فضائل و مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی امتیازی حیثیت اور اعلیٰ خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو حقیقی صاجزادیاں رضی اللہ عنہما حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں آئیں ۔ اسی لیے آپ ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ حاشیہ نہج البلاغۃ میں ہے : فلانه تزوج بنتى رسول الله رقية وام كلثوم توفيت الاالى فزوجه النبى صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بالثانيه ولذا سمى ذا النورين ۔ (حاشية نهج البلاغه صفحہ 85 جلد 2)
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذُو النُّوْرَیْن جوڑا نور کا
لقب ذوالنورین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو صاجزادیاں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا ، امِ کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح کا شرف حاصل ہوا ۔ جب پہلی صاجزادی فوت ہو گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی دوسری صاجزادی سے آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح کر دیا اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہتے ہیں ۔
حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تھا کہ اگر میری تیسری لڑکی بھی ہوتی تو اس کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیتا ۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں دے دیتا ۔ (البدایہ والنہایہ 5 صفحہ 309 ، الاستیعاب لابن عبدالبر ، اصابہ)
اسد الغابہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لوكان لى اربعون بنتا زوجت عثمان واحدة بعد واحدة ۔
ترجمہ : اگر میری چالیس لڑکیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیتا" رضی اللہ عنہ ۔
محترم قارٸینِ کرام : جب شیعیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی تو وہ کس طرح کا نیا اور عقلی اعتراض کرتے ہیں ۔ ان کا ایک اعتراض ملاحظہ ہو ۔
سشیعوں کا اعتراض : انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیاں نہیں مانا جا سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نکاح جب ہو تو ان کی عمر 25 سال تھی اور پانچ سال تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور بعثت سے پہلے ہی ان کا نکاح عتبہ ، عتیبہ فرزندانِ ابو لہب سے اور ابو لعاص سے ہو چکا تھا اب یہ کیسے ممکن ہے 10 سال کے اندر یہ تینوں بیٹیاں پیدا بھی ہو گئیں ان کا نکاح بھی ہو گیا ؟
جواب : جنابِ من اب مکمل جائزہ لیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جب شادی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عمر 25 برس تھی ۔ جب اعلانِ نبوت فرمایا تو 40 سال ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مکہ میں 8 سال تبلیغ کی ، اور ہجرت کے 8 یا 7 سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیوں کا وصال ہوا ، یعنی یہ دورانیہ 31 سال کا ہے ۔ اب بتائیے اس میں کون سی بات نا ممکن ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جب تک تبلیغ شروع نہیں کی تھی تب تک سب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیحد عزت کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیوں کو طلاق کیونکر ہو سکتی تھی ؟
ظاہر ہے جب تبلیغ شروع کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مکہ میں کفار نے دشمنی شروع کی ۔ اور یہ بھی کم از کم 15 یا 16 سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ اب ذرہ اور تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جب شادی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عمر 25 سال تھی ، اور طالب ہاشمی "تذکار صحابیات” میں "باب بنات طاہرات” میں لکھتے ہیں : حضرت زینب بعثت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئیں حضرت رقیہ بعثت سے 7 سال پہلے پیدا ہوئیں ، حضرت ام کلثوم بعثت سے 6 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔
اور کچھ روایات کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم 3 سال اور شیعہ کتاب "عمدۃ الطالب” کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مکہ میں 5 سال خفیہ طور پر تبلیغ کرتے رہے ۔ اور کھلم کھلا اعلان نبوت نہیں کیا ۔
یعنی بعثت سے کم از کم 3 سال تک بعد تک تو طلاق نہیں ہو سکتی ۔ اس حساب سے حضرت زینب کی عمر 13 سال بنتی ہے ، حضرت رقیہ کی عمر 10 سال اور حضرت ام کلثوم کی عمر 9 سال بنتی ہے رضی اللہ عنہن ۔ اور یہ بات واضع رہے کہ ان کا صرف نکاہ ہوا تھا ، رخصتی نہیں ، جوکہ شیعہ کی اپنی کتابوں میں بھی مذکور ہے ۔
امید ہے معترض حضرات اس حقیقت کے افشاں ہونے کے بعد یہ اعتراض نہیں کرینگے ۔
مزید دلاٸل
عَنْ عُثْمَانَ، هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ، فَرَأَي قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ : مَنْ هَؤُلَاءِ القَوْمُ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ : فَمَنِ الشَّيْخُ فِيْهِمْ ؟ قَالُوْا : عَبْدُ ﷲِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّيْ سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِيْ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَدْرٍ وَ لَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : ﷲُ أَکْبَرُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالْ أُبَيِنْ لَکَ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ ﷲَ ؟ عَفَا عَنْهُ وَ غَفَرَلَهُ، وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ مَرِيْضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهْمَهُ. وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ، وَ کَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَي مَکَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَي : هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِهَا عَلَي يَدِهِ، فَقَالَ : هَذِهِ لِعُثْمَانَ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : اذْهَبْ بِهَا الآنَ مَعَکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں ۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے ؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے ؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی ﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا ۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لیے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے ۔ (تم اس کی تیمار داری کے لیے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے ۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا ۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی ﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495،چشتی، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول ﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772)
عَنْ عُبَيْدِ ﷲِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيَارِ، فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا . . . . . عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ ﷲَ عزوجل بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ آمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ کَمَا قُلْتُ وَ نِلْتُ صِهْرَ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ بَايَعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ فَوَﷲِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّي تَوَفَّاهُ ﷲُ عزوجل. رَوَاهُ أَحْمَدُ ۔
ترجمہ : حضرت عبید ﷲ بن عدی بن خیارسے ایک طویل روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک ﷲ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اس پر ایمان لائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکر بھیجا گیا ۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رشتۂِ دامادی پایا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور خدا کی قسم میں نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ دھوکہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 66، الحديث رقم : 480، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 88)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحٰي إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِيْمَتِيْ مِنْ عُثْمَانَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الصَّغِيْرِ وَ الأَوْسَطِ ۔
تعجمہ : حضرت عبد ﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : بے شک ﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ اور المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837،چشتی)
عَنْ أُمِّ عَيَاشٍ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّمَاءِ . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الأَوْسَطِ ۔
ترجمہ : حضرت ام عیاش رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364،چشتی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ ﷲِ عَلَي قَبْرِ ابْنَتِهِ الثَّانِيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ فَقَالَ : ألَا أَبَا أَيِمٍ، أَلاَ أَخَا أَيِمٍ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ، فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَازَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرَائِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ ﷲَ ل قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَي مِثْلِ صِدَاقِ رُقَيَةَ وَ عَليٰ مِثْلِ صُحْبَتِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی ! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کر دیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں ۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 436، الحديث رقم : 1063، و الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 378، الحديث رقم : 2982، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 590، الحديث رقم : 1291)
عَنْ عِصْمَةَ، قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الَّتِيْ تَحْتَ عُثْمَانَ، قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : زَوِّجُوْا عُثْمَانَ، لَوْکَانَ لِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهُ وَ مَا زَوَّجْتُهُ اِلَّابِالْوَحْيِ مِنَ ﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ ۔
ترجمہ : حضرت عصمہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی ۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83،چشتی)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ النُّوْرُ فَقِيْلَ لَهُ مَا النُّوْرُ ؟ قَالَ : النُّوْرُ شَمْسٌ فِي السَّمَاءِ وَ الجِنَانِ وَ النُّوْرُ يَفْضُلُ عَلَي الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَ إِنِّي زَوَّجْتُهُ ابْنَتِي فَلِذَلِکَ سَمَّاهُ ﷲُ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ ذَاالنُّوْرِ وَ سَمَّاهُ فِي الجِنَانِ ذَاالنُّوْرَيْنِ ، فَمَنْ شَتَمَ عُثْمَانَ فَقَدْ شَتَمَنِي. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور والے ہیں ۔ عرض کیا گیا نور سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا نور سے مراد آسمانوں اور جنتوں کا آفتاب ہے اور یہ نور جنتی حوروں کو بھی شرماتا ہے اور میں نے اس نور یعنی عثمان بن عفان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا ہے پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالم ملائکہ میں ان کا نام ذاالنور (نور والا) رکھا ہے اور جنتوں میں ذا النوریں (دو نور والا) رکھا ہے تو جس نے عثمان کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی ۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 33،چشتی)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح مکہ مکرمہ میں جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تو یہ آواز زبان زد خلائق تھی کہ : احسن زوجين راهما انسان ريتة زوجها عثمان ، یعنی بہترین جوڑا رقیہ رضی اللہ عنہا اور عثمان رضی اللہ عنہ کا جوڑا ہے ۔
سنہ 2 ہجری میں جنگِ بدر کے موقع پر جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ اور فرمایا کہ "اے عثمان رضی اللہ عنہ، یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو فرماتے ہیں، خداوندِ قدوس کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری بیٹی تجھ سے بیاہ دوں۔" (ابن ماجہ، حاکم، ازالۃ الخفاء)
اس روایت سے ظاہر ہے کہ یہ رشتے بحکمِ خداوندی ہوئے۔ چنانچہ نبی علیہ السلام نے حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات پر فرمایا تھا : زوجوا عثمان لوكان لى ثانية لزوجته مازوجته الابالوحى ۔ (نبراس صفحہ 487،چشتی) ، (حضرت) عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح کر دو ، اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں ضرور عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیتا اور یہ شادی نکاح بحکمِ الہی ہوتا ۔
شیعہ حضرات یہ بے پر کی اُڑاتے ہیں کہ " نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی بیٹیاں یا اپنی بیٹیاں صرف تالیفِ قلب ، اسلام کی ترقی ، کلمہ حق کی سربلندی کے لیے دی تھیں، یا ابھی تک "حرمتِ نکاح بکافراں" کا حکم نہیں آیا تھا ۔" (حیات القلوب جلد 2 صفحہ 560، 2ص561) ۔ لیکن اسی کتاب کے اسی میں اس قول کی تردید موجود ہے ۔ نیز اسی کتاب کی جلد 2 صفحہ 562 پر ہے کہ : عیاشی روایت کردہ است کہ از حضرت جعفر صادق علیہ السلام پر سیدند کہ آیا حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دختر خود را بعثمان رضی اللہ عنہ داد ؟ حضرت فرمود بلے ۔
ترجمہ : عیاشی نے روایت کی ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی ؟ تو انہوں نے جواب دیا ، "ہاں"۔
شیعہ کتاب مراۃ العقول صفحہ 352 ، فیض الاسلام شرح نہج البلاغۃ صفحہ 519 پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاجزادیوں سے ہونا ثابت ہے ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment