متعہ ، نکاحِ حلالہ اور مسئلہ تین طلاق قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : حلالہ شرعیہ کی صورت یہ ہے کہ طلاق کی عدت پوری ہو جانے کے بعد وہ عورت کسی اورسے نکاحِ صحیح کرے اور دوسرے شوہر سے بعد از صحبت طلاق ہو جائے یا دوسرا شوہر فوت ہو جائے ، تو عورت عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے ۔ واضح رہے کہ "حلالہ" کوئی شرعی اور منصوصی اصطلاح نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد دوسرا نکاح کرنا لیا جاتا ہے ، تین طلاقیں واقع ہو جانے کے بعد عورت کا دوسرا نکاح کرنے کو عامۃ الناس "حلالہ" کہتے ہیں ، شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب کسی کو تین طلاق ہو جائیں ، تو جب تک کسی اور مرد سے دوسرا نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کی جائے ، پھر وہ طلاق دے یا مر جائے ، پھر عورت عدت گزارے ، اس کے بعد وہ عورت پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے ۔ اس بارے میں حکم قرآن و حدیث میں واضح طور پر آیا ہے ، جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت اور حدیث میں مذکور ہے : فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ ۔ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ ۔ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 230)ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے ، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کےلیے ۔
صحیح بخاری میں ہے : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ ، أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي ، فَبَتَّ طَلَاقِي ، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ الْقُرَظِيَّ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ ، لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ ۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق باب من اجاز طلاق الثلاث جلد 3 صفحہ 412 رقم الحدیث : 5260 دار الکتب العلمیہ، بیروت،چشتی)
ترجمہ : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں ام المومین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی اور طلاقیں بھی تین دیں ، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے ۔
ایضاح الشکوری فی شرح مختصرالقدوری میں ہے : وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرة او اثنتین فی الامة لم تحل لہ حتی تنکح زوجاغیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا اویموت ۔
ترجمہ : اگر طلاقیں تین ہوں حرہ میں یادو ہوں باندی میں تو اس کےلیے عورت حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح صحیح کرے اور وہ صحبت کرکے طلاق دے یا مر جاۓ ۔ (ایضاح الشکوری فی شرح مختصرالقدوری جلد ٢ صفحہ ١٤٩)
فتاوی امجدیہ میں ہے : حلالہ کی صورت یہ ہے کہ طلاق کی عدت گزرنے کے بعد عورت دوسرے سے نکاح صحیح کرے پھر وہ دوسرا شوہر اس سے وطی کرنے کےبعد طلاق دیدے یا مرجاۓ پھر اس طلاق یا موت کی عدت گزرنے کے بعد شوہرِ اول سے نکاح جاٸز ہو گا ۔ حلالہ کےلیے دوسرے شوہر کا وطی یعنی دخول کرنا ضروری ہے بغیر اس کے شوہرِ اول کےلیے حلال نہیں ہو سکتی ۔ حدیث عسیلہ جو ایک مشہور حدیث ہے جس کو بخاری ومسلم و دیگر محدثین علیہم الرحمہ نے ام المومنین حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا فرماتی ہیں : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ ، أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي ، فَبَتَّ طَلَاقِي ، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ الْقُرَظِيَّ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ ، لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ ۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق باب من اجاز طلاق الثلاث جلد 3 صفحہ 412 رقم الحدیث : 5260 دار الکتب العلمیہ، بیروت،چشتی)
ترجمہ : مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں ام المومین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی اور طلاقیں بھی تین دیں ، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے ۔ یعنی جب تک دخول اور جماع نہ ہو تو شوہرِ اول سے نکاح نہیں ہو سکتا ۔ تنویرالابصار و درمختار میں ہے : لاینکح مطلقہ بھاای بالثلث حتی یطأ غیرہ اھ ملتقطا ۔ (فتاوی امجدیہ جلد ٢ صفحہ ٢٧٦)
اگر میاں بیوی تین طلاقوں کے باوجود بغیر حلالہ کے رجوع کریں ، تو سخت گناہ گا روزانی ہوں گے ۔ گھر والوں ، رشتہ داروں اور اہل محلہ پر لازم ہے کہ وہ حسبِ استطاعت ان کو اکٹھے رہنے سے روکیں ۔ اگر یہ دونوں باز نہ آئیں ، تو ان سے قطع تعلقی کرنا چاہیے ۔ مفتی محمد وقا را لدین قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس شخص نے مطلقہ ثلاثہ کو اپنے پاس رکھا ہے ، وہ حرام کاری میں مبتلا ہوا ۔ اہل محلہ اور رشتہ داروں کو اس سے ملنا جلنا ناجائز و گناہ تھا ، جب تک و ہ اس عورت کو اپنے سے جدا نہ کردے اور بالاعلان توبہ نہ کرے ۔ (وقار الفتاوٰی جلد 3 صفحہ 165 مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی،چشتی)
انتہائی افسوسناک مقام ہے موجودہ دور کے مسلمانوں کےلیے شرعی مسائل کو مذاق بنایا جاتا ہے ، جنہیں علم تک نہیں ہوتا کہ شرعی مسائل پر بات کرنے کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ شرع مسائل پر بحث کرنے کےلیے کن کن علوم کا حاصل ہونا ضروری ہے اس کے باوجود بھی شرعی مسائل پر بحث کرنے میں احتیاط برتنا ضروری ہے ۔ مگر موجودہ دور میں مسلمان کہلانے والوں کی روش بن چکی ہے جسے استنجا کرنے کے مسائل معلوم نہیں وہ بھی اہم شرعی مسائل پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب علم نہیں ہوتا تو پھر گالم گلوچ شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ہمیں اس فتنے و گناہ سے بچائے آمین آیئے اب اس مسلہ کو سمجھتے ہیں : ⏬
اصل حلالہ نکاح صحیح کے ساتھ حقوق زوجیت کی ادائیگی کا نام ہے اور یہ ایک ایسا امر ہے جو عین شریعت کے مطابق ہے اگر مطلقہ عورت کو شوہر سابق کے ساتھ پھر عقد کرنے کے لئے دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح بشرط حلالہ کیا جائے تو نکاح میں فرق نہیں پڑے گا صرف یہ شرط لگانی مکروہ ہوگی کیونکہ حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے کرانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ اس لئے کہ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن اللہ علی المحلل و المحل لہ۔ حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ملعون ہیں لہٰذا یہ شرط لگانی مکروہ نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑھتا کیونکہ نکاح کے منافی شروط خود اڑ جاتی ہے نکاح متاثر نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ کو غلط اور ادھورے طریقہ سے پیش کیا جاتا ہے ۔
محترم قارئینِ کرام : پہلے یہ سمجھیں کہ حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ کا معنیٰ ہے حلال کرنے والا نکاح حقیقت میں تو ہر نکاح منکوحہ کو ناکح کے لئے حلال کرتا ہے مگر یہ خاص صورت وہ جب کوئی عورت منکوحہ طلاق مغلظہ کے ساتھ (تین طلاقوں کیساتھ) اپنے پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے اس کے بعد یہ عورت پہلے شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواجیت قائم کرنا چاہے تو اس کی ایک ہی صورت شریعت اسلامیہ نے رکھی ہے وہ کسی اور مرد سے نکاح کرکے حقوق زوجیت ادا کرے اور وہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دیکر زوجیت سے خارج کرے یہ عورت عدت گزارنے کے بعد زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے اب یہ نکاح ثانی حلالہ کی شرط کے ساتھ ہو یا اتفاقاً (نارمل طریقہ سے) نکاح ہو دونوں صورتوں میں نکاح بھی صحیح ہوگا ۔ حلالہ بھی ہو جائے گا ۔
مشروط بشرط حلالہ نکاح کو بدکاری کہنا بالکل غلط ہے اور زوجین پر بہتان ہے حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے والا شرعاً طلاق دینے کا پابند نہیں وہ عورت شرعاً اس کی بیوی اس سے قرار پانے والا حمل جائز و حلال اور اگر ان میں سے کوئی ایک طلاق سے پہلے مر جائے تو وراثت جاری ہوگی ۔ دوسرا یہ کہنا کہ مرووجہ حلالہ یک بار تین طلاقوں پر ہوتا ہے غلط ہے اصل حلالہ کی یہ صورت تین طلاقیں واقع کرنے کے بعد پیش آتی ہے چاہے یک بار تین طلاقیں واقع کی جائیں یا ایک ایک ماہ کے وقفے میں کی جائے ۔ اگر طلاق سنی یعنی ایک ایک ماہ کے بعد تین ماہ میں طلاقیں واقع کرنے کے بعد پھر وہی عورت پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہیے تو حلالہ کے بغیر ممکن نہیں چاہے نکاح حلالہ کے پروگرام سے ہو یا بغیر حلالہ کے پروگرام کے ہو نکاح ثانی مع ادائے حقوق زوجیت اب طلاق کے بعد یہ عورت شوہر سابق کےلیے حلال ہوئی یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنا حلال و جائز ہوا۔ اب رہی یہ بات حلالہ کا ثبوت کہاں ہے اور کیا تین طلاقوں کے بعد ہی حلالہ کی صورت آتی ہے جواباً دو دلیلیں عرض ہیں ۔
(1) کتاب اللہ عز و جل ۔ (2) سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پہلی دلیل : سورہ بقرہ آیت نمبر1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔
ترجمہ اگر مرد اپنی بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دے پس یہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک یہ اس کے علاوہ کسی اور مرد کے ساتھ نکاح صحیح سے حقوق زوجیت ادا نہ کرلے ۔ یہ ہے حلالہ قرآن سے ثابت اب ان کا انکار مسلمان نہیں کر سکتا ۔
دوسری دلیل حدیث شریف میں ہے : ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا عورت کو شوہر نے طلاق دے دی اور اسی عورت نے ایک اور مرد سے نکاح کرلیا اب اس عورت کا پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کا خیال ہوا مگر دوسرے شوہر سے مجامعت نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی پہلے شوہر کے پاس نکاح کے ساتھ جانے کا خیال ظاہر کیا اور اشاروں اشاروں میں عرض کیا کہ حقوق زوجیت ادا نہیں ہوئے (دوسرے شوہر سے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک دوسرے کا شہد نہ چکھا جائے (یعنی حقوق زوجیت ادا نہ ہوں) تم پہلے شوہر کےلیے حلال (بطور بیوی) نہیں ہو سکتی ۔ (سنن ابن ماجہ)
یہ حلالہ کے ثبوت ہر دلیل حدیث سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ اور خالی نکاح نہیں قرآن و حدیث دونوں سے ادائیگی حقوق زوجیت ثابت ہے ۔
محترم قارئین پر واضح ہو حلالہ ایک امرِ شرعی ہے اور اس کا ثبوت قطعی ہے اس سے مطلق انکار نہیں کیا جا سکتا ہاں اگر خرابی ہے تو وہ حلالہ کی شرط لگا کر نکاح کرنا یہ باعث لعنت ہے مگر نکاح پھر بھی صحیح اور شرط کے بعد بھی اگر وہ مرد طلاق نہ دے تو کوئی شرعی جرم نہیں ۔ حلالہ کو شرعی اور مروجہ کہہ کر خواہ مخواہ امت کو الجھایا گیا ہے حلالہ بھی ہو اور غیر شرعی (بدکاری) ہو یہ ممکن نہیں رہی یہ بات کہ تین طلاقیں یک بار واقع ہوتی ہیں کے نہیں ؟ تو حلالہ اس پر موقوف نہیں وہ مطلق تین طلاقیں واقع کرنے پر ہے ۔
باقی غیرمقلد وہابی علماء خود تسلیم کر چکے ہیں کے آئمہ اربعہ (امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل علیہم الرحمہ کا مذہب یہی ہے کہ واقع ہو جاتی ہیں ۔ سعودی نجدی وہابی علماء کا فتویٰ تین طلاق تین ہی ہیں ۔ ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہو جاتی ہیں ، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرحمہ اور جمہور امت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے ۔ (الدرر السنية كتاب العقائد جلد ١ صفحہ ٢٤٠،چشتی)
کیا کہتے ہیں غیرمقلد وہابی حضرات ؟ بانی وہابی نجدی مذہب اور نجدی علماء کے بارے میں ؟
مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي ، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ : ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں ، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں ، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے ، لہٰذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے ، مثلاً انہی مسائل میں سے ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ ، امام شافعی ، امام أحمد بن حنبل ، امام مالک علیہم الرحمہ) کی پیروی کرتے ہیں ، (ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں ، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرحمہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے ۔ (الدرر السنية كتاب العقائد جلد ١ صفحہ ٢٤٠)
تو پھر کیا کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ؟ جو احادیث پڑھ کر اہل حدیث استدلال کرتے ہیں ۔ ان احادیث کی کتب کے جامع مثلاً امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابن ماجہ علیہم الرحمہ خود ان آئمہ کے مقلد ہیں اصل ان احادیث کو آئمہ اربعہ نے سمجھا ہے اور ان کی سمجھ پر امت نے اعتماد کیا ہے کیونکہ ان کے پائے کے عالم آج تک پیدا نہیں ہوئے ۔ قارئینِ کرام غور فرمائیں غوث پاک بہاٶ الدین نقشبند ، شہاب الدین سہروردی ، خواجہ معین الدین چشتی ، داتا علی ہجویری لاہوری ، مجدد الف ثانی اور آئمہ تفسیر و احادیث علیہم الرحمہ سب ان آئمہ کے مقلد ہیں تو پھر ماننا پڑے گا جو آئمہ دین نے فرمایا بالکل صحیح ہے لہٰذا اِدھر اُدھر کی بات نہ کرو ہمیں آئمہ دین اور اکابرین امت ، اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کے راستے پر رہنے دو جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے ۔ الحمد للہ ۔
کسی کو حلالہ کےلیے مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کوئی دوسرا شخص نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے پھر اس کی مرضی چاہے تو طلاق دے یا پھر نہ دے ، اس سے طلاق کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی طلاق دینے کےلیے مجبور کیا سکتا ہے ۔ اگر طلاق کےلیے مجبور کیا جائے تو مجبور شخص کی تحریری طور پر طلاق نہیں ہوتی ، البتہ اگر زبانی طلاق دے تو ہو جائے گی ۔
اگر حلالہ arranged ہوا تو یہ حلال نہیں ، حرام ہو گا ۔ قرآن مجید نے وہ حرمتِ مغلظہ جو تین طلاقوں سے پیدا ہوئی ، اس کی انتہاء کسی دوسرے سے نکاح و قربت تک قرار دی اور بتایا کہ نکاح و قربت کے بعد اگر دوسرے خاوند نے اسے طلاق دے دی تو تین طلاقوں سے پیدا ہونے والی حرمت ختم ہو جاتی ہے اور عدت گذار کر اپنے سابق شوہر کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے جس نے اسے پہلی بار تین طلاقیں دی تھیں ۔ کیونکہ نکاح ثانی نے تین طلاقوں سے ہونے والی حرمت ختم کر دی ہے ۔ چونکہ نکاح ثانی سے حرمتِ غلیظہ ختم ہوئی اور حلتِ جدیدہ پیدا ہو گئی کہ اس عورت کا پہلے خاوند سے نکاح حلال ہو گیا ، لہٰذا اس عمل کو حلالہ کہا گیا ہے ۔
حلالہ شرعاً پسندیدہ عمل نہیں : ⏬
حلالہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ، بالکل اسی طرح جس طرح طلاق کوئی پسندیدہ عمل نہیں ۔ نہ خوشی سے دی جاتی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ابغض الحلال الی الله الطلاق ۔
ترجمہ : اللہ تعالی کے ہاں حلال وجائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ طلاق ہے ۔ (سنن ابو داؤد)
نیز فرمایا : يا معاذ ما خلق الله شيئا علی وجه الارض احب اليه من العتاق ولا خلق الله شيئا علی وجه الارض ابغض اليه من الطلاق ۔
ترجمہ : اے معاذ ! روئے زمین پر اللہ نے کسی مملوک کو آزاد سے بڑھ کر کوئی پسندیدہ چیز پیدا نہیں کی اور اللہ نے روئے زمین پر طلاق سے زیادہ کوئی ناپسندیدہ چیز پیدا نہیں ۔ (سنن دار قطنی)
معلوم ہوا کہ طلاق اللہ کو ناپسند بھی ہے اور حلال بھی ۔ کہہ دینے سے واقع ہو جاتی ہے ۔ ناپسند فرمانے کے باوجود یہ نہیں فرمایا کہ دینے سے واقع نہ ہو گی ۔ یہی حال ہے حلالہ کا، کسی شخص کےلیے یہ امر ہرگز پسندیدہ نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ۔ پھر وہ عورت عدت گذار کر کسی اور سے شادی و قربت کرے اور پھر وہ دوسرا خاوند اسے طلاق دے اور پہلا خوشی خوشی اس سے دوبارہ نکاح کرے یہ وفا ۔ مروت ۔ اور غیرت کے خلاف ہے ۔ شرم و حیا کے خلاف ہے ۔ چنانچہ لوگوں کو یہ بات بار بار سمجھائی جاتی ہے کہ طلاق کا شغل نہ کرو ! بعد میں پریشانیوں کا سامنا ہو گا ۔ اگر سمجھتے ہیں کہ پانی سر سے گذر گیا ہے اور بگڑے ہوئے حالات میں میاں بیوی میں اتفاق ناممکن ہو چکا ہے تو شریفانہ انداز سے ایک طلاق دے دیں ، تاکہ عدت گذار کر عورت اپنی مرضی سے اپنا مستقبل جس سے چاہے وابستہ کر لے ۔ اور خاوند بھی ایسا کر سکے ، نصیب دوستاں اگر کوئی صلح کی صورت پیدا ہو گئی تو عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت کے بعد از سر نو نکاح کرنا آسان رہے گا ۔ جبکہ تین طلاقوں سے لمبا اور پریشان کن عمل شروع ہو جائے گا ۔ جو دونوں کےلیے سخت قبیح و تکلیف دہ ہو گا ۔ اب اگر مرد یا عورت کے ناروا رویے کی بناء پر تین طلاقوں کی نوبت آتی ہے تو یہ شرعا ًظلم اور فریقین کےلیے مایوس کن ہو گا ۔ لیکن اب بھی فریقین اپنے ناروا رویے پر نادم ہو جائیں اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر رجوع اور صلح پر مائل ہوں تو حلالہ (یعنی نِکاحِ ثانی) کے بغیر چارہ نہیں ۔ اور یہ سزا دونوں کے ناروا رویہ کی بناء پر دی گئی ہے تاکہ وہ تین طلاقوں تک بات نہ بڑھائیں اور یہ انتہائی قدم نہ اٹھایا جائے ۔ اسی لیے اللہ عزوجل نے بطور نصیحت فرمایا ، ایک یا دو رجعی طلاق کے بعد یا تو عدت کے اندر اندر رجوع کر کے تعلقات بحال کر لو ! یا عدت گزرنے دو ، اور عورت کو آزاد ہونے دو تاکہ وہ جہاں چاہے شرعاً نیا نکاح کر لے ۔ فرمایا یہ اللہ کی حدیں ہیں ۔ فَلاَ تَعْتَدُوهَا ،، پس تم ان سے آگے مت بڑھو ،، یعنی ایک یا دو رجعی سے آگے بڑھ کر تیسری نہ دو ۔ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ۔ (سورہ البقره آیت نمبر 229) ، اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
مطلب واضح ہے کہ جو شخص شریعت کی پابندی نہیں کرتا ۔ اور تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو اس نے خود اپنی مشکل میں اضافہ کر لیا ۔ اور اللہ عزوجل کی حدوں سے تجاوز کر کے ظلم کیا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لعن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم المحلل والمحلل له ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی اور اس پر بھی جس کےلیے حلالہ کیا گیا ۔ دارمی ۔ ابن ماجہ۔ دارمی نے ابن مسعود سے اور ابن ماجہ نے حضرت علی ابن عباس اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے روایت کی ۔ (مشکوة المصابیح صفحہ 284)
مذکورہ تمام نصوص پر غور کرنے سے معلوم یہ ہوا کہ میاں بیوی کو باہمی اتفاق و اعتماد اور محبت وپیار سے زندگی گزارنی چاہیے ، اگر انہوں نے غلط رویہ اختیار کیا تو اس کا نتیجہ دونوں کےلیے ہی نہیں ان کے خاندانوں اور اولاد کےلیے بھی سخت برا ہو گا ۔ اللہ تعالی بھی ناراض ہو گا ۔ لیکن اگر فریقین باز نہیں آئے ۔ یا خاوند نے نالائقی کا ثبوت دیتے ہوئے اور ظلم کرتے ہوئے تین طلاقیں دیں تو بعد میں پشیمانی کی صورت میں دوبارہ تعلقات بحال کرنا آسان نہ ہو گا ۔ اس کے لیے حلالہ (یعنی نکاح ثانی) جیسی اذیت ناک صورت اختیار کرنا ہو گی ۔ جس کے بعد تعلقات میں پہلی سی گرم جوشی اور خلوص نہ رہیں گے ۔ محبت و الفت کی مطلوبہ صورت بن نہ سکے گی ۔ پہلے جیسا اعتماد نہ رہے گا ۔ اس کے علاوہ اور بھی بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔ لہٰذا اتنی پریشانیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باہمی تعلقات میں برداشت ، صبر اور سوجھ بوجھ سے کام لے کر تعلقات کو خوشگوار ہی رکھا جائے ۔ اور طلاق اور بالخصوص تین طلاقوں والا زہریلا تیر کبھی نہ چلایا جائے ۔ لیکن کسی نے شریعت کی ان ہدایات پر عمل نہ کیا اور حلالہ والی صورت ہی اختیار کی تو ناپسندیدہ ہونے کے باوجود حکم شرعی یعنی پہلے خاوند کےلیے حلت ثابت ہو جائے گی ۔ جیسے زنا ، قتل ، چوری ، غصب ، رشوت ، خیانت ، بدعہدی ، ظلم وغیرہ شریعت کی نظر میں سخت ناپسندیدہ افعال ہیں ۔ سختی سے ان سے بچنے کے احکام ہیں ۔ مگر کوئی کسی کو ناحق قتل کر دے تو قتل ہو جائے گا ۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس فعل کی شرعاً سخت مذمت و ممانعت ہے لہٰذا کسی حکم شرعی کا سبب کیسے بن سکتے ہیں ۔ قتلِ ناحق حکم شرعی یعنی قصاص یا دیت کا سبب بن جائے گا ۔ اسی طرح ’’حلالہ‘‘ سخت ناپسندیدہ ہونے کے باوجود حکم شرعی ثابت کر دے گا یعنی حرمتِ غلیظہ ختم کر کے اس عورت کو پہلے خاوند کےلیے حلال کر دے گا ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلالہ کرنے کروانے والے پر لعنت فرمائی مگر حلال ہونے کا انکار کہیں نہیں فرمایا ۔ اللہ عزوجل قرآن سنت کو سمجھنے کی توفیق دے اور جہالت و تعصب سے بچائے ، کسی انصاف پسند کےلیے مسئلہ سمجھنے میں ان شاء اللہ رکاوٹ نہیں رہی الحَمْدُ ِلله ۔ اللہ عزوجل حق کی سمجھ اور اتباع نصیب فرمائے آمین ۔
مسلہ حلالہ 3 طلاق کے بعد کا حکم از فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 12 : ⏬
مسئلہ ۱۶۱تا۱۶۳: از فتح پور ضلع شیحا واٹی درگاہ مسئولہ پیرجی محمد حنیف صاحب ۵شوال ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ :
(۱) کتنی بار طلاق دینے سے عورت خاوند پر حرام ہو سکتی ہے ؟
(۲) جس شخص اپنی زوجہ کو دس۱۰ بار طلاق دے اوراس کے ثبوت میں تین بار خاص اپنے ہاتھ سے تحریر لکھ لکھ کر لوگوں پر ظاہر کرے تو کیا وُہ عورت بغیر حلالہ اس کےلیے بغیر نکاح حلال ہو سکتی ہے ؟
(۳) اسی مطلقہ سے اُنہیں شرطوں پر بغیر حلالہ کیے رہی ، طلاق دینے والا خاوند صحبت کرتا رہے اور اس کو بدستور اپنے عملدرآمد میں لاتا رہے اس کا کیا حکم ہے ؟ اُس کی اولاد کیسی ہے اور اس کی جائداد کی مستحق ہوگی یانہیں اورایسا شخص قابلِ خلافت وسجادگی وخرقہ درویشی ہے یانہیں ؟ بینواتوجروا ۔
الجواب : (۱) جب طلاقیں تین تک پہنچ جائیں پھر وُہ عورت اس کےلیے بے حلالہ کسی طرح حلال نہیں ہو سکتی ، قال ﷲ تعالٰی فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۱؎۔ وﷲ تعالٰی اعلم ۔ ﷲ تعالٰی نے فرمایا ہے: اگر تیسری طلاق دی تو مطلقہ اس کےلئے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وُہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے ۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ القرآن ۲ /۲۳۰)
(۲) جس نے دس۱۰ طلاقیں دیں ، تین سے طلاق مغلظ ہوگئی اور باقی سات شریعت سے اس کا استہزا تھیں ، بلانکاح تو مطلقہ بائن بھی حلال نہیں ہوسکتی ہے اور یہ تو نکاح سے حرام محض رہے گی جب تک حلالہ نہ ہو طلاق دے یا مرجائے اور بہر حال اس کی عدت گزر جائے اس کے بعد اس پہلے سے نکاح ہو سکتا ہے ورنہ ہرگز ورنہ ہرگز نہیں ۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳) وُہ صحبت زنا ہوگی اور اسے اگر مسئلہ معلوم ہے تو یہ زانی اور شرعاً سزائے زنا کا مستحق اور اولاد ولدالزناء اور ترکہ پدری سے محروم،اور ایسا شخص قابل ِ خلافت وسجادہ نشینی نہیں،
وقد قال فی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار انہ زنا اذاعلم بالحرمۃ۲؎۔
ردالمحتاروغیرہ کتب میں فرمایا: جب حرام ہونا معلوم ہے تو یہ زنا ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب العدۃداراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۱۰، ۶۱۲، ۶۱۵)
اور اس میں برابر ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ ہوں یا متفرق۔
درمختار میں ہے : لاحدبشبہۃ الفعل ان ظن حلہ کوطء معتدۃ الثلاث ولوجملۃ۳؎۔(ملخصًا)
جب حلال ہونے کا گمان کیا تو یہ شبہہ فعل ہوگا جس پر حد نہیں، جیسا کہ اپنی مطلقہ ثلاثہ کی عدت میں جماع کیا اگرچہ اکھٹی تین طلاقیں ہوں(ملخصاً) (ت)
(۳؎ درمختار باب العطاء الذی لایوجب الحد الخ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۱۸)
ردالمحتار میں ہے: ای ولوکان تطلیقۃ الثلاث بلفظ واحد فلایسقط عنہ الحدالاان ادعی ظن الحل وکذالو وقع الثلاث متفرقۃبالطریق الاولٰی اذلم یخالف فیہ احد لان القراٰن ناطق بانتفاء المحل بعد الثلاثۃ۱؎۔واﷲتعالٰی اعلم۔
یعنی ایک لفظ سے تینوں طلاقیں دے دی ہوں تو عدت میں وطی کرنے پر حد ساقط نہ ہوگی مگر ا س نے اس صورت میں حلال ہونا گمان ہوتو پھراس پر حد نہ ہوگی، او ریوں ہی اگر اس نے تین متفرق دی ہوں تو بطریق اولٰی حد ساقط ہوگی کیونکہ اس میں کوئی مخالف نہیں تین طلاقوں کے بعد بیوی کامحلِ وطیئ نہ رہنا قرآن کی نص ہے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)(چشتی)
(۱؎ ردالمحتار باب الولی الذی یوجب الحد والذی لایوجبہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۱۵۲)
مسئلہ ۱۷۴تا۱۸۰: ازجھر یا ضلع مان بھوم محلہ گوالہ ٹولی مسئولہ محمد یوسف صاحب۲۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ :
(۱) زید کاہندہ کو تین بار طلاق دینا ایک طلاق کا حکم رکھتا ہے یا تینوں طلاق واقع ہوگئیں اور حلالہ کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟
(۲) باوجود ممانعت زید کا نہ ماننا اور صریح لفظوں میں تین بار یہ کہنا کہ میں نے طلاق دیا، ایسی صورت میں نیت پر طلاق کا مدار رہے گا یا نہیں؟ اور زید کا یہ قول کہ لوٹانے کی نیت تھی معتبر ہوگا۔
(۳) بہ نیت حلالہ خالد و ہندہ کو سمجھا کر راضی کرنا اور بدون اجازت ولی ہر دو کا برضاایجاب وقبول کرلینا یہ نکاح جائز ہوا یا ناجائز؟
(۴) اگر خالد کا نکاح درست ہے توبغیر خالد کے طالق دئے یا بغیر صحبت کئے وعدت گزارے شوہر اوّل سے ہندہ کا نکاح کرادینا اور میاں بیوی کی طرح دونوں کا اکٹھا رہنا کیسا ہے اور نکاح کرانے والے حضرات او رجو لوگ اس نکاح سے راضی ہیں اور جوایسے آدمی سے میل جول رکھتے ہیں ان کے لئے وعید اور حکمِ شرعی ہے؟
(۵) بالفاظِ مر قومہ بالاحلالہ کی ترغیب دلانے والے کے لئے کیاحکمِ شرعی ہے؟
(۶) خلافِ واقع جُھوٹی باتیں کہہ کر حق کو ناحق بنانے اور رسمِ قدیم نہ ٹوٹنے اور اپنی مونچھ کزتار رکھنے کےلئے اور حلال وحرام کی پرواہ نہ کرنے والے کے واسطے حکمِ شرعی کیا ہے؟
(۷) لڑکی ولڑکا حدِ بلوغت کو کتنے برس کے بعد ہوتے ہیں، اور جب بالغ دونوں ہیں تو اپنے نکاح کے مختار ہیں کہ نہیں کہ اس میں بھی ولی کی ضرورت ہے کہ نہیں؟
الجواب : (۱) بلاشُبہہ باجماعِ ائمہ اربع تین طلاقیں ہوگئیں اور بے حلالہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی قال ﷲ تعالی:فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجھاغیرہ۱؎۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر تیسری طلاق دے دی تو بیوی اس کے بعد حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)۔(۱؎ القرآن الکریم ۲ /۲۳۰)
(۲) اس صورت میں لوٹانے کی نیت حکمِ الٰہی کو بدلنا ہے اور یہ الفاظ صریح ہیں صریح میں نیت کی حاجت نہیں ہوتی، جس نے یہ فتوٰی دیا ہے کہ رجعت کی نیت تھی تو ایک رجعی ہوئی وہ گمراہ ہے۔
(۳) اگر خاوند ہندہ کا کفو تھا یعنی مذہب یا نسب یا چلا چلن یا پیشہ میں ایسا کم نہ تھا کہ ہندہ کا اُس سے نکاح اس کمی کے سب اولیائے ہندہ کے لئے ننگ وعار ہو اور انہوں نے دو۲ گواہوں کے سامنے جو سُنتے اور سمجھتے تھے ایجاب و قبول کرلیاتو صحیح ہوگیا اجازتِ ولی کی کوئی حاجت نہ تھی،
اذلاولایۃ مجبرۃ علی البالغین لما نصوا علیہ فی الکتب قاطبۃ۔
کیونکہ بالغ حضرات پر کسی کو جبری ولایت نہیں ہے جیسا کہ تمام کتب میں نصوص ہیں (ت)
(۴) بحالت صحت نکاحِ خالد ظاہر ہے کہ بے طلاق وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی۔
قال تعالٰی والمحصنٰت من النسا۱؎۔
ﷲ تعالٰی نے فرمایا: شادی شدہ(منکوحہ) عورت دوسروں کے لئے حرام ہیں(ت)
(۱؎ القرآن ۴ /۳۴)
اور اگر خالد بے صحبت کئے طلاق دے بھی دے جب بھی ہرگزشوہر اوّل کے لئے حلال نہیں ہو سکتی،
قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ لاتحلین لزوجک الاول حتی یذوق الاخر عسیلتک تذوقی عسیلتہ۲؎۔ ۔ حضور علیہ الصّلٰوۃ والسلام نے فرمایا اے عورت تو حلال نہیں پہلے شوہر کیلئے جب تک دوسرا خاوند تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھ لے(یعنی جماع نہ کرلو)۔(ت) ۔ (۲؎ صحیح بخاری باب لم تحرم مااحل ﷲ لک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۹۲)
جولوگوں نے دانستہ یہ نکاح کرادیا سب زنا کے دلال ہوئے اور زید ہندہ زانی زانی۔اور اُن سب کے لئے عذابِ شدید نارِجہنم کی وعیدہے، یُونہی وُہ جو اس سے نکاح پر راضی ہوئے، نکاح نہیں زنا پر راضی ہوئے۔
والرضابالحرام وقد یکون کفرا والعیاذ باﷲ تعالٰی۔
حرام فعل پر رضاحرام ہے اور کبھی یہ رضا کفر ہوتی ہے۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی۔(ت)
ان سب سے مسلمانوں کو میل جول منع ہے،
قال تعالٰی : وامّا ینسینک الشیطٰن فلاتقعد بعدالذکرٰی مع القوم الظٰلمین۱؎۔
خبردار شیطان تجھے بُھلا دیتا ہے یاد ہونے پرظالموں کے پاس مت بیٹھو۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
اُن سے میل جول کرنے والے اگر اُس نکاح پر راضی یا اُسے ہلکا جانتے ہیں تو اُن کےلئے بھی یہی حکم ہے۔
(۵) اگر اس نے زن وشو میں اصلاح اور اُن کی مشکل کشائی کی نیّت سے ترغیب دلائی تو اس پر الزام نہیں بلکہ باعثِ اجر ثواب ہے۔
(۶) جُھوٹی باتیں کہہ کر حق کو ناحق یا ناحق کو حق بنانا یہودیوں کی خصلت ہے۔
قال ﷲ تعالٰی ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون۲؎۔
ﷲ تعالٰی نے فرمایا: حق کو باطل سے خلط ملط نہ کرو اور دیدہ و دانستہ حق کو نہ چھپاؤ۔(ت)(۲؎ القرآن الکریم ۲ /۴۲)
رسمِ باطل کی پیروی کے لئے حلال وحرام کی پروانہ کرنا کافروں کی عادت ہے۔قالوا بل نتبع ماالفینا علیہ اٰبائنا۳؎(کفار نے کہا بلکہ ہم اپنے آباء واجداد کی پیروی کریں گے۔ت)(۳ القرآن الکریم ۲ /۱۷۰)
(۷) لڑکے اور لڑکی کو جب آثارِ بلوغ ظاہر ہوں مثلاً لڑکے کو احتلام ہو اور لڑکی کوحیض آئے اس وقت سے وُہ بالغ ہیں اور اگر آثار بلوغ ظاہر نہ ہوں تو پندرہ برس کی عمر پُوری ہونے سے بالغ سمجھے جائیں گے کما فی الدرالمختار وعامۃالاسفار(جیسا کہ درمختار اور عام کتب میں ہے۔ت) بالغ کواپنے نکاح میں ولی کی اصلاً ضرورت نہیں یُونہی بالغہ کو جبکہ نکاح کفو سے ہو یا غیرکفؤ سے ہوتواس کا کوئی ولی نہ ہو، ورنہ جب تک ولی قبل نکاح اس غیر کفؤ کو غیر کفؤجان کر صریح اجازت نہ دے گا بالغہ کا نکاح صحیح نہ ہوگا،
فی الدرالمختار ویفتی فی غیرالکفؤ بعدم جوازہ اصلالفساد لزمان۴؎ وﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختار میں ہے : زمانہ کے فساد کی بناء پر غیر کفؤ میں نکاح اصلاً جائز نہ ہونے پر فتوٰی دیاجائے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۴؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۹۱)
اور ایک بات یہ بھی قابلِ بیان رہی کہ وُہ جس نے استہزا کہا تھا چھوٹی کتاب میں جائز لکھا وُہ بھی سخت گنہگار ہوا توبہ فرض ہے مسئلہ شرعیہ استہزا کا محل نہیں۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔(چشتی)
مسئلہ ۱۸۷: از ضلع خاندیس پچھم بھاگ تعلقہ تلو دھا ڈاکخانہ لگر مندھا بسوستان کاٹھی مقام عکلکوا مرسلہ محمد اسمٰعیل صاحب ۱۲جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حلالے کے بارے میں ایک شخص نے نکاح کیا اور پہلی بی بی کاحق کُل نہیں ادا کیا، وہاں پر قاضی نہیں ہے، اپنے مکان کے لوگ آپ ہی قاضی آپ ہی وکیل آپ گواہ، جس شخص نے پہلے نکاح کیا اس نے خوشی سے طلاق دیا اور اس عورت نے خوشی سے طلاق لیا، بعد دس۱۰ روز اسی عورت اور وہی دھنی ایک جگہ رہنے لگے، اور اس شخص طلاق دے کر تین مہینے رکھا، پھر تین مہینے بعد حلالہ کیا، حلالہ کرنے والاجوشخص تھا اس کی بی بی نے رضا نہیں دی، رضالینے کے واسطے اپنی بی بی مارا، تو بی بی نے زبردستی سے رضا دی، اس کا حلالہ درست ہواکہ نہیں؟
(۲) ایک دوسرا آدمی ایک عورت کا لے کر بھاگ گیا، اس کی دو لڑکیا تھیں، دو۲ برس بغیر نکاح کے اس عورت کو رکھا، بعد دوبرس کے لڑکے ہوشیار ہوگئی، اس عورت کو چھوڑ کر بیٹی کو رکھنے لگا اس شخص کے حرام سے ایک لڑکی ایک لڑکا پیدا ہوئے، سو یہاں کے پنچوں نے جماعت سے باہر کردیا سوا س لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوا ہے، بعد بارہ۱۲ مہینے کے جماعت کے آدھے لوگ اس کو ہمراہ لے گئے اور وہی لوگ کہتے تھے اس کا منہ دیکھناروا نہیں ہے، اب وہی لوگ اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اس کے بارے میں مسئلہ کیا کہتا ہے، اور یہاں اسلام کی ٹھٹھول کرتے ہیں اورکسی کو یہ خیال نہیں ہے کہ ہم اسلام کی مشکری کریں گے تو ہمارے کیا حال ہوں گے، اس پر حضرت رسولِ خدا(صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کی شریعت کا کیا بیان ہے؟
الجواب : (۱) شریعت کا حکم یہ ہے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے یہ معنٰی ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تواسے تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور اگر حیض والی نہیں مثلاً نوبرس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزجائیں یا اگرحاملہ ہے تو بچّہ پیدا ہولے، اس وقت اس طلاق کی عدّت سے نکلے گی، اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہ صحیح کرے یعنی وہ شوہر ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لئے باعثِ بدنامی ہو، یا اگر ایسا کم ہے تو یہ عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے، یا یہ ہوکہ عورت بالغہ کاکئی ولی ہی نہ ہوتو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے،اور ولی نے اسے غیر کفوجانکر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی تو نکاح ہی نہو گا،یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے ہے اور اس کے نہ باپ ہے نہ دادا بھائی چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیر کفو سے اس کا نکاح کردیا جب بھی نکاح نہ ہوگا، غرض جب شوہر ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وُہ اس سے ہمبستری بھی کرلےاور اس کے بعد وُہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے، اور حمل رَہ جائے تو بچّہ پیداہونے کے بعد اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہوگی تو وہ نکاح نہ ہوگا زنا ہوگا، ہاں نکاح کے لئے چاہے وہ شوہر ثانی سے ہو یا پہلے سے قاضی یا وکیل یا برادری کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ مرد نکاح ثانی کرے تو پہلے بیوی سےاجازت لے، یہ سب باتیں بے اصل ہیں،فقط اس طریقہ کی ضرورت ہے جو ہم نے لکھا اس طرح پر اگر اصلاً نہ ہوا مثلاً دوسرے شوہرنے جب طلاق دی تو اس کے دس۱۰ ہی دن بعد بے عدّت گزرے پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح نہ ہوا نراحرام ہوا اُس صورت میں ضرور ہوگا کہ عورت کو اس سے جُدا کردیا جائے اور نہ مانے تو اسے برادری سے خارج کردیاجائے۔(چشتی)
(۲) اسی طرح وہ شخص جس نے عورت کو رکھا اب اُس کی بیٹی کو رکھتا ہے وہ اس پر ضرور حرام ہے اگر نکاح نہ کرے جب تو زنا ہے ہی، اور نکاح کرے جب بھی حرام ہے کہ وہ اس کی بیٹی ہوچکی، برادری والوں کو چاہئے کہ اگر وُہ مرد وعورت جُدا نہ ہوں تو اس کو برادری سے خارج کردیں، اُن سے سلام کلام نہ کریں، اُن کے پاس نہ بیٹھے اُنہیں اپنے پاس نہ بیٹھنے دیں، اور وہ لوگ جو پہلے اُن سےجُدا ہوگئے تھے اوراب مل گئے اور اُن کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں بیجا کرتے ہیں اُنہیں چاہئے اس سے بازرہیں،ﷲ تعالٰی فرماتا ہے : وامّا ینسینک الشیطان فلاتقعدبعد الذکری مع القوم الظلمین۱؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
شیطان تجھے بُھلادیتا ہے ، تو یا د آنے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھے۔واللہ تعالٰی اعلم(ت)(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
مسئلہ۱۸۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حلالہ مع شرط کے یعنی اس قصد سے کہ بعد چند روز کے طلاق دے دے تاکہ زوج سابق کے واسطے بعد عدّت گزرنے کے حلال ہوجائے جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب :شرائط اور چیز ہے اور قصد اور چیز۔ شرط تو یہ کہ عقد نکاح میں یہ شرط لگالے یہ ناجائز وگناہ ہے او رحدیث میں ایسے حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اور قصد یہ کہ دل میں اس کا ارادہ ہو مگر شرط نہ کی جائے تو یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر کی امید ہے۔
درمختار میں ہے : (کرہ) التزوج للثانی (تحریما) لحدیث لعن ﷲالمحلل والمحلل لہ(بشرط التحلیل) کتزوجتک علی ان احللک (امااذا اضمرا ذٰلک لا) یکرہ (وکان) الرجل (ماجورا) لقصد الاصلاح اھ ۲؎ مختصرا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں، اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا اھ مختصراً۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت) ۔ (۲؎ درمختار باب الرجعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴۱)
مسئلہ ۱۸۷: از ضلع خاندیس پچھم بھاگ تعلقہ تلو دھا ڈاکخانہ لگر مندھا بسوستان کاٹھی مقام عکلکوا مرسلہ محمد اسمٰعیل صاحب ۱۲جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حلالے کے بارے میں ایک شخص نے نکاح کیا اور پہلی بی بی کاحق کُل نہیں ادا کیا، وہاں پر قاضی نہیں ہے، اپنے مکان کے لوگ آپ ہی قاضی آپ ہی وکیل آپ گواہ، جس شخص نے پہلے نکاح کیا اس نے خوشی سے طلاق دیا اور اس عورت نے خوشی سے طلاق لیا، بعد دس۱۰ روز اسی عورت اور وہی دھنی ایک جگہ رہنے لگے، اور اس شخص طلاق دے کر تین مہینے رکھا، پھر تین مہینے بعد حلالہ کیا، حلالہ کرنے والاجوشخص تھا اس کی بی بی نے رضا نہیں دی، رضالینے کے واسطے اپنی بی بی مارا، تو بی بی نے زبردستی سے رضا دی، اس کا حلالہ درست ہواکہ نہیں؟
(۲) ایک دوسرا آدمی ایک عورت کا لے کر بھاگ گیا، اس کی دو لڑکیا تھیں، دو۲ برس بغیر نکاح کے اس عورت کو رکھا، بعد دوبرس کے لڑکے ہوشیار ہوگئی، اس عورت کو چھوڑ کر بیٹی کو رکھنے لگا اس شخص کے حرام سے ایک لڑکی ایک لڑکا پیدا ہوئے، سو یہاں کے پنچوں نے جماعت سے باہر کردیا سوا س لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوا ہے، بعد بارہ۱۲ مہینے کے جماعت کے آدھے لوگ اس کو ہمراہ لے گئے اور وہی لوگ کہتے تھے اس کا منہ دیکھناروا نہیں ہے، اب وہی لوگ اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اس کے بارے میں مسئلہ کیا کہتا ہے، اور یہاں اسلام کی ٹھٹھول کرتے ہیں اورکسی کو یہ خیال نہیں ہے کہ ہم اسلام کی مشکری کریں گے تو ہمارے کیا حال ہوں گے، اس پر حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کی شریعت کا کیا بیان ہے؟
الجواب :(۱) شریعت کا حکم یہ ہے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے یہ معنٰی ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تواسے تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور اگر حیض والی نہیں مثلاً نوبرس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزجائیں یا اگرحاملہ ہے تو بچّہ پیدا ہولے، اس وقت اس طلاق کی عدّت سے نکلے گی، اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہ صحیح کرے یعنی وہ شوہر ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لئے باعثِ بدنامی ہو، یا اگر ایسا کم ہے تو یہ عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے، یا یہ ہوکہ عورت بالغہ کاکئی ولی ہی نہ ہوتو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے،اور ولی نے اسے غیر کفوجانکر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی تو نکاح ہی نہو گا،یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے ہے اور اس کے نہ باپ ہے نہ دادا بھائی چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیر کفو سے اس کا نکاح کردیا جب بھی نکاح نہ ہوگا، غرض جب شوہر ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وُہ اس سے ہمبستری بھی کرلےاور اس کے بعد وُہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے، اور حمل رَہ جائے تو بچّہ پیداہونے کے بعد اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہوگی تو وہ نکاح نہ ہوگا زنا ہوگا، ہاں نکاح کے لئے چاہے وہ شوہر ثانی سے ہو یا پہلے سے قاضی یا وکیل یا برادری کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ مرد نکاح ثانی کرے تو پہلے بیوی سےاجازت لے، یہ سب باتیں بے اصل ہیں،فقط اس طریقہ کی ضرورت ہے جو ہم نے لکھا اس طرح پر اگر اصلاً نہ ہوا مثلاً دوسرے شوہرنے جب طلاق دی تو اس کے دس۱۰ ہی دن بعد بے عدّت گزرے پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح نہ ہوا نراحرام ہوا اُس صورت میں ضرور ہوگا کہ عورت کو اس سے جُدا کردیا جائے اور نہ مانے تو اسے برادری سے خارج کردیاجائے۔
(۲) اسی طرح وہ شخص جس نے عورت کو رکھا اب اُس کی بیٹی کو رکھتا ہے وہ اس پر ضرور حرام ہے اگر نکاح نہ کرے جب تو زنا ہے ہی، اور نکاح کرے جب بھی حرام ہے کہ وہ اس کی بیٹی ہوچکی، برادری والوں کو چاہئے کہ اگر وُہ مرد وعورت جُدا نہ ہوں تو اس کو برادری سے خارج کردیں، اُن سے سلام کلام نہ کریں، اُن کے پاس نہ بیٹھے اُنہیں اپنے پاس نہ بیٹھنے دیں، اور وہ لوگ جو پہلے اُن سےجُدا ہوگئے تھے اوراب مل گئے اور اُن کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں بیجا کرتے ہیں اُنہیں چاہئے اس سے بازرہیں،اللہ تعالٰی فرماتا ہے : وامّا ینسینک الشیطان فلاتقعدبعد الذکری مع القوم الظلمین۱؎۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
شیطان تجھے بُھلادیتا ہے، تو یا د آنے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھے۔واللہ تعالٰی اعلم(ت) ۔ (۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
مسئلہ۱۸۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حلالہ مع شرط کے یعنی اس قصد سے کہ بعد چند روز کے طلاق دے دے تاکہ زوج سابق کے واسطے بعد عدّت گزرنے کے حلال ہوجائے جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب : شرائط اور چیز ہے اور قصد اور چیز۔ شرط تو یہ کہ عقد نکاح میں یہ شرط لگالے یہ ناجائز وگناہ ہے او رحدیث میں ایسے حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اور قصد یہ کہ دل میں اس کا ارادہ ہو مگر شرط نہ کی جائے تو یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر کی امید ہے۔
درمختار میں ہے : (کرہ) التزوج للثانی(تحریما) لحدیث لعن اللہ المحلل والمحلل لہ(بشرط التحلیل)کتزوجتک علی ان احللک (امااذا اضمرا ذٰلک لا) یکرہ (وکان) الرجل (ماجورا) لقصد الاصلاح اھ ۲؎ مختصرا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں، اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا اھ مختصراً۔ واللہ تعالٰی اعلم(ت) ۔ (۲؎ درمختار باب الرجعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴۱)
مسئلہ ۱۸۹: ازکانپور بیگم گنج طلاق محل مرسلہ احمدعلی خاں وکیل ۱۲ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک وقت حالتِ غصّہ میں مجبور ہوکر ہندہ زوجہ کو تین بار طلاق دی، نزدیک امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مغلظ ہوگئی اور نزدیک امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک رہی، تو ایسی حالت میں جو پیر وامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے رجوع کرسکتا ہے یانہیں؟ حالاتِ مقدمی یہ ہیں کہ زید کو ہندہ کے ساتھ محبت قلبی ہے اس نے قصداً چھوڑا دینے کی نیّت سے طلاق نہیں دی اور نہ ہندہ اپنے عدول حکم پر سمجھ سکتی ہے کہ مجھ پر طلاق ہوگی کیونکہ بجائے خود نادم تھی، مگر ہندہ کی بہن جو دشمن ہندہ کی ہے چند الفاظ دلانے والے جو طلاق دینے پر مبنی تھے ایسے کہ جس سے زید کو مجبوراً غیظ آگیا اور دفعۃً تین بار طلاق دے کر ہندہ کے مکان سے اُٹھ آیا، اب زید وہندہ وسخت صدمہ ہے اور دو۲ لڑکے یعنی ایک پسر بعمر۹ سال ایک دختر بعمر۵سال جو ہندہ کے پاس ہیں اور ہندہ محتاج ہے پرورش بدقت کرسکتی ہ اور نیز بلاتعلیم رہنے کا خیال قوی ہے اور زید کو ایسا رنج ہے کہ نوبت بجان ہے برنظر حالات رجوع کرسکتا ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب : ایک بار تین طلاق دینے سے نہ صرف نزد حنفیہ بلکہ اجماعِ مذاہب ِ اربع تین طلاقیں مغلظہ ہوجاتی ہیں، امام شافعی، امام مالک ، امام احمد رضی ﷲ تعالٰی عنہم ائمہ متبوعین سے کوئی امام اس باب میں اصلاً ہوا اور عورت اس کے نکاح سے ایسی خارج ہوئی کہ اب بے حلالہ ہرگز اس کے نکاح میں نہیں آسکتی، اگر یُونہی رجوع کرلی بلاحلالہ نکاحِ جدید باہم کرلیا تو دونوں مبتلائے حرامکاری ہوں گے اور عمر بھر حرام کاری کریں گے۔ ﷲ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے : ومن یتق ﷲ یجعل لہ مخرجاً۱؎ ۔ جو ﷲ تعالٰی سے ڈرتا ہے اللہ تعالٰی اس کیلئے راستہ بنادیتا ہے۔(ت) ۔ (۱؎ القرآن الکریم ۶۵/۲)
اس نے تقوٰی نہ کیابلکہ خلافِ خدا ورسول تین طلاقیں لگاتار دینے کامرتکب ہوا ﷲ عزوجل نے اس کے لئے مخرج نہ رکھا اب حلالہ کے سخت تازیانے سے اسے ہرگز مفر نہیں یہاں تک کہ ائمہئ دین نے فرمایا کہ اگرقاضی شرح حاکمِ اسلام ایسے مسئلہ میں ایک طلاق پڑنے کا حکم دے تو وُہ حکم باطل ومردود ہے۔ وہابیہ غیر مقلدین اب اس مسئلہ میں خلاف اٹھا رہے ہیں وہ گمراہ دین ہیں، ان کی تقلید حلال نہیں ،
فتح القدیر میں ہے: ذھب جمھور الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع ثلث، وفی سُنن ابی داؤد عن مجاہد قال کنت عند عباس رضی ﷲ تعالٰی عنھما فجاء رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلثا قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ایطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس فان ﷲ عزّوجل قال ومن یتق ﷲ یجعل لہ مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک،ثم ذکر ادلتہ بروایۃ لامؤطاعن ابن عباس وابی ہریرۃ معاومثلہ عن ابن عمرقال وروی ایضاعن عبد ﷲ بن عمروبنن العاص واسند عبدالزاق عن علقمۃ عن ابن مسعود و وکیع عن امیرالمؤمنین علی وامیر المومنین عثمان بن عفان وقد قدمہ عن امیرالمومنین عمرو اوردہ بروایۃ ابن ابی شیبۃ والدار قطنی عن ابن عمر عن البنی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم وذکرہ فی اٰخر الکلام بروایۃ عبدالرزاق فی مصنفہ عن عبادۃ بن الصامت عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورضی ﷲ تعالٰی عنھم اجمعین الی ان قال، قداثبتنا النقل عن اکثرھم صریحا بایقاع الثلث ولم یظھر لھم مخالف فما ذابعد الحق الاالضلال وعن ھذاقلنا لم یحکم حاکم بان الثلث بفم واحد واحدۃ لم ینفذ حکمہ لانہ لایسوغ الاجتھادفیہ فھو خلاف لااختلاف۱؎ (ملخصاً) واللہ تعالٰی اعلم۔
جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے مسلمانوں کے ائمہ کرام کا مسلک ہے بیک لفظ تین طلاقیں تین ہوں گی ۔ امام مجاہد سے سُنن ابو داؤد میں مروی ہے کہ میں حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے پاس موجود تھا تو ایک شخص آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، مجاہد کہتے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہ کچھ دیر خاموش رہے تو میں نے خیال کیا کہ شاید ان عباس سائل کو بیوی واپس کردیں گے، تو کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا تم میں سے بعض لوگ بیوی کو طلاق دیتے ہوئے حماقت سے کام لیتے ہیں اور پھر اے ابن عباس اے ابن عباس کہتے ہیں، تو یاد رکھو اللہ تعالٰی نے فرمایا: جو شخص ﷲ تعالٰی سے ڈرتا ہے تو ﷲ تعالٰی اس کے لئے کوئی سبیل پیدا فرمادیتاہے، جبکہ تو نے ﷲ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تیری بیوی تجھ سے لاتعلق ہوچکی ہے ۔ اس کے بعد فتح القدیر نے اس پر دلائل ذکر کئے ۔ مؤطا کے حوالہ سے ابن عباس اور ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی روایت ذکرکیں جیسا کہ ابوداؤد نے ابن عباس اورابوہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے اکھٹی روایت کی، اس طرح کی روایت ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے ذکر کی، اور کہا کہ عبد ﷲ بن عمر بن العاص رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے بھی مروی ہے ، اور انہوں نے کہا کہ عبدالرزاق نے علقمہ عن ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ ، اور وکیع عن امیرالمومنین عمر فاروق عثمان بن عفان رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے سند ذکر کی ، اور قبل ازیں فتح القدیر نے امیرالمومنین عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے روایت ذکر کی اور انہوں نے ابن ابی شیبہ اور دار قطنی کی روایت بھی ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے ذریعہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بیان کی۔ اور اسی کو انہوں نے کلام کے آخر میں یُوں ذکر کیا کہ عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں عبادہ بن الصامت کے واسطہ سے حضور علیہ الصّلٰوۃ والسلام سے روایت کیا، یہاں تک کہا کہ ہم نے اکثر حضرات سے تین طلاقوں کا نافذ ہونا صراحتاً ثابت کیا اور ان حضرات کوئی بھی مخالف ظاہر نہ ہوا، تو اس حق کے بعد گمراہی کے سواکیا ہوسکتا، اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی حاکم نے بیک زبان تین طلاقوں کے ایک طلاق کا حکم دیاتو اس کاحکم نافذ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے اور یہ حق کے خلاف ہوگا اس کو اختلاف نہ کہا جائے گا ۔ و ﷲ تعالٰی اعلم(ت)(فتح القدیر باب طلاق السنۃ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۳۳۰)
مسئلہ تین طلاق قرآن و حدیث اور کتبِ فقہ کی روشنی
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۖ فَاِمۡسَاكٌ ۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌ ۢ بِاِحۡسَانٍ ؕوَلَا يَحِلُّ لَـکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّآ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ شَيۡــئًا اِلَّاۤ اَنۡ يَّخَافَآ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِهٖؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَعۡتَدُوۡهَا ۚ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 229)
ترجمہ : یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی (اچھے سلوک) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہو گی تو رجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا ، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(تفسیر البحر المحیط جلد ۲ صفحہ ۲۰۲)
اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پر رجوع کا حق نہیں ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے ۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہو جائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کر کے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہو گی ۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کر سکے ۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کر کے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہو جاتی ہے ۔ شریعت نے طلاق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھلائی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے ۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے ، طلاق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے آمین ۔
فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 230)
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے ، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کےلیے ۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ دو طلاقوں کے بعد بھی خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو ان طلاقوں سے رجوع کرلے اور چاہے تو رجوع نہ کرے لیکن : فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 230)
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔
اس آیت سے پہلے ” الطلاق مرتان“ کا ذکر ہے یعنی طلاق رجعی دو مرتبہ دی جاسکتی ہے ‘ اس کے بعد ” فان طلقھا “ فرمایا : اس کے شروع میں حرف ” فا “ ہے جو تعقیب بلامہلت کے لیے آتا ہے اور اب قواعد عربیہ کے اعتبار سے معنی یہ ہوا کہ دو رجعی طلاقیں دینے کے بعد خاوند نے اگر فورا تیسری طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد کے ساتھ نکاح نہ کرے ‘ اس آیت میں اگر حرف ” ثم “ یا اس قسم کا کوئی اور حرف ہوتا جو مہلت اور تاخیر پر لالت کرتا تو علی التعیین یہ کہا جا سکتا تھا کہ ایک طہر میں ایک طلاق اور دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دی جائے گی ‘ لیکن قرآن مجید میں ” ثم “ کی بجائے ‘ ” فا “ کا ذکر کیا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند نے دو طلاقیں دینے کے بعد فوراً تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس کےلیے حلال نہیں رہے گی ۔
قرآن مجید نے ” الطلاق مرتان “ فرمایا ہے یعنی دو مرتبہ طلاق دی جائے اور دو مرتبہ طلاق دینا اس سے عام ہے کہ ایک مجلس میں دو مرتبہ طلاق دی جائے یا دو طہروں میں دو مرتبہ طلاق دی جائے اور اس کے بعد فورا اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اس سے واضح ہوگیا کہ اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا : میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی ۔ غیرمقلدوں کے مشہور ‘ مستند اور ان کے بہت بڑے عالم علامہ ابن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں : یہ آیت بیک وقت دی گئی تین طلاقوں اور الگ الگ دی گئی طلاقوں دونوں پر صادق آتی ہے اور اس آیت کو بغیر کسی نص کے طلاق کی بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ۔ (المحلی جلد ١٠ صفحہ ١٧‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المینریہ ١٣٥٢ ھ،چشتی)
قرآن مجید کی اس آیت سے بھی جمہور فقہاء اسلام کا استدلال ہے : اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تتعدونھا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر ٤٩)
ترجمہ : جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر ان کو مقاربت سے پہلے طلاق دے دو ‘ تو ان پر تمہارے لیے کوئی عدت نہیں جس کو تم گنو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا ذکر فرمایا ہے اور طلاق دینے کو اس سے عام رکھا ہے کہ بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں یا الگ الگ طلاقیں دی جائیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مطلق اور عام رکھا ہو اس کو اخبار آحاد اور احادیث صحیحہ سے بھی مقید اور خاص نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ ما و شما کی غیر معصوم آراء اور غیر مستند اقوال سے اس کو مقید کیا جا سکے ۔
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماعِ امت
قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ : وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا ۔ (کتاب الاجماع لابن المنذر صفحہ 92،چشتی)
ترجمہ : امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا : فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کےلیے حلال نہیں رہتی ۔ ہاں ! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تو اب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا : فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا ،،اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً،، (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی ۔
تین طلاق تین ہی شمار ہونگی صحیح بخاری شریف سے ثبوت
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (صحیح البخاری جلد 2 صفحہ791 باب من اجاز اطلاق الثلاث،چشتی)(سنن ابی داود جلد 1صفحہ 324 باب فی اللعان)
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں ۔ (سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو نافذ کر دیا ۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 791 باب من اجاز طلاق الثلاث،چشتی)
ترجمہ : ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، اُس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور (ہمبستری سے پہلے) اسے طلاق دے دی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کےلیے حلال ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ! جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہو جائے) جیسا کہ پہلا خاوند ہوا ۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ…فَخَاطَبَ عُمَرُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْعَلِمُوْامَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِرٌوَلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ فَکَاَنَّ ذٰلِکَ اَکْبَرُ الْحُجَّۃِ فِیْ نَسْخٍ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ لِاَنَّہُ لَمَّاکَانَ فِعْلُ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمِیْعاً فِعْلاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ کَانَ کَذٰلِکَ اَیْضاً اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الْقَوْلِ اِجْمَاعاً یَجِبُ بِہِ الْحُجَّۃُ ۔ (سنن الطحاوی جلد 2صفحہ 34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا ، ونحوہ فی مسلم جلد 1 صفحہ 477 )
ترجمہ : محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور تینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ) جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا ۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا ، منسوخ ہے ۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیسا کہ اس مسئلہ طلاق میں ہے) ۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔ (تفسیر مظہری جلد 2 صفحہ 300)
ترجمہ : مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا ’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘ (تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہو جائیں گی ۔
واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین و تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۹)
اور اگلی آیت میں ہے : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۰)
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے ، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا : واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف ۔۔۔ المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات ۔ (الجامع لاحکام القرآن جلد ۳ صفحہ ۱۲۹)
اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے : قال ابوبکر : قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة : یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا ۔ (احکام القرآن جلد ۱ صفحہ ۴۶۷)
اسی طرح حدیث میں ہے : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ ، فَطَلَّقَ ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ ۔
ترجمہ : محمد بن بشار ، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ : ایک شخص نے اپنی بیوی کو "تین طلاق" دیدیں تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا پھر اس نے (صحبت کیے بغیر) بھی طلاق دے دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کےلیے حلال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الطَّلَاقِ بَاب مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ رقم الحديث : 4885 (5261))
اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعةً دی گئیں ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہو جانے پر استدلال ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں : وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً ۔ (فتح الباری جلد ۹ صفحہ ۳۶۲ ط ادارة بحوث العلمیة)
بہت سے احباب مسئلہ تین طلاق کے بارے میں حکم فرمایا ہے کہ غیر مقلدین وہابی حضرات ایک سانس میں دی گئی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی بہت عرصہ پہلے اس موضوع پر لکھ چکا ہے مگر احباب کے مسلسل اسرار پر اس مسئلہ کو دوبارہ نئی ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اہلِ علم کہیں غلطی پائیں تو اس ناکارہ کو آگاہ ضرور فرمائیں تاکہ اصلاح کی جا سکے شکریہ ۔ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ ہر طہر میں(یعنی جب عورت مخصوص ایام سے فارغ ہو جائے) تو اس وقت ایک طہر میں ایک طلاق دے جبکہ تین طلاق اکٹھے دینا سنت کے مخالف ہے ، لہٰذا شوہر گناہ کا مرتکب ہوا اور اس پراس کو توبہ کرنا واجب ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مذہب حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی چاروں ائمہ کے نزدیک ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں ، چاہے ایک جملہ میں تین طلاق کا لفظ کہا مثلاً میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں یا الگ الگ جملوں میں کہا مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ، طلاق دی ، طلاق دی ، یا ایک مجلس یا دن میں تین طلاق دی بہر صورت تمام طلاقیں واقع ہوجائیں گی ۔ جیسا کہ ناصر السنہ محی الدین العلامہ ابو زکریا یحی بن شرف النووی نے شرح النووی میں فرمایا : قال لامرأتہ انت طالق ثلاثاً فقال الشافعی ومالک وابو حنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء من السلف والخلف یقع ثلاثاً ۔
جس شخص نے اپنی بیوی کو کہا تجھے تین طلاقیں ہیں تو اس کے متعلق امام شافعی، امام مالک، امام اعظم ابو حنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف وخلف نے تین طلاق کے واقع ہونے کا فتوی صادر فرمایا۔[شرح النووی علی المسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث: 1/478، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ،کراچی،چشتی)
محقق علی الاطلاق علامہ کمال الدین ابن ہمام نے فرمایا: ذھب جمھورالصحابۃ والتابعین ومن بعدھم من ائمۃ المسلمین الی ان یقع ثلاثاً‘‘۔
ترجمہ: جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے مسلمانوں کے ائمہ کرام کا مسلک ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں واقع ہوں گی۔[فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/469، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان]۔
عمد ۃالقاری شرح صحیح بخاری میں ہے ’’ مذہب جماھیر العلماء من التابعین ومن بعد ھم منھم الاوزاعی والنخعی والثوری ابو حنیفہ واصحابہ ومالک واصحابہ والشافعی واصحابہ واحمد واصحابہ واسحاق وابو ثوروابو عبید وآخرون کثیرون علی ان من طلق امراتہ ثلاثا وقعن ولکنہ یاثم وقالوا من خالف فیہ فھو شاذمخالف لاھل السنۃ وانما تعلق بہ اھل البدع ‘‘
ترجمہ:’’ جمہور علماء کرام تابعین میں سے اور جو ان کے بعد والے ہیں ان میں امام اوزاعی اور علامہ نخعی اور علامہ ثوری اور امام ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب اور امام مالک اور اس کے اصحاب اور امام شافعی اور اس کے اصحاب اور امام احمد اور ان کے اصحاب اور علامہ اسحاق اور علامہ ابو ثور اور علامہ ابو عبید اور بہت سے متاخرین کا مذہب یہ ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو واقع ہو جائیں گی لیکن اس سے گناہ گار ہو گا اور علماء نے فرمایا جو اس کے خلاف مذہب رکھتا ہو شاذاور اہل سنت کا مخالف ہے اور اس کا تعلق اہل بدعت سے ہے ‘‘۔[ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث: 20/233، دار احیاء التراث العربی، بیروت،چشتی)
’’اذاقال لامرأتہ’’ انت طالق وطالق وطالق‘‘ ولم یعلقہ بالشرط، ان کانت مدخولۃ طلقت ثلثا‘‘
ترجمہ:’’جب مرد نے اپنی بیوی کو کہا ’’تجھے طلاق ہے اور طلاق ہے اورطلاق ہے‘‘ اور طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہ کیا،اگر بیوی مدخولہ ہے تو اس پر تین طلاق واقع ہوگئیں ‘‘۔[ فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب الثانی، الفصل الاول: 1/355، مطبوعہ: دار الفکر، بیروت]۔
اسی طرح تقریباً چاروں مذاہب کی فقہی کتب میں یہ بات موجود ہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے سے تین ہی ہوتی ہیں، مثلاً فقہ حنفی کی کتب میں رد المحتار، الدر المختار، تبیین الحقائق، النھر الفائق، بدائع الصنائع، فتح القدیر، الجوہرۃ النیرۃ، شرح الوقایۃ، الہدایۃ، البنایۃ، حاشیۃ الطحطاوی وغیرہم میں تین طلاق کو تین ہی شمار کیا اورنافذ کیا ہے ۔
تین طلاقیں تین ہونے پر قرآن پاک سے دلیل:
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اولاً دو طلاق کا ذکر کرکے فرمایا کہ اب بھی خاوندکو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ، اور تیسری طلاق کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اب ان کے درمیان حرمت مغلظہ قائم ہوچکی ہے لہذا بغیر حلالہ شرعیہ کے واپسی ناممکن ہے ۔
سورہ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے ’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ‘‘[البقرۃ :آیت ۲۲۹] ۔
ترجمہ کنز الایمان :’’یہ طلاق دو بارتک ہی ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے‘‘۔ پھر اسکے بعد مزید فرمایا:
’’فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
ترجمہ کنز الایمان:’’ پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔ ‘‘۔[البقرۃ ،آیت:۲۳۰]۔
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالی نے مطلقاً تین طلاق کا حکم بیان فرمایا اور اس کو ایک مجلس یا متعدد مجلس کے ساتھ مقید نہیں کیا یعنی تین طلاقیں ایک مجلس میں دے یا ایک ایک سال کے وقفے سے دے بہرصورت تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
جیسا کہ غیر مقلد اہلحدیث کے امام ابن حزم ظاہری نے اپنی کتاب میں لکھا : فھذا یقع علی الثلاث مجموعۃ ومفرقۃ، ولا یجوز ان یخص بھذہ الآیۃ بعض ذلک دون بعض بغیر نص ۔ ترجمہ: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ تین طلاق اکٹھی دی جائیں یا الگ الگ بہر حال طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اور اس آیت کو بغیر دلیل کے بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں ہے ۔[ المحلی بالآثار: 3/394، مطبوعہ: دار الفکر بیروت، لبنان]
تین طلاق تین ہونے پر احادیثِ مبارکہ سے دلائل
امام نسائی نے محمود بن لبید سے روایت کیا:عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عن رجل طلق امراتہ ثلث تطلیقات جمیعا فقام غضبان ثم قال ایلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظہر کم حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ الااقتلہ ۔
ترجمہ : حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک شخص کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غضب ناک حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’میرے سامنے کتاب اللہ کو کھیل بنایا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ،میں اس کو قتل نہ کردوں‘‘۔[ سنن النسائی، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 3401): 6/142، مطبوعہ: مکتب المطبوعات الاسلامیۃ، حلب،چشتی)
اگرتین طلاقوں سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اتنا سخت اظہار ناراضگی کیوں فرمایا؟ یہاں تک کہ ایک صحابی نے اس شخص کے اس جرم کی وجہ سے اسکو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔
امام المحدثین ابو عبد اللہ امام بخاری کے استادِ محترم عظیم محدث امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں روایت کیا: عَنْ دَاوُدَ بْنِ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّی امْرَاَۃً لَہُ اَلْفَ تَطْلِیقَۃٍ، فَانْطَلَقَ اَبِی اِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرَ ذَلِکَ لَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اما اتَّقَی اللَّہَ جَدَُّک، اَمَّا ثَلَاثٌ فَلَہُ، وَاَمَّا تِسْعُ مِاءَۃٍ وَسَبْعَۃٌ وَتِسْعُونَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ، اِنْ شَاءَ اللَّہُ تَعَالَی عَذَّبَہُ، وَاِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ ۔
ترجمہ : داود کہتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھیں تو میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں سارا معاملہ عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: کیا تیرا دادا اللہ سے نہیں ڈرتا؟ تین طلاق کا ان کو حق تھا ( وہ واقع ہوگئیں) اور نو سو ستانوے طلاق انکی طرف سے ظلم وزیادتی ہے ، اللہ تعالی کی مرضی چاہے تو اسے عذاب دے یاچاہے تو اسے بخش دے ۔ [مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، حدیث نمبر 11339 جلد 6 صفحہ 393 مطبوعہ المکتب الاسلامی، بیروت،چشتی)
صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے : عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ:’’قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ: حَدِّثِینِی عَنْ طَلَاقِکِ، قَالَتْ: طَلَّقَنِی زَوْجِی ثَلَاثًا، وَھُوَ خَارِجٌ اِلَی الْیَمَنِ، فاَجَازَ ذَلِکَ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ مجھے اپنی طلاق کا واقعہ بیان کیجئے ، انہوں نے جواب دیا مجھے میرے شوہرنے یمن جاتے وقت تین طلاقیں دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ تینوں طلاقیں نافذ فرما دیں۔ [سنن ابن ماجہ ، کتاب الطلاق، باب من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد، حدیث نمبر( 2024): 1/652، مطبوعہ:احیاء الکتب العربیۃ، بیروت،چشتی)
حدیث میں یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک مجلس میں دی گئیں تھیں جبھی تو حضرت فاطمہ نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ طلاقیں نافذ فرمادیں۔ اگر الگ الگ مجلس میں تین طلاقیں واقع ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ان طلاقوں کو نافذ کرنے کا کیا معنی ہے ؟ اسی لئے امام ابن ماجہ نے اس حدیث کیلئے جو باب باندھا وہ من طلق ثلاثاً فی مجلس واحد ہے یعنی جو ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ۔
امام المحدثین ابو عبد اللہ بخاری اپنی صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا واقعہ لعان ذکر کرنے کے بعد نقل فرماتے ہیں: فلما فرغا قال عویمر کذبت علیھا یارسول اللہ ان ا مسکتھا فطلقھا ثلاثاً ۔
ترجمہ : جب دونوں میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے تو حضرت عویمر نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اگر میں اسکو روکے رکھوں تو یہ میرا اسٍپر جھوٹ ہوگا ۔ چنانچہ حضرت عویمر نے (اسی وقت ) تین طلاقیں دے دیں۔[ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث نمبر5308: 7/53، دار طوق النجاۃ، بیروت]
اسی واقعہ کے بارے میں سنن ابی داود میں یہ الفاظ منقول ہیں: فَطَلَّقَھَا ثَلَاثَ تَطْلِیقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَاَنْفَذَہُ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّم ۔
ترجمہ : حضرت عویمر عجلانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے روبرو تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرما دیا ۔ [ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث نمبر( 2250): 2/274، المکتبۃ العصریۃ، بیروت،چشتی)
امام دار الہجرت عظیم مجتہد ومحدث امام مالک نے حدیث کی عظیم الشان کتاب موطا امام مالک میں مفسر شہیر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا : اَنَّ رَجُلاً قَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ: اِنِّی طَلَّقْتُ امْرَاَتِی مِاءَۃَ تَطْلِیقَۃٍ، فَمَاذَا تَری عَلَیَّ؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ: طَلُقَتْ مِنْکَ لِثَلاَثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ آیَاتِ اللہِ ھُزُواً ۔
ترجمہ : ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : تیری عورت کو تیری طرف سے تین طلاقیں واقع ہو گئیں اور باقی ستانوے کی وجہ سے تونے اللہ تعالی کی آیات کو مذاق بنا لیا۔[مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 2021): 4/789، مطبوعہ: مؤسسہ زاید بن سلطان، ابو ظہبی،چشتی)
غیرمقلدین وہابیہ کے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور دلائل کا جواب
غیر مقلدین نے جن روایتوں کو اپنے لئے حجت بنایا ہے ان میں سے ایک صحیح مسلم کی روایت ہے اور دوسری مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے ۔
غیر مقلدین وہابیہ کی پہلی دلیل : مسلم والی روایت یہ ہے : ’’عن طاؤس عن ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَھْدِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللیُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، وَاَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: اِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِی اَمْرٍ قَدْ کَانَتْ لَھُمْ فِیہِ اَنَاۃٌ، فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ عَلَیْھِمْ، فَاَمْضَاہُ عَلَیْھِمْ ۔
ترجمہ : طاؤس حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتاتھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: جس کام میں لوگوں کیلئے مہلت تھی اس میں لوگوں نے جلدی کرنا شروع کردی ہے پس اگر ہم تین طلاق نافذ کردیں تو بہتر ہوگا پھر آپ نے تین طلاق کے نافذ ہونے کا حکم دے دیا۔[ صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب الطلاق الثلاث، حدیث نمبر( 1472): 3/1099، مطبوعہ: دار احیاء التراث، بیروت،چشتی)
غیر مقلدین کا مسلم کی حدیث سے استدلال کرنا سات وجوہ سے باطل ہے۔
(1) طاؤس کویہ روایت بیان کرنے میں مغالطہ اور وہم ہوا ہے ۔
امام ماردینی نے صاحب استذکار کے حوالے سے فرمایا: ان ھذہ الروایۃ وھم وغلط لم یعرج علیھا احد من العلماء‘‘
ترجمہ: یہ روایت وہم اور غلط ہے ، علماء میں سے کسی نے اسکو قبول نہیں کیا۔[ الجوہر النقی: 7/337، مطبوعہ: دار الفکر، بیروت، لبنان]۔
(2) سید المحدثین امام بخاری کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں تھی جبھی آپ نے دانستہ طور پر اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل نہیں فرمایا۔
امام بیہقی نے فرمایا: وھذا الحدیث احد ما اختلف فیہ البخاری ومسلم فاخرجہ مسلم، وترکہ البخاری واظنہ انما ترکہ لمخالفتہ سائر الروایات عن ابن عباس‘‘
ترجمہ : یہ روایت ان میں سے ایک ہے جس میں امام بخاری اور امام مسلم کا باہم اختلاف ہے ، امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں درج کیا لیکن امام بخاری(جو کہ امام مسلم کے استاد بھی ہیں اور انکی حیثیت امام مسلم سے بر تر ہے ) نے اس روایت کو اپنی صحیح میں درج نہ کیا کیونکہ یہ روایت تین طلاقوں کے بارے میں حضر ت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی دیگر تمام روایات کے مخالف ہے ۔[ السنن الکبری، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 14974): 7/551، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،چشتی)
(3) یہ روایت خود حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے فتوی کے خلاف ہے ۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ایک روایت نقل کریں اور فتوی اسکے خلاف دیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا فتوی مؤطا امام مالک کے حوالے سے گزر چکا۔ کوئی صحابی جان بوجھ کر حدیث کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا اسی لئے اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں۔ اگر مسلم کی اس حدیث کو درست مانا جائے تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی عدالت پر حرف آتا ہے اور یہ بات اہل سنت کو ہرگز گوارانہیں۔ شیعوں کی طرح غیر مقلدین حضرات کے نزدیک شاید تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم عادل نہیں ہیں اس لئے ان کے نزدیک صحابہ کرام حضور کی صریح حدیث کے برخلاف فتوے دے سکتے ہیں ۔
(4) اس روایت میں خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر شدید تبراء ہے ۔
اس روایت میں یہ ذکر کیا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابوبکر صدیق کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی طرف سے حکم شریعت میں تبدیلی کردی۔شیعوں اور غیر مقلدین میں کیا فرق رہ گیا ؟ وہ بھی شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلافت کے حق کو غصب کرکے حکم شریعت میں تبدیلی کردی۔ غیر مقلدین بھی اس حدیث سے استدلال کرکے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر تبراء کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
(5) اس روایت کو درست ماننے سے تمام صحابہ کی عدالت پر حرف آتا ہے ۔
اس روایت کو اگر درست مانا جائے تو اس سے یہ لازم آئیگا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بر خلاف ایک حکم شریعت میں اپنی طرف سے تبدیلی واقع کردی اور تمام صحابہ کرام نے اس فعل میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ساتھ دیا اور کسی ایک نے بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی تو جو افراد حکم شریعت کی مخالفت جان بوجھ کریں اور اسکی تائید وحمایت کریں تو ان کو عادل کیسے کہا جا سکتا ہے ۔لہذا فرض ہے کہ تمام صحابہ میں نقص ماننے کے بجائے ایسی روایت کو ہی باطل قرار دیا جائے ۔
(6) طاؤس کی روایت شاذ ہے ۔ یہ روایت شاذ بھی ہے ، جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں لکھا: معارضتہ بفتوی ابن عباس بوقوع الثلاث، فلا یظن بابن عباس انہ کان عندہ ھذاالحکم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یفتی بخلافہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہ مذھب شاذ‘‘
ترجمہ : طاؤس کی روایت حضرت ابن عباس کے تین طلاق کے وقوع والے فتوے کے خلاف ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ متصور نہیں کہ وہ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ایک چیز روایت کریں اور فتوی اس کے خلاف دیں، اور یہ روایت شاذ بھی ہے ۔[ فتح الباری، کتاب الطلاق: 9/363، مطبوعہ : دارالمعرفہ، بیروت، لبنان،چشتی)
(7) طاؤس کو اس روایت میں غیر مدخولہ کی طلاق کے ساتھ مغالطہ لگا ہے ۔
تین طلاق کا ایک ہونا غیر مدخولہ عورت کا حکم ہے طاؤس نے یہ حکم مدخولہ عورت کا بھی سمجھ لیا۔ جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے :’’ عَنْ لَیْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ وَعَطَاءٍ، اَنھُمَا قَالَا: اِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہُ ثَلَاثًا، قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَ بِھَا فَھِیَ وَاحِدۃٌ‘‘
ترجمہ: لیث روایت کرتے ہیں کہ طاؤس اور عطاء کہتے تھے کہ جب مرد نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی دخول کرنے سے قبل تو اسے ایک طلاق واقع ہوگی۔ [مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 17878): 4/69، مطبوعہ مکتبۃ الرشد، ریاض،چشتی)
مسلم شریف کی حدیث کا صحیح معنی ومحمل : بالفرض اگر طاؤس کی روایت درست ہو تو اس کا صحیح محمل وہی ہو سکتا ہے جو کمال ابن ہمام نے فرمایا: فتاویلہ ان قول الرجل انت طالق انت طالق انت طالق اان واحدۃ فی الزمن الاول لقصد ہم التاکید فی ذلک الزمان، ثم صاروا یقصدون التجدید فالزمھم عمر رضی اللہ عنہ‘‘۔
ترجمہ : اس طاؤس کی روایت کی تاویل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں انت طالق انت طالق انت طالق میں لوگ دوسرے اور تیسرے الفاظ طلاق سے( نئی طلاق کے بجائے پچھلی طلاق کی) تاکید مراد لیتے تھے ، پھر وہ دوسرے اور تیسرے الفاظ طلاق سے (تاکید کے بجائے ) نئی طلاق مراد لینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے تین طلاق کے نافذ کرنے کا حکم دے دیا۔ [فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/471، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان،چشتی)
غیر مقلدین کا اس حدیث سے استدلال کرنا سوال چنا اور جواب جو کے قبیل سے ہے اس حدیث میں تو اس بات کا ذکر ہے کہ جب دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید مراد لینے کا رواج ہو تو نئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور جب دوسری اور تیسری طلاق سے نئی طلاق لینے کا رواج ہو تو ان الفاظوں سے بھی مزید طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ غور کیجئے کیا غیر مقلد مولوی سے پوچھے گئے سوال میں کہیں اس بات کی صراحت یا اشارہ موجود ہے کہ سائل نے دوسری یا تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ تاکید کیلئے بولا ہو یا ہمارے عرف میں دوسری یا تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ تاکید کیلئے کہا جاتا ہو؟ ہرگز نہیں! یہاں تو اس بات کی صراحت ہوتی ہے کہ سائل نے نئی طلاق کے قصد سے ہی دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کا لفظ کہا ہے اور رواج میں بھی دوسری اور تیسری مرتبہ طلاق کے الفاظ سے تاکید کے بجائے نئی طلاقیں مراد ہوتی ہیں ۔ اور ہر ایک تین مرتبہ کہے الفاظوں سے تین مرتبہ طلاق دینا ہی سمجھتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے برخلاف تین طلاقوں کو ایک ماننا اور دلیل میں اس حدیث کو پیش کرنا اس کام کو بے وقوفی، جہالت، ہٹ دھرمی، گمراہی کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے ؟
غیر مقلدین وہابیہ کی دوسری دلیل : نام نہادغیر مقلدین وہابی حضرات اپنے مؤقف کی تائید میں حدیث رکانہ بھی پیش کرتے ہیں اور اس دلیل کو اپنے زعم میں سب سے مضبوط سمجھتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُکَانَۃُ امْرَاَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَیْھَا حُزْنًا شَدِیدًا، فَسَاَلَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ طَلَّقْتَھَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَاَرْجِعْھَا اِنْ شِْتَ‘‘ ۔ ترجمہ : رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی تو وہ سخت پریشان ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پوچھا کہ تو نے کیسے طلاق دی تھی ، کہا تین ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : ایک مجلس میں؟ اس نے کہا ہاں، تو آ پ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: ایک طلاق ہوئی ہے پس اگر چاہے تو رجوع کرلے ۔[ مسند احمد، مسند ابن عباس، حدیث نمبر( 2387): 4/215، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،چشتی)
غیر مقلدین حضرات کا حدیث رکانہ سے استدلال چھ وجوہ سے باطل ہے ۔
(1) یہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف حدیث قابل استدلال نہیں ہے ۔
اس حدیث کے متعلق امام ابن جوزی فرماتے ہیں: ھذا حدیث لا یصح، ابن اسحاق مجروح وداود اشد منہ ضعفاً، قال ابن حبان: فیجب مجانبۃ روایتہ والظاھر انہ من غلط الرواۃ ۔
ترجمہ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، ابن اسحاق مجروح ہے اور داود سخت ترین ضعیف ہے ، اور ابن حبان فرماتے ہیں: کہ ان کی روایات سے بچنا ضروری ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ روایت راویوں کی غلطی ہے ۔[ العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیہ، کتاب النکاح، حدیث نمبر1059: 2/151، ادارۃ العلوم الاثریۃ، پاکستان،چشتی)
(2) یہ حدیث منکر ہے ۔
حدیث رکانہ ضعیف ہونے کے ساتھ منکربھی ہے جیساکہ کمال الدین ابن ہمام نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے ۔ فتح القدیر میں فرماتے ہیں: حدیث رکانۃ فمنکر‘‘۔
ترجمہ: رکانہ کی حدیث منکرہے ۔[ فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ: 3/471، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت، لبنان،چشتی)
(3)حدیث رکانہ معلل اور مضطرب ہے ۔
امام المحدثین امام بخاری نے اس حدیث کو مضطرب اور معلل قرار دیتے ہوئے اس حدیث کو اپنی صحیح بخاری میں نقل نہیں فرمایا،اگر یہ حدیث صحت کے درجے کو پہنچتی تو وہ لازماً اس کو درج فرماتے ، جیساکہ امام ابن حجرعسقلانی نے فرمایا: واعلہ البخاری بالاضطراب، وعن ابن عباس رواہ احمد والحاکم وھو معلول ایضاً ۔
ترجمہ: امام بخاری نے حدیث رکانہ کو اضطراب کی وجہ سے معلل قرار دیا اور حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت جسکو امام احمد اور امام حاکم نے روایت کیا وہ بھی معلول ہے ۔[ التلخیص الحبیر، کتاب الطلاق، حدیث نمبر( 1603): 3/458، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،چشتی)
(4) حدیث رکانہ مسند احمدکے بجائے جو صحاح ستہ کی کتب حدیث میں درج ہے وہی صحیح ہے اور اسمیں تین طلاق کے بجائے ایک طلاق کا ذکر ہے ۔
غیر مقلدین وہابیہ مذکورہ حدیث رکانہ جو مسند احمد میں ضعیف سند سے روایت کی گئی ہے اس سے تو استدلال کرتے ہیں لیکن اس کے مقابل وہی حدیث رکانہ جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور اسے صحاح ستہ کے تین عظیم محدثین یعنی امام ابو عیسی ترمذی نے جامع الترمذی میں حدیث نمبر (1177)، امام ابو داود نے سنن ابی داود میں (2206) اور امام ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ میں (2051 )نقل فرمایا اسکو ترک کردیتے ہیں۔ منکر اور ضعیف حدیث سے استدلال اپنے زعم فاسد کیلئے کیا جا رہا ہے اور صحیح حدیث کو ترک کیا جارہا، کیا دیانت اسی چیزکا نام ہے ؟ کیا اسی بوتے پر اپنا نام اہل حدیث رکھا ہے ؟
امام ابو داود نے فرمایا: قال ابو داود: وھذا اصح من حدیث ابن جریج ان رکانۃ طلق امراتہ ثلاثاً ۔ ترجمہ : امام ابو داود نے فرمایا: یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے کہ جس میں یہ ذکر ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔[سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2208): 2/263، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت،چشتی)
ایک طلاق والی صحیح حدیث مبارکہ کی امام ابو داود نے دو سندیں بیان کی (۱) نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ۔ (۲) یزید بن رکانہ، دونوں حدیثیں درج ذیل ہیں : حدثنا ابن السرح، وابراھیم بن خالد الکلبی ابو ثور، فی آخرین قالوا: حدثنا محمد بن ادریس الشافعی، حدثنی عمی محمد بن علی بن شافع، عن عبد اللہ بن علی بن السائب، عن نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانۃ: اَنَّ رکَانَۃَ بْنَ عَبْدِ یَزِیدَ طَلَّقَ امْرَاَتَہُ سُھَیْمَۃَ الْبَتَّۃَ، فَاَخْبَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ، وَقَالَ: وَاللّہِ مَا اَرَدْتُ اِلَّا وَاحِدَۃً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَاللَّہِ مَا اَرَدْتَ اِلَّا وَاحِدَۃً؟، فَقَالَ رُکَانَۃُ: وَاللَّہِ مَا اَرَدْتُ اِلَّا وَاحِدۃً، فَرَدھَا اِلَیْہِ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَھَا الثَّانِیَۃَ فِی زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَۃَ فِی زَمَانِ عُثْمَانَ‘‘
ترجمہ: رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سھیمہ کو طلاق البتہ دی، اور اس معاملے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں پیش کیا اور کہا: اللہ کی قسم میں نے طلاق البتہ سے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ کی قسم تونے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا؟ رکانہ نے عرض کی: اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ( اسکے ارادے کی تصدیق کرتے ہوئے ) انکا نکاح برقرار رکھا، رکانہ نے اپنی بیوی کو دوسری طلاق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں دی، اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں دی۔[ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2206): 2/263، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
امام ابو داود نے اس کی دوسری سند اس طرح بیان کی: حدثنا سلیمان بن داود العتکی، حدثنا جریر بن حازم، عن الزبیر بن سعید، عن عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ، عن ابیہ، عن جدہ: انہ طلق امراتہ البتۃ، فاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ما اردت، قال: واحدۃ، قال: آللہ؟، قال: آللہ، قال: ھو علی ما اردت‘‘۔
ترجمہ: عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ اپنے والد یزید بن رکانہ سے اور وہ انکے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی تو رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا معاملہ عرض کیا، رسول اللہ نے پوچھا تم نے اس لفظ سے کیا ارادہ کیا؟ عرض کیا ایک طلاق، رسول اللہ نے پوچھا کیا اللہ کے نام کا حلف اٹھا کر کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا اللہ کی قسم، رسول اللہ نے فرمایا وہی طلاق واقع ہوئی جس کا تم نے ارادہ کیا(یعنی ایک طلاق)۔
(5) مذکورہ بالا البتہ والی حدیث بھی تین طلاق واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
انت طالق البتہ میں لفظ ’’ البتہ‘‘کا معنی کاٹنا ہے اور اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ تجھے ایسی طلاق جو تیرے میرے درمیان تعلق نکاح کو کاٹ دے ۔ اب تعلق نکاح کا کٹنا ایک طلاق بائن سے بھی ہوتا ہے اور تین طلاق مغلظہ سے بھی ، لہذا یہ لفظ ایک طلاق بائن کا بھی احتمال رکھتا ہے اور تین طلاق کا بھی احتمال رکھتا ہے ،اس زمانے میں" البتہ" کا لفظ عام طور پر تین طلاق کےلیے بولا جاتا تھا اسی لئے رسول اللہ نے حلف کے ذریعے حضرت رکانہ سے ان کی نیت دریافت فرمائی اورجب انہوں نے حلفیہ یہ بیان دیا کہ میں نے اس لفظ سے ایک طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ نے ایک طلاق بائن کا حکم دے کر دوبارہ بذریعہ نکاح رجوع کا حکم ارشاد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکی نیت پر حلف لینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر وہ صحابی تین طلاق مراد لیتے یا ایک طلاق مرادنہ لیتے تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام تین طلاق کے واقع ہونے کا حکم صادر فرمادیتے ۔ اور اگر تین طلاقوں سے ایک ہی طلاق مراد ہوتی تو پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے قسم لینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، کہ آپ مطلقاًفرمادیتے ایک ہی طلاق ہوئی ہے تم تین کی نیت کرو یا نہ کرو۔ جیساکہ علامہ نووی نے شرح مسلم میں ارشاد فرمایا : فھذا دلیل علی انہ لو اراد الثلاث لوقعن والا فلم یکن لتحلیفہ معنی ۔ ترجمہ: یہ اس پر دلیل ہے کہ اگر وہ صحابی رسول تین طلاق مراد لیتے تو تین طلاق واقع ہو جاتیں وگرنہ قسم لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔[شرح النووی علی المسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث: 1/478، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ،کراچی)
(6) گھر والے دوسروں کے مقابلے میں اپنے گھر کے معاملات زیادہ بہتر جانتے ہیں۔
امام ابوداد ، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے حدیثِ رکانہ کوانکے بیٹے یزید بن رکانہ کے حوالے سے اور امام ابوداود نے نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت کیا جیساکہ ماقبل دونوں حدیثیں بیان کی جا چکیں ہیں، جبکہ امام احمد نے حدیثِ رکانہ کواپنی مسند میں ابن جریج کے حوالے سے روایت کیا،ہر باشعور پر یہ بات واضح ہے کہ جب یزید بن رکانہ اور نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ حضرت رکانہ کے گھرکے افراد میں سے ہیں تویقیناً کسی دوسرے کے مقابلے میں وہ زیادہ جانتے ہیں کہ ان کے بزرگوار حضرت رکانہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق البتہ دی تھی یا تین طلاقیں دی تھیں۔ لہذا محدثین نے یزید بن رکانہ اور نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ کی روایت کو ابن جریج کی روایت پر ترجیح دی اور ابن جریج کی روایت کو مجروح اور ناقابل قبول قرار دیا۔
امام ابو داودنے ارشاد فرمایا: لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ ۔ ترجمہ: یزید بن رکانہ حضرت رکانہ کے گھر کے افراد میں سے ہیں اور وہ اس معاملے کو زیادہ جانتے ہیں۔[ سنن ابی داود، کتاب الطلاق، باب فی البتہ، حدیث نمبر(2206): 2/263?264، مطبوعہ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت]۔
غیر مقلدین وہابیہ کے اپنے گھر سے ان کے خلاف دلیل : غیر مقلدین کے امام ابن تیمیہ کے نزدیک بھی حنفی شخص کوتین طلاق کو ایک ماننے کا فتوی دیناباطل اور اجماع کے خلاف ہے ۔
نام نہاد غیر مقلدین وہابیہ کے امام ابن تیمیہ جو تین طلاقوں کو ایک ماننے کے قائل ہیں انکے بیان کردہ اصول کی روشنی میں حنفی شخص کا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں۔
شیخ ابن تیمیہ نے اپنے فتاوی میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ جو شخص جس مذہب کی تقلید کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے معاملات میں اپنے مذہب ہی کی پیروی کرے ، محض اپنے مفادات اور خواہش نفس کی خاطر کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرنا ناجائز وحرام اور پوری امت کے خلاف ہے ۔ جس طرح کہ آج کل لوگ بغیر سوچے سمجھے وقتی غصے اور جذبات کے تحت اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتے ہیں، پھر جب جذبات ٹھنڈے ہوتے ہیں تو پچھتاوا ہوتا ہے کہ یہ میں نے کیا کردیا۔جب کسی طرف سے کوئی راستہ نہیں ملتا تو اپنے مفاد کی خاطرفرقہ اہلحدیث کے پاس چلے جاتے ہیں حالانکہ طلاق دینے سے قبل وہ فقہ حنفی کے تقلید کررہے ہوتے ہیں اور تین طلاقوں کو تین ہی ماننے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔فرقہ اہلحدیث کے مولوی صاحبان یہ جاننے کے باوجود کہ یہ شخص تین طلاقوں کو تین ہی ماننے کا اعتقاد رکھتا تھا اور اسی اعتقاد کی بنیاد پر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے چکا ہے اور اب دنیا کی مشکلات اور نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمارے پاس فتوی لینے آیا ہے ، یہ نام نہاد اہلحدیث مولوی اپنے امام ابن تیمیہ کی مخالفت کرتے ہوئے سائل کے اعتقاد کے برخلاف ایک طلاق کا گمراہیت اور ہوائے نفس پر مبنی فتوی جاری کردیتے ہیں۔
فتاوی ابن تیمیہ میں ہے :حیث قال فیمن نکح عند شھود فسقۃ ثم طلقھا ثلاثا فاراد التخلص من الحرمۃ بان النکاح کان فاسدا فی الاصل علی مذھب الشافعی رحمہ اللہ تعالی فلم یقع الطلاق مانصہ وھذا القول یخالف اجماع المسلمین فانھم متفقون علی ان من اعتقد حل الشی ء کان علیہ ان یعتقد ذلک سواء وافق غرضہ او خالف ومن اعتقد تحریمہ کا ن علیہ ان یعتقدذٰلک فی الحالین وھٰؤلاء المطلقون لایقولون بفساد النکاح بفسق الولی الاعند الطلاق الثلاث لا عند الاستمتاع والتوارث یکونون فی وقت یقلدون من یفسد ہ وفی وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والھوٰی ومثل ھذا لایجوز باتفاق الامۃ (ثم قال بعد ثلاثہ اسطر)ونظیر ھٰذا ان تعتقد الرجل ثبوت شفعۃ الجوار اذا کان طالباً لھا وعدم ثبوتھا اذا کان مشتریاً فان ھٰذا لایجوز بالاجماع وکذا من بنی علیٰ صحۃ ولایۃ الفاسق فی حا ل نکاحہ وبنی علی فساد ولایتہ حال طلاقہ لم یجز ذلک باجماع المسلمین ولو قال المستفتی المعین انالم اکن اعرف ذٰلک وانا الیوم التزم ذٰلک لم یکن من ذٰلک لہ لان ذٰلک یفتح باب التلاعب بالدین ویفتح الذریعۃ الی ان یکون التحلیل والتحریم بحسب الاھواء‘‘۔[فتاوٰی ابن تیمیہ ،ج:۲،ص:۲۴۰،چشتی)
ترجمہ : انہوں نے اس طرح کہا کہ اگرکسی نے فاسق گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا پھر اس کو تین طلاقیں دے دیں پس وہ چاہتا ہے اس حرمت سے خلاصی پائے کہ یہ نکاح امام شافعی علیہ الرحمہ کے مذہب کے مطابق فاسدہوا تھاپس اس کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہو تو اس کا یہ قول اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔پس تمام امت مسلمہ اس پر متفق ہے کہ جو کسی چیز کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ اسی پر ہی اعتقاد رکھے خواہ وہ اس کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف اورجو کسی چیز کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو اس پر بھی لازم ہے وہ دونوں حالتوں میں اسی کا اعتقاد رکھے ۔اور یہ طلاق دینے والے ولی کے فاسق ہونے کی وجہ سے نکاح کو فاسد نہیں کہتے مگر تین طلاق کے وقت اوریہ لوگ عورت سے نفع لیتے وقت اور وارثت میں حصہ دار ہوتے وقت نکاح کے فاسد ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور یہ ایک وقت میں اس کے مقلد ہوئے جو ان کی غرض اور خواہش کے مطابق نکاح کو فاسد کہتا ہے اور دوسرے وقت میں اس کے مقلد ہوئے جو ان کی غرض اور خواہش کے مطابق اس نکاح کو درست کہتا ہے ۔اور اس کی مثل کے حرام ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے (پھر چند سطر کے بعد لکھا)اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مرد یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ پڑوسی پر شفعہ حق ثابت تب ہو گا جب بھی وہ اس کا مطالبہ کرے اور لیکن جب خود خریدار ہو دوسرے کے لئے اس طرح شفعہ کو ثابت نہ مانے پس یہ بالاجماع جائز نہیں اور اسی طرح ایک شخص نکاح کرتے وقت تو ولی کے فاسق ہونے کے باوجود نکاح کو صحیح مانے اور طلاق کے وقت اس نکاح کو فاسد مانے تو یہ بالاجماع تمام مسلمانوں کے نزدیک جائز نہیں ۔اور اگر سوال کرنے والا کہے مجھے اس بات کا علم نہیں تھا اور آج سے اس پر میرا اعتقاد ہے تو بھی اس کے لئے جواز کا حکم نہیں ہو گاکیونکہ اس طرح کرنے سے دین کے ساتھ مذاق کا دروازہ کھل جائے گا اور اپنی خواہشِ نفس کے مطابق حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کاذریعہ بن جائے گا‘‘۔[ مجموع الفتاوی، باب ارکان النکاح وشروطہ: 32/101، مطبوعہ: مجمع الملک فہد، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ،چشتی)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ جس شخص نے تین طلاق دی اور وہ اسوقت حنفی تھا تو اس پرلازم ہے کہ وہ تین طلاق کے واقع ہونے کا اعتقاد رکھے اور اپنی خواہش کے مطابق تین طلاق کو ایک ثابت کرنے کیلئے غیر مقلد اہلحدیثوں کے پاس نہ جائے ، انکے اس فتوے کا اس شخص کو کوئی فائدہ نہیں ہوگاکیوں کہ شیخ ابن تیمیہ کے مطابق اس شخص کی عورت اس پر حرام ہی رہے گی اور اس پر ساری امت کا اتفاق اور اجماع ہے ۔ لہذا فرقہ اہل حدیث کے مولوی صاحبان اپنے امام کی اس عبارت کو بغور پڑھیں، اور اپنے امام کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کسی حنفی کے پوچھے گئے تین طلاق کے سوال میں ایک طلاق کے واقع ہونے کا فتوی جاری کرکے اجماع کی مخالفت اور امت کے اتفاق کو توڑ نے کی راہ پر نہ چلیں۔
ان تمام دلائل کی روشنی میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
اللہ تعالی کاارشاد پاک ہے ’’فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُون‘‘
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے ۔پھروہ دوسرااسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں ،اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے ‘‘۔[البقرۃ ،آیت:۲۳۰،چشتی)
اس آیت کر یمہ کے تحت تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فان طلقھا بعد الثنتین (فلاتحل لہ من بعد)ای من بعد التطلیق(حتی تنکح زوجاً غیرہ )ای تتزوج زوجاً غیرہ ،ویجامعھا فلا تکفی مجرد العقد ۔
ترجمہ : پس اگر شوہر دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہو گی حتی کہ دوسرے مرد سے نکاح کر ے اور وہ دوسرا مرد اس سے جماع بھی کر ے محض نکاح کافی نہیں ‘‘۔[ تفسیر روح المعانی: 1/535، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ،چشتی)
اس آیت کی تفسیر خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی فرمادی کہ جس طرح بخاری شریف :ج ،2،ص، 801،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی اور صحیح مسلم شریف :1،ص463 ,مطبوعہ دار الحدیث اور مشکوٰۃ شریف باب مطلقہ ثلاثاً میں اور ترمذی شریف میں بھی ہے ۔
واللفظ لہ’’ عن عائشۃ قالت جائت امرأ ۃ رفاعۃ القرظی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فقالت انی عند رفاعۃ و طلقنی فبت طلا قی فتزوجت عبد الرحمن بن الزبیر ومامعہ الا ھد بۃ الثوب فقال اترید ین ان ترجعی الی رفاعۃ ،لا حتی تذ وقی عسیلتہ ویذ وق عسیلتک ‘‘ ۔ ترجمہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں‘حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میں حضرت رفاعہ کے پاس تھی آپ نے مجھے تین طلاقیں دے دیں پھر میں نے حضرت عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کیااور ان کو میں نے کپڑے کے پھندنے کی طرح (نامرد) پایا ، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کیا تو رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے ؟ تو یہ جائز نہیں حتی کہ تو اس کاذائقہ چکھے اور وہ تیراذائقہ چکھے (یعنی جب تک جسمانی تعلق قائم نہیں ہوتا اس وقت تک واپس نہیں جا سکتی) اس حدیث کے تحت امام ابو عیسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
حدیث عائشۃ حدیث حسن صحیح والعمل علی ھذا عند عامۃ اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وغیر ھم ان الرجل اذا طلق امراتہ ثلاثا فتزوجت زوجا غیر ہ فطلقھا قبل ان یدخل بھا انھا لا تحل للزوج الاول اذا لم یکن جامع الزوج الاخر ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ کی حدیث صحیح حسن ہے اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ان کے علاوہ اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ جب زوج نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اس نے اس کے علاوہ زوج سے نکا ح کیا تو اس( دوسرے شوہر) نے جسمانی تعلق سے پہلے طلاق دے دی تو وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرا شوہرجسمانی تعلق قائم نہ کرے ۔[تر مذی شریف باب النکاح :ج ،اول ،ص213،مطبوعہ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی ،چشتی)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں علامہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ شرح السنہ کے حوالے سے فرماتے ہیں: وفی شرح السنۃ : العمل علی ھذا عند اھل العلم من الصحابۃ وغیرھم ،قالوا اذا طلق الرجل امرأتہ ثلاثاً فلا تحل لہ بعد ذلک حتی تنکح زوجاً غیرہ ویصیبھا الزوج الثانی ،فان فارقھا او مات عنھا قبل اصابتھا فلا تحل ۔
ترجمہ : شرح السنہ میں ہے کہ اس (حلالہ) پر عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر علماء کا ہے ۔ انہوں نے فرمایا : جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہو گی حتی کہ دوسرے شوہر سے نکاح کر ے اور دوسرا شوہر اس سے جسمانی تعلق بھی قائم کر ے ، پس اگر نکاح کے بعد جسمانی تعلق قائم کر نے سے پہلے جدائی ہوگئی یا شوہر جسمانی تعلق قائم کرنے سے پہلے فوت ہو گیا تو وہ پہلے شوہر کےلیے حلال نہیں ہو گی ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،ج:۶،ص:۴۰۴،مکتبہ ، رشیدیہ کوئٹہ)
تین طلاقیں تین ہی ہیں : ⏬
یہ بات واضح ہے کہ جب شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے تو صرف پندرہ بیس منٹ بعد مولوی صاحب یاد آجاتے ہیں یعنی اُس کا چند لمحوں میں سارا غصّہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اب مولوی اور مفتی صاحبان کو ڈھونڈھنا شروع کر دیا جاتا ہے ایسی صورت میں نام نہاد اہلحدیث مولوی چند ٹکوں کے عِوض یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ تین طلاقیں تین نہیں وہ تو ایک طلاق ہے ۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث کا یہ مؤقف ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے تو وہ ایک واقع ہو گی ۔ مطلب یہ کہ ’’مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ اور آپ اس بات پر ذرا غور کریں تو یہ بالکل ایسی بات ہوگی کہ جیسے کوئی آدمی کسی شخص کو تین ڈنڈے مارے اور تھانے چلے جائیں تو ایس ایچ او صاحب یہ کہیں کہ چونکہ ایک وقت میں تین ڈنڈے لگے ہیں لہٰذا ایف آئی آر تو ایک ڈنڈے کی کٹے گی ۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔ تین طلاقوں کے ایک وقت میں تین ہونے پر پوری اُمّت کا اجماع ہے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اور چاروں ائمہ علیہم الرحمہ کا اس پر اجماع ہے جیسا کہ ہم سابقہ مضامین عرض کر چُکے ہیں ۔ مزید حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں : ⬇
امام اللغت سید زبیدی علیہ الرحمہ طلاق کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”عباب“ میں ہے کہ عورت کی طلاق کے دو معنی ہیں : (١) نکاح کی گرہ کو کھول دینا (ب) ترک کردینا ‘ چھوڑ دینا ۔ ” لسان العرب “ میں ہے کہ عثمان اور زید کی حدیث ہے : طلاق کا تعلق مردوں سے ہے اور عدت کا تعلق عورتوں سے ہے ۔ (تاج العروس جلد ٦ صفحہ ٤٢٥ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
علامہ ابن نجیحم طلاق علیہ الرحمہ کا فقہی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : الفاظ مخصوصہ کے ساتھ فی الفور یا از روئے مآل نکاح کی قید کو اٹھا دینا ‘ طلاق ہے ۔ الفاظ مخصوصہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو مادہ طلاق پر صراحۃ یا کنایۃ مشتمل ہوں ‘ اس میں خلع بھی شامل ہے اور نامردی اور لعان کی وجہ سے نکاح کی قید از روئے مآل اٹھ جاتی ہے ۔ (البحرالرائق جلد ٣ صفحہ ٢٣٥ مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)
طلاق کی تین قسمیں ہیں : احسن ‘ حسن ‘ بدعی ۔
طلاق احسن : جن ایام ماہواری سے پاک ہو اور ان ایام میں بیوی سے مقاربت بھی نہ کی ہو ‘ ان ایام میں صرف ایک طلاق دی جائے ‘ اس میں دورانِ عدت مرد کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد عورت بائنہ ہو جاتی ہے اور فریقین کی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے ۔
طلاق حسن : جن ایام میں عورت پاک ہو اور مقاربت بھی نہ کی وہ ان ایام میں ایک طلاق دی جائے اور جب ایک ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کیے دوسری طلاق دی جائے اور جب دوسری ماہواری گزر جائے تو بغیر مقاربت کیے تیسری طلاق دی جائے ‘ اس کے بعد جب تیسری ماہواری گزر جائے تو عورت مغلظہ ہوجائے گی اور اب شرعی حلالہ کے بغیر اس سے دوبارہ عقد نہیں ہوسکتا ۔
طلاق بدعی : اس کی تین صورتیں ہیں : ⬇
(١) ایک مجلس میں تین طلاقیں دفعۃ دی جائیں خواہ ایک کلمہ سے مثلاً تم کو تین طلاقیں دیں یا کلمات متعددہ سے ‘ مثلا کہے : تم کو طلاق دی ‘ تم کو طلاق دی ‘ تم کو طلاق دی (ب) عورت کی ماہواری کے ایام میں اس کو ایک طلاق دی جائے اس طلاق سے رجوع کرنا واجب ہے اور یہ طلاق شمار کی جاتی ہے۔ (ج) جن ایام میں عورت سے مقاربت کی ہو ‘ ان ایام میں عورت کو ایک طلاق دی جائے طلاق بدعی کسی صورت میں ہو اس کا دینے والا گنہگار ہوتا ہے ۔ (درمختار علی ھامش رد المختار جلد ٢ صفحہ ٥٧٨ ، ٥٧٣ مطبوعہ استنبول ‘ ١٣٤٧ ھ،چشتی)
صریح لفظ طلاق کے ساتھ ایک یا دو طلاقیں دی جائیں تو یہ طلاق رجعی ہے اور اگر صریح لفظ طلاق نہ ہو ‘ کنایہ سے طلاق دی جائے تو یہ طلاق بائن ہے ‘ مثلا طلاق کی نیت سے بیوی سے کہا : تو میری ماں کی مثل ہے ’‘ طلاق رجعی میں دوبارہ رجوع کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن پچھلی طلاقیں شمار ہوں گی ‘ اگر پہلے دو طلاقیں دی تھیں تو رجوع کے بعد صرف ایک طلاق کا مالک رہ جائے گا۔ طلاق بائن سے فی الفور نکاح منقطع ہوجاتا ہے لیکن اگر تین سے کم طلاقیں بائن ہوں تو باہمی رضا مندی سے دوبارہ عقد ہوسکتا ہے لیکن پچھلی طلاقوں کا شمار ہو گا ۔
طلاق کیوں مشروع کی گئی ؟
اسلام کا منشاء یہ ہے کہ جو لوگ رشتہ نکاح میں منسلک ہو جائیں ان کے نکاح کو قائم اور برقرار رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے اور اگر کبھی ان کے درمیان اختلاف یا نزاع پیدا ہو تو رشتہ دار اور مسلم سوسائٹی کے ارباب حل وعقد اس اختلاف کو دور کر کے ان میں صلح کرائیں اور اگر ان کی پوری کوشش کے باوجود زوجین میں صلح نہ ہو سکے تو یہ خطرہ ہو کہ اگر یہ بدستور رشتہ نکاح میں بندھے رہے تو یہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے اور نکاح کے مقاصد فوت ہو جائیں گے تو ان کو عدم موافقت اور باہمی نفرت کے باوجود ان کو نکاح میں رہنے پر مجبور نہ کیا جائے ‘ اس صورت میں ان کی ‘ ان کے رشتہ داروں اور معاشرہ کے دیگر افراد کی بہتری اور مصلحت اسی میں ہے کہ عقد نکاح کو توڑنے کے لیے شوہر کو طلاق دینے سے نہ روکا جائے۔ طلاق کے علاوہ عقد نکاح کو فسخ کرنے کے لیے دوسری صورت یہ ہے کہ عورت شوہر کو کچھ دے دلا کر خلع کرا لے اور تیسری صورت قاضی کی تفریق ہے اور چوتھی صورت یہ ہے کہ جن دو مسلمان حکموں کو نزاعی حالت میں معاملہ سپرد کیا گیا ہو اوہ نکاح کو فسخ کرنے کا فیصلہ کردیں ۔
عن سھل بن سعد فی ھذاالخبر قال:فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (ابو داود،حدیث:۲۲۵۰۔بخاری،حدیث:۵۳۰۹مسلم،حدیث :۱۴۹۲۔نسائی،حدیث: ۳۴۰۱،۳۴۰۲)
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ : حضرت عو یمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلا ق دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان طلاقوں کو نا فذ کر دیا ۔
عن عامر الشعبی قال: قلت لفاطمۃ بنت قیس : حدثنی عن طلاقک ، قالت : طلقنی زوجی ثلاثا وھو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ (ابن ماجہ،حدیث:۲۰۲۴۔مسلم،حدیث:۱۴۸۰)
ترجمہ : حضرت عامر شعبی کہتے ہیں :میں نے فا طمہ بنت قیس سے کہا کہ مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتا یئے تو انہوں نے کہا : میرے شو ہر نے یمن جاتے وقت مجھے یکدم تین طلاق دے دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو جائز قرار دے دیا (یعنی اس کو واقع قرار دے دیا) ۔
عن سوید بن غفلۃ قال : کانت عائشۃ الخثعمیۃ عند الحسن بن علی رضی اللہ عنہ فلما قتل علی رضی اللہ عنہ قالت:لتھنئک الخلافۃ ،قال: بقتل علی تظھر الشماتۃ ،اذھبی فانت طالق یعنی ثلاثا ،فتلفعت بثیابھا و قعدت حتی قضت عدتھا فبعث الیھا ببقیۃ بقیت لھا من صداقھا وعشرۃ اٰلاف صدقۃ فلما جاء ھا الرسول قالت : امتاع قلیل من حبیب مفارق ،فلما بلغہ قولھا بکی ثم قال:لو لا انی سمعت جدی او حدثنی ابی انہ سمع جدی یقول ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثا عند الاقراء او ثلاثا مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ،راجعتھا ۔ (سنن البیہقی الکبری،کتاب الطلاق باب ماجاء فی امضاء الطلاق و ان کن مجموعات،حدیث:۱۴۷۴۸،چشتی)
ترجمہ : سوید بن غفلہ سے روایت ہے کہ : عائشہ خثعیمہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اس نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خلافت مبارک ہو ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا : تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کر رہی ہو ، جا ! تم کو تین طلاقیں دیں ۔ اس نے اپنے کپڑے لیے اور بیٹھ گئی یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو گئی ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف اس کا بقیہ مہر اور دس ہزار کا صدقہ بھیجا ، جب اس کے پاس قاصد یہ مال لے کر آیا تو اس نے کہا : مجھے اپنے جدا ہونے والے محبوب سے یہ تھوڑا سا سامان ملا ہے ۔ جب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہونچی تو آپ نے آبدیدہ ہو کر فرمایا : اگر میں اپنے نانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ سنا ہو تا ۔ یا یہ فر مایا کہ میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ)سے اور انہوں نے میر ے نانا جان حضور اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ سنا ہو تا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی خواہ الگ الگ طہروں میں یا بیک وقت تو وہ عورت حلال نہ ہو گی جب تک کسی اور سے نکاح نہ کر لے ۔ تو میں اس سے رجوع کر لیتا ۔
عن سالم عن ابن عمر قال : من طلق امرأتہ ثلاثا طلقت و عصی ربہ ۔ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب المطلق ثلاثا، حدیث:۱۱۳۴۴،چشتی)
ترجمہ : حضرت سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ، وہ واقع ہو جائیں گی مگر اس شخص نے اپنے رب کی نا فر مانی کی ۔
عن علقمۃ عن عبد اللہ:انہ سُئل عن رجل طلق امرأتہ مأۃ تطلیقۃ؟قال: حر متھا ثلاث وسبعۃ وتسعون عدوان۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الطلاق،باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۹۸)
ترجمہ : حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو (۱۰۰) طلاقیں دے دیں ؟ آپ نے فرما یا تین طلاقوں سے اس کی بیوی حرام ہو گئی اور باقی ستانوے (۹۷) طلاقیں حد سے تجاوز ہے ۔
قال مجاہد عن ابن عباس قال : قال لہ رجل : یا ابا عباس! طلقت امرأتی ثلاثا ،فقال ابن عباس :یا ابا عباس !یطلق احدکم فیستحمق ،ثم یقول،یا ابا عباس !عصیت ربک و فارقت امرأتک ۔ (مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب المطلق ثلاثا، حدیث:۱۱۳۵۲)
ترجمہ : حضرت مجا ہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ان سے ایک شخص نے کہا : اے ابو عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔حضرت ابن عباس نے (طنزاََ) فر مایا : یا ابا عباس!پھر فر مایا تم میں سے کو ئی شخص حما قت سے طلاق دیتا ہے پھر کہتا ہے : اے ابو عباس ! تم نے اپنے رب کی نا فرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے علیحد ہ ہو گئی ۔
عن واقع بن سحبان قال : سئل عمران بن حصین عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس ؟ قال : اثم بربہ و حرمت علیہ امرأتہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ کتاب الطلاق باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۸۷)
ترجمہ : حضرت واقع بن سحبان بیان کرتے ہیں کہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں؟حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا اس نے اپنے رب کی نافر مانی کی ،اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی ۔
عن انس قال : کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امرأتہ ثلاثا فی مجلس اوجعہ ضربا وفرق بینھما ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الطلاق،باب من رخص للرجل ان یطلق ثلاثا فی مجلس،حدیث:۱۸۰۸۹)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں ، تو آپ اس کو مارتے اور ان کے درمیان تفریق کر دیتے ۔
عن حبیب قال: جاء رجل الی علی رضی اللہ عنہ ، فقال : انی طلقت امرأتی الفا، قال : بانت منک بثلاث واقسم سائرھا بین نسائک ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث:۱۸۱۰۱)
ترجمہ : حضرت حبیب کہتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ایک شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دی ہیں ، آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیحدہ ہو گئی ، باقیں طلاقیں اپنی بیویوں میں بانٹ دو ۔
عن معاویۃ بن ابی یحییٰ قال : جاء رجل الی عثمان فقال :انی طلقت امرأتی مائۃ ، فقال : ثلاث تحرمھا علیک و سبعۃ و تسعون عدوان ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث:۱۸۱۰۴،چشتی)
ترجمہ : حضرت معاویہ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے آکر کہا : میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تین طلاقوں سے تمہاری بیوی تم پر حرام ہو گئی اور باقی ستانوے (۹۷) طلاقیں حد سے تجاوز ہیں ۔
عن المغیرۃ بن شعبۃ انہ سئل عن رجل طلق امرأتہ مائۃ فقال : ثلاث تحرمھا علیہ و سبعۃ وتسعون فضل ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، حدیث:۱۸۱۰۵)
ترجمہ : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ : ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فر مایا : تین طلاقوں نے اس پر اس کی بیوی کو حرام کردیا اور ستانوے طلاقیں زائد ہیں ۔
عن جابر قال : سمعت ام سلمۃ سئلت عن رجل طلق امرأتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا فقالت : لا تحل لہ حتی یطأ ھا غیرہ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۵۶،چشتی)
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے مقاربت سے پہلے تین طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کی بیوی اس کےلیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے مقاربت نہ کر لے ۔
عن ابن عباس : اذا طلقھا ثلاثا قبل ان یدخل بھا لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ و لو قالھا تتری بانت بالاولی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۷۶)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں :جب کوئی شخص دخول سے پہلے تین طلاقیں دے تو وہ عورت اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے ، اور اگر اس نے الگ الگ الفا ظ سے یہ طلاقیں دیں (جیسے ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق) تو عورت پہلی طلاق سے بائنہ ہو جائے گی ۔
جاء رجل الی الحسن فقال : انی طلقت امرأتی الفا ،قال : بانت منک العجوز ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ حدیث : ۱۸۱۰۸)
ترجمہ : حضرت حسن بصری سے ایک شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہو گئی ۔
عن سفیان فی رجل قال لامرأتہ انت طالق ثلاثا الا ثلاثا قال : قد طلقت منہ ثلاثاواذ قال انت طالق ثلاثا الا اثنتین فھی طالق واحدۃو اذا قال :انت طالق ثلاثا الا واحدۃفھی طالق اثنتین۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب انت طالق ثلاثا،حدیث:۱۱۳۵۶)
ترجمہ : حضرت سفیان نے کہا : جس نے اپنی بیوی سے کہا : تجھے تین طلاق مگر تین طلاق،تو تین طلاقیں واقع ہو گئیں ۔ اور جب کہا : تجھے تین طلاق مگر دو (۲) تو ایک طلاق ہو گی ، اور جب کہا : تجھے تین طلاق مگر ایک،تو دو طلا ق ہوئیں ۔
عن نافع ان رجلا طلق امرأتہ وھی حائض ثلاثا،فسأل بن عمر رضی اللہ عنہما ، فقال : عصیت ربک وبانت منک لا تحل لک حتی تنکح زوجا غیرک ۔(مصنف عبد الرزاق،کتاب الطلاق،باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثا وھی حائض او نفسا ،حدیث: ۱۱۰۹۶۴)
ترجمہ : حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہا ایک شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دیا ، تو اس نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حکم دریافت کیا : تو آپ نے فرمایا : تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ، اور تجھ سے تیری بیوی جدا ہو گئی ، اب وہ تیرے لیے حلال نہیں جب تک وہ تیرے علاوہ سے نکاح نہ کر لے ۔
حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے والی جو احادیث ہیں ، ان میں اصح احادیث وہ ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی ، تین طلاقیں نہیں دی تھیں ، طلاق بتّہ میں ایک طلاق کا بھی احتمال ہے اورتین طلاقوں کا بھی احتمال ہے ، احادیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایک طلاق دی ہے یا تین ، تو انہوں نے عرض کی کہ میں نے ایک طلاق ہی کی نیت کی تھی ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک طلاق شمارفرمائی تھی ، مگر بعض راویوں نے تین طلاق والے احتمال کو لے کرمعنوی طور پر یہ روایت کردی کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں ،حالانکہ معاملہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا،نیز حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے واقعے میں جو تین طلاق کی روایت ہے ، اس کے راوی مجہول ہیں ، اس روایت سے استدلال ہو ہی نہیں سکتا ۔
سنن ابی داؤد میں ہے : عن عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ : انہ طلق امرأتہ البتّۃ ، فأتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فقال : ما أردت ؟ قال : واحدۃ ، قال اللہ ؟ قال : اللہ ، قال : ھو علی ما أردت ۔
ترجمہ : عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری کتنی طلاق دینے کی نیت تھی ؟ عرض کی : ایک طلاق کی نیت تھی ، فرمایا : کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو ؟ عرض کی : جی ہاں اللہ کی قسم ہے ۔ فرمایا : پھر اتنی ہی طلاقیں ہیں جتنی کی تمہاری نیت تھی ۔ (سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 318 مطبوعہ لاہور)
جس حدیث میں طلاق بتّہ کے الفاظ ہیں ، وہ حدیث اصح ہے ، اس حدیث سے جس میں تین طلاق کے الفاظ ہیں ۔ چنانچہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : قال ابوداؤد : وھذا اصح من حدیث ابن جریج :ان رکانة طلق امراتہ ثلاثا،لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ “ یعنی امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث اصح ہے اس حدیث سے جو ابن جریج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں ۔ اصح کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہی روایت ہے اور اہل و عیال اپنے گھر کے واقعے کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد ،جلد1،صفحہ318،مطبوعہ لاھور)
معالم السنن شرح سنن ابی داؤد میں علامہ محدث ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں جس میں حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے تین طلاق دینے کا ذکرہے۔”قال الشیخ :فی اسناد ھذا الحدیث مقال لان ابن جریج انما رواہ عن بعض بنی ابی رافع والمجھول لایقوم بہ الحجۃ،وقد روی ابوداؤد ھذا الحدیث باسناد اجود منہ ان رکانۃ طلق امراتہ البتۃ۔۔۔۔۔۔قال الشیخ :قد یحتمل ان یکون حدیث ابن جریج انما رواہ الراوی علی المعنی دون اللفظ ،وذلک ان الناس قد اختلفوا فی البتۃ ،فقال بعضھم ھی ثلاثۃ ،وقال بعضھم ھی واحدۃ ،وکأن الراوی لہ ممن یذھب مذھب الثلاث ،فحکی انہ قال:انی طلقتھا ثلاثا،یرید البتۃ التی حکمھا عندہ حکم الثلاث ،واللہ اعلم ۔
ترجمہ : شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا :اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے ،کیونکہ ابن جریج رحمہ اللہ نے اسے بنی ابی رافع کے بعض لوگوں سے روایت کیا ،(اور وہ بعض لوگ مجہول ہیں) اور مجہول سے دلیل نہیں لائی جاسکتی۔ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو بہترین اسناد کے ساتھ ان الفاظ سے ذکرکیا ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ کو طلاق بتہ دی تھی۔۔۔۔۔۔شیخ رحمہ اللہ نے فرمایااس بات کا احتمال ہے کہ ابن جریج رحمہ اللہ سے جو حدیث روایت ہے وہ الفاظ میں روایت نہ ہو بلکہ معنی کے اعتبارسے روایت کی گئی ہو،کیونکہ طلاق بتّہ میں لوگوں کا اختلاف ہے ،بعض کے نزدیک یہ تین طلاقیں ہیں اوربعض کے نزدیک یہ ایک طلاق ہے،جس راوی نے اس کو تین طلاق کے الفاظ سے روایت کیااس کا موقف گویا کہ وہی تھا کہ جو طلاق بتّہ کو تین طلاقیں شمارکرتے تھے،تو اس نے الفاظ تین طلاق کے روایت کیے ،مگراس کی مراد وہی طلاق بتّہ تھی جس کا حکم اس کے نزدیک تین طلاقوں والا تھا ۔ (معالم السنن شرح سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 448 مطبوعہ بیروت،چشتی)
امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أما الروایۃ التی رواھا المخالفون ان رکانۃ طلق ثلاثا فجعلھا واحدۃ ،فروایۃ ضعیفۃ عن قوم مجھولین ،وانما الصحیح منھا ما قدمناہ انہ طلقھا البتۃ ،ولفظ البتۃ محتمل للواحدۃ وللثلاث ،ولعل صاحب ھذہ الروایۃ الضعیفۃ اعتقد ان لفظ البتۃ یقتضی الثلاث فرواہ بالمعنی الذی فھمہ وغلط فی ذلک ۔
ترجمہ : وہ روایت جو مخالفین نے ذکرکی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے ایک شمار کیا ، یہ ضعیف روایت ہے ، مجہول لوگوں سے روایت ہے ۔ اس میں صحیح روایت وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کی کہ انہوں نے طلاق بتّہ دی تھی اور بتّہ کا لفظ ایک طلاق کا احتمال بھی رکھتا ہے اور تین کا بھی احتمال رکھتا ہے ، جس راوی نے تین طلاق کا لفظ ذکر کیا اس کے گمان کے مطابق لفظ بتّہ تین کا تقاضا کرتا تھا ، اس لیے اس نے معنوی طور پر تین طلاق کا ذکر کر دیا جو کہ غلط ہے ۔ (شرح صحیح مسلم جلد 10 صفحہ 64 مطبوعہ قاھرہ،چشتی)
وقارالفتاوی میں ہے : صحیح یہی ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں ، بلکہ طلاق بتہ دی تھی ، راوی نے اپنی روایت میں بتہ کے معنی تین سمجھ کرثلاث کا لفظ بڑھا دیا ،کیونکہ بتہ کا لفظ ایک اور تین دونوں کا تھا ، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت رکانہ سے پوچھا ، تو انہوں نے عرض کیا کہ میری نیت ایک کی ہے ، جیسا کہ اوپر صحیح روایت میں نقل کیا گیا ۔ (وقارالفتاوی جلد 3 صفحہ 170 مطبوعہ کراچی)
محدثین وفقہاء علیہم الرحمہ نے فرمایا کہ اول زمانہ میں جب طلاق دی جاتی تھی ، توالفاظ اگرچہ تین مرتبہ طلاق کے بولے جاتے تھے ، مگر پہلی مرتبہ طلاق کے الفاظ طلاق کےلیے ہوتے تھے اور دوسری اور تیسری مرتبہ کے الفاظ طلاق کےلیے نہیں ، بلکہ تاکید کے طور پر بولے جاتے تھے ، اس لیے ایک طلاق شمار ہوتی تھی ، کیونکہ طلاق دی ہی ایک جاتی تھی ، پھر بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگوں نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ تین طلاقوں کےلیے ہی بولنا شروع کر دیا ، تو انہوں نے تین طلاقیں ہی شمارکیں ۔ نیز ”تین طلاقیں ایک شمارکی جاتی تھیں“ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا کہ اب جو نتیجہ لوگ تین طلاقوں سے حاصل کرتے ہیں (کہ نکاح ختم ہو جائے) ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہی نتیجہ ایک طلاق سے حاصل کیا جاتا تھا ۔
شیخ الاسلام ، امام ،محدث محی الدین ابوزکریا یحیی بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اما حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ ،فالاصح ان معناہ ،انہ کان فی اول الامر اذا قال لھا انت طالق انت طالق انت طالق لم ینو تاکیداولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ ارادتھم الاستئناف بذلک ،فحمل علی الغالب الذی ھو ارادۃ التاکید،فلما کان فی زمن عمررضی اللہ تعالٰی عنہ وکثر استعمال الناس بھذہ الصیغۃ وغلب منھم ارادۃ الاستئناف بھا حملت عند الاطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق الی الفھم منھا فی ذلک العصر ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے بارے میں علماء نے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ، صحیح یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اول زمانہ میں جب شوہر ، زوجہ سے کہتا کہ تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، تجھے طلاق ، جس میں وہ تاکید یا نئی طلاق کے واقع ہونے کی نیت نہ بھی کرتا ، تب بھی ایک طلاق واقع ہوتی ، کیونکہ دوسرے اور تیسرے الفاظ سے نئی طلاق دینے کی نیت کم ہی ہوتی تھی ، غالب طور پر تاکید کا ارادہ ہوتا تھا ۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے کثرت سے طلاق کے صیغے بولنا شروع کر دیے اور ان سے غالب طور پر نئی طلاق ہی کا ارادہ ہوتا تھا ، تو پھر ان تین صیغوں کو تین طلاقیں ہی شمار کیا جانے لگا ، کیونکہ اس زمانے میں غالب طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ تین صیغوں سے تین الگ الگ طلاقیں دی گئی ہیں ۔ (شرح صحیح مسلم نووی جلد 10 صفحہ 64 مطبوعہ قاھرہ،چشتی)
فتح القدیر جلد 3 صفحہ 453 مطبوعہ کوئٹہ اور تبیین الحقائق میں ہے : واللفظ للتبیین : والجواب عن الحدیث الاول من وجھین:احدھما انہ انکار علی من یخرج عن سنۃ الطلاق بایقاع الثلاث واخبار عن تساھل الناس فی مخالفۃ السنۃ فی الزمان المتاخر عن العصرین کانہ قال :الطلاق الموقع الآن ثلاثا کان فی ذینک العصرین واحدۃ کما یقال کان الشجاع الآن جبانا فی عصر الصحابۃ اجمعین۔والثانی ان قول الزوج انت طالق انت طالق انت طلاق ،کانت طلقۃ واحدۃ فی العصرین لقصدھم التاکید والاخبار ،وصار الناس بعدھم یقصدون بہ التجدید والانشاء فالزمھم عمر ذلک لعلمہ بقصدھم ۔
ترجمہ : پہلی حدیث (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث) کا جواب دو طریقے سے دیا گیا ہے،ایک جواب یہ ہے کہ یہاں اس شخص کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو طلاق کے سنت طریقے کو چھوڑکرتینوں طلاقیں ایک ساتھ واقع کرتا ہے،اورخبردی گئی ہے کہ پہلے دو زمانوں کے بعد لوگ سنت کی مخالفت کرتے ہوئے تساہل میں مبتلا ہوگئے تھے تو ان کے لیے کہا گیا کہ آج جو تین طلاقیں دی جاتی ہیں ، پہلے دو زمانوں میں یہ ایک طلاق دی جاتی تھی۔جیسے کہاجاتا ہے کہ جو شخص آج بہادرسمجھا جاتا ہے وہ صحابہ کے زمانہ میں بزدل سمجھا جاتا تھا۔دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے دو زمانے میں جب شوہرتین مرتبہ تجھے طلاق ہے ،تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے،کہتا تھا تو وہ ایک طلاق ہی دیتا تھا کیونکہ باقی دومرتبہ طلاق کے الفاظ سے وہ تاکید اورخبرکا ارادہ کرتا تھا،بعد میں لوگ تینوں الفاظ سے الگ الگ طلاق دینے کا قصد کرنے لگے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ارادے کو جانتے ہوئے تین لازم کردیں ۔ (تبیین الحقائق جلد 3 صفحہ 26 مطبوعہ کراچی)
یاد رہے کہ ظاہری زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور زمانہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان عرف و عادت کا اختلاف صرف اسی طلاق کے مسئلے میں نہیں تھا ، بلکہ احادیث سے دیگر مسائل میں بھی ان زمانوں میں عرف و عادت کا اختلاف ثابت ہے ، جیسا کہ ظاہری زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں عورتیں مسجد میں آکر نماز پڑھتی تھیں ، بلکہ احادیث میں فرمایا گیا کہ انہیں مسجد میں آنے سے منع نہ کرو ، مگر جب عادتیں بدل گئیں ، لوگوں میں فساد کی ابتدا ہوئی ، تو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی تائید فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اگراس زمانے میں ہوتے ، تو وہ بھی منع فرما دیتے ۔
صحیح بخاری شریف میں ہے : عن عمرۃ عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ،قالت : لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل قلت لعمرۃ :أو منعن ؟ قالت:نعم ۔
ترجمہ : حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس زمانے کو پاتے جس میں عورتوں نے فساد پیدا کر لیے ہیں ، تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا ، راوی کہتے ہیں میں نے حضرت عمرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا : ہاں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 190 مطبوعہ لاہور،چشتی)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمن بن احمد بن رجب بغدادی حنبلی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں : تشیر عائشۃ رضی اللہ عنہا الی ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یرخص فی بعض ما یرخص فیہ حیث لم یکن فی زمنہ فساد ،ثم یطرء الفساد ویحدث بعدہ ،فلو أدرک ما حدث بعدہ لما استمر علی الرخصۃ ،بل نھی عنہ ،فانہ انما یأمر بالصلاح وینھی عن الفساد ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس طرف اشارہ فرما رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعض چیزوں میں اس لیے رخصت عطا فرماتے تھے کہ ان کے زمانے میں فساد نہیں تھا ، پھر فساد طاری ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کے بعد پیدا ہوا ، تو اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اس فساد کے زمانے کو پاتے ، تو رخصت برقرار نہ رکھتے ، بلکہ اس سے منع فرما دیتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصلاح والا حکم ارشاد فرماتے اور فساد سے منع فرماتےتھے ۔ (فتح الباری لابن رجب حنبلی ،جلد5،صفحہ308،مطبوعہ ریاض،چشتی)
محیط برہانی میں ہے : عن عمر رضی اللہ عنہ :ا نہ نھی النساء عن الخروج الی المساجد ،فشکون الی عائشۃ رضی اللہ عنہا ، فقالت عائشۃ رضی اللہ عنہا : لو علم النبی علیہ السلام ما علم عمر ما أذن لکم فی الخروج ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمایا ، تو عورتوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : جو عمر جانتے ہیں اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی یہ دیکھتے ، تو تمہیں مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ (محیط برھانی جلد 2 صفحہ 102 مطبوعہ بیروت)
متعہ قرآن و حدیث اور دیگر مستند دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَمَنۡ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنۡکُمْ طَوْلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتْ اَیۡمٰنُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ؕ وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیۡمٰنِکُمْ ؕ بَعْضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذْنِ اَہۡلِہِنَّ وَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالْمَعْرُوۡفِ مُحْصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیۡنَ بِفٰحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ ؕ وَ اَنۡ تَصْبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ۔ (سورہ النّساء آیت نمبر 25)
ترجمہ : اور تم میں بے مقدوری کے باعث جن کے نکاح میں آزاد عورتیں ایمان والیاں نہ ہوں تو ان سے نکاح کرے جو تمہارے ہاتھ کی مِلک ہیں ایمان والی کنیزیں اور اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم میں ایک دوسرے سے ہے تو ان سے نکاح کرو ان کے مالکوں کی اجازت سے اور حسبِ دستور ان کے مہر انہیں دو قید میں آتیاں نہ مستی نکالتی اور نہ یار بناتی جب وہ قید میں آجائیں پھر برا کام کریں تو ان پر اس سزا کی آدھی ہے جو آزاد عورتوں پر ہے یہ اس کےلیے جسے تم میں سے زنا کا اندیشہ ہے اور صبر کرنا تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
جو شخص آزاد عورت سے نکا ح کی قدرت اور وسعت نہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کسی مسلمان کی مومِنہ کنیز سے اس کے مالک کی اجازت کے ساتھ نکاح کر لے ۔ اپنی کنیز سے نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مالک کے لئے نکاح کے بغیر ہی حلال ہے ۔ (تفسیر خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱/۳۶۷)
(1) جو شخص آزاد عورت سے نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے بھی مسلمان کنیز سے نکاح کرنا جائز ہے البتہ اگر آزاد عورت نکاح میں ہو تو اب باندی سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ (تفسیر خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۱/۳۶۸)
(2) احناف کے نزدیک کِتابِیَہ لونڈی سے نکاح بھی کر سکتا ہے جبکہ مومنہ کنیز کے ساتھ مستحب ہے ۔ (تفسیر مدارک، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۲۲۲)
وَاللہُ اَعْلَمُ بِاِیۡمٰنِکُمْ : اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے ۔ اہلِ عرب اپنے نسب پر فخر کرتے اور لونڈیوں سے نکا ح کو باعث ِعار سمجھتے تھے، ان کے اس خیال کی تردید کی گئی کہ نسب میں تم سب برابر ہو کہ سبھی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد ہو لہٰذا لونڈیوں سے نکاح کرنا باعثِ شرم نہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ تم سب ایمان میں مُشْتَرَک ہو کہ تمہارا دین اسلام ہے اور ایمان والا ہونا بڑی فضیلت کا حامل ہے بلکہ فضیلت کا دارومدار تو ایمان اور تقویٰ پر ہے اس لیے جب لونڈیوں سے نکاح کی حاجت ہو تو شرماؤ نہیں ، ان کا ایمان والا ہونا کافی ہے ۔ (تفسیرکبیر، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۴/۴۹)(تفسی جمل، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲/۳۹)
فَاِنْ اَتَیۡنَ بِفٰحِشَۃٍ : تو اگر وہ کسی بے حیائی کا اِرْتِکاب کریں ۔ نکاح کے بعد اگر لونڈی زنا کرے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اس کی سزا آدھی ہے یعنی آزاد کنواری عورت زنا میں مُلَوَّث ہو تو اس کی سزا سو کوڑے ہے اور لونڈی کی سزا اس سے آدھی یعنی پچاس کوڑے ہے۔ لونڈی چاہے کنواری ہو یا شادی شدہ اس کی سزا پچاس کوڑے ہی ہے ، شادی شدہ لونڈی کو آزاد عورت کی طرح رَجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ رجم میں تَنصِیف یعنی اس سزا کو آدھا کرنا ممکن نہیں ۔ (تفسیر قرطبی ، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳/۱۰۲، الجزء الخامس،چشتی)
آزاد عورت کی بجائے باندی سے نکاح کرنا اس شخص کےلیے مناسب ہے جسے غلبۂ شہوت کی وجہ سے زنا میں پڑجانے کا ڈر ہو اور اگر وہ اس خوف کے با وجود صبر کرے اور پرہیز گار رہے تو یہ بہتر ہے اور جہاں تک ممکن ہو لونڈی سے نکاح نہ کرے کیونکہ کنیز سے نکاح کرنے کی صورت میں جو اولاد ہو گی وہ اس کے مالک کی غلام بنے گی اور لونڈی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شوہر کی خدمت کے لئے بھی نہ آ سکے گی ۔ (بیضاوی، النساء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲/۱۷۴)
پھر اگر صبر نہیں کر سکتا تو لونڈی سے نکاح کر لے ۔ یاد رہے کہ فی زمانہ بین الاقوامی طور پر مرد کو غلام اور عورت کو لونڈی بنانے کا قانون ختم ہو چکا ہے۔
مرد کےلیے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کےلیے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے ۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے ۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کا نکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کےلیے نکاح کرنا حرام ہے۔ (بہار شریعت، حصہ ہفتم، ۲/۴-۵)
عورت کےلیے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر مَعَاذَ اللہ گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو ، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کےلیے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۲/ ۲۹۱ - ۲۹۳)
رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں : ⏬
شیعی دلیل نمبر 1: اللہ کا فرمان ہے : فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ ۔ (سورہ النساء:24)
ترجمہ : جن عورتوں سے تم شرعی نکاح کر کے جماع وغیرہ کافائدہ حاصل کرنا چاہو تو انہیں ان کے مقرر کردہ مہر ادا کرو ۔
یاد رہے کہ اسلام میں عورت سے نفع اٹھانے کی صرف دو صورتیں جائز ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان کی گئی ہیں : (1) شرعی نکاح کے ذریعے ۔ (2) عورت جس صورت میں لونڈی بن جائے ۔ لہٰذا اس کے علاوہ ہر صورت حرام ہے ۔ شروعِ اسلام میں کچھ وقت کےلیے نکاح سے کچھ ملتا جلتا معاہدہ کرکے فائدہ اٹھانے کی اجازت تھی لیکن بعد میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اسے قیامت تک کےلیے حرام فرما دیا ۔ جیسا کہ حضرت سَبُرَہ جُہَنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے (متعہ کی صورت میں) نفع اٹھانے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کےلیے حرام کر دیا ہے تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو ۔ (صحیح مسلم ، کتاب النکاح، باب نکاح المتعۃ وبیان انّہ ابیح ثمّ نسخ۔۔۔ الخ، ص۷۲۹، الحدیث: ۲۱(۱۴۰۶)،چشتی)
حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے متعہ سے منع فرما دیا ۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح، باب ما جاء فی نکاح المتعۃ، ۲/۳۶۵، الحدیث: ۱۱۲۴)
شیعوں کا کہنا ہے کہ : اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے ، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے ۔
دلیل نمبر 1 کا رد : پہلی بات تو یہ کہ اللہ عزّوجل نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ، جبکہ اِس آیت میں مرد کےلیے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ عزّ و جل نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے ... مزید یہ کہ اللہ عزّوجل نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے ، اور حدیث مبارکہ میں بھی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے ... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں ۔
دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ عزّ و جل نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے ، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے ، اللہ عزّ و جل نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے : یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" ۔ (سورہ الأحزاب 50)
ترجمہ : اے غیب بتانے والے (نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ) ہم نے تمہارے لیے حلال فرمائیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم مہر دو ۔
اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا ، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے ۔
تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کےلیے اللہ عزّ و جل نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے ۔
شیعہ کی دلیل نمبر 2 : بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں ۔
دلیل نمبر 2 کا رد : روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں ۔ ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں ۔ یعنی کہ میٹھا میٹھا ھپ ، کڑوا کڑوا تھو ۔ رہی بات ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لیے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا ۔ جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ : اے ابن عباس رضی اللہ عنہما ذرا ٹھہرو بلا شبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1407،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں ۔ جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے ۔ فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے : ⏬
دلائل قرآن سے : (سورۃ النساء آیت نمبر 25)(سورۃ النور آیت نمبر 33) اور دیگر دوسری آیات ۔
دلائل سنت مطہرہ سے : (صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407)(صحيح مسلم 1406)(تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154)(ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318،چشتی)(صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022)(صحيح مسلم 1405)(صحيح بخاری 4216)(صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154)(صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400)
حضرت زید بن علی اپنے آباء رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے پالتو گدھوں کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام کردیا ۔ (الاستبصار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 149 دارالتعارف بیروت لبنان)،(تہذیب الاحکام جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 351)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنِ المُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے غزوہ خیبر کے دنوں میں متُعہ کرنے (تھوڑی مدت کےلیے نکاح کرنے) اور پالتوں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا ۔ (بخاري، کتاب النکاح، باب نهي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عن نكاح المتعة، ۵، 5: 1966، رقم: 4825، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة،چشتی)
مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (أحمد بن حنبل، مسند، 2: 189، رقم، 812)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب نهی عن المتعة، 1: 630، رقم: 1961،چشتی)
متعہ کی تحریم اور گدھے کی تحریم ایک ہی دن وارد ہوئی ہے ۔ جب گدھے کا گوشت خیبر کے دن سے آج تک حرام چلا آ رہا ہے اور قیامت تک کےلیے حرام ہی رہے گا تو متعہ کا صرف خیبر کے دن ہی حرام ہونا فقط ایک دعوی ہے جس کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے ۔ اور یہ دعوی اس وقت بلکل ہی باطل ہو جاتا ہے جب اس کے ساتھ ایک قرینہ یہ بھی مل جاتا ہے کہ گھریلو گدھوں کے گوشت بھی خیبر ہی کے دن حرام کیا گیا تھا ۔ اگر اس کی حرمت صرف خیبر کے دن تک ہی محدود ہوتی تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے صراحت کے ساتھ اس کی حرمت کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ہمیں متعہ کے جائز ہونے کی علت کا بھی علم ہونا چاہیے تھا کہ یہ سفر اور جنگ میں جائز ہوتا تھا کیونکہ انسان اس وقت اپنی بیوی اور لونڈی سے دور ہوتا ہے ، لہٰذا ان حالات میں متعہ کی زیادہ ضرورت پیش آتی تھی ۔ لیکن خیبر کے دن جب حالت جنگ میں بلکہ میدان جنگ میں متعہ حرام کیا گیا ہے تو حالت امن میں کیونکر جائز ہو سکتا ہے ؟ دراصل حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے متعہ کے حرمت کی ابتداء خیبر کے دن سے ہوئی ہے ۔ جہاں تک شیعہ کی حیلہ سازی اور تقیہ بازی کا مسلئہ ہے ، یہ حضرات قرآن و سنت کی اکثر و بیشتر نصوص کو بازیچہ اطفال ہی سمجھتے ہیں ۔ حق بات یہ ہے کہ متعہ کی حرمت اور گدھے کی حرمت دونوں یکساں حکم رکھتے ہیں ، یعنی دونوں کی حرمت کا حکم خیبر کے دن نازل ہوا تھا جو قیامت تک باقی رہے گا ۔ لہٰذا نفس پرستی ، شہوت رانی اور لذت اندوزی کی غرض سے دین کے نام پر حسین و جمیل عورتوں سے متعہ کےلیے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول کی تاویل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے ، اور جہاں تک ابوعبد الله کے جواب کو تقیہ کہنے کا تعلق ہے تو یہ بات ذہین نشین رہنی چاہئے کہ سائل خود شیعہ تھا ، اس سے تقیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ ابوعبد الله کا فتویٰ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے قول سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔ دراصل متعہ کو جائز قرار دے کر شیعہ نے ایک مرد کو یہ حق عنایت کر دیا ہے کہ وہ لاتعداد عورتوں سے تعلقات قائم رکھ سکتا ہے خواہ یہ عورتیں تعداد میں ہزار ہی تک کیوں نہ پہنچ جائیں ۔ متعہ کرنے والے کتنے ہی حضرات ہیں جنہوں نے ایک ہی دفع ماں اور اس کی بیٹی سے ، عورت اور اس کی بہن سے ، بھانجی اور اس کی خالہ سے یا بھتیجی اور اس کی چچی سے منہ کالا کیا ۔
نکاح متعہ دور جاہلیت کے نکاحوں میں سے ایک نکاح ہے ، یہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا لیکن اسے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دے دیا تھا اور پھر فتح مکہ کے موقع پر اس میں رخصت دی گئی جبکہ وہیں پر پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح متعہ کو قیامت تک کےلیے حرام قرار دے دیا تھا جس کا ثبوت بہت سی احادیث مبارکہ سے ملتا ہے لیکن ذیل میں چند احادیث مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں تاکہ اصل مسئلہ کھل کر سامنے آ جائے ۔ کسی خاص و مقرر وقت کےلیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے اور متعہ حرام ہے جس کی حرمت صحیح احادیث سے ثابت ہے : ⏬
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا کہ : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنِ المُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دنوں میں متُعہ کرنے (تھوڑی مدت کےلیے نکاح کرنے) اور پالتوں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب نهي رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عن نكاح المتعة جلد 5 :صفحہ 1966 رقم : 4825 بیروت لبنان دار ابن کثیر الیمامة)
صحیح مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : يا أيها الناس ، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء ، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة ، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله ، ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا ۔
ترجمہ : اے لوگو ! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور (اب) اللہ نے اس کو قیامت کے دن تک کےلیے حرام کر دیا ہے ۔ تو جس کے پاس متعہ کرنے والیوں میں سے کوئی عورت ہو وہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ مال ان کو دیا ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے ۔ (صحیح مسلم کتاب النکاح باب نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ الخ ۔ جلد 2 صفحہ 1025 مطبوعہ دار إحياء التراث العربي بيروت،چشتی)
اور مسند احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنِ الْمُتْعَةِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (أحمد بن حنبل مسند جلد 2 صفحہ 189 رقم : 812)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ ۔
ترجمہ : کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھے کے گوشت کی ممانعت فرمائی تھی ۔ (سنن ابن ماجه کتاب النکاح باب نهی عن المتعة جلد 1 صفحہ 630 رقم : 1961)
اور حضرت ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ وَقَالَ: أَلَا إِنَّهَا حَرَامٌ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كَانَ أَعْطَى شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ ۔
ترجمہ : کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعہ کی ممانعت کر دی اور فرمایا سنو ! آج سے قیامت تک کےلیے متعہ حرام ہے ، اور جس شخص نے متعہ کے عوض کچھ دیا ہے وہ اس میں سے واپس نہ لے ۔ (صحیح مسلم کتاب النکاح باب نكاح المتعة وبيان أنه أبيح ثم نسخ ثم أبيح ثم نسخ و استقر تحريمه إلى يوم القيامة جلد 2 صفحہ 1027 رقم : 1406 بیروت دار احیاء التراث العربی،چشتی)
حجۃ الوداع کے موقع پر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے حرام قرار دے دیا جیسا کہ حضرت ربیع بن سبرہ جہنی روایت بیان کرتے ہیں : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْعُزْبَةَ قَدِ اشْتَدَّتْ عَلَيْنَا، قَالَ: فَاسْتَمْتِعُوا مِنْ هَذِهِ النِّسَاءِ، فَأَتَيْنَاهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْكِحْنَنَا إِلَّا أَنْ نَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم ، فَقَالَ: اجْعَلُوا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُنَّ أَجَلًا، فَخَرَجْتُ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي، مَعَهُ بُرْدٌ وَمَعِي بُرْدٌ، وَبُرْدُهُ أَجْوَدُ مِنْ بُرْدِي، وَأَنَا أَشَبُّ مِنْهُ، فَأَتَيْنَا عَلَى امْرَأَةٍ، فَقَالَتْ: بُرْدٌ كَبُرْدٍ، فَتَزَوَّجْتُهَا، فَمَكَثْتُ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ غَدَوْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَائِمٌ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْبَابِ، وَهُوَ يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ، أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخْلِ سَبِيلَهَا، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا ۔
ترجمہ : ہم حجۃ الوداع میں کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گئے، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجرو ہمیں گراں لگنے لگا ہے ۔ آپ نے فرمایا ان عورتوں سے فائدہ حاصل کرو ، انہوں نے ہم سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا ، ہاں وقت معین تک نکاح کی خواہش کی ۔ ہم نے اس کا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان سے دن متعین کر لو ، میں اور میرا چچا زاد بھائی گئے ، میرے پاس ایک چادر تھی لیکن میرے بھائی کی چادر مجھ سے اچھی تھی اور میں اس سے زیادہ جوان تھا ، ہم ایک عورت کے پاس گئے ، وہ بولی چادر چادر سب برابر ہے ، میں نے اس سے نکاح کر لیا اور اس کے پاس اس رات ٹھہرا ۔ جب صبح ہوئی تو کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرِ اسود اور دروازہ کے درمیان کھڑے فرما رہے تھے اے لوگو ! میں نے تمہیں متعہ کی اجازت دی تھی لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسے تا قیامت حرام فرما دیا ہے اور جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو اسے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لیا جائے ۔ (سنن ابن ماجه کتاب النکاح باب نهی عن المتعة جلد 1 صفحہ 630 رقم : 1962،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کے ساتھ غزوہ تبوک میں گئے ہم تنیۃ الوداع پر اترے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چراغوں کو دیکھا اور عورتوں کو روتے ہوئے دیکھا آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ جن عورتوں سے متعہ کیا گیا تھا وہ رو رہی ہیں آپ نے فرمایا نکاح ‘ طلاق ‘ عدت اور میراث نے متعہ کو حرام کر دیا ۔ (مسند ابو یعلی ‘ رقم الحدیث : ٦٥٩٤‘ مؤسسۃ علوم القرآن بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ)
کیونکہ متعہ میں نہ طلاق ہوتی ہے نہ عدت اور نہ میراث ‘ نہ اس کو نکاح کہا جاتا ہے بلکہ اس میں عورت کا نان نفقہ بھی واجب نہیں ہوتا جیسا کہ کتب شیعہ سے باحوالہ گزر چکا ہے اور نہ متعہ والی عورت پر بیوی کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں بیویوں کی وارثت بیان کی گئی ہے اور متعہ والی عورت وارث نہیں ہوتی ۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی مؤمل بن اسماعیل ہے امام بخاری نے اس کو ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین اور ابن حبان نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اس کی سند کے باقی راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں ۔
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم باہر گئے اور ہمارے ساتھ وہ عورتیں تھیں جن کے ساتھ ہم نے متعہ کیا تھا جب ہم ثنیۃ الرکاب پر پہنچے تو ہم نے کہا یا رسول اللہ یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ہم نے متعہ کیا تھا آپ نے فرمایا یہ قیامت تک کے لئے حرام کردی گئی ہیں ۔ (المعجم الاوسط : ٩٤٢‘ مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض۔ ١٤١٦ ھ)
اس حدیث کی سند میں ایک راوی صدقہ بن عبداللہ ہے۔ امام احمد نے اس کو ضعیف کہا ہے اور امام ابو حاتم نے اس کو ثقہ کہا ہے اور اس کے باقی راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں ۔
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا آپ نے متعہ کے جواز کا کیسا فتوی دیا ہے ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ‘ (آیت) ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ خدا کی قسم میں نے یہ فتوی نہیں دیا اور نہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا میں نے اسی صورت میں متعہ کو حلال کہا ہے جس صورت میں اللہ نے مردار ‘ خون اور خنزیر کے گوشت کو حلال فرمایا ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ١٠٦٠١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
اس حدیث کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ثقہ ہے لیکن وہ مدلس ہے اور اس کے باقی راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں ۔
امام ابوبکرعبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥‘ ھ روایت کرتے ہیں :
ربیع بن مرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : سنو ! اے لوگو ! میں نے تم کو متعہ کرنے کی اجازت دی تھی سنو اب اللہ نے متعہ کو قیامت تک کےلیے حرام کر دیا ہے ‘ سو جس شخص کے پاس ان میں سے کوئی عورت ہے اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ اس کو دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے ۔ سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے اگر وہ متعہ کی حرمت نہ بیان کرتے تو علی الاعلان زنا ہوتا ۔ حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا سنو متعہ زنا ہے ۔ (المصنف ج ٢۔ ٤ ص ٢٩٣۔ ٢٩٢ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)
امام عبدالرزاق بن ہمام ٢١١ ھ روایت کرتے ہیں : ابن ابی عمرۃ انصاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کے متعہ کے متعلق فتوی کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا میں نے امام المتقین کے ساتھ متعہ کیا ہے ‘ ابن ابی عمرہ نے کہا اللہ معاف فرمائے متعہ ضرورت کی بناء پر رخصت تھا جیسے ضرورت کے وقت مردار خون اور خنزیر کے گوشت کی رخصت ہوتی ہے ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٣٣،چشتی)
ربیع بن سبرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے متعہ کو حرام کردیا ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٣٤)
معمر اور حسن بیان کرتے ہیں کہ عمرۃ القضاء کے موقع پر صرف تین دن کے لئے متعہ حلال ہوا تھا اس سے پہلے حلال ہوا تھا نہ اس کے بعد ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤٠‘ سنن سعید بن منصور ‘ رقم الحدیث : ٨٣٢)
ربیع بن سبرہ والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجۃ الوداع کےلیے مدینہ سے روانہ ہوئے جب آپ مقام عسفان پر پہنچے تو آپ نے فرمایا عمرہ حج میں داخل ہو گیا ۔ سراقہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ دائما ‘ ہے ؟ آپ نے فرمایا ‘ ہے ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کے درمیان طواف کیا پھر پھر آپ نے ہم کو عورتوں سے متعہ کرنے کا حکم دیا ہم نے کہا ہم اس کو مدت معین کے لئے کریں گے آپ نے فرمایا کرو ‘ میں اور میرا ایک ساتھی باہر نکلے ہم دونوں کے پاس ایک ایک چادر تھی ہم دونوں ایک عورت کے پاس گئے اور ہم دونوں نے اپنے آپ کو اس پر پیش کیا اس نے میرے ساتھی کی چادر کی طرف دیکھا تو وہ میری چادر سے زیادہ نئی تھی اور میری طرف دیکھا تو میں اس سے زیادہ جوان تھا بالآخر اس نے مجھ کو پسند کرلیا اور میں نے اپنی چادر کے عوض اس سے متعہ کرلیا میں اس کے ساتھ اس رات کو رہا جب صبح کو میں مسجد کی طرف گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے جس شخص نے کسی عورت کے ساتھ مدت معین کے لئے متعہ کیا ہے تو وہ اس کو طے شدہ چیز دے دے اور جو اس کو دے رکھا ہے اس سے واپس نہ لے اور اس سے الگ ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کےلیے متعہ حرام کردیا ہے ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤١‘ سنن کبری للبیہقی جلد ٧ صفحہ ٢٠٣،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے متعہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ زنا ہے ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤٢)
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ متعہ صرف تین دن ہوا پھر اللہ عزوجل اور اس کے رسول نے اس کو حرام کر دیا ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤٣)(سنن کبری للبیہقی جلد ٧ صفحہ ٢٠٧)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : متعہ کو طلاق ‘ عدت اور میراث نے منسوخ کر دیا ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤٤)(سنن کبری للبیہقی جلد ٧ صفحہ ٢٠٧)
حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا رمضان نے ہر روزہ کو منسوخ کر دیا ‘ زکوۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کر دیا ، اور طلاق ‘ عدت اور میراث نے متعہ کو منسوخ کر دیا ۔ (المنصف ‘ رقم الحدیث : ١٤٠٤٦)(سنن کبری للبیہقی جلد ٧ صفحہ ٢٠٧)(مواردالظمآن صفحہ ٣٠٩)
احادیث شیعہ سے حرمت متعہ پر دلائل : ⏬
زید بن علی اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہم نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام کردیا ۔ (شیعہ کتب : تہذیب الاحکام جلد ٧ صفحہ ٣٥١)(الاستبصار جلد ٣ صفحہ ١٤٢ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ تہران)
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب خیبر کے دن متعہ حرام کردیا گیا تھا تو پھر فتح مکہ کے موقع پر متعہ کیوں ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ متعہ خیبر کے دن ہی حرام کردیا گیا تھا فتح مکہ کے موقع پر ضرورت کی وجہ سے تین دن کےلیے عارضی رخصت دی گئی اور پھر اس کو دائماً حرام کر دیا گیا اور حجۃ الوداع کے موقع پر تاکیداً اس کی حرامت کو دہرایا گیا جیسے اور کئی حرام کاموں کی حرمت کو اس موقع پر بیان کیا گیا ۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ نکاح متعہ کی دو مواقع پر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رخصت دی مگر پھر اپنی زندگی میں ہی فتح مکہ کے موقع پر اسے تاقیامت حرام قرار دے دیا تھا ۔
کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب : ⏬
غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔
غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔
سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے ۔
شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں ۔ غیر مقلدین کی اطلاع کےلیے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن باز کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا ۔ علامہ ابن باز کا یہ فتوی ان کی کتاب ـ (مقالات و فتاوی ابن باز جلد 4 صفحہ 30)(مسائل امام ابن باز جلد 1 صفحہ 185) پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔
علامہ ابن باز کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے ۔
امام نووی الشافعی علیہ الرحمہ کہتے ہیں : وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور ۔
ترجمہ : اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے ۔ (کتاب المنہاج شرح مسلم جلد 9 صفحہ 182،چشتی)
امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی علیہ الرحمہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به ۔
ترجمہ : اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (المغنی جلد 7 صفحہ 573 )
سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں : ⏬
[شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
[شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے (ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے) ۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے ۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے ، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں ، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے ، اور یہ اہل علم کی رائے ہے ۔ (مقالات و فتاوی ابن باز جلد 4 صفحہ 30)(مسائل امام ابن باز جلد 1 صفحہ 185)(فتاوی اسلامیہ جلد 3 صفحہ 264)
غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابق کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے ۔
اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے ۔
کیا غیر مقلدین علامہ ابن باز علامہ البانی اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟
یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ؟
متعہ کے جواز پر شیعہ علماء کے دلائل اور ان کا جواب : ⏬
مشہور شیعہ مفسر ابو علی فضل بن الحسن الطبرسی من القرن السادس لکھتا ہے : اس آیت سے مراد نکاح المتعہ ہے اور یہ وہ نکاح ہے جو مہر معین سے مدت معین کےلیے کیا جاتا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘ سدی ‘ ابن سعید اور تابعین کی ایک جماعت سے یہی مروی ہے ‘ اور ہمارے اصحاب امامیہ کا یہی مذہب ہے اور یہی واضح ہے کیونکہ لفظ استمتاع اور تمتع کا لفظی معنی نفع اور لذت حاصل کرنا ہے لیکن عرف شرع میں وہ اس عقد معین کے ساتھ مخصوص ہے ۔ خصوصا جب اس لفظ کی عورتوں کی طرف اضافت ہو اس بناء پر اس آیت کا یہ معنی ہوگا جب تم ان سے متع کرلو تو ان کو اس کی اجرت دے دو ‘ اور اس کو اس کی اجرت دے دو ‘ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماع کے بعد مہر کو واجب نہیں کیا بلکہ متعہ کے بعد مہر کو واجب کیا ہے اور حضرت ابی بن کعب ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی اس طرح قرات کی ہے : فما استمتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن ۔
ترجمہ : جب تم نے مدت معین تک ان سے استمتاع (متعہ) کیا تو ان کو ان کی اجرت (مہر) دے دو ۔
اور اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ اس آیت میں آیت میں استمتاع سے مراد عقد متعہ ہے ۔
حکم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ سے منع نہیں کرتے تو کسی بدبخت کے سوا کوئی زنا نہیں کرتا ‘ اور عطا نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں متعہ کیا ہے ۔ نیز اس آیت میں لفظ استمتاع سے مراد متعہ ہے نہ کہ جماع اور انتفاع ‘ اس پر دلیل یہ ہے کہ اگر اس آیت کا یہ معنی ہو کہ جن عورتوں سے تم مہر کے عوض لذت حاصل کی یعنی جماع کیا ہے تو ان کو ان کا مہر ادا کردو تو اس سے لازم آئے گا کہ بغیر جماع کے مہر واجب نہ ہو ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ غیر مدخولہ کا بھی نصف مہر واجب ہوتا ہے ۔ اس پر مزید تائید یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں دو متعہ (متعہ نکاح اور تمتع بالحج) حلال تھے اور میں ان سے منع کرتا ہوں اور تمتع بالحج بالاتفاق منسوخ نہیں ہے تو پھر تمتع بالنکاح بھی منسوخ نہیں ہوگا۔ (مجمع البیان ج 3 ص ‘ 53۔ 52 مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ‘ ایران ‘ 1411 ھ،چشتی)
شیعہ کے نزدیک متعہ کے فقہی احکام : ⏬
شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی متوفی 329 ھ روایت کرتا ہے : ابو عمیر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی میں اتنے پیسوں کے عوض اتنے دنوں کےلیے تم سے متعہ کرتا ہوں ‘ جب وہ ایام گزر جائیں گے تو اس کو طلاق ہوجائے گی اور اس کی کوئی عدت نہیں ہے ۔ (الفروع من الکافی ج 5 ص 456‘ 455‘ مطبوعہ درالکتب الاسلامیہ تہران ‘ 1326 ھ)
شیعہ محقق ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی 460 ھ روایت کرتا ہے : منصور صیقل بیان کرتے ہیں کہ ابوعبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ (الاستبصار ج 3 ص 144‘ مطبوعہ دارالاسلامیہ طہران ‘ 1365 ھ)
زرارہ کہتے ہیں کہ ابوعبد اللہ (علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ کیا متعہ صرف چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے ؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو ۔ (الاستبصارج 3 ص 147)
عمر بن حنظہ بیان کرتے ہیں کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی ۔ (الاستبصارج 3 ص 153،چشتی)
شیعہ محققِ اعظم ابو جعفر محمد بن علی بن حسین قمی متوفی 381 ھ لکھتا ہے : محمد بن نعمان نے ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے پوچھا کم از کم کتنی چیز کے عوض متعہ ہوسکتا ہے انہوں نے کہا دو مٹھی گندم سے ۔ تم اس سے کہو کہ میں تم سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق متعہ کرتا ہوں تو نکاح ہے زنا نہیں ہے اس شرط پر کہ نہ میں تمہارا وارث ہوں اور نہ تم میری وارث ہو ‘ نہ میں تم سے اولاد کا مطالبہ کروں گا ‘ یہ نکاح ایک مدت متعین تک ہے پھر اگر میں نے چاہا تو میں اس مدت میں اضافہ کر دوں گا اور تم بھی اضافہ کردینا ۔ (من لایحضرہ الفقیہہ ج 3 ص 249‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ تہران ‘ 1361 ھ)
شیعوں کا امام روح اللہ خمینی متعہ کے احکام بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے : ⏬
(2421) متعہ والی عورت اگرچہ حاملہ ہوجائے خرچ کا حق نہیں رکھتی ۔
(2422) متعہ والی عورت (چار راتوں میں سے ایک رات) ایک بستر پر سونے اور شوہر سے ارث پانے اور شوہر بھی اس کا وارث بننے کا حق نہیں رکھتا ۔
(2423) متعہ والی عورت کو اگرچہ علم نہ ہو کہ وہ اخراجات اور اکٹھا سونے کا حق نہیں رکھتی تب بھی اس کا عقد صحیح ہے اور نہ جاننے کی وجہ سے بھی شوہر پر کوئی حق نہیں رکھتی ۔ (توضیح المسائل اردو ‘ 369‘ 368‘ مطبوعہ سازمان تبلیغات)
شیعیوں کے جواز متعہ پر دلائل کے جوابات درج ذیل ہیں : ⏬
علماء شیعہ نے ” الی اجل مسمی “ کی قرات سے متعہ کے جواز پر جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ قرات شاذہ ہے قرآن مجید کی جو قرات متواتر ہے حتی کہ شیعہ کے قرآن میں بھی جو قرات مذکورہ ہے اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں اس لیے قرات متواترہ کے مقابلہ میں اس قرات سے استدلال درست نہیں ہے ۔ اس پر اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر جنگ خیبر کے موقعہ پر متعہ کو حرام کر دیا گیا ‘ پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کےلیے متعہ حلال کیا گیا تھا اور اس کے بعد اس کو دائماً حرام کر دیا گیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما متعہ کے جواز کے قائل تھے لیکن اخیر عمر میں انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا اور جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ نے متعہ کے جواز کا فتوی دیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا میں نے یہ فتوی نہیں دیا میرے نزدیک متعہ خون ‘ مردار اور خنزیر کی طرح حرام ہے اور یہ صرف اضطرار کے وقت حلال ہے ‘ یعنی جب نکاح کرنا ممکن نہ ہو اور انسان کو غلبہ شہوت کی وجہ سے زنا کا خطرہ ہو ‘ لیکن اخیر عمر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے بھی رجوع کر لیا اور یہ جو بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں متعہ کیا جاتا تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کر دیا اس کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں تک متعہ کی حرمت نہیں پہنچی تھی وہ متعہ کرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو تبلیغ کر دی تو وہ متعہ سے باز آ گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ کو حرام نہیں کیا نہ یہ ان کا منصب ہے انہوں نے صرف متعہ کی حرمت بیان کی ہے جیسے اور دیگر احکام شرعیہ بیان کیے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ سے منع نہ کرتے تو کوئی بدبخت ہی زنا کرتا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ متعہ کی حرمت کو قرآن اور حدیث سے واضح نہ کرتے اور متعہ کی ممانعت پر سختی سے عمل نہ کراتے تو زنا بالکل ختم ہو جاتا ۔
صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت جابر ‘ حضرت سلمہ بن اکوع اور حضرت بہرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہم سے اباحت متعہ کے متعلق احادیث ہیں ۔ لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وطن میں متعہ کی اجازت دی گئی ہو ‘ ان تمام احادیث میں یہ مذکور ہے کہ سفر میں متعہ کی اجازت دی گئی تھی۔ جہاں ان صحابہ کی بیویاں نہیں تھیں جب کہ وہ گرم علاقے تھے اور عورتوں کے بغیر ان کا رہنا مشکل تھا ۔ اس وجہ سے جہاد کے موقعہ پر ضرورتا متعہ کی اجازت دی گئی حضرت ابن ابی عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ تصریح ہے کہ ابتداء اسلام میں ضرورت کی بناء پر متعہ کی اجازت تھی جیسے ضرورت کے وقت مردار کا کھانا مباح ہوتا ہے فتح مکہ کے موقع پر متعہ کو قیامت تک کے لئے حرام کردیا گیا اور حجۃ الوداع کے موقع پر تاکیدا اس تحریم کو دہرایا گیا ہم ان تمام امور پر باحوالہ احادیث پیش کریں گے ۔
شیخ طبرسی نے لکھا ہے کہ اگر اس آیت کا یہ معنی ہو کہ جن عورتوں سے تم نے مہر کے عوض لذت حاصل کی یعنی جماع کیا ہے تو انکا مہر ادا کردو ‘ تو اس سے لازم آئے گا کہ بغیر جماع کے مہر واجب نہ ہو ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ غیر مدخولہ کا بھی نصف مہر واجب ہوتا ہے ‘ یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں حصر کا کوئی لفظ نہیں ہے کہ تم صرف اسی عورت کا مہرادا کرو جس سے تم نے جماع کیا ہو ۔
حرمت متعہ پر قرآن مجید سے دلائل : ⏬
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ وما ملکت ایمانکم ۔ (سورہ النساء : 3)
ترجمہ : جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو ‘ دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفاء کرو ۔
یہ آیت سورة نساء سے لی گئی ہے جو مدنی سورت ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں کہ وہ ایک سے چار تک نکاح کرسکتے ہیں ‘ اور اگر ان میں عدل قائم نہ رکھ سکیں تو پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کرسکتے ہیں اور بس ! اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر فرما دیتا اور اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا ہی اس بات کا بیان ہے کہ وہ جائز نہیں ہے۔ اوائل اسلام سے لے کر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمولی اور مباح تھی اس آیت کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا گیا ۔
شیعہ حضرات کو اگر شبہ ہو کہ اس آیت میں لفظ نکاح متعہ کو بھی شامل ہے لہذا نکاح کے ساتھ متعہ کا جواز بھی ثابت ہوگیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کی حد صرف چار عورتوں تک ہے اور متعہ میں عورتوں کی تعداد کے لئے کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ نکاح اور متعہ دو الگ الگ حقیقتیں ہیں نکاح میں عقد دائمی ہوتا ہے اور متعہ میں عقد عارضی ہوتا ہے نکاح میں منکوحات کی تعداد محدود ہے اور متعہ میں ممنوعات کی کوئی حد نہیں۔ نکاح میں نفقہ ‘ سکنی ‘ نسب اور میراث لازم ہوتے ہیں اور ایلاء ظہار ‘ لعان اور طلاق عارض ہوتے ہیں اور متعہ میں ان میں سے کوئی امر لازم نہیں ہے نہ عارض۔ لہذا نکاح اور متعہ دو متضاد حقیقتیں ہیں اور نکاح سے متعہ کا ارادہ غیر معقول ہے ۔
ﺷﯿﻌﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺪﻻﻝ ﺑﺎﻃﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻭ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺣﻖ ﻣﮩﺮ ﭘﻮﺭﮦ ﺩﮮ ﺩﻭ ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻘﺮﮦ ﻣﯿﮟ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺩﮬﺎ ﻣﮩﺮ ﺩﮮ ﺩﻭ۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻭ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﺭﮦ ﺩﯾﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻤﻮﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻧﮑﺎﺡ ۔۔۔۔۔۔ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺧﺎﺹ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﮑﻞ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﺎﺹ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻃﺮﺡ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺑﺲ ﯾﮧ ﺍﯾﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ کےلیے ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﮯ
ﺷﯿﻌﮧ ﺑﺲ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﺘﻌﺘﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﺍﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﮩﻨﭽﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺍٓﯾﺖ ۲۳ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍٓﭖ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ۲۴ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺻﺮﻑ ﺷﮩﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮩﯿﻦ ﮨﻮ ﺍﺳﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺮﺩﯾﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺍٓﯾﺖ ﻣﺘﻌﮧ کےلیے ﮨﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮨﮯ : ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻭﻗﺘﻴﺒﺔ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻭﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺠﺮ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﻤﻌﻴﻞ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ ﺭﺑﻴﻌﺔ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﻴﺮﻳﺰ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻮ ﺻﺮﻣﺔ ﻋﻠﻰ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﻱ ﻓﺴﺄﻟﻪ ﺃﺑﻮ ﺻﺮﻣﺔ ﻓﻘﺎﻝ ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﻫﻞ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻳﺬﻛﺮ ﺍﻟﻌﺰﻝ ﻓﻘﺎﻝ ﻧﻌﻢ ﻏﺰﻭﻧﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻏﺰﻭﺓ ﺑﻠﻤﺼﻄﻠﻖ ﻓﺴﺒﻴﻨﺎ ﻛﺮﺍﺋﻢ ﺍﻟﻌﺮﺏ ﻓﻄﺎﻟﺖ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺍﻟﻌﺰﺑﺔ ﻭﺭﻏﺒﻨﺎ ﻓﻲ ﺍﻟﻔﺪﺍﺀ ﻓﺄﺭﺩﻧﺎ ﺃﻥ ﻧﺴﺘﻤﺘﻊ ﻭﻧﻌﺰﻝ ﻓﻘﻠﻨﺎ ﻧﻔﻌﻞ ﻭﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻴﻦ ﺃﻇﻬﺮﻧﺎ ﻻ ﻧﺴﺄﻟﻪ ﻓﺴﺄﻟﻨﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ ﻻ ﻋﻠﻴﻜﻢ ﺃﻥ ﻻ ﺗﻔﻌﻠﻮﺍ ﻣﺎ ﻛﺘﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ ﻧﺴﻤﺔ ﻫﻲ ﻛﺎﺋﻨﺔ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﺇﻻ ﺳﺘﻜﻮﻥ ۔
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺳﻌﯿﺪ ﺍﻟﺨﺪﺭﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﯽ ﻣﺼﻄﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﻋﻤﺪﮦ ﻋﻮﺭﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻗﯿﺪ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮐﻮ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺭﮨﻨﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻝ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﻔﺢ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻗﺮ ﻋﺰﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺣﻤﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻋﺰﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﻢ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺟﺲ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﻟﮑﮩﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮔﯽ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻨﮑﺎﺡ ﺑﺎﺏ ﺣﮑﻢ ﻋﺰﻝ،چشتی)
ﯾﮧ ﻋﺰﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﺘﺎﻉ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺟﻨﮓ ﮨﺎﺗﮫ ﺍٓﺋﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻟﻮﻧﮉﯾﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺣﻼﻝ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻊ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﯽ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﺴﻞ ﮐﺎ ﭼﻠﻨﺎ ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻓﻮﺍﺋﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﻮﺍﺀ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﻭﺭﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺑﻌﯿﺪ ﺍﺯ ﻗﯿﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻤﺘﻌﺘﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺑﻠﮑﻞ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮭﺎﮞ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ۔ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً (24 ) ۔ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ (ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ) ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻋﻔﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﻮ ﻧﮧ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﺟﻦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﺮ ﺟﻮ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﻭ ۔
ﯾﮩﺎﮞ دیکھیں ﺻﺎﻑ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ شہوت ﺭﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻘﺼﻮﮦ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﻄﻠﺐ ﺍﺱ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﺴﻞ ﮐﺎ ﭼﻠﻨﺎ ، ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺍٓﮔﮯ ﺍٓﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔
ﺷﯿﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺭﮦ ﻧﺴﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺍٓﯾﺖ ﺳﮯ ﭘﮭﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ذﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ؟
ﯾﮧ ﺑﻠﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 23 ﻣﯿﻦ ﮐﻦ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ 24 ﮐﺎ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ۔
ﺍٓﯾﺖ نمبر 23 میں ہے : ﺣُﺮِّﻣَﺖْ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﺃُﻣَّﻬَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺑَﻨَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺃَﺧَﻮَﺍﺗُﻜُﻢْ ﻭَﻋَﻤَّﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺧَﺎﻟَﺎﺗُﻜُﻢْ ﻭَﺑَﻨَﺎﺕُ ﺍﻟْﺄَﺥِ ﻭَﺑَﻨَﺎﺕُ ﺍﻟْﺄُﺧْﺖِ ﻭَﺃُﻣَّﻬَﺎﺗُﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﺃَﺭْﺿَﻌْﻨَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﺧَﻮَﺍﺗُﻜُﻢ ﻣِّﻦَ ﺍﻟﺮَّﺿَﺎﻋَﺔِ ﻭَﺃُﻣَّﻬَﺎﺕُ ۔ ﻧِﺴَﺎﺋِﻜُﻢْ ﻭَﺭَﺑَﺎﺋِﺒُﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﻓِﻲ ﺣُﺠُﻮﺭِﻛُﻢ ﻣِّﻦ ﻧِّﺴَﺎﺋِﻜُﻢُ ﺍﻟﻠَّﺎﺗِﻲ ﺩَﺧَﻠْﺘُﻢ ﺑِﻬِﻦَّ ﻓَﺈِﻥ ﻟَّﻢْ ﺗَﻜُﻮﻧُﻮﺍ ﺩَﺧَﻠْﺘُﻢ ﺑِﻬِﻦَّ ﻓَﻠَﺎ ﺟُﻨَﺎﺡَ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﻭَﺣَﻠَﺎﺋِﻞُ ﺃَﺑْﻨَﺎﺋِﻜُﻢُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻣِﻦْ ﺃَﺻْﻠَﺎﺑِﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻥ ﺗَﺠْﻤَﻌُﻮﺍ ﺑَﻴْﻦَ ﺍﻟْﺄُﺧْﺘَﻴْﻦِ ﺇِﻟَّﺎ ﻣَﺎ ﻗَﺪْ ﺳَﻠَﻒَ ۗ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻛَﺎﻥَ ﻏَﻔُﻮﺭًﺍ ﺭَّﺣِﻴﻤًﺎ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 23)
ترجمہ : تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تم کو دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی (دودھ شریک) بہنیں ‘ اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری ان بیویوں کی بیٹیاں جن سے تم صحبت کرچکے ہو، اور اگر تم نے ان بیویوں سے صحبت نہ کی ہو تو (ان کی بیٹیوں سے نکاح کرنے میں) تم پر کوئی گناہ نہیں ‘ اور تمہارے نسلی بیٹیوں کی بیویاں اور (تم پر حرم کیا گیا ہے) یہ کہ تم دو بہنوں کو (نکاح میں) جمع کرو مگر جو گذر چکا ‘ بیشک اللہ بہت بخشنے والا ‘ بےحد رحم فرمانے والا ہے ۔
ﻭَﺍﻟْﻤُﺤْﺼَﻨَﺎﺕُ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻨِّﺴَﺎﺀِ ﺇِﻟَّﺎ ﻣَﺎ ﻣَﻠَﻜَﺖْ ﺃَﻳْﻤَﺎﻧُﻜُﻢْ ۖ ﻛِﺘَﺎﺏَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ۚ ﻭَﺃُﺣِﻞَّ ﻟَﻜُﻢ ﻣَّﺎ ﻭَﺭَﺍﺀَ ﺫَٰﻟِﻜُﻢْ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ۚ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً ۚ ﻭَﻟَﺎ ﺟُﻨَﺎﺡَ ﻋَﻠَﻴْﻜُﻢْ ﻓِﻴﻤَﺎ ﺗَﺮَﺍﺿَﻴْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻦ ﺑَﻌْﺪِ ﺍﻟْﻔَﺮِﻳﻀَﺔِ ۚ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻛَﺎﻥَ ﻋَﻠِﻴﻤًﺎ ﺣَﻜِﻴﻤًﺎ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 24)
ترجمہ : اور (تم پر حرام کی گئی ہیں) وہ عورتیں تو دوسروں کے نکاح میں ہوں مگر (کافروں کی) جن عورتوں کے تم مالک بن جاؤ‘ یہ حکم تم پر اللہ کا فرض کیا ہوا ہے اور ان کے علاوہ سب عورتیں تم پر حلال کی گئی ہیں ‘ کہ تم اپنے مال (مہر) کے عوض ان کو طلب کرو ‘ درآں حالیکہ تم ان کو قلعہ نکاح کی حفاظت میں لانے والے ہو نہ کہ محض عیاشی کرنے والے ہو ‘ پھر جن عورتوں سے (نکاح کرکے) تم نے مہر کے عوض لذت حاصل کی ہے، تو ان عورتوں کو ان کا مہر ادا کردو ‘ (یہ اللہ کا کیا ہوا) فرض ہے ‘ اور مہر مقرر کرنے کے بعد جس (کمی بیشی) پر تم باہم راضی ہوگئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ بیشک اللہ خوب جاننے والا بہت حکمت والا ہے ۔
ﺍﺏ دیکھیں ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 23 ﮐﺎ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﺩﻭ ﺑﮭﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﭘﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍٓﯾﺖ 24 ﺷﻮﮨﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﻦ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺍٓﯾﺖ 24 ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﺍٓﯾﺖ 23 ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ۔ﯾﻌﻨﯽ ﺍٓﯾﺖ 24 ﻭﮨﯽ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﻦ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭَﺃُﺣِﻞَّ ﻟَﻜُﻢ ﻣَّﺎ ﻭَﺭَﺍﺀَ ﺫَٰﻟِﻜُﻢْ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺣﻼﻝ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺃَﻥ ﺗَﺒْﺘَﻐُﻮﺍ ﺑِﺄَﻣْﻮَﺍﻟِﻜُﻢ ﻣُّﺤْﺼِﻨِﻴﻦَ ﻏَﻴْﺮَ ﻣُﺴَﺎﻓِﺤِﻴﻦَ ۚ ﻓَﻤَﺎ ﺍﺳْﺘَﻤْﺘَﻌْﺘُﻢ ﺑِﻪِ ﻣِﻨْﻬُﻦَّ ﻓَﺂﺗُﻮﻫُﻦَّ ﺃُﺟُﻮﺭَﻫُﻦَّ ﻓَﺮِﻳﻀَﺔً ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻔﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮩﻨﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﭘﮭﻠﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻖ ﻣﮩﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﻭ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺣﻼﻝ ﮨﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﮩﺮ ﮐﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﻻﺯﻡ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺍٓﭖ ﺍٓﯾﺖ ۲۵ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﯾﺖ ۲۴ ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺯﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﮔﺮ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﻟﻮ۔۔۔ﯾﻨﻌﯽ ﺍٓﯾﺖ 24 ﺍﻭﺭ 25 ﮨﯽ اﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺷﻌﯿﮧ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺱ ﺍٓﺭﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ۔۔ ﺍٓﯾﺖ 25 ﻭَﻣَﻦ ﻟَّﻢْ ﻳَﺴْﺘَﻄِﻊْ ﻣِﻨﻜُﻢْ ﻃَﻮْﻟًﺎ ﺃَﻥ ﻳَﻨﻜِﺢَ ﺍﻟْﻤُﺤْﺼَﻨَﺎﺕِ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕِ ﻓَﻤِﻦ ﻣَّﺎ ﻣَﻠَﻜَﺖْ ﺃَﻳْﻤَﺎﻧُﻜُﻢ ﻣِّﻦ ﻓَﺘَﻴَﺎﺗِﻜُﻢُ ﺍﻟْﻤُﺆْﻣِﻨَﺎﺕِ ۚ ﻭَﺍﻟﻠَّﻪُ ﺃَﻋْﻠَﻢُ ﺑِﺈِﻳﻤَﺎﻧِﻜُﻤﺎﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﻮﻣﻦ ﺁﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺑﯿﺒﯿﻮﮞ ) ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺪﻭﺭ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻣﻦ ﻟﻮﻧﮉﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ (ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻟﮯ ) ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﯾﺖ ﻣﺘﻌﮧ کےلیے ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﻧﮯ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﭘﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﮔﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﮭﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﯽ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺘﻌﮧ ﺗﻮ ﺍٓﺳﺎﻥ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻧﻔﻘﮧ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﻧﮧ ﻃﻼﻕ ﻭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻨﺠﮭﭧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺯﺍﺩ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻧﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﯿﺎ ﺑﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﺗﮭﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍٓﺳﺎﻥ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﻮﻧﮉﯼ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﻟﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﮭﺮ ﮐﻢ ﻟﮕﮯ ﮔﯽ ۔ ﺍﺱ ﺻﺎﻑ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﻄﻠﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ۔ ﺳﻮﺭﮦ ﻧﺴﺎﺀ ﮐﯽ 24 ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ۔ ﻟﻔﻆ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ محصنین لفظ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﮐﯽ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺣﺼﺎﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻋﻔﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﺗﺐ ﮨﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ کےلیے ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﻟﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﮑﺘﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻋﺎﺭ ﯾﺘﮧ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮪ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﮧ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﻼحظہ ﮨﻮﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﺸﯿﺦ ﻃﻮﺳﯽ ﺟﻠﺪ ۳ ﺹ 141ﻓﺄﻣﺎ ﻣﺎ ﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﻋﻦ ﻓﻀﺎﻟﺔ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻋﻦ ﺃﺑﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﺍﻟﻌﻄﺎﺭ ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻦ ﻋﺎﺭﻳﺔ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﻗﺎﻝ : ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ، ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺑﯽ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﻣﮕﺎﮦ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﯾﺎ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮪ ﭨﮭﯿﮑﮯ ﭘﺮ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ؟
ﯾﮧ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ ﺳﻔﺎﺡ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺯﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﭘﺮ ﺯﻧﺎ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﻦ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﺷﮩﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﺟﯿﺴﺎ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﺘﻤﻌﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺣﻼﻝ ﮨﻮﮞ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺣﺼﺎﻥ (ﯾﻌﻨﯽ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﺻﺮﻑ ﺷﮭﻮﺕ ﺭﺍﻧﯽ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ ﯾﮧ ﺑﻠﮑﻞ ﺻﺎﻑ ﺑﯿﺎﻥ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮈﻧﮉﯼ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺁﯾﺖ ﻋﻘﺪ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﺩﻭﺳﺮا مسافحت متعہ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﯽ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﺮﺩ ﭘﺮ ﺣﻘﻮﻕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺣﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﺪﺍﺭﯼ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﭖ ﮨﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﺳﻔﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﺳﮯ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﺟﻨﺴﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﻻﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺳﻔﺎﺡ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻋﺎﺭﯾﺘﮧ ﺍﻟﻔﺮﺝ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﻭ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺩﻻﻟﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮ ﺷﯿﻌﮧ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻭﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﺼﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺫﻛﺮ ﻟﻠﺼﺎﺩﻕ – ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ – ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻫﻞ ﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﺗﺰﻭﺝ ﻣﻨﻬﻦ ﺃﻟﻔﺎ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﺯﻭﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﻢ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔
ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ لکھتا ہے : عنہ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺭﺋﺎﺏ ﻋﻦ ﺯﺭﺍﺭﺓ ﺑﻦ ﺃﻋﻴﻦ ﻗﺎﻝ : ﻗﻠﺖ ﻣﺎ ﻳﺤﻞ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ؟ ﻗﺎﻝ : ﻛﻢ ﺷﺌﺖ. ﯾﻌﻨﯽ ﺯﺭﺍﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﺘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔
ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﻧﮯ دیکھ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍٓﯾﺖ 24 ﮐﮯ ﺿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯﮐﮧ ﮐﮧ ﺯﻭﺟﮧ ﺑﻨﺺ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﺪ ﭼﺎﺭ ﺗﮏ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﻭﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﭼﺎﺭ ﻭﺍﻟﯽ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﻟﻐﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﻤﺘﻌﮧ صفحہ ۹ ﭘﮧ ﻟﮑﮩﺘﮯ ہیں : وعن ﺍﺑﻦ ﻗﻮﻟﻮﻳﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ،ﻋﻦ ﺳﻌﺪ، ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻴﺴﻰ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﻋﻦ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ،ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻤﻴﺪ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ : ﻟﻴﺲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊﻷﻧﻬﺎ ﻻ ﺗﻄﻠﻖ ﻭﻻ ﺗﺮﺙ . ﯾﻌﻨﯽ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻃﻼﻕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻭﺭﺍﺛﺖ ﯾﮩﺎﮞ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮧ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦ ﻣﻔﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﺯﻭﺟﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﻮ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﻮ ۔ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻻﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮞﻤﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺍﻷﺷﻌﺮﻱ ﻋﻦ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻷﺯﺩﻱ ﻗﺎﻝ : ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﺎ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﺃﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ؟ ﻗﺎﻝ : ﻻ . ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﯽ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﺍﻟﻌﺒﺎﺱ ﺑﻦ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻋﻦ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ ﺑﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻤﻴﺪ ﺍﻟﻄﺎﺋﻲ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ : ﻟﻴﺴﺖ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ﻷﻧﻬﺎ ﻻ ﺗﻄﻠﻖ ﻭﻻ ﺗﺮﺙ ﻭﻻ ﺗﻮﺭﺙ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻲ ﻣﺴﺘﺄﺟﺮﺓ ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﻼﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺩﯼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻭﺟﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭیکہ ﭘﺮ ﻟﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﮯ ۔ ( ﯾﮧ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ) ﭘﮭﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯﻋﻨﻪ ﻋﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻋﻦ ﺳﻌﺪﺍﻥ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﻋﺒﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﺭﺍﺭﺓ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻗﺎﻝ : ﺫﻛﺮ ﻟﻪ ﺍﻟﻤﺘﻌﺔ ﺃﻫﻲ ﻣﻦ ﺍﻷﺭﺑﻊ ؟ ﻗﺎﻝ : ﺗﺰﻭﺝ ﻣﻨﻬﻦ ﺃﻟﻔﺎ ﻓﺈﻧﻬﻦ ﻣﺴﺘﺄﺟﺮﺍﺕ . ﯾﻌﻨﯽ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭼﺎﺭ ( ﯾﻨﻌﯽ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻧﮯ ﺯﻭﺟﮧ ﭨﮭﺮﺍﯾﮧ ﮨﮯ ) ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﭼﺎﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮑﮧ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎﮦ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻧﮉﯼ ۔
ﺷﯿﻌوں کا ﺳﻮﺍﻝ : ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ‘ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ’ ﺍﻭﺭ ‘ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ’ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻣﮑﻤﻞ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺣﺼﺎﺭﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﻭ ﭘﺎﮐﺪﺍﻣﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻔﺎﺡ ﮐﺎﺭﯼ (ﺯﻧﺎﮐﺎﺭﯼ ﻭ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ) ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮧ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺻﻮﻝ ﻭ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﮐﯽ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺯﻧﺎﮐﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺎﺭﻡ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺪﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ، ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﻣﺮﺩ ﭘﺮ ﻋﺎﺋﺪ ﮨﮯ، ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﺍُﺳﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻋﺪﺕ ﮔﺬﺍﺭ ﮐﺮ ﭘﺎﮎ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮ، ﺍﻭﺭ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﻋﺪﺕ ﮔﺬﺍﺭ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﺡ ﯾﺎ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻟﻐﺮﺽ ﻋﻘﺪ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﮐﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﻃﻼﻕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ؟
اس سوال کا ﺟﻮﺍﺏ : ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻌﯿﺪ ﺍﺯ ﻗﯿﺎﺱ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ 5 ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﮯ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ 5 ﺳﮯ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﮯ ۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ کہہ ﺳﮑﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻭ ﻣﺮﺩ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﺳﺘﺒﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺮﺍۓ ﭘﺮ ﻟﯽ گٸی ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﺘﺎﺟﺮﮦ ﯾﻌﻨﯽ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺤﺼﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻔﯿﻔﮧ ﺗﺐ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﻣﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻋﻔﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﺘﺎ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺟﺐ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﮐﺮﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﻦ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮩﺄﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻋﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﻴﺮ ﻋﻦ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﺍﻟﺒﺨﺘﺮﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻲ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻳﺘﺰﻭﺝ ﺍﻟﺒﻜﺮ ﻣﺘﻌﺔ ﻗﺎﻝ :ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﻌﻴﺐ ﻋﻠﻰ ﺃﻫﻠﻬﺎ. ﯾﻌﻨﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﮐﺮﮦ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺪﻧﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﮯ ۔ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ،ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻗﻮﻝ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮨﮯ ، ﻗﺎﻝ : ﻻ ﺗﻤﺘﻊ ﺑﺎﻟﻤﺆﻣﻨﺔ ﻓﺘﺬﻟﻬﺎ ﭘﮭﺮ ﻃﻮﺳﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺍﮨﻞ ﺑﯿﺖ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﮭﺮﺣﺎ ﻝ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺷﯿﻌﮧ ﻣﺬﮨﺐ ﻣﯿﻦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻧﯿﮑﯽ ﺑﺪﻥ ﮐﯽ ﻋﻔﺖ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮﮐﺎﻓﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺏ ﻋﻔﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞﻤﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ، ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻋﻦ ﺣﻨﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﺪﻳﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ (ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ) : ﺇﻥ ﺃﻓﻀﻞ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩﺓ ﻋﻔﺔ ﺍﻟﺒﻄﻦ ﻭﺍﻟﻔﺮﺝ ۔ یعنی ﺳﺐ ﺑﮍﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﻣﮕﺎہ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﭘﺮ ﯾﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﭘﺮ ﺩﯾﻨﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﻧﮯ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺯﻭﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﻣﻼﺣﻀﮧ ﮨﻮﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﺳﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ : ﺍﻣﺎﻡ ﺑﺎﻗﺮ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﻣﻤﺘﻮﻋﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺯﻭﺟﮧ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﺟﺮﺕ ﭘﺮ ﺧﺮﯾﺪﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﻤﺎﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ (ﻓﺮﻭﻉ ﮐﺎﻓﯽ) ﻣﺘﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﮨﯽ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﺮﺍﺙ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻠﻔﺮﺽ ﺍﮔﺮ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ۔۔۔۔ ﻣﺘﻌﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﯽ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺷﯿﻌﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮯ ﻋﻼﻧﯿﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﻡ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻋﻔﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﺩﺍﻏﺪﺍﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺘﻨﮯ ﺷﯿﻌﮧ ﺑﮍﮮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﺘﻌﮧ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ۔ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﻮ ﻣﺘﻌﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﮑﭩﺎ ﺍﭨﮭﮯ ﮔﺎﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻋﯽ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺳﺪﺍﺭﯼ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺯﻧﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ۔۔۔۔ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﮔﺮ ﺑﻘﻮﻝ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﻭﺍﻟﯽ ﺷﺮﻋﯽ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﻻﺯﻣﻦ ﮨﻮﻧﮯ چاہیں ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮨﻮﻧﮯ چاہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﯿﺴﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ، ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻻﺯﻣﻦ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ، ﻣﯿﺮﺍﺙ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻌﮧ کےلیے ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺮﯾﻢ ﻧﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﮨﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﺩیے ﮨﻮﺗﮯ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﯾﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻃﻼﻕ ﺧﻮﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﺘﻌﮧ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺎ ﮐﺎ ﻣﻮﺍﺯﻧﮧ ﮐﺮ لیں زﻧﺎ ۔۔۔۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺯﺍﻧﯿﮧ ﮐﻮ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ تنہاﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﺯﻧﺎ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔ ﺯﻧﺎ ﺻﺮﻑ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﺬﺕ ﮐﮯلیے ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺯﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﻘﺮﺭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ علیحدﮔﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻼﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﺯﺍﻧﯿﮧ ﻭﺍﺭﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﺎﻥ ﻧﻔﻘﮧ ﺯﺍﻧﯽ ﮐﮯ ذﻣﮧ ﮨﮯ ۔ ﺍﺏ آﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﻟﻔﻆ ﺯﻧﺎ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻌﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﻓﺮﻕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺯﻧﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ متعہ ۔ بالکل ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﺘﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﻠﮑﻞ ﻭﺍﺿﻊ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﻌﮧ ایک ایسی ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻔﺎﺡ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮯ ﻟﻔﻆ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﺎﻓﺤﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ ۔
شیعوں کا عقیدہ : متعہ (یعنی زنا) کرنا پروردگار (اللہ عزوجل) کی سنت : شیعوں کا مفسّرِ اعظم ملا فتح اللہ کاشانی رافضی شیعہ نکاح متعہ (یعنی زنا) کے فضائل بیان کرتے ہوئے اللہ کی توحین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : متعہ کرنا پروردگار کی سنت ہے ۔ (استغفراللہ نقلِ کر کفر نہ باشد) ۔ (تفسیر کبیر منھج الصادقین للکاشانی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 494)
متعہ اور زنا میں مماثلت : ⏬
(1) زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے ۔
(2) زنا کےلیے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک ۔
(3) زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے ۔
(4) زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے ، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو ۔
(5) زنا صرف جنسی لذت کےلیے ہوتا ہے ۔
(6) زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی ۔
(7) زانیہ وارث نہیں بن سکتی ۔
(8) زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے ۔
اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ “زنا” نکال دیں اور اس کی جگہ “متعہ” کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں ، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا ، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے “زنا” کہا جاتا ہے اور اُسے “متعہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ عزّ و جل کا فرمان بھی پڑھ لیں : “وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً” یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے ۔ (بنی اسرائیل 32)
حضرت علی رضی اللہ عنہ متعہ کرتے تھے : ⏬
شیعوں کا عالم کامل رئیس العلماء نعمت اللہ جزائری لکھتاہے : شیعوں کا حجۃ الاسلام غلام حسین نجفی لکھتا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت عفرا رضی اللہ عنہا سے متعہ (یعنی زنا) کیا ۔(الانوار النعمانیہ الجزء الثانی صفحہ نمبر 279 مطبوعہ بیروت لبنان) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)
شیعوں کا حجۃ الاسلام غلام حسین نجفی لکھتا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت عفرا رضی اللہ عنہا سے متعہ (یعنی زنا) کیا ۔ (قولِ مقبول صفحہ نمبر 395 غلام حسین نجفی ماڈل ٹاؤن لاہور،چشتی) ۔ (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)
کہاں ہیں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم سے محبّت کا دعویٰ کرنے والے ؟
کیوں جناب پیرانِ عظام ، سجادہ نشینان ، ذیشان خطیب حضرات ، مفتیانِ کرام و نقیب حضرات یہ گستاخی نہیں ہے ؟
یہاں آپ کے قلم ، لب ، فتوے ، تقوے ، گھن گرج غریتِ ایمانی سب خاموش کیوں ؟
اس طرح کے عقائد رکھنے والوں کے خلاف آج تک کتنے مفتیوں نے ویڈیو بنا کر اپلوڈ کی ہیں اور کتنے مفتیوں کے فتوے جاری ہوئے ہیں ؟
اور کتنے پیروں کو اس پر درد ہوا تکلیف ہوئی اور انہوں نے ان گستاخیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور احتجاجی جلسے جلوس کیئے ؟
آخر ان مفتیوں اور پیروں اس طرح کے شیعوں کے غلیظ عقائد پر سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے کہاں ہیں مفتیانِ کرام ؟
کہاں ہیں پیرانِ عظام ؟
کہاں ہیں نقیبانِ محافل ؟
کہاں ہیں ذیشان خطیب حضرات ؟
یہاں آپ کی غیرتِ ایمانی کہاں دفن ہو گئی ؟
جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نکاح متعہ کے حرام قرار دیا : ⏬
شیعہ کی کتابوں سے حوالہ پیشِ خدمت ہے اور تمام راوی بھی شیعہ امامی اثناعشری علماء کے مطابق ثقہ ہیں : محمد بن یحیی عن ابی جعفر عن ابی الجوزا عن الحسین بن علوان عن عمرو بن خالد عن زید بن علی عنآباۂ عن علی علیھم السلام قال حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ یوم خیبر لحوم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ ۔
ترجمہ : امام زید بن علی نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خیبر کے دن پالتو گدھے کا گوشت اور نکاح متعہ کے حرام قرار دیا ۔ (محمد بن یحیی ثقہ ہے جامع الرواۃ جلد ۲ صفحہ ۳۱۲)(ابو جعفر ثقہ ہے المفید من معجم رجال الحدیث صفحہ ۶۹۰،چشتی)(ابوالجوزاء ثقہ ہے مشایخ الثقات صفحہ ۸۶)(حسین بن علوان ثقہ ہے معجم رجال الحدیث جلد ۷ صفحہ ۳۴)(عمرو بن خالد ثقہ ہے معجم رجال الحدیث جلد ۱۴ صفحہ ۱۰۲)
شیعووں کے محققین لکھتے ہیں : حضرت زید بن علی اپنے آباء رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پالتو گدھوں کے گوشت اور نکاح متعہ کو حرام کردیا ۔ (الاستبصار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 149)
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : احمد بن محمد بن عیسی فی (نوادرہ) عن ابن ابی عمیر ، عن ھشام بن الحکم ، عن ابی عبد اللہ علیہ السلام فی المتعۃ قال : ما یفعلھا عندنا الا الفواجر ۔
ترجمہ : ہشام بن حکم نے امام جعفر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے متعہ کے بارے میں فرمایا : اس کو ہمارے ہاں سوائے فاجروں کے اور کوئی نہیں کرتا ۔ (وسائل الشیعہ جلد ۱۴ صفحہ ۴۵۶) ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ (محمد بن یحیی ثقہ ہے جامع الرواۃ جلد ۲ صفحہ ۳۱۲)(ابو جعفر ثقہ ہے المفید من معجم رجال الحدیث صفحہ ۶۹۰)(ابوالجوزاء ثقہ ہے مشایخ الثقات صفحہ ۸۶،چشتی)(حسین بن علوان ثقہ ہے معجم رجال الحدیث جلد ۷ صفحہ ۳۴)(عمرو بن خالد ثقہ ہے معجم رجال الحدیث جلد ۱۴ صفحہ ۱۰۲)
عن زید بن علی عن آبائہ علیھم السلام قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحوم الحمر الاھلیۃ و نکاح المتعۃ ۔ (الا ستبصار جلد 2 صفحہ 77)
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پالتو گدھوں کو اور متعہ کو حرام فرمادیا ہے ۔
"استبصار" کے علاوہ امامیہ کی دوسری کتب صحاح میں بھی حرمت متعہ کی روایات موجود ہیں ۔ شیعہ حضرات ان کے جواب میں بے دھڑک کہہ دیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسی روایت تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً بیان فرمائی ہیں اور جان کے خوف سے تقیۃً جھوٹ بولنا عین دین ہے ۔ کیونکہ "کافی کلینی" میں ہے : "من لا تقیۃ لہ لا دین لہ" جو ضرورت کے وقت تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جب یزید کے خلاف آوازہ حق بلند کیا اور ہزار ہا مخالفوں کے سامنے تلواروں کے جھنکار اور تیر و تفنگ کی بوچھاڑ میں بیعت یزید سے انکار کیا تو کیا اس وقت امام حسین تعک تقیہ کی وجہ سے (معاذ اللہ) بے دین ہوگئے تھے ؟ اور اگر ایسے شدید ابتلاء میں بھی تقیہ نہ کرنا ہی حق و صواب تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بغیر کسی ابتلاء کے بے حساب روایات تقیۃً بیان کرنا کس طرح حق و ثواب ہوگا ؟ کاش ! شیعہ حضرات میں سے کوئی شخص اس نکتہ کو حل کرکے لاکھوں انسانوں کی ذہنی خلش کو دور کر سکے ۔
شیعہ رافضیوں کا غلیظ اور توہین آمیز عقیدہ جو متعہ یعنی زنا کری گا وہ حسن ، حسین ، علی رضی اللہ عنہم اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا درجہ پائے گا : ⏬
شیعہ رافضی "متعہ" یعنی زناکاری کو نماز ، روزہ اور حج سے بھی افضل عبادت مانتے ہیں ، جو جتنی زیادہ زناکاری (متعہ) کرے اس کا رتبہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے یعنی ایسا کر کے وہ بتدریج اور بالترتیب حضرت حسین ، حضرت حسن ، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے درجے اور ان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے ۔
ہم اپنی اس بات کےلیے شیعہ مفسر ملا الكاشانی کی تفسير منهج الصادقين کی میں موجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث بطورِ دلیل پیش کئے دیتے ہیں : مَنْ تَمَتَّعَ مَرَّۃً فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحُسَین ، وَمَن تَمَتَّعَ مَرَّتَین فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحَسَن ،وَمَن تَمَتَّعَ ثَلَاثَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ عَلِيٍّ، وَمَن تَمَتَّعَ اَربَعَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَتِي ۔
و آنچنان غلو درباره اش کرده اند که بعضي از رواياتشان مي گويد که كسيكه در طول زندگي خويش يكبار صيغه كرده باشد، به مقام و منزلت حسين -عليه السلام - و كسيكه سه بار صيغه كرده باشد به مقام و منزلت علي بن ابي طالب -عليه السلام- خواهد رسيد. و كسيكه چهار بار متعه كند به مقام و منزلت من (محمد) نائل خواهد آمد ۔
ترجمہ : یعنی جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسن علیہ السلام کا درجہ پائے گا ، اور جو تین مرتبہ متعہ کرے وہ امیر المومنین علیہ السلام (علی رضی اللہ عنہ) کا درجہ پائے گا ، اور جو چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا (پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درجہ پائے گا ۔ (منہج الصادقين للملا الكاشانی جلد 2 جز چہارم صفحہ نمبر 493)
و همچنين روايت مي کنند که امام صادق گفته: منكر متعه مرتد و كافر و قبول كننده آن مؤمن و موحد است. متعه دو اجر دارد. اجر صدقه اي كه به زن داده مي شود و اجر خود متعه ۔ (منہج الصادقين للملا الكاشانی جلد نمبر 2 جز چہارم صفحہ نمبر 495)
نعوذ باللہ من ذلك .... لیجیے جناب اب مقام و مرتبے اعمال صالحہ کرنے اور نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے سے نہیں بلکہ "زناکاری" (متعہ) کا ارتکاب کر کے حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے غلیظ اور کفریہ توہین آمیز عقائد رکھنے والوں کی صحبت و شر سے اہلِ ایمان کو بچائے آمین ۔ اِدھر اُدھر کی بَک بَک کرنے والوں سے گزارش ہے کتاب تمہارے مفسر و مجتہد کی ہے یا اسے غلط ثابت کرو یا پھر اپنے غلیظ کفریہ عقائد سے توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جاؤ ۔
خلاصہ کلام : نکاحِ متعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں حرام قرار دے دیا تھا ، اس بارے میں’’مسلم شریف‘‘ کی ایک روایت وضاحت کےلیے کافی ہے : عن الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال : يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولاتأخذوا مما آتيتموهن شيئاً". (الصحیح لمسلم، کتاب النکاح، باب نكاح المتعة، وبيان أنه أبيح، ثم نسخ، ثم أبيح، ثم نسخ، واستقر تحريمه إلى يوم القيامة جلد 2 صفحہ 1025 مطبوعہ دار إحياء التراث العربي بيروت)
ترجمہ : حضرت سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور (اب) اللہ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے ۔ لہٰذا جس کے پاس متعہ کرنے والیوں میں سے کوئی عورت ہو ، وہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ مال ان کو دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے ۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی حرمت بیان فرما دی اور اب متعہ قیامت کے دن تک کےلیے حرام کر دیا گیا ۔
مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے : حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ الْمُتْعَةِ، وَقَالَ: أَلَا إِنَّهَا حَرَامٌ مِنْ يَوْمِکُمْ هَذَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ کَانَ أَعْطَی شَيْئًا فَلَايَأْخُذْهُ ۔
ترجمہ : حضرت ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح متعہ سے ممانعت فرمائی اور فرمایا : آگاہ رہو ! یہ آج کے دن سے قیامت کے دن تک حرام ہے اور جس نے کوئی چیز دی ہو تو اسے واپس نہ لے ۔
متعہ کے حرام کرنے کی نسبت حضرت عمررضی اللہ عنہ کی جانب کرنا غلط ہے ، جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام نہیں کی ، اسے کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے حرام نہیں قرار دے سکتے ، اگر صحابی کسی چیز کی حرمت کی خبر دیں تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی سنی ہوئی بات اُمت تک پہنچاتے ہیں ۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی متعہ کو حرام قرار نہیں دیا ، اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کو کسی چیز کے از خود حرام کرنے کا اختیار کہاں ! ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس طرح دوسرے اسلامی اَحکام کے اِبلاغ و اشاعت اور تنفیذ میں سعی بلیغ فرمائی ، اسی طرح انہوں نے متعہ کی حرمت کے اعلان میں بھی بڑی شد و مد کے ساتھ کوشش کی ہے ۔ چنانچہ ان کا آخری اعلان یہ تھا کہ اگر میں نے سنا کہ کسی نے متعہ کیا ہے تو میں اس کو زنا کی سزا دوں گا ۔ ان کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اس وقت کی متعہ کی حرمت سے ناواقف تھے وہ بھی واقف ہو گئے ۔ لہٰذا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو صرف اتنا کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک حکم کی تبلیغ کر دی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment