Monday, 15 April 2024

فضائل درود و سلام قرآن و حدیث کی روشنی میں

فضائل درود و سلام قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئین کرام : اللہ ربُّ العزّت نے جو مقام نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطائے فرمایا ہے اتنا مقام کسی اور کو نہیں بخشا ، اس مقام تک آج تک نہ کوئی نبی پہنچ سکا ہے نہ کوئی فرشتہ ، نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا اندازہ کل قیامت کے دن ہو گا ، جب تمام انبیائے کرام علی نبینا و علیہم الصلوٰة والسلام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے طلب گار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور خصوصیات سے نوازا وہیں پر ایک خاصیت جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی خاص ہے وہ درود شریف ہے ، جس میں نہ کوئی نبی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک ہے اور نہ کوئی فرشتہ ، جو صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی خاصہ ہے ، یوں تو اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفعت ذکر پر بحث کی جائے تو اس کےلیے دفتر چاہیے ۔ لیکن پھر بھی بعد میں لکھنے والے کو لکھنا پڑتا ہے : بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ۔

بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی : ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی ۔  تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ” کیف نصلی علیک ؟ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف کیسے پڑھیں ، جب کہ ہم سلام بھیجنا سیکھ چکے ہیں جو تشہدمیں پڑھتے ہیں ؟ ”السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ“ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” قل : اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ۔۔۔ الخ ۔ (درود ابراہیمی) پڑھو ۔ یہ آیت مبارکہ مدینہ منورہ زادھا الله شرفاً میں ماہ شعبان 2 ہجری کو نازل ہوئی ، جس کی رو سے اہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو ۔

ملائکہ کے درود بھیجنے کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں الله تعالیٰ سے دعا کرنا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ وارفع مراتب عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو غلبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ کو فروغ بخشے اور اہلِ ایمان کے درود و سلام کا مطلب بارگاہ الہٰی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی بلندی کی التجا کرنا اور آپ کی مدح وثنا کرنا ہے ۔ جمہور مفسرین علیہم الرحمہ نے یہی معنی لکھے ہیں ۔

قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے اندر یہ بات نہایت واضح طور پر موجود ہے کہ الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو خصائص اوصاف ، مناقب عطا فرمانے تھے ، عطا فرما دیے ، مثلاً رفعت ذکر ، غلبہ دین ، رسالت عامہ الی یوم القیامة ، ختم نبوت ، مقام محمود ، شفاعت عظمی، گو کہ ان میں جن کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے وہ اس وقت وقوع ہوں گے تو پھر ملائکہ یا اہل ایمان کی دعاؤں کا کیا مقصد کہ وہ اعلیٰ و ارفع مراتب کےلیے بارگاہ صمدیت کے اندر سراپا عجز و انکساری بنے ہوئے ہیں ؟ تو علمائے محققین نے سمندر کے اندر غواصی کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ملائکہ او راہل ایمان دعا نہ بھی کرتے ، جو درود سے مراد ہے ، تو پھر بھی پروردگار نے جو جو فضیلتیں بخشی تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخش دیں لیکن ملائکہ اور اہلِ ایمان کو درود کا حکم دے کر اپنے نبی کی شان بیان کر دی کہ ملائکہ اور اہلِ ایمان درود پڑھ کر اپنے کسی اور مقصد کی دعا نہیں کرتے بلکہ درود پڑھتے ہوئے میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور الله عزوجل کی رحمت حاصل کرتے رہتے ہیں ۔

علامہ سید محمود آلوسی رحمة الله علیہ نے ایک اہم بات اس آیت کے ضمن میں تحریر فرمائی کہ کسی نبی کی امت کو پرودرگار نے حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے نبی پر درود سلام بھیجیں ، سوائے اس امت کے کہتم اپنے نبی پر درود و سلام بھیجو اور یہ بات اگر خاص ہے تو صرف سیدنا محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص نظر آتی ہے ، جس سے جہاں پر ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام نظر آتا ہے ، وہیں پر اس امت کے ساتھ الله تعالیٰ کی محبت بھی نظر آتی ہے ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ اس امت کو کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت نوازنا چاہتا ہے اور الله کی رضا حاصل کرنے کےلیے اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور درود پاک سے بڑھ کر کوئی اہم عمل نہیں ، کیوں کہ پرورد گار بھی اس عمل کے اندر اپنے ملائکہ اور اپنے بندوں کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں ۔ تمام دین کے کامو ں کے اندر الله تعالیٰ فرماتا ہے : لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة ۔ ساری زندگی ایک انسان ، خاص کر مسلمان کیسے گزارے الله تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے اور نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے ، لیکن درود پاک عمل ہے جس کےلیے نمونہ ملائکہ ، انبیاء علیہم السلام یا کسی اور کو نہیں بنایا ، بلکہ اپنی ذات مبارکہ کو بنایا ہے کہ : ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی ۔ کہ لوگو ! آؤ آج اپنے الله تعالیٰ کی اتباع کرو ۔ اور اپنے نبی پر درود بھیجو اور اس عمل مبارک کے اندر اپنے رب کے ساتھ شریک ہو کر خدا کی رحمت حاصل کرنے کے حق دار بن جاؤ ۔ ان الله وملائکتہ ۔ جملہ اسمیہ ہے لفظ ان شروع میں ہے، تاکید بھی ہے ، تفسیر کبیر میں امام رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جملہ اسمیہ استمرار کا فائدہ دیتا ہے ، گویا یہ عمل جب سے الله تعالیٰ کی ذات ہے شروع ہے اور آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا ۔ ہر چیز کی ایک ابتدا ہے او رایک انتہا ہے ، لیکن درود وہ عمل ہے جس کی ابتدا تو ہے انتہا نہیں یہ عمل اس میں تھا ، ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔

امام بخاری نے ابوا لعالیہ تابعی علیہما الرحمہ سے یہ اثر نقل کیا ہے کہ الله تعالیٰ کا صلوٰة سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم او رملائکہ کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم دنیا میں تویہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند مرتبہ نصیب فرمایا ۔ آپ کے ذکر کو اپنے ذکر کے ساتھ شامل فرمایا ۔ اذان ، اقامت ، نماز ، درود و سلام ، کلمہ طیبہ غرض ہر جگہ اپنے نام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کو شامل فرما لیا ۔ قال حسان بن ثابت رضی الله عنہ : ⏬

وضم الالٰہ اسم النبی الیٰ اسمہ
اذ قال فی الخمس المؤذن اشھد
وشق لہ من اسمہ لیسجلہ
فذو العرش محمود وھذا محمد
ترجمہ : الله تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کو ملا رکھا ہے، جیساکہ پانچ وقت موذن اشھد کہتا ہے ۔ الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعزاز کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ، چناں چہ صاحب عرش محمود ہے اور آپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

صلوٰة الله کلام الله جہاں دیکھا تو یہ دیکھا
اگر لکھا الله دیکھا تو محمد بھی لکھا دیکھا

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تعظیم بھی فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو دنیا بھر میں پھیلا دیا اور غالب کر دیا ۔ لیظھرہ علی الدین کلہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کو قیامت تک کی شریعت بنا دیا اور شریعت کی حفاظت بھی خود فرمانے کا وعدہ کیا ۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ۔ اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم یہ کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام تمام مخلوقات سے بلند فرما دیا ۔

حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں : انا سید ولد آدم ، ولافخر ، وانا اول من تنشق عنہ الارض ، وانا اول شافع ، و اول مشفع ، ولافخر ، ولواء الحمد بیدی یوم القیامة ، ولا فخر ۔
ترجمہ : میں ساری اولاد آدم کا سردار ہوں ، قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر مبارکہ شق ہو گی اور حشر کے دن سب سے پہلے میں سفارش کروں گا ، جو کہ قبول ہو گی اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا او رمیں ان تما م باتوں پر فخر نہیں کرتا ، بلکہ الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب ذکر الشفاعة)

چاہیے تو یہ تھا کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام علی نبیا وعلیہم الصلوٰة والسلام کی قبور مبارکہ شق ہوتیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر سب سے پہلے شق ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ تو علمائے کرام نے نکتہ آفرینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کا شق ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے باعث اعزاز اور وجہ تعظیم ہے وہیں یہ امت کے گناہ گار جن کی زندگی گناہوں سے بھری پڑی ہے قیامت کے دن گناہوں کی وجہ سے پریشان ہوں گے اور قیامت کے دن ہوش و حواس تک جواب دے دیں گے تو ان کی نگاہ جب قبروں سے اٹھتے ہی محشر کے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور پر پڑے گی تو ان کی تسلی کا سامان ہو جائے گا ۔ سبحان الله ! کہ یہ شفیع المذبین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے موجود ہے ، جیسے ایک شخص کسی نئی بستی میں جائے تو وہاں اجنبیت کی وجہ سے وہ تھوڑا بہت تنگ ہوتا ہے ، لیکن کوئی جان پہچان والا نکل آئے تو پھر اس کی یہ تکلیف دور ہو جاتی ہے ، ایسے ہی محشر کا میدان بھی ایک نیا جہاں ہے اور ایک ایسی جگہ جہاں انسان کے ہوش و حواس کام کرنا چھوڑ دیں گے اور اس مشکل ترین مقام کے اندر سیدنا محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انورپر نگاہ پڑ جائے تو اللہ عزوجل کی نعمت نہیں تو اور کیا ہے ، جن کو دیکھتے ہی تمام مصیبتیں دور ہو جائیں اور بے قرار دل کو قرار آجائے ، بلکہ اکابرین علیہم الرحمہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم برزخ کے اندر رکھنا بھی خدا کی نعمت ہے ، اللہ عزوجل چاہتا تو قیامت تک زندہ رکھتا ، لیکن اس جہاں کے اندر زندہ نہ رکھنے کی جہاں اور حکمتیں ہیں جو تحریر کرنا اس وقت مقصود نہیں ، وہیں پر ایک حکمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برزخ میں پہنچا کر حیات عطا فرما کر اس امت کے مرنے والوں کےلیے مغفرت کا سامان مہیا کرنا ہے ، کیوں کہ اسی زمین کے اندر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے آنے والے مدفون ہوں گے ، وہیں پر اس زمین کے اندر سر کارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما ہیں ، یقیناً ان کی برکات جہاں پر دنیا والوں کو مل رہی ہیں ، وہیں پر برزخ والوں کو بھی ضرور عطا ہوں گی ۔

لہٰذا محشر کے اندر جو شخص سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گا وہ ، وہ خوش نصیب ہے جو متبع رسول ہو گا اور کثرت کے ساتھ درود پاک پڑھتا ہو گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ عظیم ترین ہستی ہیں جنہوں نے کفار کے احسانات کابدلہ بھی دیا۔ کسی نے تھوڑی سی اچھائی کی اس کو دوگنا بدلہ دیا تو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود پڑھے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل اس کو کیسے محروم فرمائیں گے ؟

یارب صل وسلم دائماً ابداً
علی حبیبک خیر الخلق کلھم

علامہ اسماعیل حقی آفندی رحمة الله علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ، تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں : جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کی ترویج واشاعت کی ، یہ آپ کا ہی خاصہ ہے ، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے، جس کا شکر ادا کرنے کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو درود وسلام کا حکم دیا گیا ہے ۔

علامہ قسطلانی رحمة الله علیہ نے مواہب لدنیہ میں ابن عربی رحمة الله علیہ کا قول نقل کیا ہے : درود پاک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دونوں جہانوں میں تعلق مضبوط ہوتا ہے ۔

علامہ آلوسی علیہ الرحمہ تفسیر روح المعانی میں رقم طراز ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تمام بنی نوع انسان اور مخلوق کےلیے الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، لہٰذا اس کے شکر ادا کرنے کی ایک شکل درود پاک ہے ، جتنی بھی جسمانی اور روحانی عبادات ہیں ۔ ترقیاں ہیں ، وصالِ حق ہے ۔ قربِ پروردگار ہے ، وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہے ۔ لہٰذا ان کا صلہ اگر کسی صورت میں ہے تو وہ درود پاک ہے ۔

درود شریف پڑھنے کا طریقہ : ⏬

وضو کر کے قبلہ رخ ہو کر دو زانوں ساری دنیا سے توجہ ہٹا کر پڑھنے والا یہ تصور کرے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور کے سامنے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور سے جو انوارات پھیل رہے ہیں او رنکل رہے ہیں ان سے میں بھی مستفید ہو رہا ہوں ۔ او رجو الفاظ زبان سے نکل رہے ہیں ان پر خصوصی توجہ ہو تو کچھ بعید نہیں کہ پڑھنے والا کل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے مستفید نہ ہو سکے او راس دنیا کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اس کا مقدر نہ بن سکے ۔ نماز والا درود شریف روزانہ تین سوتیرہ بار پڑھ لینا چاہیے ، اگر نہ ہو سکے تو تعداد کم کر لی جائے ، لیکن سو سے کم نہ ہو ، چاہے تو کوئی اور درود شریف بھی پڑھ سکتا ہے ، بالخصوص : اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم ۔ اور الصّلوۃُ والسّلام علیک یا رسول اللہ و علیٰ آلک و اصحابک یا حبیب اللہ پڑھا کریں ۔

الله تعالیٰ ہمیں کثرت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے مبارک ارشادات پر عمل کرنے والا بنائے ۔

یارب صل وسلم دائماً ابداً
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلھم

امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ایک مالدار آدمی جس کا کردار اچھا نہیں تھا لیکن اسے درود پاک پڑھنے کا شوق بڑا تھا۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور جانکنی کی حالت طاری ہوئی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا ۔ اس نے اسی حالت میں ندا دی ۔ اے اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے محبت رکھتا ہوں اور درود پاک کی کثرت کرتا ہوں ۔ ابھی اس نے یہ ندا پوری بھی نہ کی تھی کہ اچانک ایک پرندہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے اپنا پَر اس قریب المرگ آدمی کے چہرہ پر پھیر دیا ۔ فوراً اس کا چہرہ چمک اٹھا اور کستوری کی سی خوشبو مہک گئی اور وہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا دنیا سے رخصت ہو گیا ۔اور پھر جب تجہیز و تکفین ہو جانے کے بعد اسے لحد میں رکھا گیا تو ہاتف سے آواز سنی ، ہم نے اس بندے کو قبر میں رکھنے سے پہلے ہی کفایت کی اور اس درود پاک نے جو یہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑھا کرتا تھا ، اسے قبر سے اٹھا کر جنت میں پہنچا دیا ہے ۔ یہ سن کر لوگ بہت متعجب ہوئے اور پھر جب رات ہوئی تو کسی نے دیکھا ، زمین و آسمان کے درمیان وہ چل رہا ہے اور پڑھ رہا ہے ۔ (درۃ الناصحین صفحہ 172)

درود شریف اور حاجت کا پورا ہونا : ⏬

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایک دن میں مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) حاجتوں کا تعلق اس کی آخرت سے ہے اور تیس (30) کا اس کی دنیا سے ۔ (کنزالعمال جلد 1 صفحہ 505 رقم : 2232،چشتی)

حضرت جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرما دیتا ہے ۔ (تهذيب الکمال جلد 5 صفحہ 84)

حضرت انس رضی اللہ عنہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز تمام دنیا میں سے تم میںسب سے زیادہ میرے قریب وہ شخص ہوگا جو دنیا میں تم میں سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا پس جو شخص جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی سو حاجتیں پوری فرماتا ہے ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتا ہے جو اس درود کو میری قبر میں اس طرح مجھ پر پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور وہ مجھے اس آدمی کا نام اور اس کا نسب بمعہ قبیلہ بتاتا ہے، پھر میں اس کے نام و نسب کو اپنے پاس سفید کاغذ میں محفوظ کرلیتا ہوں ۔ (شعب الايمان جلد 3 صفحہ 111 رقم : 3035)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن اور رات مجھ پر سو (100) مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی سو (100) حاجتیں پوری فرماتا ہے۔ ان میں سے ستر (70) آخرت کی حاجتوں میں سے اور تیس (30) دنیا کی حاجتوں میں سے ہیں اور پھر ایک فرشتہ کو اس کام کے لئے مقرر فرما دیتا ہے کہ وہ اس درود کو میری قبر میں پیش کرے جس طرح تمہیں تحائف پیش کیے جاتے ہیں بے شک موت کے بعد میرا علم ویسا ہی ہے جیسے زندگی میں میرا علم تھا ۔ (کنزالعمال جلد 1 صفحہ 507 رقم : 2242،چشتی)

اللہ عزوجل کا مومنوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا حکم : ⏬

إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ يَأَ يُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمَا ۔ (سورہ الأحزاب آیت نمبر 56)
ترجمہ : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔

عن عبدالرحمٰن بن أبي ليلي قال لقيني کعب بن عجرة فقال ألا أهدي لک هدية إن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خرج علينا فقلنا يارسول اللہ قد علمنا کيف نسلم عليک فکيف نصلي عليک قال : قولوا : أللهم صل علي محمد وعلي آل محمد کماصليت علي إبراهيم وآلِ إبراهيم إنک حميد مجيد أللهم بارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم و علي آل إبراهيم إنک حميد مجيد ۔
ترجمہ : حضرت عبدالرحمٰن بن ابولیلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی خدمت میں سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہے لیکن ہم آپ پر درود کیسے بھیجا کریں ؟ فرمایا کہ یوں کہاکرو : اے اللہ ! درود بھیج حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جیسے تونے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بیشک تو بہت تعریف والا اور بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! برکت دے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جیسے تونے برکت دی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی آل کو بیشک تو تعریف والا اور بزرگی والاہے ۔

عن أبي سعيد نالخدري قال : قلنا يارسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم هذا السلام عليک فکيف نصلي عليک قال قولوا أللهم صل علي محمد عبدک ورسولک کماصليت علي إبراهيم وبارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم و علي آل إبراهيم ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام بھیجنا تو ایسے ہے لیکن ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کس طرح بھیجیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہو : اے اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیج جو تیرے بندے اور رسول ہیں جیسے تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر جیسے تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آلِ ابراہیم علیہ السلام کو برکت دی ۔ (بخاري، الصحيح، 5 : 2339، کتاب الدعوات، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 5997)(ابن ماجه، السنن، 1 : 292، کتاب إقامة الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، رقم : 903،چشتی)(احمدبن حنبل، المسند، 3 : 47، رقم : 11451)(ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 246، رقم : 8633) (ابويعلي، المسند، 2 : 515، رقم : 1364)(ابو عوانه المسند جلد 1 صفحہ 526 رقم : 1967)

عن أبي مسعود الأنصاري قال : أتانا رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم ونحن في مجلس سعد ابن عبادة فقال له بشير بن سعد أمرنا اللہ أن نصلي عليک يا رسول اﷲ فکيف نصلي عليک قال فسکت رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم حتي تمنينا أنه لم يسأله ثم قال رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : قولوا أللهم صل علي محمد وعلي آل محمد کماصليت علي إبراهيم وبارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم وعلي آل إبراهيم في العالمين إنک حميد مجيد والسلام کماقد علمتم ۔
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے (اس وقت) ہم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے۔ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا (ہمیں بتائیے) ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح درود شریف بھیجیں ؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے حتی کہ ہم نے خواہش کی کہ کاش انہوں نے یہ سوال نہ پوچھا ہوتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس طرح کہو ’’اے اللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر اس طرح رحمت بھیج جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ وبرتر ہے۔ اے اللہ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پر برکت اسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو دونوں جہانوں میں برکت دی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ و برتر ہے۔(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 359، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الاحزاب، رقم : 3220)(قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 14 : 113)

عن کعب بن عجرة أنه قال لما نزلت هذه الآية (يا أيهاالذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما) جاء رجل إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم فقال يارسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم هذا السلام عليک فکيف الصلاة؟ فقال : قولوا ’’أللهم صل علي محمد و علي آل محمد کماصليت علي إبراهيم إنک حميد مجيد أللهم بارک علي محمد وعلي آل محمد کما بارکت علي إبراهيم وعلي آل إبراهيم إنک حميد مجيد ۔
ترجمہ : حضرت کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’اے مومنو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو‘‘ تو اس وقت ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام تو اس طرح بھیجا جاتا ہے درود کس طرح بھیجا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس طرح کہو : ’’اے اللہ ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر اس طرح درود بھیج جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود نازل فرمایا بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد پر برکت نازل فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو برکت عطا فرمائی بے شک تو تعریف والا اور بزرگ و برتر ہے ۔(ابوعوانه، المسند، 1 : 527، رقم : 1970)(يوسف بن موسي، معتصر المختصر، 1 : 54،چشتی)(ابن عبدالبر، التمهيد، 16 : 185)(طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 21 : 117)(ابو نعيم، حلية الأوليا، 4 : 356)(ابو نعيم، حلية الأوليا، 7 : 108)


صلوٰۃ کا لغوی معنی دعا ہے ، جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس سے مراد رحمت فرمانا ہے اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف کی جائے تو اس سے مراد اِستغفار کرنا ہے اور جب اس کی نسبت عام مومنین کی طرف کی جائے تو اس سے مراد دعا کرنا ہے ۔ (تفسیرات احمدیہ صفحہ ۶۳۴)

علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (یہاں  آیت میں) اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم کے ساتھ ملی ہوئی ہو اور فرشتوں  کے درود بھیجنے سے مراد ان کا ایسی دعا کرنا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق ہو ۔ (تفسیر صاوی جلد ۵ صفحہ ۱۶۵۴)

علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ اس آیت ِمبارکہ میں  اس بات پر بہت بڑی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمتوں  کے نازل ہونے کی جگہ ہیں  اور علی الاطلاق ساری مخلوق سے افضل ہیں ۔(تفسیر صاوی جلد ۵ صفحہ ۱۶۵۴)

حافظ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : درود شریف کی آیت مدنی ہے اور ا س کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ قدر و مَنزلت بتا رہا ہے جو مَلاءِ اعلیٰ (عالَمِ بالا یعنی فرشتوں) میں  اس کے حضور ہے کہ وہ مُقَرّب فرشتوں  میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا بیان فرماتا ہے اور یہ کہ فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ بھیجتے ہیں ، پھر عالَمِ سِفلی کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجیں  تاکہ نیچے والی اور اوپر والی ساری مخلوق کی ثنا آپ پر جمع ہو جائے ۔
مزید فرماتے ہیں : آیت میں  صیغہ ’’ یُصَلُّوْنَ‘‘ لایا گیا ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اور ا س کے فرشتے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے ہیں حالانکہ اَوّلین و آخرین کی انتہائی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت ہی انہیں  حاصل ہو جائے تو زہے نصیب اور ان کی قسمت یہ کہاں ! بلکہ اگر عقلمند سے پوچھا جائے کہ ساری مخلوق کی نیکیاں  تیرے نامہِ اعمال میں  ہوں ، تجھے یہ پسند ہے یا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت تجھ پر نازل ہو جائے ؟ تو وہ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت کو پسند کرے گا ۔ اِس بات سے اُس ذات کے مقام کے بارے میں  اندازہ لگا لو جن پر ہمارا رب اور اس کے تمام ملائکہ ہمیشہ ہمیشہ درود بھیجتے ہیں ۔ (القول البدیع، نبذۃ یسیرۃ من فوائد قولہ تعالی : انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی ۔۔۔ الخ صفحہ ۸۵ - ۸۶)

امام سہل بن محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد ’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ‘‘ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو شرف بخشا وہ ا س شرف سے زیادہ بڑا ہے جو فرشتوں  کو حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر حضرت آدم علیہ السلام کو بخشا تھا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں  کے ساتھ سجدے میں  شریک ہوناممکن ہی نہیں  جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود بھیجنے کی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق خبر دی ہے اور پھر فرشتوں  کے متعلق خبر دی ہے ، پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو شرف حاصل ہو وہ اس شرف سے بڑھ کر ہے جو صرف فرشتوں  سے حاصل ہو اور اللہ تعالیٰ اس شرف کو عطا فرمانے میں  شریک نہ ہو ۔ (القول البدیع، نبذۃ یسیرۃ من فوائد قولہ تعالی : انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلّون علی النبی ۔۔۔ الخ صفحہ ۸۶-۸۷)

حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور بشاشت چہرہِ اقدس میں  نمایاں تھی ، ارشاد فرمایا : میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہا : آپ کا رب عزوجل فرماتا ہے : کیا آپ راضی نہیں کہ آپ کی اُمت میں  جو کوئی آپ پر درود بھیجے ، میں  اس پر دس بار درود بھیجوں گا اور آپ کی اُمت میں  جو کوئی آپ پر سلام بھیجے ، میں  اس پر دس بار سلام بھیجوں گا ۔ (سنن نسائی کتاب السہو باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۲۲۲ الحدیث : ۱۲۹۲)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن مجھ سے سب لوگوں میں  زیادہ قریب وہ ہو گا ، جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے ۔(جامع ترمذی کتاب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جلد ۲ صفحہ ۲۷ الحدیث : ۴۸۴)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اور وہ قبول ہو جائے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے 80 برس کے گناہ مٹا دے گا ۔ (در مختارورد المحتار کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فصل فی بیان تألیف الصلاۃ الی انتہائی جلد ۲ صفحہ ۲۸۴،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک بار درود بھیجے تو اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اس پر ستر بار درود بھیجتے ہیں ۔ (مسند امام احمد مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالی عنہما جلد ۲ صفحہ ۶۱۴ الحدیث : ۶۷۶۶)

درودِ پاک پڑھنا عظیم ترین سعادتوں  اور بے شمار برکتوں کے حامل اور افضل ترین اعمال میں  سے ایک عمل ہے ، بزرگانِ دین نے درود شریف کی برکتوں کو بکثرت بیان کیا ہے اور مختلف کتابوں میں ان برکتوں کو جمع کر کے بیان کیا گیا ہے ، ان میں  سے چند پیشِ خدمت ہیں پڑھ کر اپنے دلوں  کو منور کریں اور درودِ پاک کی عادت بنا کر ان برکتوں کو حاصل کریں : ⏬

(1) جو خوش نصیب رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود بھیجتا ہے ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دُرود بھیجتے ہیں ۔ (2) درود شریف خطاؤں  کا کفارہ بن جاتا ہے ۔ (3) درود شریف سے اعمال پاکیزہ ہو جاتے ہیں ۔ (4) درود شریف سے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ (5) گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے ۔ (6) درود بھیجنے والے کےلیے درود خود اِستغفار کرتا ہے ۔ (7)اس کے نامۂ اعمال میں اجر کا ایک قیراط لکھا جاتا ہے جو اُحد پہاڑ کی مثل ہوتا ہے ۔ (8) درود پڑھنے والے کو اجر کا پورا پورا پیمانہ ملے گا ۔ (9) درود شریف اس شخص کےلیے دنیا و آخرت کے تمام اُمور کےلیے کافی ہو جائے گا جو اپنے وظائف کا تمام وقت درود پاک پڑھنے میں بسر کرتا ہو ۔ (10) مَصائب سے نجات مل جاتی ہے ۔ (11) اس کے درود پاک کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہی دیں  گے ۔ (12) اس کےلیے شفاعت واجب ہو جاتی ہے ۔ (13) درود شریف سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ا س کی رحمت حاصل ہوتی ہے ۔ (14) اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امن ملتا ہے ۔ (15) عرش کے سایہ کے نیچے جگہ ملے گی ۔ (16) میزان میں  نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا ۔ (17) حوضِ کوثر پر حاضری کا موقع مُیَسّر آئے گا ۔ (18) قیامت کی پیاس سے محفوظ ہو جائے گا ۔ (19) جہنم کی آگ سے چھٹکارا پائے گا ۔ (20) پل صراط پر چلنا آسان ہو گا ۔ (21) مرنے سے پہلے جنت کی منزل دیکھ لے گا ۔ (22)جنت میں کثیر بیویاں ملیں گی ۔ (23) درود شریف پڑھنے والے کو بیس غزوات سے بھی زیادہ ثواب ملے گا ۔ (24) درود شریف تنگدست کے حق میں صدقہ کے قائم مقام ہو گا ۔ (25) یہ سراپا پاکیزگی و طہارت ہے ۔ (26) درود کے وِرد سے مال میں برکت ہوتی ہے ۔ (27) اس کی وجہ سے سو بلکہ اس سے بھی زیادہ حاجات پوری ہوتی ہیں ۔ (28) یہ ایک عبادت ہے ۔ (29) درود شریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں  سے ہے ۔ (30) درود شریف مجالس کی زینت ہے ۔ (31) درود شریف سے غربت و فقر دور ہوتا ہے ۔ (32) زندگی کی تنگی دور ہو جاتی ہے ۔ (33) اس کے ذریعے خیر کے مقام تلاش کیے جاتے ہیں ۔ (34) درود پاک پڑھنے والا قیامت کے دن تما م لوگوں  سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گا ۔ (35) درود شریف سے درود پڑھنے والا خود ، اس کے بیٹے پوتے نفع پائیں گے ۔ (36) وہ بھی نفع حاصل کرے گا جس کو درود پاک کا ثواب پہنچایا گیا ۔ (37) اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولِ مُکَرَّم کا قرب نصیب ہو گا ۔ (38) یہ درود ایک نور ہے ، اس کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل کی جاتی ہے ۔ (39) نفاق اور زنگ سے دل پاک ہو جاتا ہے ۔ (40) درود شریف پڑھنے والے سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔ (41) خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے ۔ (42) درود شریف پڑھنے والا لوگوں کی غیبت سے محفوظ رہتا ہے ۔ (43) درود شریف تمام اَعمال سے زیادہ برکت والا اور افضل عمل ہے ۔ (44) درود شریف دین و دنیا میں  زیادہ نفع بخش ہے اور اس کے علاوہ اس وظیفہ میں  اس سمجھدار آدمی کےلیے بہت وسیع ثواب ہے جو اعمال کے ذَخائر کو اکٹھا کرنے پر حریص ہے اور عظیم فضائل ، بہترین مناقب ، اور کثیر فوائد پر مشتمل عمل کےلیے جو کوشاں  ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بکثرت درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

درود پاک پڑھنے کی حکمتیں : ⏬

اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے درود شریف پڑھنا ایک عظیم عبادت ہے ، اس کے ساتھ ساتھ بزرگوں  نے درود شریف پڑھنے کی حکمتیں بھی بیان فرمائی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بعد جملہ مخلوقات میں سب سے زیادہ کریم ، رحیم ، شفیق ، عظیم اور سخی ہیں  اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مومنوں  پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ، اس لیے مُحسنِ اعظم کے احسان کے شکریہ میں ہم پر درود پڑھنا مقرر کیا گیا ہے ، چنانچہ علامہ سخاوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود پڑھنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق کو ادا کرنا ہے۔ بعض بزرگوں  نے مزید فرمایا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود بھیجنا ہماری طرف سے آپ کے درجات کی بلندی کی سفارش نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم جیسے ناقص بندے آپ جیسے کامل و اکمل کی شفاعت نہیں کر سکتے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا بدلہ چکانے کا حکم فرمایا جس نے ہم پر احسان و انعام کیا اور اگر ہم احسان چکانے سے عاجز ہوں تو محسن کےلیے دعا کریں ، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہیں تو اس نے درود پڑھنے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی تاکہ ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسان کا بدلہ بن جائیں  کیونکہ آپ کے احسان سے افضل کوئی احسان نہیں ۔

ابو محمد مرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اے مُخاطَب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود بھیجنے کا نفع حقیقت میں تیری ہی طرف لوٹتا ہے گویا تو اپنے لئے دعا کر رہا ہے ۔

ابن ِعربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود بھیجنے کا فائدہ درود بھیجنے والے کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ اس کا درود پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ درود شریف پڑھنے والے کا عقیدہ صاف ہے اور اس کی نیت خالص ہے اور اس کے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی پر مدد حاصل ہے اور اس کے اور اس کے آقا و مولیٰ ، دو عالَم کے دولہا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک مبارک اور مُقَدّس نسبت موجود ہے ۔ (القول البدیع المقصود بالصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۸۳)

اَحادیث میں  جہاں  درود پڑھنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں  وہیں  درود پاک نہ پڑھنے کی وعیدیں  بھی بیان ہوئی ہیں : ⏬

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو لوگ کسی مجلس میں  بیٹھیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں اور نہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دُرود پڑھیں تو (قیامت کے دن) ان کی وہ مجلس ان کےلیے باعثِ ندامت ہو گی ، اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا اور چاہے گا تو ان کو معاف فرما دے گا ۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات عن رسول اللہ ﷺ باب فی القوم یجلسون ولا یذکرون اللہ جلد ۵ صفحہ ۲۴۷ الحدیث : ۳۳۹۱،چشتی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود پاک نہ پڑھا وہ بدبخت ہے ۔ (معجم الاوسط باب العین من اسمہ علی جلد ۳ صفحہ ۶۲ الحدیث : ۳۸۷۱)

درود و سلام پڑھنے کا صلہ یہ ملتا ہے کہ یہ درود و سلام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ الصَّلٰوةَ عَلَیَّ زَکَاةٌ لَکُمْ ۔
ترجمہ : مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ مجھ پر (تمہارا) درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی وجسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے ۔ (مصنف ابن ابی شيبه جلد 2 صفحہ 203 رقم : 8704)

درود پڑھنے کو زکوۃ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح زکوۃ نکالنے سے بقیہ مال پاک ہو جاتا ہے اسی طرح اگر درود و سلام کثرت سے پڑھا جائے تو سارے اعمال پاک ہو جائیں یعنی جس طرح زکوۃ مال کو پاک کرتی ہے اسی طرح درود و سلام اعمال کو پاک کرتا ہے اور اگر درود و سلام نہ پڑھا جائے تو اعمال پاک نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ رب کائنات کے نزدیک نماز سے بڑھ کر عمل کونسا ہوگا ؟ جو معراج المومنین ہے ۔ رب تعالیٰ نے اپنی اس عظیم عبادت میں اپنی ثنا شروع میں ایک بار رکھی جبکہ ساری نماز ختم کر کے تشہد میں اپنے محبوب پر درود و سلام تین بار رکھا ۔ فرمایا میرے محبوب کو خطاب کر کے کہو السلام عليک ايها النبی ورحمة الله وبرکاته ۔ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر سلام ہو ۔ اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکت حاصل ہو ۔

لہٰذا پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام رکھا ابھی درود کی باری نہیں آئی بلکہ اسے بعد کلمہ شہادت (اشهد ان لا اله الا الله واشهد محمد عبده ورسوله) رکھا کہ ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اس شہادت توحید و رسالت سے بھی پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کروایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بندہ اگر نماز میں ہے اور اپنی توجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام پیش کر رہا ہے تو یہ عین حکم خداوندی ہے ۔ توحید و رسالت کی شہادت اور صلوۃ و سلام علی المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے درمیان تعلق دیکھو کہ رب تعالیٰ اپنی نماز میں توحید و رسالت کی شہادت سے پہلے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کروا کر اشارہ اس امر کی طرف کیا کہ توحید و رسالت کی شہادت اسی کی قبول ہوگی جو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑے جو سلام نہیں پڑھتا اس کی توحید و رسالت کی شہادت بھی قبول نہیں ہوگی جب توحید و رسالت کی شہادت ہوچکی تو اب صلوۃ رکھا ۔ اور پھر فرمایا کہ کہو : اللهم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صليت علی ابراهيم وعلی ال ابراهيم انک حميد مجيد. اللهم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراهيم وعلی ال ابراهيم انک حميد مجيد ۔
ترجمہ : الہٰی! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر صلوۃ بھیج جس طرح تو نے صلوۃ بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر بے شک تو تعریف کیا گیا بزرگ ہے ۔

یہاں ایک اہم نکتہ یہ کار فرما ہے کہ نماز میں باری تعالیٰ نے توحید و رسالت کی شہادت ایک بار رکھی جبکہ تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام رکھا جسے نماز کی قبولیت کا سبب بنایا گیا ۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا مجھ پر درود پڑھو کیونکہ یہ درود تمہارے اعمال کی زکوۃ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں کثرت کے ساتھ احادیث موجود ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا صَلَّيتُمْ عَليَّّ فَأَحْسِنُوا الصَّلٰوةَ فَإنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذٰلِکَ يُعْرَضُ عَلَيَّ ۔
ترجمہ : جب تم مجھ پر درود بھیجو تو نہایت خوبصورت انداز سے بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے ۔ (کنز العمال جلد 1 صفحہ 497 رقم : 2193،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِذَا قَالَ ذٰلِکَ فُتِحَتْ لَهُ اَبْوَابُ الرَّحْمَة ۔
ترجمہ : جب وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کےلیے رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔ (السنن الکبریٰ جلد 1 صفحہ 44 رقم : 196)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَأَکْثِرُوا الصَّّلٰوةَ عَلَيَّ ۔
ترجمہ : جب جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن آئے تو مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو ۔ (مسند شافعی جلد 1 صفحہ 70)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا بڑی سعادت اور برکات کا باعث ہے۔ درود پڑھنے والے جہاں کہیں سے بھی پڑھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں پہنچ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فإِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ مَا کُنْتُمْ ۔
ترجمہ : پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔ (سنن أبی داؤد جلد 2 صفحہ 218 کتاب المناقب باب زيارة القبور رقم : 2042،چشتی)

غور کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا درود خود مجھ تک پہنچتا ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ پہنچایا جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ سارا ہفتہ درود فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اور رات جہاں کہیں بھی تم پڑھتے ہو تمہارا درود میں خود وصول کرتا ہوں اور خود سنتا ہوں ۔

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ مَسْرُوْرًا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللہ ! مَا أَدْرِی مَتٰی رَأَيْتُکَ أَحْسَنَ بِشْرًا وَأَطْيَبَ نَفْسًا مِنَ الْيَوْمِ؟ قَالَ : وَمَا يَمْنَعُنِی وَجِبْرِيْلُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِی السَّاعَةَ فَبَشَّّرَنِي أَنْ لِکُلِّ عَبْدٍ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاةً يُکْتُبُ لَهُ بِهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَيُمْحٰی عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَيُرْفَعُ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَتُعْرَضُ عَلَیَّ کَمَا قَالَهَا، وَيُرَدُّ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا دَعَا ۔
ترجمہ : ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش تھے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آج سے بڑھ کر زیادہ خوش اور مسرور آپ کو کبھی نہیں پایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج جبریل امین (ں) آئے تھے ابھی نکل کر میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ امت میں سے جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھ لیتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے، اور جس طرح اس بندے نے درود بھیجا تھا اﷲ تعالیٰ انہی الفاظ سے اُس پر درود بھیجتا ہے ۔ (مصنف عبدالرزاق جلد 2 صفحہ 214 رقم : 3113،چشتی)

ایک دوسری حدیث جسے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللہ عَلَيَّ رُوْحِي حتَّی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو الہ تبارک و تعالیٰ مجھے میری روح لوٹا دیتا ہے پھر میں اس سلام بھیجنے والے شخص کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 218 کتاب المناسک باب زيارة القبور رقم : 2041)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ ۔
ترجمہ : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں، اور اس کے لئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔ (سنن نسائی کتاب السهو باب الفضل فی الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم جلد 4 صفحہ 50)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ القِيَامَةِ أَکْثَرَهُمْ عَلَیَّ صَلَاةً ۔
ترجمہ : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہو گا ۔(جامع ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم جلد 1 صفحہ 495، رقم : 484)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَه فَلَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ ۔
ترجمہ : وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا ۔ (جامع ترمذی ابواب الدعوات باب قول رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : رغم أنف رجل جلد 5 صفحہ 550 رقم : 3545،چشتی)

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کُلُّ دُعاءِ مَحْجُوْبَ حَتّٰی يُصَلَّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله عليه وآله وسلم)
ترجمہ : ہر دعا اس وقت تک پردۂ حجاب میں رہتی ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر درود نہ بھیجا جائے ۔ (المعجم الاوسط جلد 1 صفحہ 220، رقم : 725)

قیامت کے روز لوگوں میں سب سے زیادہ نزدیک : إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِي أَکْثَرُهُمْ عَلَّي صَلَاةً ۔
ترجمہ : قیامت کے روز لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا ۔ (خطيب بغدادی الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع جلد 2 صفحہ 103 رقم : 1304)

ایک کا بدلہ دس : مَنْ صَلَّی عَلَيَّ مِنْ اُمَّتِي صَلَاةً مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرَ صَلَوٰاتٍ وَرَفَعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ، وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَمَحٰی عَنْهُ عَشْرَ سَيَاتٍ ۔
ترجمہ : میری اُمت میں سے جو بھی خلوص نیت سے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعاليٰ اس کے بدلہ میں دس مرتبہ اس پر (بصورتِ رحمت) درود بھیجتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرما دیتا ہے اور دس نیکیاں اس کے حق میں لکھ دیتا ہے اوراس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے۔
یعنی اس کی اپنی بخشش ہوتی ہے، اس کےلیے جنت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔ (سنن نسائی جلد 6 صفحہ 21 رقم : 9892)

ہر ایک مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ایک مرتبہ اور اس سے زیادہ مستحب ہے ، یہی قول معتمد ہے اور اس پر جمہور ہیں ۔ اور نماز کے قعدۂ اخیرہ میں بعدِ تشہد درود شریف پڑھنا سنّت ہے ۔ درود شریف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آل و اصحاب و دوسرے مومنین پر بھی درود بھیجا جا سکتا ہے یعنی درود شریف میں آپ کے نامِ اقدس کے بعد ان کو شامل کیا جا سکتا ہے ۔

درود شریف اللہ تعالٰی کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکریم ہے عُلَماء نے اللّٰھم صل علٰی محمّد کے معنٰی یہ بیان کئے ہیں کہ یا ربّ محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظمت عطا فرما ، دنیا میں ان کا دین بلند ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقا عنایت کر کے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کر کے اور اوّلین و آخِرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء ، مرسلین و ملائکہ علیہم السلام اور تمام خَلق پر ان کی شان بلند کر کے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عظمت و خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نصیب ہے ، جس کی کوئی اور مثال نہ پورے قرآن پاک میں ہے ، اور نہ ہی تمام انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی اور رسول کے بارے میں اس طرح کی کوئی آیت نازل ہوئی ۔ یاد رہے جب اللہ عزوجل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزت ملتی ہے مگر جب فرشتے اور مخلوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اس سے درود بھیجنے والوں کو عزت ملتی ہے اور ان کی اپنی شان بلند ہوتی ہے ۔ اسی طرح کوئی عمل اور عبادت ایسی نہیں جس کا قبول ہونا حتمی اور قطعی ہو جیسے نماز، روزہ، حج ، زکوٰۃ ، صدقہ و خیرات ، جہاد و دیگر اعمالِ صالحہ اور ہر عبادت ظنی القبول ہے چاہے مولا قبول کرے چاہے نہ کرے مگر درود و سلام ایسا عمل ہے جو قطعی القبول ہے ۔ اِدھر درود پڑھنے والے نے درود پڑھا اور اُدھر اسی لمحے اسے شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے ۔ فاسق وفاجر اور گنہگار کا نیک عمل تو رد ہوسکتا ہے مگر درود و سلام ہرگز رد نہیں ہوتا کیونکہ اس کا عامل اس کی اپنی ذات نہیں بلکہ اللہ عزوجل کی ذات ہوتی ہے ۔ اسی لیے یہ قطعی القبول ہے ۔

اللہ عزوجل کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب : صَلٰوةُ اﷲِ ثَنَآؤُه عَلَيهِ عِندَ مَلَائِكَةِ ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الاحزاب جلد 4 صفحہ 282)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو العالیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ عزوجل کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے ۔ اللہ عزوجل ملائکہ کے اجتماع میں (اپنی شان کے لائق) اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے ۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وہی جانے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان سے نوازا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ عزوجل کو اپنی شان کے مطابق علم تھا کہ میں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا ہے ، لہٰذا پہلے ہی نامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھ دیا یعنی وہ ذات جس کی بار بار اور بے حد و حساب تعریف کی جائے ۔

مذکورہ حدیث میں ثَنَاؤُه عَلَيْهِ عِنْدَ مَلَائِكَةِ ۔ (ملائکہ کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنا) سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے بے حد و حساب اجتماع میں اللہ عزوجل ان کے سامنے اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرتا ہے گویا سارا عرش ، ملاء اعلیٰ اور پوری کائنات گوشۂ درود ہے جس میں اللہ عزوجل فرشتوں کو بلا کر ارشاد فرماتا ہے کہ آؤ ! میرے ساتھ شریک ہو جاؤ ۔

مذکورہ بالا دلائل سے بخوبی واضح ہوا کہ کس طرح درود شریف اُمتیوں کےلیے بخشش و مغفرت ، قبولیتِ دعا ، بلندی درجات اور قرب الٰہی و قربِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باعث بنتا ہے ۔


علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں پر صلوٰۃ پڑھتا ہے اس کا معنی ہے وہ ان کی حمدو ثناء فرماتا ہے اور ان کا تزکیہ فرماتا ہے ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو مسلمانوں پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں اس کا معنی ہے آپ ان کےلیے برکت کی دعا کرتے ہیں ‘ اور فرشتے جوصلوٰۃ پڑھتے ہیں اس کا معنی ہے وہ مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ (المفردات جلد ٢ صفحہ ٣٧٤ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطف الباز مکہ مکرمہ ١٤١٨ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی علیہ الرحمہ متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں ‘ اس کا معنی ہے وہ ان پر برکت نازل فرماتے ہیں ۔ مبرد نے کہا صلوٰۃ کا اصل معنی ہے رحمت ‘ پس اللہ کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے وہ رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے وہ مسلمانوں کےلیے اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرتے ہیں ‘ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تک تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہے اور بےوضو نہ ہو ‘ فرشتے اس کےلیے دعا کرتے رہتے ہیں ‘ اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما ‘ اے اللہ اس پر رحم فرما ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٩،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣٧٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٩ )

ابوبکر قشیری علیہ الرحمہ نے کہا جب اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کا معنی ہے رحمت نازل فرمانا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کا معنی ہے آپ کی زیادہ عزت افزائی اور تکریم کرنا ۔

امام ابو العالیہ علیہ الرحمہ نے کہا اللہ کے آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے فرشتوں کے سامنے آپ کی حمد وثناء کرنا اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے دعا کرنا ۔ (صحیح البخاری تفسیر سورة الاحزاب باب : ١٠)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو سلام پڑھنے کا ذکر ہے اس کے تین معنی ہیں : (١) یہ دعا کی جائے کہ آپ کے لیے سلامتی ہو اور آپ کے ساتھ سلامتی ہو ‘ یعنی تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت و سلامتی کو طلب کرو ۔ (٢) اللہ آپ کا محافظ ہو اور آپ کی رعایت کرے اور آپ کا متولی اور کفیل ہو ۔ یعنی تم آپ پر رحمت اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور رحمت کو طلب کرو ۔ (٣) سلام کا معنی ہے تسلیم کرنا ‘ مانا لینا ‘ اطاعت کرنا اور سرتسلیم خم کرنا ۔ گویا مومنوں سے فرمایا ہے تم آپ پر صلوٰۃ پڑھو اور اس حکم کو مان لو اور تسلیم کرلو اور اس حکم کی اطاعت کرو ۔ (الشفاء جلد ٢ صفحہ ٥١۔ ٥٠‘ ملخصا دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)

علامہ ابو السعادات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری علیہ الرحمہ المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : صلوٰۃ کا معنی عبادت مخصوصہ (نماز) ہے ‘ اور اس کا اصل معنی دعا ہے ‘ اور نماز میں بھی دعا ہوتی ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ صلوۃ کا اصل معنی تعظیم کرنا ہے ‘ اور نماز کو صلوٰۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے ‘ اور تشہد میں کہتے ہیں التحیات للہ والصلوات ‘ اس سے تعظیم کے وہ کلمات مراد ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی مستحق نہیں ہے ‘ اور جب ہم کہتے ہیں اللھم صل علی محمد تو اس کا معنی ہے اے اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیا میں ذکر بلند کر کے آپ کی تعظیم اور تکریم فرما اور آپ کے پیغام کو غالب فرما اور آپ کی شریعت کو باقی رکھ اور آخرت میں آپ کو اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے والا بنا ‘ اور آپ کے اجرو ثواب کو دگنا چوگنا فرما ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ نے ہم کو آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا حکم دیا اور ہم کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کا کیا مرتبہ ہے اور آپ پر کس طرح صلوٰۃ پڑھنی چاہیے تو ہم نے صلوٰۃ پڑھنے کو اللہ کے سپرد کردیا اور ہم نے کہا اے اللہ ! اپنے رسول مکرم کے مرتبہ کو تو ہی جاننے والا ہے تو ان کے مرتبہ کے موافق تو ہی ان پر صلوٰۃ پڑھ ۔ (النہایہ جلد ٣ صفحہ ٤٦ ‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ،چشتی)(مجمع بحار الانوار جلد ٣ صفحہ ٣٤٧ مکتبہ الایمان امدینۃ المنورۃ ١٤١٥ ھ)

علامہ شمس الدین محمد بن ابوبکر ابن القیم الجوزیہ المتوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں : صلوٰۃ کا معنی ہے جس پر صلوٰۃ پڑھی جائے اس کی حمد وثناء کرنا ‘ امام بخاری نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ پڑھنے کا معنی ہے فرشتوں کے سامنے آپ کی حمد وثناء کرنا اور فرشتوں کے صلوٰۃ پڑھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ کے حق میں دعا کرنا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے الاحزاب : ٥٦ میں اپنی اور فرشتوں کی صلوٰۃ کو جمع فرمایا ہے سو اس آیت میں معنی یہ ہے کہ اللہ اور فرشتے دونوں آپ کی حمد وثناء کرتے ہیں کیونکہ لفظ مشترک سے دو معنوں کا ارادہ کرنا جائز نہیں ہے ‘ پس جب صلوٰۃ کا معنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد وثناء کرنا اور آپ کے شرف اور فضیلت اور آپ کی تعظیم اور تکریم کو ظاہر کرنا تو پھر لفظ صلوٰۃ اس آیت میں دو معنوں میں مستعمل نہیں ہے بلکہ ایک ہی معنی میں مستعمل ہے اور وہ ہے آپ کی تعظیم و تکریم کرنا ۔ اور ہم کو جو آپ پر صلوٰۃ اور سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسی صلوٰۃ کو طلب کریں جو صلوٰۃ اللہ آپ پڑھتا ہے اور جو صلوٰۃ فرشتے آپ پر پڑھتے ہیں ‘ یعنی ہم اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کریں گے وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرے اور آپ کی تکریم کرے اور آپ کو اپنا مقرب بنانے کا ارادہ فرمائے ‘ اور ہمارے اس سوال اور دعا کو ہماری صلوٰۃ دو وجہوں سے فرمایا ہے : (١) یہ دعا آپ کی حمد وثناء اور آپ کے شرف اور فضیلت کے ذکر اور آپ کی محبت کو متضمن ہے ‘ اور صلوٰۃ کا معنی ہے جس پر صلوٰۃ پڑھی جائے اس کی حمد و ثنا کرنا ۔ (٢) اس دعا میں ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھے ‘ اور اللہ کی آپ پر صلوٰۃ یہ ہے کہ وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کے ذکر کو بلند کرنے اور آپ کو مقرب بنانے کا ارادہ فرمائے ‘ اور جب ہم آپ پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو اللہ س ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ پر صلوٰۃ پڑھنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ پر نزول رحمت کو طلب کرتے ہیں بلکہ ہم اللہ سے یہ طلب کرتے ہیں کہ وہ آپ کی حمد وثناء کرے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرے ۔ (جلاء الا فہام صفحہ ٨٧۔ ٨٥‘ ملقطا و ملخصا دارالکتاب العربی ‘ ٤١٤٧ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمہ متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی صلاۃ کے معنی میں کئی اقوال ہیں ‘ امام بخاری نے ابو العالیہ سے نقل کیا ہے ‘ اور ان کے غیر نے ربیع بن انس سے ‘ اور حلیمی نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کا ذکر بلند کرکے اور آپ کے دین کو غالب کرکے اور آپ کی شریعت کو باقی رکھ کر آپ کی تعظیم کو ظاہر فرمائے اور آخرت میں آپ کو اپنی امت کے لیے شفاعت کرنے والا بنائے اور آپ کے اجرو ثواب کو زیادہ اور دگنا چوگنا فرمائے اور آپ کو مقام محمود عطا فرما کر اولین اور آخرین پر آپ کی فضیلت کو ظاہر فرمائے اور تمام مقربین پر آپ کو مقدم فرمائے اور صلوٰۃ میں آپ کے ساتھ آپ کی آل اور اصحاب کا ذکر اس معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی تعظیم اس کے مرتبے کے حساب سے اور اس کی شان کے لائق کی جاتی ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جز ٢٢ صفحہ ١٠٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ،چشتی)

شیخ محمد بن علی بن محمد الشو کانی المتوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں : اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب صلوٰۃ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے رحمت کو نازل کرنا اور جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے دعا کرنا اور اس آیت میں فرمایا ہے : اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو ایک لفظ یصلون سے دو معنوں کا ارادہ کرنا کس طرح جائزہ وگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صلوٰۃ اور فرشتوں کی صلوۃ دونوں سے مراد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف اور آپ کی فضیلت کا اظہار کرنا ‘ اور آپ کی شان کی عظمت بیان کرنا ‘ اور اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے کہ اس کے نزدیک ملائکہ مقربین میں سے اس کے نبی کا کیا مرتبہ ہے کہ وہ ملائکہ کے سامنے اپنے نبی کی حمد وثناء کرتا ہے اور ملائکہ بھی اس کے نبی کی حمد وثناء کرتے ہیں اور اس نے اپنے بندوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی اقتداء کریں اور اس کے نبی کی حمد وثناء کریں ۔ (فتح القدیر جلد ٤ صفحہ ٣٩٧‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

غیر مقلدین کے مشہور عالم نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی اس عبارت کو نقل کرکے اس پر اعتماد کیا ہے ۔ (فتح البیان جلد ٥ صفحہ ٤٠١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ نے بھی اس سوال کا یہی جواب دیا ہے ۔ (معارف القرآن جلد ٧ صفحہ ٢٢٢ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

صدر الا فاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ متوفی ١٣٦٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : درود شریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکریم ہے ‘ علماء نے اللھم صل علی محمد کے یہ معنی بیان کیے ہیں یا رب ! محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظمت عطا فرما ‘ دنیا میں ان کا دین بلند اور ان کی دعوت غالب فرما کر اور ان کی شریعت کو بقاء عنایت کر کے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر اور ان کا ثواب زیادہ کرکے ‘ اور اولین اور آخرین پر ان کی فضیلت کا اظہار فرما کر اور انبیاء مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان بلند کرکے ان کی عظمت ظاہر فرما ۔ (خزاٸن العرفان)

سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتے ہیں : صلوٰۃ کا لفظ جب اللہ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی ہے مائل ہونا اور محبت کے ساتھ کسی کی طرف جھکنا اور اس آیت میں یہ دونوں معنی مراد ہیں اور جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان تو وہ تین معنوں میں ہوگا ‘ اس میں محبت کا مفہوم بھی ہوگا ‘ مدح وثناء کا مفہوم بھی اور رحمت کا مفہوم بھی لہٰذا اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں صلوا علیہ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہوجائو ان کی مدح وثناء کرو اور ان کےلیے دعا کرو ۔ (تفہیم القرآن جلد ٤ صفحہ ١٢٥۔ ١٢٤ ادارہ ترجمان القرآن لاہور ‘ ١٩٨٣ ئ)

صلوٰۃ و سلام کا معنی بیان کرتے ہوئے فقیر چشتی نے متعدد فقہاء اسلام کی تقریرات اور تحقیقات پیش کی ہیں اور فقیر کے نزدیک اس میں بہترین تقریر اور تحقیق علامہ ابن قیم جو زیہ نے کی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس بار درود پڑھتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠٨)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٣٠)(سنن الترمذی ٤٨٥،چشتی)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٦)(مسند احمد ج ٣ ص ٣٧٥۔ ٣٧٢)(تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٠ ص ٢٨‘ رقم الحدیث : ٨١٢٣ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا ایک شخص نماز میں دعا کررہا تھا اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں پڑھا ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص نے عجلت کی ہے ‘ پھر اس کو یا کسی اور کو بلا کر فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو پہلے اللہ کی حمد اور اس کی ثناء کرے ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے ‘ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٧٧)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨١)(سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨٤‘ مسند احمد ج ٦ ص ١٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کا ذکر نہ کریں اور نہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھیں تو قیامت کے دن ان کی وہ مجلس ان کےلیے باعث ندامت ہوگی ‘ اللہ چاہے گا تو ان کو معاف فرمادے گا اور اگر وہ چاہے گا تو ان سے مواخذہ فرمائے گا ۔ (سنن ابوداٶد رقم الحدیث : ٤٨٥٥)(سنن الترمذی)(السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٠٢٣٨)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٥٩٠)(المستدرک ج ١ ص ٤٩١)(حلیۃ الا ولیاء ج ٨ ص ١٣٠)(سنن کبری للبیھقی ج ٣ ص ٢١٠)(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٢)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے اوپر ماہ رمضان داخل ہوا اور اس کی مغفرت سے پہلے وہ ختم ہوگیا ‘ اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس اس کے ماں باپ بوڑھے ہوں اور انہوں نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥،چشتی)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٨‘ مسند احمدج ٢ ص ٢٥٤ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو اور تم میری قبر کو عید نہ بنائو اور مجھ پر درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے خواہ تم کہیں ہو ۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٤٢)(مسند احمد ج ٢ ص ٢٦٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان بھی مجھ پر سلام پڑھتا ہے اللہ میری روح کو اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے حتی کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٤١)(مسند احمد ج ٢ ص ٥٢٧ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری قبر پر درود پڑھا ‘ اللہ وہاں ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے جو اس کا درود مجھے پر پہنچاتا ہے اور وہ درود اس کی دنیا اور آخرت کےلیے کافی ہوتا ہے اور میں قیامت کے دن اس کےلیے گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا ۔ (تاریخ بغداد ج ٣ ص ٢٩٢۔ ٢٩١)(شعب الایمان رقم الحدیث : ١٥٨٣)(کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٤ ص ١٣٧۔ ١٣٦)(اللآلی المصنوعۃ ج ١ ص ٢٥٨)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس شخص نے مجھ پر ایک بار صلوٰۃ پڑھی اللہ اس پر دس بار صلوٰۃ پڑھتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٥٠ قدیم)(المستدرک رقم الحدیث : ٢٠١٨ جدید)(کنزالعمال ج ١ ص ٤٩١)

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری حضرت جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے خوش خبری دی کہ آپ کا رب فرماتا ہے جو شخص آپ پر صلوٰۃ پڑھے گا تو میں اس پر صلوٰۃ پڑھوں گا ‘ اور جو شخص آپ پر سلام پڑھے گا تو میں اس پر سلام پڑھوں گا ‘ تو میں نے اللہ کےلیے سجدہ شکر کیا ۔ امام ذہبی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٥٥٠‘ قدیم)(المستدرک رقم الحدیث : ٢٠١٩)(کنزالعمال ج ١ ص ٥٠٢)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ شخص ہوگا ‘ جو مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھتا ہو گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٨٤)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١١)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٣١١٦)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١٤)(المستدرک ج ٢ ص ٤٢١)(مسند احمد ج ١ ص ٤٤١)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں آپ پر بہت درود پڑھتا ہوں میں اپنی دعاٶں میں سے آپ پر درود کتنا پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو ‘ میں نے عرض کیا میں اپنی دعائوں میں سے چوتھائی حصہ آپ پر درود پڑھوں ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ‘ میں نے عرض کیا نصف حصہ ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ‘ میں نے کہا دو تہائی ؟ آپ نے فرمایا جتنا تم چاہو اور اگر تم زیادہ کرو تو وہ بہتر ہے ! میں نے عرض کیا میں اپنی تمام دعائوں میں آپ پر دورد شریف پڑھوں گا ‘ آپ نے فرمایا یہ تمہاری مہم کے لیے کافی ہے اور تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٥٧)(المستدرک ج ٢ ص ٥١٣)(مسند احمد ج ٥ ص ١٣٦)(مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٠)(جلاء الافہما رقم الحدیث : ٥٩‘ دارالکتبات العربی ‘ ١٤١٧ ھ)

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے ‘ اس میں حضرت آدم پیدا ہوئے ‘ اسی دن میں ان کی روح قبض کی گئی ‘ اسی دن صور پھونکا جائے گا ‘ اسی دن بےہوشی ہوگی ‘ تم اس دن میں مجھ پر بہ کثرت درود پڑھا کرو ‘ کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ‘ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ پر ہمارا درود کیسے پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہو چکا ہو گا ‘ آپ نے فرمایا اللہ نے انبیاء کے اجسام کھانے کو زمین پر حرام کر دیا ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٤٧)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٥)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩١٠)(المستدرک ج ١ ص ٢٧٨‘ مسند احمد ج ٤ ص ٨)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر جمعہ کے دن مجھ پر بہ کثرت درود پڑھا کرو ‘ کیونکہ میری امت کا درود مجھ پر ہر جمعہ کے دن پیش کیا جاتا ہے اور جو میری امت میں سے مجھ پر زیادہ درود پڑھنے والا ہوگا ہو میرے زیادہ قریب ہو گا ۔ (سنن کبری للبیھقی ج ٣ ص ٢٤٩)(الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٢٥٠ )

حضرت عمار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمار ! بیشک اللہ نے ایک فرشتے کو تمام مخلوق کی سماع عطا کی ہے اور جب میری وفات ہوگی تو وہ قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا ‘ پس میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا ‘ وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا اے محمد ! فلاں فلاں شخص نے آپ پر درود پڑھا ہے ‘ پھر اللہ عزوجل اس کے ہر درود کے بدلہ میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ (مسند البز اررقم الحدیث : ٣١٦٣‘ ٣١٦٢)(حافظ الھیشمی نے کہا اس کی سند میں ایک راوی نعیم بن ضمضم ضعیف ہے اور اس کی سند کی باقی رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٢)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھا ‘ جب تک اس کتاب میں میرا نام ہے ‘ فرشتے اس کےلیے استغفار کرتے رہیں گے ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٨٥٦)(مجمع الزوائد ج ١ ص ١٣٦)(کنزالعمال رقم الحدیث :: ٢٢٤٣)(تاریخ دمشق الکبیر ج ٦ ص ١٢١‘ رقم الحدیث : ١٦٠١٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنی کتاب میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا جب تک وہ کتاب رہے گی فرشتے اس کےلیے استغفار کرتے رہیں گے ۔ (الالی المصنوعۃ ج ١ ص ١٨٦‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ٥ ص ٥٠)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اس کو مجھ پر درود پڑھنا چاہیے ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٩٤٥)(حافظ الھشیمی نے کہا اس حدیث کے رجال صحیح ہیں ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٣٠٠)

حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٤)(مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٣٦)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٦٧٧٦)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٨٨٥)

ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر پڑھے ‘ پھر پست آواز سے سورة فاتحہ پڑھے ‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے ‘ پھر میت کےلیے دعا کرے پھر آہستگی سے سلام پھیر دے ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (سنن کبری لببیھقی ج ٤ ص ٤٠)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٦٤٢٨)(المستدرک ج ١ ص ٣٦٠ )

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو فرشتہ اس درود کو لے کر اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے ‘ پھر ہمارا رب تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اس بندہ کی قبر پر جا کر اس بندہ کے لیے ایسا استغفار کرو جس سے اس بندہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ (الفردوس بما ثورالخطاب رقم الحدیث : ٦٠٢٦)(زھر الفردوس ج ٤ ص ٣)

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بندہ بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ بندہ کہیں پر ہو ‘ ہم نے پوچھا آپ کی وفات کے بعد بھی ؟ آپ نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے کھانے کو زمین پر حرام کردیا ہے ۔ (جلاء الا فہما رقم الحدیث : ١١٠‘ ص ٦٤‘ دارالکتاب العربی ‘ ١٤١٧ ھ)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے ‘ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ کے ساتھ تھے ‘ جب میں بیٹھ گیا تو میں نے پہلے اللہ عزوجل کی ثناء کی ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا پھر میں نے اپنے لیے سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سوال کرو تم کو عطا کیا جائے گا ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٩٣)(شرح السنہ رقم الحدیث : ١٤٠١)(المسند الجامع رقم الحدیث : ٩٠٣٨)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر دعا اور آسمان کے درمیان حجاب ہوتا ہے حتی کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا جائے ‘ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ لیا جائے تو وہ حجاب پھٹ جاتے ہیں اور دعا قبول ہوجاتی ہے ‘ اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔ (الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٦١٤٨)(الکامل لا بن عدی ج ٢ ص ٦٠٤)(المعجم الا وسط رقم الحدیث : ٧٢٥،چشتی)(حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کے رجال ثقات ہیں ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٠)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما نے فرمایا دعا آسمان اور زمین کے درمیان موقوف رہتی ہے ‘ اس میں سے کوئی چیز اوپر نہیں چڑھتی حتی کہ تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ لو ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٦)

علامہ ابن قیم الجوازیہ المتوفی ٧٥١ ھ لکھتے ہیں : احمد بن الحواری نے کہا میں نے ابو سفیان الدارنی سے یہ سنا ہے کہ جو اللہ سے اپنی حاجت کے سوال کا ارادہ کرے وہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے ‘ پھر اپنی حاجت کا سوال کرے ‘ آخر میں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے ‘ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑھے ہوئے درود کو قبول کیا جاتا ہے اور وہ اس سے بہت کریم ہے کہ وہ درمیان کی دعائوں کو رد کردے ۔ (جلاء الافہما ص ٢١٧‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی  علیہ الرحمہ متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں : علامہ الباجی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ جب تم اللہ سے دعا کرو تو اپنی دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ کو بھی رکھو ‘ کیونکہ آپ پر صلوٰۃ کو قبول کیا جاتا ہے ‘ اور اللہ عزوجل اس سے بہت کریم ہے کہ وہ بعض دعا کو قبول کرے اور بعض کو رد کردے ۔ (احیاء العلوم ج ١ ص ٢٩٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ،چشتی)(اتحاف السادۃ المتقین ج ٥ ص ٤١‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٤ ھ) ۔ اور جو چیز مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ درود کے قطعاً قبول ہونے سے مراد یہ ہے کہ درود اصلاً مردود نہیں ہوتا ‘ درود دعا ہے ‘ اور بعض دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور بعض دعائیں کسی حکمت کی وجہ سے مقبول نہیں ہوتیں ‘ اور درود دعائوں کے عموم سے خارج ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی ضر درود پڑھتے ہیں اور یہ جملہ اسمیہ ہے اور اس کی خبر فعل مضارع ہے اس کا تقاضا استمرار تجددی ہے اور اس جملہ کو تاکید سے بھی موکد کیا ہے ‘ اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ پر درود پڑھتا رہتا ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بھی احسان فرمایا اور ان کو بھی آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا تاکہ ان کو مزید فضل اور شرف حاصل ہو ‘ ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کے صلوٰۃ پڑھنے کی وجہ سے ان کی صلوٰۃ سے مستغنی ہیں پس جب مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرے گا کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھے تو اس کی یہ دعا قطعاً مقبول ہوگی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ خبر دی ہے کہ وہ آپ پر صلوٰۃ پڑھتا ہے ‘ اور باقی دعائیں اور عبادات اس طرح نہیں ہیں ۔ (ردالمختار ج ٢ ص ٢٠٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اس کی مثل کلمات کہو پھر مجھ پر درود پڑھو ‘ کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے ‘ اللہ اس پر دس بار درود پڑھتا ہے ‘ پھر میرے لیے وسیلہ (جنت میں ایک بلند مقام) کا سوال کرو ‘ وہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا ‘ اور مجھے توقع ہے کہ وہ میں ہوں ‘ پس جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤)(سنن ابوداٶد رقم الحدیث : ٥٣٣)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٠)(السنن الکبری للبھقی ج ١ ص ١٤٠ )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کرے اور یہ دعا کرے اللھم افتح لی ابواب رحمتک اور جب مسجد سے نکلے تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام عرض کرے اور یہ دعا کرے اللھم اجرنی من الشیطان ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٧٣)(السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٩٩١٨)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٤٧)(المستدرک ج ١ ص ٢٠٧،چشتی)(السنن الکبری للبیھقی ج ٢ ص ٤٤٢)(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٦٧٠)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تم مسجد میں گزرو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھو ۔ (جلاء الافہام ص ٢٣٤)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کتاب میں مجھ پر دررود لکھا تو جب تک اس کتاب میں میرا نام ہے اس پر درود پڑھا جاتا رہے گا ۔
سفیان ثوری علیہ الرحمہ  نے کہا صاحب حدیث کےلیے اس سے بڑا اور کیا فائدہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود لکھتا ہے اور جب تک اس کی کتاب میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا ہو اس پر درود پڑھا جاتا رہے گا ۔
محمد بن ابی سلیمان علیہما الرحمہ نے کہا میں نی اپنے والد کو خواب میں دیکھا میں نے پوچھا : اے ابا جان آپ کے ساتھ اللہ نے کیا کیا ؟ کہا اللہ نے مجھے بخش دیا ! میں نے پوچھا کس وجہ سے ؟ انہوں نے بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود لکھنے کی وجہ سے ۔
عبد اللہ بن عمرو علیہما الرحمہ نے کہا میرے بعض معتمد دوستوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک محدث کو خواب میں دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا اللہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا ؟ کہا مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے بخش دیا میں نے پوچھا کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا میں جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے پاس سے گزرتا تو وہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا دیتا ۔
حافظ ابو موسیٰ نے متعدد محدثین علیہم الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ ان کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا گیا اور انہوں نے بتایا کہ اللہ نے انہیں اس لیے بخش دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے تھے ۔ (جلاء الافہما صفح ٢٣٧۔ ٢٣٦‘ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے صبح کے وقت دس بار مجھ پر درود پڑھا اور شام کو مجھ پر دس بار درود پڑھا وہ قیامت کے دن میری شفاعت کو پالے گا ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٥٢٧)۔(حافظ الھیشمی نے کہا امام طبرانی نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے ان میں سے ایک حدیث کی سند جید ہے اور اس کے رال کی توثیق کی گئی ہے۔ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٢٠)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس شخص کے پاس صدقہ نہ ہو وہ اپنی دعا میں یہ پڑھے : اللھم صل علی (سیدنا) محمد عبدک ورسولک وصل علی المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات تو یہ اس کی زکوۃ ہو جائے گی ۔ (المستدرک ج ٤ ص ١٣٠۔ ١٢٩)(الفردوس بما ثور الخاط رقم الحدیث : ١٣٩٥)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٣٩٧،چشتی)(حافظ الھیشمی نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر وہ کام جس کی ابتداء اللہ کے ذکر سے نہ ہو اور مجھ پر درود سے نہ ہو وہ نا تمام رہتا ہے اور ہر قسم کی برکت سے منقطع رہتا ہے ‘ اس کی سند ضعیف ہے ۔ (جلاء الافہام صفحہ ٢٥١ دارالکتاب العربی)(القول البدیع صفحہ ٣٤٩ مکتبہ المؤید الطائف)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کا کان بجنے لگے ‘ تو وہ مجھ پر درود پڑھے ‘ اور یہ دعا کرے کہ اللہ اس کو خیر کے ساتھ یاد کرے جو مجھے یاد کرتا ہے۔ اس حدیث کی سند حسن ہے ۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩٥٨)(المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١١٠٤)(مسند البز اررقم الحدیث : ٣١٢٥،چشتی)(مکارم الاخلاق ص ٥٤٥)(حافظ الھیشمی نے کہا امام طبرانی کی سند حسن ہے ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧١٤٢)

قاسم بن محمد علیہما الرحمہ بیان کرتے ہیں ہیں کسی شخص کےلیے مستحب یہ ہے کہ جب وہ تلبیہ (حج میں اللھم لبیک کہنے) سے فارغ ہو تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے ۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے ۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : ٢٦٣)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چاندنی رات اور روشن دن میں تم مجھ پر زیادہ درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٤٣)(حافظ الھیشمی نے کہا اس کی سند میں ایک ضعیف راوی ہے ‘ مجمع الزوائد ج ٢ ص ١٦٩)

عبد اللہ بن دینار علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر کھڑے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ رہے تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کےلیے دعا کر رہے تھے ۔(جلاء الافہام صفحہ ٢٣٠)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم کوئی چیز رکھ کر بھول جائو تو مجھ پر درود پڑھو ‘ ان شاء اللہ تم اس کو یاد کر لوگے ۔ (اس حدیث کی ضعیف ہے) ۔ (القول البدیع صفحہ ٣٢٦ )

حضرت عثمان بن ابی حرب الباھلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی حدیث کو بیان کرنے کا ارادہ کرے پھر اس کو بھول جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ مجھ پر درود پڑھے ‘ کیونکہ مجھ پر درود پڑھنے کی وجہ سے توقع ہے کہ اس کو وہ حدیث یاد آجائے گی ۔ (اس حدیث کی سند ضعیف ہے) ۔ (القول البدیع صفحہ ٣٢٧،چشتی)(کنزالعمال رقم الحدیث : ٤١٦٦٤)(عمل الیوم واللیلۃ لابن سنی رقم الحدیث : ٢٨٢)

حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! آپ پر سلام پڑھنے کو تو ہم نے جان لیا ہے ‘ پس آپ پر صلوٰۃ کیسے پڑھی جائے ‘ آپ نے فرمایا تم اس طرح پڑھو۔ اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ال ابراھیم انک حمید مجید ‘ اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ اور روایت میں یہ الفاظ ہیں : کما صلیت علی ابراھیم وبارک علی محمد وآل محمد کمابارکت علی ابراھیم و آل ابراھیم ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٩٨۔ ٤٧٩٧)(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٩٧٦)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٣)(سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨٩)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٠٤)

درود ابراہیمی میں تشبیہ اور دوسرے اعتراض کا جواب : ⏬

اس حدیث پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم اس کے نبی پر صلوٰۃ بھیجیں ‘ ہم نے اس پر اس طرح عمل کیا کہ اے اللہ تو اپنے نبی پر صلوٰۃ بھیج دے ‘ یہ اس کے حکم پر کیسے عمل ہوا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص کی جناب میں اس کے مرتبہ اور مقام کے موافق تحفہ پیش کیا جاتا تو گویا ہم نے یہ عرض کیا کہ ہم تیرے نبی کے مرتبہ اور مقام سے کما حقہ واقف نہیں ہیں ‘ ان کے مرتبہ اور مقام سے تو ہی واقف ہے سو ان کے مرتبہ اور مقام کے مطابق صلوٰۃ کو بھی تو ہی پیش فرما ۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلوٰۃ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صلوٰۃ کے ساتھ کیوں تشبیہ دی گئی ہے اور کسی نبی کی صلوٰۃ کے ساتھ کیوں تشبیہ نہیں دی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا نام امت مسلمہ رکھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلوٰۃ کو ان کی صلوٰۃ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ‘ درج ذیل آیات میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے ہمارا نام مسلمان رکھا ۔
ھو سمکم المسلمین لا من قبل۔ (الحج : ٧٨) ابراہیم نے اس سے پہلے تمہارا نام مسلمین رکھا ۔
ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک۔ (البقرہ، ١٢٨) اے ہمارے رب ہمیں مسلمان (اپنا اطاعت شعار) رکھ ‘ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت کو مسلمان (اپنااطاعت شعار) رکھ ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنا خلیل بنایا تھا سو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی صلوٰۃ نازل فرما کہ آپ کو بھی اپنا خلیل بنالے ‘ اور یہ دعا مقبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنا لیا ‘ حدیث میں ہے : آپ نے فرمایا : اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا لیکن تمہارے پیغمبر اللہ کے خلیل ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٤)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٣)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٣)

ایک اور مشہور اعتراض یہ ہے کہ قاعدہ یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ بہ مشبہ سے اقویٰ اور افضل ہوتا ہے اور اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلوٰۃ مشبہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صلوٰۃ مشبہ بہ ہے ۔ پس لازم آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صلوٰۃ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلوٰۃ سے افضل ہو ۔ اس اعتراض کے درج ذیل جوابات ہیں : ⏬

(١) یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بعض اوقات مشبہ ‘ مشبہ بہ سے افضل ہوتا ہے جیسے ہماری امت پچھلی امتوں سے افضل ہے اس کے باوجود روزے فرض کرنے میں ہمار امت کو پچھلی امتوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔ (البقرہ : ١٨٣) تم پر اس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح پچھلی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے ۔

(٢) اس حدیث میں کاف تشبیہ کےلیے نہیں ہے بلکہ تعلیل کےلیے ہے اور اس کا معنی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ نازل فرما کیونکہ تو نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صلوٰۃ نازل فرمائی ہے ۔

(٣) ہمارے نبی کی صلوٰۃ کو صرف حضرت ابراہیم کی صلوۃ سے تشبیہ نہیں دی بلکہ ابراہیم اور آل ابراہیم کی صلوٰۃ سے تشبیہ دی ہے اور آل ابراہیم میں خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی داخل ہیں ‘ پس مشبہ بہ حضرت ابراہیم اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی صلوٰۃ ہے اور دونوں کی صلوٰۃ صرف ہمارے نبی کی صلوٰۃ سے افضل ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کے حکم میں مذاہب ائمہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک علیہما الرحمہ کا مذہب یہ ہے کہ پوری عمر میں صرف ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا فرض ہے ‘ ہرچند کہ اس آیت (الاحزاب : ٥٦) میں آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن امر کسی کام کو بار بار کرنے کا تقاضا نہیں کرتا ۔

امام شافعی علیہ الرحمہ کا مذہب یہ ہے کہ تشہد اخیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے ۔

امام احمد علیہ الرحمہ کے دو قول ہیں ‘ ایک قول امام ابوحنیفہ کی مثل ہے اور ایک قول امام شافعی کی مثل ہے ۔

امام طحاوی علیہ الرحمہ کا مسلک یہ ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جائے آپ پر درود شریف پر ھنا واجب ہے ‘ اور صحیح یہ ہے کہ ایک مجلس میں اگر آپ کا ذکر متعدد بار کیا جائے تو ایک بار درود پڑھنا واجب ہے اور ہر بار درود پڑھنا مستحب ہے ۔ (جلاء الا فہام صفحہ ٢٢٠۔ ٢١٩)(القول البدیع صفحہ ٢٠)(الجامع لا حکام القرآن جز ١٤ ص ٢١٠،چشتی)(روح المعانی جز ٢٢ ص ١١٦)(ردالمختار ج ٢ ص ٢٠١۔ ٢٠٠)

ہر بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر پر درود پڑھنے کے دلائل اور ان کے جوابات :⏬

جو فقہاء یہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو آپ پر پھر درود پڑھنا واجب ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جس کے سامنے میرا ذرک کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا ۔ الحدیث ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٤٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٠٨)

اور جو فقہاء یہ کہتے ہیں کہ مجلس میں ہر بار آپ کا ذکر سننے سے آپ پر درود شریف پڑھنا واجب نہیں ہوتا ان کے دلائل درج ذیل ہیں : ⏬

(١) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین علیہم الرحمہ ہر بار آپ کے ذکرکے ساتھ درود نہیں پڑھتے تھے ‘ بسا اوقات وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے صرف یارسول اللہ کہتے تھے اور آپ پر درود نہیں پڑھتے تھے ‘ اگر ہر بار آپ کے ذکر کے ساتھ آپ پر درود پڑھنا واجب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو درود ترک کرنے قر منع فرماتے ۔

(٢) اگر ہر بار آپ کے ذ کر کے ساتھ آپ پر درود پڑھنا واجب ہوتا تو مؤذن پر واجب ہوتا کہ وہ اذا میں اشھد ان محمد ارسول اللہ پڑھنے کے بعد آپ پر درود پڑھتا ۔

(٣) اسلام میں داخل ہونے کےلیے جب کوئی شخص کلمہ شہادت میں آپ کا ذکر کرتا تو اس پر واجب ہوتا کہ وہ آپ پر درود بھی پڑھے ۔

اور جس حدیث میں آپ نے فرمایا ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے وہ بخیل ہے یا اس کی ناک خاک آلودہ ہو ‘ یہ حدیثیں اس شخص پر محمول ہیں جو آ پکا ذکر سن کر مطلقاً آ پر درود نہ پڑھتاہو ‘ یا آپ پر درود پڑھنے کا منکر ہو ‘ یا استخفافاً آپ پر درود نہ پڑھتا ہو یا اس کو غیر اہم سمجھ کر ترک کرتا ہو یا آپ سے بغض رکھنے کی وجہ سے آپ پر درود نہ پڑھے ‘ یا وہ نماز میں مشغول ہو یا قرآن مجید پڑھنے میں یا اور اد اور تسبیح وغیرہ پڑھنے میں یا دینی کتب کا مطالعہ کرنے میں یا وہ بیمار ہو یا وہ کسی پریشانی اور غم میں مبتلا ہو اور اس وجہ سے وہ ہر بار آ پکا ذکر سن کر آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ ان وعیدوں میں داخل نہیں ہے ‘ البتہ ہر بار آپ کا ذکر سن کر آپ پر درود پڑھنے میں فضیلت ہے بلکہ ہر فارغ وقت میں آپ پر درود پڑھنے میں فضیلت ہے ۔


اذان سے پہلے اور بعد میں درود و سلام پڑھنا : اذان کے بعد درد شریف پڑھنا اور آپ کےلیے وسیلہ کی دعا کرنا اور آپ کی شفاعت کے حصول کی دعا کرنا مسنون اور مستحب ہے ‘ اور مسلم ممالک کے اکثر علاقوں میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ مؤذن نماز مغرب اور خطبہ جمعہ کے علاوہ جب لاٶڈ اسپیکر پر اذان یدیتے ہیں تو اذان سے کچھ وقفہ پہلے اور کچھ وقفہ بعد ‘ مختلف الفاظ اور مختلف صیغوں میں تعداد کی تعین کے بغیر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ اور ان کا یہ فعل محض آپ کی محبت اور آپ کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے اور آپ کی تعظیم اور تکریم کےلیے ہوتا ہے اس لیے اس کے مستحسن اور محمود ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے ‘ چونکہ ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کا معمول اور رواج نہیں تھا اس بناء پر اس کو فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے بدعت حسنہ لکھا ہے ‘ تاہم ظاہری عہدِ رسالت اور بعد کے مشہود بالخیر ادوار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کے ذکر ‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی کثرت ‘ محافل میلاد ‘ جلوس اور مجالس نعت کو بدعت اور مکروہ بھی نہیں کہا جاتا تھا اس لیے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ‘ اور ہمارے زمانہ میں بعض لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی کثرت اور صلوٰۃ وسلام کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبین اور آپ پر صلوٰۃ وسلام پڑھنے کے شائقین ہر حیلہ اور ہر بہانے سے اور ہر مناسب موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ سو وہ اذان سے پہلے اور بعد بھی وقفہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں اور اس کو فرض یا واجب نہیں کہتے مستحب ہی سمجھتے ہیں ۔

جن مواقع پر فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کو مستحب کہا ہے وہ درج ذیل ہیں : ⏬

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمہ متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں : جب کوئی مانع نہ ہو تو ہر وقت صلوٰۃ و سلام پڑھنا مستحب ہے ‘ اور فقہاء نے حسب ذیل مواقع پر صلوٰۃ و سلام پڑھنے کے مستحب ہونے کی تصریح کی ۔
جمعہ کے دن اور جمعہ کی شب کو ‘ اور ہفتہ ‘ اتوار اور جمعرات کے دن بھی کیونکہ ان تین دنوں کے متلعق بھی احادیث وارد ہیں ‘ اور صبح اور شام کو ‘ اور مسجد میں دخول اور مسجد سے خروج کے وقت ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کے وقت ‘ اور صفا اور مروہ کے پاس ‘ اور خطبہ جمعہ اور موذن کی اذان کے کلمات کے جواب دینے کے بعد اور اقامت کے وقت ‘ اور دعا کے اول ‘ اوسط اور آخر میں ‘ اور دعاقنوت کے بعد ‘ اور تلبیہ (حج میں اللہم لبیک کہنے) کے بعد ‘ اور لوگوں کے ساتھ جمع ہونے اور ان سے الگ ہونے کے وقت ‘ اور وضو کے وقت اور کان میں بھنبھناہٹ کے وقت ‘ اور کسی چیز کے بھولنے کے وقت ‘ اور وعظ کہنے اور علوم کی اشاعت کے وقت ‘ اور حدیث پڑھنے کی ابتداء اور انتہاء کے وقت ‘ سوال اور فتویٰ لکھتے وقت ‘ ہر تصنیف ‘ درس اور خطبہ کے وقت منگنی اور نکاح کے وقت ‘ رسائل میں اور ہر اہم کام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک ذکر کرتے وقت ‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم سنتے وقت اور آپ کا اسم شریف لکھتے وقت ‘ اس کی تفصیل علامہ فاسی نے دلائل الخیرات میں کی ہے ۔ (ردالمختار جلد ٢ صفحہ ٢٠٤ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ،چشتی)

مذکورہ عبارت میں علامہ شامی علیہ الرحمہ نے اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے کو مستحب لکھا ہے ‘ ہمارے شہروں میں عموماً مؤذن اذان سے پہلے صلوٰۃ وسلام پڑھتے ہیں ‘ ہرچند کہ کچھ فصل کر کے اذان سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں بھی حرج نہیں ہے ‘ تاہم اصل یہ ہے کہ اذان کے بعد کچھ وقفہ کر کے صلاۃ و سلام پڑھا جائے ‘ علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکیف الحنفی علیہ الرحمہ المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں : اذان کے بعد سلام پڑھنے کی ابتداء سات سو اکیاسی ہجری (٧٨١ ھ) کے ربیع الاخر میں پیر کی شب عشاء کی اذان سے ہوئی اس کے بعد جمعہ کے دن اذان کے بعد سلام پڑھا گیا ‘ اس کے دس سال عبد مغرب کے سوا تمام نمازوں میں دو مرتبہ سلام پڑھا جانے لگا اور یہ بدعت حسنہ ہے ۔ (الدر المختار مع رد المختار جلد ٢ صفحہ ٥٢ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٩ ھ،چشتی)

علامہ شمس الدین سخاوی علیہ الرحمہ متوفی ٩٠٢ ھ لکھتے ہیں : مؤذنوں نے جمعہ اور صبح کے علاوہ فرائض کی تمام اذانوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام پڑھنا شروع کر دیا ہے ۔ اس کی ابتداء سلطان ناصر الدین یوسف بن ایوب کے زمانہ میں اس کے حکم سے ہوئی ‘ اس سے پہلے جب حاکم ابن العزیز قتل کیا گیا تھا تو ابن العزیز کی بہن جو بادشاہ کی بیٹی تھی ‘ اس نے حکم دیا تھا کہ اذان کے بعد اس کے بیٹے ظاہر پر سلام پڑھا جائے جس کی یہ صورت تھی السلام علی الا مام الظاہر ‘ پھر اس کے بعد یہ طریقہ اس کے خلفاء میں جاری رہا تاآنکہ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے اس کو ختم کیا ‘ اللہ تعالیٰ اس کو جزائے خیر دے ‘ اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں اختلاف ہے کہ یہ مستحب ہے ‘ مکروہ ہے ‘ بدعت ہے یا جائز ہے ‘ صحیح یہ ہے کہ حسنہ ہے اور اس کے فاعل کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا ۔ (القول البدیع صفحہ ٢٨٠ ۔ ٢٧٩ ملخصا مکتبہ الموید الطائف الملکۃ العربیۃ السعود یہ ١٤٠٨ ھ،چشتی)

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن حجر الہیتمی المکی علیہ الرحمہ المتوفی ٩٧٤ ھ ‘ علامہ عمر بن ابراہیم ابن نجیم الحنفی المتوفی ١٠٠٥ ھ ‘ علامہ احمد بن محمد بن محمد الطحطاوی الحنفی المتوفی ١٢٣١ ھ ‘ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی المتوفی ١٢٥٢ ھ علیہم الرحمہ نے امام جلال الدین السیوطی علیہ الرحمہ المتوفی ١١٩ ھ کی حسن الحاضرۃ فی اخبار مصر و القاہرۃ کے حوالے سے اس کو بدعت حسنہ لکھا ہے ۔ (الفتاوی الکبریٰ جلد ١ صفحہ ١٩١)(النھر الفائق جلد ٢ صفحہ ١٧٢)(حاشیہ الدر رالمختار جلد ١ صفحہ ١٨٦،چشتی)(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ ١٩٣)(رد المختار جلد ٢ صفحہ ٥٢ )

درج بالا حوالہ جات سے یہ ظاہر ہو گیا کہ جب اذان کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھنا شروع ہوا تو وہ اذان کے بعد ہی شروع ہوا تھا نہ کہ اذان سے پہلے ‘ نیز اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی حدیث میں بھی اصل ہے اور وہ حدیث یہ ہے : حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم مؤذن سے اذان کے کلمات سنو تو ان کلمات کی مثل کہو ‘ پھر مجھ پر صلوٰۃ پڑھو ‘ کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار صلوٰۃ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے ‘ پھر میرے لیے وسیلہ (بلند درجہ) کی دعا کرو کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے ‘ جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندہ ہی کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں گا ‘ سو جو شخص میرے لیے وسیلہ کا سوال کرے گا اس کےلیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٤)(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٢٣،چشتی)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦١٦)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٧٨)

رہا اقامت سے پہلے صلوٰۃ و سلام پڑھنے کا مسئلہ تو علامہ طحطاوی علیہ الرحمہ نے اس کو بدعت مکروہہ لکھا ہے (حاشیہ الطحطاوی علی مراتی الفلاح صفحہ ٢٠٠‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ) ۔ ہو سکتا ہے علامہ طحطاوی علیہ الرحمہ کی مراد یہ ہو کہ اذان سے متصل بلا فصل صلوٰۃ و سلام پڑھنا مکروہ ہے اور اگر صلوٰۃ و سلام پڑھ کر کچھ وقفہ کیا جائے پھر اقامت شروع کی جائے تو یہ مکروہ نہیں ہے ‘ فتاویٰ رضویہ میں بھی اسی طرح ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلو متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا : ⏬

مسئلہ : ازد من خرو عملداری پر تگال مسئولہ مولوی ضیاء الدین صاحب ١٥ ذیقعدہ ١٣١٨ ھ ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اقامت کے قبل درود شریف بآواز بلند پڑھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اقامت یعنی تکبیر شروع کردیتا ہے کہ جس سے عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ درود شریف اقامت کا جز ہے اور عمر و درود شریف نہیں پڑھتا صرف اقامت کہتا ہے تو زید کو یہ فعل اس کا ناپسند آتا ہے اور اصرار سے اس کو پڑھنے کو کہتا ہے اس صورت میں درود شریف جہر سے پڑھنا اور زید کا اصرار کرنا کیسا ہے ؟ بینو اتو جروا ۔

الجواب : درود شریف قبل اقامت پڑھنے میں حرج نہیں مگر اقامت سے فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز اقامت سے ایسی جدا ہو کہ امتیاز رہے اور عوام کو درود شریف جزء اقامت نہ معلوم ہو ‘ رہا زید کا عمرو پر اصرار کرنا اصلاً کوئی وجہ شرعی نہیں رکھتا یہ زید کی زیادتی ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢ صفحہ ٣٩٥۔ ٣٩٤ قدیم مکتبہ رضویہ کراچی)(فتاویٰ رضویہ جلد ٥ صفحہ ٣٨٦ جدید رضا فائونڈیشن لاہور ١٤١٤ ھ)

جن مواقع اور مواضع پر فقہاء اسلام علیہم الرحمہ نے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کو مکروہ کہا ہے وہ درج ذیل ہیں : ⏬

تشہد اخیر کے علاوہ نماز میں صلوٰۃ و سلام پڑھنا مکروہ ہے ‘ جماع کے وقت ‘ قضاء حاجت کے وقت ‘ خریدو فروخت کی ترویج کے وقت ‘ پھسلتے وقت اور تعجب کے وقت ‘ ذبح کے وقت ‘ اور چھینکتے وقت ‘ اسی طرح قرآن مجید کے سماع کے وقت ‘ یا خطبہ جمعہ سنتے وقت ‘ کیونکہ قرآن مجید کا سننا فرض ہے اور خطبہ جمعہ کا سننا واجب ہے ‘ عالم گیری میں مذکور ہے اگر اس نے قرآن مجید کی تلاوت کے دوران آپ کا اسم مبارک سنا تو فوراً آپ پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے اور اگر تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد آپ پر درود پڑھ لیا تو یہ مستحب ہے ‘ اور اگر قرآن مجید میں آپ کا اسم مبارک آگیا تو اس وقت تلاوت کو روک کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم پر درود پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ قرآن مجید کو مسلسل پڑھتا رہے ‘ تلاوت سے فارغ ہونے کے بعد اگر درود پڑھ لیا تو افضل ہے ورنہ کوئی حرج نہیں ہے ‘ تشہد اول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر درود پڑھنا واجب تو کجا مکروہ تحریمی ہے ‘ کیونکہ اس سے تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہو گی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے گا مثلاً کہے گا ”اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد“ تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر درود پڑھنا واجب نہیں ہے ‘ ورنہ تسلسل لازم آئے گا کیونکہ اگر اس وقت درود پڑھنا واجب ہو تو وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر کہے گا ”اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد“ اور اس دوسرے درود میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے گا اور کہے گا ”اللھم صل وسلم علی سیدنا محمد“ تو ہر بار درود میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا رہے گا اس لیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ آپ کے نام پر درود پڑھنا واجب ہے اس سے وہ نام مبارک مستثنیٰ ہے جو خود درود میں آتا ہے ۔ (ردالمختاری جلد ٢ صفحہ ٢٠٥ ۔ ٢٠٤ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٩ ھ،چشتی)

نفسِ مسئلہ قرآن سے : قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 56)
ترجمہ : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔

قرآن کریم کے اس عظیم الشان ارشاد پاک سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کے اوقات متعین ہیں ۔ نماز کو اوقاتِ مکروہہ میں ادا کرنے سے منع فرما دیا ۔ روزہ دن کو رکھنا اور وہ بھی چند دن کے سوا یعنی سال میں پانچ دن روزہ رکھنے سے منع فرما دیا گیا ، یعنی عیدالفطر کے دن اور چار دن ایام نحر کے (10، 11، 12، 13 ذی الحجہ) ۔ حج ذی الحجہ کے چند دن میں ہی ہو سکتا ہے ۔ چونکہ ان تینوں عبادات میں وقت کی پابندی ہے ، لہٰذا مقررہ وقت کے علاوہ ان پر عمل کرنا جائز نہیں ۔ مگر درود و سلام میں یہ صورت نہیں ۔ درود و سلام پڑھنے کےلیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔

درود و سلام کی مثال جہاد ، سچ بولنے ، خرچ کرنے ، انصاف کرنے ، امانت ادا کرنے ، دین کی تبلیغ و تلقین ، کاروبار میں اسلامی ہدایات پر عمل کرنے ، بیوی ، بچوں ، ماں ، باپ ، ہمسائے اور دیگر مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی سی ہے ۔ یہ سب حکم شرعی ہیں ، فرض ہیں ، مگر ان کی ادائیگی میں وقت کی قید نہیں ۔ جب موقع ملے ان پر عمل کریں ، درود و سلام پر عمل کرنے کا بھی شریعت نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا ۔ یونہی کسی بھی وقت میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا ۔ لہذا جب موقع ملے ، بندہ مومن درود و سلام پڑھ کر اپنے رب کا حکم بجا لا سکتا ہے اور اپنے اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے ۔ جس طرح آپ ہر سڑک اور ہر راستے پر چل سکتے ہیں ، اس کےلیے ضروری نہیں کہ راستوں میں لکھا ہو ۔ "آپ یہاں چل سکتے ہیں" ، جس جگہ چلنا یا گزرنا منع ہو وہاں لکھا ہوتا ہے ۔ "یہاں داخلہ ممنوع ہے" اسی طرح شریعت نے جو حکم فرض و واجب تھے وہ بتا دیئے گئے، جو منع تھے ، ان سے روک دیا گیا ۔

پس درود و سلام کی ادائیگی کا حکم تو ہے وقت کی قید نہیں ۔ جب بھی کوئی مسلمان پڑھے گا ، حکم قرآن و سنت پر عمل ہو جائے گا ۔ اذان سے پہلے یا بعد میں بھی ۔ چونکہ قرآن و حدیث میں درود و سلام پڑھنے سے منع نہیں فرمایا گیا ، لہذا جب بھی کوئی مسلمان پڑھے قرآن و حدیث پر عمل ہو گا ۔ ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو ناجائز کہے وہ قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا سمعتم الموذن فقولو مثل ما يقول ثم صلو علی فانه من صلی علی صلوة صلی الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لی الوسيلة فانها منزلة فی الجنة لا ينبغی الا لعبد من عبادالله وارجو ان اکون انا هو فمن سال لی الوسيلة حلت عليه الشفاعة ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب موذن کو سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے ۔ پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو ، جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے بدلے اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے ۔ پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو ۔ (اللهم رب هذه الدعوة.....) یہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کےلیے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، کنز العمال)

اس حدیث پاک میں اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم ہے ۔ ارشاد بالکل واضح ہے ۔ پھر درود شریف کے بعد دعا مانگنے کا حکم ہے ۔

حدیث شریف کا نام لے کر عوام کو گمراہ کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے یہ دونوں حکم کس دلیل سے رد کیے ؟ نہ وہ اذان کے بعد درود شریف پڑھیں ، نہ دعا مانگیں۔ کیا انہوں نے کبھی ان پر عمل کیا ؟ کیا اپنے عوام کو کبھی یہ حدیث شریف سنائی ؟ اگر کہو ہم دل میں پڑھتے ہیں ، تو اس کی دلیل بھی قرآن یا حدیث سے پیش کریں جو قرآن و سنت پر عمل کریں وہ بدعتی نہیں ، پکے مسلمان ہیں ۔ جو قرآن و حدیث کی مخالفت کریں وہ پکے منکر ، بدعتی ہیں ۔ تمام منکرین جمع ہو کر بلکہ ممکن ہو تو مرے ہوؤں کو بھی بلا لیں اور ہمارے مطالبہ کا شرعی جواب دیں ۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دیگر آئمہ دین علیہم الرحمہ ، اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات ماننے والے تھے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ اذان کے بعد درود پڑھو تو یقیناً تمام مؤذن خواہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہوں ، خواہ بعد والوں میں ، یقیناً اذان کے ساتھ درود و سلام بھی پڑھتے تھے اور دعا بھی مانگتے تھے ۔ چونکہ آج کے بد بختوں سے پہلے کبھی کسی مسلمان نے ایسے واضح ارشاد میں شک ہی نہیں کیا ، نہ سوال کیا ۔ لہٰذا آئمہ دین علیہم الرحمہ نے اس کی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اگر آپ کو کوئی ثبوت مل چکا ہے کہ حضرت بلال یا دیگر اصحاب رضی اللہ عنہ اذان کے ساتھ پہلے یا پیچھے درود و سلام نہ پڑھتے تھے ، ثبوت پیش کریں ۔ جب حکم شرعی واضح ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم و آئمہ دین عامل بالکتاب و الحدیث تھے تو لا محالہ وہ قرآن و حدیث کے اس حکم پر بھی عامل تھے ۔ اس پر حوالہ مانگنا ایسے ہی جاہلانہ بات ہے جیسے قرآن و حدیث سے ثابت کرو کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہم ، امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل ، امام شافعی ، شیخ عبدالقادر جیلانی علیہم الرحمہ نماز پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، زکوۃ دیتے تھے ، سورہ یاسین پڑھتے تھے ، نماز عید ادا کرتے تھے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ان بزرگوں کی بڑائی احکامِ شرع پر عمل کرنے میں ہے ، مخالفت کی بدگمانی کوئی شیطان ہی کر سکتا ہے ۔ لہٰذا وہ اذان کے ساتھ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ضرور درود و سلام پڑھتے تھے ۔ اس کے خلاف دلیل رکھتے ہو تو لاؤ ، ورنہ فرمان والا شان کے آگے جھک جاؤ ۔ کہیں مخالفت امرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے ۔

ہاں درود و سلام پڑھنے کا انداز وہ تو نہیں جو اذان کا ہے ۔ اذان میں انگلیاں کانوں میں ٹھونسنے اور اونچی آواز نکالنے کی ہدایت تھی ۔ جبکہ درود و سلام میں یہ نہ ہوتا تھا ۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ البتہ لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے درود و سلام کی آواز بھی دور تک پہنچ جاتی ہے ۔ چونکہ اذان کے کلمات سن کر شیطان ہوا خارج کرتا ہوا بھاگ جاتا ہے ، لہٰذا درود و سلام پر اس کا بھڑکنا فضول ہے ۔ اسے چاہیے جہاں اذان سے بچنے کے لیے وہ اتنا دور بھاگ نکلتا ہے جہاں تک آواز جاتی ہے ۔ (حدیث پاک) وہاں ذرا مزید ٹھہرا رہے تا کہ درود و سلام کی آواز سے بچا رہے ۔ اہلِ ایمان کےلیے تو یہ پاکیزہ اور حسین آوازیں غذائے قلب و روح ہیں ۔ امید ہے ان کےلیے بات کافی ہے ۔

آؤ اس مسئلہ پر صلح کر لیں : ⏬

گو شرعاً درود و سلام ہر وقت جائز ہے ۔ جیسا کہ تفصیل ذکر کر دی گئی ہے ۔ اذان سے پہلے بھی، بعد بھی ۔ تاہم منکرین سے گزارش ہے کہ ان احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سر جھکا لیں۔ جس کا حوالہ اوپر درج ہے۔ جامعہ اشرفیہ کے مولانا عبد الرحمن اشرفی نے بھی جنگ جمعہ میگزین میں لکھا ہے کہ اذان کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم حدیث مسلم میں موجود ہے۔

آئیں سب فرمانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےمطابق اذان کے بعد درود شریف اپنی اپنی مسجدوں میں پڑھنا شروع کر دیں ۔ پہلے پڑھنے پر ہم اصرار نہیں کرتے ، بعد میں پڑھنے سے آپ انکار نہ کریں ۔ درود شریف جو پسند ہے وہ پڑھیں ، پڑھیں تو سہی یا اس حدیث پاک کا جواب دیں ۔

رہا سپیکر کا سوال ، تو جب تک یہ سہولت میسر نہ تھی ہم اور آپ سبھی بغیر سپیکر کے بلالی اذان دیتے تھے ۔ اب قدرت نے یہ نعمت دی ہے تو اذان اور بعد میں درود شریف اور دعا کیوں نہ سپیکر میں پڑھیں ۔ اگر سپیکر پر دی جانے والی اذان اذانِ بلالی ہو سکتی ہے تو سپیکر پر پڑھا جانے والا درود و سلام کیوں قرآنی ، حدیثی اور بلالی بلکہ خدائی و مصطفائی نہیں ہو سکتا ؟

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (ظاہری) زمانے میں اذان سے پہلے ’’صلوٰۃ ‘‘ پڑھی جاتی تھی ؟

اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو جس وقت اور جس جگہ بھی کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھے گا ، اس پر فوراً یہ جاہلانہ ، متعصبانہ اعتراض جڑ دیا جائے گا کہ کیا اس دن ، اس تاریخ ، اس جگہ ، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں درود پڑھا جاتا تھا ؟ ۔ اور یہ سوال صرف درودو سلام پر ہی نہیں وارد ہو گا بلکہ ہر اس امرِ شرعی پر وارد ہو گا ، جس میں جگہ اور وقت کی قید نہیں ۔ مثلاً نفلی صدقہ ، نفلی نماز ، نفلی روزہ ، اللہ عزوجل کا ذکر ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام ، قرآن پڑھنا ، مسکین کو کھلانا ، پہنانا ، درس و تدریس ، وغظ و تقریر ، جہاد و قتال ، تالیف و تصنیف وغیرہم ، جب قرآن و سنت یا اجماعِ امت و قیاس و استنباط سے کوئی مسئلہ ثابت ہو تو پھر اس کی شرعی حیثیت پر سوال کرنا محض حماقت ہے ۔

قرآن و سنت اور علماء امت نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ فلاں زمانے میں ہونے والا عمل جائز ہے اور فلاں زمانے میں ہونے والا عمل ناجائز ہے ۔ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم یا غوث الاعظم یا ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے دور تک جو کام ہوا ہو ، جائز ہے اور جو کام فلاں سن کے بعد ہوا وہ ناجائز ۔ یہ قاعدہ قرآن ، حدیث ، فقہ ، تفسیر ، اصول حدیث ، اصول فقہ میں کہبیں بھی کسی نے ذکر نہیں کیا ۔ یہ اس دور کے کم فہم ، متعصب ، بیمار ذہنوں کی اختراع ہے ۔ کیا دور اول میں چوری ، زنا ، قتل ، تخریب کاری ، منافقت ، کفر و ارتداد ، قذف ، جھوٹ ، غیبت اور نماز ، روزہ ، زکوٰۃ و حج و جہاد کا ترک کرنا جائز تھا ؟ صرف اس بناء پر کہ وہ نزول قرآن کا زمانہ تھا ، بہترین زمانہ تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کا دور تھا ۔ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : خير الناس قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ۔ (بخاری الصحيح کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل الصحابة النبی صلی الله عليه وآله وسلم و رضی اللہ عنہم جلد 3 صفحہ 1335 الرقم: 3451،چشتی)
ترجمہ : تمام لوگوں میں بہتر زمانہ میرا ہے پھر ان لوگوں کا جو ان سے ملے ہوں گے پھر ان کا جو ان سے ملے ہوں گے ۔
ہرگز نہیں ، جائز و ناجائز کا تعلق لوگوں کے طبقات ، زمان و مکاں سے نہیں اصولوں سے ہے ۔ اسلامی اصولوں کی پابندی اس وقت بھی نیکی تھی ، آج بھی نیکی ہے ۔ اسلامی احکام کی خلاف ورزی اس وقت بھی جرم تھا اور اس کے مرتکب مجرم تھے اور ان کو اسی طرح شرعی سزائیں دی گئیں ، جس طرح بعد کے مجرموں کو ، حدود و قصاص کے شرعی احکام ان پر اسی طرح جاری ہوئے جیسے بعد والوں پر ، کسی مجرم کو یہ کہہ کر چھوڑا نہیں گیا کہ یہ دور بہترین ہے ، یہ زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہترین زمانہ ہے ، یہ طبقہ امت ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقدس طبقہ ہے ۔ یوں بعد والے علمائے امت ، فقہائے ملت اور محافظان سنت علیہم الرحمہ کے علمی فقہی ، تفسیری اور احادیث نبوی کے عظیم قابل قدر کام کو کسی نے یہ کہہ کر رد نہیں کر دیا کہ یہ ذخیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہترین زمانہ میں نہ تھا ۔ اچھا کام ہے خواہ وہ کسی کے ہاتھوں اور کسی بھی زمانے میں ہو اور برا کام برا ہے خواہ کرنے والا کوئی ہو، زمانہ و مقام کوئی ہو، بات زمان و مکاں و طبقات کی نہیں اصولوں کی ہے ۔

جو فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں : ⏬

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا ۔ یہ جنگ یمامہ کا دور تھا ۔ (جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب کے درمیان خونریز جنگ ہو رہی تھی) میں حاضر خدمت ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عمر فاروق میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا کہ جنگ یمامہ کے سخت معرکے میں قرآن کے قاری کثرت سے شہید ہو گئے (تقریباً سات سو حافظ و قاری) ، مجھے ڈر ہے کہ مختلف محاذوں پر اگر قراء اسی طرح شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع نہ ہو جائے ۔ میری رائے ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں ۔ میں نے عمر فاروق سے کہا : کيف تفعل شيئا لم يفعله رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ۔ ’’ آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ؟ ‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هذا واللہ خير ۔ ’’ اللہ کی قسم ! یہ بہتر کام ہے ۔ ‘‘ عمر فاروق بار بار مجھ سے کہتے رہے ۔ حتیٰ شرح اللہ صدری لذلک ورايت فی ذلک الذی رای عمر ۔ ’’ حتی کہ اللہ عزوجل نے میرا سینہ اس کےلیے کھول دیا اور مجھے بھی اس میں وہ حقیقت نظر آ گئی جو عمر کو نظر آئی تھی ۔ ‘‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم عقلمند جوان ہو۔ ہم تم پر کوئی تہمت نہیں لگائیں گے۔ جبکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے وحی (بھی) لکھا کرتے تھے ۔ پس قرآن ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فو اللہ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ماکان اثقل علی مما امرنی به من جمع القرآن ۔ ’’ اللہ کی قسم اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کرنے کی تکلیف دیتے تو یہ کام قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری سے بڑھ کر مجھ پر بھاری نہ تھا ۔ ‘‘ کہتے ہیں میں نے کہا : کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ۔ ’’ آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا ۔ ‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هو واللہ خير ۔ اللہ کی قسم یہ کام اچھا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بار بار مجھے فرمائش کرتے رہے ۔ حتی شرح اللہ صدری للذی شرح له صدر ابی بکر و عمر ۔ یہاں تک کہ اس کام کےلیے اللہ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کےلیے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا ۔ میں نے قرآن کریم کو ڈھوڈنا اور جمع کرنا شروع کر دیا ، کجھوروں کی ٹہنیوں سے ، پتھروں سے اور لوگوں کے سینوں سے، یہاں تک کہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے ابو خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ملا ، کسی اور کے پاس نہ ملا ۔ لقد جاء کم رسول من انفسکم سورہ براۃ کے آخر تک ، یہ مجموعہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس زندگی بھر رہا ۔ پھر آپ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن جلد 4 صفحہ 1907 الرقم : 4701،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا اہم ترین عبادت اور قرب الہٰی پانے کا بہترین ذریعہ ہے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے جو کچھ پایا ہے یہ سب درود و سلام کی برکت سے پایا ہے غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں فضائل و برکات درود و سلام پر فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کی طرف سے یہ سلسلہ مضامین پیش کیا جا رہا ہے پڑھیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور اس کےلئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔ (نسائی، السنن، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4 : 50، رقم: 1297)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہوگا ۔ (ترمذی، الجامع، ابواب الوتر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 2 : 354، رقم: 484)

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (ابو داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، 2 : 218، رقم: 2041)

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تمہارے ایّام میں سے افضل ترین جمعہ کا دن ہے پس اُس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ (ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2 : 88، رقم: 1531،چشتی)

حضرت ابوھُریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا ۔ ( ترمذی، الجامع، ابواب الدعوات، باب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: رغم انف رجل، 5 : 550، رقم: 3545)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے ۔(طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 220، رقم: 721)

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، 3 : 82، رقم: 2729)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا صَلَّيتُمْ عَليَّّ فَأَحْسِنُوا الصَّلٰوةَ فَإنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذٰلِکَ يُعْرَضُ عَلَيَّ . (هندی، کنز العمال، 1 : 497، رقم : 2193)
ترجمہ : جب تم مجھ پر درود بھیجو تو نہایت خوبصورت انداز سے بھیجو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِذَا قَالَ ذٰلِکَ فُتِحَتْ لَهُ اَبْوَابُ الرَّحْمَة ۔ (بيهقی، السنن الکبريٰ، 1 : 44، رقم : 196)
ترجمہ : جب وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کےلیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَأَکْثِرُوا الصَّّلٰوةَ عَلَيَّ ۔ (مسند الشافعی، 1 : 70)
ترجمہ : جب جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن آئے تو مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنا بڑی سعادت اور برکات کا باعث ہے۔ درود پڑھنے والے جہاں کہیں سے بھی پڑھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ اقدس میں پہنچ جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فإِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ مَا کُنْتُمْ ۔ (سنن أبی داؤد، 2 : 218، کتاب المناقب باب زيارة القبور، رقم : 2042،چشتی)
ترجمہ : پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : غور فرمائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا درود خود مجھ تک پہنچتا ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ پہنچایا جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ سارا ہفتہ درود فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے مگر جمعہ کے دن اور رات جہاں کہیں بھی تم پڑھتے ہو تمہارا درود میں خود وصول کرتا ہوں اور خود سنتا ہوں ۔

حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ مَسْرُوْرًا فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللہ ! مَا أَدْرِی مَتٰی رَأَيْتُکَ أَحْسَنَ بِشْرًا وَأَطْيَبَ نَفْسًا مِنَ الْيَوْمِ؟ قَالَ : وَمَا يَمْنَعُنِی وَجِبْرِيْلُ خَرَجَ مِنْ عِنْدِی السَّاعَةَ فَبَشَّّرَنِي أَنْ لِکُلِّ عَبْدٍ صَلَّی عَلَیَّ صَـلَاةً يُکْتُبُ لَهُ بِهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَيُمْحٰی عَنْهُ عَشْرُ سَيِئَاتٍ، وَيُرْفَعُ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَتُعْرَضُ عَلَیَّ کَمَا قَالَهَا، وَيُرَدُّ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا دَعَا ۔ (مصنف عبدالرزاق 2 : 214 رقم : 3113)
ترجمہ : ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوش تھے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے آج سے بڑھ کر زیادہ خوش اور مسرور آپ کو کبھی نہیں پایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج جبریل امین علیہ السلام آئے تھے ابھی نکل کر میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے انہوں نے خبر دی ہے کہ امت میں سے جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے۔ اللہ عزوجل اس کی دس نیکیاں لکھ لیتا ہے ، اس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے ، اور جس طرح اس بندے نے درود بھیجا تھا اللہ عزوجل انہی الفاظ سے اُس پر درود بھیجتا ہے ۔

ایک دوسری حدیث جسے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے ، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا مِن أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي حتَّی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّـلَامَ ۔ (سنن ابی داؤد، 2 : 218، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، رقم : 2041)
ترجمہ : جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے میری روح لوٹا دیتا ہے پھر میں اس سلام بھیجنے والے شخص کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں ۔

حضرت انس بن مالک ص روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَـلَاةً وَاحِدَةً صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ ۔ (نسائی، السنن، کتاب السهو، باب الفضل فی الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 : 50)
ترجمہ : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعاليٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتاہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں، اور اس کے لئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں ۔

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ القِيَامَةِ أَکْثَرَهُمْ عَلَیَّ صَـلَاةً ۔ (ترمذی الجامع الکبير، ابواب الوتر، باب ما جاء فی فضل الصلاة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 495، رقم : 484)
ترجمہ : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہو گا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ ۔ (ترمذی الجامع ابواب الدعوات، باب قول رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم : رغم انف رجل، 5 : 550، رقم : 3545)
ترجمہ : وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا ۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کُلُّ دُعائِ مَحْجُوْبَ حَتّٰی يُصَلَّی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ (صلی الله عليه وآله وسلم) ۔ (طبرانی المعجم الاوسط 1 : 220، رقم : 725)
ترجمہ : ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت پر درود نہ بھیجا جائے ۔

برکات وثمرات درود شریف : ⏬

فرمانِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ حقیقت واضح ہے کہ درود و سلام ایک منفرد اور بے مِثل عبادت ہے ، جو رضائے الٰہی اور قربتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مؤثر ذریعہ ہے ۔ اس مقبول ترین عبادت کے ذریعے ہم بارگاہِ ایزدی سے فوری برکات کے حصول اور قبولیتِ دعا کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے ہیں ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اسی عبادت کے ذریعے اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا قرب پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مُعَطَّر سانسوں سے اپنی روحوں کو مہکایا اور گرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ انور کی تجلیات سے ہی صحابہ اکرام نے اپنے مُشامِ جاں کو منور کیا اور اس طرح انہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تعلق اور سنگت کی نعمت نصیب ہوئی ۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق ہی وہ نعمتِ خاص ہے جو آج ہمیں مقام و مرتبہ اور عزت و شرف جیسی لازوال نعمتوں سے نواز سکتی ہے ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظامِ عبادات پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں کوئی عبادت ایسی دیکھائی نہیں دیتی جس کی قبولیت کا یقینِ کامل ہو جبکہ درود و سلام ایک ایسی عبادت اور ایسا نیک عمل ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے ۔ اِسی طرح تمام عبادات کیلئے مخصوص حالت ، وقت ، جگہ اور طریقِ کار کا ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ درود و سلام کو جس حال اور جس جگہ بھی پڑھا جائے اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرما تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی تمام تر عبادات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے وقت اوّل و آخر درود و سلام کا زینہ سجا دیتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے صدقے ہماری بندگی اور عبادت کو قبول کر لے ۔

امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’حدائق الانوار فی الصلوۃ والسلام علی النبی المختار‘‘ میں درود شریف کے پڑھنے کے ثمرات و فوائد اور نہ پڑھنے پر نقصانات کا تذکرہ کیا ہے ، یہاں صرف فوائد و ثمرات ذکر کئے جاتے ہیں ۔ (افضل الصلوات علی سید السادات امام یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ)

نوٹ : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی یہ سب محنت غلامان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے کرتا ہے آپ سب کو مکمل مضمون کاپی کرنے کی اجازت ہے مگر حیرت و افسوس ہے ان احباب پر مضمون تو لےلیتے ہیں مگر اس میں کانٹ چھانٹ کرتے ہیں اور شاید انہیں فقیر مضامین تو پسند ہیں مگر نام پسند نہیں اس لیے وہ مضمون سے نام کاٹ دیتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آتی آخر ایسا کیوں کرتے ہیں کیا یہی تبلیغ دین ہے ؟ کیا ہمیں دین یہی سکھاتا ہے ؟ خیر اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے آمین ۔ آیئے درود پاک پڑھنے کی برکات اور حاصل ہونے والے فوائد و برکات کے متعلق پڑھتے ہیں ۔ درود شریف پڑھنے والے کو درج ذیل فوائد و برکات حاصل ہوتی ہیں : ⏬

(1) اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کرتا ہے ۔

(2) اللہ تعالیٰ کے رحمت بھیجنے کے عمل میں شامل ہوتا ہے۔

(3) فرشتوں کے درود بھیجنے کے عمل میں شامل ہوتا ہے۔

(4) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس رحمتوں کا پروانہ ملتا ہے۔

(5) دس درجات کی بلندی عطا ہوتی ہے۔

(6) دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

(7) دس خطائیں معاف کی جاتی ہیں۔

(8) دعا قبول ہونے کی ضمانت ملتی ہے۔

(9) قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔

(10) گناہوں کے معاف ہونے اور عیبوں کے چھپنے کا ذریعہ ہے۔

(11) اہم کاموں اور غموں کے دور ہونے کا سبب ہے۔

(12) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قربت کا سبب ہے۔

(13) درود شریف پڑھنا صدقہ کرنے کے قائم مقام ہے۔

(14) حاجتوں اور ضرورتوں کے پورا ہونے میں معاون ہے۔

(15) درود پڑھنے والے پر اللہ کی رحمت اور فرشتوں کی طرف رحمت کی دعا ہوتی ہے ۔

(16) گناہوں سے دل کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔

(17) موت سے پہلے جنت کی بشارت کا ذریعہ ہے۔

(18) قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے میں کار آمد ہے۔

(19) درود وسلام پڑھنے والے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود جواب عطا فرماتے ہیں ۔

(20) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی سنتوں کو یاد رکھنے کا بہترین نسخہ ہے ۔

(21) مجلس (بیٹھک)کے اچھے ہونے کی دلیل اور قیامت میںحسرت و ندامت سے چھٹکارا ہے۔

(22) درود پڑھنے والے کیلئے محتاجی و فقیری سے چھٹکارا ہے۔

(23)  درود پڑھنے والا بخیل کہلائے جانے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔

(24) درود پڑھنے والا جبرئیل علیہ السّلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منبر والی ایک بددعا سے محفوظ رہتا ہے ۔

(25) درود پڑھنے والا جنت کا راستہ پا لیتا ہے۔ نہ پڑھنے والا جنت کا راستہ بھٹک جاتا ہے ۔

(26) درود کی وجہ سے کلام کی ابتداء و انتہاء اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف پر ہوتی ہے ۔

(27) پل صراط پر کامیابی سے گذرنا نصیب ہوتا ہے ۔

(28) درود پڑھنے والا دل کی سختی اور جفا سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔

(29) اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے کی محبت آسمان وزمین میں پھیلادیتے ہیں ۔

(30) درود کا ورد کرنے والے پر اللہ کی رحمت متوجہ رہتی ہے ۔

(31) درود پڑھنے والے پر ہر طرح کی برکات نازل ہوتی ہیں ۔

(32) درود پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوامِ محبت کا ذریعہ ہے۔

(33) درود پڑھنے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ترقی ہوتی ہے جو ایمان کا جز ہے ۔

(34)  درود پڑھنے والے سے خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبت فرماتے ہیں ۔

(35) درود پڑھنا بندے کی ہدایت اور اس کی روحانی زندگی کا ذریعہ ہے ۔

(36) درود پڑھنے والے کا تذکرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہوتا ہے ۔

(37) درود پڑھنے والا بہت تھوڑا ہی سہی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

(38) درود پڑھنے والا اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر عطا کرتا ہے ۔

(39) درود کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے شکر اور احسانات کی پہچان کو شامل ہوتے ہیں ۔

(40)  بندے کا درود پڑھنا اپنے رب سے دعا اور سوال کرنا ہے جو کبھی نبی کیلئے اور کبھی اپنے لیے ۔ جس میں خود بندے کا فائدہ ہے ۔

(41) درود پڑھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے بندے کا دل میں عاجزی وانکساری پیدا ہوتی ہے ۔

(42) بار بار درود شریف پڑھنا گویا شیخ مربی و شیخ بانسبت ہونے کے قائم مقام ہے ۔

چند ایمان افروز واقعات : ⏬

مواھب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن کسی مومن کی نیکیاں کم ہو جائیں گی اور گناہوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا تو وہ مومن پریشان کھڑا ہو گا ۔ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میزان پر تشریف لائیں گے اور چپکے سے اپنے پاس سے بند پرچہ مبارک نکال کر اس کے پلڑے میں رکھ دیں گے ۔ جسے رکھتے ہی اس کی نیکیوں کا پلڑا وزنی ہو جائے گا ۔ اس شخص کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ کون تھے جو اس کا بیڑا پار کر گئے ۔ وہ پوچھے گا آپ کون ہیں ؟ اتنے سخی ، اتنے حسین و جمیل آپ نے مجھ پر کرم فرما کر مجھے جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیا اور وہ کیا پرچہ تھا جو آپ نے میرے اعمال میں رکھا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہو گا : میں تمہارا نبی ہوں اور یہ پرچہ درود ہے جو تم مجھ پر بھیجا کرتے تھے ۔

درود شریف پر لکھی جانے والی عظیم کتاب ’دلائل الخیرات‘ کے مؤلف امام جزولی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کا مزارِ اقدس مراکش میں ہے ۔ وہ اس کتاب کی تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ ایک سفر میں تھے دورانِ سفر نماز کا وقت ہوگیا آپ وضو کرنے کےلیے ایک کنویں پر گئے ، جس پر پانی نکالنے کےلیے کوئی ڈول تھا اور نہ ہی کوئی رسی ۔ پانی نیچے تھا اسی سوچ میں تھے کہ اب پانی کیسے نکالا جائے ۔ اچانک ساتھ ہی ایک گھر کی کھڑکی سے ایک بچی دیکھ رہی تھی جو سمجھ گئی کہ بزرگ کس لیے پریشان کھڑے ہیں انہیں پانی کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ وہ نیچے اتری اور کنویں کے کنارے پہنچ کر اس کنویں میں اپنا لعاب پھینک دیا اسی لمحے کنویں کا پانی اچھل کر کنارے تک آگیا اور ابلنے لگا ۔ امام جزولی رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کر لیا تو بچی سے اس کرامت کا سبب پوچھا ۔ اُس نے بتایا کہ یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک پر کثرت سے درود بھیجنے کا فیض ہے ۔ امام جزولی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت عزم کر لیا کہ میں اپنی زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک کی ایک عظیم کتاب مرتب کروں گا اور ’دلائل الخیرات‘ جیسی عظیم تصنیف وجود میں آ گئی ۔ (دلائل الخيرات صفحہ 12)

امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صالح شخص نے کسی کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تیرا کیا حال ہوا اس نے بتایا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے میری بخشش فرما کر جنت میں بھیج دیا ۔ صالح شخص نے اس سلوک کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ جب فرشتوں نے میرے اعمال تولے ، میرے گناہوں کو شمار کیا اور میرے پڑھے ہوئے درود پاک بھی شمار کیے تو سو درود گناہوں سے بڑھ گئے جبکہ باقی سب نیک اعمال سے میرے گناہ زیادہ تھے ۔ جونہی درود پاک کا شمار بڑھ گیا تو اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کا حساب کتاب ختم کر دو چونکہ اس کے درود بڑھ گئے ہیں اس لیے اس کو سیدھا جنت میں لے جاؤ ۔ (الصلات والبشر فی الصلاة علی خير البشر صفحہ 161)۔(الدرالمنضود فی الصلاة والسلام علی صاحب المقام المحمود صفحہ 183،چشتی)

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’المواہب اللدنیہ جلد1 صفحہ 40 میں فرماتے ہیں کہ جب آدمں کی تخلیق کے بعد حضرت حوا علیہا السلام کی پیدائش ہو گئی تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان کا قرب چاہا ۔ اللہ عزوجل نے فرشتوں کو حکم دیا کہ پہلے ان کا نکاح ہوگا اور مہر کے طور پر دونوں کو حکم ہوا کہ مل کر بیس بیس مرتبہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھیں ۔ (ایک روایت میں تین تین مرتبہ بیان ہوا ہے) چنانچہ انہوں نے بیس مرتبہ یا تین مرتبہ درود پڑھا اور حضرت حواّ ان پر حلال ہو گئیں ۔ (صاوی حاشيہ علی تفسير الجلالين جلد 1 صفحہ 52)

امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے تاجر اور عالم تھے ، وہ عربی ادب کے بہت بڑے فاضل اور شاعر بھی تھے ۔ انہیں اچانک فالج ہو گیا ۔ بستر پر پڑے پڑے انہیں خیال آیا کہ بارگاہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی ایسا درد بھرا قصیدہ لکھوں جو درود و سلام سے معمور ہو ۔ چنانچہ محبت و عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر 166 اشعار پر مشتمل قصیدہ بردہ شریف جیسی شہرت دوام حاصل کرنے والی تصنیف تخلیق کر ڈالی ۔ رات کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا : بوصیری یہ قصیدہ سناؤ ، عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! میں بول نہیں سکتا فالج زدہ ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے بدن پر پھیرا جس سے انہیں شفا حاصل ہو گئی ۔ پس امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ سنایا ۔ قصیدہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال مسرت و خوشی سے دائیں بائیں جھوم رہے تھے ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حالتِ خواب میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر (بردہ) عطا فرمائی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑگیا۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ صبح اٹھے تو فالج ختم ہو چکا تھا ۔ گھر سے باہر نکلے، گلی میں انہیں ایک مجذوب شیخ ابو الرجاء رحمۃ اللہ علیہ ملے اور امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ رات والا وہ قصیدہ مجھے بھی سناؤ ۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ انہوں نے کہا : جب اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر خوشی سے جھوم رہے تھے میں بھی دور کھڑا سن رہا تھا ۔ (خرپوتی عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة ۔ 3 : 5)

اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے درود و سلام پڑھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور درود و سلام کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے آمین ۔


اہلِ محبت کا درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود سنتے ہیں : ⏬

قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر قید زمان و مکاں ہر وقت ہر جگہ لفظ یا سے پکارنا ' ندا کرنا ' یا رسول اللہ ' یا حبیب اللہ کہنا جائز و مستحب ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں یہ نداٸیں موجود ہیں : یا ایھا النبی ، یا ایھا الرسول ، یا ایھا المزمل ، یا ایھا المدثر ۔
لا تجعلوادعاء الرسول بینکم کدعا ء بعضکم بعضا ۔
ترجمہ : رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔ (سورۃ النور آیت ٦٣)

حدیثِ مبارکہ : ینا د و ن یا محمد یا ر سو ل اللہ ۔ (صحیح مسلم شریف صفحہ ٤١٩ جلد ٢)

امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد فرمایا '' دو موتیں نہ آئیں گی ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موت کا ذائقہ چکھا وہ ہو گیا اس کے بعد حیات ہے ۔ حیات کے بعد پھر موت نہیں آئے گی جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فنبی اللہ حی ۔ اللہ کے نبی زندہ ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص ١١٩)(جلاء الافہام ابن قیم جوزی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں سے زیادہ قوت سماعت عطا فرمائی ہے ، اسی لئے بہت سی وہ باتیں جن کو عام انسان نہیں سن سکتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ان کو سن لیتے ہیں ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنِّي أَرَی مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُوْنَ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيْهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَکٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَه سَاجِدًا ِﷲِ، وَاﷲِ، لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِيْـلًا وَلَبَکَيْتُمْ کَثِيْرًا.رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ . وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ باتیں سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے ۔ آسمان چرچرایا اور اُس کا چرچرانا حق ہے۔ اِس میں چار انگلی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں فرشتے اپنی پیشانی رکھے اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود نہ ہوں۔ اللہ کی قسم! جو کچھ مجھے معلوم ہے اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔ اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب في قول النبي صلی الله عليه واله وسلم : لو تعلمون ما أعلم لضحکتم قليلا، 4 /556، الرقم: 2312)(ابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 /1402، الرقم: 4190)(الحاکم في المستدرک، 4 /587، الرقم: 8633،)(البيهقي في السنن الکبری، 7 /52، الرقم: 13115٭)شعب الإيمان، 1 /484، الرقم: 783)(ديلمي في مسند الفردوس، 1 /77، 78، الرقم: 233)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مُعَاذٍ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِمِنًی، فَفَتَحَ اﷲُ أَسْمَاعَنَا حَتّٰی إِنْ کُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُوْلُ وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد الرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے منٰی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کان کھول دیئے، جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہم اپنے اپنے ٹھکانوں پر موجود اُسے سن لیتے ۔ اِس حدیث کو امام نسائی اور ابو داود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب ما ذکر في مني، 5 /249، الرقم: 2996)(أبو داود في السنن، کتاب المناسک، باب ما يذکر الإمام في خطبته بمني، 2 /198، الرقم: 1957،چشتی)(والبيهقي في السنن الکبری، 5 /138، الرقم: 9390)(ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /185)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا بارگاہِ نبوت میں حاضر تھیں۔ اسی دوران حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے کسی کے سلام کا جواب دیا پھر حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : هذا جعفر بن أبي طالب مع جبريل و ميکائيل و إسرافيل، سلموا علينا فردي عليهم السلام ۔
ترجمہ : یہ جعفر بن ابی طالب ہیں، جو حضرت جبریل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیھم السلام کے ساتھ گزر رہے تھے۔ پس انہوں نے ہمیں سلام کیا، تم بھی ان کے سلام کا جواب دو ۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 232، رقم : 4937) (طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 88، رقم : 6936)(هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 272) (ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 487)(ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 211)

حضرت انس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نجّار کے قبرستان سے گزر رہے تھے : فسمع أصوات قوم يعذبون في قبورهم ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبور میں) ان مُردوں کی آوازوں کو سماعت فرمایا جن پر عذابِ قبر ہو رہا تھا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 175) (طبراني، المعجم الکبير، 4 : 120، رقم : 3757،چشتی)(طبراني، المعجم الکبير، 25 : 103، رقم : 268)(عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 608، رقم : 1445)(ازدي، مسند الربيع، 1 : 197، رقم : 487)

مسند بزار، جامع الاحاديث والمراسیل، ،جمع الجوامع، مجمع الزوائد، اور كنز العمال میں حدیث مبارک ہے،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يا عمار إن لله ملكا أعطاه الله أسماع الخلائق وهو قائم على قبري إذا مت إلى يوم القيامة فليس أحد من أمتي يصلي علي صلاة إلا سمى باسمه واسم أبيه قال: يا محمد صلى فلان عليك كذا وكذا، فيصلي الرب على ذلك الرجل بكل واحدة عشرا" . (طب عن عمار).
ترجمہ : اے عمار رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا فرشتہ پیدا کیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام خلائق کی سماعت عطا فرمائی (بیک وقت ساری مخلوق کی آواز کو سنتا ہے) وہ میرے وصال کے بعد میری مزار (مبارک) پر کھڑا رہے گا اور جب کبھی میرا کوئی امتی مجھ پر نذرانہ درود پیش کرتا ہے تو وہ فرشتہ عرض کرتا ہے کہ فلاں ابن فلاں نے آپ کی خدمت میں یہ درود پیش کیا ہے - اور ہر درود کے بدلے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ (مسند البزار، مسند عمار بن ياسر، حدیث نمبر: 1425)(كنز العمال،حدیث نمبر: 2227)(جامع الأحاديث، حدیث نمبر: 26184)(جمع الجوامع، حدیث نمبر: 1113،چشتی)(مجمع الزوائد، حدیث نمبر: 17291)

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے فرشتے بھی پیدا فرمائے ہیں جو آن واحد میں ہر شخص کی آواز سنتے ہیں ، دور ونزدیک کی آواز، ان کے لئے یکساں ہے– جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدام کی سماعت کی یہ شان ہے تو پھر امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوت سماعت کا کون اندازہ کرسکتا ہے ۔ اس کی تصریح اس حدیث مبارک سے ہوتی ہے جو دلائل الخیرات میں منقول ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا گیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہمیں ان حضرات کے متعلق خبر دیجئے جو آپ کے وصال مبارک کے بعد آپ کی خدمت اقدس میں صلوۃ وسلام پیش کرینگے- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اسمع صلوۃ اہل محبتی و اعرفہم وتعرض علی صلو‏ۃ غیرہم عرضا- اہل محبت کے درود کو میں خود ہی سنتا ہوں اور انہيں پہچانتا ہوں، اور ان کے علاوہ دیگر افراد کے درود پیش کئے جاتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں سے درود پڑھو تمھاری آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السّلام کے جسموں کو کھائے : (ممدوح علماء دیوبند و علماء اھلحدیث غیر مقلد وھابی حضرات علامہ ابن قیم جوزی جلاء الافہام صفحہ نمبر 71 اردو ترجمہ غیر مقلد اھلحدیث عالم قاضی سلیمان منصور پوری مطبوعہ دارالسلام ۔)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا امتی جہاں کہیں سے درود پڑھتا ھے اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے ، انبیاء کرام کے جسموں کو اللہ زمین پر حرام کر دیا ھے کہ وہ انہیں کھائے ، میری قبر انور پر ایک فرشتہ مکرر ہے جو میرے امتیوں کے درود سن کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر پہہچاتا ہے ۔ (الجوہر المنظم صفحہ نمبر 50 محدث کبیر امام اب حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)

حیرت کی بات ہے کچھ لوگ فرشت والی حدیث کو تو مان لیتے ہیں فرشتے کی قوت سماعت کو بھی مان لیتے ھیں مگر اسی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو نہیں مانتے جس میں فرمایا میرا امتی جہاں کہیں بھی ھو وہ درود پڑھے تو اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ھے ، اور حیرت در حیرت کی بات یہ ھے کہ یہ لوگ فرشتے کی قوت سماعت کو تو مان لیتے ھیں مگر اسی فرشتے کے آقا ہم سب کے کے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت سماعت کا انکار کر کے فرشتے کی شان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے بڑھاتے ہیں یہ کیسے مسلمان ہیں ایک حدیث کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکار کر دیتے ہیں اے مسلمانو انہیں پہچانو ان کے دلوں میں بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھپا ھوا ھے احادیث مبارکہ پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے جزاکم اللہ خیرا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطاب صرف صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار تک ہی مخصوص و محدود نہ تھا بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے موجودہ ترقی یافتہ دور کے لئے بھی ایک چیلنج ہے ۔ آج ساری کائنات میں سائنس و ٹیکنالوجی پر عبور رکھنے والے ماہرین اپنی تمام تر ترقی اور اپنی بے پناہ ایجادات کے باوجود کائنات کی ان پوشیدہ حقیقتوں اور رازوں کو جان سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں جنہیں چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے پردہ دیکھ لیا اور اُن کی حقیقت کو جان لیا تھا۔ حضور علیہ السلام کے دائرہ سماعت سے کوئی آواز باہر نہ تھی ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا : ⏬

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہر عضو کو اللہ تعالیٰ نے عمومی افعال کی انجام دہی کے علاوہ ایک معجزہ بھی بنایا تھا ۔ عام انسانوں کے کان مخصوص فاصلے تک سننے کی استطاعت رکھتے ہیں ، مگر جدید آلات کی مدد سے دُور کی باتیں بھی سنتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش مبارک کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت سماعت عطا فرمائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوتے،اوپر کسی آسمان کا دروازہ کھلتا تو خبر دیتے کہ فلاں آسمان کا دروازہ کھلا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود کا جواب دیتے ہیں اعتراض کا جواب ۔ حیات الانبیاء عليهم السلام کے بارے میں حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث کو ضعیف کہنے پر غیر مقلد وہابی زبیر زئی کا رد : ⏬

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيْهِ قُبِضَ وَفِيْهِ النَّفْخَةُ ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اللہ ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللہ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه ۔
ترجمہ : حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی ۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے پیش کیا جائے گا ؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے ۔

(1) اس حدیث کو غیر مقلد وہابی زبیر علی زئی نے ضعیف کہا ہے ، جب کے اسی طبقہ کے غیر مقلد وہابی محمد آمین نے زبیر کا رد کیا ہے ، وہ لکھتا ہے : مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے ۔ اور دلائل کی رو سے انہیں کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے ۔ (سنن نسائی جلد 3 صفحہ 219)

(2) زبیر علی زئی کے استاد غیر مقلد وہابی عبد المنان نور پوری نے ایک سوال کے جواب میں اس حدیث کونقل کیا ہے اور البانی کے حوالے سے اسے صحیح کہا ہے ۔ (احکام ومسائل جلد 2 صفحہ 93)

(3) غیرمقلد ابو عبد اللہ اور عبد الغفار نے بھی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور صحیح کہا ہے ۔ (صحیح اور مستند فضائل اعمال صفحہ 716،چشتی)

حیات انبیاء علیہم السّلام کی ایک اور روایت پر غیر مقلس سِفلی وہابیوں کے اعتراض کا جواب : ⏬

مسند أبي يعلى الموصلي حدیث ۶ ۱۴۷ : حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ۔ إسناده صحيح ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انبیاء علیہم السّلام اپنی قبور میں حیات ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں ۔

اعتراض اوّل : مذکورہ روایت میں حجاج مجہول ہے ۔
جواب : یہ اعتراض مردود ہے ، کیوں کی کتب رجّال میں مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ کا ایک ہی استاد ہے جس کا نام حجاج ہے ۔ (تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد ۲۷ صفحہ ۴۲۹ المزي المتوفى : ۷۴۲هـ،چشتی)

مستلم بن سَعِيد الثقفي الواسطي ، ابن أخت منصور بْن زاذان ۔
رَوَى عَن : حجاج بْن أَبي زياد الأسود ۔ حجاج بْن أَبي زياد الأسود جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ (تهذيب الكمال في أسماء الرجال جلد ۲۷ صفحہ ۴۳۰)

قال حرب بْن إِسْمَاعِيل ، عَن أحمد بْن حنبل : شيخ ثقة ۔ وَ قَال إسحاق بْن منصور عَن يحيى بْن مَعِين : صويلح ۔ وَقَال النَّسَائي : ليس بِهِ بأس ۔ وذكره ابنُ حِبَّان فِي كتاب الثقات (لسان الميزان ت أبي غدة جلد ۲ صفحہ ۵۵۹)

وقال ابن معين : ثقة ۔ وقال أبو حاتم : صالح الحديث ۔ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے فتح الباري شرح صحيح البخاري میں بهی حجاج بْن أَبي زياد الأسود علیہ الرحمہ کا تعّین کیا ہے ۔ وَالصَّوَابُ الْحَجَّاجُ الْأَسْوَدُ ۔ (فتح الباري لابن حجر جلد ۶ صفحہ ۴۸۷)

اعتراض دوم : کتبِ رجال کے اس تعّین کو ہم نہی مانتے ہیں ۔ کوئی صحيح سند پیش کیجیے جس میں حجاج کا مکمّل نام و نسب ہو مثلاََ حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ (حجاج بْن أَبي زياد الأسود) ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ سند میں دکها دو ؟
جواب : اگر غیرمقلد وہابیوں کا یہ خود ساختہ خانہ ساز اصول تسلیم کیا جائے تو "بخاری و مسلم" کی کئی روایات سے ہاتھ دهونا پڑے گا ۔ مثلاََ
صحيح البخاري جلد ۱ صفحہ ۱۶ ۔ ۳۴ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ " تَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ ۔
چیلنج : مذکورہ سند میں "مَسْرُوقٍ" کون ہیں ؟ صحیح سند سے نام و کنّیت ثابت کرو ؟ کتبِ رجال کا سہارہ نہ لینا کیوں کی جمات غیر مقلد وہابی کتبِ رجال کے تعّین کو تسلیم نہی کرتی ۔

امتی جہاں کہیں سے درود پڑھیں آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سنتے ہیں

محترم قارئینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اس موضوع کے متعلق حدیثِ مبارکہ نقل کرنے کے بعد علماء و محدثین علیہم الرحمہ کا کلام اس حدیث کے بارے میں پیش کر رہا ہے ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے مالا مال فرمائے اور منکرین عظمت و شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ھدایت عطا فرمائے ۔ کمال تعجب ہے ان لوگو ں کی عقلوں پر، کہ آج یہ تو ایک چھوٹا سا موبائل کان کے ساتھ لگا کر دنیا جہان کی باتیں سن لیں اور دوردراز بیٹھے شخص کی آواز ان تک پہنچ جائے تو کیا سیدِ کل عالم باعث ایجادِ کل عالم جان کائنات محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کانوں کو اللہ عزوجل یہ طاقت نہیں عطا کر سکتا کہ دور کی آواز سن لیں ۔ قبروں کی زیارت کے وقت السلام علیکم یا اھل القبور کہنے کا حکم خود شریعت میں موجود ہے ، تو جب مردے سنتے ہی نہیں تو پھر اس سلام کرنے کا کیا فائدہ ؟ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔

حدیث مبارکہ ہے : من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی نائبا ابلغتہ ۔
ترجمہ : جس نے مجھ پر میری قبر کے قریب درود پڑھا میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ اس حدیث کو شیخ الاصبہانی نے کتاب الثواب میں روایت کیا جیسا کہ اللآلی المصنوعۃ جلد ۱ ص ۲۸۳ میں ہے : حدثنا عبدالرحمن بن احمد الاعرج حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن ابی الصالح عن ابی ھریرۃ بہ مرفوعا ، حافظ سخاوی نے القول البدیع صفحہ نمبر ۱۵۴ میں کہا : اس کی سند جید ہے جیسا کہ ہمارے شیخ ابن حجر نے افادہ فرمایا ۔ انتہی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں سے درود پڑھو تمھاری آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السّلام کے جسموں کو کھائے : ممدوح علماء دیوبند و علماء اھلحدیث غیر مقلد وھابی حضرات (علامہ ابن قیم جوزی جلاء الافہام صفحہ نمبر 71 اردو ترجمہ غیر مقلد وہابی عالم قاضی سلیمان منصور پوری مطبوعہ دارالسلام) ۔ اب کیا کہتے ہیں غیر مقلد وھابی حضرات منکرین حیات النبی اور منکرین سماعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرا امتی جہاں کہیں سے درود پڑھتا ھے اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کو اللہ زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انہیں کھائے ، میری قبرِ انور پر ایک فرشتہ مکرر ہے جو میرے امتیوں کے درود سن کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر پہچاتا ہے ۔ (الجوہر المنظم صفحہ نمبر 50 محدث کبیر امام ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ۔چشتی)

شیخ حافظ احمد بن الصدیق الغماری رحمۃ اللہ علیہ نے المداوی لعلل المناوی جلد ۶ صفحہ ۲۷۷ میں فرمایا : اس کی سند نظیف ہے اور ابن تیمیہ نے الرد علی الاخنائی صفحہ ۱۳۴ میں صراحت کی کہ یہ صحیح المعنی ہے ۔
اس حدیث کے مفہوم کی توثیق ایک اور حدیث سے نہایت احسن انداز میں ہوجاتی ہے جو کہ درج ذیل ہے : عن ابی صخر حمید بن زیاد عن یزید بن عبداللہ ابن قسیط عن ابی ہریرۃ ان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : ما من احد یسلم علی رد اللہ علی روحی حتی ارد علیہ ۔
ترجمہ : یعنی کوئی بھی مسلمان جب مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو میری طرف لوٹاتا ہے حتی کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۵۲۷)(سنن ابوداؤد جلد ۲ صفحہ ۲۹۳۔چشتی)(سنن الکبری للبیہقی جلد ۵ صفحہ ۲۴۵)(شعب الایمان للبیہقی جلد ۲ صفحہ ۲۱۷)(اخبار اصبھان لامام ابونعیم جلد ۲ صفحہ ۳۹۳)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف درود و سلام شریف سنتے ہیں بلکہ درود شریف پڑھنے والے کو اس کا جواب بھی عطا فرماتے ہیں ۔

حیرت کی بات ہے کچھ لوگ فرشت والی حدیث کو تو مان لیتے ہیں فرشتے کی قوت سماعت کو بھی مان لیتے ھیں مگر اسی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو نہیں مانتے جس میں فرمایا میرا امتی جہاں کہیں بھی ھو وہ درود پڑھے تو اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ھے ، اور حیرت در حیرت کی بات یہ ھے کہ یہ لوگ فرشتے کی قوت سماعت کو تو مان لیتے ھیں مگر اسی فرشتے کے آقا ہم سب کے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوتِ سماعت کا انکار کر کے فرشتے کی شان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سے بڑھاتے ہیں یہ کیسے مسلمان ہیں ایک حدیث کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکار کر دیتے ہیں اے مسلمانو انہیں پہچانو ان کے دلوں میں بغضِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھرا ہوا ہے ۔ دونوں احادیثِ مبارکہ آپ نے پڑھیں اب فیصلہ آپ خود کیجیے جزاکم اللہ خیرا ۔ اللہ تعالیٰ قبولِ حق کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔


اللہ عزوجل نے درو د و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے : ⏬

قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اذان سے پہلے اذان کے بعد نماز کے بعد ہر وقت صلوٰۃ و سلام بلند آواز سے یا آہستہ پڑھنا جائز ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ ۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔
ترجمہ : بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔ (سورۃ الاحزاب آیت نمبر ٥٦)

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو درود و سلام پڑھنے کا حکم فرمایا ہے اس میں کسی وقت' جگہ یا کسی خاص صیغہ سے پڑھنے کی پابندی نہیں لگائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شجر و حجر پڑھتے تھے ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (سیرۃ الحلبیہ صفحہ ٤٩٣ جلد ٣)(معارج النبوۃ صفحہ ٦٧٧، جلد ٣)(مشکوٰۃ شریف)(ابوداؤد شریف صفحہ ٣٥١ ، ٢١٦)(حزب الصلوٰۃ والسلام محمد ہاشم دیوبندی)(فتاویٰ علماء حدیث صفحہ ١٥ جلد ٩)

صحابہ کرام علیہم الرضوان اسی صیغہ خطاب سے صلوٰۃ و سلام دربار رسالت میں عرض کرتے تھے ۔ (نسیم الریاض شفا شریف جلد ٣ صفحہ ٤٥٤)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پتھر اور درخت کے پاس سے گزرتے وہ حضورنبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کرتا ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (سیرۃ حلبیہ صفحہ ٢١٤) ۔ یہی روایت السلام علیک یا رسول اللہ کے الفاظ کے ساتھ مشکوٰۃ شریف میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ'' پڑھتے تھے ۔ (ماہنامہ حرمین اہلحدیث جہلم جنوری ١٩٩٢)

صحابہ کرام سے جو مختصر درود و سلام مروی ہے وہ ''الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ'' ہی ہے ۔ (حزب الصلوٰۃ والسلام صفحہ ١٥٤ تا ١٦٩ ، مولوی محمد ہاشم دیوبندی ' معارف القرآن مفتی محمد شفیع دیوبندی)

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف درودِ ابراہیمی پڑھنا چاہیے کیونکہ  یہ بہت فضیلت والا ہے اور مذکورہ درودشریف اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ بنوٹی درود ہے اِس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اب دیکھیں کہ یہ بد مذہب حقیقت میں درودِابراہیمی کے خود دو مرتبہ منکر ہیں ۔ درودِ ابراہیمی (نماز والے درود) میں آلِ ابراہیم اور آلِ محمد پر درود بھیجا جاتا ہے ۔ آلِ ابراہیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے والدین شامل ہیں اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں حضور نبی پاک کے نواسے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ یہ لوگ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے والدین کو مسلمان مانتے ہیں اور نہ ہی سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو حق پر تسلیم کرتے ہیں تو پھران کو درودِ ابراہیمی پڑھنے کا کیا فائدہ ہو گا ۔ اگر یہ نماز والا درود افضل اور بہتر ہے تو نماز والے سلام پر کیوں ایمان نہیں ہے ۔ نماز میں زندہ و حیات نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں السلام علیک ایہاالنبی حرفِ ندا کے ساتھ سلام عرض کیا جاتا ہے ۔

معترضین کی کتب سے ثبوت : ⬇

(1) ہمارے بزرگان دین اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْل اللہ پڑھنا مستحب جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا حکم دیتے ہیں ۔ (الشہاب ثاقب صفحہ ٦٥)

(2) اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
(امداد المشتاق صفحہ ٥٩ از اشرف علی تھانوی)

(3) مولوی خلیل احمد دیوبندی کو صاحب التاج والمعراج کی زیارت ہوئی حضور علیہ السلام کو دیکھتے ہی مولوی صاحب اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھنے لگے ۔ (تذکرہ خلیل صفحہ ٢٢٣ عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی)

(4) اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ (فیصلہ ہفت مسلہ ص ٣٢:ازحاجی امداد اللہ مہاجر مکی)

(5) تین بار  اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھے ۔ (ضیاء القلوب صفحہ ١٥ ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی )

(6) روضہ اطہر پر حاضر ہو کر بصیغہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ سلام پیش کرنا جائز ہے ۔ (خیر الفتاویٰ جلد ١ صفحہ ١٨٠ خیر محمد جالندھری دیوبندی)

(7) اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھے تو زیادہ اچھا ہے ۔ (فضائل اعمال مطبوعہ لاہور صفحہ ٦٤٦ مولوی زکریا سہارن پوری)

(8) نداء درود و سلام کے ساتھ صلی اللہ علیک یا رسول اللہ یا  اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ بصورت حدیث کی رُو سے جائز ہے ۔ (شبیر احمد دیوبندی یا حرف محبت صفحہ ٦)

(9) گرمی سے بچنے کا نسخہ مولوی اسحاق علی کا نپوری کےلیے : کہ ''جب سانس اندر جائے تو صَلَّ اللہ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّد ۔ اور جب سانس باہر آئے تو صلی اللہ علیک وسلم زبان تالو سے لگا کر خیال سے کہا کرو ۔ (یا حرف محبت صفحہ ٦٣)

(10) اس لیے بندہ کے خیال میں اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اللہ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِی اللہ  کے اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیُّ اللہ اسی طرح آخر تک سلام کے ساتھ ''الصلوٰۃ '' کا لفظ بھی بڑھائے تو زیادہ اچھا ہے ۔ (فضائل درود شریف صفحہ ٢٥ زکریا سہارنپوری دیوبندی)

(11) اس ناپاک او ر ناکارہ کے خیال میں روضہ اقدس پر نہایت خشوع و خضوع و سکون و وقار سے ستر مرتبہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ہر حاضری کے وقت پڑھ لیا کرے تو زیادہ بہتر ہے ۔ (فضائل حج مولوی زکریا سہارنپوری دیوبندی)

(12) روضہ رسول  پر خشوع و خضوع اور ادب کے ساتھ پڑھے ۔
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نبی اللہ ، اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حبیب اللہ ۔ (فضائل درود شریف ص ٢٣ ، از مولوی زکر یا سہارنپوری)

(13) ہم اور ہمارے اکابر اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کو بطور درود شریف پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ یہ بھی فی الجملہ اور مختصر درود کے الفاظ ہیں ۔ (درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ ص ٧٥،سرفراز گکھڑوی دیوبندی)

(14) یوں جی چاہتا ہے کہ درود شریف زیادہ پڑھوں وہ بھی ان الفاظ سے
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ۔ (شکرالنعمہ بذکر الرحمۃ الرحمہ ص ١٨، اشرف علی تھانوی)

(15) گجرات روزنامہ ڈاک ١٨،٢٠ نومبر ٢٠٠٢ء : دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم ضیاء اللہ بخاری نے درس قرآن میں کہا کہ اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہنا جائز ہے ۔ لیکن اسے اذان کا حصہ نہ بنایا جائے ۔

(16) عاشق الٰہی دیوبندی نے اپنی کتاب طریقہ حج و عمرہ صفحہ نمبر ١٥١ پر لکھا ہے : ⬇

اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ
اَلصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حبیب اللہ

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بعض علماء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بغیر سلام کے صرف صلوۃ بھیجنے کے مکروہ ہونے پر نص فرماٸی ہے ۔ (شرح صحیح مسلم جز اول صفحہ ۴۴)

دیوبندیوں کے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے خالی درود پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے ۔ (تفسیرمعارف القرآن جلد ۷ صفحہ ۲۲۵)

مشہور دیوبندی عالم علامہ دوست محمد قریشی لکھتے ہیں : بغیر سلام کے  شیعوں کا درود ناقص ہے اہلسنت کا درود سلام کے ساتھ مکمل ہے ۔ (اہلسنت پاکٹ بک سوم صفحہ ۴۰۳)

امام الوہابیہ قضی شوکانی لکھتے ہیں : دورود ابراہیمی کا حکم خاص نماز کے ساتھ ہے نماز کے علاوہ اللہ کے حکم درود و سلام دونوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ (تحفۃ الذاکرین صفحہ ۱۴۸)

قرآن مجید میں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے : ⬇

اصل درود پاک وہی ہے جس میں صلوٰۃ و سلام دونوں کا ذکر موجود ہو ، کیونکہ قرآن مجید میں صلوٰۃ و سلام دونوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 56)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں ۔ تفسیر جلالین میں یہ الفاظ مذکور ہیں : اللهم صلی علی سيدنا محمد وسلم ۔

امام بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے یہ کلمات لکھے ہیں : اللهم صلی علی سيدنا محمد و علی آله و صحبه مادامت اَزمنة و اوقات وسلم تسليما کثيرا و بارک عليهم وعلی من تبع هديهم بتحيات مبارکات زاکيات ۔ (عمدة القاری جلد 25 صفحہ 203)

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں مطلقاً بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط نماز کےلیے درود ابراہیمی متعین کیا ہے ۔ نماز کے علاوہ کسی بھی موقع پر کوئی بھی درود و سلام پڑھ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بے شمار صیغوں میں درود و سلام موجود ہے ۔

آج ہر طبقے ، مذہب اور فکر کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب نام مبارک لیتے ہیں تو فقط علیہ الصلوٰۃ والسلام یا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھتے ہیں ۔ اگر درود ابراہیمی ہی اصل ہے تو پھر یہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جب مطلق حکم فرما دیا کہ درود و سلام پڑھو تو پھر جس مرضی صیغے کے ساتھ پڑھیں ، مقصود حاصل ہو جاتا ہے ۔ ہمیں مقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، قرآن و سنت میں کہیں بھی درود و سلام کی تقلید نہیں ہے ۔

درود ابراہیمی اصل میں نماز کےلیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تجویز کیا تھا۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم هذا تسليم فکيف نصلی عليک قال ، قولوا اللهم صل علی محمد الخ ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 708)
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو سلام ہے تو درود کیسے پڑھیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللھم صل پڑھو ۔

جب درود شریف کا حکم آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یارسول اللہ اما السلام عليک فقد عرفناه فکيف الصلوة قال قولوا اللهم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صليت علی ابراهيم وعلیٰ اٰل ابراهيم انک حميد مجيد ۔ (صحيح بخاری جلد 2 صفحہ 708)
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا سلام کا تو ہمیں پتہ ہے درود کیسے پڑھیں۔ فرمایا اللھم صل پڑھو ۔ چونکہ صحابہ کرام نماز کے اندر درود شریف کے حوالے سے پوچھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اللھم صل پڑھا کرو ۔

درود و سلام ۔ بخاری و مسلم یا کوئی بھی حدیث کی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ درود ابراہیمی لکھا ہوا ہو ۔ ساری کتب میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا علیہ الصلوۃ والسلام) کے الفاظ ہی موجود ہیں ۔ قرآن پاک میں بھی درود اور سلام دونوں ہی پڑھنے کا حکم ہے اس لیے صرف درود ابراہیمی پڑھنے سے حکم باری تعالیٰ پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ درود کا بھی حکم ہے اور سلام کا بھی بلکہ سلام کےلیے ڈبل حکم یعنی تاکید پیدا کی گئی ہے ۔ نماز میں ہم درود ابراہیمی پڑھنے سے پہلے سلام پڑھتے ہیں ۔ اس لیے حکم باری تعالیٰ پر مکمل عمل ہو جاتا ہے ۔ لیکن نماز کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک آئے ہم درود ابراہیمی پڑھیں ۔ تاریخ گواہ ہے ، کتابیں موجود ہیں ۔ آج تک کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ درود ابراہیمی لکھا ہو نہ ہی کسی نے ایسا خطاب کیا کہ جہاں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک آیا ہو اس نے درود ابراہیمی پڑھا ہو ، آج تک ایسا نہیں ہوا ۔ لہٰذا صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم ، ائمہ فقہ ، ائمہ حدیث اور تمام سلف صالحین علیہم الرحمہ کی تحریر اور تقریر سے درود ابراہیمی کے علاوہ درود و سلام ثابت ہیں جو بھی اپنے اپنے انداز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام پیش کرے قبول ہے ۔ اعتراض کرنے والے خود بھی اس پر عمل نہیں کرتے صرف عوام کو گمراہ کرنے کی خاطر طرح طرح کے اختلافات پیدا کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ واضح حکم ہے درود کا بھی اور سلام کا بھی ، جب درود ابراہیمی ہے ہی صرف درود تو پھر سلام کہاں گیا ؟ ۔ نماز میں سلام معلوم تھا لیکن درود معلوم نہ تھا فرمایا اللھم صل پڑھو ۔ اب درود شریف نماز کے باہر بھی پڑھا جاتا ہے اس لیے اگر نماز کے باہر فقط درود ابراہیمی پڑھنا ہے تو قرآن کے ایک حکم سلام پر عمل نہیں ہوتا اور یہ خلافِ اطاعت الہٰی ہے ۔ اس لیے تمام مفسرین ، محدثین اور علماء کرام کتابوں میں اکثر نام گرامی کے ساتھ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھتے ہیں اس میں سلام اور صلاۃ دونوں ہیں ۔ لہٰذا نماز میں درود ابراہیمی پڑھنا چاہیے چونکہ اس سے پہلے سلام پڑھا جاتا ہے نماز کے باہر کوئی بھی صیغہ ہو لیکن صلاۃ و سلام دونوں ہوں تو پڑھنا چاہیے تاکہ حکم ربی پر مکمل عمل ہو ۔

محترم قارئین کرام : الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ کے صیغے سے حضورنبی کریم رؤف الرحیم علیہ التحیۃ والتسلیم پر درود و سلام پڑھنا جائز و مستحسن ہے جس طرح دیگر درود شریف کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنا جائز ہے اور یہ اللہ تعالی کے اس فرمان پاک سے ثابت ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔
ترجم : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔ (سورۃ الاحزاب اٰیۃ نمبر ۵۶)

اس آیت کریمہ میں لفظ " صلاة" اورلفظ "سلام" ہے اور "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" میں بھی لفظ "صلاۃ" اورلفظ "سلام" دونوں ہیں ۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : (عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول : السلام علیک یا رسول اللہ)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گذرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱۱ صفحہ ۶۵ حدیث : ۵۹۱۹ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

اس حدیث پاک میں "اسلام علیک یا رسول اللہ" ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دونوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے "الصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ" اس میں "صلوا" اور "وسلموا" دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔

اگر کوئی یہ کہے کہ یہی الفاظ کیوں ہیں ؟ احادیث پاک میں کثرت سے دوردو سلام کے صیغے موجود ہیں ان میں سے ہی پڑھا جانا چاہئے تو اس کے لئے جواب یہ ہے کہ وہ دورد پاک جواحادیث میں وارد ہیں ان میں حصر نہیں کہ صرف وہی پڑھے جائیں اس کے علاوہ نہیں پڑھ سکتے بلکہ علماء نے صراحت کی ہے کہ جتنے اچھے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں ہو سکیں اس کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پردورد اور سلام بھیجا جائے اس کی ہمارے سامنے مثالیں موجود ہیں جن میں قصیدہ بردہ شریف ، اور دورد تاج ، دلائل الخیرات شریف اس کے علاوہ بھی بہت سارے دورد وسلام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے موجود ہیں ۔ اگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر دلائل الخیرات اور قصیدہ بردہ شریف کا کیا جواب دیں گے ؟
ہاں بعض لوگوں کو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ ہضم نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ اس طرح کہنا شرک ہے ، میرا ان سے ایک سوال یہ ہے کہ جو شرک ہوتا ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر لحاظ سے شرک ہوتا ہے تو پھر یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین علیہم الرحمہ کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کیا اور خود اللہ تعالی کے بارے میں ان لوگوں کا کیا خیال ہے کہ جب اللہ تعالی قرآن کریم میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کبھی "یاایھا المزمل" کے خطاب سے مخاطب فرماتا ہے اور کبھی "یاایھا المدثر" کے لقب سے اور کبھی "یاایھا النبي" کے مبارک الفاظ سے ۔ کیا نعوذباللہ ، اللہ تعالی خود شرک کی تعلیم دیتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں اور عقلوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے ان کو حقیقت بات بھی الٹی سمجھ آتی ہے ۔

الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین تمام اکابرین دیوبند کے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض لوگ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے قرب و بعد نہیں ہے پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے ۔ (امداد المشاق صفحہ نمبر 60) ۔

اور مسلک حق کا فیصلہ کیجیے ساتھ ہی کھسیانی بلی کھبا نوچے کی زندہ عملی مثال تھانوی صاحب کا حاشیہ پڑھیے کہتے ہیں پڑھنے والے کو اگر کشفی کیفیت حاصل ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ اجازت نہیں دی جائے گی مگر تھانوی صاحب اسے ناجائز نہیں لکھ سکے اگر وہ یا کوئی دیوبندی اسے ناجائز ، یا شرک کہتا ہے تو مرشد اکابرین دیوبند کو ناجائز کام کا مرتکب اور مشرک قرار دینا پڑے گا اس لیے کہ ناجائز شرک ہر ایک کےلیے ناجائز و شرک ہو گا ۔

کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟

اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ھے آخر یہ دوغلہ پن و دھرا معیار فتویٰ کیوں ؟

درود و سلام پڑھنے میں بہتر ہے کہ درود کے ساتھ سلام بھی شامل کرکے یوں پڑھیں : الصّلوٰۃُ والسّلام علیک یا رسول اللہ اسی طرح آخیر تک السّلام کے ساتھ الصّلوٰۃ کا لفظ بھی بڑھا دے ۔ (فضائل درود شریف صفحہ نمبر 29،چشتی)

علماۓ اہلحدیث لکھتے ہیں : الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنا جائز ہے ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد نہم صفحہ نمبر 15)

مشکوٰۃ شریف کی حدیث پاک میں ہے : عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول :السلام علیک یا رسول اللہ ‘‘یعنی،’’ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو کسی پہاڑ اور درخت کے پاس سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ السلام علیک یا رسول اللہ کہتا ۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد ۱۱ صفحہ ۶۵ حدیث نمبر ۵۹۱۹ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

اس حدیث پاک میں’’ السلام علیک یارسول اللہ ‘‘ہے ۔ اب اگر آیت پاک اور حدیث شریف دو نوں کی وضاحت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم پر دورد وسلام بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا اور حدیث پاک میں لفظ السلام موجود ہے تولہذا آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے’’ الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ ‘‘ اس میں’’ صلوا‘‘ اور’’ وسلموا‘‘ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے سلام کے الفاظ پر بھی عمل ہو جاتا ہے ۔

حقیقت بات یہ ہے کہ ندا ئے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجود ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ’’لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا ۔ ‘‘ترجمہ : یعنی’’ رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے ۔ (سورہ النور آیت نمبر 63)

اس آیت کے تحت تفسیر روح المعانی میں اور تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت مذکور ہے ’’ والفظ لہ :قال الضحاک عن ابن عباس ،کانو یقولون یامحمد یااباالقاسم فنہاھم اللہ عزوجل عن ذلک اعظاما لنبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ و صحبہ وسلم قال فقولو ایانبی اللہ ،یارسول اللہ ھکذا قال مجاہد وسعید بن جبیر ،وقال قتادۃ ‘‘یعنی،’’ حضرت ضحاک علیہ الرحمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے تھے یامحمد ، یا اباالقاسم ، تو اللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور توقیر کےلیے اس سے منع فرما دیا اور فرمایا کہو ’یانبی اللہ ، ’یارسول اللہ ، اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنھم نے اسی طرح روایت کیا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 81 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

اسی سے ملتا جلتا مضمون تفسیر درمنثور جلد 8 صفحہ 230 پر بھی موجود ہے اور تفسیر کبیر میں علامہ فخرالدین رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’ لا تنادو ہ کما ینادی بعضکم بعضا یامحمد ولکن قولوا یا رسول اللہ ،یانبی اللہ ‘‘یعنی ان (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ندا اس طرح نہ دیں جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکار تے ہو (یعنی یامحمد کہہ کرنہ پکارو) لیکن یا رسول اللہ ، یا نبی اللہ کہہ کر پکارو ۔ (تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 425 مطبوعہ دار الا حیاء بیروت)

حدیث پاک میں ہے کہ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے یارسول اللہ کے نعرے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا ’’فصعد الرجال والنساء فوق البیو ت وتفرق الغلمان والخد ام فی الطرق ینادون یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ‘‘یعنی’’ پس مرد اور عورتیں مکان کی چھتوں پر چڑھ کر اور بچے اور خدام بازاروں کے راستوں میں پھیل کر یامحمد ، یارسول اللہ ، یامحمد ، یارسول اللہ ، کا نعرہ لگاتے تھے ۔ (صحیح مسلم شریف جلد 1 صفحہ 419 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا باجماع مسلمین جائز ومستحب ہے جس کی ایک دلیل ظاہر وباہر التحیات میں ، السلام علیک ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہے اور اس کے سواء صحاح کی حدیث میں ،’’یامحمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ ‘‘یعنی’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی حاجت (ضرورت) میں آپ کو اپنے پروردگار کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور آپ کو وسیلہ بناتا ہوں ‘‘۔ موجود جس میں بعد وفات اقدس حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کو پکارنا حضور سے مدد لینا ثابت ہے مگر ایسے جاہل کو احادیث سے کیا خبر جب اسے التحیات ہی یاد نہیں جو مسلمان کا ہر بچہ جانتاہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۶۸۰ مطبوعہ رضاء فا ؤنڈیشن لاہور،چشتی)

علامہ طحطاوی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ،فصل فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے آداب بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواجھہ شریف سے چار ہاتھ دور کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے سر جھکائے ہوئے کہے’’السلام علیک یاسیدی یا رسول اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا نبی الرحمۃ ۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ نمبر 747 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ رحمۃ الباری تحریر فرماتے ہیں : یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ : صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ،عند الثانیۃ منھا : قرت عینی بک یارسول اللہ ‘‘یعنی’’ مستحب یہ ہے کہ اذان میں مؤذ ن سے پہلی مرتبہ شہادت (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور جب مؤذن سے دوسری مرتبہ (اشھد ان محمد رسول اللہ) سنے تو کہے قرّت عینی بک یا رسول اللہ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں) ۔ (ردلمحتار جلد ۲ صفحہ ۶۸ مطبوعہ امدایہ کتب خانہ ملتان)

مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ : الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ کہنا جائز اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔


حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں ایک نابینا صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور عرض کی : یَارَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمائیں کہ اللہ عزوجل میری بینائی پر پڑے ہوئے پردے کو دور فرما دے ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور صبر تمہارے لیے بہتر ہے ۔ عرض کی : آپ دعا فرما دیجیے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرو اور یہ دعا مانگو : اللَّھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہِ لِتُقْضٰی لِیْ اللھُمَّ شَفِّعْہُ فِیَّ ۔
ترجمہ : اے اللہ عزوجل ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد مصطفیٰ ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں ، یَارَسُوْلَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت کے سلسلے میں متوجہ ہوں تاکہ یہ حاجت پوری کی جائے ، اے اللہ عزوجل ! اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے لئے قبول فرما ‘‘ راوی فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی قسم ! ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص آیا اور وہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کبھی وہ نابینا تھا ہی نہیں ۔ (جامع ترمذی کتاب الدعوات باب فی انتظار الفرج ۔۔۔ الخ جلد ۵ صفحہ ۳۳۶ حدیث نمبر ۳۵۸۹)(دلائل النبوۃ للبیھقی باب ما فی تعلیمہ الضریر ماکان فیہ شفاؤہ… الخ جلد ۶ صفحہ ۱۶۸،چشتی)۔(ہدیۃ المہدی عربی صفحہ ٢٤ وحید الزمان وہابی)

عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
یہ گھٹائیں اُسے منظور بڑھانا تیرا

غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل
یا رسول اللہ (ﷺ) کی کثرت کیجیے

حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے وقت آسمان سے میں نے یہ آواز سنی ''یا محمداہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ ( الشمامۃ العنبریہ صفحہ ١١٣ نواب صدیق حسن بھوپالوی غیر مقلد وہابی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مناسک میں لکھا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو اتنا ہی کہتے تھے ''السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا ابابکر ، السلام علیک یا ابتاہ '' ۔ (فضائل حج صفحہ ٩١٧ زکریا سہارنپوری دیوبندی)

جو عوام الناس کہتے ہیں یعنی یا رسول اللہ ، یا علی ، یا غوث تو اکیلی نداء سے ان پر شرک کا حکم نہیں دیا جائے گا اور کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتولوں کو فلاں بن فلاں کہتے ہوئے پکارا تھا ۔ اور حضرت عثمان بن حنیف کی حدیث میں یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لفظ بھی آئے ہیں اور ایک حدیث میں یا رسول اللہ کا لفظ بھی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی اُردو صفحہ نمبر ٥١ ، ٥٠)

صلوٰۃ و سلام کے الفاظ میں تنگی نہیں ہے ادب شرط ہے ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر شریف پر سلام اس طرح پڑھاہے ''السلام علیک یا رسول اللہ ، السلام علیک یا نبی اللہ ، السلام علیک یا حبیب اللہ ، السلام علیک یا احمد ، السلام علیک یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (الصلوٰ ۃ والسلام صفحہ ١٢٦ فردوس شاہ قصوری وہابی)

تفسیر ابن کثیر و مدارک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفن کے بعد ایک اعرابی آیا اور اپنے کو روتے اور سر پر خاک ڈالتے ہوئے قبر شریف پر گرا دیا اور کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں ۔ قبر مبارک سے آواز آئی ''کہ تجھ کو بخش دیا گیا ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ ٢٧٩،چشتی)(فضائل حج صفحہ ٢٥٣)

حکیم الات دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی نے کہا : اس بندہ نے آپ کو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مستغیث ہو کر اور اُمید کی چیزوں کا اُمید وار ہو کر پکارا ہے ۔ (نشر الطیب صفحہ نمبر ٢٧٩ )

نواب وحید الزمان حیدر آبادی غیر مقلد وہابی نے لکھا : جب روم کے بادشاہ نے مجاہدین اسلام کو عیسائیت کی ترغیب دی تو انہوں نے بوقت شہادت ''یا محمداہ'' صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نعرہ لگایا جیسا کہ ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی نے روایت کیا ۔ (ہدیۃ المہدی)

ایک اور دیوبندی عالم اپنی کتاب یا حرف محبت میں لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کا قول ''السلام علیک ایھا النبی '' بغیر کسی اعتراض کے ثابت ہے اور حضور ؐ کا یہ قول ''یا ابراہیم اپنے مردہ فرزند کو ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور حضرت حسان کا فرمان '' و جا ہک یا رسول اللہ جاہ ۔ (یا حرف محبت صفحہ ٩٤)

مولوی محمد علی جانباز غیر مقلد وہابی لکھتے ہیں : حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) نے آپ کو بایں الفاظ سلام کیا : السلام علیک یا ا وّل ، ا لسلام علیک یا آخر ، السلام علیک یا حا شر ۔ ( کتاب معراجِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ١٢،چشتی)

آج جی کرتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام زیادہ پڑھوں اور وہ بھی ان الفاظ سے الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (شکر النعمة بذکر الرحمة صفحہ نمبر 10 اشرف علی تھانوی دیوبندی)

حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی لکھتے ہیں : وہابیہ خبیثیہ کی زبان سے بار ہا سنا گیا ھے کہ وہ الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ کو سخت منع کرتے ہیں اور اہل حرمین پر سخت نفرتیں اس ندإ اور خطاب پر کرتے ہیں اور ان کا اسہزإ اڑاتے ہیں اور کلمات ناشاٸستہ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہمارے مقدس بزرگان دین اس صورت اور جملہ صور درود شریف کو اگرچہ بصیغہ خطاب و ندا کیوں نہ ہو مستحب و مستحسن جانتے ہیں اور اپنے متعلقین کو اس کا امر کرتے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 65 حسین احمد مدنی صدر مدارس دارالعلوم دیوبند،چشتی)

حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی کی عبارت سے درج ذیل باتیں ثابت ہوٸیں : ⏬

الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ یا دیگر خطاب کے صیغوں سے درود و سلام پڑھنے سے منع کرنے والے ۔ (خبیث) ہیں ۔

یہ صیغہ درود و سلام اہل حرمین کا معمول تھا ۔

مذکورہ صیغوں سے درود وسلام پڑھنا مستحب ہے ۔

حسین احمد مدنی دیوبندی کے نزدیک بھی وہابی خبیث لوگ ہیں ۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگوں کو ان کے بزرگوں کا حکم ہے کہ وہ مذکورہ صیغوں سے درود وسلام کو اپنا معمول بناٸیں ۔

فرمایا ۔ بعض لوگ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ بصیغہ خطاب میں کلام کرتے ہیں ۔ یہ اتصال معنوی پر مبنی ہے ۔ لہ الخلق والامر عالم امر مقید بجہت و طرف و قرب و بعد وغیرہ نہیں پس اس کے جواز میں کوٸی شک نہیں ہے ۔ (امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق صفحہ نمبر 49 اشرف علی تھانوی صاحب دیوبندی)

ملاٸکہ کا درود شریف حضور اقدس میں پہنچانا احادیث سے ثابت ہے اس اعتقاد سے کوٸی شخص (الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ) پڑھے تو کچھ مضاٸقہ نہیں ہے ۔ (فیصلہ ہفت مسلہ صفحہ نمبر 8 سیدالطاٸفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ مرشد گرامی اکابرینِ دیوبند)

حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا ملفوظ نقل کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ فرمایا : الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کے جواز میں شک نہیں ۔ (شماٸم امدادیہ صفحہ نمبر 52 اشرف علی تھانوی دیوبندی)

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پڑھ رہا ہوں ۔ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ ۔ (رسالہ المبشرات ملحقہ ببلغة الحیران صفحہ نمبر 8 حسین علی واں بچھراں دیوبندی استاد مولوی غلام اللہ خان آف راولپنڈی)

اگر محبت وشوق سے پڑھے ۔ الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ۔۔ جاٸز ہے ۔ (براھین قاطعہ صفحہ نمبر 222 مولوی خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت حاصل کرنے کا طریقہ لکھتے ہیں ۔ عشا کی نماز کے بعد نٸے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر منہ ادب سے مدینہ منورہ کی طرف کرکے بیٹھے اور خدا کی درگاہ میں جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت حاصل ہونے کی دعا کرے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت کا سفید شفاف کپڑے اور سبز پگڑی اور منور چہرے کے ساتھ تصور کرے اور ،،الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ،، داٸیں طرف ،،الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ،، باٸیں طرف اور ،،الصلوة والسلام علیک یا حبیب اللہ،، کی ضرب دل پر لگاۓ اور جس قدر ہو سکے متواتر درود شریف پڑھے اور طاق عدد میں اللھم صلی علی محمد ۔۔ پڑھے اور 21 بار سورة نصر پڑھ کر آپ کے جمال مبارک کا تصور کرے اور درود شریف پڑھتے وقت سر قلب کی طرف اور منہ قبلہ کی طرف داہنی کروٹ کی طرف سوۓ اور الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ پڑھ کر داہنی ہتھیلی پر دم کرے اور سر کے نیچے رکھ کر سوۓ ۔۔۔۔ تو ان شاء اللہ العزیز نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی ۔ (کلیاتِ امدادیہ ضیإ القلوب صفحہ نمبر 61 حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مرشد اکابرینِ دیوبند)

آذان سنتے ہوۓ اشھد ان محمد رسول اللہ پہلی دفعہ سن کر صلی اللہ علیک یا رسول اللہ پڑھنا مستحب ہے ۔ (فتاویٰ فریدیہ جلد دوم ص نمبر 182 مفتی محمد فرید دیوبندی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،چشتی)

اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کو جمع کیا جاۓ تو زیادہ بہتر ھے یعنی بجاۓ السلام علیک یا رسول اللہ کہنے کے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کہے تو زیادہ اچھا ہے ۔ (فضاٸل درود شریف صفحہ نمبر 23 مولوی زکریا صاحب دیوبندی)

سوال : کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسلہ کے بارے میں زید کہتا ہے کہ بوقت زیارت روضہ اقدس کے پاس درود شریف کے صیغے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ وغیرہ یعنی خطاب کے صیغے اور حروف ندا جو کہے جاتے ہیں ان کا ثبوت احادیث میں نہیں ہے کیا زید کا یہ کہنا صحیح ہے یا نہیں ؟
الجواب : یہ خطاب کے صیغے الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے امر سے مروی ہیں ۔ رواہ ابو حنیفہ ۔
وایضا جاز من البعید فی بعض الا حوال فکیف لا یجوز من القریب لا سماع الموتیٰ حق ۔
یعنی الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ دور سے بھی بعض حالتوں میں پڑھنا جاٸز ہے تو قریب سے پڑھنا کیسے نا جاٸز ہو سکتا ہے کیونکہ سماع موتیٰ حق ہے ۔ (فتاویٰ فریدیہ جلد 4 صفحہ 364 مفتی محمد فرید دیوبندی دارالعلوم اکوڑاخٹک)

اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر صلی اللہ علیک یا رسول اللہ پڑھنا مستحب ہے ۔ (شامی کی عبارت کی توثیق) ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند عزیزی الفتاوٰی جلد 1 صفحہ 128 مفتی عزیز الرحمٰن صاحب دیوبندی)

صیغہ درود و سلام ،،الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ،، ۔ (بوادر النوادر صفحہ205 اشرف علی تھانوی دیوبندی)

الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ
الصلوة والسلام علیک یا نبی اللہ
یہ مشہور درود شریف صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مروی ہے ۔ (حزب الصلوة و السلام صفحہ154 ظفر احمد دیوبندی خلیفہ مجاز مولوی زکریا دیوبندی)

ہم اور ہمارے تمام اکابر الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ کو بطور درود شریف پڑھنے کو جاٸز سمجھتے ہیں ۔ (درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ صفحہ 75 مولوی سرفراز گکھڑوی دیوبندی)

صلوة وسلام میں کلمات ندا (یارسول اللہ) کا استعمال جاٸز ہے اور صفحہ 378 پر ہے الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ بطور درود شریف پڑھنا غلط نہیں ہے ۔ (فتاوٰی فریدیہ جلد 1 صفحہ 375 مفتی فرید دیوبندی)

فرمایا الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ کا کون منکر ہے ۔ (ملفوظات احمد علی لاہوری صفحہ نمبر 111،چشتی)

الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ،،یا،، صلی اللہ علیک یا رسول اللہ ۔ کے ضمن میں کلمہ یا رسول اللہ کہنے میں حرج نہیں درست ہے ۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 172 مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی)

ملاٸکہ کا درود شریف حضور اقدس میں پہنچانا احادیث سے ثابت ہے اس اعتقاد سے کوٸی شخص ۔الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ کہے کچھ مضاٸقہ نہیں ۔ (شرح فیصلہ ھفت مسلہ صفحہ 61 مفتی جمیل احمد تھانوی دیوبندی مفتی اعظم جامعہ اشرفیہ)

حضرت شبلی ہر فرض نماز کے بعد تین دفعہ پڑھتے تھے ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ صلی اللہ علیک یا محمد ۔ (فضاٸل عمال ، فضاٸل درود شریف صفحہ 105 مولوی زکریا دیوبندی)

حضرت غوث پاک پر کوٸی صدمہ یا حادثہ پیش آتا تو اللہ کی طرف متوجہ ہوتے اور اچھی طرح وضو کر کے دورکعت نفل پڑھتے تھے ۔ پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے اغثنی یا رسول اللہ علیک الصلوة والسلام ۔ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میری مدد کریں اے اللہ کے رسول آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود و سلام ہو ۔ (غوث اعظم کی زندگی کے مختصر حالات صفحہ 33 مولوی احتشام الحسن کاندھلوی دیوبندی)

الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ بہت مختصر درود ہے ۔ (فیوض قاسمیہ صفحہ 48 مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی)

الصلوة والسلام علیک یارسول اللہ ۔ دور سے کہنے میں کوٸی حرج نہیں ۔ علماۓ دیوبند کے ہاں شوق ومحبت سے صلوة والسلام کی صورت میں اس کا پڑھنا درست ہے ۔ (رحمت کاٸنات صفحہ 307 قاضی محمد زاہدالحسنی دیوبندی خلیفہ مجاز مولوی حسین مدنی دیوبندی)

اگر کوٸی شخص بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم گرامی آیا اور دل میں اس نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سامنے تصور کر کے کہہ دیا ۔ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ اس میں کوٸی گناہ نہیں ۔ (بدعت ایک گمراھی صفحہ۔33.32 مولوی محمد تقی عثمانی دیوبندی)

الصلوةوالسلام علیک یا رسول اللہ کے صیغے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ۔ (حزب الصلوة والسلام صفحہ 154 مولوی محمد ہاشم دیوبندی)

انتہاٸی ذوق شوق اور نہایت سکون و وقار سے آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر : ⏬

الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوة والسلام علیک یا نبی اللہ

پڑھتا رہے تو جب تک شوق میں اضافہ پاۓ انہی الفاظ کو یا اور کسی سلام کو بار بار پڑھتا رہے ۔ پہلی فصل کے نمبر 10پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ 70 مرتبہ پڑھنا گذرا ہے وہ بھی بہتر ہے ۔ (فضاٸل حج صفحہ 167 مولوی زکریا کاندہلوی دیوبندی)

مذکوہ بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ’’ الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ ‘‘کہنا جائز اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ منکرین کو ہدایت عطاء فرماے آمین ۔

چالیس درود پاک کے کلمات احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ⏬

چہل احادیثِ مبارکہ کے بے شمار فضائل احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے ان احادیثِ مبارکہ کی نسبت سے چہل درود پاک کا نذرانہ اپنے کریم آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں پیش کیا ہے جو کہ آپ سب کی کی نذر ہے پڑھیئے اور اس فقیر پُر تقصیر کو دعاؤں میں یاد رکھیے ۔

(1) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ ،اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (بخاری،باب قول اللہ تعالی واتخذ اللہ،حدیث نمبر:۳۱۱۹)

(2) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ۔ (بخاری،باب قولہ ان اللہ وملائکتہ یصلون،حدیث نمبر:۴۴۲۳)

(3) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ،اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (بخاری:۴۷۷،حاکم،نسائی،کعب عن عجرہ:۱۹۰)

(4) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّیَّتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔
(بخاری،باب ھل یصلی علی غیر النبی ﷺ،حدیث نمبر:۵۸۸۳)

(5) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ و آلِ إِبْرَاهِیمَ ۔ (بخاری:۹۴۰،عن ابی سعید)

(6) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیمَ وَ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَ آلِ اِبْرَاهِیمَ ۔ (بخاری،عن ابی سعید،نزل :۱۶۸)

(7) آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ فِی الْعَالَمِینَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔
(مسلم:۱۷۵،ابوداؤد:۱۴۱،ترمذی،نسائی عن ابن مسعود)

(8) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (سنن نسائی،نزل:۱۶۸)

(9) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ وَبَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (مسند بزارعن ابی ہریرہ)

(10) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰى إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (مسند حاکم،عن ابن مسعود:۱/۲۶۸)

(11) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ ، وَأَزْوَاجِهِ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِینَ وَذُرِّیَّتِهِ وَأَهْلِ بَیْتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (سنن ابوداؤد:۱۴۱،مشکوٰۃ شریف عن ابی ہریرہ،چشتی)

(12) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی أَهْلِ بَیْتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَیْنَا مَعَهُمْ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی أَهْلِ بَیْتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَیْنَا مَعَهُمْ صَلَوَاتُ اللهِ وَصَلَوَاتُ الْمُؤْمِنِینَ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ السَّلاَمُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ۔ (سنن دار قطنی عن ابن مسعود)

(13) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ و آلِ إِبْرَاهِیمَ ۔ (نزل:۱۷۰،احمد،ابن ماجہ،عن ابن مسعود)

(14) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ و بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (مسند احمد والنسائی عن زید بن جاریہ)

(15) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (بخاری ، مسلم عن کعب بن عجرہ)

(16) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَبَارِک عَلٰى مُحَمَّدِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ فیٌ الْعَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ (نزل:۱۶۹،ترمذی،عن ابن مسعود)

(17) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّیَّتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّیَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ (سنن ابوداؤد:۱۴۱،والنسائی عن ابی حمید الساعدی،چشتی)

(18) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ وَأَزْوَاجِهِ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِینَ وَذُرِّیَّتِهِ وَأَهْلِ بَیْتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (سنن ابوداؤد عن ابی ہریرہ)

(19) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ وبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (نزل:۱۷۰،حاکم کعب بن عجرہ)

(20) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ وَتَرَحَّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تَرْحَّمْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمِ ۔ (الادب المفرد عن ابی ہریرہ)

(21) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍوَ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْ مُحَمَّدًا وَآلَ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ وَبَارَکْتَ وتَرْحّمْتَ عَلیٰ إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (حاکم عن ابن مسعود:۲۶۹)

(22) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (مسلم ، عن ابن مسعود)

(23) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ آلِ آبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ (سنن نسائی :۱۹۰)

(24) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَ آلِ إِبْرَاهِیمَ (بخاری،نسائی ابن ماجہ عن ابی سعید)

(25) اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَكَاتِکَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَهَا عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ (احمد عن بریرہ)

(26) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْد ۔ (احمد،ابن حبان)

(27) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ أَزْوَاجِهِ وَذُرِّیَّتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ وَبَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّیَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (صحیحین:۱۷۵،عن ابی حمید الساعدی)

(28) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِىِّ وَأَزْوَاجِهِ اُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِینَ وَذُرِّیَّتِهِ وَأَهْلِ بَیْتِهِ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (نسائی عن علی،نزل :۱۷۱)

(29) اَللّٰھُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الصِّدْقَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ (نزل الابرار : ۱۷۱ ، طبرانی،عن رویفع)

(30) اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صَلَواتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِّیینَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُوْلِ الرَّحْمَۃِ اَللّٰھُمَّ ابْعَثْہُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ یَغْبِطُ بِہ الْاَوَّلُوْنَ وَالْآخِرُوْنَ (ابن ماجہ:۶۵)

(31) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ صَلوٰۃً تَکُوْنُ لَکَ رِضاً وَلِحَقِّہِ اَدَاءٌ وَاَعْطِہ الْوَسِیْلَۃَ وَالْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِیْ وَعَدْتَہٗ وَاجْزِہِ عَنَّا مَاھُوَ اَھْلُہٗ وَاجْزِہِ عَنَّا مِنْ اَفْضَلِ مَا جَزَیْتَ نَبِیًّا عَنْ اُمَّتِہٖ وَصَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ اِخْوَانِہٖ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصَّالِحِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ (القول البدیع:۴۷،چشتی)

(32) اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَكَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِینَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِینَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّینَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ إِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ اَللّٰهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا یَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ (سنن ابن ماجہ،باب الصلاۃ علی النبی ﷺ،حدیث :۸۹۶)

(33) اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ یَا اَللہُ یَارَحْمٰنُ ، یَارَحِیْمُ ، یَاجَارَ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ ، یَا مَامَنَ الْخَائِفِیْنَ یَا عِمَادَ مَنْ لَا عِمَادَ لَہٗ ، یَا سَنَدَ مَنْ لَا سَنَدَ لَہٗ ، یَا ذُخْرَ مَنْ لَا ذُخْرَ لَہُ ، یَا حِرْزَ الضُّعَفَاءِ ، یَا کَنْزَ الْفُقْرَاءِ ، یَاعَظِیْمَ الرَّجَاءِ ، یَا مُنْقِذَ الْھَلَکٰی ، یَا مُنْجِیَ الْغُرَقیٰ ، یَا مُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ یَامُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ یَا عَزِیْزُ یَا جَبَّارُ یَا مُنِیْرُ اَنْتَ الَّذِیْ سَجَدَ لَکَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَضَوْءُ النَّھَارِ ، وَشُعَاعُ الشَّمْسِ وَحَفِیْفُ الشَّجَرِ، وَدَوِیُّ الْمَاءِ وَنُوْرُ الْقَمَرِ ، یَا اَللہُ ، اَنْتَ اللہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ اَسْئَلُکَ اَنْ تُصَلِّیْ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ ۔ (القول البدیع:۴۶،عن ابن عباس مرفوعا)

(34) اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ،اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ،اَللّٰھُمَّ تَرَحَّمْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تَرَحَّمْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ تَحَنَّنْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تَحَنَّنْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْد ، اَللّٰھُمَّ سَلِّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آل مُحَمَّدٍ کَمَا سَلَّمْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ. (شرح الشفاء : ۲ / ۱۲۳ ، السعایہ : ۲۴۳،عن علی)

(35) اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ شَفَاعَۃَ مُحَمَّدِ الْکُبْریٰ ، وَارْفَعْ دَرَجَتَہُ الْعُلَیَا وَاَعْطِہ سُؤٰلَہٗ فِیْ الْآخِرَۃِ وَالْاُوْ لٰی کَمَا آتَیْتَ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسیٰ ۔ (القول البدیع:۴۵،عن ابن عباس مرفوعا)

(36) اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَكَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِینَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِینَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّینَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ ، إِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ ، وَرَسُولِ الرَّحْمَةِ ، اَللّٰهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، یَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ ، اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ، وَاَبْلِغْہُ الْوَسِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ مِنَ الْجِنَّۃِ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ الْمُصْطَفِیْنَ مُحَبَّتَہٗ وَفِیْ الْمُقَرَّبِیْنَ مَوَدَّتَہٗ ، وَفِیْ الْاَعِلِّیْنَ ذِکْرَہٗ، وَالسَّلَامُ عَلَیْہِ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ، اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ،اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ۔ (القول البدیع:۳۸،چشتی)

(37) اَللّٰهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَارْضَ عَنّا رِضًا لَا تَسْخَطُ بَعْدَهُ ۔ (مجمع الزوائد،ابن سنی:۸۸،مسند احمد:۳/۳۳۷)

(38) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی لَہُ (القول البدیع:۴۷)

(39) اَللّٰهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ ، صَلِّ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ ، وَاجْعَلْنَا فِی شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃ (مجمع الزوائد:۳۳۸،عن ابی الدرداء)

(40) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَعَلٰی آلِہ وَسَلِّمْ تَسْلِیْمًا ۔ (الجلاء القول البدیع:۱۸۸) ۔ اللہ عزوجل اس کاوش کو قبول فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...