فضائل و مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حفصہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا ، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کےلیے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی ۔ پھر وہ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیک وسلم آپ صلی ﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر ، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی ﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی ﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (احمد بن حنبل فی المسند 26510، و الطبرانی فی المعجم الکبیر)
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے ۔ (ابونعیم فی الحلیۃ، و ابن ابی عاصم فی السنۃ1281)
حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے ؟ راوی نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہیں ان کی قوم ان کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں ۔ (الطبرانی فی المعجم الکبیر 4939،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان میں آپ کے خلیفہ بننے کے بارے میں پیشنگوئی موجود تھی ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا : عثمان اللہ تعالیٰ تمہیں کو ایک کرتہ پہنائے گا ۔ اگر لوگ تجھ سے یہ مطالبہ کریں کہ اس کرتہ کو اتار دو تو تم ہر گز اس کو نہ اتارنا ۔ (مشکوٰۃ باب مناقب عثمان غنی،چشتی)
اس پیشگوئی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی پوری تصویر کھینچ دی گئی تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے اور دورانِ خلافت کوئی فتنہ نمودار ہو گا اور فتنہ کرنے والے آپ کو خلافت چھوڑنے پر مجبور کریں گے تا کہ خلافت راشدہ کسی طرح ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی وحدت اور طاقت منتشر ہو جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایسی صورت میں اپنے منصب پر مضبو طی سے قائم رہنا ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں جہاں اسلام کو مزید تر قیات نصیب ہوئیں اور سلطنت کو وسعت ملی وہاں فتنوں نے بھی سر اٹھا یالیکن آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا اور مضبوطی کے ساتھ اپنے منصب پر قائم رہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے 35 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔ 23 سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمات کی توفیق پائی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما کی خلافتوں کے دوران جن کا عرصہ بارہ سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے خدمات سر انجام دیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں خلیفہ بن کر بھی آپ رضی اللہ عنہ کےلیے مزید اتنے سال خدمت دین کی توفیق لکھی تھی جتنے سال مجموعی طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافتوں کا زمانہ بنتا ہے ۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابہ کرام شامل تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے ۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا ۔ اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمان کو کثر ت رائے سے خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا ۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی ذمہ داریاں سرانجام دیں ۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں ۔ (معجم اوسط جلد 4 صفحہ322،حدیث:6116)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ ، ہمدرد اور غم گُسار ہستی کےلیے ہیں جسے خلیفۂ ثالث (یعنی تیسرے خلیفہ) امیرالمؤمنین حضرت عثمانِ غنی رضیَ اللہُ عنہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ پیدائش و قبولِ اسلام : آپ رضیَ اللہُ عنہ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے ۔ (الاصابہ،ج 4،ص377)
آپ رضیَ اللہُ عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر لَبَّیْک کہا ۔ (معجم کبیر جلد 1 صفحہ 85 حدیث:124،چشتی)
اسلام لانے کے بعد چچا حَکَم بن ابو العاص نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کو رسیوں سے باندھ دیا اور دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا تو آپ رضیَ اللہُ عنہ نے اسے صاف صاف کہہ دیا : میں دینِ اسلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے جد ا ہوں گا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39،چشتی)
حُلیہ مبارکہ
آپ رضیَ اللہُ عنہ کا سینہ چوڑا ، قد دَرْمِیانہ کہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا اور خدوخال حسین تھے جنہیں گندُمی رنگ نےاور پُرکشش (Attractive) بنا دیا تھا جبکہ زرد خِضاب میں رنگی ہوئی بڑی داڑھی چہرے پر بہت بھلی معلوم ہوتی تھی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 12،چشتی)
القاب و اِعْزازات
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو شہزادیوں رضیَ اللہُ عنہما سے یکے بعد دیگرے نکاح کر کے ذُوالنُّورین (2 نور والے) کا لقب پایا ، حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی ۔(معجم کبیر،ج1،ص90، حدیث: 143)
اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کی ، ایک مرتبہ حَبْشہ کی طرف تو دوسری بار مدینے کی جانب ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 8،چشتی)
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کا اِعزاز پایا ۔
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب (Wine) پی ، نہ بدکاری کے قریب گئے ، نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 33)(تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 27،225،چشتی)
سیرتِ مبارَکہ
اَدَب ، سَخاوت ، خیر خواہی ، حیا ، سادَگی ، عاجِزی ، رَحْم دلی ، دل جوئی ، فکرِ آخِرت ، اِتِّباعِ سنّت اور خوفِ خدا آپ رضیَ اللہُ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کے روشن پَہلو ہیں ۔
اَدَبِِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایساتھا کہ جس ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ حق پرست پر بَیعت کی اس ہاتھ سے کبھی اپنی شَرْم گاہ کو نہیں چُھوا ۔ (معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124)
سخاوت
ایسی کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کی بے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے پہلی بار ایک سو (100) اونٹ (Camel) ، دوسری بار دوسو (200) اونٹ اور تیسری بار تین سو (300) اونٹ دینے کا وعدہ کیا ۔ (ترمذی،ج5،ص391، حدیث:3720،چشتی)
مگر حا ضِر کرنے کے وَقت آپ نے 950 اُونٹ ، 50گھوڑے اور 1000 اشرفیاں پیش کیں ، پھر بعد میں 10 ہزار اشرَفیا ں اور پیش کیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص395)
خیر خواہی
ایسی کہ ہر جُمُعہ (Friday) کو غلام آزاد کیا کرتے ، اگر کسی جمعہ ناغہ ہوجاتا تو اگلے جمعہ دو غلام آزاد کرتے تھے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 28،چشتی)
با حیا : ایسے کہ بند کمرے میں غُسْل کرتے ہوئے نہ اپنے کپڑے اتارتے اور نہ اپنی کمر سیدھی کر پاتے ۔ (حلیۃ الاولیاء، ج1،ص94)
لباس میں سادَگی : ایسی کہ مال و دولت کی فَراوانی کے باوجود جمعہ کے دن مِنبر پر خُطبہ دیتے ہوئے بھی چار (4) یا پانچ (5) درہم کا معمولی تہبند جسم کی زِینت ہوتا ۔ (معرفۃ الصحابہ جلد 1 صفحہ 79،چشتی)
کھانے میں سادگی : ایسی کہ لوگوں کو امیر وں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سِرکہ اور زیتون (Olive) پر گُزارہ کرتے ۔ (الزہدلامام احمد صفحہ 155،رقم: 684)
عاجِزی : ایسی کہ خلافت جیسے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود خچّر پر سُوار ہوتے تو پیچھے غلام کو بٹھانے میں کوئی عار (شرم) مَحسوس نہ کرتے ۔(الزہد لامام احمد ،153،رقم: 672)
رَحْم دلی : ایسی کہ خادِم یا غلام کے آرام کا خیال فرماتے اور رات کے وقت کوئی کام پڑتا تو خادموں کوجگانا مناسب خیال نہ کرتے اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 236)
دل جوئی : کی ایسی پیاری عادت کہ ایک مرتبہ حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ رضیَ اللہُ عنہ کے غلام کا نکاح ہوا تو اس نے آپ کو شرکت کی دعوت دی ۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ تشریف لائے اور فرمایا : میں روزے سے ہوں مگر میں نے یہ پسند کیا کہ تمہاری دعوت کو قبول کروں اور تمہارے لیے برکت کی دعا کروں ۔ (الزہدلامام احمد، صفحہ 156، رقم:689،چشتی)
عبادت گزار : ایسے تھے کہ رات کے ابتدائی حصّے میں آرام کرکےرات بھر عبادت کرتے رہتے جبکہ دن نفلی روزے میں گزرتا ۔ (الزہدلامام احمد صفحہ 156، رقم : 688)
تلاوتِ قرآن کے عاشق : ایسے کہ ایک رکعت میں ختمِ قرآن کر لیتے تھے ۔ (معجم کبیر جلد 1 صفحہ 87،حدیث 130)
خود فرمایا کرتے تھے : اگر تمہارے دل پاک ہوں تو کلامِ الٰہی سے کبھی بھی سیر نہ ہوں ۔ (الزھد لامام احمد ، ص 154، رقم:680)
عَشَرۂ مُبَشَّرہ (دس جنتی صحابہ) میں شامل ہونے کے باوجود فکرِ آخرت : ایسی کہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اِس قَدَر روتے کہ آنسوؤں سے آپ رضیَ اللہُ عنہ کی رِیش (یعنی داڑھی) مبارَک تَر ہو جاتی ۔ ( ترمذی جلد 4 صفحہ 138 حدیث:2315)
اتباعِ سنّت کا جذبہ : ایسا کہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دَستی کا گوشت منگوا یا اور کھایا اور بِغیر تازہ وُضو کیے نَماز اداکی پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِسی جگہ بیٹھ کر یِہی کھایا تھا اور اِسی طرح کیا تھا ۔ (مُسندِ احمد جلد 1 صفحہ 137 حدیث:441 ،چشتی)
خوفِ خدا : ایسا کہ ایک بار اپنے غلام سے فرمایا : میں نے ایک مرتبہ تمہارا کان کھینچا تھا ، تم مجھ سے اس کا بدلہ لے لو،اس نے کان پکڑا تو فرمایا : زور سے کھینچو ، پھر فرمایا : کتنی اچھی بات ہےکہ قِصاص کا مُعامَلہ دنیا ہی میں ہے ، آخرت میں نہیں ۔(الریاض النضرۃ،ج2،ص45)
دورِ خلافت : آپ رضیَ اللہُ عنہ یَکُم محرّم الحرام 24 ہجری کو مَسندِ خِلافت پر فائز ہوئے ۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں اَفریقہ ، ملکِ روم کا بڑا عَلاقہ اور کئی بڑے شہر اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔ 26 ہجری میں مسجدِ حرام کی توسیع جبکہ 29 ہجری میں مسجدِ نَبَوی شریف کی توسیع کرتے ہوئے پتھر کے ستون اور ساگوان کی لکڑی کی چھت بنوائی ۔ (تاریخ الخلفاء،122تا 124،چشتی)
شہادت و وصال مبارک : آپ رضیَ اللہُ عنہ نےبارہ سال خلافت پر فائز رہ کر 18 ذُوالحجۃ الحرام سن 35 ہجری میں بروزِ جمعہ روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی طویل عمر پاکر نہایت مظلومِیَّت کے ساتھ جامِ شہادت نَوش فرمایا ۔ جنّت کے دولہا : شہادت کے بعد حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضیَ اللہُ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا : بیشک ! عثمان (رضیَ اللہُ عنہ) کو جنّت میں عالیشان دولہا بنایا گیا ہے ۔ (الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 67) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment