فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ ہشتم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عدل و بصیرتِ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ : تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات ، عدل و انصاف ، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت ، زہد و ورع ، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے ۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ عدل و انصاف کی بات ہو تو اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں ۔ اپنے ، پرائے ، کمزور و طاقتور میں فرق نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنے متعین کردہ گورنر اور اپنے بیٹے کےلیے بھی انصاف کا مظاہرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح کسی عام آدمی پر عدل و انصاف کا اطلاق کرتے ۔ یہی وہ صفات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے پس پردہ کار فرما نظر آتی ہیں ۔
امام العادلین حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
صحرائے عرب کی چِلْچِلا تی اور سخت دھوپ میں ایک شخص اپنے سَر پر چادر ڈالے مدینہ منورہ زاد ہَااللہ شرفاً وَّ تعظیماً کی جانب بڑھ رہا تھا، راستے میں گدھے پر سوار ایک غلام کو دیکھا تو اس سے کہا : گرمی بہت ہے مجھے اپنے پیچھے سوار کرلو، غلام نے اس شخص کو پہچان لیا، فوراً اُتر کر عرض کی: آپ اس پر سوار ہوجائیے، مگر اس شخص نے کہا: تم سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے پیچھے بیٹھوں گا، غلام نے پھر عرض کی : آپ سوار ہوجائیے اور میں پیدل چلتا ہوں، مگر وہ شخص نہ مانا بالآخر غلام نے اس شخص کو اپنے پیچھے سوار کرلیا۔ دونوں سوار جب مدینۂ منوّرہ کی حدود میں داخل ہوئے تو لوگ اس شخص کو حیرت سے تَک رہے تھے ۔ (تاریخِ ابنِ عساکر جلد 44 صفحہ 318،چشتی)
غلام کے پیچھے سوار ہونے والا کوئی عام آدمی نہ تھا بلکہ وہ عظیم ہستی تھی جس نے کفر و گمراہی کے شہروں میں ہدایت کی شمعیں روشن کیں، قیصر و کسریٰ کے غرور کو خاک میں ملایا، جس کے دورِ حکومت میں ایک ہزار سے زائد شہر فتح ہوئے، چار ہزار سے زائد مساجد تعمیر کی گئیں۔ یہ محترم ہستی امامُ العادِلین،غیظُ المنافقین ،امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کی ذاتِ مقدّسہ ہے۔ کنیت، لقب، حلیہ مبارکہ : آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کنیت ”ابو حفص“ اور لقب ”فاروقِ اعظم“ ہے۔ آپ دراز قد، بھاری جسم اور سفید رنگت والے جبکہ داڑھی مبارَکہ گھنی اور گھنگریالی تھی ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام غزوات میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کفّار سے لڑتے رہے۔ کئی مَعْرِکوں میں سپہ سالار کے فرائض بھی سرانجام دئیے جبکہ وزیر و مشیر کی حیثیت سے تمام اسلامی معاملات اور صُلح و جنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وفادار رفیقِ کار رہے۔(تاریخ ابن عساکر جلد 44 صفحہ 54 جلد 2 صفحہ 67،چشتی)(ریاض النضرہ جلد 1 صفحہ 335)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ زُہد و تقویٰ، عدل و انصاف اور خدا خوفی کے جس مقام پر فائز تھے وہ آپ ہی کا حصّہ ہےسفر ہو یا حَضَر، گھر میں ہوں یا باہر آپ نے اپنی زندگی نہایت سادَگی سے گزاری۔ جہاں آرام کرنا ہوتا تو زمین پر چادر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے، کبھی درخت پر چادر ڈال کر اس کے سائے میں آرام کرلیتے ۔ (فیضانِ فاروقِ اعظم جلد 1 صفحہ 64)
ایک مرتبہ خطبہ دیا تو اس وقت بدن پر موجود چادر میں 12 پیوند لگے ہوئے تھے ۔ (الزھد لاحمد صفحہ 152)
ایک عظیم سلطنت کے عظیم امیر ہونے کے باوجود عاجزی کا یہ عالَم تھا کہ ایک بار کندھے پر پانی سے بھرا ہوا مَشْکِیزہ اٹھایا ہوا تھا، کسی نے عرض کی : اے مسلمانوں کے امیر! یہ کام آپ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ فرمایا : میرے پاس لوگوں کے وفد دَر وفد آتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اپنے دل میں فخر و بڑائی کی لہر محسوس ہوئی لہٰذا مشکیزہ اٹھا کر اس لہر کو پاش پاش کردینا چاہتا ہوں۔ پھر انصاری صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہَا کے گھر کے قریب تشریف لائے اور ان کے برتنوں کو پانی سے بھر دیا ۔ (رسالہ قشیریہ صفحہ 185)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینۂ منوّرہ کے بچّوں سے اپنے لیے دُعا کراتے کہ دُعا کرو عُمَر بخشا جائے۔(فضائل دعا صفحہ 112)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانِ اقدس پر اکثر ”اَللہُ اَکْبَر“ جاری رہتا تھا ۔ (ریاض النضرہ جلد 1)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ آخری عمر میں مسلسل روزے رکھنا شروع کردیئے تھے ۔ (ریاض النضرہ جلد 1 صفحہ 363،چشتی)
سن 13 ہجری میں مسندِ خلافت پرجلوہ فرما ہوئے اور دس سال چھ ماہ تک فائز رہے ۔
یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت اور تربیَت کا گہرا اثر تھا کہ اسلامی احکامات نافذ کرنے اور ان پر عمل کروانے میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ بازار میں ایک بہت موٹا اونٹ فروخت ہوتے دیکھا تو پوچھا : یہ اونٹ کس کا ہے؟ لوگوں نے بتایا : آپ کے بیٹے کا ہے، فوراً بیٹے کو بلوایا اور اونٹ کے موٹا تازہ ہونے کا سبب دریافت کیا، انہوں نے عرض کی : یہ اونٹ سرکاری چراگاہ میں چَرتا ہے اس لئے اتنا فَربہ ہوگیا ہے ۔ آپ نے حکم ارشاد فرمایا : اس اونٹ کو بیچ کر اونٹ کی عام رقم اپنے پاس رکھ لو اور باقی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروا دو ۔ (تاریخِ ابن عساکر،ج 44،ص326)
کسی شخص کو کسی صوبے پر حاکم مقرّر کرتے تو اس کے تمام مال و اثاثوں کی فہرست لکھوا کر اپنے پاس محفوظ کرلیتے تھے۔ بعد میں جن افسران کے اثاثے زائد ہوتے (اور وہ ان کی کوئی صحیح وجہ بیان نہ کرپاتے) تو ان اثاثوں کو بیتُ المال میں جمع کروانے کا حکم فرما دیتے ۔ (فتوح البلدان، صفحہ 307)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ خود فرماتے تھے : لوگ تب تک راہِ راست پر رہتے ہیں جب تک ان کے راہنما اور سربراہ راہِ راست پر رہتے ہیں ۔ (طبقات ابنِ سعد،ج 3،ص222،چشتی)
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کے معاملہ میں کسی دوسری چیز کو اَہمیت نہ دیتے تھے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے تمام صوبوں کے گورنروں کے پاس یہ فرمان بھیجا کہ میرے نزدیک نماز تمہارے سب کاموں میں اہم ہے جس نے نماز کی حفاظت کی اور اس پر ہمیشگی اختیار کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا اور جس نے اسے ضائع کیا وہ دیگر معاملات کو بھی ضائع کردے گا ۔ (موطا امام مالک، ج1،ص35،حدیث:6)
اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں، اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا ۔
اس زمانے میں جب لکھنے پڑھنے کی طرف مطلق توجہ نہیں دی جاتی تھی اور بعثت نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت مکہ میں صرف 17 لوگ ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، ان میں ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ۔ (فتوح البلدان، علامه بلاذری)
قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ بعض اوقات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید ہوجاتی اور جبرائیل امین علیہ السلام آیات قرآنی کی صورت میں بارگاہ رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر موافقت فرماتے ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک ہزار چھپن شہر مع قصبات و دیہات فتح ہوئے۔ روم و ایران کا جاہ و جلال سرنگوں ہوا۔ چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ 10 سال 6 ماہ 4 دن کے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ جس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، ایران، آرمینیہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران شامل تھے ۔ (تاريخ ابن خلدون، 1: 384)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف یہ کہ فتوحات کا دائرہ وسیع کیا اور ایک کامیاب فاتح حکمران کے طور پر شہرت حاصل کی بلکہ ان مفتوحہ ممالک میں جو انقلابی اقدامات اور اصلاحات نافذ کیں حقیقت میں وہ آپ کو تاریخ اسلام میں ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کا سب سے بڑا سبب صدق، جودو سخا، عفو و درگزر اور عدل و انصاف ہے۔ یہی وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں جنہوں نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دنیائے عالم کا سب سے کامیاب فاتح بنادیا۔ جن کی فتوحات کے سامنے جدید دنیا کے تمام فاتحین کی فتوحات ہیچ نظر آتی ہیں۔ اس لئے کہ جو بھی فاتح آیا اُس نے فتح کے نشہ میں چور ہوکر مردو زن غلام بناکر بیچ ڈالے یا ان کے سرقلم کرکے چوراہوں پر لٹکادیئے۔ شہروں کے شہر جلا کر راکھ کردیئے، خون کی ندیاں بہادیں، سروں کے مینار بناڈالے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کو دیکھیں تو جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا، آج تک وہاں اسلام کا پرچم لہرارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح کرتے وہاں عدل و انصاف کو رائج کرتے۔۔۔ عفو و درگزر اور بردباری سے کام لیتے۔۔۔ امیرو غریب اور شاہ و گدا میں امتیاز نہ کرتے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انفرادیت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واحد وہ فاتح ہیں، جنہوں نے اپنے عہد خلافت میں کسی جنگ میں شرکت نہ کی لیکن ہر لشکر کا کنٹرول آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں بیٹھ کر لشکر کی کمان کرتے اور ہدایات جاری کرتے ۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ : آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ عالم کے منفرد سپہ سالار تھے کہ جنہوں نے اپنی فراست اور حسن تدبر سے اسلامی لشکر کی بغیر شرکت، کمان کی اور بڑی بڑی سلطنتوں کو روند ڈالا۔ کیونکہ ان کی ذات میں سیاسی و انتظامی بصیرت اور مومنانہ فراست کا بڑا عمل دخل تھا ۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات محض مادی وسائل، افرادی قوت یا آلات جنگ کی کثرت پر منحصر نہ تھیں بلکہ ان میں آپ کا صاحبِ بصیرت اور روحانی تصرف کا حامل ہونا بھی کار فرما تھا۔ حتی کہ آپ مدینہ میں بیٹھے میدان جنگ کو دیکھ رہے ہوتے اور بعض اوقات ہزاروں میل دور موجود لشکر کو ہدایات بھی جاری فرماتے ۔
ایک بار مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کا خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک خطبہ ترک کرکے تین بار پکار کر کہا: ’’یاساریۃ الجبل‘‘ اس کے بعد دوبارہ خطبہ دینے لگے۔ جمعۃ المبارک کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چہ مہ گوئیاں شروع کردیں کہ امیرالمومنین نے دوران خطبہ بے ربط جملے بولے ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکتہ چینی سے آگاہ کیا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : واللہ دوران خطبہ میں یہ دیکھ کر بے قرار ہوگیا کہ ساریہ اور اس کے ساتھی دشمن کے گھیرے میں آرہے تھے، اس لیے میں نے ساریہ کو متنبہ کیا کہ اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لے ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھیجا ہوا قاصد خط لے کر مدینہ پہنچا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ جمعۃ المبارک کو دشمن نے ہم پر حملہ کیا۔ ہم نے ان سے لڑنا شروع کیا یہاں تک کہ نماز جمعہ کا وقت ہوگیا۔ پس اس وقت ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جس نے پکارا ’’الجبل‘‘ ’’ الجبل‘‘ اس وقت ہم تباہی کے قریب پہنچے ہوئے تھے۔ یہ آواز سن کر ہم پہاڑ کے دامن میں چلے گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو فتح عطا فرمائی ۔ (تاريخ طبری، 3: 214)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق بولتا تھا۔ آپ الہامی شخصیت کے مالک تھے، جو سوچتے، وہ ہوجاتا تھا۔ قرآن اور حدیث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے میں موافقت کرتے۔ آیت حجاب، مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے متعلق، واقعہ ایلائ، جنگی قیدیوں سے سلوک، منافق کی نماز جنازہ، حرمت شراب، توریت کی آیت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام، اذان کے حکم کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق ہونا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دعائے برکت کے سلسلے میں آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر عمل کرنا، جنت کی بشارت دینے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشورہ قبول کرنا، فرض اور نوافل کو الگ الگ رکھنے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمانا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روحانیت کا مظہر ہونے کے دلائل ہیں۔ سترہ کے قریب ایسی قرآنی آیات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوئیں ۔ (ازالة الخفاء، 4: 70)
