فضائل و مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تبارک و تعالی کا امتِ مسلمہ پر یہ احسان ہے کہ اس نے اسے ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں ۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت نیرِ تاباں سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ہر پہلو نہ صرف مسلمانوں کےلیے بلکہ عالمِ انسانیت کےلیے مشعل راہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ۔ آپ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ میں کامل الحیا ء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : اَلَا اَسْتَحْیِیْ مِمَّنْ تَسْتَحْیِی مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ ۔ (حاکم المستدرک 3/11، رقم: 4556،چشتی)
ترجمہ : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔
حیاتِ مبارکہ پر ایک نظر
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی نانی محترمہ ام حکیم البیضاء حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں ۔ اس نسبت سے آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھانجے ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش عام الفیل کے چھٹے سال یعنی ہجرتِ نبوی سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کا شمار ’السابقون الاولون‘ میں ہوتا ہے۔ امام طبری رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ میں آپ کو قدیم الاسلام لکھا ہے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور حضرت زید بن حارثہ l کے بعد اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا نمبر ہے ۔
قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت سیدہ بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا تھا۔ بعدازاں آپ رضی اللہ عنہ کو ہجرتِ حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ چلے آئے،جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔ جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا جس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہوگیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ذَاکَ امْرُؤٌ یُدْعٰی فی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی ذَالنُّوْرَیْنِ ۔ (ابن حجر العسقلانی، الاصابة، 4: 457)
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں ذوالنورین کہا جاتا ہے ۔
اخلاقِ عالیہ ، صفات حمیدہ ، عادات شریفہ اور خصائل کریمہ آپ رضی اللہ عنہ کے خمیر میں شامل تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَاِنَّهُ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِیْ بِیْ خُلُقًا ۔(طبرانی، المعجم الکبیر، 1: 76، رقم: 99)
ترجمہ : بے شک عثمان میرے صحابہ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا : اَللّٰهُمَّ اِنَّ عُثْمَانَ فِی حَاجَتِکَ وَحَاجَةِ رَسُوْلِکَ ۔ (ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 361، رقم: 32041،چشتی)
ترجمہ : بے شک عثمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی طرف سے بیعت کرتا ہوں ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا کسی کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا ۔
سن 6 ہجری میں واقعہ حدیبیہ کے موقع پریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اوراپنی جان کی پرواکئے بغیر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپیغام قریش مکہ تک پہنچایا۔ اسی موقع پر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص پر بیعت لی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت لے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں دستِ مبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے سورۃٔ فتح کی آیت نمبر 18 میں فرمایا : لَقَدْ رَضِیَ اﷲُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔
تجمہ : اللہ یقینا اُن مؤمنین سے راضی ہو گیا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ (سورہ الفتح آیت نمبر 18)
گویا ان چودہ سو صحابہ کو حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہم کی وجہ سے اللہ کی رضا کا پروانہ ملا ۔
سنن ترمذی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کے باب میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کی نمازِ جنازہ اس لیے چھوڑ دی کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا جس وجہ سے اللہ نے بھی اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ۔
امام ترمذی حضرت طلحہ بن عبید ﷲ رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لِکُلِّ نَبِیِّ رَفِیْقٌ وَ رَفِیْقِیْ یَعْنِی فِی الْجَنَّةِ عُثْمَانُ ۔ (ترمذی، السنن، 5: 624، رقم: 3698)
ترجمہ : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : أَفِی الْجَنَّةِ بَرْقٌ؟ قَالَ: نَعَمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ عُثْمَانَ لَیَتَحَوَّلُ فَتَبْرُق لَهُ الْجَنَّة ۔ (الحاکم، المستدرک، 3: 105، رقم: 4540،چشتی)
تجمہ : کیا جنت میں بجلی ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس (کے چہرہ کے نور) کی وجہ سے چمک اٹھے گی ۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک لقب غنی بھی ہے اور درحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق بھی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمہ تن دینِ اسلام کےلیے وقف رہے اور ان کا مال ودولت ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی ضروریات پرخرچ ہوتا رہا۔ یوں توساری عمر آپ نے اپنامال بڑی فیاضی سے راہِ اسلام میں خرچ کیاتاہم غزوہ تبوک میں آپ کامالی انفاق حدسے بڑھ گیا۔ آپ نے اس موقع پر روایات کے مطابق نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے، دو سو اوقیہ چاندی اورایک ہزاردینارخدمتِ نبوی میں پیش کیے جس پرخوش ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : مَاضَرَّ عُثْمَانَ مَاعَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ ۔ (ترمذی، السنن، 5: 626، رقم: 3701)
ترجمہ : آج کے بعدعثمان جوبھی کریں انہیں ضررنہ ہوگا ۔
مشکل حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کےلیے ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کیا، خصوصاً ٹھنڈے میٹھے پانی کے کنویں وقف کیے ، غزوات میں اسلحہ ، سواریاں اور فوجی راشن کا بندوبست کرنا اور زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کرنا آپ رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان ہے ۔
تاریخ طبری میں ہے کہ عرب کا اتنا بڑا تاجر جب خلافت کے منصب پر آتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں ۔
آپ کے یومِ شہادت کے موقع پر اسلامی دنیا کے حکمرانوں کےلیے بالعموم اور پاکستانی حکمرانوں کےلیے بالخصوص یہ پیغام ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے سبق سیکھیں اور اللہ کے سامنے حساب دینے سے ڈریں کہ انہوں نے کس طرح عوام کی دولت کمیشنز اور تجارت کی مد میں اکٹھی کر کے دوسرے ممالک میں چھپا رکھی ہے ۔ قومی ادارے اُن کی عدم توجہ کے سبب دیوالیہ ہو چکے ہیں مگر ان کے اپنے کاروبار دن دو گنی اور رات پچاس گنی ترقی کرتے ہوئے پانامہ تک پہنچ چکے ہیں، جو ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنت عثمانی تو یہ تھی کہ اگر کوئی تاجر حکومت میں آئے تو اسے اپنا کاروبار بند کر دینا چاہیے ۔ کاش ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں اسلاف کی تاریخ کو یاد رکھتے توآج نوبت یہاں نہ پہنچتی ۔
امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں ان کے مشیر و معتمد رہے ۔ اپنے اپنے دور خلافت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے اور اکثر اوقات آپ کے مشوروں کے مطابق فیصلے فرمایا کرتے تھے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں عہدہ خلافت قبول کیا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کی فراست ، سیاسی شعوراور بہتر حکمت عملی کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی ۔
آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ طرابلس ، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے ۔ ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے، اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں کی الگ الگ تقسیم فرمائی۔ چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنوائیں۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ نامی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لاتعداد فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔ خلافت کے صدیقی دور میں کیونکہ اسلامی سلطنت اتنی وسیع نہیں تھی اس لیے کنٹرول مظبوط رہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سلطنت کو وسعت ملی مگر امورِ سلطنت چلانے میں اور بغاوت کے سر نہ اٹھانے کے معاملے میں اُن کی سختی کام آئی لہذا اس دور میں کسی کو بغاوت کی ہمت نہ ہوئی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامی کافی وسیع ہو چکی تھی، قریش کے علاوہ جن لوگوں کی تلواروں کی وجہ سے دور دور کے علاقے فتح ہوئے تھے، وہ بھی اب اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگے ۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی کی وجہ سے اُن کی خلافت کے خلاف شورشیں سر اٹھانے لگیں۔ ایسی سازش کا سرغنہ عبداللہ بن سبأ یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اُڑھ رکھا تھا۔ اس نے مختلف انداز سے آپ کی خلافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایا۔ مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانیہ کے گورنر عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ فواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی ۔
حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے سازشیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت کے لیے جس فتنے کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا، اگرچہ اس کا دروازہ سختی سے بند کر دیا جائے،لہذا میں اس دروازے کو نرمی سے بند کروں گا، البتہ حق تعالی کی حدود میں ہر گز نرمی نہیں برتوں گا، بے شک فتنے کی چکی چلنے والی ہے۔ اگر عثمان اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اس چکی کو حرکت نہیں دی تو یہ عثمان کےلیے خوشخبری ہے ۔
آخرکار فتنے کی چکی چلی ، کوفی ، بصری اور مصری سبائیوں کا پانچ سو پر مشتمل قافلہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے معزولی کا مطالبہ کرنے مدینہ کے لیے روانہ ہوا۔ سیدنا عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ مذکرات کے لیے بھیجا مگر وہ اپنے عزائم سے باز نہ آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف وہی الزامات دہرائے جو پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔ اشرار کے اس وفدکو آخر مسجدِ نبوی میں طلب کیا گیا جہاں اہلِ مدینہ بار بار ان کے قتل کا مشورہ دیتے مگر سیدنا عثمان نے انہیں معاف کردیا اور ان لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے میں عافیت سمجھی ۔
جب ابن سبأ کو معلوم ہوا کہ ہماری سازش ناکام ہو گئی ہے تو اس بدبخت نے دوسری سازش یہ تیار کی کہ ہر صوبے کے سبائی مدینہ کے مضافات میں جمع ہوں اور پھر یک مشت مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی معزولی کا مطالبہ کریں اور مطالبہ پورا ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئیں مگر اُنہیں اس بار بھی مدینہ سے ناکام لوٹنا پڑا ۔
بظاہر سبائی بدبخت لوگ مدینہ سے باہر نکل آئے مگر وہ وہاں سے نکلنے کا بہانا کر رہے تھے۔ آس پاس رہ کر سازش تیار کر رہے تھے کہ ایک دن اہلِ مدینہ نے مدینہ کی گلیوں میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنیں،جب دیکھا تو وہ سبائی تھے جو اہلِ مدینہ سے کہہ رہے تھے اگر امان چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا لو۔ اہلِ مدینہ یہ سمجھ کر کہ مدینہ میں خون ریزی نہ ہو، گھروں میں چلے گئے۔ اس کے بعد سبائیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ انچاس (49) روز تک آپ کو قصرِ خلافت میں محصور رکھا گیا حتی کہ بعد میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی آپ کو روک دیا گیا تھا۔ بئرِ رومہ خرید کراہلِ مدینہ کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کرنے والے کا پانی باغیوں نے بند کر دیا۔ جن کے مال و دولت سے صرف جنگِ تبوک کے لشکر میں سے بارہ ہزار افراد کے کھانے پینے اور سواری کا بندوبست ہو اور جن کی سخاوت پورے عرب میں مشہور تھی، آج اس مہربان کا کھانا بند کر دیا گیا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے بار بار باغیوں کے قتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انہیں سختی سے منع کیا اور فرمایا : میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔ اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔
باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 18 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔
آپ کا صبر اور باغیوں کے مقابلے سے صحابہ کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اپنی شہادت کا یقین تھا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبل ثبیر کو یہ کہہ کر لرزنے سے سکون دلایا تھا کہ تمہارے اوپر ایک رسول،ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں اور وہ دو شہید سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی ۔
حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی : اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما ۔
آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے مطالعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطرراہ حق میں پیش آمدہ تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور امت کو انتشار سے بچاناصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا حیاء اور ہمارے معاشرے میں اس نفاذ کی ضرورت
حیاء مردِ مومن کا زیور ,زندگی کا حسن اور دنیا اور آخرت میں اس کے اعزاز و شرف کا سبب ہے۔یہ انسانی شخصییت میں وہ فطری وصف اور ملکہ ہےجو اسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ بے شمار اخلاقی براءیوں سے چھٹکارے کا سبب بنتا ہے ۔ مانگنے والے کو کچھ عطا کر کے رخصت کرنا ، بڑوں کے ساتھ ادب اور عاجزی سے پیش آنا ،چھوٹوں سے شفقت و محبت کارویہ رکھنا ،ہر کسی کے ساتھ مروت اور چشم پوشی کا معاملہ کرنا،دوسروں کی ملامت اور مذمت کے خوف سےگناہوں اور قبیح اعمال کو ترک کر دینا یہ سب اچھائیاں اسی کی بدولت نصیب ہوتی ہیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر اس کا کمال یہ ہےکہ یہ انسانی شخصیت میں برائی کے معاملے میں جھجک وشرم اور آنکھوں ،کانوں،زبان ،شرمگاہ اور دل و دماغ کی پاکیزگی اس انتہاء تک پیدا کر دیتی ہے کہ انسان اپنی سیرت و کردار کی پاکیزگی میں معاشرے کا قابلِ فخر فرد اور دوسرے افراد کے لیے عفت و پاکبازی کا چلتا پھرتا نمونہ بن جاتا ہے۔حیاء کی صفت اتنی پاکیزہ ہے کہ اسے سب سے پہلے اللّٰہ تعالٰی نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے۔
حضرت سلیمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ۔
ترجمہ : تمہارا رب بہت حیاء کرنے والا اور کریم ہے۔وہ اپنے بندے سے حیاء کرتا یے کہ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو اٹھاءے اور وہ اسے خالی وااپس پلٹا دے ۔ (ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی السنن ابواب : دعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم, رقم الحدیث:3556،چشتی)
اس سے مراد ہے کہ وہ ہاتھ اٹھانے والوں کو ضرور کچھ نہ کچھ عطا فرماتا ہے ۔ یہ بات بھی یاد ریے کہ اللہ کا حیاء بندوں کہ حیاء کی طرح کا نہیں ہے کیونکہ اللہ بندوں کے افعال سے پاک ہے،بلکہ اسکے حیاء سے مراد اسکا اپنے بندوں کے ساتھ کرم نوازی اور جود و عطا کا معاملہ کرنا ہے۔
اور پھر یہی حیاء تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت کریمہ میں شامل رہا ہے۔
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ : الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ ۔
ترجمہ : چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں:حیاء کرنا خوشبو لگانا ،مسواک کرنا اور نکاح ۔ (ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی،ابواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،باب:ما جاء فی فضل التزویج والحث علیہ ،رقم الحدیث:1080)
جب حیاء رسولانِ عظام علیہم السلام کی سنت سے ہے تو پھر سید المرسلین حضرت سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ اعلٰی صفت سب سے بڑھ کر ہو گی اور یقینًا یے بھی۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ست روایت یے کہ : کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا ۔
تجمہ : نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خیمے میں بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء والے تھے ۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الادب ،باب الحیاء ،رقم الحدیث:6119،چشتی)
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمة لکھتے ہیں حیاء کی دو قسمیں ہیں : ایک حیا غزیری ہے۔ یہ وہ حیاءہے جو انسانی فطرت میں شامل ہے اور اسے ہی حدیث میں ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔دوسری حیاء کسبی ہے جو انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں حیاء کی یہ دونوں قسمیں جمع تھیں ۔ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 522-523)
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمة نے کیا خوب کہا ہے : ⬇
نیچی آنکھوں کی شرم و حیاء پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے انبیاء کو حیاء کی صورت میں جو پاکیزہ وصف عطاہوا تھا اور پھر ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں جو اپنے پورے کمال تک پہنچا تھ ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس سے محروم نہیں رہنے دیا ۔آپ نے اپنی امت کو اس کا حصہ عطا فرماتے ہوئے اسے اپنے دین کا ایک مستقل شعبہ قرار دیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ۔
” حیاء کے ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں, اور حیاء بھی ایمان کا شعبہ ہے ۔ (بخاری محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الایمان ،باب:بیان عدد شعب الایمان ، رقم الحدیث:24 )
ایک روایت میں ستر سے کچھ زائد شعبے کے الفاظ آئے ہیں ۔ (قشیری, مسلم بن حجاج, الجامع الصحیح, کتاب الایمان, باب:بیان عدد شعب الایمان, رقم الحدیث: 35،چشتی)
علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمة لکھتے ہیں کہ : اس حدیث میں ایمان کے دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں حیاء کو اس لیے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےکہ حیاء ہی انسان کو گناہوں سے بچنے اوراللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا عادی بناتی ہے ۔ (عمدة القاری،جلد:1،ص 202)
پھر ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاء کو ہمارے لیے صرف لازم ہی قرار نہیں دیا بلکہ ایک تو اپنی ذات کو اسکے لیے بطورِ نمونہ پیش کیا اور دوسرا اپنے امتیوں میں سے حضرت سیدنا عثمانِ غنی ر ضی اللہ عنہ کی اس شعبہ میں خصوصی تربیت فرمائی اور انھیں اپنی امت کے سامنے بطورِنمونہ پیش کرتے ہوئےارشاد فرمایا : اَلْحَیَاءُمِنَ الاِیْمَانِ وَاَحْیٰی اُمّتِیْ عُثْمَانُ ۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ نمبر 20،چشتی)
ترجمہ : حیاء ایمان سے ہے اور میری امت میں سب سے زیادہ عثمانِ غنی حیاء والے ہیں ۔
ایک مقام پر اسی حوالےسے دیگر صحابہ کے مقابلے میں آپکی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : أَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ ۔
ترجمہ : اور (میرے صحابہ میں)سب سے سچی حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابنِ ماجہ،السنن،المقدمہ،باب:فی فضائل اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،رقم الحدیث:154،چشتی)
آپ کی حیاء کے متعلق ایک اور خوبصورت گواہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیثِ پاک میں موجود ہے۔آپ فرماتی ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے۔آپ کی دونوں رانوں یا دونوں پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔آپ نے اجازت عطا فرما دی اور خود اپنی حالت پر بر قرار رہے ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ،آپ نے انھیں اجازت عطا فرما دی لیکن اپنی حالت پر برقرار رہے۔پھر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گے اور کپڑا درست کر لیا۔جب سب چلے گے تو میں نے عرض کی :یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم :حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما آئے تو آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے’ کپڑوں کو درست کر لیا اس کی کیا وجہ ہے ؟
تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ۔
ترجمہ : کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (قشیری مسلم بن حجاج،الجامع الصحیح،کتاب: فضائل الصحابہ رضی اللہ عنھم ،باب:من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ, رقم الحدیث:2401،چشتی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمة نے اس حدیث کی شرح میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا کے متعلق درج ذیل نکات تحریر فرما ئے ہیں : ⬇
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء کرتے تھےاور آپ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے تھے،گویا کہ حیاء میں تمام صحابہ آپ کے طالب اور حضرت عثمانِ غنی آپ کے مطلوب تھے ۔
مواخاة مدینہ کے موقع پر ایک مرتبہ آپ کے سینے سے قمیص ہٹ گئ تو فرشتے بھی وہاں سے ہٹ گئے,جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرشتوں سے اسکی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں عثمان سے حیاءآتی ہے ۔
آپ غسل خانے میں بھی تہبند باندھ کر غسل کرتے تھے لیکن اسکےباوجود بھی حیاء سے سر جھکائے رکھتے ۔
آپ نے کبھی بھی اپنی شرمگاہ کو نہیں دیکھا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وجہ سے اپنے کپڑوں کو سیدھا کیا کہ میرا عثمان بڑا شرمیلا ہے,میری اس حالت میں یہ نہ ادھر بیٹھ سکے گا اور نہ میرے ساتھ بات کر سکے گا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگی : اے اللہ!میرا عثمان بڑا شر میلا ہے قیامت کے دن اس سے حساب نہ لینا کیونکہ یہ شرم کی وجہ سے تیرے سامنے کھڑا ہو کر حساب نہ دے سکے گا۔ آپ کی دعا قبول ہوئی اور قیامت کے دن آپ کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ (مرآة المناجیح جلد 8 صفحہ 350،چشتی)
محترم قارٸینِ کرام : آپ نے حیاء کی اہمیت , انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و فوائد اور اس سلسلے میں امتِ مسلمہ کےلیے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تربیت یافتہ فرد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ پڑھ لیا ۔ آج ہم 18 ذوالحجہ انہیں کا یوم شہادت بھی مناتے ہیں تو یہاں پہنچ کر ہمیں پہلے تو اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہو گا کہ ہمارے اندر یہ صفت حیاء کہاں تک موجود ہے ۔ اور اس حوالے سے خو د ہمارے اندر کون کون سی کمزوریاں موجود ییں تا کہ انہیں دور کیا جا سکے۔پھر ہمیں اپنے معاشرے کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ آج باطل قوتیں انٹرنیٹ ، میڈیا اور دیگر ذرائع سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے کس طرح بے حیائی عام کر کے ہمارےپاکیزہ اور حیاء پرمبنی کلچر کو پاش پاش کر رہی ہیں ۔ہمارے بچوں کی ترجیحات کو تبدیل کر رہی ہیں ۔ ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں اور دل سے پاکدامنی کا جوہر ختم کر کے وہاں بے حیائی اور گندگی داخل کر رہی ہیں ۔ ہمارےبڑوں کی غیرت و حمیت پہ پردہ ڈال رہی ہیں اور ہماری ماؤوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی چادرِ حیاء کو تار تار کرکے آزادیِ نسواں کے نام پر انہیں معاشرے کی گندی نظروں کا نشانہ بنا رہی ہیں ۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اس سازش کو سمجھیں اور کسی سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے اس کلچر اور پاکیزہ ورثےکی حفاظت کے لیےاٹھ کھڑے ہوں۔باطل قوتوں کی اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک ایک فرد سے لیکر پورے معاشرے تک حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس پیغام کو عام کریں ۔ اس کا آغاز پہلے اپنی ذات سے کریں پھر اپنے گھر میں یہ پیغام عام کریں پھر اپنے محلے میں اور پھر اسکی کرنیں پورے معاشرے میں پھیلا دیں۔تاکہ یہاں سے بے حیائی کے کلچرکو دیس نکال ہو اور ہر طرف شرم و حیاء اور پاکیزگی کے پہرے قائم ہوں۔یہی حضرت عثنانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا پیغام ہے ,ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور کل انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد زندگی بھی ہے اورہم سب کا اجتماعی فریضہ بھی ہے۔ اللہ ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرما ئے آمین ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment