Saturday, 6 April 2024

امام کے پیچھے قرأت کرنا مستند دلائل کی روشنی میں

امام کے پیچھے قرأت کرنا مستند دلائل کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے کیونکہ امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہوتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب ’’قرآن عظیم‘‘ جس کی صرف ایک آیت کا انکار مسلمان کو کافر بنانے کےلیے کافی ہے ، میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 204)


اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں رقم پرداز ہیں : وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلاً فی السریۃ ولا الجہریۃ بما ورد فی الحدیث: (من کان لہ إمام فقرائتہ قرائۃ لہ) ۔ ہذا الحدیث رواہ أحمد عن جابر مرفوعاً وہو فی الموطأ عن جابر موقوفاً قال ابن کثیر : وہذا أصح ۔
ترجمہ : امام ابو حنیفہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر قرأت بالکل واجب نہیں ، نہ سری نمازوں میں اور نہ جہری نمازوں میں ، کیونکہ حدیث میں آتا ہے : جس کا امام ہو اس کی قرأت ہی اس(مقتدی) کی قرأت ہے ۔ یہ حدیث مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے ۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں اور یہی مذہب زیادہ صحیح ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 485)

اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطبہ کو بغور سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت سے نماز و خطبہ دونوں میں بغور سننے اور خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ جبکہ جمہور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۱۷۲،چشتی)(تفسیر مدارک صفحہ ۴۰۱)

اس آیتِ مبارکہ سے امام کے پیچھے قرآنِ پاک پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور کثیر احادیثِ مبارکہ میں بھی یہی حکم فرمایا گیا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کی جائے : ⏬

حضرت بشیر بن جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قرات کر رہے ہیں ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی تمہارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنی سمجھو ۔ (تفسیر ابن جریر جلد ۶ صفحہ ۱۶۱)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کر لو ، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے ، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو ۔ ایک روایت میں اتنا زائد ہے کہ اور جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو ۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التشہد فی الصلاۃ صفحہ ۲۱۴ - ۲۱۵ حدیث نمبر ۶۲-۶۳(۴۰۴))

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : امام اسی لیے ہوتا ہے کہ اس کی اِقتداء کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو خاموش رہو ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا باب اذا قرأ الامام فانصتوا جلد ۱ صفحہ ۴۶۱ حدیث نمبر ۸۴۶)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جس نے ایک رکعت بھی بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو ۔ (سنن ترمذی ابواب الصلاۃ باب ما جاء فی ترک القراء ۃ خلف الامام ۔۔۔ الخ جلد ۱ صفحہ ۳۳۸ حدیث نمبر ۳۱۳)

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم چپ رہو ۔(نسائی ج ١ص١٤٦ ، ابن ماجہ ص٦١، مشکوٰۃ ص٨١)

حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''جس شخص کا امام ہو تو امام کی قرأت (ہی) مقتدی کی قرأت ہے ۔ (ابن ماجہ ص٦١،مصنف ابن شیبہ ج١ص٤١٤)

حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ''جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اسے کافی ہے ''۔ (موطا امام مالک ص٦٨،چشتی)

حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہ ہوئی مگر امام کے پیچھے ہو تو (بغیر فاتحہ) ہو جائے گی ۔ (موطا امام مالک ، ترمذی ، طحاوی)

حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی، وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، وَقُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ – قَالَ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ وَہُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَاء بْنِ یَسَارٍ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاء ۃِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: لَا، قِرَاء ۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِی شَیْء ٍ۔
ترجمہ : حضرت عطا بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام کی اقتدا میں کوئی قرأت نہیں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:سُجُوْدِ التِّلَاوَت، ص454، حدیث:1199)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّیصِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ بِہَذَا الْخَبَرِ زَادَ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا۔
ترجمہ :ح ضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔(سنن ابن ماجہ، ج1کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب :اِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ فَاَنْصِتُوْ، ص255، حدیث:892)(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ، ص263، حدیث:600)

فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ: فَحَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ؟ فَقَالَ: ہُوَ صَحِیحٌ یَعْنِی وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ: ہُوَ عِنْدِی صَحِیحٌ فَقَالَ: لِمَ لَمْ تَضَعْہُ ہَا ہُنَا؟ قَالَ: لَیْسَ کُلُّ شَیْء ٍ عِنْدِی صَحِیحٌ وَضَعْتُہُ ہَا ہُنَا۔
ترجمہ : ابو بکر (نامی محدث) نے حضرت امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی {حدیث 27} کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تو امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا:وہ روایت صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ روایت میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ ابو بکر نے سوال کیا تو آپ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کیوں نہیں کیا؟ تو امام مسلم نے فرمایا :ایسا نہیں کہ جس حدیث کو میں صحیح سمجھتا ہوں اسے لازمی طور پر اس کتاب میں نقل کروں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّشہُّدِ فِی الصَّلَاۃِ، ص338-39 حدیث:809،چشتی)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَۃَ بْنَ أَوْفَی، یُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَہُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَیُّکُمْ قَرَأَ – أَوْ أَیُّکُمُ الْقَارِئُ – فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا، فَقَالَ: قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ خَالَجَنِیہَا۔
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ مقتدیوں میں سے کسی نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلیٰ کی قرأت شروع کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون قرأت کر رہا تھا؟ ایک صاحب نے عرض کی :میں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں نے یوں محسوس کیا کہ تم میری قرأت میں خلل پیدا کر رہے ہو۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء ۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ، ص332، حدیث:792)

اس حدیث پاک میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے جو سری پڑھی جاتی ہے لہٰذا نماز جہری ہو یا سری مقتدی قرأت نہیں کر سکتا۔

حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ ۔
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:وُجُوبِ القِرَاء ۃِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ، ص334، حدیث:717)

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِیُّ قَالَ:حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ:حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ:مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ، إِلَّا أَنْ یَکُونَ وَرَاء الإِمَامِ :ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کے علاوہ جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھیا س کی نماز مکمل نہیں۔(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الصلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِی تَرْکِ القِرَاء ۃِ خَلْفَ الإِمَامِ، ص217، حدیث:297)(موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَاجَائَ فِیْ اُمِّ الْقُرْاَن، ص95، حدیث:38،چشتی)

حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہُ۔
ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات کی تبلیغ فرماتے کہ جو سورۃ فاتحہ یا اس سے زائد نہ پڑھے اس کی نماز مکمل نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا یعنی جو منفرد نماز پڑھ رہا ہو۔(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء ۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، ص324-25، حدیث:813)

اَخْبَرْنَامُحَمَّدُ بْنُ اَبَانَ بْنِ صَالِحٍ الْقُرَشِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْنَخْعِیْ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْمَا یَجْھَرُ فِیْہِ وَ فِیْمَا یُخَافَتُ فِیْہِ فِیْ الْاُوْلَیَیْنِ وَلَا فِی الْاُخْرَیَیْنِ وَاِذَا صَلّیٰ وَحْدَہٗ قَرَأَ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ وَ لَمْ یَقْرَأْ فِی الْاُخْرَیَیْنِ شَیْئًا۔
ترجمہ : علقمہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے نہ جہری میں، نہ سری میں، نہ پہلی دو رکعتوں میں نہ آخری دو رکعتوں میں۔ اور جب تنہا نماز پڑھتے تو( فرض کی) پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورۃ پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے۔(موطا امام محمد، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْقِرَأَۃِ فِی الصَّلوٰۃِ خَلْفَ الْاِمَام، ص95-96، حدیث:121)

اب آخر میں علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ پیش کرنا کافی ہو گا علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:ولہذا روی فی الحدیث مثل الذی یتکلم و الامام یخطب کمثل الحمار یحمل اسفارا فھٰکذا اذا کان یقرأ و الامام یقرأ علیہ۔
ترجمہ : حدیث پاک میں اس شخص کی مثال بیان کی گئی جو امام کے خطبہ دینے کے دوران کلام کرے اس کی مثال گدھے جیسی ہے جو بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص قرأت کر رہا ہو جب امام قرأت کر رہا ہو ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص279)

کثیراحادیث طیبہ میں بھی اس بات کا بیان ملتاہے کہ امام کے پیچھے کسی طرح کی قراء ت نہ کی جائے کچھ احادیثِ مبارکہ حصّہ اوّل میں پڑھ چکے ہیں مزید پیش خدمت ہیں کہیں کہیں حدیث مکرر بھی آئے گی جو کہ ضرورت کے تحت ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داود قال حدثناالحسین بن عبدالاول الاحول قال حدثناابوخالدبن سلیمان بن حیان قال حدثناابن عجلان عن زیدبن اسلم عن ابی صالح عن ابی ھریرۃرضی اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انماجعل الامام لیؤتم بہ فاذاقرء فانصتوا ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ وبارک وکرم وسلم نے فرمایاکہ امام تواسی لیے مقررکیاگیاہے کہ تم اس کی اقتداء کروپس جب وہ قراء ت کرے توتم خاموش رہو ۔ اس حدیث کوامام نسائی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۱۹،۳۱۹)اورالسنن الکبری میں (جلد۱ص۰۲۳)اورامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۳۸)امام احمدبن حنبل نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۴۳۵۸،۹۶۰۹) امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۴۱۴، جلد۲ص۴۲۲، جلد۸ص۸۷۳) امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۶۵۱)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۵۲۱،۸۵۲۱،۹۵۲۱، ۰۶۲۱)اورامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۲۷۳پر)روایت فرمایا)

حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن عبدالرحمن حدثناعمی عبداللہ بن وھب قال اخبرنی اللیث عن یعقوب عن النعمان عن موسی بن ابی عائشۃعن عبداللہ بن شدادعن جابربن عبداللہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراءۃ ۔
ترجمہ : کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۲۷۳پر)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۶۴۲۱،۷۴۲۱ ،۹۴۲۱ ،۰۵۲۱ ،۷۶۲۱، ۸۶۲۱، ۹۶۲۱) امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۴۱۴ روایت فرمایا)

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۳۷۳پر ،امام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۱۵۲۱ روایت فرمایا)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۹۷۲۱ روایت فرمایا،چشتی)

جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے : حدثنا بحربن نصرحدثنایحیی بن سلام قال حدثنامالک عن وھب بن کیسان عن جابر بن عبداللہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ قال من صلی رکعۃفلم یقرء فیھابام القرآن فلم یصل الاوراء الامام ۔
ترجمہ : وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کوئی رکعت نمازاداکی تواس میں ام الکتاب یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت نہ کی تواس نے نمازنہ پڑھی سوائے اس کے کہ امام کے پیچھے ہویعنی اب اسے سورہئ فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۳۷۳پر)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۴۵۲۱)امام ابن عدی نے الکامل میں (جلد۷ ص۳۵۲)روایت فرمایا)

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن داودقال حدثنایوسف بن عدی قال حدثناعبیداللہ بن عمروعن ایوب عن ابی قلابۃعن انس رضی اللہ عنہ قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم اقبل بوجھہ فقال اتقرء ون والامام یقرء فقالواانالنفعل قال فلاتفعلوا ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازادافرمائی پس اپنا رخ انور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف پھیر کر فرمایا : کیا امام کے قراء ت کرتے وقت تم بھی قراء ت کرتے ہو ؟ پس صحابہ رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے ۔ تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے تین با رسوال فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی ”جی ہاں ہم ایساکرتے ہیں“ تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ایسامت کیاکرو۔یعنی امام کے پیچھے قراء ت نہ کیاکرو ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۳۷۳ پر روایت فرمایا)

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنایوسف بن موسی القطان حدثناجریرعن سلیمان التیمی عن قتادۃعن ابی غلاب عن حطان بن عبداللہ الرقاشی عن ابی موسی الاشعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاقراء الامام فانصتوا ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاجب امام قراء ت کرے توتم خاموش رہو ۔ اس حدیث کوامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۸۳۸)امام احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں (حدیث نمبر۱۹۸۸۱)امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ ص۶۵۱)امام ابوعوانۃنے اپنی مستخرج میں (حدیث نمبر۹۳۳۱ ،۰۴۳۱ ،۱۴۳۱) امام ابویعلی موصلی نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۴۶۱۷) اورامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۳۶۲۱،۴۶۲۱)روایت فرمایا،چشتی)

جناب عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن نصربن سندویہ حدثنایوسف بن موسی حدثناسلمۃبن الفضل حدثناالحجاج ابن ارطاۃ عن قتادۃعن زرارۃبن اوفی عن عمران بن حصین قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس ورجل یقرء خلفہ فلمافرغ قال من ذاالذی یخالجنی سورتی فنھاھم عن القراء ۃخلف الامام ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ نمازادافرمارہے تھے اورایک شخص آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیچھے قراء ت کررہاتھا ۔ پس جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے توفرمایا : کونسا شخص میری سورۃ میں مجھ سے جھگڑا کرتا ہے ؟ پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کوامام کے پیچھے قراء ت کرنے سے منع فرمادیا ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر ۳۵۲۱ روایت کیا)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنا محمد بن مخلد حدثنا علی بن حرب واحمدبن یوسف التغلبی ومحمدبن غالب وجماعۃقالواحدثناغسان ح وقریئ علی ابی محمدبن صاعد وانااسمع حدثکم علی بن حرب واحمدبن یوسف قالاحدثناغسان بن الربیع عن قیس بن الربیع عن محمدبن سالم عن الشعبی عن الحارث عن علی قال قال رجل للنبی صلی اللہ علیہ وسلم اقرء خلف الامام اوانصت قال بل انصت فانہ یکفیک ۔
ترجمہ : ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی : میں امام کے پیچھے قراء ت کروں یا خاموش رہوں ؟ تونبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ توخاموش رہ!کیونکہ امام تیرے لیے کافی ہے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۶۲۱)روایت کیا)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : حدثنا محمد بن مخلد حدثنا علی بن زکریا التمارحدثناابوموسی الانصاری حدثناعاصم بن عبدالعزیزعن ابی سھیل عن عون عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال یکفیک قراء ۃالامام خافت اوجھر۔
ترجمہ : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : امام کی قراء ت تیرے لیے کافی ہے۔چاہے امام پست آوازسے قراء ت کرے یابلندآوازسے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۶۶۲۱،۱۸۲۱ روایت فرمایا)

جناب شعبی سے مروی ہے کہ : حدثنامحمدبن مخلد حدثنا محمد بن اسماعیل الحسانی حدثناعلی بن عاصم عن محمد بن سالم عن الشعبی قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لاقراء ۃ خلف الامام ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ واولادہ وازواجہ وبارک وکرم وسلم نے فرمایا : امام کے پیچھے کسی طرح کی قراءت جائز نہیں ہے ۔ اس حدیث کو امام دار قطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر ۱۶۲۱ روایت کیا)

ان احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے کسی طرح کی قراءت نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت علی ، حضرت زیدبن ثابت ، حضرت عمرفاروق ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت جابر ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کئی ایک صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت مروی ہے ۔

قرآن و احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ جب مقتدی امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو کسی نماز کی کسی رکعت میں مقتدی نے سورۃ فاتحہ (الحمد شریف) نہیں پڑھنی بلکہ خاموش کھڑے رہنا ہے ۔


عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبّر فکبّروا واذا قرأفانصتوا۔(ابن ماجہ :رقم الحدیث :۸۴۶،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۷۲۲،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۴۱۴، سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۴۳،۱۲۴۴،۱۲۴۵،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۴)
تر جمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو ۔

عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا کبّر فکبّروا واذا قرأ فانصتوا،واذا قال:سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا:اللھم ربنا لک الحمد۔(سنن نسائی،رقم الحدیث:۹۲۱،سنن النسائی الکبری، حدیث:۹۹۳)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو ، اور جب ’سمع اللہ لمن حمدہ‘ کہے تو تم ’اللھم ربنا لک الحمد ‘کہو ۔

عن عمران بن حصین : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صلی الظھر ، فجعل رجل یقرأ خلفہ ’ سبح اسم ربک الاعلی‘فلما انصرف قال : ایکم قرأ ، او ایکم القاری ؟ فقال رجل انا ، فقال : قد ظننت انّ بعضکم خا لجنیھا ۔ (الصحیح المسلم ،رقم الحدیث:۳۹۸،سنن البیہقی الکبری،حدیث :۲۷۳۳،سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۳۵،چشتی،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۸۹،۹۹۰،صحیح ابن حبان،حدیث:۱۸۴۵)
تر جمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی تو ایک شخص نے آپ کے پیچھے سورہ ’سبح اسم ربک الاعلی‘ کی تلاوت کی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا : تم میں سے کس نے تلاوت کی ؟ تو ایک شخص نے کہا : میں ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہو گیا کہ تم میں سے کوئی اختلاج کر رہا ہے ۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انصرف من صلاۃ جھر فیھا بالقراۃ فقال:ھل قرأ معی احدکم آنفا؟ فقال رجل:نعم ،یارسول اللہ!قال:انی اقول مالی اُنازع القرآن؟قال:فانتھی الناس عن القرأۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیما جھر فیہ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من الصلوۃ حین سمعوا ذلک من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ ( سنن ابی داود،رقم الحدیث:۸۲۶،سنن البیہقی الکبری،حدیث: ۲۷۱۶،۲۷۲۰، سنن الدار قطنی،حدیث: ۱۲۶۶،چشتی،سنن النسائی الکبری،حدیث:۹۹۱،صحیح ابن حبان، حدیث:۱۸۴۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۱)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسی نماز سے فارغ ہوئے جس میں قرأت زور سے کی جاتی ہے ، توفر مایا : کیا ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ؟ایک شخص نے کہا ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں نے کہا کہ کیا بات ہے کہ میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیا جا رہا ہے ؟ راوی نے کہا : جب یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لوگوں نے سنی تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قرأت کرنا چھوڑ دیا ۔

عن عبد اللہ بن شداد قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :من کان لہ امام فقرأتہ لہ قرأۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۰،۳۸۲۳،شرح معانی الا ثار،حدیث:۱۲۹۴،سنن البیہقی الکبری،حدیث:۲۷۲۳،۲۷۲۴،سنن الدار قطنی، حدیث :۱۲۳۳،۱۲۳۸،۱۲۵۳،۱۲۶۴، موطا امام محمد،حدیث:۱۱۷)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فر مایا : جس کےلیے امام ہو ،تو امام کی قرأت مقتدی کی بھی قرأت ہے (یعنی مقتدی کو پڑھنے کی ضرورت نہیں) ۔

عن حطان بن عبد اللہ الرقاشی قال:صلی بنا ابو موسی،فقال ابو موسی:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ن یعلمنا اذا صلی بنافقال:انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذاکبر فکبرواواذاقرأ فانصتوا۔(سنن البیہقی الکبری،باب من قال یترک الماموم القرأۃ،حدیث:۲۷۱۲ ،۲۷۱۳،چشتی،سنن الدار قطنی حدیث : ۱۲۴۹،۱۲۵۰)
ترجمہ : حضرت حطان بن عبد اللہ رقاشی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو کہا کہ : بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہمیں نماز پڑھاتے تو ہمیں یہ بات سکھاتے کہ امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خا موش رہو ۔

عن جابر بن عبد اللہ عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہ صلی وکان من خلفہ یقرأفجعل رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ینھاہ عن القرأۃفی الصلوۃ فلما انصرف اقبل علیہ الرجل فقال اَ تنھانی عن القرأۃ خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فتنازعا حتی ذکرا ذلک للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فقال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ۔(سنن البیہقی الکبری،باب من قال لایقرأ خلف الامام علی الاطلاق،حدیث:۲۷۲۲،سنن الدار قطنی، حدیث:۱۲۳۴،موطا امام محمد،حدیث:۱۲۵)
تر جمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز پڑھائی تو ایک شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھا قرأت کی ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی اسے نماز میں قرأت کرنے سے منع کر نے لگے ، جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ، تو اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا ، اور کہا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرأت کرنے سے منع کرتے ہیں ، پھر ان دونوں میں بحث چھڑ گئی یہاں تک کہ اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو بے شک امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔

عن علی رضی اللہ عنہ قال:قال رجل للنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : اقرأ خلف الامام او انصتُ؟قال:بل انصت فانہ یکفیک۔(سنن الدار قطنی حدیث نمبر ۱۲۴۸)
تر جمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے در یافت کیا کہ : میں امام کے پیچھے قرأت کروں یا خاموش رہوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : خاموش رہو ، کیونکہ بے شک اس کی قرأت تمہیں کافی ہے ۔

عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال:کان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یصلی بالناس ورجل یقرأ خلفہ فلما فرغ قال:من ذالذی یخالجنی سورتی ثم نھاھم عن القرأۃ خلف الامام۔(سنن الدار قطنی،ج:دوم،حدیث:۱۲۴۰)
ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ، ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرأت کی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فر مایا : کس نے مجھے میری تلاوت میں اختلاج ڈالا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سب کو امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرمادیا ۔

عن جابر بن عبد اللہ ،ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال:کل صلاۃلایقرأ فیھا بام الکتاب فھی خداج الاان یکون وراء الامام۔(سنن الدار قطنی حدیث نمبر ۴۱ ۱۲،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جاتی وہ ناقص ہوتی ہے ، ہاں مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۔

عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قال : تکفیک قرأۃ الامام خافت او جھر ۔ (سنن الدار قطنی،حدیث:۱۲۵۲ ،۱۲۶۶)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیا ن کیا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فر مایا : تم کو امام کی قرأت کافی ہے ، سِرّی نماز ہو یا جہری ۔

عن عبد الرحمن بن زید بن اسلم عن ابیہ قال:نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عن القرأۃ خلف الامام۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۰)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام کے پیچھے قرأت کر نے سے منع فر مایا ۔

عن عبد الرحمن بن زید بن اسلم قال:اخبرنی موسی بن عقبۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وابوبکر وعمر وعثمان کانوا ینھون عن القرأۃ خلف الامام۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۰)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خبر دیا حضرت موسی بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہ : بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت ابو بکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فر مایا کرتے تھے ۔

عن ابی نعیم وھب بن کیسان انہ سمع جابر بن عبد اللہ یقول:من صلی رکعۃلم یقرأ فیھا بام القرآن فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ (ترمذی ، رقم الحدیث :۳۱۳،سنن البیہقی، حدیث : ۲۷۲۵،موطا امام محمد، حدیث:۱۱۳)
ترجمہ : حضرت ابو نعیم وھب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فر ماتے ہوئے سنا کہ : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورہ ء فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز ہی نہ پڑھی ، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو (یعنی جب امام کے پیچھے ہو تو اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔

عن عطاء بن یسار انہ سأل زید بن ثابت عن القرأۃ مع الامام ،فقال :لا قرأۃ مع الامام فی شئی۔(مسلم،رقم الحدیث:۵۷۷)
ترجمہ : عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا ، تو انہوں نے فرمایا : امام کے ساتھ کسی چیز میں قرأت نہیں ہے ۔

عن ابی وائل قال:جاء رجل الی عبد اللہ فقال:اقرأ خلف الامام؟فقال لہ عبد اللہ:ان فی الصلوۃ شغلا ،سیکفیک ذاک الامام۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۰۱،شرح معانی الاثار حدیث : ۱۳۰۷،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۳،چشتی،سنن البیہقی الکبری،۲۷۲۶،موطا امام محمد، حدیث:۱۲۰)
ترجمہ : حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، اور پوچھا کہ : کیا میں امام کے پیچھے قرأت کروں ؟ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : یہ نماز میں شغل (یعنی ایسا کام ہے جو جائز نہیں) ہے ، تم کو اس امام کی قرأت کافی ہے ۔

عن ابی لیلی عن علی رضی اللہ عنہ قال : من قرأ خلف الامام فقد اخطاء الفطرۃ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام حدیث:۳۸۰۲،شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۰۶،مصنف عبد الرزاق حدیث : ۲۸۰۱،سنن الدار قطنی،حدیث :۱۲۵۵،۱۲۵۷،۱۲۵۸،۱۲۵۹)
ترجمہ : حضرت ابو لیلی سے مروی ہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا : جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا اس نے سنت میں خطا (غلطی) کی ۔

عن ابی بِجاد عن سعد رضی اللہ عنہ قال:وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ جمرۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام حدیث:۳۸۰۳ ، موطا امام محمد،حدیث:۱۲۶)
ترجمہ : حضرت ابو بجاد سے مروی ہے کہ : حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میری خواہش ہے کہ جو لوگ امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ میں آگ کا شعلہ ہو ۔

عن ابن ثوبان عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال:لاتقرأخلف الامام ، اِن جھر و لا ان خافت ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام حدیث: ۳۸۰۸،چشتی)
ترجمہ : حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ :حضرت زید بن ثا بت رضی اللہ عنہ نے کہا : امام کے پیچھے قرأت نہ کر ، امام زور سے قرأت کرے یا آہستہ ۔

عن موسی بن سعد عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال : من قرأ خلف الامام فلا صلوۃ لہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام حدیث:۳۸۰۹،مصنف عبد الرزاق،حدیث:۲۸۰۲،موطا امام محمد حدیث نمبر ۱۲۸)
ترجمہ : حضرت موسی بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس نے امام کے پیچھے قرأت کیا تو اس کی نماز ہی نہ ہوئی ۔

عن ابی بشر عن سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ،قال:سألتہ عن القرأۃ خلف الامام؟قال:لیس وراء الامام قرأۃ۔(مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ،باب من کرہ قرأۃ خلف الامام،حدیث:۳۸۱۳)
ترجمہ : حضرت ابو بشر کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے فرمایا : امام کے پیچھے قرأت کرنا جا ئز نہیں ہے ۔

عن نافع ان عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کان اذا سئل ھل یقرأ احد خلف الامام؟قال:اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قرأۃ الامام واذا صلی وحدہ فلیقرأ۔(موطا امام مالک ،باب ترک القرأۃ خلف الامام، حدیث:۲۸۳،موطا امام محمد،حدیث:۱۱۲)
ترجمہ : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب سوال کیا گیا کہ : کیا کوئی امام کے پیچھے قرأت کرے ؟ تو آپ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قرأ ت کافی ہے اور جب تنہا پڑھے تو چاہیے کہ وہ قرأت کرے ۔

عن نافع قال : وکان عبد اللہ بن عمر لایقرأ خلف الامام ۔ (موطا امام مالک ، باب ترک القرأۃ خلف الامام، حدیث:۲۸۴)
ترجمہ : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے ۔

عن علقمہ، عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال : لیت الذی یقرأ خلف الامام ملی فوہ ترابا ۔ (شرح معانی الاثار،حدیث:۱۳۱۰،چشتی)
ترجمہ : حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کاش ! وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ مٹی سے بھر دیا جاتا ۔

عن داود بن قیس ،عن محمد بن عجلان، قال : قال علی رضی اللہ عنہ :من قرأ مع الامام فلیس علی الفطرۃ،قال:وقال ابن مسعود رضی اللہ عنہ:ملی فوہ ترابا،قال:وقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ حجرا۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام حدیث:۲۸۰۶ ، موطا امام محمد،حدیث:۱۲۷،چشتی)
ترجمہ : حضرت داود بن قیس سے مروی ہے کہ حضرت محمد بن عجلان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص امام کے ساتھ قرأت کرے وہ فطرت (یعنی سنت) پر نہیں ، اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : کاش ! اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جاتا ، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:میری خواہش ہے کہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ان کے منہ میں پتھر ہو ۔

عن عبید اللہ بن مِقسم قال:سألت جابر بن عبداللہ ، اَتقرأ خلف الامام فی الظہر والعصر شئیاََ ،فقال:لا۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلوۃ،باب القرأۃ خلف الامام،حدیث:۲۸۱۹)
ترجمہ : حضرت عبید اللہ بن مقسم کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ : کیا آپ ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے قرأت کرتے ہیں ؟ فرمایا : نہیں ۔

عن علقمہ بن قیس ، ان عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ : کان لایقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ وفیما یخافت فیہ ۔ (موطا امام محمد حدیث نمبر ۱۲۱)
تر جمہ : حضرت علقمہ بن قیس سے مروی ہے کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے نہ جہری نماز میں اور نہ ہی سِرّی نماز میں ۔

اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنا خلفاۓ راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل : ⏬

اِمام کے پیچھے قراءت نہ کرنے پر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل تھا ، حتیٰ کہ خلفاۓ راشدین رضی اللہ عنہم جیسی عظیم اور جلیل القدر شخصیات بھی اِسی پر عمل پیرا تھیں ۔ چنانچہ ذیل میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اور اُن کا عمل ملاحظہ فرمائیں ، جس سے مسئلہ کو بہت اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ، اِس لیے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دین شناسی اور حدیث فہمی کا کوئی دَعویدار نہیں ہو سکتا ، لہٰذا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اِس بارے میں مضبوط اور ٹھوس دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جس سے اِرشاداتِ نبویہ علی صاحبہا التحیۃ و السلام کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ : وَأَخْبَرَنِي أَشْيَاخُنَا أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: «مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ»قَالَ:وَأَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ،كَانُوا يَنْهَوْنَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔ (مصنف عبد الرزاق:2810)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن زید رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےامام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔راوی حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مشائخ نے مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ اِرشاد سنایا ہے کہ جس نے امام کے پیچھے قراءت کی اُس کی نماز ہی نہیں ہو گی ، اور حضرت موسیٰ بن عقبہ نے مجھے خبر دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع کیا کرتے تھے ۔

موطّاء امام محمد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے : لَيْتَ فِي فَمِ الذي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ حَجَرًا ۔
ترجمہ : کاش! کہ اُس شخص کے منہ میں پتھر ڈال دیے جائیں جو امام کے پیچھے قراءت کرتا ہے ۔ (موطّاء امام محمد صفحہ 98،چشتی)

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:3884)
ترجمہ : حضرت عُمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تمہارے لیے اِمام کی قراءت ہی کافی ہے ۔

قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:لَا يُقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ جَهَرَ أَوْ لَمْ يَجْهَرْ۔ (القراءۃ خلف الامام للبیہقی صفحہ 209)
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : امام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی خواہ امام اونچی آواز سے تلاوت کرے یا نہ کرے ۔

عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَدْ أَخْطَأَ الْفِطْرَةَ ۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:3781)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : جس نے اِمام کے پیچھے قراءت کی اُس نے فطرت کو کھو دیا ۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَيْسَ عَلَى الْفِطْرَةِ۔(مصنّف عبد الرزاق:2806)
ترجمہ : حضرت مُحمّد بن عجلان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس نے اِمام کے ساتھ قراءت کی وہ فطرت پر نہیں ہے ۔

عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا، وَسَيَكْفِيكَ ذَاكَ الْإِمَامُ۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:3780)
ترجمہ : حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور یہ دریافت کیا کہ کیا میں اِمام کے پیچھے قراءت کروں ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُس سے فرمایا : بیشک نماز میں مشغولیت ہوتی ہے اور تمہارے لیے وہی اِمام کافی ہے ۔

عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ:أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ لا يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ وَفِيمَا يُخَافِتُ فِيهِ فِي الأُولَيَيْن، وَلا فِي الأُخْرَيَيْن۔ (مؤطاء امام محمد:96)
ترجمہ : حضرت علقمہ بن قیس علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور سرّی کسی بھی نماز میں قراءت نہیں کیا کرتے تھے ، نہ پہلی رکعتوں میں نہ آخری رکعتوں میں ۔

مصنّف عبد الرزاق میں اِمام کے پیچھے قراءت کرنے والے کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کایہ اِرشاد نقل کیا گیا ہے : مُلِئَ فُوهُ تُرَابًا “ اُس کا منہ مٹی سے بھردیا جائے ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2806)

حضرت ابواِسحاق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَقْرَؤُونَ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اَصحاب اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2806)

عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ،فَقَالَ:لَا قِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ۔ (صحیح مسلم:577)
ترجمہ : حضرت عطاء بن یَسار علیہ الرحمہ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سےاِمام کے ساتھ قراءت کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو اُنہوں نے فرمایا:اِمام کے ساتھ کسی بھی قسم کی قراءت نہیں ۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَا قِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔
ترجمہ : اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کی جائے گی ۔ (ابن ابی شیبہ:3783)

حضرت موسیٰ بن سعید علیہ الرحمہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : مَنْ قَرَأَ مَعَ الْإِمَامِ فَلَا صَلَاةَ لَهُ ۔
ترجمہ : جو اِمام کے ساتھ قراءت کرے اُس کی نماز (کامل)نہیں ہوتی ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2802)

عَنِ ابْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَا لَا يَقْرَآنِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2815،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن ذکوان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم دونوں اِمام کے پیچھے قراءت نہیں کیا کرتے تھے ۔

عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مِقْسَمٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ وَزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَجَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنهُمْ ، فَقَالُوا : لَا تَقْرَءُوا خَلْفَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی:1312)
ترجمہ : حضرت عُبید اللہ بن مِقسم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عُمر ، حضرت زید بن ثابت اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے (اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں) دریافت کیا ، تو اِن سب نے یہی فرمایا : اِمام کے پیچھےکسی بھی نماز میں مت پڑھو ۔

عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا أَقْرَأُ وَالْإِمَامُ بَيْنَ يَدَيَّ. فَقَالَ : لَا ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی:1316)
ترجمہ : حضرت ابوحمزہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ کیا میں قراءت کرسکتا ہوں جبکہ اِمام میرے سامنے ہو ؟ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : نہیں ۔

عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ:سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفِي كُلِّ صَلَاةٍ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ».فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:وَجَبَتْ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَكُنْتُ أَقْرَبَ الْقَوْمِ مِنْهُ فَقَالَ: يَا كَثِيرُ مَا أَرَى الْإِمَامَ إِذَا أَمَّ الْقَوْمَ إِلَّا وَقَدْ كَفَاهُمْ ۔ (سنن دار قطنی:1505،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہر نماز میں قراءت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! (ہر نماز میں قراءت ضروری ہے) ۔ اَنصار میں سے ایک شخص نے کہا : یہ (قراءت) تو واجب ہو گئی ۔ حدیث کے راوی حضرت کثیر بن مُرّہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ (اِس حدیث کو سنانے کے بعد) میری جانب متوجّہ ہوئے اور میں لوگوں میں اُن کے سب سے زیادہ قریب تھا ، پس اُنہوں نے فرمایا : اے کثیر ! میں تو صرف یہی سمجھتا ہوں کہ اِمام جب کسی قوم کی اِمامت کرے تو وہ (قراءت کرنے میں) سب کی طرف سے کافی ہے ۔

عَنْ نَافِعٍ وَأَنَسِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُمَا حَدَّثَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا أَنَّهُ قَالَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ:«تَكْفِيكَ قِرَاءَةُ الْإِمَامِ ۔ (سنن دار قطنی:1503)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہما سے مَروی ہے ، وہ اِمام کے پیچھے قراءت کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے اِمام کی قراءت ہی کافی ہے ۔

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنهُمَا كَانَ إِذَا سُئِلَ: هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الإِمَامِ؟ يقول: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ خَلْفَ الإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَاءَةُ الإِمَامِ، وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ لاَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ ۔ (مؤطاء مالک:251)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اُس کےلیے امام کی قرأت ہی کافی ہے ، اور جب اکیلے نماز پڑھے تو اُسے قرأ ت کرنی چاہیے ۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اِمام کے پیچھے قرأت نہیں کیا کرتے تھے ۔

عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَنْهَى عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2814)
ترجمہ : حضرت زید بن اَسلم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عُمر رضی اللہ عنہ اِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔

عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ:«مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الإِمَامِ»۔«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»۔ (ترمذی:313)
ترجمہ:حضرت ابونُعیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ یہ فرمارہے تھے : جس نے نماز پڑھی اور اُس میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو گویا اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی ، ہاں !مگر یہ کہ وہ اِمام کے پیچھے ہو (تو نماز ہو جائے گی) ۔

عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ قَالَ:سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَتَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ شَيْئًا؟ فَقَالَ : لَا ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2819)
ترجمہ : حضرت عُبید اللہ بن مِقسم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ ظہر اور عصرکی نماز (یعنی سری نمازوں) میں اِمام کے پیچھے قراءت کرتے ہیں ؟اُنہوں نے فرمایا : نہیں ۔

حضرت علقمہ بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ مُلِئَ فُوهُ،قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ : تُرَابًا أَوْ رَضْفًا ۔
ترجمہ : میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو اِمام کے پیچھے قراءت کرتا ہےاُس کا مٹی یا اَنگارہ سے بھر جائے ۔ (مصنّف عبد الرزاق:2808)

اِمام شعبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : أدْرَكْتُ سَبعِيْنَ بَدرِيّاً كُلُّهُمْ يَمْنَعُونَ الْمُقْتَدِي عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔
ترجمہ : میں نے70 بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے کہ وہ سب مقتدی کو اِمام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔ (تفسیر روح المَعانی:5/142)

عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي نِجَادٍ، عَنْ سَعْدٍ قَالَ:«وَدِدْتُ أَنَّ الَّذِي يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي فِيهِ جَمْرَةٌ ۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:3782)
ترجمہ : حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ وہ شخص جو اِمام کے پیچھے پڑھتا ہے اُس کے منہ میں انگارہ ہو ۔


اہلسنت میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلدین امام کے پیچھے قراءت کرتے ہیں ۔ اور فقہ حنفی کی رو سے سرّی نماز میں بھی امام کے پیچھے قرأت ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہے ۔ ہاں ! سرّی نماز میں امام کے پیچھے قرأت مستحب ہونے کی بھی ایک روایت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب ہے ، لیکن وہ ضعیف روایت ہے جس پر عمل جائز نہیں ہے ۔ فقیر چشتی ذیل میں فتاوی رضویہ کا ایک مفصل اور مدلل فتوی نقل کر رہا ہے جس میں امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بیش قیمت علمی افادات کے ساتھ متعدد صحیح اور مستند حدیثوں کی روشنی میں اس چیز کو ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کےلیے قراءت کی گنجائش نہیں ہے اور مخالفین کی طرف سے دلیل کے طور پر پیش کی جانے والی تمام حدیثوں کا شافی اور مسکت جواب بھی دیا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ⏬

مذہبِ حنفیہ دربارہ قرأتِ مقتدی عدمِ اباحت و کراہتِ تحریمیہ ہے ۔ نماز سرّی میں روایتِ استحباب کہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نسبت کی گئی محض ضعیف ، کما بسط المحقق علی الاطلاق فقیہ النفس مولٰنا کمال الملۃ والدین محمد رحمۃ اللہ علیہ ، کما قالہ فی الدرالمختار ۔
خود تصانیفِ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں جا بجا عدمِ جواز مصرح ، آثار میں فرماتے ہیں یہی مذہب ہمارا مختار اور اسی پر عامہ حدیث و اخبار وارد ، اور فرمایا ایک جماعتِ صحابہ رضوان ﷲ علیہم اجمعین قرأتِ مقتدی کو مفسدِ نماز کہتی ہے ۔ اور اقوی الدلیلین پر عمل کرنے میں احتیاط ہے ۔ مؤطا میں بہت آثار روایت فرمائے جن سے عدمِ جواز ثابت ۔ قالہ الشیخ مولٰینا عبدالحق المحدث الدہلوی رحمۃ اللہ علیہ فی اللمعات ۔ با ایں ہمہ خلافِ تصریحاتِ امام ، ایک روایتِ مرجوجہ مجروحہ سے نمازِ سری میں جواز خواہ استحباب قراءت اُن کا مذہب ٹھہرانا اور فقہ حنفی میں اس کا وجود سمجھنا محض باطل و وہم عاطل ۔

ہمارے علمائے مجتہدین بالاتفاق عدمِ جواز کے قائل ہیں اور یہی مذہب جمہور صحابہ و تابعین کا ہے حتّی کہ صاحبِ ہدایہ امام علامہ برہان الملۃ والدین مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ نے دعوائے اجماعِ صحابہ کیا ہے ۔ رضی ﷲ عنہم اجمعین ۔
احادیث و آثار کہ اس باب میں وارد بیحد وشمار، یہاں بخوفِ طوالت بیانِ بعض پر اقتصار : ⏬

(۱) صحیح مسلم شریف میں سیّدنا ابو موسٰی اشعری رضی ﷲ  عنہ سے مروی سرور عالم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اذا صلّیتم فاقیموا صفوفکم ، ثم لیؤمکم احدکم ، فاذاکبر فکبروا، واذاقرأ فانصتوا ۔ یعنی جب تم نماز پڑھو اپنی صفیں سیدھی کرو ، پھر تم میں کوئی امامت کرے ، وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تم چپ رہو ۔

(۲) ابوداؤد و نسائی اپنی اپنی سُنن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں سرورِ عالم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : انما الامام لیؤتم بہ، فاذا کبر فکبروا ، اذاقرأ فانصتوا ۔ (ھذا الفظ النسائی)
یعنی امام تو اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی کہو۔ اورجب قرأت کرے خاموش رہو ۔یہ نسائی کے الفاظ ہیں ۔
امام مسلم بن حجاج نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح ہے ۔

(۳) ترمذی اپنی جامع میں سیدنا جابر بن عبد ﷲ انصاری رضی ﷲ عنہما سے راوی :من صلی رکعۃ لم یقرء فیھا بام القراٰن فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ یعنی جو کوئی رکعت بے سورہ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر جب امام کے پیچھے ہو۔ھکذا رواہ مالک فی مؤطاہ مو قوفا۔اور امام ابو جعفر احمد بن سلامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے معانی الآثار میں اسے روایت کیا اور ارشاداتِ سیدمرسلین صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے قرار دیا ۔وﷲ تعالٰی اعلم ۔ حافظ ابو عیسٰی ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

(۴) سیدنا امام الائمہ مالک الازمہ سراج الاُمہ کاشف الغُمہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رضی ﷲ عنہ وعن مقلدیہ باحسان روایت فرماتے ہیں : حدثنا ابوالحسن موسٰی بن ابی عائشۃ عن عبدﷲ بن شداد بن الھاد عن جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ تعالٰی عنھما عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال: من صلی خلف الامام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ ۔ یعنی حضور اقدس سید المرسلین صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کا پڑھنا اس کا پڑھنا ہے ۔

فقیر کہتا ہے : یہ حدیث صحیح ہے رجال اس کے سب رجالِ صحاحِ ستّہ ہیں ۔ و رواہ محمد ھکذا مرفوعا من طریق اٰخر ۔
حاصل حدیث کا یہ ہے کہ مقتدی کو پڑھنے کی کچھ ضرورت نہیں ، امام کا پڑھنا کفایت کرتا ہے ۔ ھکذا روی عند محمد رحمۃ اللہ علیہ مختصرا ۔ و رواہ الامام تارۃ اخری مستوعبا ۔
قال : صلی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم بالناس ، فقرأ رجل خلفہ ، فلما قضی الصلٰوۃ قال ایکم قرأ خلفی ؟ ثلٰث مرات ، فقال رجل : انا یا رسول ﷲ ! صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم : من صلی خلف الامام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ۔
خلاصہ مضمون یہ ہے کہ سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی ایک شخص نے حضور کے پیچھے قرأت کی ، سیّد اکرم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر ارشاد فرمایا : کس نے میرے پیچھے پڑھا ، لوگ بسبب خوف حضور کے خاموش ہو رہے ، یہاں تک کہ تین بار بتکرار یہی استفسار فرمایا ، آخر ایک شخص نے عرض کی ، یارسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ! میں نے ۔ ارشاد ہوا کہ جو امام کے پیچھے ہو اس کےلیے امام کا پڑھنا کافی ہے ۔

(۵) ابو حنیفہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ ایضا،عن حماد بن ابراہیم ان عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ لم یقرأ خلف الامام لا فی الرکعتین الاولین ولا فی غیرھما ۔ یعنی سیّدناعبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ نے امام کے پیچھے قراءت نہ کی، نہ پہلی دو رکعتوں میں ، نہ ان کے غیر میں ۔

فقیر کہتا ہے : عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جو افاضلِ صحابہ و مومنین سابقین سے ہیں حضر و سفر میں ہمراہِ رکاب سعادت انتساب حضور رسالت مآب صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم رہتے اور بارگاہِ نبوت میں بے اذن لئے جانا اُن کے لئے جائز تھا، بعض صحابہ فرماتے ہیں : ہم نے راہ و روش سرورِ انبیا ء علیہ التحیۃ والثنا سے جو چال ڈھال ابن مسعود کی ملتی پائی کسی کی نہ پائی ، خود حضور اکرم الاولین والآخرین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : رضیت لامتی ما رضی لھا ابن ام عبد، وکرھت لامتی ماکرہ لہا ابن ام عبد ۔ میں نے اپنی امت کےلیے وہ پسند کیا جو عبد ﷲ بن مسعود اس کےلیے پسند کرے ۔ اور میں نے اپنی امت کےلیے ناپسند کیا جو اُس کےلیے عبد ﷲ بن مسعود ناپسند کرے ۔ گویا ان کی رائے حضورِ والا کی رائے اقدس ہے ۔ اور معلوم ہے کہ جناب ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جب مقتدی ہوتے فاتحہ وغیرہ کچھ نہیں پڑھتے تھے اور ان کے سب شاگردوں کا یہی وتیرہ تھا ۔

(٦) محمدفی مؤطاہ من طریق سفیانین عن منصور بن المعتمر۔ وقال الثوری نا منصور وھذا لفظ ابن عینیۃ عن منصور بن المعتمر عن ابی وائل قال سئل عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن القراءۃ خلف الامام، قال انصت؛ فان فی الصلٰوۃ لشغلا ، سیکفیک ذلک الامام ۔
خلاصہ یہ کہ سیّدنا ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے دربارہ قراءت مقتدی سوال ہوا، فرمایا خاموش رہ کہ نماز میں مشغولی ہے یعنی بیکار باتوں سے باز رہنا ۔ عنقریب تجھے امام اس کام کی کفایت کردے گا۔ یعنی نماز میں تجھے لاطائل باتیں روا نہیں۔اور جب امام کی قراءت بعینہ اُس کی قراءت ٹھہرتی ہے تو پھر مقتدی کا خود قراءت کرنا محض لغو ناشائستہ ہے۔
فقیر کہتا ہے: یہ حدیث اعلٰی درجہ صحاح میں ہے ،اس کے سب رواۃ ائمہ کبار و رجالِ صحاحِ ستہ ہیں ۔

(٧) واما حدیث الامام عن ابن مسعود فوصلہ محمد نامحمد بن ابان بن صالح القرشی عن حماد عن ابراہیم النخعی عن علقمۃ بن قیس ان عبدﷲ بن مسعود کان لایقرأ خلف الامام فیما یجھر و فیما یخافت فیہ فی الاولیین ولا فی الاخریین، و اذا صلی وحدہ قرأ فی الاولیین بفاتحۃ الکتاب وسورۃ ولم یقرأ فی الاخریین شیئا۔

حاصل یہ کہ حضرت ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ جب مقتدی ہوتے تو نماز میں جہریہ ہو یا سریہ کچھ نہ پڑھتے تھے، نہ پہلی رکعتوں میں، نہ پچھلی میں ۔ ہاں جب تنہا ہوتے تو صرف پہلیوں میں الحمد و سورت پڑھتے۔

(٨) ابو حنیفۃ عن حماد عن ابراہیم انہ قال لم یقرأ علقمۃ خلف الامام حرفا لا فیما یجھر فیہ القراءۃ ، ولا فیما لایجھر فیہ، ولا قرأ فی الاخریین بام الکتاب ولاغیرھا خلف الامام، ولا اصحاب عبدﷲ جمیعا۔
یعنی علقمہ بن قیس کہ کبارِ تابعین و اعاظمِ مجتہدین اور افقہِ تلامذہ سیّدنا بن مسعود ہیں امام کے پیچھے ایک حرف نہ پڑھتے، چاہے جہر کی قرأت ہو، چاہے آہستہ کی۔ اور نہ پچھلی رکعتوں میں فاتحہ پڑھتے اور نہ اور کچھ جب امام کے پیچھے ہوتے۔ اور نہ کسی نے حضرت کے اصحاب عبد ﷲ بن مسعود سے قرأت کی، رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(٩) محمد فی الموطا اخبرنا بکیر بن عامر،ثنا ابراہیم النخعی عن علقمۃ بن قیس قال لان اعض علی جمرۃ احب الی من ان اقرأ خلف الامام۔
یعنی حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں البتہ آگ کی چنگاری منہ میں لینا مجھے اس سے زیادہ پیاری ہے کہ میں امام کے پیچھے قرأت کروں۔

(١٠) محمد ایضا، اخبرنا اسرائیل بن یونس ثنا منصور عن ابراہیم قال ان اول من قرأ خلف الامام رجل متھم۔
یعنی ابراہیم بن سوید النخعی نے کہ رؤسائے تابعین وائمہ دین متین سے ہیں تحدیث و فقاہت ان کی آفتاب نیمروز ہے فرمایا: پہلے جس شخص نے امام کے پیچھے پڑھا وہ ایک مرد متہم تھا۔
حاصل یہ کہ امام کے پیچھے قراءت ایک بدعت ہے جو ایک بے اعتبار آدمی نے احداث کی۔
فقیر کہتا ہے: رجال اس حدیث کے رجالِ صحیحِ مسلم ہیں۔

(١١) امام مالک اپنی مؤطا میں اورامام احمد بن حنبل رحمہما ﷲ تعالٰی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں: وھذا سیاق مالک عن نافع ان عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنھما کان اذا سئل ھل یقرأ احد خلف الامام؟ قال اذا صلی احدکم خلف امام فحسبہ قراءۃ الامام۔ واذا صلی وحدہ فلیقرأ۔ قال:وکان عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما لایقرأخلف الامام۔
یعنی سیدنا و ابن سیدنا عبد ﷲ بن امیرالمؤمنین عمر فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے جب دربارہ قرأتِ مقتدی سوال ہوتا فرماتے جب کوئی تم میں امام کے پیچھے نماز پڑھے تواسے قراءت امام کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قراءت کرے۔
نافع کہتے ہیں عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما خود امام کے پیچھے قرأت نہ کرتے۔ فقیر کہتاہے: کہ یہ حدیث غایت درجہ کی صحیح الاسناد ہے، حتی کہ مالک عن نافع عن ابن عمر کو بہت محدثین نے صحیح ترین اسانید کہا۔

(١٢) محمد اخبرنا عبید ﷲ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب رضی ﷲ تعالٰی عنہ عن نافع عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال من صلی خلف الامام کفتہ قراءتہ۔
یعنی حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں مقتدی کو امام کا پڑھنا کافی ہے ۔
فقیر کہتا ہے: یہ سند بھی مثل سابق کے ہے اور اس کے رجال بھی رجالِ صحاحِ ستہ ہیں ، بلکہ بعض علمائے حدیث نے روایات نافع عن عبیداللہ بن عمر کو امام مالک پر ترجیح دی۔

(١٣) محمد اخبرنا عبد الرحمن بن عبداللہ المسعودی اخبرنی انس بن سیرین عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما انہ سئل عن القراءۃ خلف الامام قال تکفیک قراءۃ الامام۔
یعنی سیدنا ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے دربارہ قراءت استفسار ہوا، فرمایا تجھے امام کا پڑھنا بس کرتا ہے۔

(١۴) امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاو ی رحمۃ ﷲ علیہ معانی الآثار میں روایت کرتے ہیں :حدثنا ابن وھب، فساق باسنادہ عن زید بن ثابت رضی ﷲ تعالٰی عنہ سمعہ یقول: لایقرأ المؤتم خلف الامام فی شیئ من صلاۃ۔
یعنی سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مقتدی امام کے پیچھے کسی نماز میں قرات نہ کرے یعنی نماز جہریہ ہو یا سریہ:

(١۵) محمد اخبرنا داؤد بن قیس ثنا عمر بن محمد بن زید عن موسٰی بن سعید بن زید بن ثابت الانصاری یحدثہ عن جدہ قال من قرأخلف الامام فلا صلٰوۃ لہ۔
یعنی حضرت زید بن ثابت انصاری رضی ﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کی نماز جاتی رہی ۔فقیر کہتا ہے یہ حدیث حسن ہے اور دارقطنی نے بطریق طاؤس اسے مرفوعاً روایت کیا۔

(١٦) الحافظ بن علی بن عمر الدار قطنی عن ابی حاتم بن حبان ثنی ابراہیم بن سعد عن احمد بن علی بن سلیمان الدوری عن عبدالرحمٰن المخزومی عن سفیان بن عیینہ عن ابن طاؤس عن ابیہ عن زید عن ثابت عن رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال من قرأخلف الامام فلا صلٰوۃ لہ۔
یعنی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی وعلیہ وسلم فرماتے ہیں :امام کے پیچھے پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔

(١٧) محمد ایضا اخبرنا داؤد بن قیس الفراء المدنی اخبرنی بعض ولد سعد بن ابی وقاص انہ ذکر لہ ان سعدا رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال وددت ان الذی یقرأ خلف الامام فی فیہ جمرۃ۔
یعنی سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے کہ افاضل صحابہ و عشرہ مبشرہ و مقربانِ بارگاہ سے ہیں منقول ہے انھوں نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ امام کے پیچھے پڑھنے والے کے منہ میں انگارہ ہو۔
(١٨) محمد ایضا اخبرنا داؤد بن قیس الفراء ثنا محمد بن عجلان ان عمر بن الخطاب رضی ﷲ تعالٰی عنہ قال لیت فی فم الذی یقرأ خلف الامام حجرا۔
یعنی حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا کاش جوشخص امام کے پیچھے قراءت کرے اُسکے منہ میں پتھر ہو۔

فقیر کہتا ہے: رجال اس حدیث کے بر شرط صحیح مسلم ہیں۔الحاصل ان احادیث صحیحہ و معتبرہ سے مذہب حنفیہ بحمد ﷲ ثابت ہوگیا۔
اب باقی رہے تمسکاتِ شافعیہ اُن میں عمدہ ترین دلائل جسے اُن کا مدار مذہب کہنا چاہئے حدیث صحیحین ہے۔ یعنی :لا صلٰوۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔
کوئی نماز نہیں ہوتی بے فاتحہ کے۔
جواب اس حدیث سے چند طور پر ہے یہاں اسی قدر کافی کہ یہ حدیث تمھارے مفید، نہ ہمارے مضر، ہم خود مانتے ہیں کہ کوئی نماز ذاتِ رکوع سجود بے فاتحہ کے تمام نہیں، امام کی ہو، خواہ ماموم کی، مگر مقتدی کے حق میں خود رسول ﷲصلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کے لئے امام کی قرأت کافی اور امام کا پڑھنا بعینہٖ اس کا پڑھنا ہے۔ کما مر سابقاً۔
پس خلافِ ارشادِ حضور والا تم نے کہاں سے نکال لیا کہ مقتدی جب تک خود نہ پڑھے گا نماز اس کی بے فاتحہ رہے گی اور فاسد ہوجائے گی۔
دوسری دلیل:حدیث مسلم : من صلی صلاۃ لم یقرأ فیھا بام القراٰن فھی خداج، ھی خداج، ھی خداج۔
حاصل یہ کہ جس نے کوئی نماز بے فاتحہ پڑھی وہ ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔
اس کا جواب بھی بعینہٖ مثل اول کے ہے۔نماز بے فاتحہ کا نقصان مسلّم، اور قراءتِ امام قراءتِ ماموم سے مغنی۔خلاصہ یہ کہ اس قسم کی احادیث اگرچہ لاکھوں ہوں تمھیں اس وقت بکار آمد ہوں گی جب ہمارے طور پر نمازِ مقتدی بے امّ الکتاب رہتی ہو وھو ممنوع۔
اور آخر حدیث میں قول حضرت سیّدنا ہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہا: اقرأ بھا فی نفسک یا فارسی۔کہ شافعیہ اس سے بھی استناد کرتے ہیں، فقیر بتوفیق الہی اُس سے ایک جواب حسن طویل الذیل رکھتا ہے جس کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں۔

تیسری دلیل : حدیث عبادہ بن صامت رضی ﷲ تعالٰی عنہ :لا تفعلوا الا بام القراٰن۔

امام کے پیچھے اور کچھ نہ پڑھو سوائے فاتحہ کے ۔

اولاً : یہ حدیث ضعیف ہے، اُن صحیح حدیثوں کی جو ہم نے مسلم اورترمذی ونسائی وموطائے امام مالک وموطائے امام محمد وغیرہا صحاح و معتبرات سے نقل کیں کب مقاومت کرسکتی ہے ،امام احمد بن حنبل وغیرہ حفّاظ نے اس کی تضعیف کی ، یحیی بن معین جیسے ناقدین جس کی نسبت امام ممدوح نے فرمایا جس حدیث کو یحیٰی نہ پہچانے حدیث ہی نہیں فرماتے ہیں: استثنائے فاتحہ غیر محفوظ ہے۔ثانیاً : خودشافعیہ اس حدیث پر دو وجہ سے عمل نہیں کرتے:ایک یہ کہ اس میں ماورائے فاتحہ سے نہی ہے اور ان کے نزدیک مقتدی کو ضمِ سورت بھی جائز ہے ۔ صرح بہ الامام النووی فی شرح صحیح مسلم ۔

دوسرے یہ کہ حدیث مذکور جس طریق سے ابوداؤد نے روایت کی بآواز بلند منادی کہ مقتدی کو جہراً فاتحہ پڑھنا روا اور یہ امر بالاجماع ممنوع۔
صرح بہ الشیخ فی اللمعات و یفید ہ الکلام النووی فی الشرح۔
پس جو خود اُن کے نزدیک متروک، ہم پر اُس سے کس طرح احتجاج کرتے ہیں۔بالجملہ ہمارا مذہبِ مہذب بحمد ﷲ حجج کافیہ و دلائل وافیہ سے ثابت ، اور مخالفین کے پاس کوئی دلیل قاطع ایسی نہیں کہ اُسے معاذ ﷲ باطل یا مضمحل کر سکے ۔ مگر اس زمانہ پُرفتن کے بعض جہال بے لگام جنھوں نے ہوائے نفس کو اپنا امام بنایا اور انتظام اسلام کو درہم برہم کرنے کےلیے تقلید ائمہ کرام میں خدشات و اوہام پیدا کرتے ہیں جس ساز و سامان پر ائمہ مجتہدین خصوصاً امام الائمہ حضرت امام اعظم رضی ﷲ تعالٰی عنہ وعن مقلدیہ کی مخالفت اور جس بضاعت مزجات پر ادعائے اجتہاد وفقاہت ہے عقلائے منصفین کا معلوم اصل مقصود ان کا اغوائے عوام ہے کہ وہ بیچارے قرآن و حدیث سے ناواقف ہیں جو ان مدعیانِ خام کار نے کہہ دیا اُنھوں نے مان لیا اگرچہ خواص کی نظر میں یہ باتیں موجب ذلّت و باعث فضیحت ہوں ،ﷲ سبحٰنہ وتعالٰی وساوس شیطان سے امان بخشےاٰمین ۔ ھذا ۔ والعلم عند واھب العلوم العالم بکل سرمکتوم ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٣ صفحہ ٨٨ تا ٩٢،چشتی)

امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے : ⏬

یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، صحابہ و ائمہ کبار کا معمول ہے ۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اس کا فرمان سب سے بڑا ہے ، جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں ۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول۔ مسئلہ مسؤلہ میں ہم پہلے قرآن کریم سے ہدایت لیں گے ، پھر حدیث پاک سے ۔ ابتداء میں امام ومقتدی سب کےلیے کافی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری تھا بعد میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام کی قرأت کو مقتدی کےلیے کافی قرار دیا یعنی اب کوئی امام کے پیچھے نہ سورہ فاتحہ پڑھے نہ کوئی اور سورہ غیر مقلدین اس مسئلے میں کچھ حدیثیں پیش کرتے ہیں اور بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی ۔ یاد رہے نماز میں قرأت کرنا فرض ہے چاہے پورے قرآن میں  سے کوئی سورہ یا کسی سورہ کی تین آیات پڑھے اور سورہ فاتحہ ہر نماز کے شروع میں پڑھنا واجب ہے فرض نہیں ہے اگر کوئ بھول سے سورہ فاتحہ نہ پڑھے اور اس کی جگہ کوئ سورہ تین آیت کے برابر پڑھ لے تو وہ آخر میں سجدہ سہو کرے اس کی نماز ہوگئی ہمارے امام اعظم سرکار ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک مقتدی کو جہری وہ نماز جس میں امام زور سے قرآن پڑھتا ہے اور سری جس میں امام آہستہ قرآن پڑھتا ہو جیسے ظہر اور عصر امام کے پیچھے قرآت سورہ فاتحہ یا قرآن کی کوئی سورہ پڑھنا جائز نہیں ہے  اس مسئلے پر قرآن وحدیث سے چند دلیلیں حاضر ہیں قرآن مجید میں ہے : ⬇

واذا قرئ القرآن فاستمعو لہ وانصتو لعلکم ترحمون ۔
ترجعہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو ۔ (پارہ نمبر 9 رکوع نمبر 14 سورہ اعراف آیت نمبر 204)

اس آیت میں صاف ہے کہ،قرآن پڑھا جائے تو چپ رہو مگر غیر مقلدین امام کا قرآن پڑھنا نہیں سنتے بلکہ پیچھے خود بھی سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں کیا ان کا یہ عمل،قرآن کے خلاف نہیں ۔ جو آیت ہم نے پیش کی اس کے بارے میں علامہ فخر الدین رازی علیہ الرحمہ اپنی کتاب تفسیر کبیر میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر کثیر میں اور ابن قدامہ حنبلی نے المغنی میں اور خود غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتوی میں لکھا ہے یہ آیت نماز میں امام کے قرآن پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئ ہے ۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرض نماز میں قرأت کی اور آپ کے پیچھے آپ کے صحابہ نے بھی بلند آواز سے قرأت کی جس سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو قرأت میں خلط (آگے پیچھے) ہوا پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر کبیر جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 500،چشتی)

مذکورہ بالا تصریحات سے صاف ظاہر وباہر ہوگیا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا قرأت کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوگیا اور سورۂ فاتحہ پڑھنا ابتداء میں سب کےلیے ضروری تھا بعد میں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع فرمادیا ۔

یہ قرآن حکیم کا حکم ہے جس میں کوئی شک نہیں، واضح ہے کوئی ابہام نہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو۔ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مت سنو اور مت خاموش رہو، بلکہ تم بھی پڑھا کرو جب امام فاتحہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو، نہیں بلکہ فاتحہ بھی قرآن مجید کی ایک سورت ہے۔ لہٰذا قرآن ہے اور امام چونکہ تلاوت کر رہا ہے ، لہٰذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے، اب جو صاحب یہ فرمائیں کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی فاتحہ پڑھے، اس سے قرآن مجید کی آیت پوچھیں۔ قرآن کا مقابلہ حدیث سے نہیں ہو سکتا نہ روایت قرآن کی آیت کو منسوخ کرتی ہے ۔

ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی ، فجر ، مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے، گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں ۔

1 ۔ جہری ، یعنی بلند آواز کے ساتھ ، جیسے فجر ، مغرب اور عشا ۔

2 ۔ سری ، یعنی آہستہ ، جیسے ظہر و عصر ۔

لہٰذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے ، ایک یہ کہ کان لگا کر سنو ، یعنی جب آواز آئے ، جیسے جہری نمازوں میں ۔ دوسرا چپ رہو ، یعنی جب آواز نہ آئے ، جیسے سری نمازوں میں ۔

حدیث پاک کی توضیح : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة ۔ جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام . (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 149،چشتی)
ترجمہ : جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے ۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کےلیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں ۔
فاسجدوا و لا تعدوه شياء و من ادرک رکعة فقد ادرک الصلوٰة ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 136)
ترجمہ : تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا، اور جس نے رکوع پا لیا اس نے (رکعت) پا لی ۔

کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، حدیث پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، فعل یا تقریر ہے، قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں۔ حدیث پاک میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے، اس لیے صحت حدیث کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف نہ ہو۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا، تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہوگا۔ ہاں مطلق قرآن پڑھنا، قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب۔

اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھنا تو فرض ادا ہو جائے گا۔ لیکن واجب رہ گیا۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے، فھی خداج کا مفہوم یہی ہے۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی۔ جس نے امام کے پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی، اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو رکعت کیسے مل سکتی ہے؟ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پا لیتا ہے۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں۔

امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیث پاک سے : ⏬

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : هل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتهی الناس عن القراة مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيما جهر فيه، بالقراة عن الصلوة حين سمعوا ذلک من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.
ترجمہ : ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا؟ ایک شخص نے عرض کی جی ہاں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے؟ کہا اس کے بعد جب لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف الامام ترک کر دی ۔ (مالک ، احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجه ، بحواله مشکوٰة صفحہ 81)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان المصلی يناجی ربه و لا يجهر بعضکم علی بعض بالقرآن ۔
ترجمہ : نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتاہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے ۔ (احمد بن حنبل ، بحواله مشکوٰٰة صفحہ 81)

سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا ۔
ترجمہ : امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ پھر جب تکبیر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجه، بحواله مشکوٰة صفحہ 81،چشتی)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال لا تفعلوا الا بفاتحة الکتاب فانه لا صلوة لمن لم يقرا بها ۔
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا، شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا ایسا مت کرو۔ ہاں فاتحہ، کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت کروائے، جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تم آمین کہو۔ اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و رکع فکبروا وارکعوا. واذا قراً فانصتوا ۔
ترجمہ : جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو، اور جب قرآن پڑھے تم خاموش رہو ۔ (مشکوٰة، بحواله صحيح مسلم صفحہ 79)

حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : اذا انت قمت فی صلوتک فکبر الله عزوجل ثم اقراء ما تيسر عليک من القرآن ۔
ترجمہ : جب نماز میں کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر جو قرآن میں سے آسان لگے پڑھو ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 صفحہ 132)

شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کر لیتے تھے : ⏬

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کنا نتکلم فی الصلوٰة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الا به حافظوا علی الصلوٰت و الصلوة و الوسطی و قوموا لله قانتين فامرنا بالسکوت ۔

ترجمہ : ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا ، یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کےلیے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو ۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا ، فامرنا بالسکوت . ترجمہ : پھر ہمیں خاموشی کا حکم ملا ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 250،چشتی)(جامع ترمذی جلد 1 صفحہ 123)

ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی نماز میں بات چیت کر لیتے تھے ۔

پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکم سے وہ بھی خاموش ہو گیا، قرآن کریم کے حکم فاستمعوا لہ وانصتوا، سنو اور چپ رہو، کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی ہمارے اطمینان کے لیے کافی ہے۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں، ہم ان کو بطور قراءت نہیں بطور دعا پڑھتے ہیں۔ نیز مقام قراءت قیام ہے، قعدہ نہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من صلیٰ خلف الامام فان قراة الامام له قراة ۔
ترجمہ : جو شخص امام کے پیچھے نماز ادا کر تو امام کا پڑھنا ہی اس کا پڑھنا ہے ۔ (امام محمد المؤطا جلد 1صفحہ 96)(البيهقی السنن الکبریٰ جلد 2 صفحہ 160)(الطبرانی المعجم الاوسط جلد 8 صفحہ 43)


امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و ائمہ کبار کا معمول ہے ۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اس کا فرمان سب سے بڑا ہے ، جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں ۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول ۔ اس مسئلہ پر ہم پہلے قرآن کریم سے ہدایت لیں گے ، پھر حدیث پاک سے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 204)

یہ قرآن حکیم کا حکم ہے جس میں کوئی شک نہیں ، واضح ہے کوئی ابہام نہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو ۔ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مت سنو اور مت خاموش رہو ، بلکہ تم بھی پڑھا کرو جب امام فاتحہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو ، نہیں بلکہ فاتحہ بھی قرآن مجید کی ایک سورت ہے ۔ لہٰذا قرآن ہے اور امام چونکہ تلاوت کر رہا ہے ، لہٰذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے ، اب جو صاحب یہ فرمائیں کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی فاتحہ پڑھے ، اس سے قرآن مجید کی آیت پوچھیں ۔ قرآن کا مقابلہ حدیث سے نہیں ہو سکتا نہ روایت قرآن کی آیت کو منسوخ کرتی ہے ۔

ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی ، فجر ، مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے ، گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں ۔ (1) ۔ جہری ، یعنی بلند آواز کے ساتھ ، جیسے فجر ، مغرب اور عشا ۔ (2) ۔ سری ، یعنی آہستہ ، جیسے ظہر و عصر ۔

لہٰذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے ، ایک یہ کہ کان لگا کر سنو ، یعنی جب آواز آئے ، جیسے جہری نمازوں میں ۔ دوسرا چپ رہو ، یعنی جب آواز نہ آئے ، جیسے سری نمازوں میں ۔ حدیثِ مبارکہ کی توضیح : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة ۔
ترجمہ : جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام ۔ (صحيح مسلم جلد 1 صفحہ 149)
ترجمہ : جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے ۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کےلیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں ۔ فاسجدوا و لا تعدوه شياء و من ادرک رکعة فقد ادرک الصلوٰة ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 :صفحہ 136)
ترجمہ : تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا ، اور جس نے رکوع پا لیا اس نے (رکعت) پا لی ۔

کیا فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ : ⏬

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، حدیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ، فعل یا تقریر ہے ، قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں ۔ حدیثِ مبارکہ میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے ، اس لیے صحت حدیث کےلیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف نہ ہو ۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا ، تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہو گا ۔ ہاں مطلق قرآن پڑھنا ، قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب ۔ اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھا تو فرض ادا ہو جائے گا ۔ لیکن واجب رہ گیا ۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی ۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے ، فھی خداج کا مفہوم یہی ہے ۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی ۔ جس نے امام کے پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی، اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو رکعت کیسے مل سکتی ہے ؟ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پا لیتا ہے ۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں ۔

امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیثِ مبارکہ سے : ⏬

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : هل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتهی الناس عن القراة مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيما جهر فيه ، بالقراة عن الصلوة حين سمعوا ذلک من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ۔ (مٶطا امام مالک ، مسند احمد ، سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی ، نسائی ، سنن ابن ماجه ، بحواله مشکوٰة صفحہ 81)
ترجمہ : ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا ؟ ایک شخص نے عرض کی جی ہاں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے ؟ کہا اس کے بعد جب لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف الامام ترک کر دی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان المصلی يناجی ربه و لا يجهر بعضکم علی بعض بالقرآن ۔ (مسند احمد بن حنبل بحواله مشکوٰٰة صفحہ 81)
ترجمہ : نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے ۔

سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا ۔ (سنن ابو داؤد ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجه ، بحواله مشکوٰة صفحہ 81)
ترجمہ : امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ۔ پھر جب تکبیر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو ، اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو ۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے : فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال لا تفعلوا الا بفاتحة الکتاب فانه لا صلوة لمن لم يقرا بها ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہو گیا ، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ، شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو ؟ ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا ایسا مت کرو ۔ ہاں فاتحہ ، کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ (اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے) ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت کروائے، جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تم آمین کہو۔ اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و رکع فکبروا وارکعوا. واذا قراً فانصتوا ۔
ترجمہ : جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو ، اور جب قرآن پڑھے تم خاموش رہو ۔ (مشکوٰة بحواله صحيح مسلم صفحہ 79)

حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : اذا انت قمت فی صلوتک فکبر الله عزوجل ثم اقراء ما تيسر عليک من القرآن ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 صفحہ 132)
ترجمہ : جب نماز میں کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر جو قرآن میں سے آسان لگے پڑھو ۔

شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کر لیتے تھے : حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کنا نتکلم فی الصلوٰة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الا به حافظوا علی الصلوٰت و الصلوة و الوسطی و قوموا لله قانتين فامرنا بالسکوت ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 250)(جامع ترمذی جلد 1 صفحہ 123)
ترجمہ : نماز میں بات چیت کر لیتے تھے ، ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا ، یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کےلیے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا ۔

خلاصہ کلام : ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی ،، فامرنا بالسکوت ،، پھر ہمیں خاموشی کا حکم ملا ۔ پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکم سے وہ بھی خاموش ہو گیا ، قرآن کریم کے حکم ، فاستمعوا لہ وانصتوا ، سنو اور چپ رہو ، کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی ہمارے اطمینان کےلیے کافی ہے ۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں ، ہم ان کو بطور قرات نہیں بطور دعا پڑھتے ہیں ۔ نیز مقام قرات قیام ہے ، قعدہ نہیں ۔

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت کی ہے ؟ اعتراض کا جواب : ⏬

امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (متوفی ۱۵۰ ؁ھ) امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع کر کے صحیح احادیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ قرآن حکیم صحیح و معتبر احادیث اور صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال پر عمل کیا ہے ۔ امام کے پیچھے مقتدی کے قرأت نہ کرنے پر قرآن حکیم سے دلیل یہ آیت ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 204)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی تھے انہوں نے آیت مذکورہ کو اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی قرأت نہ کرے ، نہ سورہ فاتحہ نہ ہی کوئی اور سورہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو امام کے پیچھے کچھ لوگوں کو قرأت کرتے ہوئے سنا ۔ جب امامت سے فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھو اور سوچو ؟ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان سے سنو اور چپ رہو پھر انہوں نے آیت مذکورہ کی تلاوت کی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم جلد دوم صفحہ نمبر 485 مطبوعہ ضیاء القرآن)

عن جابر رضی اللہ عنہ یقول من صلی رکعتہ لم یقرء فیھا بام القران فلم یصل الا ان یکون وراء الامام ۔ حسن صحیح ۔ (جامع ترمذی جلد اول مترجم اردو صفحہ 212 حدیث نمبر 297،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی، علاوہ اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

اسی حدیث کی بناء پر امام ترمذ ی رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ھے کہ : لاصلاۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب والی حدیث تنہا نمازی کے بارے میں ھے جو مقتدی کو شامل نہیں ۔ (جامع ترمذی شریف)

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صلاۃ یقرا فیھما بام الکتاب فھی خداج الا صلاۃ خلف الامام۔(کتاب القراءۃ للبیہقی ص170۔171)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نامکمل ہے مگر وہ نماز (نامکمل نہیں) جو امام کے پیچھے پڑھی جائے۔

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا ہمارے سامنے اپنی سنت کو بیان فرمایا اور ہمیں نماز پڑھنا سکھایا ۔ فرمایا: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنی صفیں درست کر لو پھر تم میں سے ایک آدمی امامت کرے جب امام اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو اور جب قرأت کرے تو تم چپ رہو (بروایت جریر عن سلیمان عن قتادۃ صحیح مسلم حدیث نمبر ۸۰۹،چشتی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جس کا امام ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ (مسند امام ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۴)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت یہ بھی ہے : ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نماز ظہر یا عصر پڑھی اس نے قرأت کی تو اشارے سے ایک شخص نے اسے روکا۔ جب نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنے سے تو مجھے روکتا ہے ؟ دونوں کی تکرار بڑھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سنا تو فرمایا : من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ ۔جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اس کے لئے کافی ہے ۔ (مسند ابوحنیفہ حدیث نمبر ۱۰۵ حدیث نمبر ۲۷۸)(مصنف عبد الرزاق جلد ۱ صفحہ ۳۷۷)(موطا امام محمد صفحہ ۳ ۳۲)(سنن ابن ماجہ جلد ١ باب اذا قرء الامام فانصتوا صفحہ ۶۱،چشتی)(شرح معانی الاثار جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ مکتبہ رحیمیہ دیوبند)(سسن الکبری للبیہقی جلد ۲ صفحہ ۱۶۰)(کتاب الاثار امام ابویوسف حدیث نمبر ۱۱۳)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جہری قرأت والی نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا ، کیا کسی نے میرے ساتھ نماز میں قرأت کی ؟ ایک آدمی نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے کی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا بات ہے ؟ میرے ساتھ قرآن پڑھ کرجھگڑا کیا جاتا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس بات کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کرنا چھوڑ دیا ۔

اس حدیث پاک سے صاف معلوم ہوگیا کہ اگر کسی صحابی نے کبھی امام کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے قرأت کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد میں اس سے منع فرمادیا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کے ساتھ نماز میں قرأت کرنا گویا امام سے منازعہ (جھگڑا) کرنا ہے ۔

امام کے پیچھے قرآن نہ پڑھنے کی بات تقریبا اسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری)

یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت سختی کے ساتھ امام کے پیچھے قرأت کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ (1) حضرت ابوبکر صدیق ، (2) حضرت عمر فاروق ، (3) حضرت علی مرتضیٰ ، (4) حضرت عثمان ذوالنورین ، (5) حضرت عبداللہ بن مسعود ، (6) حضرت سعد بن ابی وقاص ، (7) حضرت زید بن ثابت ، (۸) حضرت جابر ، (9) حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ، (10) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد ۲ صفحہ ۱۳۹ حدیث نمبر ۲۸۱۰،چشتی)(طبرانی کبیر ، طبرانی اوسط مجمع الزوائد جلد ۲ صفحہ ۱۱۰ ، ۱۱۱)(موطا امام مالک صفحہ ۶۶)(موطا امام محمد صفحہ ۱۰۷)

اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنے سے منع کرکے قرآن و احادیث و آثار صحابہ کرام کی پیروی کی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کی ہے۔ اعتدال کی بات : دلائل کے لحاظ سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف راجح ہونے کے باوجود یہ مسئلہ ائمہ مسلمین کے مابین اختلاف فی ہے لہٰذا امام ابوحنیفہ اور ان کے مقلدین دوسرے ائمہ دیم مثلا امام مالک ، امام شافعی، امام احمد رحمہم اللہ اور ان کے مقلدین کو جن میں سے بعض جہری اور سری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرنے کو ضرورت یا جائز سمجھتے ہیں ، لعن طعن نہیں اور اس فقہی و فرعی مسئلہ کی بنیاد پر حنفی علماء و عوام مالکی، شافعی یا حنبلی کسی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص کو بدعتی گمراہ اور حدیث کی مخالفت کرنے والا ، نہیں کہتے کوئی بھی سنی صحیح العقیدہ شخص خواہ وہ مالکی ہو یا شافعی و حنبلی کسی حنفی شخص کو لعن طعن نہیں کرتا ہاں ہر ایک دوسرے کو صحیح العقیدہ سنۃ کا پیروکار کہتا ہے لیکن جماعت اہل سنت سے کٹا ہوا ایک ہی فرقہ اہل حدیث (وہابی ) ہے جو مسئلہ مذکورہ کی بنیاد پر سنی حنفی مسلمان کو بدعتی ، مخالف سنت ، حدیث کا منکر کہتا ہے ۔ ان کی جرأت و بے باکی کا یہ عالم ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ جن کا شمار زمرۂ تابعین میں ہوتا ہے ۔ امام بخاری کے استاذ کے استاذ جن کی شاگردوں کی جماعت میں شامل ہیں ، جلیل القدر ائمہ احادیث مثلا عبداللہ بن مبارک ، سفیان بن عینیہ ، سفیان ثوری ، حماد بن زید ،امام عبدالرزاق ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ جن کے زہد وتقویٰ حدیث دانی اور تفقہ فی الدین کے مدح خواں ہیں ، ایسے عظیم المرتبت ہستی اوررب کے محبوب بندے کی شان میں ایک معمولی اردو خواں ، انگریزی داں بلکہ ان پڑھ اہل حدیث (غیر مقلد) بھی بڑی دریدہ ذہنی کے ساتھ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ابوحنیفہ نے حدیث کو چھوڑ کر اپنی رائے پر عمل کیا ہے ۔ اور اہل حدیث کے علماء امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تعصب رکھنے والے ان کے بعض معاصرین کی باطل و بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر انہیں اپنے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں ۔ حالانکہ اگر وہ اپنے عناد کی عینک اتار کر اپنے مقتدا شیخ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تاثرات امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سے پڑھ لیں تو ان کی ساری غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زہد و ورع اور ان کے علم و فقہ اور ان کی نقاہت و صداقت کے دل سے قائل ہو جائیں گے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ائمۃ الحدیث (حدیث کے اماموں) کی جماعت میں شمار کیا ہے ۔ (منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ ۲۳۱) ۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عقل سلیم اور ہدایت کی توفیق عطا فرمائیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...