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے : بے شک عمر کی زبان پر حق بولتا ہے۔ بے شک تم سے پہلی قوموں میں محدثین ہوا کرتے تھے اور میری امت کے محدث عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ (مدارج النبوة، 2: 733)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے کہ : عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا ہے ۔ (مدارج النبوة، 2: 733)
فتوحات میں تائیدِ غیبی کا حصول
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر کو جنگ کے لئے روانہ کرتے وقت امیر لشکر اور مجاہدین کو اخوت و محبت، صبرو تحمل اور فتح کی صورت میں عفو و درگزر کی تلقین فرماتے۔ سرسبز کھیتوں اور کھلیانوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے احترام کی ہدایات جاری کرتے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے۔ جنگِ قادسیہ کی فتح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بصیرت، تقویٰ اور اللہ رب العزت کی ذات پر توکل و یقین کا ایک اعلیٰ اظہار ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو قدم قدم پر تائید غیبی حاصل ہوئی، اس کی وجہ بھی امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفات کریمانہ ہی تھیں ۔
جنگ قادسیہ میں امیر لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کا نام لے کر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واسطہ دے کر مجاہدین کو دریا دجلہ میں اترنے کا حکم دیا۔ مجاہدین نے گھوڑے دریا میں اتار دیئے۔ سازو سامان کے ساتھ لشکر اسلام دریا میں اس طرح جارہا تھا جیسے کوئی خشکی میں سفر کررہا ہو یہاں تک کہ تمام لشکر نے دجلہ عبور کرلیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لشکر اسلام دریائے دجلہ سے اس طرح صحیح سلامت باہر نکلا کہ نہ ہی ان کی کوئی چیز کم ہوئی اور نہ ان کا کوئی آدمی غرق ہوا البتہ ایک پیالہ دریا میں گرگیا۔ اس پیالے کا مالک قریش کا حلیف مالک بن عامر تھا، اس نے دریا کو مخاطب کرکے کہا کہ خدا کی قسم میں اس وقت تک نہیں جائوں گا جب تک دریا میرا پیالہ واپس نہ کردے۔ کیا سارے لشکر میں سے دریا نے میرا پیالہ ہی چھیننا تھا؟ وہ گھوڑے سے نیچے اتر آیا، دریا کے کنارے کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ دریا کی موجوں نے اس کا پیالہ کنارے پر باہر پھینک دیا ۔ (تاريخ طبری، 2: 497)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دریائے دجلہ میں امیر لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا، لشکر پانی میں اس طرح جارہا تھا جیسے خشک زمین پر چل رہا ہو۔ یہ جنگ جو مدائن میں ہوئی، اس سے بڑھ کر حیران کن واقعہ کوئی نہ دیکھا گیا۔ اس دن کو ’’یوم المائ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس واقعہ کو اہل فارس حیرت سے دیکھ رہے تھے اور انگشت بدنداں تھے کہ وہ دریا کی بپھری موجوں کو کس پُرسکون انداز سے عبور کررہے ہیں۔ جب لشکر اسلام نے دریا کو عبور کرلیا اور مدائن میں داخل ہونے لگے تو لوگ چیخ چیخ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے: خدا کی قسم دیو آمدند، دیو آمدند یعنی جن آگئے، ہمارا انسانوں سے نہیں بلکہ جنات سے واسطہ ہے ۔ (تاريخ طبری صفحہ نمبر 499)
عہد فاروقی کی تمام فتوحات کو غزوات نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاص فیض حاصل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد اور فرشتوں کی نصرت کا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ ایک امیر لشکر دریا کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے کہ ہمیں امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھیجا ہے، ہمیں راستہ دو اور دریا اُن کو راستہ دے دیتا ہے۔۔۔ ایک امیر لشکر جنگل کے جانوروں کو حکم دے رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والے اس جنگل میں قیام کرنا چاہتے ہیں، لہذا تم کہیں اور چلے جائو اور جنگل کے وحشی جانور سر جھکائے جنگل چھوڑ کر چلے جائیں۔۔۔ حضرت سفینہ لشکر سے بچھڑ جاتے ہیں تو ایک شیر اُن کے سامنے آجاتا ہے اور وہ اُس سے بالکل نہیں گھبراتے بلکہ اسے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ میں غلامان محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوں، فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کا مجاہد ہوں، لشکر سے الگ ہوگیا ہوں، مجھے میرے لشکر تک پہنچادو۔ جنگلی شیر سر جھکاتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر سوار ہوتے ہیں اور مجاہدین کی چھائونی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی مثالیں فقط ہمیں عہد فاروقی میں ہی نظر آتی ہیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شریعت کو صرف اللہ کے بندوں پر نہیں بلکہ تمام مخلوق پر نافذ کردیا تھا۔ اس کی ایک مثال مصر کے دریائے نیل کی ہے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں کے والی مقرر ہوئے۔ اہل مصر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریائے نیل کے بارے میں شکایت کی کہ یہ ہر سال نوجوان لڑکی کی قربانی لے کر چلتا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام روداد امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھ کر بھیج دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام واقعہ پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط لکھا اور وفد کے حوالے کرکے فرمایا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دینا اور اسے کہنا یہ دریائے نیل میں پھینک دے۔ خط میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہنے لکھا : اللہ کے بندے عمر، امیرالمومنین کی طرف سے اہل مصر کے نیل کے نام۔ اما بعد: اگر تو اپنی جانب اور مرضی سے چلتا تھا تو آئندہ نہ چلنا۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔ اگر تو خدائے واحد و قہار کے حکم سے چلتا ہے تو وہ تجھے رواں رکھے گا اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ تجھے رواں رکھے‘‘۔
حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریائے نیل میں پھینک دیا۔ اہل مصر نے دیکھا کہ دریائے نیل کا پانی 16 ہاتھ تک بلند ہوگیا اور ایسا رواں ہوا کہ آج تک اسی انداز سے رواں ہے۔(تاريخ ابن کثير، 7: 211)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صادر ہونے والے یہ تمام واقعات و کرامات دراصل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت، للہیت اور اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نتیجہ ہیں۔
عدل و انصاف کا فروغ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیکر عدل و انصاف ہونا آپ کو بڑے بڑے حکمرانوں سے ممتاز و مبین کرتا ہے۔ اسی عدل و انصاف کی وجہ سے ساڑھے 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ موجود رہی اور رعایا نے آپ کے تمام احکامات کو دل و جان سے قبول کیا۔ آپ عدل و انصاف کا اطلاق بلا امتیاز اور بلا جھجھک یکساں طور پر ہر ایک پر کرتے خواہ آپ کا اپنا بیٹا ابو شحمہ یا قدامۃ بن مظعون ہی کیوں نہ ہوں۔ جب انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا تو آپ نے خود انہیں 80 کوڑے مارے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں عدالت کا محکمہ باقاعدہ قائم ہوا۔ حکومتی نظام کو احسن طریقے سے چلانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدالتی امور کو حکومتی امور سے الگ کردیا۔ ججز کی تقرریاں میرٹ پر کرنے اور تمام فیصلے آزادانہ حیثیت میں قرآن و حدیث کے مطابق کرنے کے باقاعدہ احکامات جاری فرمائے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقرر کردہ گورنرز، والیوں اور ججز پر سخت گرفت فرماتے۔ ان کی کارکردگی کے جائزہ کےلیے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کررکھا تھا۔ جہاں کہیں سے شکایت ملتی یا کہیں بے انصافی کا گمان ہوتا فوراً گرفت فرماتے۔ سیف اللہ حضرت خالد بن ولید، فاتح قادسیہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے کبار صحابہ کو معزول کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔(تاريخ ابن خلدون، 1: 388)
گورنروں کی تقرری کرتے وقت ان سے حلف لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑے نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھانا، دروازے پر دربان نہ رکھنا، حاجت مندوں کے لئے ہر وقت دروازے کھلے رکھنا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ صوبوں کے تمام گورنروں کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مقام پر اکٹھا کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت سلمان فارسی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت عثمان بن عاص، یعلیٰ بن امیہ، نعمان، عمرو بن سعید، مثنیٰ بن حارثہ، عتاب بن اسید رضی اللہ عنہم جیسے متقی، پرہیزگار اور خوف خدا رکھنے والے تمام گورنرز سامنے موجود تھے۔ انہیں اس طرح مخاطب ہوکر نصیحت فرمائی : خبردار ! میں نے تمہیں امیر اور سخت گیر بناکر نہیں بھیجا بلکہ امام بناکر بھیجا ہے تاکہ لوگ تم سے ہدایت پائیں۔ عوام کے حقوق ادا کرو اور ان پر بے جا سختی نہ کرو کہ وہ ذلت محسوس کرنے لگیں اور نہ بلاوجہ نرمی کرو کہ وہ غلط فہمی کا شکار ہوجائیں۔ اپنے دروازے ان پر بند نہ کرنا کہ طاقت ور کمزور کو ستانے لگیں اور نہ ہی ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو برتر سمجھو کیونکہ یہ ظلم کے مترادف ہے ۔ (تاريخ ابن خلدون، 1: 386)
ایک دفعہ حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی مصر کے بیٹے محمد بن عمرو نے ایک مصری کو کوڑے مارے اور کہا کہ میں بڑوں کی اولاد ہوں۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصری بدوی کو قید کردیا کہ کہیں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکایت نہ کردے۔ ایک عرصہ کے بعد جب مصری قید سے رہا ہوا تو مدینہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے محمد بن عمرو کو مدینہ بلوا بھیجا۔ جب دونوں مدینہ پہنچے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مظلوم مصری کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں کوڑا دے کر فرمایا کہ اسے پکڑو اور بڑوں کی اولاد سے اپنا بدلہ لو۔ مصری نے کوڑا لیا اور بدلہ لینا شروع کردیا۔ وہ کوڑے مار رہا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر کوڑے پر کہتے کہ بڑے کی اولاد کو مارو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصری کو فرمایا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مارو کیونکہ بیٹا تجھے ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔ اس نے کہا! یا امیرالمومنین جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا، اب میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں مارتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تو ان کو بھی مارتا تو ہم تمہیں نہ روکتے۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غضبناک لہجے میں فرمایا : اے عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کردیا ہے جبکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا ہے ۔ (کنزالعمال، 6: 355،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل و انصاف کے پیچھے کارفرما روح صرف اور صرف خوف الہٰی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حساب سے ڈرنے والے تھے۔ خوداحتسابی اور معاملہ فہمی میں بہت محتاط تھے۔ ایک بار دو آدمیوں کی لڑائی کا معاملہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی: اے اللہ! ان کے معاملے میں مجھے فہم عطا فرما کیونکہ یہ دونوں مجھ سے عدل کی امید لے کر آئے ہیں ۔ (سيدنا فاروق اعظم، محمد حسين ہيقل، 602)
غسان کے حکمران ’’جبلہ بن الایہم‘‘ کا واقعہ عدل فاروقی کی عظیم مثال ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک آقا و غلام، بادشاہ و گدا میں فرق نہ تھا۔ جبلہ بن الایہم نے دوران طواف ایک بدو کو تھپڑ مارا۔ وہ امیرالمومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جبلہ بن الایہم کو پکڑ کر بدو کے حوالے کیا جائے اور وہ اس کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جس طرح اس نے اسے مارا ہے۔ گویا کسی حکمران یا رئیس کی طاقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انصاف میں رکاوٹ نہ بنتی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب دو شخص میرے پاس جھگڑتے ہوئے آتے ہیں تو میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ حق پر کون ہے۔ اپنے بیگانے سب انصاف کی عدالت میں میرے نزدیک برابر ہوتے ہیں۔ آپ اپنے عمال اور ان کے متعلقین کی سخت نگرانی کرتے اور انہیں حاکم و محکوم، محتاج و غنی، امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں انصاف کرنے کی تلقین فرماتے۔
حاکم کی ذمہ داری محکوم سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عوام میں اس وقت تک ٹیڑھا پن پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے پیشوا اور راہنما سیدھے رہتے ہیں اور یہ کہ جب تک راعی اللہ کی راہ پر رہتا ہے، رعایا اس کے پیچھے چلتی رہتی ہے، جب وہ پائوں پھیلا دیتا ہے تو رعایا اس سے پہلے پائوں پھیلادیتی ہے۔(سيدنا فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنه، محمد حسين ہيقل، ص604)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریاستی امور کے ذمہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے : سب کو ایک نظر سے دیکھو۔ قریب و بعید میں کوئی امتیاز نہ رکھو! اگر تم نے رشوت لی، حکومت میں ذاتی غرض شامل کی یا غصے میں لوگوں کو ستایا تو اس کی سزا تمہیں بھگتنی پڑے گی۔ حق اگر دن کی روشنی میں بھی قائم کرنا پڑے تو اسے قائم کرو۔(سيدنا فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنه، محمد حسين ہيقل، ص604)
رعایا کی خبر گیری کے اقدامات
رعایا کی خبر گیری کے لئے رات کو گشت کرتے۔ ایک شب گشت کررہے تھے کہ ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچے کی ماں سے کہا کہ بچے کو چپ کرائے اور کھانے پینے کے لئے کچھ دے۔ بچے کی ماں نے کہا کہ بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں، اس لئے وہ رو رہا ہے کیونکہ امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم جاری کیا ہوا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پیتا ہے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا، میں اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں تاکہ وظیفہ لگ سکے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت افسردہ ہوئے اور فرمایا کہ ہائے افسوس عمر نے کتنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ واپس جاکر اعلان کروادیا کہ جس دن سے بچہ پیدا ہوگا، اسی دن سے وظیفہ جاری ہوگا۔
ایک بار مدینہ میں گشت کررہے تھے کہ بچوں کے رونے کی آواز سنی۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر میں فاقے ہیں اور تین دن سے بچے بھوکے ہیں اور ماں ان کو بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں چمچ پھیر رہی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً واپس آئے، بیت المال سے آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لیں اور اپنی پیٹھ پر اٹھا کر خود ان کے گھر پہنچے اور عورت سے کہا کہ کھانا پکاکر بچوں کو کھلائو۔ جب تک بچوں نے کھانا نہ کھالیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں بیٹھے رہے۔ عورت اس حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی اور کہا کہ امیرالمومنین ہونے کے مستحق آپ ہیں نہ کہ عمر۔
ایک بار ملک شام کے سفر پر تھے۔ ایک خیمہ دیکھ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکے اور ایک بڑھیا سے اس کا حال پوچھا کہ امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بڑھیا نے کہا مجھے اس کے ہاں سے آج تک کچھ نہیں ملا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپ اتنی دور ویرانے میں رہتی ہیں، عمر کو آپ کے حال کا کیا علم؟ بڑھیا نے جواب دیا اگر ہم جیسے لوگوں کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کررہا ہے۔ یہ سب سن کر آپ رو پڑے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رعایا کی تکلیف پر بہت پریشان ہوجاتے۔ 18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گوشت، مچھلی اور تمام لذائذ اپنے لئے ترک کردیئے۔ بیت المال کا تمام مال متاثرین میں تقسیم کردیا اور بار بار بطور انکساری کہتے کہ ایسا میری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صوبہ جات کے تمام گورنرز کو لکھا کہ غلہ، کھانے پینے کی اشیاء اور لباس بھیجیں۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام سے ایک ہزار اونٹ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصر سے 20 جہاز غلہ بھیجا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قحط زدہ لوگوں کی فہرست بنائی اور تمام متاثرین میں تقسیم کیا اور جب تک وہ اس مصیبت سے نہ نکلے ان کی مدد جاری رکھی ۔ (تاريخ يعقوبی، 3: 177)
مستجاب الدعوات
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زہد و عبادت، تقویٰ و طہارت اور علم و فضل کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت تعریف کرتے اور فرمایا کرتے کہ عمر جب بھی اللہ سے مانگتا ہے، اللہ اس کو رد نہیں فرماتا۔
واقدی لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں یرموک کی جنگ میں شرکت کے لئے جارہا ہوں، دعا فرمائیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے ابن قرط! کیا تو امیرالمومنین سے دعا کراکر نہیں آرہا، کیا تجھے علم نہیں کہ عمر کی دعا اللہ کی بارگاہ میں کبھی رد نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی دعا کے درمیان کوئی حجاب حائل ہوتا ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔۔۔ کیا قرآن نے ان کی رائے کی موافقت نہیں کی۔۔۔ کیا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر آسمان سے عذاب نازل ہوتو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی نہ بچتا ۔ اے ابن قرط! کیا تیرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ آیات بینات کا نزول ان کے حق میں ہوا ہے ۔ اس زمین پر وہ عابد، زاہد اور متقی شخص ہیں اور کیا وہ حضرت نوح علیہ السلام پیغمبر کے مشابہ نہیں ہیں۔۔۔ کیا وہ سلف صالحین کے متبع نہیں ہیں۔۔۔ کیا وہ مرتبہ قبولیت رضا مندی تک نہیں پہنچے۔۔۔؟ اے ابن قرط! اگر عمر(رضی اللہ عنہ) نے تیرے لئے دعا کردی ہے تو وہ بارگاہ رب العزت میں ضرور قبول ہوگی۔(فتوح الشام، 274)
کارہائے نمایاں
محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا۔۔۔ تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔۔۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے۔۔۔ نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا۔۔۔ ڈیم اور نہریں بنائی گئیں۔۔۔ زمینوں کو مزارعین میں تقسیم کردیا گیا۔۔۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے ’’جریب‘‘ کے ذریعے زمین کی پیمائش کی اور اجناس پر ٹیکس مقرر کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے شعبہ کو بہتر بنایا۔
سن ہجری کا آغاز۔۔۔ باجماعت نماز تراویح۔۔۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام۔۔۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع۔۔۔ نہرابوموسیٰ، نہر معقل، نہر سعد۔۔۔ جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام۔۔۔ محکمہ عدالت اور قاضیوں کا تقرر۔۔ امیرالمومنین کا لقب اختیار کرنا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا۔۔۔ مردم شماری۔۔۔ نئے شہروں اور صوبوں کا قیام۔۔۔ محصول اور لگان۔۔۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت۔۔ راتوں کا گشت۔۔۔ فوجی چھائونیوں کی تعمیر۔۔۔ پرچہ نویسوں کا تقرر۔۔۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام۔۔۔ بچوں کے وظائف۔۔ مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف۔۔۔ مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں۔۔۔ قیاس کا اصول رائج کیا۔۔۔ فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا۔۔۔ فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ۔۔۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء۔۔۔ امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی۔۔۔ مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا۔۔۔ مساجد میں روشنی کا اہتمام۔۔۔ اور عشر اور زکوٰۃ کے علاوہ عشور کی اصطلاح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعارف کرائی۔
امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد فاتح اور عادل حکمران بنادیا ۔ (مزید حصّہ نہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment