انا مدینۃ العلم وابوبکر اساسھا ، وعمر حیطانھا ، وعثمان سقفھا ، وعلی بابھا کی تحقیق
محترم قارئین کرام : حدیث مبارکہ ، انا مدینۃ العلم و ابوبکر اساسھا ، وعمر حیطانھا ، و عثمان سقفھا ، و علی بابھا ۔
ترجمہ : میں علم کا شہر ہوں ، ابوبکر اس کی بنیاد ، عمر دیواریں ، عثمان چھت اور علی رضی اللہ عنہم دروازہ ہیں ضعیف ہے موضوع نہیں ۔ اس لیے اس جانب بھی بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ، کہ بلا تحقیق کسی حدیث کو موضوع نہ کہہ دیا جائے ، حدیث مذکور یعنی أنا مدينة العلم و ابوبکر اساسھا پر اجلہ محدثین کرام علیہم الرحمہ نے فقط ضعیف ہونے کا حکم دیا ہے ۔
حدیث : أنبأنا أبو الفرج غیث بن علي الخطیب حدثني أبو الفرج الإسفرایني قال : کان أبوسعد إسماعیل بن المثنی الإستراباذي یعظ بدمشق فقام إلیہ رجل فقال أیہا الشیخ ما تقول فی قول النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) أنا مدینة العلم وعلی بابہا قال فأطرق لحظة ثم رفع رأسہ وقال نعم لا یعرف ہذا الحدیث علی التمام إلا من کان صدرا فی الإسلام إنما قال النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) أنا مدینة العلم وأبی بکر أساسہا وعمر حیطانہا وعثمان سقفہا وعلی بابہا قال فاستحسن الحاضرون ذلک وہو یرددہ ثم سألوہ أن یخرج لہ إسنادہ فأغتم ولم یخرجہ لہم“ ثم قال أبو الفرج الإسفراینی : ثم وجدت لہ ہذا الحدیث بعد مدة فی جزء علی ما ذکرہ ابن المثنی ۔ (ابن عساکر فی تاریخہ جلد ۳ صفحہ ۳۸)
اس حدیث کے بارے میں حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے المقاصد الحسنۃ میں فرمایا ہے : وبالجملۃ فکلھا ضعیفۃ ، وألفاظ أکثرھا رکیکۃ ، وأحسنھا حدیث ابن عباس، بل ھو حسن ، انتھی ۔
ترجمہ : اس جیسی احادیث ضعیف ہیں ، ان میں سے اکثر احادیث کے الفاظ کمزور ہیں ، تاہم اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت حسن ہے ۔
علامہ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں اور الفاظ رکیک ہیں ۔ وبالجملة فکلها ضعیفة والفاظها رکیکة ۔ (کشف الخفاء ومزیل الالباس حرف الهمزة مع النون :۱۔۲۰۴)
حافظ ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے حوالے سے سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: رواه صاحب مسند الفردوس وتبعه ابنه بلا سند عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا وهو حديث ضعيف ۔ اس حدیث کو صاحب مسند الفردوس اور ان کے بیٹے نے ان کی تبعیت میں بلا سند حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ، اور یہ حدیث ضعیف ہے ۔ (الفتاوی الحدیثية صفحہ 192 مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)
حافظ ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے حوالے سے سوال ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ارشاد فرمایا : رواه صاحب مسند الفردوس وتبعه ابنه بلا سند عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعا وهو حديث ضعيف ۔
ترجمہ : اس حدیث کو صاحب مسند الفردوس اور ان کے بیٹے نے ان کی تبعیت میں بلا سند حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے ، اور یہ حدیث ضعیف ہے ۔( الفتاوی الحدیثية، صفحہ 192 ، دار الفکر، بیروت)
حافظ نجم الدین محمد بن محمد الغزی رحمہ اللہ تعالی ، المتوفی ۱۰۶۱ھ اس مضمون کی دیگر احادیث اور مذکورہ حدیث دیلمی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں :”كلها ضعيفة واهية ۔
ترجمہ : یہ سب شدید ضعیف حدیثیں ہیں ۔ (اتقان ما يحسن من الاخبار الدائر ۃ علی الالسن صفحه ۱۲۶ مطبوعہ الفاروق الحدیثۃ قاہرہ)
اسی طرح علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے یہ حدیث دیلمی کے حوالے سے ذکر کی ہے اور یہ ارشاد فرمایا کہ امام دیلمی اور ان کے بیٹے نے اس حدیث کو بلا سند روایت کیا ہے ۔ نیز اس باب کی دیگر احادیث کو نقل کرکے ارشاد فرمایا : وبالجملة فكلها ضعيفة وألفاظ أكثرها ركيكة وأحسنها حديث ابن عباس بل هو حسن ۔
ترجمہ : خلاصہ یہ ہے کہ یہ تمام احادیث ضعیف اور ان کے الفاظ رکیک ہیں ، اور ان میں سب سے راجح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے بلکہ وه حسن حدیث ہے ۔ (المقاصد الحسنۃصفحہ 170 دار الکتب العربی،چشتی)
علامہ محمد بن اسمعیل عجلونی رحمۃ اللہ علیہ مقاصد حسنہ کی عبارت نقل کرکے فرماتے ہیں : وقال النجم: كلها ضعيفة واهية ۔
ترجمہ : نجم الدين الغزي کہتے ہیں : یہ تمام ضعیف اور واہی ہیں ۔ (کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 236 رقم 618 مؤسسۃ الرسالۃ)
محدث احناف حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے بھی مسند الفردوس کے حوالے سے اس حدیث کو مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرما کر مقرر رکھا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 10 صفحہ 470 مطبوعہ :ملتان )
حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو مسندا ذکر کیا ہے ، اس کے راوی اسماعیل بن علی الواعظ پر سخت جروح موجود ہیں ، لیکن خود اس کے حالات میں خاص اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں : ثم قال شيخي أبو الفرج الإسفرايني ثم وجدت هذا الحديث بعد مدة في جزء على ما ذكره ابن المثنى فالله أعلم ۔
ترجمہ : میرے شیخ ابو الفرج الاسفرائینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : پھر میں نے اس حدیث کو ایک مدت کے بعد ایک جزء میں اس طرح پایا جیسا کہ ابن المثنی نے ذکر کیا ہے ۔ (تاریخ دمشق جلد 9 صفحہ 20 دار الفکر بیروت)
اس معنیٰ کی ایک اور حديث حافظ ابن عساكر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وآلہ وسلم ) أنا مدينة العلم وأبو بكر وعمر وعثمان سورها وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب “ اسے روایت کرنے کے بعد ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : منكر جدا إسنادا ومتنا“ یعنی یہ حدیث سند اور متن کے اعتبار سے سخت منکر ہے ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 45 صفحہ 321 دار الفکر بیروت)
حافظ نجم الدین محمد بن محمد الغزی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۱۰۶۱ھ اس مضمون کی دیگر احادیث اور مذکورہ حدیث دیلمی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں : كلها ضعيفة واهية . یعنی یہ سب شدید ضعیف حدیثیں ہیں ۔ (اتقان ما يحسن من الاخبار الدائر ۃ علی الالسن صفحه ۱۲۶ مطبوعہ الفاروق الحدیثۃ قاہرہ)
اسی طرح علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث دیلمی کے حوالے سے ذکر کی ہے اور یہ ارشاد فرمایا کہ امام دیلمی اور ان کے بیٹے نے اس حدیث کو بلا سند روایت کیا ہے ۔ نیز اس باب کی دیگر احادیث کو نقل کرکے ارشاد فرمایا : وبالجملة فكلها ضعيفة وألفاظ أكثرها ركيكة وأحسنها حديث ابن عباس بل هو حسن ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ تمام احادیث ضعیف اور ان کے الفاظ رکیک ہیں ، اور ان میں سب سے راجح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے بلکہ وه حسن حدیث ہے ۔ (المقاصد الحسنۃ صفحہ 170 دار الکتب العربی،چشتی)
علامہ محمد بن اسمعیل عجلونی رحمۃ اللہ علیہ مقاصد حسنہ کی عبارت نقل کرکے فرماتے ہیں : و قال النجم : كلها ضعيفة واهية ۔ یعنی نجم الدين الغزي کہتے ہیں : یہ تمام ضعیف اور واہی ہیں ۔(کشف الخفاء جلد 1 صفحہ 236 رقم 618 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
محدث احناف حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسند الفردوس کے حوالے سے اس حدیث کو مرقاۃ المفاتیح میں نقل فرما کر مقرر رکھا ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 10 صفحہ 470 مطبوعہ ملتان)
حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے ، اس کے راوی اسماعیل بن علی الواعظ پر سخت جروح موجود ہیں ، لیکن خود اس کے حالات میں خاص اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں : ثم قال شيخي أبو الفرج الإسفرايني ثم وجدت هذا الحديث بعد مدة في جزء على ما ذكره ابن المثنى فالله أعلم یعنی میرے شیخ ابو الفرج الاسفرائینی کہتے ہیں : پھر میں نے اس حدیث کو ایک مدت کے بعد ایک جزء میں اس طرح پایا جیسا کہ ابن المثنی نے ذکر کیاہے ۔(تاریخ دمشق جلد ۹ صفحہ ۲۰ مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)
اس معنی کی ایک اورحديث حافظ ابن عساكر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں : عن أنس بن مالك قال قال رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) أنا مدينة العلم وأبو بكر و عمر و عثمان سورها و علي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب ۔ اسے روایت کرنے کے بعد ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : منكر جدا إسنادا و متنا ۔ یعنی یہ حدیث سند اور متن کے اعتبار سے سخت منکر ہے ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد ۴۵ صفحہ ۳۲۱ مطبوعہ دار الفکر بیروت)
اہلِ علم پر مخفی نہیں کہ حدیث منکر موضوع نہیں ہوا کرتی ۔ ان اجلہ ائمہ و محدثین علیہم الرحمہ کی تصریح سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، موضوع ہرگز نہیں ۔
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آدمی کو بغیر علم کے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں کلام کرنے سے ڈرنا چاہیے ، اور اس فن کی تحصیل میں مسلسل کوشش کرنا چاہیے حتی کہ اسے اس فن میں مہارت ورسوخ حاصل ہو ، اور اسے تبحر حاصل ہو اس کے بغیر کلام کرنے والا کہیں اس حدیث کے حکم میں داخل نہ ہوجائے کہ جو بغیر علم کے کلام کرتا ہے اس پر اللہ تعالی اور ملائکہ کی لعنت ہے ، اور وہ اس دھوکہ میں نہ رہے کہ دنیا میں تو کوئی ایسا نہیں جو اس پر انکار کرنے والا ہو ، لیکن موت کے بعد اس کو معلوم ہوجائے گا یا تو قبر میں یا پل صراط پر ، اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم وہاں اس کے مقابل ہوں گے اور اس سے گویا یوں فرمائیں گے کہ تو نے میری حدیث کے بارے میں کیسے بغیر علم کے جرأ ت کی اور کلام کیا یا تو یوں فرمائیں گے کہ تو نے اس بات کو رد کیا جو میں نے فرمائی تھی یا تو نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے فرمائی نہ تھی ، کیا تو نے مجھ پر اترے ہوئے قرآن میں یہ نہ پڑھا تھا کہ اس کے درپے نہ ہو جس کا تجھے علم نہیں بیشک سمع بصر دل ان میں سے ہر ایک سوال کیا جائے گا ، پس اس دن بڑی خرابی ہے اور بڑی رسوائی ہے یہ بھی اس صورت میں جب کہ ایمان پر خاتمہ ہوا ، ورنہ تو اور خرابی ہے ، بہت سے گناہ وہ ہوتے ہیں جس پر سوئے خاتمہ کی وعیدیں ہیں ۔ امام محی الدین قرشی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تذکرہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں اکثر لوگوں کا ایمان موت کے وقت ضائع ہونے کا سبب ظلم ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں بغیر علم کے گفتگو کرنے کی جرات سے بڑھ کر کونسا ظلم ہوگا ۔ ہم اللہ تعالی سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ (بلوغ المأمول فی خدمة الرسول ضمن الحاوي للفتاوي جلد 2 صفحہ 137، 138 دارلفکر)
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس طرح حدیث گڑھنا حرام ہے اسی طرح کسی حدیث کا انکار بھی گمراہی ہے ، اس لیے اس معاملے میں دونوں طرف کافی احتیاط کی ضرورت ہے ۔ (نزهة القاري شرح صحيح البخاري جلد ١ صفحه ٤٥٠)
بعض محدثین نے جب اس میں غفلت برتی تو اس پر ائمہ حدیث نے سخت تنبیہ فرمائی ، اور اسے راہِ راست سے دور ہونا ارشاد فرمایا ۔ امام محمد بن عبد اللہ بہادر الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ (ت۷۹۴ھ) اپنی کتاب اللآلي المنثورة لکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ : و ربما نفاه بعض أهل الحديث لعدم اطلاعه عليه، والنافي له كمن نفى أصلا من الدين، وضل عن طريقه المبين ۔
ترجمہ : بعض اوقات کچھ محدثین کسی حدیث پر عدمِ اطلاع کی وجہ سے اس حدیث کی نفی کر دیتے ہیں ۔ اور ایسی ثابت حدیث کی نفی کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو دین کی ایک اصل کا انکار کر دیتا ہے ، اور واضح راستہ سے دور ہو جاتا ہے ۔ (اللآلي المنثورة في الأحاديث المشتهرة صفحه ٥ ، المكتب الإسلامي بيروت، ١٤١٧ھ الطبعة الأولى)
اللہ تعالیٰ ہمیں فتنہ منکرینِ حدیث اور احادیث گھڑنے والوں کے شر و فساد سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment