فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
لقب فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا : فاروق اسے کہتے ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق کر دے ۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا علامہ عبد الرؤف مناوی رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : قِیْلَ لِعُمَرَ فَارُوْقُ لِفُرْقَانِہٖ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ بِاِحْكَامٍ وَاِتْقَانٍ ، یعنی کہا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو فاروق اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے حق و باطل کے درمیان پختگی اور یقین کے ذریعے فرق فرمایا ۔ (فیض القدیر ، جلد ۵ صفحہ ۵۸۸ شرح حدیث نمبر ۷۹۶۰)
حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : اےامیر المومنین ہمیں حضر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ ارشاد فرمائیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جنہیں اللہ نے فاروق لقب عطا فرمایا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے حق کو باطل سے جدا کر دکھایا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر ۴۴ صفحہ نمبر ۵۰،چشتی)
ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیا ۔ (اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۱۶۲،چشتی)
حضرت جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا : زمین میں ان کا نام عمر اور آسمانوں میں فاروق ہے (رضی اللہ عنہ) ۔ (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳)
ایک روایت کے مطابق آپ جب اسلام لائے تو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : اب ہم چھپ کرعبادت نہیں کریں گے اور پھر تمام مسلمانوں نے کعبۃ اللہ شریف میں جا کر نماز ادا کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو فاروق کا لقب عطا فرمایا ۔ (تاریخ الخلفا صفحہ ۹۰،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو فاروق کیوں کہا جاتا ہے ؟ اِرشاد فرمایا : حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مجھ سے تین روز قبل اِسلام لائے ۔ اللہ نے میرا سینہ اِسلام کےلیے کھول دیا اور میں بے ساختہ پکار اُٹھا : اَللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کے ہیں سب اچھے نام ۔ اس وقت ساری روئے زمین پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بڑھ کر کوئی شخصیت میرے لیے محبوب نہ تھی ۔ میں نے پوچھا : اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کہاں تشریف فرماہیں ؟ میری ہمشیرہ نے کہا : دارِ اَرقم بن ابی اَرقم میں جو صفا پہاڑ ی کے نزدیک ہے ۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھر کے اندر صحن میں اور نبی کریم سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے کمرے میں تشریف فرما تھے ۔میں نے دروازہ پر دستک دی تو میری آمد پر سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوگئے ۔حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بولے : کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگے : عمر آگیا ہے ۔ یہ سن کر خود نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم باہر تشریف لے آئےاور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا میرا گریبان پکڑا اور زور سے جھنجھوڑ کر فرمایا : عمر ! تم باز نہیں آٶ گے تو میں بے ساختہ پکار اُٹھا : اَشْھَدُاَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ ، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ یہ سن کر دارِ اَرقم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس کی آواز کعبۃ اللہ شریف میں سنی گئی ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا حیات اور موت دونوں صورتوں میں ہم حق پر نہیں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! تم لوگ حق پر ہو ، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! پھر ہم چھپ چھپ کر کیوں رہ رہے ہیں ؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہم ضرور باہر نکلیں گے ۔ چنانچہ ہم نبی کرہم سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس طرح باہر لے آئے کہ ہماری دو صفیں تھیں ، اگلی صف میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور پچھلی صف مِیں مَیں تھا اور میری حالت یہ تھی کہ میرے اوپر آٹے جیسا غبار تھا ۔ ہم مسجدِ حرام میں داخل ہوئے تو کفار قریش نے ایک نظر مجھے اور دوسری نظر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان پر ایسا خوف طاری ہوا جو اس سے قبل کبھی نہ ہوا تھا ۔ اس دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرا نام فاروق رکھ دیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔ (حلیۃ الاولیاء ، عمر بن الخطاب ، ج۱ ، ص۷۵ ، الرقم: ۹۳)
حضرت ابو عمرو و ذکوان علیہما الرحمہ نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : مَنْ سَمَّی عُمَرَ الْفَارُوْقَ ؟ ، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا ؟ فرمایا : ،،اَلنَّبِیُّ،، یعنی غیب کی خبریں دینے والے (نبی ) نے ۔ (اسد الغابۃ ، عمر بن الخطاب ، ج۴ ، ص۱۶۲،چشتی)
حضرت امام شعبی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے مابین جھگڑا ہوگیا ۔ یہودی نے کہا : فیصلے کےلیے تمہارے نبی محمد بن عبداللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس چلتے ہیں ۔ منافق بولا : نہیں بلکہ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس جانا چاہیے ۔ یہود ی نے یہ بات نہ مانی اور نبی کریم ، صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس چلا آیا اور بارگاہِ رسالت میں پہنچ کر سارا ماجرا بیان کردیا ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا ۔ جب دونوں باہر آئے تو منافق کہنے لگا : عمر بن خطاب کے پاس چلتے ہیں ۔ دونوں حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ گئے اور سارا ماجرا بیان کردیا اور یہودی نے یہ بھی وضاحت کردی کہ ہمارے اس جھگڑے کا فیصلہ آپ کے نبی محمد بن عبد اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں کر دیا ہے اور اس فیصلے کے بعد یہ شخص آپ کے پاس آنے پر اصرار کرنے لگا تو ہم یہاں آگئے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے جب یہ سارا معاملہ سنا تو ارشاد فرمایا : تم دونوں ذرا یہیں ٹھہرو ، میں ابھی آتا ہوں ۔ آپ اندرتشریف لے گئے اور تلوار نیام سے باہر نکالتے ہوئے واپس آئے اور فوراً اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا : ھٰکَذَا اَقْضِیْ بَیْنَ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاءِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ، یعنی جو اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے راضی نہیں میں اس کا فیصلہ یوں کروں گا ۔ (انوار الحرمین علی تفسیر الجلالین ، پ ۵ النساء : ۵۹ ، ج۱ ص۱۴،چشتی)(تفسیر مدارک پ ۵ النساء : ۵۹ ص۲۳۴)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : میں مسجد میں بیٹھا جبریل امین سے باتیں کرر ہا تھا کہ اچانک عمر بن خطاب آگئے ۔ جبریل امین نے کہا : یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا یہ آپ کے بھائی عمر تو نہیں ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ اور اے جبریل کیا زمین کی طرح آسمانوں میں بھی ان کا کوئی خاص نام ہے ؟ جبریل بولے : اِنَّ اِسْمَہُ فِی السَّمَاءِ اَشْھَرُ مِنْ اِسْمِہٖ فِی الْاَرْضِ اِسْمُہُ فِی السَّمَاءِ فَارُوْقٌ وَ فِی الْاَرْضِ عُمَرُ ، یعنی یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آسمانوں میں جو ان کا نام ہے وہ زمین کی نسبت زیادہ مشہور ہے ، زمین میں ان کا نام عمر ہے اور آسمانوں میں ان کا نام فاروق ہے ۔ (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳،چشتی)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : فِی الْجَنَّۃِ شَجَرَۃٌ مَا عَلَیْھَا وَرَقَۃٌ اِلَّا مَكْتُوْبٌ عَلَيْھَا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اَبُوْ بَكْرِ نِ الصِّدِّیْقُ عُمَرُ الْفَارُوْقُ عُثْمَانُ ذُوْ النُّورَیْنِ ، یعنی جنت میں ایک درخت ہے جس کے ہر پتے پر یہ لکھا ہے : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں ، ابوبکر صدیق ہیں ، عمر فاروق ہیں ، عثمان ذوالنورین ہیں ۔ (معجم کبیر مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ عنہما جلد ۱۱ صفحہ ۶۳ حدیث : ۱۱۰۹۳)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قیامت کے دن اپنا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام بیان فرمایا ۔ پھر ارشاد فرمایا : قیامت میں یوں ندا آئے گی عمر فاروق کہاں ہیں ؟ چنانچہ انہیں حاضر کیا جائے گا تو اللہ ارشاد فرمائے گا : اے ابو حفص ! تمہیں مبارک ہو ، یہ ہے تمہارا اعمال نامہ ، چاہو تو اسے پڑھ لو یا نہ پڑھو کیونکہ میں نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے ۔ (ریاض النضرۃ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳،چشتی)
فارق کا معنی ہے فرق کرنے والا قطع نظر اس کے کہ وہ حق و باطل دونوں میں فرق کرے یا کوئی سی بھی دو اشیاء میں فرق کرے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بھی اس لیے فارق کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جس طرح حق و باطل کے درمیان فرق فرمایا اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافتِ راشدہ میں ہر ہر شے کو اس کی متبادل اشیاء سے جدا کر کے بالکل واضح کردیا ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
فارق حق وباطل امام الھدی
تیغ مسلول شدت پہ لاکھوں سلام
شرح : حق کوباطل وگمراہی سے جدا کرنے اور ہدایت دینے والے امام برحق حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس تلوار کی مثل ہیں جو اسلام کی حمایت میں سختی سے بلند کی جاتی ہے آپ رضی اللہ عنہ پر لاکھوں سلام ہوں ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب اسلام لے آئے تو رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ : یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اب ہم چھپ کر نماز وغیرہ ادا نہیں کریں گے ۔ لہٰذا تمام مسلمانوں نے کعبۃ اللہ شریف میں جا کر نماز ادا کی تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حق کو باطل سے جدا کرنے کے سبب آپ کو فاروق لقب عطا فرمایا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۹۰،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور کفر و شرک کی گمراہیوں کے خلاف اور دین اسلام کی روشنیوں و رعنائیوں کی حمایت میں سختی سے تلوار بلند فرمائی جس سے چہار سو اسلام کا بول بالا ہوگیا ۔ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ نے ان ہی تمام واقعات کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
ترجمانِ نبی ہم زبانِ نبی
جانِ شانِ عدالت پہ لاکھوں سلام
شرح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہم زبان ہیں کہ کئی بار آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سنے بغیر کوئی بات کہی اور وہ بعینہ ویسی ہی نکلی جیسا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا تھا ۔ اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ترجمان ہیں کہ کوئی مسئلہ بیان فرمایا اور بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جب اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ کو نب کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعینہ وہی حدیث مبارکہ ملی جیسا آپ رضی اللہ عنہ نے مسئلہ بیان فرمایا تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے عدل و انصاف کی روح کو شان و شوکت حاصل ہوئی بلکہ اپنے خلافت میں ایسا عدل و انصاف قائم فرمایا جو قیامت تک آنے والے حکمرانوں کےلیے مشعل راہ ہے ، آپ رضی اللہ عنہ پر لاکھوں سلام ہوں ۔
فاروقی کا مطلب ہے فاروق والا ۔ جس شخص کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہو اسے فاروقی کہتے ہیں جس طرح کسی کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین خلیفہ رسول اللہ حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہو تو اسے صدیقی کہتے ہیں ۔
فاروقِ اعظم
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فارق یعنی فرق کرنے والا ہے ، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو فاروقِ اعظم اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ اس فریضے کو سرانجام دیا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی حق و باطل کے درمیان یہ فرق کرنے کی صلاحیت بارگاہِ رسالت سے خاص طور پر عطا ہوئی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ جس دن اسلام لائے اسی دن آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اعلانیہ کعبۃ اللہ شریف میں نماز ادا کی اور طواف بیت اللہ بھی کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ : اس دن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خود میرا نام فاروق رکھ دیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے حق و باطل میں امتیاز فرمادیا ۔ (حلیۃ الاولیاء عمر بن الخطاب جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۷۵ الرقم : ۹۳)
قبولیت اسلام
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لا نے کے بعد6 نبوی میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا ،اس وقت آپ کی عمر مبارک ستائیس (27) سال تھی ۔
عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی ابن کعب بن لؤی أمیر المؤمنین أبو حفص القرشی العدوی الفاروق اسلم فی السنة السادسة من النبوة وله سبع وعشرون سنة قاله الذهبی.(تاریخ الخلفاء :ج1،ص:43۔ الاکمال فی اسماء الرجال)
جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَحَبِّ هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِی جهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : ائے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب ، دونوں میں جو تیرے محبوب ہیں ان کے ذریعہ اسلام کوغلبہ عطا فرما ۔ (جامع الترمذی باب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر4045)
البتہ سنن ابن ماجہ شریف کی روایت میں آپ ہی کے حق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا مذکور ہے : عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً ۔
ترجمہ : ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعاء فرمائی:ائے اللہ تو بطور خاص عمر بن خطاب کو اسلام کی توفیق عطاکرکے اسلام کو غلبہ عطا فرما ۔ (سنن ابن ماجہ ، باب فضل عمر رضی اللہ عنہ۔ حدیث نمبر110،چشتی)
آپ کے مشرف باسلام ہونے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِیلُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلاَمِ عُمَرَ ۔
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا :جس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مشرف باسلام ہوئے ،حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے ،اور عرض کیا :ائے پیکر حمد وثنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یقینا حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں ۔ (سنن ابن ماجہ ، باب فضل عمر رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر 108،چشتی)
مشرف باسلام ہونے کا واقعہ
آپ کے مشرف باسلام ہونے کا واقعہ اس طرح ہے کہ آپ ایک دن ننگی تلوار لئے غصہ میں جارہے تھے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، آپ کے اسلام کی حضرت عمر کو خبر نہیں تھی، پوچھا :ائے عمر!ننگی تلوار لئے کہاں جارہے ہو ؟ آپ نے کہا:آج بانئ اسلام کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا:پہلے اپنے گھر کی خبر لو!تمہاری بہن فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ عنہا اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں ۔ آپ رخ بدل کر بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کررہے تھے فوراً تلاوت موقوف کرکے بہن نے دروازہ کھولا ، حضرت عمر نے غصہ میں کہا: کیاتم نے بھی اسلام قبول کرلیا ؟پھر بہنوئی کی طرف جاکر انہیں زمین پر پٹخ دیا اور سینہ پرسوار ہوکر مارنے لگے، جب بہن روکنے کے لئے قریب آئیں تو انہیں ایسا طمانچہ مارا کہ چہرہ زخمی ہوکر خون سے لت پت ہوگیا، بہن نے بآواز بلند کہا: عمر! چاہے کچھ بھی کرلواسلام دل سے نہیں نکل سکتا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پربہن کے چہرہ کو دیکھ کر اور ایمانی جذبات سے لبریز یہ گفتگو سن کر رقت طاری ہوئی اور کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہا: جو کچھ تم پڑھ رہے تھے وہ دکھاؤ تو بہن نے انہیں مصحف شریف عنایت فرمایا، پھر جب آیات قرآنی کے مبارک اوراق لئے تونظر سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات کریمہ پر پڑی ، آیات کریمہ پڑھ کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، بے اختیار پکار اٹھے : یہی معبود برحق ہے اس کے سوا حقیقت میں کوئی بندگی کے لائق نہیں ۔
اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں تشریف فرماتھے، حضرت عمررضی اللہ عنہ بہن کے گھر سے ننگی تلوار لئے جب وہاں پہنچے تو دروازہ بند تھا، مسلمانوں کواس امر کی اطلاع مل چکی تھی ، دروازہ کھولنے میں تاخیر کررہے تھے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :دروازہ کھول دو! اگر نیک نیتی سے آئے ہیں تو استقبال کیا جائے گا ورنہ اسی تلوار سے ان کا سر اڑا دیا جائے گا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ائے عمر!کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے، کیا ابھی باز نہیں آؤگے؟ اسلام میں داخل ہوجاؤ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بآواز بلند توحید و رسالت کی گواہی دی اور مشرف باسلام ہوگئے ، تمام مسلمانوں نے خوشی کے مارے نعرۂ تکبیر بلند کیا، اس موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! عمررضی اللہ عنہ کے مشرف باسلام ہونے پر تمام آسمان والوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کی اور خوشیاں منائی ۔ پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی گزارش پر علی الاعلان حرم کعبہ میں مسلمانوں نے نماز ادا کی ۔ (المواھب اللدنیہ مع حاشیہ الزرقانی ۔ ج 2 ۔ ص 4 ۔ زرقانی۔ج2 ۔ ص 5 ۔ سبل الھدی والرشاد ، ج2 ۔ ص 372)
قبولیت اسلام کے بعد بھی آپ کا تیور جلال ہمیشہ باقی رہا،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کمال وارفتگی اور دین اسلام سے اٹوٹ وابستگی آپ کے دل میں ایسی گھر کرگئی تھی کہ ہر وقت آپ دین متین اور رسول امین کی شان اقدس کے دفاع کے لئے کمر بستہ رہتے،غزوۂ بدرکے موقع پر آپ نے جاں نثاری کا ایسا نمونہ پیش کیا ،جو تادم شمس وقمر تازہ رہے گا،چنانچہ آپ کا ماموں عاص بن ہشام میدان بدر میں مقابلہ کے لئے آیا،حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خود آگے بڑھ کر اس سے مقابلہ کیا اور ایسی ضرب لگائی کہ وہ اسی دم جہنم رسید ہوگیا ۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ،ج 2،ص 446)
فاروق اعظم کی شانِ عدالت
خلیفۂ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات والا صفات میں اللہ تعالی نے بے شمار کمالات ودیعت فرمائے ،آپ کی حیات طیبہ حقانیت وصداقت کی آئینہ دار اور عدل وانصاف کا معیار ہے،آپ کی صدق بیانی،حق پسندی اور عدل وانصاف کے اغیار بھی معترف ہیں،اور عدل وانصاف کے قیام کے لئے آپ کے دور خلافت کو ایک بہترین نمونہ سمجھتے ہیں،آپ کا دور خلافت سورۂ مائدہ کی اس آیت کریمہ کا سراسر مصداق ہے ، ارشاد الہی ہے : یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۔ (سورۃ المائدۃ8)
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،اور ہرگزکسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم عدل نہ کرو،عدل کیا کرو،یہی زیادہ تقوی کے نزدیک ہے،اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے ۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حق وانصاف کے قیام،حدود شریعت اور قوانین اسلام کے نفاذ کے لئے اپنوں اورغیروں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا ، غیر مسلموں کو بھی جان ومال کا تحفظ فراہم کیا ۔ مصنف ابن ابی شیبہ،شرح بخاری لابن بطال میں ہے : عن عبد الله بن عمر قال حدثنی من سمع سالما قال کان عمر إذا نهی الناس عن شیء جمع أهل بیته فقال إنی نهیت الناس کذا وکذا و ان الناس لینظرون إلیکم نظر الطیر إلی اللحم وأیم الله لا أجد أحدا منکم فعله إلا أضعفت له العقوبة ضعفین ۔
ترجمہ : جب آپ کوئی فیصلہ فرماتے تو اپنے اہل خانہ کو جمع کرکے فرماتے:میں نے فلاں شیٔ سے لوگوں کو منع کیا ہے،اور لوگ تم پر اس طرح نظر رکھینگے جس طرح پرندہ گوشت پر رکھتا ہے،اگر اس ممنوع عمل کے تم مرتکب ہوگئے تو وہ بھی مرتکب ہو جائیں گے اگر تم اس سے دور رہوگے تو وہ بھی دور رہینگے،قسم بخدا!اگر تم میں سے کوئی وہ کام کر بیٹھے جس سے میں نے لوگوں کو منع کیا ہے تو میںاسے دوہری سزا دونگا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الأمراء ، ما ذکر من حدیث الأمراء والدخول علیھم، حدیث نمبر: 30643۔شرح البخاری لابن بطال۔ الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاگزر ایک مکان کے پاس سے ہوا جہاں ایک مانگنے والا مانگ رہاتھا، بہت بوڑھا ، نابینا شخص ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا بازوپکڑا اور فرمایا ‘ جیسا کہ کتاب الخراج ص150‘ میں مذکور ہے:فماالجأک الی مااری قال اسال الجزیة والحاجة والسن فاخذ عمر بیده وذهب به الی منزله فرضخ له بشیء من المنزل ثم ارسل الی خازن بیت المال فقال انظر هذا وضربائه فوالله ما انصفنا ان اکلنا شبیبته ثم نخذله عند الهرم ۔
ترجمہ : تمہیں کس چیز نے اس حالت پر مجبور کیا ہے جو میں دیکھ رہاہوں؟ کہنے لگا جزیہ میرے ذمہ ہے، ضرورتمند ہوں اور بوڑھا ہوچکا ہوں ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر لے گئے اور گھر سے کچھ سرفرازفرمایا پھر بیت المال کے خازن کے پاس پیغام بھیجا کہ اس کا اور اس جیسے بوڑھے غیرمسلموں کا خیال رکھو ، اگر ہم نے اس کی جوانی میں اس سے جزیہ وصول کیا پھر بڑھاپے میں اسے بے مدد چھوڑ دیں تواللہ کی قسم! ہم نے انصاف نہیں کیا۔ پھر آپ نے اس شخص کے اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلم افراد کے ذمہ سے جزیہ ساقط کردیا ۔
فضائل وکمالات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جامع ترمذی شریف، اورابن ماجہ شریف،میں حدیث مبارک ہے : عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ ۔
ترجمہ : سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد جو دو (خلفاء) ہیں، ان کی اقتداء کرو یعنی ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما ۔ (جامع الترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما،حدیث نمبر: 4023)(سنن ابن ماجہ مقدمہ باب فضل ابی بکرالصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر 102)
اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ رب قدیر نے ان کی زبان ودل سے حقیقت کے چشموں کو جاری کردیا تھا ،اور راہ حق سے ان کے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت میں یہ ارشاد فرمایا : عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ ۔
ترجمہ : بے شک اللہ تعالی نے عمررضی اللہ عنہ کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیا ہے ۔ (جامع الترمذی،حدیث نمبر:4046،چشتی)
یہی وجہ تھی کہ ابلیس لعین بھی آپ کی شخصیت کا سامنا نہیں کر سکتا تھا ، اور جہاں کہیں آپ تشریف فرما ہوتے وہاں سے راہ فرار اختیار کر جاتا تھا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ ۔۔۔۔۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیهٍ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ،وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجًّا إِلاَّ سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ. ترجمہ:سیدنا محمد بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ائے ابن خطاب!مبارک ہو،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے!شیطان تم سے کسی راستہ میں نہیں ملتا مگر وہ تمہارا راستہ چھوڑ کردوسرے راستہ پر چلاجاتاہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب التبسم والضحک،حدیث نمبر6085،چشتی)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے خصوصی نسبت اور آپ کے عدل وصداقت کی برکت کی وجہ آپ کے دور خلافت میں مسلمان جہاں کہیں پہنچتے فتح ونصرت سے ہمکنار ہوتے ۔
وروی أن عمر بعث جنداً إلی مدائن کسری وأمر علیهم سعد بن أبی وقاص وجعل قائد الجیش خالد بن الولید، فلما بلغوا شط الدجلة ولم یجدوا سفینة تقدم سعد وخالد فقالا:یا بحر إنک تجری بأمر الله فبحرمة محمد صلی الله علیه وسلم وبعدل عمر خلیفة رسول الله إلا خلیتنا والعبور،فعبر الجیش بخیله وجماله إلی المدائن ولم تبتل حوافرها ۔
ترجمہ : ایک مرتبہ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر مدائن کی طرف روانہ فرمایا،جس کی قیادت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے،جب لشکر اسلام دریائے دجلہ کنارہ پہنچا اور کوئی کشتی نہ پائی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت خالدبن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے بڑھ کر دریائے دجلہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے دریا!بے شک تو اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہے،تجھے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا واسطہ،اور آپ کے خلیفۂ راشد حضرت فاروق اعظم کی عدالت کا واسطہ 'ہمیں راستہ فراہم کردے!تمام لشکربشمول گھوڑوںاور اونٹوں کے ہمراہ دریا میں اتر گیا،اورسارے لوگ سلامتی کے ساتھ دریاپارکرتے ہوئے مدائن تک پہنچ گئے حال یہ تھا کہ سواریوں کے کُھر تک تَر نہ ہوئے ۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت عظمی کی بشارت
صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ صَعِدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ،فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ،قَالَ:اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَهِیدَانِ ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تو وہ اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے فرط مسرت سے جھومنے لگا، حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مبارک مار کر اس سے فرمایا :اے احد! تھم جا تجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایک صدیق اور دوشہید ہیں ۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر3686،چشتی)
اکثر آپ مدینۂ طیبہ میں وفات پانے اور جام شہادت نوش کرنے کی دعا کیا کرتے جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے : عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِی شَهَادَةً فِی سَبِیلِکَ،وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ : حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں :آپ دعاء فرماتے :اے اللہ ! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما،اور اپنے حبیب کے شہر مقدس میں مجھے وفات عطا فرما ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب کراہیۃ النبی ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ أن تعری المدینۃ،حدیث نمبر1890)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 63 سال کی عمر مبارک میں وصال ، قرب مصطفوی کی دلیل ہے
صحیح مسلم شریف میں روایت ہے : فَقَالَ مُعَاوِیَةُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ سَنَةً وَمَاتَ أَبُو بَکْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ وَقُتِلَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ . ترجمہ:سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا ، اس وقت آپ کی عمر مبارک ترسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو آپ کی عمر ترسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آپ کی عمر مبارک بھی ترسٹھ ( 63) برس تھی ۔ (صحیح مسلم ،باب کم أقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بمکۃ والمدینۃ.حدیث نمبر: 6244) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment