Sunday, 31 July 2022

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

 فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : حضرت ام سیّدہ کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما کا نکاح امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے مؤرخین و محدثین علیہم الرحمہ کی بڑی تعداد نے بیان کیا ہے : ⬇


تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وام کلثوم رضی اللہ عنہا را بنکاح آورد امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ پس پسرے زید نام برائے او بزادو بعد عمر رضی اللہ عنہ عون بن جعفر بزنی خواست ۔ بعد از وے محمد بن جعفر بعد ازوے عبد اللہ بن جعفر ۔

ترجمہ : حضرت سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نکاح میں لائے ۔ ان سے ایک صاحبزادہ زید نام متولد ہوا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد عون بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ان کے بعد محمد بن جعفر رضی اللہ عنہما ان کے بعد عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے نکاح میں آئیں ۔ ( تحقیق الحق فی کلمة الحق ۔ تاریخ اشاعت ۔جون ۔2004 صفحہ 152۔چشتی)


مزید تفصیل درج ذیل ہے : ⬇


سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : إِنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَسَمَ مُرُوطًا بَیْنَ نِسَاءٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْمَدِینَةِ، فَبَقِيَ مِرْطٌ جَیِّدٌ، فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهٗ: یَا أَمِیرَ المُوْمِنِینَ! أَعْطِ هٰذَا ابْنَةَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ الَّتِي عِنْدَکَ، یُرِیدُونَ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ. فَقَالَ عُمَرُ: أُمُّ سَلِیطٍ أَحَقُّ، وَأُمُّ سَلِیطٍ مِّنْ نِّسَاءِ الْـأَنْصَارِ مِمَّنْ بَایَعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآله وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنَّهَا کَانَتْ تَزْفِرُ لَنَا الْقِرَبَ یَوْمَ أُحُدٍ ۔

ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا‘ امیر المومنین! یہ چادر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی (یعنی نواسی) کو دیجیے جو آپ کی زوجیت میں ہے ، ان کی مراد اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے ۔ (ام سلیط) انصاری عورت تھیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کے دستِ اقدس پر بیعت کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی للہ عنہ نے فرمایا : اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لیے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں ۔ (بخاری ، الصحیح، کتاب المغازی، باب ذکر ام سلیط، کتاب المغازی، رقم الحدیث: 4071، بیت الافکا للدولیه النشر، 1997 وہ فی كتاب الجهاد والسير باب حمل النساء القرب إلى الناس في الغزو)


شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں : سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور ان کی ماں حضرت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھیں ۔ اس لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کہا ۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔


امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمة اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُمِّ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔


سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھہما کے بطن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر پیدا ہوئے ۔ خلافتِ فاروقی کے بعد ان ماں بیٹے کا ایک ہی دن انتقال ہوا اور کا جنازہ بھی اکٹھے ادا کیا گیا ۔

حضرت نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلّٰی عَلَی تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِیعًا، فَجَعَلَ الرِّجَالَ یَلُونَ الْإِمَامَ، وَالنِّسَاءَ یَلِینَ الْقِبْلَةَ، فَصَفَّهُنَّ صَفًّا وَّاحِدًا، وَوُضِعَتْ جَنَازَةُ أُمِّ کُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنٍ لَّهَا، یُقَالُ لَهٗ زَیْدٌ، وُضِعَا جَمِیعًا، وَالْإِمَامُ یَوْمَئِذٍ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ، وَفِي النَّاسِ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَیْرَةَ، وَأَبُو سَعِیدٍ، وَأَبُو قَتَادَةَ، فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِي الْإِمَامَ ۔

ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نو میّتوں پر اکٹھی نماز جنازہ ادا کی ۔ انہوں نے مذکر میتوں کو امام اور مؤنث میتوں کو قبلہ کی جانب رکھا ۔ ان سب کی ایک صف بنا دی ، جبکہ سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا علی علیہ السلام کی صاحبزادی اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں‘ انہیں اور ان کے زید نامی بیٹے کو اکٹھا رکھا ۔ اس روز سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ امام تھے جبکہ جنازہ پڑھنے والوں میں عبداللہ بن عمر ، حضرت ابوہریرہ ، ابوسعید خدری اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل تھے ۔ بچے کو امام کی جانب رکھا گیا ۔ (سنن نسائي : 1980، سنن دارقطني: 79/2، 80، السنن الکبرٰی للبیهقي : 33/4،چشتی)


شیعہ مؤرّخ احمد بن یعقوب نے 17 ہجری میں خلافتِ فاروقی کے احوال میں لکھا ہے : وَفِي هٰذِهِ السَّنَةِ خَطَبَ عُمَرُ إِلٰی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أُمَّ کُلْثُومٍ بِنْتَ عَلِيٍّ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللّٰهِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّهَا صَغِیرَةٌ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ یَقُولُ : ’کُلُّ نَسَبٍ وَّسَبَبٍ یَّنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي وَصِهْرِي، فَأَرَدْتُّ أَنْ یَّکُونَ لِي سَبَبٌ وَّصِهْرٌ بِرَسُولِ اللّٰهِ، فَتَزَوَّجَهَا وَأَمْهَرَهَا عَشْرَةَ آلاَفِ دِینَارٍ ۔

ترجمہ : اسی سال سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کےلیے پیغامِ نکاح بھیجا ۔ یاد رہے کہ یہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لختِ جگر تھیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امِ کلثوم ابھی عمر میں چھوٹی ہیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (میں یہ رشتہ صرف اس لیے طلب کر رہا ہوں کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روزِ ِقیامت تمام نسب اور سبب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے تعلق ، نسب اور سسرالی رشتہ کے ۔ اب میری یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق اور سسرالی رشتہ ہو ۔ اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ دس ہزار دینار حق مہر کے عوض اپنی صاحبزادی کی شادی کر دی ۔ (تاریخ الیعقوبي، 2: 149، 150۔چشتی)


اہل سنت اور اہل تشیع کی بے شمار کتب میں سیدہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے شادی بالصراحت ذکر ہوئی ہے ۔ اہل سنت و جماعت کے ہاں اس شادی کے انعقاد پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ مبارک سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم لیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی ، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں ۔ سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے ہوا ، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں تھیں ۔ ان کے بطن مبارک سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی ۔


اس لیے سیدہ امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نواسی یا نواسی کی بیٹی نہیں ہیں ۔ شرعاً اس نکاح میں کوئی روکاوٹ نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں حضرت امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما ، سیدنا عمر فاروق کی محرم نہیں بنتیں ۔


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (تاریخ طبری جلد سوم صفحہ نمبر 80۔چشتی)


حضرت سیّدہ ام کلثوم بنت حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 300)


ثعلبہ بن ابی مالک (القرظی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی خواتین میں کچھ چادریں تقسیم کیں ۔ ایک نئی چادر بچ گئی تو بعض حضرات نے جو آپ کے پاس ہی تھے کہا : یا امیر المومنین ! یہ چادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی نواسی کو دے دیجیے ۔ جو آپ کے گھر میں ہیں ۔ ان کی مراد (آپ کی بیوی) ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما سے تھی ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ام سلیط رضی اللہ عنہا اس کی زیادہ مستحق ہیں ۔ (صحیح بخاری : 2881 ، ترجمہ محمد داود راز، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ 212/4،چشتی)


نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ : ووضعت جنازۃ ام کلثوم بنت علی امراۃ عمر بن الخطاب و ابن لھا یقال لہ زید ۔

ترجمہ : اور عمر بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی کا جنازہ رکھا گیا اور اس کے بیٹے کا جنازہ رکھا گیا جسے زید (بن عمر بن الخطاب) کہتے تھے ۔ (سنن النسائی 71- 72/4 حدیث 1980، و سندہ صحیح و صححہ ابن الجارود بروایۃ: 545 و حسنہ النووی فی المجموع 5/224 و قال ابن حجر فی التلخیص الحبیر 2/146 حدیث 807: “و اسنادہ صحیح،چشتی)


مشہور ثقہ تابعی امام الشعبی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے کہ : عن ابن عمر انہ صلی علی اخیہ و امہ ام کلثوم بنت علی ۔

ترجمہ : ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے اپنے بھائی (زید بن عمر) اور اس کی والدہ ام کلثوم بنت علی (رحمہما اللہ) کا جنازہ پڑھا۔(مسند علی بن الجعد: 593 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ: 574)


امام شعبی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی اور ان کے بیٹے زید (یعنی اپنے بھائی) کا جنازہ پڑھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 3/315 حدیث 11574 و سندہ صحیح، دوسرا نسخہ : 11690)

عبداللہ البہی رحمة اللہ علیہ (تابعی صدوق) سے روایت ہے کہ : شھدت ابن عمر صلی علیٰ ام کلثوم و زید بن عمر بن الخطاب ۔

ترجمہ : میں نے دیکھا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) نے ام کلثوم اور زید بن عمر بن الخطاب کا جنازہ پڑھا ۔ (طبقات ابن سعد 468/8 و سندہ حسن۔چشتی)


اس جنازے کے بارے میں عمار بن ابی عمار (ثقہ و صدوق) نے کہا کہ میں بھی وہاں حاضر تھا۔(طبقات بن سعد 8/468 و سندہ صحیح)


امام علی بن الحسین : زین العابدین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : ان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطب الیٰ علی رضی اللہ عنہ ام کلثوم فقال : انکحنیھا فقال علی : انی ارصدھا لابن اخی عبداللہ بن جعفر فقال عمر : انکحنیھا فو اللہ ما من الناس احد یرصد من امرھا ما ارصدہ، فانکحہ علی فاتی عمر المھاجرین فقال : الاتھنونی ؟ فقالوا : بمن یاامیر المومنین؟ فقال : بام کلثوم بنت علی وا بنۃ فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ۔

ترجمہ : بے شک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اسے اپنے بھتیجے عبداللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہما) کےلیے تیار کر رہا ہوں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں ۔ کیونکہ اللہ کی قسم ! جتنی مجھے اس کی طلب ہے لوگوں میں سے کسی کو اتنی طلب نہیں ہے ۔ (یا مجھ سے زیادہ اس کے لائق دوسرا کوئی نہیں ہے) پھر علی (رضی اللہ عنہ ) نے اسے (ام کلثوم کو) ان (عمر) کے نکاح میں دے دیا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پاس آئے تو کہا : کیا تم مجھے مبارکباد نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا : اے امیر المومنین ! کس چیز کی مبارکباد ؟ تو انہوں نے فرمایا : فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادی کی مبارکباد ۔ (المستدرک للحاکم 3/142 حدیث 4684 و سندہ حسن، وقال الحاکم: “صحیح الاسناد” وقال الذہبی: ” منقطع” السیرۃ لابن اسحاق ص 275-276 و سندہ صحیح،چشتی)


علی بن الحسین بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک سند حسن لذاتہ ہے ، جو کہ ائمہ اہل بیت میں سے تھے اور ان کی یہ روایت سابقہ احادیث صحیحہ کی تائید میں ہے ۔


عاصم بن عمر بن قتادہ المدنی (ثقہ عالم بالغازی) رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عمر بن خطاب نے علی بن ابی طالب سے ان کی لڑکی ام کلثوم کا رشتہ مانگا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی تھیں ۔ ”فزوجھا ایاہ” پھر انہوں (علی رضی اللہ عنہ) نے اس (ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کا نکاح ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دیا۔(السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275 وسندہ حسن)


محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمہ اللہ نے فرمایا : و تزوج ام کلثوم ابنۃ علی من فاطمۃ ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر و امراۃ معہ فمات عمر عنھا ۔

ترجمہ : علی اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی بیٹی امِ کلثوم کا نکاح عمر بن الخطاب سے ہوا تو ان کا بیٹا زید بن عمر (بن الخطاب) اور ایک لڑکی پیدا ہوئے ۔ پھر عمر (رضی اللہ عنہ) فوت ہو گئے اور وہ آپ کے نکاح میں تھیں ۔ (السیرۃ لابن اسحاق صفحہ 275،چشتی)


عطاء الخراسانی رحمة اللہ علیہ نے کہا : عمر (رضی اللہ عنہ) نے ام کلثوم بنت علی کو چالیس ہزار کا مہر دیا تھا ۔ (طبقات ابن سعد 8/ 463-466) ۔ اس روایت کی سند عطاء الخراسانی تک حسن ہے ۔


امام ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ (تابعی) نے فرمایا : واما ام کلثوم بنت علی فتزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زید بن عمر ۔

ترجمہ : اور ام کلثوم بنت علی سے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہما) نے شادی کی تو ان کا بیٹا زید بن عمر پیدا ہوا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر 21/342 و سندہ حسن)


اس کے علاوہ ان کتبِ اہلسنت میں موجود ہے کہ : حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہما کا نکاح حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا ۔ (التاریخ الاوسط للبخاری 1/672 ح 379، ص 674 ح 380،381،چشتی)(کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم (3/ 568))(طبقات ابن سعد (3/265)(کتاب الثقات لابن حبان (2/216)


اہلِ سنت و جماعت کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں بلکہ اجماع ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لاثانی داماد اور سیدہ اُم کلثوم بنت فاطمہ رضی اللہ کے شوہر تھے ۔ اگر شیعہ اور نیم شیعہ اس حقیقت کے انکاری ہیں تو کیا تسلیم کرنے والے مندرجہ ذیل شیعہ علماء آپ سے کم تر جانتے تھے یا اُن میں انصاف کا کچھ شائبہ تھا ؟


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے لکھا : حمید بن زیاد عن ابن سماعۃ عن محمد بن زیاد عن عبداللہ بن سنان و معاویۃ بن عمار عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال: ۔۔۔ان علیاً لما توفی عمر اتی ام کلثوم فانطلق بھا الیٰ بیتہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ (جعفر الصادق) علیہ السلام سے روایت ہے کہ۔۔۔جب عمر فوت ہوئے تو علی آئے اور ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے ۔(الفروع من الکافی 6/115) ، اس روایت کی سند شیعہ کے اصول سے صحیح ہے۔ اس کے تمام راویوں مثلاً حمید بن زیاد، حسن بن محمد بن سماعہ اور محمد بن زیاد عرف ابن ابی عمیر کے حالات مامقانی (شیعہ) کی کتاب : تنقیح المقال میں موجود ہیں ۔


شیعہ عالم ابو جعفر الکلینی نے کہا : علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم و حماد عن زرارۃ عن ابی عبداللہ علیہ السلام فی تزویج ام کلثوم فقال : ان ذلک فرج غصبناہ ۔ ترجمہ : ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر صادق رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: یہ شرمگاہ ہم سے چھین لی گئی تھی ۔ (الفروع من الکافی 5/ 346)۔(استغفر اللہ)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اصول سے صحیح ہے ۔ اس کے راویوں علی بن ابراہیم بن ہاشم القمی وغیرہ کے حالات تنقیح المقال میں مع توثیق موجود ہیں ۔


شیعہ عالم شوستری لکھتے ہیں : اگر نبی دختر بعثمان داد ولی دختر بعمر فرستاد ۔

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دختر عثمان رضی اللہ عنہ کو دی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دی ۔


شیعہ عالم ابوجعفر طوسی الاستبصار صفحہ ١٨٥ میں لکھتے ہیں : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اُمِ کلثوم کو عدت گذارنے کےلیے لے آئے ۔ نیز تہذیب میں یہ روایت کی ہے اُم کلثوم بنت علی علیہ السلام اور اُم کلثوم کا بیٹا ایک ہی ساعت میں مدفون ہوئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون مرا پس ایک دوسرے کا وارث نہ ہوا ۔


شیعہ عالم سیدمرتضٰی علم الھٰدی المتوفی ٣٥٥ھ نے شانی میں لکھا ہے کہ حضرت امیر نے اپنی بیٹی کا نکاح بطیب خاطر نہیں کیا بلکہ یہ عقد بار بار کی درخواست پر ہوا ۔ نکاح تو بہرحال ہو گیا ۔

اس حقیقت کے سامنے آنے سے شییعہ سوچیں کے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مومن نہ تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی لخت جگر سے ظلم کیا اور ناجائز کام کرایا ؟ (معاذاللہ ثمہ معاذاللہ)


ابو عبداللہ جعفر الصادق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب عمر فوت ہو گئے تو علی نے آ کر کلثوم کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الفروع من الکافی 6/115-116،چشتی)


شیعہ عالم : ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی نے ” الحسین بن سعید عن النضر بن سوید عن ھشام بن سالم عن سلیمان بن خالد” کی سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو عبداللہ علیہ السلام (جعفر الصادق رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : جب عمر فوت ہوئے تو علی علیہ السلام نے آ کر ام کلثوم کا ہاتھ پکڑا پھر انہیں اپنے گھر لے گئے ۔ (الاستبصار فیما اختلف من الاخبار 3/472 ح 1258۔چشتی)


اس روایت کی سند بھی شیعہ اسماء الرجال کی رو سے صحیح ہے ۔ ان کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کا ذکر موجود ہے : (تہذیب الاحکام (8/161، 9/262)(الشافی للسید المرتضیٰ علم الھدی (ص 116)(مناقب آل ابی طالب لابن شھر آشوب (3/162)(کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ للاربلی (ص 10)(مجالس المومنین للنور اللہ الشوستری (ص 76)(حدیقۃ الشیعہ للاردبیلی (ص 277)


ایک عبرت انگیز واقعہ پیش خدمت ہے : وزیر معز الدولہ احمد بن بویہ شیعہ تھا ۔ (دیکھیے سیر اعلام النبلاء 16/190) ، اس کی موت کے وقت ایک عالم اس کے پاس گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کئے اور فرمایا : بے شک علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح عمر بن خطاب سے کیا تھا ۔ اس (احمد بن بویہ) نے اس بات کو بہت عظیم جانا اور کہا : مجھے اس کا علم نہیں تھا پھر اس نے (توبہ کر کے) اپنا اکثر مال صدقہ کردیا ، اپنے غلاموں کو آزاد کر دیا ، بہت سے مظالم کی تلافی کر دی اور رونے لگا حتیٰ کہ اس پر غشی طاری ہو گئی ۔ (المنتظم لابن الجوزی 14/183 ت 2653)


محترم قارٸینِ کرام : اس ساری تحریر میں دو طرفہ قوی دلاٸل نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ کوٸی بھی اس مُسلَّم حقیقت سے انکار نہ کر سکے ۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اگر اپنی بات پر ڈٹے رہیں تو دعا ہے کہ اللہ عزّ و جل ان کو ہدایت عطا فرماۓ آمین ۔ (مزید حصّہ دوازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...