سیرت و فضائل حضرت ابراہیم علیہ السَّلام حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ اس سورت میں انبیا (علیہم السلام) کے جو قصص بیان کیے گئے ہیں یہ ان میں سے چوتھا قصہ ہے۔ ان آیات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا ہے ، حضرت لوط اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی سکونت شام کی نواحی بستیوں میں تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے اور ان کے مہمان ہوئے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جو بھی مہمان ہوتا تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی بہت اچھے طریقہ سے ضیافت کرتے تھے، جو فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تھے ان کی تعداد میں حسب ذیل اقوال ہیں : ⬇
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آنے والے فرشتوں کی تعداد اور ان کی بشارت میں مختلف اقوال امام جمال الدین عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی الحنبلی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : (١) حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر نے کہا یہ حضرت جبرئیل، حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل تھے۔ (٢) مقاتل نے کہا : یہ حضرت جبرئیل، حضرت میکائل اور حضرت عزرائیل تھے۔ (٣) حضرت ابن عباس (رض) کا دوسرا قول یہ ہے کہ یہ بارہ فرشتے تھے۔ (٤) محمد بن کعب نے کہا ہے کہ یہ آٹھ فرشتے تھے۔ (٥) ضحاک نے کہا : یہ نو فرشتے تھے۔ (٦) ماوروی نے کہا : یہ چار فرشتے تھے۔ یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جو بشارت لے کر آئے تھے اس بشارت کے متعلق امام ابن الجوزی نے حسب ذیل اقوال لکھے ہیں : (١) حسن نے کہا : وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت دینے آئے تھے۔ (٢) قتادہ نے کہا : وہ حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کی ہلاکت کی خوشخبری دینے آئے تھے۔ (٣) عکرمہ نے کہا : وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت کی خوشخبری دینے آئے تھے۔ (٤) الماوردی نے کہا : وہ یہ بشارت دینے آئے تھے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کی پشت سے خروج ہوگا۔ (زاد المیرج ٥ ص ١٢٧، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)
فرشتوں کے سلام کے الفاظ فرشتوں نے آکر کہا : سلاما۔ اس کی اصل عبارت اس طرح ہے : سلمنا علیک سلاما ” ہم آپ کو سلام کرتے ہیں سلام کرنا۔ “ حضرت ابراہیم نے فرمایا : سلام اس کی اصل عبارت یوں ہے : امری سلام ” میرا امر بھی سلام ہے۔ “ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آکر جو سلام کیا اس میں قرآن مجید کی اس آیت کی رعایت ہے : یایھا الذین امنو لا تدخلوا بیونا غیر بیوتکم حتی نستانسوا و تسلموا علی اھلہا ذلکم خیر لکم لعلکم تذکرون۔ (النور : ٢٧) اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور ان گھر والوں پر سلام نہ کرلو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا سلام اس طرح ذکر فرمایا ہے : والملائکۃ یدخلون علیہم من کل باب۔ سلام علیکم۔ (الرعد : ٢٤۔ ٢٣) اور فرشتے جنتیوں کے اوپر ہر دروازے سے یہ کہتے ہوئے داخل ہوں گے : ” سلام علیکم “
سلام کے متعلق احادیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے اور قلیل، کثیر کو سلام کریں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٢٣٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥١٩٩) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک مسلمان پر اپنے بھائی کےلیے پانچ چیزیں واجب ہیں : سلام کا جواب دینا، چھینک لینے والے کو الحمد للہ کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا، دعوت کو قبول کرنا، مریض کی عیادت کرنا اور جنازہ کے ساتھ جانا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٠٣٠) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اہل کتاب تم کو سلام کریں تو تم کہو : علیکم۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٥٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٣،چشتی) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہود اور نصاریٰ کو تم سلام میں پہل نہ کرو اور جب تم میں سے کوئی شخص اس کو راستے میں ملے تو اس کو تنگ راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٠٢) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٢٤٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٦٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٩٦) حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی جماعت گزرے تو ان کےلیے یہ کافی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کرلے اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان کےلیے یہ کافی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کا جواب دے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٥١٣، سنن کبریٰ ج ٩ ص ٤٩، تمہید ج ٩ ص ٤٩، تمہید ج ٢ ص ٦١٨، فتح المالک رقم الحدیث : ٦٧٧٦، مشکوۃ رقم الحدیث : ٤٩٤٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی جماعت پر سلام کرنے میں پہل کی اس کو اس جماعت پر دس نیکیوں کی فضیلت ہوگی اور ایک اور حدیث میں ہے : جن دو شخصوں نے ترک تعلق کیا ہوا ہو ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔ الاستذکار رقم الحدیث : ٤٠٥٢٧) حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے پاس سے گزرے، وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٩٧، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٣٦٦، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٦٣٥، مسند احمد ج ٦ ص ٤٥٢، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٦٤٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٢٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٧٠١، الاستذ کار رقم الحدیث : ٤٠٥٤٠،چشتی)
جن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے اور جن لوگوں کے سلام کا جواب دینا ضروری نہیں یا مکروہ ہے حافظ یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں : عورتوں کو سلام کرنے میں سلف اور خلف کا اختلاف ہے ۔ بعض نے کہا : جب عورتیں محرم نہ ہوں تو مرد ان کو سلام نہ کریں، یہ احناف کا قول ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب عورتوں سے اذان اور اقامت اور نماز میں بلند آواز سے پڑھنا ساقط ہوگیا تو ان سے سلام کا جواب دینا بھی ساقط ہوگیا، لہٰذا ان کو سلام نہ کیا جائے۔ دوسرے فقہاء نے یہ کہا کہ بوڑھی عورتوں کو سلام کیا جائے اور جو ان عورتوں کو فتنہ کے خوف سے سلام نہ کیا جائے، امام مالک کا یہی قول ہے۔ (فقہاء احناف کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا) (الاستذ کا رج ٢٧، صفحہ ١٣٩، مطبوعہ موسستہ الرسالہ، بیروت، ١٤١٤ ھ) علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں ۔ اگر مسلمان کو ذمی سے کوئی کام ہو تو وہ اس کو سلام کرلیں ورنہ ان کو سلام کرنا مکروہ ہے، جس طرح مسلمان کا ذمی سے مصافحہ کرنا مکروہ ہے اور اگر یہودی یا نصرانی یا مجوسی مسلمان کو سلام کریں تو ان کو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جواب میں صرف اتنا کہے وعلیکم۔ کسی ذمی کو تعظیماً سلام کرنا کفر ہے، مانگنے والے کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، اسی طرح جمعہ کے خطبہ کے وقت جو سلام کرے، اس کے سلام کا جواب دینا بھی واجب نہیں ہے، جب انسان کسی کے گھر جائے تو پہلے اجازت طلب کرے، پھر سلام کرے پھر کلام کرے، سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ پر اضافہ نہ کرے، سلام کا فوراً جواب دے فاسق کو سلام کرنا مکروہ ہے بشرطیکہ فاسق معلن ہو ورنہ نہیں، اسی طرجو شخص سلام کا جواب دینے سے حقیقتاً عاجز ہو مثلاً کھانا کھا رہا ہو اس کو سلا کرنا مکروہ ہے یا جو شخص سلام کا جواب دینے سے شرعاً عاجز ہو مثلاً نماز پڑھ رہا ہو یا قرآن مجید پڑھ رہا ہو، ان کو سلام کرنا مکروہ ہے اور اگر کسی نے سلام کیا تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہے۔ (الدر المختار علی ہامش رد المحتار ج ٥ ص ٢٦٧۔ ٢٦٤ ملخصاً ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ،چشتی) نیز علامہ حصکفی نے لکھا ہے کہ ان لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے : جو نماز ڑھ رہا ہو، قرآن مجید پڑھ رہا ہو حدیث بیان کر رہا ہو خطبہ دے رہا ہو، خطبہ سن رہا ہو، فقہ کا تکرار کر رہا ہو، مقدمہ کا فیصلہ کر رہا ہو، کسی فقہی مسئلہ میں بحث کر رہا ہو، اذان دے رہا ہو، اقامت (تکبیر) کہہ رہا ہو، دینی کتب کا درس دے رہا ہو، جو ان اجنبی عورتوں کو سلام کرنا زیادہ مکروہ ہے (بوڑھی عورتوں کو سلام کرنا جائز ہے بلکہ اگر شہوت کا خوف نہ وہ تو ان سے مصافحہ کرنا بھی جائز ہے، شامی) جو شطرنج کھیل رہا ہو، یا جو فسق میں ان کے مشابہ ہو (ہر وہ شخص جو کسی گناہ میں مشغول ہو، مثلاً جو اکھیل رہا ہو، شراب پی رہا ہو، لوگوں کی غیبت کر رہا ہو، کبوتر اڑا اڑا ہو، یا گانا گا رہا ہو، مذاق کرنے والے بوڑھے کو سلام نہ کرے، نہ جھوٹ بولنے والے کو نہ لغو باتیں کرنے والے کو نہ گالیاں دینے والے کو نہ اس کو جو اجنبی عورتوں کو دیکھتا ہو، شامی) جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی کر رہا ہو، کافر کو اور جو شخص برہنہ ہو اور جو پیشاب، پاخانہ میں مشغول ہو اور جو کھانا کھا رہا ہو یعنی اس کے منہ میں لقمہ ہو، جو شخص استاذ سے سبق پڑھ رہا ہو، جو شخص تسبیح پڑھ رہا ہو ذکر کر رہا ہو یا تلبیہ پڑھ رہا ہو یا اونگھ رہا ہو یا نیند میں ہو یا نشہ میں ہو یا مجنون ہو، ان تمام لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے اور اگر کوئی شخص ان حالتوں میں سلام کرے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہے۔ (الدر المختار مع رد المختار جلد ١ صفحہ ٤١٥۔ ٤١٤ ملخصاً ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٧ ھ،چشتی)
سلام کرنے کے شرعی الفاظ اور اس کے شرعی احکام اور مسائل حفط ابو عمر ابن عبدالبر مالک متوفی ٤٦٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : سلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، میں نے جواب میں کہا : وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ وعفوہ و مغفرتہ حضرت ابن عباس نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا عطا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : سلام، وبرکاتہ کے لفظ پر ختم ہوجاتا ہے پھر یہ آیت پڑھی : رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم اہل البیت انہ حمید مجید۔ (ھود : ٧٣) ( اس سے معلوم ہوا کہ اذکار کے جو الفاظ منقول ہوں ان پر اضافہ کرنا درست نہیں ہے… سعیدی غفرلہ) (الاستذ کا رج ٢٧ ص ١٣٨، مطبوعہ موسستہ الرسالہ بیروت، ١٤١٤ ھ) علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : سلام میں پہل کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے، اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہو تو ان کے حق میں سلام کرنا سنت کفایہ ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجائے گی، جس شخص پر سلام کیا گیا ہے اگر وہ ایک ہے تو اس پر جواب دینا متعین ہے اور اگر ایک جماعت پر سلام کیا گیا ہو تو ان کا جواب دینا فرض کفایہ ہے، اگر ان میں سے کسی ایک شخص نے جواب دے دیا تو باقی لوگوں سے فرضیت ساقط ہوجائے گی اور افضل یہ ہے کہ پوری جماعت سلام کرے اور پوری جماعت جواب دے۔ امام ابن عبدالبر وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ سلام میں پہل کرنا سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے۔ سلام کے کم از کم الفاظ یہ ہیں : السلام علیکم، جس کو سلام کیا ہے اگر وہ ایک ہے تو السلام علیک کہے لیکن افضل یہ ہے کہ فرشتوں کو شامل کر کے السلام علیکم کہے اور کامل طریقہ یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ برکاتہ کہے، ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کے اضافہ پر اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ فرشتوں نے سلام کے بعد کہا تھا ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علیکم اہل البیت۔ (ھود : ٧٣) اور تشہد میں پڑھا جاتا ہے السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور ابتداء میں علیکم السلام کہنا مکروہ ہے۔ حدیث صحیح میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : علیک السلام نے کہو کیونکہ علیکم السلام مردوں کا سلام ہے۔ (سنن ابودائٶد رقم الحدیث : ٤٠٨٤) اور جواب دینے کا افضل اور اکمل طریقہ یہ کہ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہے اور اگر وعلیکم السلام پر اقتصاد کرلیا تو یہ بھی جائز ہے، سلام کرنے والا اگر سلام علیکم یا السلام علیکم کہے اور جواب دینے والا بھی اس کی مثل سلام علیکم یا السلام علیکم کہے تو یہ بھی جائز ہے۔ قرآن مجید میں ہے : قالو سلما قال سلام۔ (الذاریات : ٢٥) لیکن الف، لام کے ساتھ کہنا افضل ہے۔ (امام رازی نے لکھا ہے بغیر الف لام کے سلام علیکم کہنا افضل ہے، کیونکہ سلام کی تنوین کمال، مبالغہ اور تمام پر دلالت کرتی ہے اور لفظ السلام صرف ماہیت پر دلالت کرتا ہے۔ اخفش نے کہا : عرب تنوین اور الف لام کے بغیر سلام علیکم کہتے ہیں، اس کا سبب کثرت استعمال ہے جو تخفیف کا مقتضی ہے۔ تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٧٣۔ ٣٧٢، مطبوعہ بیروت، ١٤١٥ ھ) سلام کا جواب فوراً دینا چاہیے، اگر کوئی شخص کسی کا سلام پہنچائے پھر بھی فوراً جواب دینا چاہیے۔ اگر خط میں سلام پہنچے تو اس کا بھی فوراً جواب لکھ دے۔ حدیث میں ہے کہ سوار پیدل کو سلام کرے اور کھڑا ہوا بیٹھے کو سلام کرے، کم زیادہ کو سلام کریں اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے، یہ افضل اور مستحب ہے اگر اس کے برعکس کیا پھر بھی جائز ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور السلام علیک کا معنی یہ ہے کہ تم پر اللہ کا نام ہو یعنی تم اس کی حفاظت میں رہو اور ایک قول یہ ہے کہ سلام، سلامتی کے معنی میں ہے، یعنی یہ دعا ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ (شرح مسلم ج ٩ ص ٥٨٣١۔ ٥٨٢٩، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ) السلام علیکم کا جواب وعلیکم السلام ہے اس میں نکتہ یہ ہے کہ کلام کی ابتداء بھی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہو اور اس کی انتہا بھی اللہ کے نام پر ہو یا متکلم مخاطب کے لیے سلامتی کی دعا کرے اور جوابا مخاطب بھی اس کے لیے سلامتی کی دعا کرے، سلامتی کا معنی ہے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا کی ہر بلا اور ہر عیب سے آخرت کے ہر عذاب سے سلامت رکھے۔
اسلام میں مہمان نوازی کی حیثیت اس کے بعد فرمایا : پھر تھوڑی دیر بعد وہ (ابراہیم) گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گائے کا بچھڑا اس لیے لائے تھے کہ ان کے اموال میں زیادہ تر گائیں تھیں۔ اس آیت سے یہ مستفاد ہوا کہ میزبانی کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کو جلدی کھانا پیش کیا جائے اور جو چیز فوراً دستایب ہو اس کو پیش کردیا جائے، اس کے بعد دیگر لوازمات تلاش کیے جائیں اگر اس کی دسترس میں ہوں اور زیادہ تکلفات کر کے اپنے آپ کو ضرر اور مشقت میں نہ ڈالے اور یہ کہ مہمان نوازی کرنا مکارم اخلاق، آداب اسلام اور انبیاء صلحاء کی سنتوں اور ان کے طریقوں میں سے ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی۔ جمہور علماء کے نزدیک مہمان نوازی کرنا واجب نہیں اور اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں :
مہمان نوازی کے متعلق احادیث اور ان کی تشریح حضرت ابو شریح العدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا : جو شخص اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان کی تکریم کرے اور اس کو جائزہ دے۔ صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! جائزہ کیا ہے ؟ فرمایا : ایک دن اور ایک رات اس کی زیادہ خاطر مدارات کرے اور تین دن اس کی ضیافت کرے (کھانا کھلائے) اور اس سے زیادہ دن اس کی طرف سے صدقہ ہیں اور جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠١٩، صحیح مسلم، کتاب اللقطہ : ١٤، رقم بلا تکرار : ١٧٢٦، رقم مسلسل : ٤٤٣٣، سنن ابودائو رقم الحدیث : ٣٧٤٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٦٨، ١٩٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٧٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٢٠٥٦، الموطاء رقم الحدیث : ١٧٢٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٢٨٧، مسند احمد ج ٦ ص ٣٨٥) حضرت ابو شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مہمان نوازی تین دن ہے اور جائزہ (خاطر مدارات) ایک دن ہے اور کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنے دن قیام کرے کہ اس کو گناہ میں مبتلا کرے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ اس کو گناہ میں کیسے مبتلا کرے گا ؟ فرمایا : وہ اس کے پاس ایسی حالت میں قیام کرے کہ اس کے پاس کی مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥، ١٧٢٦، ٤٤٣٥) قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں : جائزہ کا معنی ہے مہمان کو تحفہ وغیرہ پیش کرنا، ایک قول یہ ہے کہ تین دن مہمان کو کھانا کھلانے کے بعد اس کو روانہ کرے اور اس کے سفر کے لیے ایک دن ایک رات کا زاد راہ پیش کرے، یہ جائزہ ہے۔ تین دن سے زیادہ مہمان کا ٹھہرنا اس لیے حرام ہے کہ میزبان اس کی ضیافت کے لیے کسی ناجائز ذریعہ کو تلاش نہ کرے، یا تنگ آکر مہمان سے کوئی ناجائز بات نہ کرے۔ ایک قول یہ ہے کہ مہمان کے لیے تین دن سے زیادہ قیام کرنا اس وقت حرام ہے جب اس کو یہ علم ہو کہ میزبان کے پاس تین دن سے زیادہ اس کو کھلانے کے جائز وسائل نہیں ہیں اور اس کی وجہ سے میزبان کسی حرام کام میں مبتلا ہوجائے گا۔ تین دن سے زیادہ کی مہمان نوازی ضرورت مند پر صدقہ ہے اور جو غنی ہو اس کے لیے میزبان کی رضا اور کوشی کے بغیر مزید قیام کرنا حرام ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢٢۔ ٢١، مطبوعہ دار الوفاء بیروت ١٤١٩ ھ،چشتی)
مہمان نوازی کے متعلق مذاہب فقہاء علامہ یحییٰ بن شرف نواوی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں : ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیے اور اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تمام مسلمان کا مہمان نوازی کرنے پر اجماع ہے۔ امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنفیہ رحمہم اللہ اور جمہور علماء کے نزدیک مہمان نوازی سنت ہے، واجب نہیں ہے اور لیث اور امام احمد کے نزدیک ایک دن اور ایک رات کی مہمان نوازی کرنا واجب ہے۔ (ان کے دلائل اور ان کے جوابات عنقریب ذکر کیے جائیں گے) ایک دن اور ایک رات مہمان کی خوب خاطر مدارات کرنی چاہیے اور حسب توفیق اس کو ہدیئے وغیرہ دیئے جائیں اور دوسرے اور تیسرے دن اس کو معمول کے مطابق کھانا کھالائے۔ مہمان تین دن سے زیادہ قیام نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے زیادہ قیام کی وجہ سے میزبان اس کی غیبت کرے یا اس کی وجہ سے مہمان کے معمولات میں خلل ہو یا مہمان کی مصروفیات کی وجہ سے میزبان کو ضرر پہنچے یا وہ اس کے متعلق بدگمانی کرے اور گناہ میں مبتلا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم۔ (الحجرات : ١٢) زیادہ گمان کرنے سے بجو، بیشک بعض گمان گناہ ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب مہمان، میزبان کے مطالبہ کے بغیر تین دن سے زیادہ قیام کرے لیکن اگر میزبان نے خود مہمان کو زیادہ قیام کے لیے کہا ہو یا اس کو علم ہو یا گمان ہو کہ اس کا زیادہ قیام میزبان پر بار نہیں ہے بلکہ وہ اس پر خوش ہے تو پھر اس کے زیادہ قیام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (شرح مسلم ج ٨ ص ٤٧٥٨، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ،چشتی)
مہمان نوازی کے وجوب کے متعلق احادیث حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : آپ ہمیں (مختلف مہمات پر) روانہ کرتے ہیں، ہمیں (بعض اوقات) ایسے لوگوں کے پاس قیام کرنا پڑتا ہے جو ہماری ضیافت نہیں کرتے، (اس صورت میں) آپ کا کیا حکم ہے ؟ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم لوگوں کے پاس جائو اور وہ تمہاری معمول کے مطابق مہمان نوازی کریں (توفبہا) اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے اس قدر وصول کرلو جتنا مہمان کا میزبان پر حق ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٣٧، ٢٤٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٢٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٥٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٥٨٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٧٦) حضرت ابو کریمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک رات تو مسلمان پر مہمان کا حق ہے، جو شخص کسی مسلمان کے گھر رہے تو وہ اس مسلمان پر قرض ہے، اب مہمان چاہے تو میزبان سے قرض وصول کرے اور چاہے چھوڑ دے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٧٥٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٧٧) حضرت ابو کریمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی قوم کے ہاں مہمان ہو اور صبح تک وہ مہمان محروم رہے تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر حق ہے حتیٰ کہ اس مہمان کی ضیافت اس قوم کے مال اور ان کے کھیت سے وصول کرلی جائے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٥١)
مہمان نوازی کے وجوب کے دلائل کے جوابات یہ احادیث امام احمد اور لیث کی دلیل ہیں کہ ایک رات کی مہمان نوازی کرنا میزبان پر واجب ہے، قاضی عیاض مالکی متوفی ٥٤٤ ھ اس کے جواب میں لکھتے ہیں : یہ احادیث ابتداء اسلام پر محمول ہیں جب بالعموم مسلمان تنگ دست تھے، اس وقت لوگوں پر یہ واجب تھا کہ وہ مسافروں اور مہمانوں کی ضیافت کریں اور اگر وہ ضیافت نہ کریں تو مہمان کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ بقدر ضیافت ان سے جبراً وصول کرلے اور جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات اور مال غنیمت کے ذریعہ مسلمانوں کو اس سے مستغنی کردیا تو یہ حکم ساقط ہوگیا، خصوصاً اس آیت سے : ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل۔ (البقرہ : ١٨٨) اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاٶ ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اضطرار کی حالت پر محمول ہے یعنی جب مہمان یا مسافر کو کھانے کے لیے کچھ نہ ملے اور نہ کھناے کی صورت میں اس کو موت کا خطرہ ہو تب وہ اتنی مقدار جبراً بھی لے سکتا ہے جس سے اس کی جان بچ جائے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ پہل یاہل ذمہ پر یہ شرط لگائی گئی تھی کہ جب مجاہدین ان کے علاقے سے گزریں تو ان پر واجب ہے کہ وہ مسلمان کی ضیافت کریں اور یہ ان علاقوں میں شرط تھی جن کو جنگ کے ذریعہ فتح کیا گیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جو علاقے فحت کیے گئے تھے ان میں یہ شرط تھی ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ٢٣، مطبوعہ دارالوفاء بیروت ١٤١٩ ھ،چشتی) علامہ یحییٰ بن شرف نواوی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نے ان احادیث کو استحباب کی تاکید پر محمول کیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : ہر بالغ پر غسل جمعہ واجب ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا کہ جو لوگ مہمان کی ضیافت نہ کریں ان کی مذمت کرنا مباح ہے اور تیسرا جواب یہ دیا ہے کہ یہ احادیث اضطرار کی حالت پر محمول ہیں اور قاضی عیاض کے باقی جوابوں کا رد کیا ہے ۔ (شرح مسلم ج ٨ ص ٤٧٥٩، ٤٧٥٨، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر جب ابراہیم نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے تک نہیں بڑھ رہے تو ابراہیم نے ان کو اجنبی سمجھا اور اپنے دل میں ان سے ڈرنے لگے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف زدہ ہونے کی وجوہ قتادہ نے بیان کیا ہے کہ جب عربوں کے پاس کوئی مہمان جاتا اور وہ ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتا تو وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ شخص کسی نیک ارادہ سے نہیں آیا اور وہ اپنے دل میں کوئی برا منصوبہ لے کر آیا ہے اس وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے خوف زدہ ہوئے۔ جندب بن سفیان نے کہا : ان کے ہاتھوں میں تیر تھے اور وہ تیروں سے اس بھنے ہوئے بچھڑے کو کریدنے لگے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بات بہت عجیب لگی اس وجہ سے وہ خوف زدہ ہوئے ۔ (جامع البیان جز ١٢ رقم الحدیث : ١٤١٣٦، ١٤١٣٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) ان مہمانوں نے کھانے کی طرف اس لیے ہاتھ نہیں بڑھائے تھے کہ وہ فرشتے تھے اور فرشتے کھانے پینے سے منزہ ہیں وہ مہمانوں کی صورت میں اس لیے آئے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی مہمان نوازی میں بہت کوشش کرتے تھے اب رہا یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کیوں خوف زدہ ہوئے تو اس کی دو تقریریں ہیں : (١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتے ہیں، وہ ان کو عام انسان سمجھے تھے اور ان کے خوف زدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگوں سے دور ایک الگ تھلگ جگہ رہتے تھے اور جب انہوں نے ان کے ساتھ کھانا نہیں کھایا تو حضرت ابراہیم نے یہ گمان کیا کہ شاید وہ ان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زمانہ قدیم میں یہمعمول تھا کہ جو شخص کسی کا نمک کھا لیتا تھا وہ اس کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا اور جب کوئی شخص کسی کے گھر کھانا نہیں کھاتا تھا تو اس سے نقصانکا خطرہ ہوتا تھا۔ (٢) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ علم تھا کہ یہ فرشتے ہیں اور وہ اس لیے خوف زدہ ہوئے کہ شاید اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی بات پسند نہیں آئی اور اس پر تنبیہ کرنے کے لیے فرشتوں کو بھیجا ہے یا اس لیے خوف زدہ ہوئے کہ ان کے قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے فرشتوں کو بھیجا ہے ۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مہمانوں کے فرشتے ہونے کا علم تھا یا نہیں جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ مہمان فرشتے ہیں، ان کے یہ دلائل ہیں : (١) حضرت ابراہیم مہمانوں کے آتے ہی فوراً ان کے لیے کھانا لے کر آگئے اگر ان کو علم ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں تو وہ کھانا نہ لاتے۔ (٢) وہ ان کے کھانا نہ کھانے سے خوف زدہ ہوگئے اور کسی نقصان کا خطرہ محسوس کیا اگر ان کو علم ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں تو ان کو ان کے کھانا نہ کھانے سے کوئی خوف نہ ہوتا۔ جن مفسرین نے یہ کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم تھا کہ وہ مہمان فرشتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم سے کہا : آپ ہم سے خوف زدہ نہ ہوں، ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں، یہ بات اسی وقت کہی جاسکتی تھی جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہو کہ وہ کون ہیں اور انہیں کس سبب سے بھیجا گیا ہے تبھی انہوں نے کہا : آپ مت ڈریئے ہمیں قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے اور ایک اور سورت میں فرشتوں نے کہا : انا ارسلنا الی قوم مجرمین۔ لنرسل علیہم حجارۃ۔ (الذاریات : ٣٣۔ ٣٢) بیشک ہم مجرموں کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم ان پر پتھر برسائیں۔
پچھلی امتوں میں بھی کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا تھا علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : طبری نے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کے سامنے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا تو انہوں نے کہا : ہم قیمت دیئے بغیر کوئی کھانا نہیں کھاتے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : اس کی قیمت یہ ہے کہ تم کھانے کے شروع میں اللہ کا ذکر کرو اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرو تب حضرت جبرئیل نے اپنے ساتھی فرشتوں سے کہا : اسی وجہ سے ان کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کھانے پہلے بسم اللہ پڑھنا اور کھانے کے آخر میں الحمد للہ پڑھنا پہلی امتوں میں بھی مشروع تھا۔ بعض اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے، جب ان کے سامنے کھانا پیش کیا جاتا تو وہ کسی کو اپنے ساتھ کھانے کے لیے بلا لیتے تھے۔ ایک دن ان کے ساتھ ایک شخص کھانے کے لیے بیٹھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا : بسم اللہ پڑھو۔ اس شخص نے کہا : میں نہیں جانتا کہ اللہ کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا : چلو میرے کھانے سے اٹھ جائو۔ جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کے کفر کے باوجود اس کو ساری عمر رزق دیتا رہا اور تم نے اس کو ایک لقمہ دینے میں بخل کیا۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گھبرا کر اس شخص کی تلاش میں نکلے اور اس سے فرمایا : واپس آجائو۔ اس نے کہا : میں اس وقت تک نہیں آٶں گا جب تک تم مجھے یہ نہیں بتاٶ گے کہ تم مجھے کس وجہ سے بلا رہے ہو ؟ حضرت ابراہیم نے اس کو پوری تفصیل بتائی ۔ اس نے کہا : یہ تو رب کریم ہے، پھر وہ ایمان لے آیا ، حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے گھر گیا اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment