَّلُ جَاحِدُهُ ۔ وَالثَّالِثَةُ : لَا يُضَلَّلُ جَاحِدُهُ لِمَا فِيهِ مِنْ الِاخْتِلَافِ ۔
ترجمہ : اجماع کے تین مراتب ہیں. پہلا وہ اجماع جو آیت قرآن اور خبر متواتر کے قائم مقام ہے ، اس کا منکر کافر ہوتا ہے ۔ دوسرا وہ اجماع جو خبر مشہور کے قائم مقام ہوتا ہے ، اس کے منکر کو گم راہ قرار دیا جاتا ہے ۔ تیسرا وہ اجماع جس میں اختلاف ہوتا ہے ، اس کے منکر کو گم راہ نہیں کہا جاتا ۔

پس معلوم ہوا کہ اجماع کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے کہ جس کا منکر کافر قرار پاتا ہے بلکہ ایسے اجماع بھی پائے جاتے ہیں جن کا منکر گم راہ و بد مذہب قرار دیا جاتا ہے. عقیدہ افضلیت کا تعلق جس اجماع سے ہے وہ اجماع کی دوسری قسم ہے.
یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ اجماع صرف متعلقہ علم و فن کے ماہرین کا ہی معتبر ہوتا ہے ، جیسے مسائل فقہیہ میں فقہاء کا اجماع، مسائل کلامیہ میں متکلمین کا اجماع، مسائل تصوف میں صوفیہ کا اجماع ۔ وغیرہ ۔

عقیدہ افضلیت کا تعلق علمِ کلام سے ہے : یاد رہے کہ عقیدہ افضلیت کا تعلق علم کلام سے ہے ۔ اعلی حضرت مجدد ملت امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت کا تعلق ہرگز بابِ فضائل سے نہیں کہ اس میں ضعیف حدیثیں بھی قابل قبول ہوں بلکہ مواقف و شرح مواقف ایسی کتب عقائد میں واضح لکھا ہے کہ مسئلہ افضلیت کا تعلق بابِ عقائد سے ہے جس میں صحیح آحاد (صحیح قرار دی جانے والی خبرِ واحد) روایتیں تک قابل قبول نہیں ۔ (فتاوی رضویہ)


مسئلہ افضلیت کا تعلق ضروریاتِ اہل سنت سے ہے : مزید برآں عقیدہ افضلیت کا تعلق ضروریاتِ اہل سنت سے ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ ضروریات کیا چیز ہیں ۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : شریعت میں تسلیم کی جانے والی باتیں چار قسم کی ہوتی ہیں : 1 ضروریات دین : ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی سے ہوتا ہے ، جن میں نہ شبہ کی گنجائش ، نہ تاویل کی راہ ، اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے ۔ (جیسے عقیدہ ختم نبوت) ۔ 2 ضروریات مذہب اہل سنت وجماعت : ان کاثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے ، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں کچھ شبہ اورتاویل کا احتمال ہوتا ہے،اس لیے ان کا منکر کافر نہیں ، بلکہ گمراہ ، بد مذہب اور بد دین کہلاتا ہے ۔ (جیسے عقیدہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) ۔ 3 ثابتات محکمہ : ان کے ثبوت کےلیے دلیل ظنی کافی ہوتی ہے ، بشرطیکہ جمہور علماء انہیں راجح قرار دیں اور مقابل نظریے کو نا قابل التفات قرار دیں ۔ ان کا حکم یہ ہے کہ معاملہ واضح ہو جانے کے بعد بھی اگر کوئی ان کا انکار کرے تو وہ خاطی و گناہ گار قرار دیا جائے گا ۔ ہاں البتہ وہ بد دین، گمراہ ، کافر اور خارج از اسلام قرار نہیں دیا جائے گا ۔ 4 ظنیات محتملہ : ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنی بھی کافی ہے جس میں جانب مخالف کی بھی گنجائش موجود ہو ۔ ان کے منکر کو صرف خاطی کہا جائے گا ، گناہ گار کہنا بھی درست نہیں ۔ (فتاوی رضویہ)

مسئلہ افضلیت صدیق اکبر قطعی ہے : قطعی سے مراد یہ ہے کہ یہ ایسے مضبوط ترین دلائل سے ثابت ہے جن میں بر عکس نظریے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کی قطعیت میں کچھ شبہ و تاویل کا احتمال ہے اس لیے اس عقیدے کے منکر کو کافر تو نہیں کہیں گے لیکن بد عقیدہ ، بد مذہب ، گم راہ ، ضال اور مضل ضرور کہیں گے ۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سے دلائل ہیں جن کی وجہ سے اس عقیدے کو قطعیت حاصل ہے ۔

قطعیت کا اولین ماخذ : قرآنِ حکیم

سب سے پہلے تو کتاب اللہ کی کئی آیات میں اشارۃ النص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اور انبیاء کرام  ملاٸکہ علیہم السّلام) کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت ہوتی ہے ۔

1 ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضرت صدیق اکبر کو اتقی قرار دیا اور دوسرے مقام پر فرمایا جو اتقی (سب سے بڑا متقی) ہوتا ہے وہی اکرم (سب سے افضل) ہوتا ہے ۔
2 ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا : و لا یاتل اولو الفضل منکم (تم میں فضیلت رکھنے والے قسم نہ اٹھائیں)

جب خود رب کائنات نے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو باقاعدہ فضیلت والا متعین فرما دیا ، تو بات ہی ختم ہو گئی ۔ یعنی فضیلت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا خاصہ بن گئی ۔ یہ الفاظ اللہ تبارک و تعالی نے کسی اور صحابی کے لیے ارشاد نہیں فرمائے ۔

3 ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ رسول اللہ کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ ملا کے کیا ۔ اور بالکل اسی طرح کئی جگہ صدیق اکبر کا ذکر رسول اللہ کے ذکر کے ساتھ ملا کر کیا مثلاً : ⬇

والذی جاء بالصدق و صدق بہ

ولسوف یعطیک ربک فترضی اور ولسوف یرضی

محمد رسول اللہ و الذین معہ

اذ یقول لصاحبہ

ثانی اثنین اذ ھما فی الغار

لا تحزن ان اللہ معنا

الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ

فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین

مذکورہ تمام آیات کریمہ میں سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا ذکر رسول اللہ کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ پس جیسے اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہ کا مرتبہ ہے اسی طرح رسول اللہ (و دیگر انبیاء علیہم السلام) کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ہے ۔

4 ۔ مزید بھی اشارتاً تین آیات کریمہ میں صدیق اکبر کی افضلیت سامنے آ رہی ہے ۔

لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل

اس میں قبل از فتح انفاق و قتال میں صدیق اکبر کا کوئی ثانی نہیں ۔ لہٰذا کوئی فضیلت میں ان کے برابر نہیں ۔

و شاورھم فی الامر

اس میں اللہ تعالیٰ نے رسول پاک کو صحابہ کرام کے ساتھ مشورے کا امر فرمایا ۔ رسول پاک نے اس پر یوں عمل فرمایا کہ جب بھی مشورہ فرماتے تو صدیق اکبر کو سب سے مقدم رکھتے ۔ یہی تقدیم آپ کی افضلیت کی طرف مشیر ہے ۔

و منہم سابق بالخیرات

(ان صحابہ میں کچھ نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں) مفسرین نے لکھا کہ سابق بالخیرات کی خصوصیت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ میں سب سے بڑھ کر تھی ۔ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت اپنے خطبے میں ان کی اس خصوصیت کا بطور خاص ذکر فرمایا ۔ (خطبہ آگے آ رہا ہے)

قطعیت کا دوسرا ماخذ : احادیث طیبہ

اگر احادیث طیبہ میں غور و فکر کریں تو وہاں بھی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کی خوب خوب صراحتیں ملتی ہیں ۔ حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ نے افضلیت صدیق پر کتاب لکھی ،،الطریقۃ الاحمدیہ فی حقیقۃ القطع بالافضلیۃ،، اس میں آپ نے فضائل صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ پر 652 احادیث بیان فرمائیں ۔ ہم ذیل میں تبرکا چند احادیث تحریر کرتے ہیں : ⬇

1..رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں وہاں کسی دوسرے کا امامت کرانا کسی صورت درست نہیں.
2.. اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کو ابوبکر کے سوا کسی کی امامت قبول نہیں.
3.. ابوبکر کو میں مقدم نہیں رکھتا بلکہ خود اللہ تعالیٰ مقدم رکھتا ہے.
4.. اپنے مال اور صحبت کے حوالے سے مجھ (رسول اللہ) پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے.
5.. لوگوں میں سب سے زیادہ مجھے عائشہ اور ان کے والد محبوب ہیں.
6..فلاں بات پر میں،ابوبکر اور عمر ایمان رکھتے ہیں.
7.. میری امت میں ابوبکر سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے..
8..مجھ پر کسی کا بھی احسان تھا تو وہ میں نے چکا دیا ماسوائے ابوبکر کے، جن کا احسان اللہ تعالیٰ قیامت کے دن چائے گا.
9.. ابوبکر و عمر اہل جنت کے بڑی عمر والوں کے سردار ہیں.
10..لوگو! میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتدا کرنا.
11.. ایک مرتبہ رسول اللہ کے دائیں حضرت ابوبکر تھے اور بائیں حضرت عمر، فرمایا ہم قیامت کے دن بھی اسی طرح اٹھیں گے.
12.. زمین پر میرے دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں.
13.. جتنا ابوبکر کے مال نے مجھے نفع دیا کسی کے مال نے نہیں دیا.
14.. حضرت حسان بن ثابت سے رسول اللہ نے حضرت ابوبکر کی مدح سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے کچھ اشعار پیش کیے جن میں کہا کہ ابوبکر رسول اللہ کے محبوب ہیں اور مخلوقات میں ان کے برابر کوئی نہیں، یہ سن کر رسول اللہ مسکرا دیے.
15.. عمر کی ستاروں جتنی سب نیکیاں ابوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں.
16.. میرے سمیت کسی بھی نبی کا کوئی صحابی ابوبکر کے ہم پلہ نہیں.
17.. جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ سے عرض کی کہ آپ کے بعد آپ کے بہترین فرد ابوبکر ہیں.
18.. ایک مرتبہ حضرت ابو درداء حضرت ابوبکر سے آگے چل رہے تھے، رسول اللہ نے تنبیہا فرمایا تم ایک ایسے شخص سے آگے چل رہے ہو کہ انبیاء کے بعد جس سے افضل شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا.
19.. شب معراج میں نے آسمانوں پر دیکھا، میرے نام کے ساتھ ابوبکر کا نام لکھا تھا.
20..اگر میں رب کے سواکسی کو خلیل چنتا تو ابوبکر کو چنتا.

قطعیت کا تیسرا ماخذ : اقوال صحابہ و ائمہ

1..مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے عہد خلافت میں مسجد کوفہ میں منبر رسول پہ ارشاد فرمایا : لا اجد احدا فضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حدالمفتری ۔ (الاستیعاب)
یعنی اگر کسی نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی تو میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا.
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں : ان الفاظ سے صراحتا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قطعی ہے، اس واسطے کہ شرعا امور ظنیہ میں سزا نہیں ۔ (فتاوی عزیزی)
2..امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ابوبکر صدیق اور پھر عمر فاروق۔
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:کیا یہ بھی کوئی شک والی بات ہے ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ)
3..شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی ارشاد فرماتے ہیں: الاحادیث الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق قد تواترت تواترا معنویا ۔ (فتح الباری)
(یعنی افضلیت صدیق اکبر پر جو احادیث دلالت کرتی ہیں وہ معنوی طور پر تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں)
اور سب جانتے ہیں کہ متواتر احادیث سے ثابت ہونے والا عقیدہ قطعی ہوتا ہے.
4..حضرت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : بےشک تفضیل ابوبکر قطعی ہے ۔ (شرح فقہ اکبر)
5..شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے افضلیت صدیق اکبر پہ ایک مکمل کتاب لکھی.. “الطریقۃ الاحمدیہ فی حقیقۃ القطع بالافضلیۃ”
اس کتاب کا نام ہی اعلان کر رہا ہے کہ صدیق اکبر کی افضلیت قطعی ہے.
6..حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں : احادیث افضلیت حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں. (ازالۃ الخفاء)
7..امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
(حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے۔(مطلع القمرین)

قطعیت کا چوتھا ماخذ : فرامین مولا علی رضی اللہ عنہ

1..مولائے کائنات، حیدر کرار سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان تو آپ پڑھ آئے ہیں کہ جو مجھے شیخین پہ فضیلت دے گا میں اسے مفتری کی (80 کوڑے) سزا دوں گا.
2..جگرگوشۂ علیُّ المرتضیٰ حضرت محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ ارشاد فرمایا : عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے ، اس لیے میں نے فورا کہا : حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ آپ نے (بطور عجز و انکسار) ارشاد فرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔ (بخاری)
3..جب حضرت صدیق اکبر کا وصال ہوا تو اس موقع پر مولا علی نے ان کی شان میں ایک خطبہ دیا، آپ نے ارشاد فرمایا : صدیق اکبر اسلام میں اول تھے ، ایمان میں سب سے بڑھ کر مخلص تھے ، یقین میں سب سے زیادہ پختہ تھے، خوف خدا میں سب سے بڑھ کر تھے ، سخاوت میں سب سے عظیم تر تھے ، رسول اللہ کا سب سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے ، مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ شفیق تھے ، اصحاب رسول کو سب سے زیادہ امان دینے والے تھے ، سب سے زیادہ رسول اللہ کی صحبت میں رہنے والے تھے ، مناقب میں سب سے افضل تھے ، بھلائیوں میں سب سے آگے، درجے میں سب بلند تھے، رسول اللہ کے سب سے زیادہ مقرب تھے ، اخلاق و سیرت میں سب سے زیادہ رسول اللہ کے مشابہ تھے ، حضور کے سب سے زیادہ معتمد تھے ، مرتبے میں سب سے بڑھ کر فضیلت والے تھے اور بارگاہ مصطفی میں سب سے زیادہ عزت و تکریم والے تھے … اللہ تعالیٰ اسلام کی طرف سے، رسول اسلام کی طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے آپ کو بہترین جزا دے. (مسند البزار، مجمع الزوائد)
4..سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مسجد کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے علی الاعلان ارشاد فرمایا : خیر ھذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر ثم عمر.( تکمیل الایمان)
یعنی اس امت میں نبی پاک کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں… یہ روایت حضرت علی سے تواتر سے ثابت ہے.
5..حضرت ابو جحیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو جحیفہ ! رک جا،خیر تو ہے؟ کیا میں تجھے یہ نہ بتاؤں کہ رسول ﷲ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ ابو بکر و عمر ہیں اے ابو جحیفہ ! تجھ پر افسوس ہے میری محبت اور ابو بکر و عمر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور میرا بغض اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق)

عقیدہ افضلیت پر اجماع امت کا بیان

اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ عقیدہ افضلیت اجماعی عقیدہ ہے جس پر جمیع صحابہ بشمول مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دنیا بھر میں پائے جانے والے جمیع اکابر و ائمہ اہل سنت کا چودہ صدیوں سے کامل اتفاق ہے. لیجیے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں .
1..امامِ بخاری ابن عمر سے روایت کرتے ہیں : ہم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے، ہم کہتے تھے ابوبکر سب سے افضل ہیں، ان کے بعد عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم.
طبرانی میں اس پر اضافہ ہے “فیسمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولا ینکرہ” یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے یہ سنتے تھے اور انکار نہیں فرماتے تھے.
اس روایت سے ایک تو افضلیت صدیق اکبر پہ اجماع صحابہ سامنے آیا اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عدم انکار کے سبب اس کی توثيق سامنے آئی.
اب اس سے بڑھ کر اجماع صحابہ کا اور کون سا ثبوت پیش کیا جائے.. دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا.
2..امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے تمام صحابہ سے افضل اور ان پہ مقدم ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔(الاعتقاد)
3..امام نووی فرماتے ہیں: اہل سنت کا اتفاق ہے کہ صحابہ میں افضل ابوبکر ہیں پھر عمر۔ (شرح صحیح مسلم، نووی)
4..امام نووی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : اہل سنت کا اجماع ہے کہ مطلقاً سب صحابہ سے ابوبکر افضل ہیں، پھر عمر. (تہذیب الاسماء واللغات)
5..ابو منصور بغدادی فرماتے ہیں : ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ میں خلفائے اربعہ بالترتيب افضل ہیں. ( اصول الدین)
6..امام قسطلانی لکھتے ہیں:انبیاء علیہم السلام کے بعد افضل البشر ابوبکر ہیں اور تحقیق سلف صالح نے ان کے افضل امت ہونے پر اجماع و اتفاق کیا ۔(ارشاد الساری شرح صحیح بخاری)
7..مزید امام قسطلانی لکھتے ہیں : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع ابو بکر سب سے افضل ہیں پھر عمر افضل ہیں. ( مواہب اللدنیہ)
8..امام غزالی لکھتے ہیں : صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ سب سے مقدم ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی (الاقتصاد فی الاعتقاد)
9.. علامہ عبد العزیز پرہاروی لکھتے ہیں : صوفیا کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔‘ (النبراس)
10..امام رازی لکھتے ہیں : افضلیت صدیق اکبر پر تمام مفسرین کا اجماع ہے (تفسیر کبیر)
11..علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: افضلیت صدیق اکبر پر اجماع ہے ( فتح الباری)
12..علامہ حافظ جلال الدین سیوطی نے افضلیت صدیق اکبر پر مکمّل کتاب لکھی “الحبل الوثیق فی نصرۃ الصدیق” اس میں آپ فرماتے ہیں : افضلیت صدیق اکبر کا عقیدہ اجماعی قطعی ہے، اس کا منکر خبیث ہے.
13..امام ذہبی لکھتے ہیں : عقیدہ افضلیت صدیق اکبر متواتر و قطعی ہے. اس کا منکر بدعتی خبیث منافق ہے. (کتاب الکبائر)
14..حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں : صدیق اکبر اولین و آخرین اولیاء سے افضل ہیں، اس پر پوری امت کا اجماع ہے.. روا_فض کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں، سیدنا علی کو شیخین پہ فضیلت دینا اہل سنت و جماعت کے مذہب کے خلاف ہے( شرح فقہ اکبر)
15..علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں : افضلیت شیخین پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے.(الصواعق المحرقۃ)
16..شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: تمام اکابر ائمہ نے افضلیت صدیق و فاروق کے باب میں اجماع نقل کیا ہے. (تکمیل الایمان)
17..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام کے بعد حضرات خلفائے اربعہ تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت و عزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں پہنچتا…. پھر ان میں ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ،پھر عثمان غنی ، پھر مولا علی. ( فتاوی رضویہ)
18..شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی لکھتے ہیں : اس (افضلیت صدیق اکبر کے) اجماع کا منکر شذ فی النار کی وعید کے تحت ہے.

عقیدہ افضلیت : اکابر امت کا چودہ سو سالہ تاریخی ریکارڈ

آپ اکابر اہل سنت کی عقائد وغیرہ علوم اسلامیہ کی جتنی مرضی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں، سبھی میں آپ کو افضلیت صدیق اکبر لکھی نظر آئے گی.
1..امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : من علامات السنۃ والجماعۃ تفضیل الشیخین ومحبۃ الختنین
اہل سنت کا شعار ابوبکر و عمر کی افضلیت اور عثمان و علی کی محبت ہے. ( تمہید ابو شکور سالمی)
2.. یہ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں، امام مالک سے سوال ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا : ابوبکر صدیق اور پھر عمر فاروق ۔. پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کیا یہ بھی کوئی شک والی بات ہے.(الصواعق المحرقۃ)
3..امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات بھی آپ پڑھ چکے : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے تمام صحابہ سے افضل اور ان پہ مقدم ہونے کے بارے میں اختلاف نہیں کیا۔(الاعتقاد)
4..امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : ابوبکر سب سے افضل ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی.(السنۃللخلال)
5..حضور سیدنا غوث اعظم قدس سرہ فرماتے ہیں : سب صحابہ میں افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی. ( غنیۃ الطالبین)
6..امام طحاوی فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ کے بعد صدیق اکبر کے لیے خلافت اولیں طور پر ثابت مانتے ہیں، ہم آپ کو جمیع امت پر فضیلت دیتے ہیں اور سب پہ مقدم مانتے ہیں. ( عقیدہ طحاویہ)
7..شیخ اکبر محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں: خلفاء اربعہ کی ترتیب خلافت ہی ترتیب افضلیت ہے. ( فتوحات مکیہ)
8..مزید شیخ اکبر لکھتے ہیں : امت میں کوئی بھی شخص حضرت ابوبکر سے افضل نہیں ہے. ( فتوحات)
9..امام قرطبی لکھتے ہیں : صدیق اکبر تمام خلفاء سے افضل ہیں.(تفسیر قرطبی)
10..امام سخاوی لکھتے ہیں: صدیق اکبر کی افضلیت کا منکر اہل سنت سے خارج ہے. (فتح المغیث)
11..علامہ تفتازانی لکھتے ہیں: نبی پاک کے بعد افضل البشر صدیق اکبر ہیں پھر فاروق اعظم ہیں. (شرح عقائد)
12..امام ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں: افضلیت صدیق اکبر بر حق ہے. اس کے منکرین بدعتی ہیں، ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے. (فتح القدیر)
13.. امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں : صدیق اکبر کو سب صحابہ میں افضلیت حاصل ہے. اس کے منکر شیعہ اور معتزلہ ہیں. (الیواقیت والجواہر)
14..علامہ ابن حجر مکی نے عظمت ابوبکر و عمر اور مخالفین کے رد پر مکمل کتاب لکھی جس کا نام ہے “الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقہ”
15..علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں : افضلیت صدیق کا منکر تفضیلی راف_ضی ہے. اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے ( فتاویٰ شامی)
16.. حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے ( مکتوبات)
17..حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: چاروں خلفاء کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (تکمیل الایمان)
18..علامہ عبد العزیز پرہاروی لکھتے ہیں: علماء پر لازم ہے کہ مسئلہ افضلیت صدیق اکبر کو خصوصی اہمیت دیں.(النبراس)
19..حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس حوالے سے دو کتب تحریر فرمائیں ، قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین اور ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء.. آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم( تفہیمات الہیہ)
20..حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے رد تشیع میں پوری کتاب تحفہ اثنا عشریہ لکھی. اس میں آپ فرماتے ہیں : را_فضیہ کا تفضیلی فرقہ حضرت علی المرتضی کو تمام صحابہ سے افضل مانتا ہے.. یہ لوگ ابلیس لعین کے قریبی شاگرد ہیں.
21..حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: خلفائے اربعہ میں جو ترتیب خلافت کی ہے وہی فضیلت کی ہے (فتاوی مہریہ)
مزید آپ لکھتے ہیں : بعد از پیغمبر کوئی شخص ابوبکر سے افضل نہیں ( تصفیہ ما بین سنی و شیعہ)
22..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے افضلیت صدیق اکبر سے متعلقہ موضوعات پر درج ذیل کتابیں لکھیں. مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین.. الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی.. غایۃ التحقیق فی امامۃ العلی والصدیق… دیگر بھی اس موضوع پر آپ کے بیسیوں فتاوی موجود ہیں.
23..عصر حاضر کے اکابر اہل سنت حضرت مفتی نعیم الدین مراد آبادی.. حضرت مفتی امجد علی اعظمی.. حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی.. حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی.. حضرت پیر کرم شاہ الازہری.. حضرت ابوابوالبرکات سید احمد قادری اور ان جیسے دیگر جملہ اکابر صدیق اکبر کی افضلیت پر متفق ہیں. اور اس عقیدے کے منکر کو گم راہ، بد دین اور خارج از اہل سنت قرار دیتے ہیں.
24..دنیا بھر کی تمام مساجد میں علماء کرام صدیوں سے جمعہ کے خطبوں میں یہ اعلان کرتے چلے آ رہے ہیں : افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ.
اگر اس سب کے بعد بھی لوگوں کو عقیدہ افضلیت قطعی اجماعی نظر نہیں آتا تو پھر یقیناً ان کی آنکھیں سو فیصد قابل علاج ہیں.

تفضیلِ علی رضی اللہ عنہ اہل سنت کا نہیں روا_فض کا مذہب ہے

1..امام قسطلانی فرماتے ہیں : شیعہ اور کثیر معتزلہ کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی افضل ہیں. (ارشاد الساری)
2..علامہ تفتازانی لکھتے ہیں : شیعہ اور جمہور معتزلہ کے نزدیک حضرت علی افضل ہیں ۔ (شرح مقاصد)
3..امام کمال الدین ابن ہمام لکھتے ہیں : حضرت علی کو اصحاب ثلاثہ پر فضیلت دینے والا راف_ضی بدعتی ہے. (فتح القدیر)
4..ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : شیعہ کا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جو تفضیل علی کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ (شرح الشفاء)
5..مولانا امجد علی اعظمی لکھتے ہیں : جو شخص مولا علی کرّم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کو صدیق یا فاروق رضی ﷲ عنہما سے افضل بتائے، گم راہ بدمذہب ہے۔… جیسا کہ آج کل سُنّی بننے والے تفضیلیے کہتے ہیں. ( بہار شریعت)
6..امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں : شیعہ اور کثیر معتزلہ کا مذہب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی افضل ہیں ۔ (الیواقیت والجواہر)
7..اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جو وقت کے عظیم مجدد اور اجلہ علماء عرب و عجم کے نزدیک حق و باطل کو سمجھنے کی عظیم کسوٹی ہیں آپ تفضیلیہ کے متعلق درج ذیل کلمات ارشاد فرماتے ہیں : شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے: جو افضلیت صدیق اکبر کا انکار کرے اس کا ایمان خطرے میں ہے…..اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت امام الاولیاء، مرجع العرفاء، امیر المومنین مولی المسلمین، سیدنا مولا علی کرم اللہ وجہہ سے اکرم، افضل، اتم و اکمل ہیں، جو اس کا خلاف کرے اسے بدعتی، شیعی، راف_ضی مانتے ہیں…. تفضیلیہ اہلِ بدعت ہیں ان کی صحبت سے بچنا چاہیے، ان کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے… یہ گم راہ مخالفِ سنت ہیں….راف_ضیوں کے چھوٹے بھائی تفضیلیہ کی شامت، اسد اللہ الغالب کی بارگاہ سے اسّی کوڑوں کی سزا… افضلیت شیخین متواتر واجماعی ہے ، تفضیلیہ گم راہ ہیں… ان کے جنازے کی نماز بھی نہ چاہیے…. ہم تفضیلیوں کے کافر ہونے کا قول نہیں کرتے لیکن اُن کا بدعتی ہونا ثابت ہے… راف_ضی اگر صرف تفضیلی ہو تو بد مذہب ہے اور اگر خلافتِ صدیق کا منکر ہو تو کافر ہے. ..جو شخص موذی بدمذہب ہو، مسجد میں آ کر نمازیوں کو تکلیف دیتا ہو، مثلاً راف_ضی، تفضیلی تو اسے مسجد سے روکنا ضرور واجب ہے…ایسے شیعہ لوگ جو حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو شیخین پر فضیلت دیتے ہوں اگرچہ ان دونوں پر طعن نہ کرتے ہوں مثلاً فرقہ زیدیہ ، تو ان کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے…تفضیلیہ جو مولا علی کو شیخین سے افضل بتاتے ہیں ان کے پیچھے نماز بکراہت شدیدہ تحریمیہ مکروہ ہے کہ انھیں امام بنانا حرام، ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ اور جتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب…جس نے کسی فاسد العقیدہ بدمذہب بدعتی مثلاً تفضیلی یاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی کو برا جاننے والے کے پیچھے نماز پڑھی، عند التحقیق اس کی اقتداء بکراہت شدیدہ سخت مکروہ ہے۔.. جو کہے حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے برابر کسی صحابی کا رتبہ نہیں وہ اہل سنت سے خارج اور گم راہ فرقے تفضیلیہ میں داخل ہے جن کو ائمہ دین نے راف_ضیوں کا چھوٹا بھائی کہا ہے… جو مولا علی کو شیخین پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے، پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔ (اقتباسات از فتاوی رضویہ)

تفضیلیہ کے القاب

چودہ صدیوں کے اکابر اہل سنت نے تفضیلیہ کو جن القاب سے نوازا ہے ان کا ملخص درج ذیل ہے : ⬇

ایمان خطرے میں .. خارج از اہل سنت.. راف_ضی.. جہنمی.. خبیث.. منافق.. بدبخت.. یزید کے ساتھی.. بدعتی.. بے دین.. لعنتی.. بے ایمان.. شیعہ.. معتزلہ.. امامت ممنوع.. جنازہ نا جائز.. روافض کے چھوٹے بھائی.. بد مذہب.. گم راہ.. مبتدع.. صحبت سے بچو.. مفتری.. فاسد العقیدہ.. مسجد میں نہ آنے دیا جائے . ہمارے نزدیک تفضیلیہ اور مرزائیہ کا انداز ایک جیسا ہے .
> مرزائیہ عقیدہ ختم نبوت پر جس انداز سے ڈاکہ ڈالتے ہیں تفضیلیہ بالکل اسی طرح عقیدہ افضلیت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں. > مرزائیہ کے نزدیک نیا نبی مان لینے سے عقیدہ ختم نبوت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور بندہ مسلمان رہتا ہے جبکہ تفضیلیہ کے نزدیک مولا علی کو حضرت صدیق اکبر سے افضل مان لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور بندہ سنی رہتا ہے.
> مرزائیہ ضروریات دین پہ ڈاکہ ڈالنے کے مجرم ہیں جبکہ تفضیلیہ ضروریات اہل سنت پر ڈاکہ ڈالنے کے مجرم ہیں. پس جس طرح اسلام بچانے کے لیے مرزائیہ کا قلع قمع کرنا ضروری ہے اسی طرح اہل سنت کو بچانے کے لیے تفضیلیہ کا قلع قمع کرنا ضروری ہے.

تفضیلیہ کے بعض اعتراضات کا اصولی جواب

تفضیلیہ لوگوں کو گم راہ کرنے کے لیے کبھی کہتے ہیں فلاں کتاب میں لکھا ہے بعض صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہم کی افضلیت کے قائل تھے، کبھی امام رازی کی عبارت پیش کرتے ہیں، کبھی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی ایک دو عبارتیں اٹھا لاتے ہیں، کبھی ابن عبد البر کا سہارا لیتے ہیں. وغیرہ وغیرہ.
ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ جب کسی عقیدے پر امت کا اجماع ہو جائے تو اس کو قبول کرنا فرض عین ہو جاتا ہے. پھر اگر اس کے خلاف حدیث صحیح بھی آ جائے تو قبول نہیں کی جائے گی ، پہلے تو اس کی تاویل کریں گے، اگر بالفرض تاویل نہیں ہو سکتی تو رد کر دیں گے.
اب خود سوچیے کہ جب اجماع کے مقابلے میں آنے والی حدیث صحیح بھی قابل قبول نہیں تو پھر اکا دکا بعض علماء کے اقوال کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے. شاذ روایات تو ہر مسئلے میں مل جاتی ہیں ۔ مزید یہ کہ جو اقوال عام طور پر پیش کیے جاتے ہیں وہ کسی اور پس منظر میں کہے گئے ہوتے ہیں جنہیں تفضیلی اپنی کم عقلی کی وجہ سے اپنے باطل موقف کی دلیل بنائے پھرتے ہیں. بعض صحابہ کرام کے موقف یا اکابر کی چند عبارات جن سے بظاہر تفضیل علی ثابت ہوتی ہے، علماء کرام نے فرمایا کہ انہیں جزوی فضیلت پر محمول کیا جائے گا. یعنی مطلق افضلیت تو شیخین کو حاصل ہے لیکن بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جزوی طور پر ایسی فضیلتیں حاصل ہیں جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں. اور بالخصوص مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تو ایسی فضیلتیں شمار سے بھی باہر ہیں جو صرف انہیں کے ساتھ خاص ہیں،ان میں وہ یکتا و یگانہ ہیں.
مثلاً وہ سیدہ کائنات سردار جنت کے زوج محترم ہیں، وہ جنتی جوانوں کے سردار حسنین کریمین کے والد گرامی ہیں، ان کے ہاتھوں پہ خیبر فتح ہوا، رسول اللہ نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا، وہ اہل کساء میں شامل ہیں، انہیں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا اعزاز حاصل ہے، وہ جدھر ہو جائیں حق ادھر ہو جاتا ہے. ان کے نور نظر امام حسین نے کربلا میں لا زوال و بے مثال تاریخ رقم کی،وہ قیامت تک آنے والے جملہ سادات کے جد امجد ہیں، وہ سلاسل ولایت کے امام ہیں، جس کو بھی ولایت کا تاج ملتا ہے ان کے مبارک ہاتھوں سے ملتا ہے ، امام مہدی ان کی حسنی اولاد سے ہوں گے اور سیدنا عیسی علیہ السلام ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے ۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ، لا تعداد خصائص و فضائل ۔

مُرتَضیٰ شیرِ حق اَشجع الاشجَعیں
ساقیِ شِیر و شربت پہ لاکھوں سلام
اصلِ نسلِ صفا وجہِ وَصلِ خدا
بابِ فصلِ وِلایت پہ لاکھوں سلام
اوّلیں دافِعِ اہلِ رَفْض و خُروج
چارُمی رکنِ ملت پہ لاکھوں سلام
شیرِ شمشیر زَن شاہِ خَیبر شِکَن
پَرتَوِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
ماحیِ رفض و تَفْضِیل و نَصب و خُروج
حامیِ دین و سنت پہ لاکھوں سلام

چودہ صدیوں سے اہل سنت کے متکلمین ، مفسرین ، محدثین ، صالحین مجتہدین مجددین اور اکابرین علیہم الرحمہ تواتر کے ساتھ جن متفقہ عقائد کا بیان کرتے چلے آ رہے ہیں ان سے سوئی کی نوک برابر انحراف بھی بندے کےلیے سخت ضرر رساں ہے ۔ عقیدہ افضلیتِ صدیق و فاروق قطعی اجماعی عقیدہ ہے ، یہ ضروریاتِ اہل سنت میں سے ہے ۔ مسلک حق اہل سنت میں تفضیل علی کی سوئی کی نوک برابر گنجائش نہیں ۔ تفضیل رفض کا زینہ ہے ، اس وقت تفضیل علی کا فتنہ اہل سنت میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ، اس کا سدِ باب فرض کا درجہ رکھتا ہے ۔ فقیر کا یہ سلسلہ مضامین اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی بوسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور نافع خلائق بنائے ۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! اللہ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرما دے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 290-289)

ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 5 صفحہ 189)

اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے گا ، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث 36097 جلد 13 صفحہ 6/7)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے افضل بتاتے ہیں ۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 382)

حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)

حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)

ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)

جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)

افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اللہ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428)

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)

مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتے ان کے بعدحضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی، الحدیث :  ۳۶۵۵، ج۲،  ص۵۱۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں بہت زیادہ میل جول رکھنے والے تھے اور ہماری تعداد بھی بہت زیادہ تھی اس وقت ہم مراتب صحابہ یوں بیان کیا کرتے تھے، اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدسب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اوران کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔پھر ہم خاموش ہوجاتے ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، جامع الخلفاء، الحدیث : ۳۶۷۱۷، ج۷، الجزء : ۱۳، ص۱۰۵)

حضرت سیدنا محمد بن علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ  تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا : نبی کریم اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ ارشادفرمایا : ’’ابوبکر‘‘ میں نے کہا : ’’پھر کون ؟‘‘ فرمایا : ’’عمر‘‘ ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ ’’پھر کون ؟‘‘ تو شاید آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام لے لیں گے ، اس لیے میں نے فورا کہا : ’’حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی سب سے افضل ہیں ؟ ارشادفرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں ۔ (صحیح البخاری، کتاب  فضائل اصحاب النبی، باب  قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لو کنت ۔۔۔ الخ، الحدیث :  ۳۶۷۱، ج۲، ص۵۲۲)

حضرت سیدنا اصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :  ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :  عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کی : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۴، ص۱۹۶،چشتی)

حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے آگے چل رہا تھا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : اے ابودرداء ! تم اس کے آگے چل رہے ہوں جودنیا وآخرت میں تم سے بہتر ہے ، نبیوں اور مرسلین کے بعد کسی پر نہ تو سورج طلوع ہوا اور نہ ہی غروب ہواکہ وہ ابوبکر سے افضل ہو ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، بقیہ قولہ مروابابکر ان یصلی، الرقم : ۱۳۵، ج۱، ص۱۵۲)

حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کے علاوہ تمام لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (جمع الجوامع،  الھمزۃ مع الباء ، الحدیث :  ۱۲۰، ج۱، ص۳۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۲۱۲)

ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نظر نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا ، پھر ارشاد فرمایا : بیشک روح القدس جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے تھوڑی دیر پہلے مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں ۔ (المعجم الاوسط، من اسمہ محمد ، الحدیث : ۶۴۴۸، ج۵، ص۱۸)

حضرت سیدنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’عائشہ‘‘ میں نے کہا :  ’’مردوں میں ؟‘‘ فرمایا :  ’’ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق)‘‘ میں پوچھا : ’’پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا :  ’’عمر بن خطاب‘‘ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ) ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی لو کنت متخذا، الحدیث :  ۳۶۶۲، ج۲، ص۵۱۹،چشتی)  

حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہ  فرماتے ہیں : ⬇

إِذَا تَذَكَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِى ثِقَةٍ فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلاَ

خَيْرُ الْبَرِّيَّةِ اَتْقَاھَا وَاَعْدَلَھَا بَعْدَ النَّبِیِّ وَ اَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا

ترجمہ : جب تجھے سچے دوست کا غم یاد آئے ، تو اپنے بھائی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے کارناموں کو یاد کر جو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ساری مخلوق سے بہتر ، سب سے زیادہ تقوی اور عدل والے ، اور سب سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والےہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابۃ، استنشادہ فی مدح الصدیق، الحدیث :  ۴۴۷۰، ج۴، ص۷)   

حضرت سیدنا ابوبکر بن عیاش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابو حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو یہ فرماتے سنا : وَاللہ مَا وَلَدَ لِآدَمَ بَعْدَ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ أَفْضَلُ مِنْ أَبِيْ بَكْر ، یعنی انبیاء و مرسلین کے بعد حضرت سیدنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك۔۔الخ، الرقم :  ۵۹۸، ج۱، صفحہ نمبر ۳۹۴،چشتی)

حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم ! آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبدبن حمید ، حدیث 212، ص 101، ابو نعیم، طبرانی)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام میں سے کسی کو بھی ابوبکر سے افضل کوئی ساتھی نصیب نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سورۂ یٰسین میں بیان ہونے والے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے جس شہید ساتھی کا ذکر ہے ، وہ بھی ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے افضل نہ تھا ۔ (حاکم، ابن عساکر،چشتی)

حضرت اسعد بن زراہ رضی ﷲ عنہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک روح القدس جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابوبکر ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، حدیث 6448، جلد 5، ص 18)

حضرت سلمہ ابن اکوع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا ابوبکر لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ (طبرانی، ابن عدی)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کے سوا زمین وآسمان کی اگلی اور پچھلی مخلوق میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (حاکم ،الکامل لابن عدی، حدیث 368، جلد 2،ص 180)

حضرت زبیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں سب سے بہتر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ (ابن عساکر، ابو العطوف، ابن الجوزی، العینی)

حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہم کہتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان اور پھر علی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655،جلد 2 صفحہ 451)

حضرت امام ابن ہمام عمر بن محمود نسفی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل البشر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیۃ صفحہ نمبر ۳۱۸)

حضرت سیدنا امام اعظم نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، پھر عمر بن خطاب ، پھر عثمان بن عفان ذوالنورین، پھر علی ابن ابی طالب رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ (شرح الفقہ الاکبر صفحہ نمبر ۶۱)

حضرت اِمام شافعی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابۂ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام امت سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہم  ہیں ۔ (فتح الباری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی، ج۸، ص۱۵)

حضرت سیدنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الثالث صفحہ ۵۷،چشتی)

حضرت سیدناامام ابو جعفر طحاوی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے پہلے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں بایں طور کہ آپ کو تمام اُمت پر افضیلت وسبقت حاصل ہے ، پھر ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کےلیے خلافت ثابت کرتے ہیں ۔‘ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ صفحہ نمبر۴۷۱) 

امام ابوبکر احمد بن محمد ابن ھارون الخلّال علیہ الرحمۃ (وفات٣١١ ھجری) اپنی کتاب میں ابن زریع علیہ الرحمتہ (وفات١٨٢ھجری) کا قول نقل کرتے ہیں کہ" یقول خیر ھذہ الامتہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان۔"ابن زریع نے فرمایا کہ اس امت کے بہترین لوگ حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (السُّنّتہ الجزء الاول صفحہ ٤٠٢ رقم ٥٨٨،چشتی)

اس کتاب کے محقق ڈاکٹر عطیہ زہرانی نے حاشیے میں واضح لکھا ہے ۔" واسنادہ صحیح "اور اب زریع بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ ابوحاتم علیہ الرحمتہ نے انہیں ثقہ کہا ہے۔(تذکرہ الحفاظ رقم٢٤٢)

السنتہ کے اگلے صفحے پر ہی موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ کا فرمان بھی قابل دید ہے ۔"ھکذا تعلمنا ونبتت علیہ لحومنا وادرکنا الناس علیہ تقدیم ابی بکر و عمر وعثمان"امام موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہی ہمیں سکھایا گیا اور یہی ہماری رگ رگ میں رچا بسا ہے اور لوگ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ مقدم ہیں (پھر) عمر رضی ﷲ عنہ (پھر) عثمان رضی ﷲ عنہ ۔ (السُّنّتہ رقم ٥٨٨) ، اور امام موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ تیسری صدی کے پہلے حصے میں فوت ہوئے (تاریخ وفات ٢٢٣ ھجری) امام موسیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ملاحظہ کریں ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم ٣٩٥) ۔ الحمد للہ اہلسنت کا نظریہ بھی یہی ہے جو اکابرین امت علیہم الرّحمہ کا ہے ۔

حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی حسنی حسینی غوث الاعظم رَحمَۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : عشرہ مبشرہ میں سے افضل ترین چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہیں اور ان میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہ اور پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہ اور ان چاروں کےلیے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خلافت ثابت ہے ۔ (الغنیۃ العقائد والفرق الاسلامیۃ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۵۷، ۱۵۸)

حضرت امام ابوبکر باقلانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت اَسلاف کا حق پہنچاتے ہیں وہ اسلاف جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے منتخب فرمایا تھا وہ ان کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان میں جو اختلافات واقع ہوئے ہیں خواہ چھوٹوں میں یا بڑوں میں اہلسنت وجماعت ان اختلافات سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو سب سے مقدم سمجھتے ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق کو ، پھر حضرت سیدنا عثمان کو پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کو اور اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب خلفاء راشدین و مہدیین ہیں اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب لوگوں سے افضل ہیں اور اہلسنت وجماعت ان تمام احادیث کی تصدیق کرتے ہیں اور ان پر دلالت کرنے والی اور شان خلفاء میں وارد شدہ احادیث کو جھٹلاتے نہیں ہیں جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ثابت ہے ۔ (کتاب التمھید صفحہ ۲۹۵)

حضرت شیخ تقی الدین رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اِنَّ اَبَابَکْر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اَفْضَلُ مِنْ سَائِرِ الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَسَائِرِ اُمَمِ الْاَنْبِیَاءِ وَاَصْحَابِھِم ، یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تمام اُمت محمدیہ سے اور تمام انبیاء کی ساری امتوں اور ان کے اصحاب سے افضل ہیں ، کیونکہ آپ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اس طرح لازم تھے جس طرح سایہ جسم کو لازم ہوتا ہے حتی کہ میثاق انبیاء میں اور اسی لیے آپ نے سب سے پہلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تصدیق کی ۔ (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالث والاربعون، الجزء الثانی، صفحہ ۳۲۹،چشتی)

امام ابن عبد البر رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جن صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو چھوڑا اُن میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اس بات پر علماء کرام کی جماعت کا اجماع ہے اور اہل علم کے ایک بہت بڑے گروہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ہیں ۔ (التمھید لما فی الموطا من المعانی والمسانید، حدیث الرابع عشر،  ج۸، صفحہ نمبر ۵۵۳)

اِمامُ المتکلمین علامہ ابوشکور سالمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت وجماعت نے کہا ہے کہ انبیاء ورسل اور فرشتوں کے بعد تمام مخلوق سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (تمھید ابو شکور سالمی صفحہ نمبر ۳۶۴)

حضرت امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (احیاء العلوم کتاب قواعد العقائد الرکن الرابع، الاصل السابع جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۵۸،چشتی)

حضرت امام کمال الدین رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جان لو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، پھر حضرت سیدنا عمر ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ اور اس پر احادیث سے بے شمار دلائل موجود ہیں جو مجموعی طور پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے مقدم ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔   (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالث والاربعون، الجزء الثانی صفحہ ۳۲۹)

حضرت امام قاضی عیاض مالکی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تَعَالٰی نے میرے صحابہ کو تمام جہانوں پر ما سوائے انبیاء و مرسلین کے منتخب فرمایاہے اور ان میں سے چار کو میرے لیے چن لیا ہے وہ چار ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے میرا بہترین ساتھی بنایا اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہے ۔ (الشفابتعریف حقوق المصطفی، ج۲، صفحہ نمبر ۵۴،چشتی)

امام ابن عساکر رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے دین کو غلبہ دیا اور انہیں مرتدین پر غالب کیا اور مسلمانوں نے ان کو خلافت میں اسی طرح مقدم کیا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو غار میں مقدم کیا پھر امام برحق حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہ اللہ تعالیٰ آپ کے چہر ہ کو رونق بخشے آپ کے قاتلین نے ظلم و تعدی سے آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کو شہید کیا پھر حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہ عَنْہ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ ائمہ ہیں ۔ (تبیین کذب المفتری، باب ما وصف من مجانبته لأهل البدع، صفحہ ۱۶۰)

حضرت امام شرف الدین نووی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُما ہیں ۔ (شرح صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ج۸، الجزء : ۱۵، ص۱۴۸)

حضرت امام محمد بن حسین بغوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی ، علی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم انبیاء و مرسلین علیہم السّلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں ، اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پہلے خلیفہ ہیں لہٰذا وہ سب سے افضل ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔ (شرح السنۃ للبغوی، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، صفحہ ۱۸۲،چشتی)

امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اِنَّ الْإِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ أَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہ عَنْهُمْ أَجْمَعِيْن ، یعنی اہل سنت و جماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم) ۔ (فتح الباری ، کتاب فضائل اصحاب نبی،  باب لوکنت متخذا خلیلا، تحت الحدیث : ۳۶۷۸، جلد نمبر ۷ صفحہ نمبر ۲۹،چشتی)

حضرت امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء، ص۳۴)

حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُمت کے اولیاء کرام میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالت والاربعون، الجزء الثانی،  صفحہ ۳۲۸)

حضر امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :  یہ آیت مبارکہ (اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا۔‘‘ اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا : اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ ۔ (پ۵، النساء : ۶۹) ’’یعنی اللہ نے انبیاء اور صدیقین پر انعام فرمایا ۔ اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی ہیں ۔ تو اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ ہدایت طلب کریں جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور تمام صدیقین تھے ، کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے تو ان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی ، لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہے ۔ (التفسیر الکبیر الفاتحۃ : ۵، ۶، ج۱، ص۲۲۱،چشتی)

حضرت امام ابن حجر ہیتمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : علماء اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ ہیں ، اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الثالث ، صفحہ ۵۷)

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اُن کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہ عَنْہ ہیں) تمام اہلِ حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر  فاروق اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ہیں ۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب۱۷، عقیدہ چھاردھم،  ص۳۷،چشتی)

حضرت امام ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ قطعی ہے اس لیے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو بطریق نیابت امامت کا حکم دیا اور یہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو اِمامت میں اولی ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی موجود تھے اور اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی ۔ اس کے باوجود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو امامت کےلیے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم میں تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہ مصلی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکو آگے کیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ابوبکر کے سوا کوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں ۔ (شرح الفقہ الاکبر  صفحہ نمبر ۶۴)

حضرت امام احمد بن محمد بن ابو بكر بن عبد الملك قسطلانی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہہیں ۔ (ارشاد الساری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب مناقب عثمان بن عفان، تحت الحدیث :  ۳۶۹۸، ج۸، صفحہ ۲۱۵)

عارفِ کامل حضرت میرسید عبد الواحد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں علیہم السّلام کے بعد دوسری تمام مخلوق سے بہتر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اُن کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر ۷)

شیخ مقق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : خلفاء اَربعہ کی افضلیت اُن کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدناعثمان غنی پھرسیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ (تکمیل الایمان صفحہ نمبر ۱۰۴)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (تفھیمات الٰھیہ جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۲۸)

حضرت علامہ عبدالعزیز پرہاروی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : صوفیاۓ کرام علیہم الرّحمہ کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔ (النبراس شرح شرح العقائد، ص۴۹۲)

تاجدارِ گولڑہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آیت’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ ۔ (پ۲۶، الفتح :  ۲۹)
ترجمہ : مُحَمَّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔
میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ سے خلیفۂ اول (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں) اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار سے خلیفۂ ثانی (حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث (حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً ۔۔۔ اِلَخ ۔ سے خلیفہ رابع (حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ  تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، حلم و کرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت و اخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہ عَنْہ خصوصی شان رکھتے تھے ۔ (مِہر منیر، ص۴۲۴، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح : ۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرات خلفاء اربعہ رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن   تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں ، پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۴۷۸)

صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (سوانح کربلا صفحہ نمبر ۳۸)

صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : بعد انبیاء ومرسلین ، تمام مخلوقات الٰہی انس و جن و ملک (فرشتوں) سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (بہار شریعت، ج۱، ص۲۴۱)

سیدنا صدیق اکبر وعمر فاروق کی افضلیت قطعی ہے

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : (حضرت سیدنا صدیق و عمرکی افضلیت پر) جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے ۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص۸۱)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں ، لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ، اس لیے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی رَحمَۃُ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان کوئی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۶۸۳،چشتی)

مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے

اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح (خبر واحد صحیح حدیثیں) بھی نامسموع ۔ (فتاوی رضویہ، ج۵، ص۵۸۱)

افضلیت حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ شیعہ حضرات کی کتب سے

شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔

شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم صفحہ 428)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2 صفحہ 428،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔(عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم 257)۔(معجم الخونی صفحہ 153)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور،چشتی)

حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول صفحہ نمبر 107)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ھیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کےغار  کے ساتھی ہیں اور ثانی اثنین ہیں ۔ ہم ان کی شرافت اور بزرگی کے معترف ہیں ۔ بلکہ خود حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ان کو امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین روایت نمبر 4422 جلد 4 صفحہ 154،چشتی)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے کہا گیا کہ آپ اپنا کوئی جانشین مقرر کیوں نہیں کرتے ؟ تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ کیا نبی علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کروں ، اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان لوگوں کو ان میں سے سب سے بہتر فرد پر جمع کر دے گا اس طرح جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے نبی علیہ السلام کے بعد سب سے بہتر شخص پر جمع کر دیا تھا ۔ (مجمع الزوائد روایت نمبر 14334)

حضرت ابوجحیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو فرماتے ہوئے سنا  کہ اس امت کی بہترین شخصیت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) ہیں ۔ (فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل حدیث نمبر 40 صفحہ نمبر 36 مترجم امتیاز حسین صدیقی)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کے پاس جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ھوتا تو آپ  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں کثرت سے آگے بڑھنے والے فرماتے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہم کسی نیکی کے کام میں آگے بڑھنا چاہتے تو ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہم سے آگے ہوتے تھے ۔ (المعجم الاوسط ج 5 صفحہ 456 روایت نمبر 7168)

حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے  اپنے والد محترم سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے ؟ تو فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں میں نے پوچھا پھر کون ہے ؟ فرمایا عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں اور میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام لینے سے ڈرا اور پوچھا پھر  تو آپ ہیں ؟
تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا میں تو مسلمانوں میں سے ایک مسلمان شخص ہوں ۔ (صحیح البخاری  باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث نمبر 3671،چشتی)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے۔۔
1:-انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔۔
2:-مجھ سے پہلے ہجرت کی۔۔
3:-سید عالم علیہ السلام کے یار غار ھونے کا شرف پایا۔
4:-سب سے پہلے نماز قائم فرمائی ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 291)

حضرت عمرو بن حریث فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کوفہ کے ممبر پر تشریف فرما ھوے اور آپ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس امت میں حضور علیہ السلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں ان کے بعد سب سے افضل حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور میں تیسرے کا نام لینا چاھوں لے سکتا ہوں ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 172)


حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ھیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے تو وہ کہنا لگا نہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما  کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے کا اقرار کرتا تو میں تیری گردن اور اگر تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 36153)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر  رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (المعجم الاوسط ج چہارم حدیث نمبر 5421)

اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی خدمت میں عرض کی اے امیرالمومنین رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کیا پھر کون ہے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا میں (علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم) ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 44 ص 196)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے میں نے کہا میرے ساتھ مدینہ طیبہ میں کون ہجرت کرے گا ؟ عرض کیا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امر امت کے والی ہوں گے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام امت سے افضل ہیں ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32588)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے مرتبے اور ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا ابوبکر کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو نماز پڑھاؤ ۔ آپ نے مجھے نماز پڑھانے کا حکم نہیں دیا ، لہٰذا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر راضی کیوں نہ ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب حدیث 43٫ریاض النضرۃ  ج 1 ص 81)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اللّٰہ نے ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ہم سب سے بہتر جانا، اور اسے ہم پر ولایت دے دی ۔ (مستدرک حاکم حدیث نمبر 4756)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ لااجد احدا فضلنی علیٰ ابی بکر و عمر الا جلدته حدالمفتری یعنی جسے میں پاؤں گا کہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم سے افضل کہتا ہے تو اسے مفتری کی سزا کے طور پر اسی کوڑے ماروں گا ۔ (فضائل الصحابہ لاحمد، الموتلف و المختلف 92/3)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ھوے سنا کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (الریاض النضرۃ ج 1 صفحہ 136)

حضرت ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک آدمی نے کہا مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی نسبت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے زیادہ محبت ہے ۔ آپ نے فرمایا ایسی باتیں کرنی ہے تو ہماری مجلس میں مت بیٹھو ، اگر تمہاری بات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے سن لی تو وہ تمہاری پشت پر کوڑے ماریں گے ۔ (حلیتہ الاولیاء لابی نعیم جلد 6 صفحہ 492،چشتی)

حضرت المرتضی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا کہ اس امت میں میرے بعد(حضور علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (کنز العمال روایت نمبر 36139)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ھوے سنا اس امت میں میرے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 72 روایت نمبر 106 ترجمہ جہانگیری،چشتی)

ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)

بزبان مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنمما افضل ہیں ۔ (سنن ابن ابی داؤد حدیث 4629)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام لوگوں سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے ہیں یہ ان کے نماز کے ساتھی ہیں ثانی اثنین ہیں ہم ان کی شرافت و بزرگی کے معترف ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی  حیات طیبہ میں ان کی امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین حدیث 4422)

عبد خیر کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے ۔ یہ گفتگو حضرت تک پہنچ گئی ، آپ منبر پر تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہیے کہ کسی کو سزا دے جب تک مقدمہ اس کے سامنے نہ آئے ۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پر چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 369،چشتی)

مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت صدیق اکبر کو افضلیت صدیق پر قائم بتانا ۔ (مجمع الزوائد حدیث 14334)

حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہو سکتا ہے ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 36141)

مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا ۔ (2) مجھ سے پہلے ہجرت کی ۔ (3) سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یار غار ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم کی ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 30 صفحہ 291)

ایک شخص سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کی ہے ؟  اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا  اگر تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے کا اقرار کرتا میں تیری گردن اڑا دیتا اور اگر تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنزالعمال جلد  13 حدیث 36153،چشتی)

حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)

حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)

ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)

حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)

اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہو جائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث 36097 جلد 13 صفحہ 6/7)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں ۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 382)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 290-289)

ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 5 صفحہ 189)

حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)

اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097 جلد 13 صفحہ 6/7)

حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 382)

حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)

ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)

جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)

افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428)

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)

مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، ص 338، سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟

حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی،چشتی)

ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)

جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)
حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)

افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔
ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 ص 428)

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری،چشتی)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔
ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا تو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257)(معجم الخونی صفحہ 153)

مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، صفحہ 338 سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)

حضرت ابوبکرصدیق و حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا ثبوت شیعہ کتب

شیعہ عالم أبو منصور أحمد بن علی بن أبی طالب الطبرسی (المتوفی : ۶۲۰ھ) اپنی کتاب ’’الاحتجاج‘‘ میں امام باقر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ : و عن الباقر (علیه‌السّلام) قال : و لست بمنكر فضل أبي بكر، ولست بمنكر فضل عمر ، و لكن أبابكر أفضل من عمر ۔
ترجمہ : امام محمد باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں : مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت سے انکار نہیں ہےاور نہ مجھے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت سے انکار ہے ، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ (الاحتجاج للطبرسی جلد ۲ صفحہ ۲۱۲ تحت عنوان - احتجاج أبی جعفر بن علی الثانی فی الأنواع الشتی من العلوم الدينية)

اکبر دور کے مشہورو معروف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (المتوفی : ۱۰۱۹ھ) اپنی کتاب ’’الصوارم المهرقة‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ : قال : وأخرج أيضا عن أبي هريرة كنا معشر أصحاب رسول الله ونحن متوافرون نقول : أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي ثم نسكت والترمذي عن جابر أن عمر قال لأبي بكر : يا خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم ، فقال أبو بكر ۔ أما إنك إن قلت ذلك فلقد سمعته يقول : ما طلعت الشمس علي خير من عمر ۔ ومر أنه تواتر عن علي : خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر. وأنه قال: لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر لأجلدته حد المفتري ۔
ترجمہ : اور اصحابِ رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین افراد ابو بکر ان کے بعد عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ عنہم اجمعین  ہیں اور الترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلى الله عليه وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ بہتر ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا تم یوں کہتے ہو اور میں نے سنا ہے رسول اللہ صلى الله عليه وآلہ وسلم سے کہ فرماتے تھے سورج نہیں نکلا کسی مرد پر جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ۔ یعنی بعدانبیاء علیہم السلام کے ۔ (الصوارم المهرقة صفح ۳۲۳ رقم الحدیث ۱۱۱)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پر خود کو فضیلت دینے پر حدِ افتراء کی سزا دینا ثبوت شیعہ کتب سے

مشہور و معروف شیعہ محدث أبو جعفر محمد بن علی بن بابويه القمی المعروف بالشيخ الصدوق (المتوفی: ۳۸۱ھ) اپنی کتاب ’’عيون أخبار الرضا‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ : فَإِنَّ عَلِيّاً (ع) قَالَ مَنْ فَضَّلَنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي ۔
ترجمہ : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : جس نے بھی مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضيلت دی تو میں اسے حد افتراء (جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا ۔ (عيون أخبار الرضا جلد ۲ صفحہ ١٨٧)

مشہور و معروف شیعہ عالم الشيخ علی بن محمد الخزاز الرازی القمی (المتوفی: ۴۰۰ھ) اپنی کتاب ’’كفاية الأثر‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ : وتروون عن الواحد والاثنين كما حكت العامة عن أمير المؤمنين عليه السلام أنه قال "من سمعته يقدمني على أبي بكر وعمر جلدته حد المفتري"، "وخير الناس بعد نبيها أبو بكر وعمر ۔
ترجمہ : امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : میں نے جس کسی سے بھی سنا کہ اس نے مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضيلت دی تو میں اسے حدِ افتراء (جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا ۔ اورانبیاء علیہم السلام کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (كفاية الأثر صفحہ ٤٢٩ ۔ ٤٣٠)

مشہور شیعہ عالم محمَّد بن النعمان بن عبد السَّلام الحارثی المذحجی العكبری المعروف الشیخ المفيد (المتوفی: ۴۱۳ھ) اپنی کتاب ’’الفصول المختارة‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں : فصل ومن حكايات الشيخ أدام الله عزه قال: سئل الفضل بن شاذان رحمه الله تعالى عما روته الناصبة عن أمير المؤمنين - عليه السلام - أَنَّهُ قَالَ: "لَا أوتى بِرَجُلِ يُفَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ : إلَّا جَلَدْته حَدَّ الْمُفْتَرِي ۔
ترجمہ : امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا ۔ (الفُصول المُختارة مِن العُيون والمحاسن صفحہ ۱۶۷)

مشہور شیعہ محدث و مفسر إبو جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی(المتوفی: ۴۶۰ھ) اپنی مشہورکتاب ’’إختيار معرفة الرجال المعروف بہ رجال الكشی‘‘ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ : فقال له أبو عبد اللّه (عليه السلام): زدنا قال: حدثني سفيان الثوري، عن محمد بن المنكدر، أنه رأى عليا (عليه السلام) على منبر الكوفة و هو يقول: لئن اتيت برجل يفضلني على أبي بكر و عمر لأجلدنه حد المفتري۔ فقال أبوعبدالله (عليه السلام): زدنا فقال: حدثني سفيان، عن جعفر، أنه قال حب أبي بكر وعمر ايمان وبغضهما كفر ۔
ترجمہ : حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں منبر پر فرمایا : جس نے بھی مجھے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضيلت دی تو میں اسے حد افتراء (جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا ۔ پھر فرمایا : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا کفرعلامت ہے ۔ (إختيار معرفة الرجال المعروف بہ رجال الكشی جلد ۲ ماروی فی سفيان الثورى صفحہ ۴۴۶ ۔ ٤٤٧)

اکبر دور کے مشہورو معروف شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوشتری (المتوفی: ۱۰۱۹ھ) اپنی کتاب ’’الصوارم المهرقة‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ : عن علي عليه السلام أيضا من أنه "لَا أجد أَحَدٌ فَضِّلُنِي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي" وما رواه في الفصل الثاني الآتي عن علي عليه السلام أيضا حيث قال "إنه لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي ۔
ترجمہ : حضرت علی علیہم السلام نےفرمایا: جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تومیں اسے حد افتراء(جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا ۔ (الصوارم المهرقة صفحہ ۲۷۷، ۲۹۲، ۳۲۳)

مشہور شیعہ محقق محمد باقر مجلسی (المتوفی: ۱۱۱۰ھ)  جنہیں اہل تشیع حضرات کے ہاں علم حدیث میں بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ اپنی کتاب ’’بحار الأنوار‘‘ میں یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں کہ : عن أمير المؤمنين (عليه السلام) أنه قال : لَا يُفَضِّلُنِي أَحَدٌ عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَّا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي ۔
ترجمہ : امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نےفرمایا : جس نے بھی مجھے ابوبکروعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پرفضيلت دی تو میں اسے حد افتراء (جھوٹا بہتان لگانے والے کی سزا) لگاؤں گا ۔ (بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الائمة الأطهار الشيخ محمد باقر المجلسی جلد ۱۰ صفحہ ۴۶۵)

اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟ ۔ آخر میں گذارش ہے کہ :  فقیر نے قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم ، آٸمہ محدثین ، مجتہدین فقہاۓ کرام ، اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ اور کتبِ شیعہ سے یہ موتی چن کر پیش کیے ہیں جس سے ثابت ہوا افضلیت حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ امتِ مسلمہ کا متفقہ اجماعی عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ منکرین کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرماۓ آمین ۔

ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتے ان کے بعدحضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی، الحدیث :  ۳۶۵۵، ج۲،  ص۵۱۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب میں بہت زیادہ میل جول رکھنے والے تھے اور ہماری تعداد بھی بہت زیادہ تھی اس وقت ہم مراتب صحابہ یوں بیان کیا کرتے تھے، اس امت میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے بعدسب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق اوران کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔پھر ہم خاموش ہوجاتے ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، جامع الخلفاء، الحدیث : ۳۶۷۱۷، ج۷، الجزء : ۱۳، ص۱۰۵)

حضرت سیدنا محمد بن علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ  تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا : نبی کریم اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ ارشادفرمایا : ’’ابوبکر‘‘ میں نے کہا : ’’پھر کون ؟‘‘ فرمایا : ’’عمر‘‘ ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ ’’پھر کون ؟‘‘ تو شاید آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام لے لیں گے ، اس لیے میں نے فورا کہا : ’’حضرت سیدنا عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی سب سے افضل ہیں ؟ ارشادفرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں ۔ (صحیح البخاری، کتاب  فضائل اصحاب النبی، باب  قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت ۔۔۔ الخ، الحدیث :  ۳۶۷۱، ج۲، ص۵۲۲)

حضرت سیدنا اصبغ بن نباتہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : اے امیر المؤمنین ! رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :  ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کیا : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا :  عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ میں نے عرض کی : پھر کون ؟ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق، ج۴۴، ص۱۹۶،چشتی)

حضرت سیدنا ابودرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے آگے چل رہا تھا تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : اے ابودرداء ! تم اس کے آگے چل رہے ہوں جودنیا وآخرت میں تم سے بہتر ہے ، نبیوں اور مرسلین کے بعد کسی پر نہ تو سورج طلوع ہوا اور نہ ہی غروب ہواکہ وہ ابوبکر سے افضل ہو ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، بقیہ قولہ مروابابکر ان یصلی، الرقم : ۱۳۵، ج۱، ص۱۵۲)

حضرت سیدنا سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کے علاوہ تمام لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (جمع الجوامع،  الھمزۃ مع الباء ، الحدیث :  ۱۲۰، ج۱، ص۳۸، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۲۱۲)

ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نظر نہ آئے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا ، پھر ارشاد فرمایا : بیشک روح القدس جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے تھوڑی دیر پہلے مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں ۔ (المعجم الاوسط، من اسمہ محمد ، الحدیث : ۶۴۴۸، ج۵، ص۱۸)

حضرت سیدنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھا : یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : ’’عائشہ‘‘ میں نے کہا :  ’’مردوں میں ؟‘‘ فرمایا :  ’’ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق)‘‘ میں پوچھا : ’’پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا :  ’’عمر بن خطاب‘‘ (رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ) ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی لو کنت متخذا، الحدیث :  ۳۶۶۲، ج۲، ص۵۱۹،چشتی)  

حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہ  فرماتے ہیں : ⬇

إِذَا تَذَكَّرْتَ شَجْوًا مِنْ أَخِى ثِقَةٍ فَاذْكُرْ أَخَاكَ أَبَا بَكْرٍ بِمَا فَعَلاَ
خَيْرُ الْبَرِّيَّةِ اَتْقَاھَا وَاَعْدَلَھَا بَعْدَ النَّبِیِّ وَ اَوْفَاھَا بِمَا حَمَلَا

ترجمہ : جب تجھے سچے دوست کا غم یاد آئے ، تو اپنے بھائی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے کارناموں کو یاد کر جو نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد ساری مخلوق سے بہتر ، سب سے زیادہ تقوی اور عدل والے ، اور سب سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والےہیں ۔ (المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابۃ، استنشادہ فی مدح الصدیق، الحدیث :  ۴۴۷۰، ج۴، ص۷)   

حضرت سیدنا ابوبکر بن عیاش رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابو حصین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو یہ فرماتے سنا : وَاللہ مَا وَلَدَ لِآدَمَ بَعْدَ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ أَفْضَلُ مِنْ أَبِيْ بَكْر ، یعنی انبیاء و مرسلین کے بعد حضرت سیدنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا ۔ (فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل، ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك۔۔الخ، الرقم :  ۵۹۸، ج۱، صفحہ نمبر ۳۹۴،چشتی)

حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم ! آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبدبن حمید ، حدیث 212، ص 101، ابو نعیم، طبرانی)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام میں سے کسی کو بھی ابوبکر سے افضل کوئی ساتھی نصیب نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سورۂ یٰسین میں بیان ہونے والے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے جس شہید ساتھی کا ذکر ہے ، وہ بھی ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے افضل نہ تھا ۔ (حاکم، ابن عساکر،چشتی)

حضرت اسعد بن زراہ رضی ﷲ عنہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک روح القدس جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابوبکر ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، حدیث 6448، جلد 5، ص 18)

حضرت سلمہ ابن اکوع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا ابوبکر لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ (طبرانی، ابن عدی)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کے سوا زمین وآسمان کی اگلی اور پچھلی مخلوق میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (حاکم ،الکامل لابن عدی، حدیث 368، جلد 2،ص 180)

حضرت زبیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں سب سے بہتر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ (ابن عساکر، ابو العطوف، ابن الجوزی، العینی)

حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہم کہتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ، پھر عمر ، پھر عثمان اور پھر علی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655،جلد 2 صفحہ 451)

حضرت امام ابن ہمام عمر بن محمود نسفی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد افضل البشر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیۃ صفحہ نمبر ۳۱۸)

حضرت سیدنا امام اعظم نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، پھر عمر بن خطاب ، پھر عثمان بن عفان ذوالنورین، پھر علی ابن ابی طالب رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ (شرح الفقہ الاکبر صفحہ نمبر ۶۱)

حضرت اِمام شافعی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابۂ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام امت سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہم  ہیں ۔ (فتح الباری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی، ج۸، ص۱۵)

حضرت سیدنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ فرمایا : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الثالث صفحہ ۵۷،چشتی)

حضرت سیدناامام ابو جعفر طحاوی رَحمَۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد سب سے پہلے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں بایں طور کہ آپ کو تمام اُمت پر افضیلت وسبقت حاصل ہے ، پھر ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کےلیے خلافت ثابت کرتے ہیں ۔‘ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ صفحہ نمبر۴۷۱) 

امام ابوبکر احمد بن محمد ابن ھارون الخلّال علیہ الرحمۃ (وفات٣١١ ھجری) اپنی کتاب میں ابن زریع علیہ الرحمتہ (وفات١٨٢ھجری) کا قول نقل کرتے ہیں کہ" یقول خیر ھذہ الامتہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان۔"ابن زریع نے فرمایا کہ اس امت کے بہترین لوگ حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (السُّنّتہ الجزء الاول صفحہ ٤٠٢ رقم ٥٨٨،چشتی)

اس کتاب کے محقق ڈاکٹر عطیہ زہرانی نے حاشیے میں واضح لکھا ہے ۔" واسنادہ صحیح "اور اب زریع بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ ابوحاتم علیہ الرحمتہ نے انہیں ثقہ کہا ہے ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم٢٤٢)

السنتہ کے اگلے صفحے پر ہی موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ کا فرمان بھی قابل دید ہے ۔"ھکذا تعلمنا ونبتت علیہ لحومنا وادرکنا الناس علیہ تقدیم ابی بکر و عمر وعثمان"امام موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہی ہمیں سکھایا گیا اور یہی ہماری رگ رگ میں رچا بسا ہے اور لوگ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ مقدم ہیں (پھر) عمر رضی ﷲ عنہ (پھر) عثمان رضی ﷲ عنہ ۔ (السُّنّتہ رقم ٥٨٨) ، اور امام موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ تیسری صدی کے پہلے حصے میں فوت ہوئے (تاریخ وفات ٢٢٣ ھجری) امام موسیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ملاحظہ کریں ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم : ٣٩٥) ۔ الحمد للہ اہلسنت کا نظریہ بھی یہی ہے جو اکابرین امت علیہم الرّحمہ کا ہے ۔


حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی حسنی حسینی غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عشرہ مبشرہ میں سے افضل ترین چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ہیں اور ان میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ اور ان چاروں کےلیے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خلافت ثابت ہے ۔ (الغنیۃ العقائد والفرق الاسلامیۃ جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۱۵۷، ۱۵۸)


حضرت امام ابوبکر باقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت اَسلاف کا حق پہنچاتے ہیں وہ اسلاف جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کےلیے منتخب فرمایا تھا وہ ان کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان میں جو اختلافات واقع ہوئے ہیں خواہ چھوٹوں میں یا بڑوں میں اہلسنت وجماعت ان اختلافات سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سب سے مقدم سمجھتے ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق کو ، پھر حضرت سیدنا عثمان کو پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہم کو اور اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب خلفاء راشدین و مہدیین ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب لوگوں سے افضل ہیں اور اہلسنت وجماعت ان تمام احادیث کی تصدیق کرتے ہیں اور ان پر دلالت کرنے والی اور شان خلفاء میں وارد شدہ احادیث کو جھٹلاتے نہیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے ۔ (کتاب التمہید صفحہ ۲۹۵)


حضرت شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِنَّ اَبَابَکْر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اَفْضَلُ مِنْ سَائِرِ الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَسَائِرِ اُمَمِ الْاَنْبِیَاءِ وَاَصْحَابِھِم ، یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تمام اُمت محمدیہ سے اور تمام انبیاء کی ساری امتوں اور ان کے اصحاب سے افضل ہیں ، کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس طرح لازم تھے جس طرح سایہ جسم کو لازم ہوتا ہے حتی کہ میثاق انبیاء میں اور اسی لیے آپ نے سب سے پہلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تصدیق کی ۔ (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالث والاربعون، الجزء الثانی، ص۳۲۹،چشتی)


امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جن صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو چھوڑا اُن میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اس بات پر علماء کرام کی جماعت کا اجماع ہے اور اہل علم کے ایک بہت بڑے گروہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ہیں ۔ (التمھید لما فی الموطا من المعانی والمسانید، حدیث الرابع عشر،  ج۸، صفحہ نمبر ۵۵۳)


اِمامُ المتکلمین علامہ ابوشکور سالمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت وجماعت نے کہا ہے کہ انبیاء ورسل اور فرشتوں کے بعد تمام مخلوق سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (تمھید ابو شکور سالمی صفحہ نمبر ۳۶۴)


حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (احیاء العلوم کتاب قواعد العقائد الرکن الرابع، الاصل السابع جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۵۸،چشتی)


حضرت امام کمال الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جان لو کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، پھر حضرت سیدنا عمر ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ اور اس پر احادیث سے بے شمار دلائل موجود ہیں جو مجموعی طور پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے مقدم ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔   (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالث والاربعون، الجزء الثانی صفحہ ۳۲۹)


حضرت امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ تَعَالٰی نے میرے صحابہ کو تمام جہانوں پر ما سوائے انبیاء و مرسلین کے منتخب فرمایاہے اور ان میں سے چار کو میرے لیے چن لیا ہے وہ چار ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے میرا بہترین ساتھی بنایا اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہے ۔ (الشفابتعریف حقوق المصطفی، ج۲، صفحہ نمبر ۵۴،چشتی)


امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے دین کو غلبہ دیا اور انہیں مرتدین پر غالب کیا اور مسلمانوں نے ان کو خلافت میں اسی طرح مقدم کیا ہے جس طرح کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو غار میں مقدم کیا پھر امام برحق حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہ پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہ اللہ تعالیٰ آپ کے چہر ہ کو رونق بخشے آپ کے قاتلین نے ظلم و تعدی سے آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کو شہید کیا پھر حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہ عَنْہ پس رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد یہ ائمہ ہیں ۔ (تبیین کذب المفتری، باب ما وصف من مجانبته لأهل البدع، صفحہ ۱۶۰)


حضرت امام شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُما ہیں ۔ (شرح صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ ج۸، الجزء : ۱۵، ص۱۴۸)


حضرت امام محمد بن حسین بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی ، علی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم انبیاء و مرسلین علیہم السّلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں ، اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پہلے خلیفہ ہیں لہٰذا وہ سب سے افضل ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم افضل ہیں ۔ (شرح السنۃ للبغوی، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، صفحہ ۱۸۲،چشتی)


امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِنَّ الْإِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ أَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہ عَنْهُمْ أَجْمَعِيْن ، یعنی اہل سنت و جماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفاء راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم) ۔ (فتح الباری ، کتاب فضائل اصحاب نبی،  باب لوکنت متخذا خلیلا، تحت الحدیث : ۳۶۷۸، جلد نمبر ۷ صفحہ نمبر ۲۹،چشتی)


حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت سیدنا عمر فاروق ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء، ص۳۴)


حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُمت کے اولیاء کرام میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، پھر حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (الیواقیت والجواھر، المبحث الثالت والاربعون، الجزء الثانی،  صفحہ ۳۲۸)


حضر امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  یہ آیت مبارکہ (اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ ،صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ، کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا۔‘‘ اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا : اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ ۔ (پ۵، النساء : ۶۹) ’’یعنی اللہ نے انبیاء اور صدیقین پر انعام فرمایا ۔ اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہی ہیں ۔ تو اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ’’  اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وہ ہدایت طلب کریں جس پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور تمام صدیقین تھے ، کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے تو ان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی ، لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی امامت پر دلالت کرتی ہے ۔ (التفسیر الکبیر الفاتحۃ : ۵، ۶، ج۱، ص۲۲۱،چشتی)


حضرت امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علماء اُمت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس اُمت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ ہیں ، اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (الصواعق المحرقۃ الباب الثالث ، صفحہ ۵۷)


حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلفاء اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے (یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور خاتم النبیین صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اُن کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللہ عَنْہ ہیں) تمام اہلِ حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر  فاروق اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما ہیں ۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب۱۷، عقیدہ چھاردھم،  ص۳۷،چشتی)


حضرت امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ قطعی ہے اس لیے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو بطریق نیابت امامت کا حکم دیا اور یہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو اِمامت میں اولی ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی موجود تھے اور اکابر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی ۔ اس کے باوجود نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو امامت کےلیے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم میں تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہ مصلی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکو آگے کیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ابوبکر کے سوا کوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں ۔ (شرح الفقہ الاکبر  صفحہ نمبر ۶۴)


حضرت امام احمد بن محمد بن ابو بكر بن عبد الملك قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اور اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہہیں ۔ (ارشاد الساری ، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب مناقب عثمان بن عفان، تحت الحدیث :  ۳۶۹۸، ج۸، صفحہ ۲۱۵)


عارفِ کامل حضرت میرسید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس پر بھی اہل سنت کا اجماع ہے کہ نبیوں علیہم السّلام کے بعد دوسری تمام مخلوق سے بہتر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں اُن کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اُن کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور اُن کے بعد سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ۔ (سبع سنابل صفحہ نمبر ۷)


شیخ مقق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلفاء اَربعہ کی افضلیت اُن کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی تمام صحابہ سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدناعثمان غنی پھرسیدنا علی المرتضی رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ (تکمیل الایمان صفحہ نمبر ۱۰۴)


حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد امام برحق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ  تَعَالٰی عَنْہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ (تفھیمات الٰھیہ جلد ۱ صفحہ نمبر ۱۲۸)


حضرت علامہ عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صوفیاۓ کرام علیہم الرّحمہ کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں سیدنا ابوبکر صدیق پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم سب سے افضل ہیں ۔ (النبراس شرح شرح العقائد، ص۴۹۲)


تاجدارِ گولڑہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’آیت’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ۔ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ ۔ (پ۲۶، الفتح :  ۲۹)

ترجمہ : مُحَمَّد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں ۔


میں اللہ تعالٰی کی طرف سے خلفائے اربعہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے ۔ چنانچہ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ سے خلیفۂ اول (حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مراد ہیں) اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار سے خلیفۂ ثانی (حضرت سیدنا عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ سے خلیفۂ ثالث (حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ) اور تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّداً ۔۔۔ اِلَخ ۔ سے خلیفہ رابع (حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہ  تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ معیت اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ، حلم و کرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور عبادت و اخلاص میں حضرت سیدنا مولائے علی رَضِیَ اللہ عَنْہ خصوصی شان رکھتے تھے ۔ (مِہر منیر، ص۴۲۴، اللباب فی علوم الکتاب، الفتح : ۲۹، ج۱۷، ص۵۱۷،چشتی) 


اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرات خلفاء اربعہ رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن   تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں ، پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (فتاوی رضویہ، ج۲۸، ص۴۷۸)


صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اُن کے بعد حضرت عمر اُن کے بعد حضرت عثمان اور اُن کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (سوانح کربلا صفحہ نمبر ۳۸)


صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعد انبیاء ومرسلین ، تمام مخلوقات الٰہی انس و جن و ملک (فرشتوں) سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (بہار شریعت، ج۱، ص۲۴۱)


سیدنا صدیق اکبر وعمر فاروق کی افضلیت قطعی ہے


اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : (حضرت سیدنا صدیق و عمرکی افضلیت پر) جب اجماع قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیل شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخ طریقت وشریعت کا یہی مذہب ہے ۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص۸۱)


اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقا ء کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابر اولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں اور ان کی شان ارفع واعلی ہے ا س سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں ، لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں ، اس لیے کہ صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ امام القوم سیدی محی الدین ابن عربی رَحمَۃُ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوا اور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان کوئی نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۸ صفحہ ۶۸۳)


مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے


اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح (خبر واحد صحیح حدیثیں) بھی نامسموع ۔ (فتاوی رضویہ، ج۵، ص۵۸۱)


افضلیت حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ شیعہ حضرات کی کتب سے


شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔


شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔

ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)


حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم صفحہ 428)


حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2 صفحہ 428،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔(عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)


حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم 257)۔(معجم الخونی صفحہ 153)


حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور،چشتی)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول صفحہ نمبر 107)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ھیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کےغار  کے ساتھی ہیں اور ثانی اثنین ہیں ۔ ہم ان کی شرافت اور بزرگی کے معترف ہیں ۔ بلکہ خود حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ان کو امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین روایت نمبر 4422 جلد 4 صفحہ 154،چشتی)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے کہا گیا کہ آپ اپنا کوئی جانشین مقرر کیوں نہیں کرتے ؟ تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ کیا نبی علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کروں ، اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان لوگوں کو ان میں سے سب سے بہتر فرد پر جمع کر دے گا اس طرح جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے نبی علیہ السلام کے بعد سب سے بہتر شخص پر جمع کر دیا تھا ۔ (مجمع الزوائد روایت نمبر 14334)


حضرت ابوجحیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو فرماتے ہوئے سنا  کہ اس امت کی بہترین شخصیت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) ہیں ۔ (فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل حدیث نمبر 40 صفحہ نمبر 36 مترجم امتیاز حسین صدیقی)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کے پاس جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ھوتا تو آپ  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں کثرت سے آگے بڑھنے والے فرماتے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہم کسی نیکی کے کام میں آگے بڑھنا چاہتے تو ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہم سے آگے ہوتے تھے ۔ (المعجم الاوسط ج 5 صفحہ 456 روایت نمبر 7168)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے  اپنے والد محترم سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے ؟ تو فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں میں نے پوچھا پھر کون ہے ؟ فرمایا عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں اور میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام لینے سے ڈرا اور پوچھا پھر  تو آپ ہیں ؟

تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا میں تو مسلمانوں میں سے ایک مسلمان شخص ہوں ۔ (صحیح البخاری  باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حدیث نمبر 3671،چشتی)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے۔۔

1:-انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔۔

2:-مجھ سے پہلے ہجرت کی۔۔

3:-سید عالم علیہ السلام کے یار غار ھونے کا شرف پایا۔

4:-سب سے پہلے نماز قائم فرمائی ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 291)


حضرت عمرو بن حریث فرماتے ھیں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کوفہ کے ممبر پر تشریف فرما ھوے اور آپ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس امت میں حضور علیہ السلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں ان کے بعد سب سے افضل حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور میں تیسرے کا نام لینا چاھوں لے سکتا ہوں ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 172,چشتی)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم ھیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی نہ ہی میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (کنزالعمال روایت نمبر 36141)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنا کوئی جانشین مقرر کیوں نہیں کرتے ؟ تو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا نبی علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کروں ، اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان لوگوں کو ان میں سے سب سے بہتر فرد پر جمع کر دے گا اس طرح جس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر شخص پر جمع کر دیا تھا ۔ (مجمع الزوائد روایت نمبر 14334)


وہب سوائی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ یہ فرمایا اس امت میں سب سے بہتر کون ہے ؟ 

میں نے کہا امیر المومنین ! آپ رضی اللہ عنہ  ہی ہیں ، آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہتر شخص ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا تھا ۔ (مسند الامام احمد بن حنبل حدیث نمبر 846)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللّٰہ کے محبوب علیہ السلام کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا اور نبی علیہ السلام کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے قائم کیا ۔ (جمع الجوامع روایت نمبر 157،چشتی)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دی ہے یہ گفتگو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم تک پہنچ گئی آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ منبر پر تشریف لے آئے  اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہیے کہ کسی کو سزا دی جب تک مقدمہ سامنے نہ آئے۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پہ چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 369)


حضرت سیدنا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی بارگاہ میں حاضر ھو کر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ھیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی زیارت کی ہے تو وہ کہنا لگا نہیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم  کی زیارت کی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر تو آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا اقرار کرتا تو میں تیری گردن اور اگر تو ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 36153)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اس امت میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔ (المعجم الاوسط ج چہارم حدیث نمبر 5421،چشتی)


اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی خدمت میں عرض کی اے امیرالمومنین رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کیا پھر کون ہے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا میں (علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم) ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 44 ص 196)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے میں نے کہا میرے ساتھ مدینہ طیبہ میں کون ہجرت کرے گا ؟ عرض کیا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد امر امت کے والی ہوں گے اور وہ آپ علیہ السلام کی تمام امت سے افضل ہیں ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32588)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے میرے مرتبے اور ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا ابوبکر کھڑے ھوجاؤ اور لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ آپ نے مجھے نماز پڑھانے کا حکم نہیں دیا،لہذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر راضی کیوں نہ ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب حدیث 43٫ریاض النضرۃ  ج 1 ص 81)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اللّٰہ نے ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ہم سب سے بہتر جانا، اور اسے ہم پر ولایت دے دی ۔ (مستدرک حاکم حدیث نمبر 4756)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ لااجد احدا فضلنی علیٰ ابی بکر و عمر الا جلدته حدالمفتری یعنی جسے میں پاؤں گا کہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم سے افضل کہتا ہے تو اسے مفتری کی سزا کے طور پر اسی کوڑے ماروں گا ۔ (فضائل الصحابہ لاحمد، الموتلف و المختلف 92/3)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو فرماتے ھوے سنا کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (الریاض النضرۃ ج 1 صفحہ 136)


حضرت ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک آدمی نے کہا مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی نسبت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے زیادہ محبت ہے۔آپ نے فرمایا ایسی باتیں کرنی ہے تو ہماری مجلس میں مت بیٹھو،اگر تمھاری بات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے سن لی تو وہ تمھاری پشت پر کوڑے ماریں گے ۔(حلیتہ الاولیاء لابی نعیم جلد 6 صفحہ 492،چشتی)


حضرت المرتضی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کو فرماتے ھوے سنا کہ اس امت میں میرے بعد(حضور علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (کنز العمال روایت نمبر 36139)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ھوے سنا اس امت میں میرے (نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 72 روایت نمبر 106 ترجمہ جہانگیری،چشتی)


ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)


بزبان مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما افضل ہیں ۔ (سنن ابن ابی داؤد حدیث 4629)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام لوگوں سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے ہیں یہ ان کے نماز کے ساتھی ہیں ثانی اثنین ہیں ہم ان کی شرافت و بزرگی کے معترف ہیں بلکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خود اپنی  حیات طیبہ میں ان کی امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین حدیث 4422)


عبد خیر کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے۔ یہ گفتگو حضرت تک پہنچ گئی، آپ منبر پر تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہئے کہ کسی کو سزا دے جب تک مقدمہ اس کے سامنے نہ آئے ۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پر چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 369،چشتی)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت صدیق اکبر کو افضلیت صدیق پر قائم بتانا ۔ (مجمع الزوائد حدیث 14334)


حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہو سکتا ہے ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 36141)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا ۔ (2) مجھ سے پہلے ہجرت کی ۔ (3) سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے یار غار ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم کی ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 30 صفحہ 291)


ایک شخص سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تو نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کی ہے ؟  اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا  اگر تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھنے کا اقرار کرتا میں تیری گردن اڑا دیتا اور اگر تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنزالعمال جلد  13 حدیث 36153،چشتی)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)

حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)


ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189،چشتی)


حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)


اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں ۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 30 صفحہ 382)


حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی،چشتی)


ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)


جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث 36151)


افضلیتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے منکر کا حکم


محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔ اور یہی عقیدۂ اجماعی صحابہ کرام تابعین عظام رضی اللہ عنہماور امت کے اسلاف علیہم الرحمہ کا ہے ۔ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم  اجمعین  کا اس بات پر اجماع  ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ  والسلام کے بعد تمام مخلوق میں افضل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، پھرحضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں اور یہی عقیدہ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا ہے اور اس عقیدے پر  بکثرت احادیث نبویہ ، آثارِ صحابہ و اقوال ائمہ ، بلکہ خود حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا فرمان موجود ہے اور جمہور اہلسنت کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں ۔ جو شخص مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرات ِشیخین کریمین صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت دے ، وہ شخص اہلسنت سے خارج ہے ۔ امام ذھبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں شک کرنے والا بدعتی خبیث اور منافق ہے ۔ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اجماعی عقیدہ ہے ۔ (کتاب الکباٸر صفحہ 239)


اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جائے گا ، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر ضروریاتِ دین پر اجماع ہوا اور وہ عوام و خواص کے درمیان متعارف ہو تو ان کا منکر کافر ہو گا ؛ لیکن جو اجماع اس قبیل سے نہ ہو تو اس کے منکر کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا ، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخرالاسلام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تو اس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہو تو وہ گمراہ اور ضال ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ جلد ۲ صفحہ ۴۹،چشتی)(اصول البزدوی صفحہ ۲۴۵)(البحرالمحیط جلد ۴ صفحہ ۵۲۴)


جو شخص ضروریات دین اور قرآن کریم و احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تواتر سے باجماع امت ثابت شدہ چیزوں اور احکام کا منکر عقیدۃً ہو وہ بلا شبہ کافر و مرتد ہے ۔ شرعاً وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے ۔


إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن أو خطئ أو سخر بآیۃ منہ کفر ۔ (مجمع الأنہر کتاب السیر والجہاد ثم إن ألفاظ الکفر أنواع جلد ۲ صفحہ ۵۰۷)


إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘ أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ کتاب السیر الباب التاسع في أحکام المرتدین موجبات الکفر أنواع ومنہا ما یتعلق بالقرآن جلد ۲ صفحہ ۲۷۹)


افضلیت ابوبکر صدیق کے متعلق آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کا اجماعی فیصلہ


حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور)


حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212، ص 101 ابو نعیم طبرانی،چشتی)


حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ما طلعت الشمس ولاغربت علی احدبعدالنبیین والمرسلین أفضل من أبی بکر ۔

ترجمہ : کسی بھی ایسے شخص پرآفتاب طلوع وغروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو سوائے انبیاء و مرسلین کے ۔ (کنزالعمال رقم الحدیث 32619 جلد 11، صفحہ254، دارالکتب العلمیہ ، بیروت)


حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر خیرالناس الاان یکون نبی ۔

ترجمہ :ابوبکرسب لوگوں سے افضل ہیں،سوائے نبی کے ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی،رقم الحدیث1412جلد 06 صفحہ 484 دارالکتب العلمیہ،بیروت)


حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان روح القدس جبریل اخبرنی ان خیرأمتک بعدک أبوبکر ۔

ترجمہ : بیشک روح القدس جبریل امین علیہ السلام نے مجھے خبردی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث 6448 جلد 5 صفحہ18 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)


انبیائے کرام علیہم الصلاة و والسلام کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر پھرحضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے افضل ہونے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں : قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، فنخیر ابا بکر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ۔

ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں آپس میں فضیلت دیتےتھے ، تو ہم سب سے افضل ابو بکر صدیق،پھر عمر بن خطاب ،پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فضیلت دیا کرتےتھے ۔ (صحیح البخاری،باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، جلد 01 ، صفحہ 516 ، مطبوعہ کراچی)


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ : کنا نقول و رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ ابوبکر و عمر و عثمان و فیسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلاینکرہ ۔

ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں  کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعداس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔ (المعجم الکبیر،رقم الحدیث13132، جلد 12 صفحہ 221، داراحیاء التراث العربی ، بیروت،چشتی)


حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کابیان ہے : قلت لابی ای الناس خیربعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال : ابوبکرقلت ثم من ؟ قال : عمر ۔

ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ (صحیح البخاری،باب فضل ابی بکر جلد 01 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی)


عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ : كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ۔ (صحیح البخاری،ج:5،ص:4،كِتَابٌ : فَضَائِلُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ، بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں : ہم گروہ صحابہ زمانۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ابوبکر ،پھر عمر ، پھر عثمان کے برابر کسی کو نہ گنتے ۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ: «أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ عُثْمَانُ ثُمَّ نَسْكُتُ ۔ (مسندالحارث،ج:2،ص:888،رقم:959 مرکزخدمۃالسنۃ والسیرۃ المدینۃالمنورۃ،چشتی)

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اکثر و بیشتر کہا کرتے : افضل امت بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر صدیق ہیں ،پھرعمر فاروق ۔


السنۃ لابی بکر بن الخلال میں ہے : قَالَ : قُلْتُ لِمَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ: أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عِنْدَكَ أَفْضَلُ أَوْ عَلِيٌّ ؟ قَالَ : فَارْتَعَدَ حَتَّى سَقَطَتْ عَصَاهُ مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَبْقَى إِلَى زَمَانٍ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، إِنَّهُمَا كَانَا رَأْسَ الْإِسْلَامِ، وَرَأْسَ الْجَمَاعَةِ ۔ (السنۃ لابی بکر بن الخلال،ج:2،ص:379،رقم:529 دارالریۃ ریاض)

ترجمہ : حضرت میمون بن مہران سے سوال ہوا : شیخین افضل یا علی ؟ ، اس کلمہ کے سنتے ہی ان کے بدن پر لرزہ پڑا ، یہاں تک کہ عصا دست مبارک سے گر گیا ، اور فرمایا : مجھے گمان نہ تھا کہ اس زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ لوگ ابو بکر و عمر کے برابر  کسی کو بتائیں گے ۔


ان احادیث و روایات سے ظاہر ہوا کہ : زمانہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم میں تفضیلِ شیخین رضی اللہ عنہما پر اجماع تھا ، اور اور اس کے خلاف سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ۔


بلکہ امام شافعی علیہ الرحمہ اکابر ائمہ نے اس عقیدہ پرصحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے ۔


امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر و تقديمها على جميع الصحابة ۔ (الاعتقاد والھدایۃ الی سبیل الرشاد،ص:369،دارالافاق الجدیدۃ،بیروت،چشتی)

ترجمہ : صحابہ کرام اور تابعین میں سے کسی نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہم کے افضل ہونے اور باقی تمام صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مقدم ہونے کے لحاظ سے اختلاف نہیں کیا ۔


حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن  عفان، پھرعلی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ نمبر 61 مطبوعہ کراچی،چشتی)


امام احمدبن محمد خطیب قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتےہیں : الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔

ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا ۔ (ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعدالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،جلد08،صفحہ147، دارالکتب العلمیہ،بیروت،چشتی)


امام ملا علی قاری حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وتفضیل أبی بکروعمررضی اللہ عنھمامتفق علیہ بین اھل السنۃ ، وھذا الترتیب بین عثمان وعلی رضی اللہ تعالی عنھما ھو ما علیہ أکثرأھل السنة .... والصحیح ما علیہ جمھور أھل السنة ۔

ترجمہ : اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا افضل ہونا اہلسنت کے درمیان متفق ہے اور یہی ترتیب (حضرت عثمان حضرت علی سے افضل ہیں) عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کےدرمیان ہے ۔ اس مؤقف کے مطابق جس پر جمہور اہلسنت ہیں اور صحیح وہی ہے ، جس پر جمہور اہلسنت ہیں۔(شرح فقہ اکبر،صفحہ63 ،مطبوعہ کراچی)


حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص کے بدعتی ہونے کے بارے میں خلاصۃ الفتاوی ، فتح القدیر ، بحرالرائق ، مجمع الانہر ، الاشباہ والنظائر ، ردالمحتار اور غنیۃ المستملی میں ہے : واللفظ لردالمحتار : ان کان یفضل علی اکرم اللہ تعالی وجھہ علیھما فھو مبتدع ۔

ترجمہ : اگر کوئی شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر فضیلت دے ، وہ بدعتی ہے ۔ (ردالمحتار مع درمختار جلد 6 صفحہ 363 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)


عامہ کتب اصول میں اس مسئلہ پر صراحتاً اجماع  منقول ہے ، یا کم از کم  بلا ذکرِ خلاف اسے مذہب اہل سنت قرار دیا گیا ہے ۔


امام نووی علیہ الرحمہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : اتفق اهل السنة على أن افضلهم ابو بكر، ثم عمر ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی،ج:15،ص:148،کتاب فضائل الصحابہ)

ترجمہ : اہل سنت کا اتفاق ہے کہ افضل صحابہ ابوبکر ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔


ابو منصور بغدادی علیہ الرحمہ "اصول الدین" میں فرماتے ہیں : أصحابنا مجمعون على أن أفضلهم ، الخلفاء الاربعة على الترتيب المذكور ۔ (اصول الدین لابی منصور،ص:304،چشتی)

تجمہ : ہمارے اصحاب اجماع کیے ہوئے ہیں کہ افضل صحابہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں ترتیبِ مذکور پر ۔


تہذیب الاسماء واللغات للنووی میں ہے : أجمع أهل السنة على أن أفضلهم على الاطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔ (تہذیب الاسماء واللغات للنووی،ج 1،ص 28،فصل فی حقیقۃ الصحابی)

ترجمہ : اہل سنت نے اجماع کیا کہ مطلقاً سب صحابہ سے افضل ابوبکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔


امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں : الأفضل بعد الانبياء عليهم الصلاة والسلام أبو بكر رضي الله تعالى عنه وقد اطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك ۔ (ارشاد الساری،ج 6،ص 430، رقم 3655،فضل أبی بکر بعد النبی)

تجمہ : انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور تحقیق سلف صالح  نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ وغیرہ اس امر پر اجماع صحابہ وتابعین نقل کرتے ہیں ۔


مواہب اللدنیہ میں ہے : أفضلهم عند أهل السنة إجماعا أبو بكر، ثم عمر ۔ (المواہب اللدنیۃ،ج 2 ص 545 الفصل الثالث،ذکر محبۃ أصحابہ)

ترجمہ : اہل سنت کے نزدیک بالاجماع افضل الصحابہ ابو بکر ہیں ، پھر عمر رضی اللہ عنہم ۔


الصواعق المحرقہ میں ہے : أن مالكا رحمه الله سئل أي الناس أفضل بعد نبيهم ؟ فقال : ابو بكر ،ثم عمر . ثم قال : أو في ذلك شك ؟ ۔ (الصواعق المحرقۃ صفحہ 86،چشتی)

 ترجمہ : امام مالک علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق ۔ پھر ارشاد فرمایا : کیا اس بارے میں کوئی شک ہے ؟


اور شرح عقائد نسفی میں ہے : أفضل البشر بعد نبينا ، أبو بكر الصديق ، ثم عمر الفاروق ۔ (شرح العقائد للنسفی،ص 321,322،مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر،مکتبۃ المدینۃ،دعوت اسلامی)

ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے بعد  افضل بشر حضرت ابوبکر صدیق ، پھر  عمر فاروق ہیں۔


حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند  (تکمیل الایمان صفحہ 104،باب فضل الصحابہ)

ترجمہ : جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں ۔ 


امام احمد رضا خان قادری ماتریدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اہل سنت و جماعت نصرہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکۃ و رسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم تمام مخلوق ِالہٰی سے افضل ہیں ، تمام امم اولین و آخرین میں  کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں  پہنچتا ۔ (وَ اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) ، فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں  ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ پھر ان میں  باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی صلی اللہ تعالی علی سیدھم ، و مولا ھم وآلہ و علیھم و بارک وسلم ۔(فتاوی رضویۃ جلد 28 صفحہ 478 رضا فاؤنڈیشن لاہور)


امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا ؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے ۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین، ص81)


مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے


 اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع ۔ (فتاویٰ رضویہ،5/581)


حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں  ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر  عثمان  غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 241 امامت کا بیان مکتبۃ المدینہ)


افضلیت حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شیعہ کتب کی روشنی میں


شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔ ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)


حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)


حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)


حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم 257)(معجم الخونی ص 153)


ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت پر صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم اور اکابر علما علیہم الرحمہ کا اجماع ہے ۔ اب اس اجماعی عقیدہ کا جو انکار کرے وہ ضرور گمراہ و بد مذہب ہوگا ، بلکہ قریب ہے کہ اس کے ایمان میں خطرہ ہو ۔ شرح قصیدہ بدء الامالی میں ہے : من أنکر یوشک أن فی ایمانہ خطرا ۔ (شرح بدء الامالی تحت شعر : 34) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
































































0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