صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کا شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام : علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے ، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں ، ان کی توہین و تنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے ، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے : من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب ۔ (مشکوٰة صفحہ نمبر ۱۹۷)
ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی ، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہو چکے ۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ ﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ . (سورۃ التوبة آیت نمبر 100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔
پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ، ان کے راستے پر چلنا ، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کےلیے دعائے خیر کرنا ، امت پر فرض ہے ۔ ان سے بغض رکھنا ، ان کی بے ادبی کرنا ، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔
جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے ۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں ، خواہ آل و اولاد ہو ، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں ، لہٰذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو ۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں ، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں ۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔ (بحوالہ مہر منیر ، مکتوبات مجدد الف ثانی ، الیواقیت والجواہر ، فتاویٰ رضویہ و دیگر کتب اہلسنت)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص اصحاب رسول پر غضبناک ہوا وہ کافر ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان پر کافر غضبناک ہوتے ہیں ۔ (شرح شفاء للعلی قاری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 98)
صدرُ الشریعہ علامہ امجد علی قادری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی وگمراہی اور استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ بغض ہے ۔ ایسا شخص رافضی ہے اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سنی کہے ۔ مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابوسفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند ۔ اسی طرح حضرت سیدنا عمرو بن عاص و حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابوموسیٰ اشعری ث حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہم جنہوں نے قبل اسلام حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور بعد اسلام اخبثُ الناس خبیث مسیلمہ کذاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا ۔ ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تبرا ہے اور اس کا قائل رافضی ۔ یہ اگرچہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی توہین کی مثل نہیں ہو سکتی کہ ان کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے ۔ (بہارِ شریعت حصہ جلد ۱ صفحہ ۷۷)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ، ان حضرات کا ایک ایک عمل احد پہاڑ کے برابر ثواب رکھتا ہے ، انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے اعلی وارفع مقام انہی حضرات قدسی صفات کا ہے ، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم وتکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایاہے اور بدکلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے : عن عبداللہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ومن اٰذنی فقداٰذی اللہ ومن اٰذی اللہ یوشک ان یأخذہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی اور ان کے حق میں بدکلامی موجب لعنت ہے جیسا کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی معجم کبیر میں حدیث پاک ہے : عن ابن عباس: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من سب أصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو میرے صحابہ کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709،چشتی)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی کرنے والا‘بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا ، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم .
ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘ جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539)
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے : عن ابن عمر یقول:لا تسبوا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو ، ان میںسے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوںمیں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415)
کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں ۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں ۔ تاہم عزت و تکریم میں ، جنتی ہونے میں ، ادب و احترام میں سب برابر ہیں ۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں اٹھاتا ہے ۔
ارشاد فرمایا : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا ۔ (العاديات:1 تا 4)
ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں ۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں ۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں ۔
جن شہسواروں کے گھوڑوں کو ، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا ، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق امت کو خیر خواہی ، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی ۔ فرمایا : الله الله فی اصحابی ، الله الله فی اصحابی ، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه ۔ (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554،چشتی)
ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا ، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا ۔
اسی طرح ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم ۔ (مشکوٰة صفحہ 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے ۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.(التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔
پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ، ان کے راستے پر چلنا ، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا ، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا ، ان کی بے ادبی کرنا ، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7) ۔ (بحوالہ فتاویٰ منہاج القرآن و ماہنامہ منہاج القرآن)
امام شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)
امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی ۔ (1) جنگ صفین ۔ (2) جنگ جمل
ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں :
(1) باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا ۔
(2) ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔
(3) وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے ، یکدم رک گئے ۔
تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی ۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے ۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف ۔ اس مسئلہ میں ناصبی ، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی شیعہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے ۔ صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ائمہ و اولیاء علیہم الرّحمہ و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کےلیے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔ (سورہ مومن : 7)
علامہ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب مفتی منہاج القرآن فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013ء الفقہ : آپ کے دینی مسائل)
عاشق رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں تحریر فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم کی تنقیص کرنے والا ملعون ہے . قارئین شفا شریف کا کیا عظیم مقام ہے آپ اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : جو شخص صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گمراہی پر مانے اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے گالی دی اسے سخت سزا دیجائے گی . برکات آل رسول ص 283 علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ القام الحجر میں اس بات پر اجماع نقل کیا کہ کسی بھی صحابی کو گالی دینے والا فاسق ہے اگر اسے وہ حلال نہ جانے اور اگر وہ حلال جانے تو کافر ہے اس لیے کہ اس توہین کا ادنی درجہ فسق ہے اور فسق کو حلال جاننا کفر ہے .
علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں ۔ الشرف المؤبد صفحہ 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383،چشتی)
اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” ۔ [مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢] ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ۔[الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973]
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں کہ : بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا ، اور میرے لیے اصحاب کو چن لیا ، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا ، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل ۔ (السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) » رقم الحديث: 1285(1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405،چشتی) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15،چشتی) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040(4440) 17) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863(5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69(70)
علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کےلیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور ۔ (برکات آل رسول 281)
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما آپ نے فرمایا : رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ (الناہیہ صفحہ نمبر 16،چشتی)
امام قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ علامہ معافی بن عمران علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور کاتب وحی ہیں . (الناہیہ صفحہ نمبر 17)
بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 112)
بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر بہت تحقیق ہو چکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے ۔
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے : ⬇
اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں
اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار
مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کار فجار
جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ با ﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی ہے یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاوی رضویہ جلد 10 صفحہ 201 قدیم ایڈیشن،چشتی)،(فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاہور)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توہین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاہلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب رضی اللہ عنہم کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے جلیل الشان صحابی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاتب ہیں ۔ (فتاویٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 78 مفتی اہلسنّت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علی)
جو شخص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرے آپ کی خلافت کو حق نہ مانے وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا کھلا دشمن و باغی ہے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 79،چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا گستاخ رافضی ہے اس سے توبہ کرائی جائے مسلمانوں پر فرض ہے ایسے شخص کا بائیکاٹ کریں جب تک کہ وہ شخص توبہ کر کے سنی مسلمان نہ ہو جائے ۔ (فتایٰ فیض الرّسول جلد اوّل صفحہ نمبر 80)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ 32 شارح بخاری فقیہ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ)
یہ فتویٰ کسی عام شخصیت کا نہیں ہے فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بلا شبہ صحابی ہیں انہیں بُرا کہنے والا اہلسنت سے خارج ، گمراہ وبے دین ہے ۔ یہ ہے اکابرینِ اہلسنت کا موقف اور ہمیں سنیوں کے لبادے میں چھپے کسی نیم رافضی پیر ، مفتی ، مجدد ، مولوی یا عالم وغیرہ کے کسی فتوے کی ضرورت نہیں ہے ۔
امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ ﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان،چشتی)
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
مشہور محدث شیخ الاسلام امام ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی979ھ) فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نسب ، قرابت رسول ، علم اور حلم کے اعتبار سے اکابر صحابہ میں سے ہیں ۔ پس ان اوصاف کی وجہ سے جو آپ کی ذات میں بالاجماع پائے جاتے ہیں واجب ضروری ہے کہ آپ سے محبت کی جائے ۔ (تطہیر الجنان واللسان عن الخطور والتفوہ بثلب سیدنا معاویہ بن ابی سفیان صفحہ نمبر3)
امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
محدث و فقیہ شیخ ابوالمواھب امام عبد الوہاب بن احمد شعرانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 973ھ) فرماتے ہیں کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرتا ہے بے شک وہ اپنے دین پر طعن کرتا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دروازہ بالکل بند کر دیا جائے بالخصوص سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہم کے بارے میں ۔ (الیواقیت والجواھر فی بیان عقائد الاکابر، المبحث الرابع والاربعون فی بیان وجوب الکف عن شجر بین الصحابہ، جلد2، صفحہ نمبر323،چشتی)
امام مجاہد ، امام اعمش اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم
امام اعمش رضی اللہ عنہ جو کہ تابعین میں سے ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو دیکھتے تو کہتے کہ وہ مہدی ہیں ۔ (تطہیر الجنان، صفحہ نمبر27)
امام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو پا لیتے تو البتہ تم ضرور کہتے کہ یہ مہدی ہیں ۔ (حضرت امیر معاویہ صفحہ نمبر205 بحوالہ حاشیہ العواصم)
اما م اہلسنت ابو لحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324 ہجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنّت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے، اسی طرح جو جنگ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل و اجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626)
امام قاضی ابو بکر باقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کریں ، اور ان تمام کےلیے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کےلیے رضا ، امان ، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کےلیے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کےلیے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کےلیے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کےلیے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق چاروں آئمہ فقہا علیہم الرّحمہ کا مؤقف
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105،چشتی)
حضرت امام مالک رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہم کو برا کہنا ہے ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 102)
حضرت امام شافعی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 105)
امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں ۔ (صواعق محرقہ صفحہ نمبر 106)
محترم قارئینِ کرام : گزشتہ چند دنوں سے سنیوں کے لبادے میں چھپے بعض لوگ مسلسل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں فقیر نے اہلسنت کے موقف کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے یاد رہے جو مقام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا ہے وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے اس لیے ان دونوں میں موازنہ کرنا ہی غلط ہے فقیر کا مقصد صرف یہ ہے کہ خدا را ایک جلیل القدر صحابی رسول رضی اللہ عنہ کی توہین مت کریں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی
No comments:
Post a Comment