Monday, 11 July 2022

خضاب لگانے کا شرعی حکم حصّہ دوم

خضاب لگانے کا شرعی حکم حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بعض احادیث میں سفید بالوں میں خضاب لگانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : غَیِّرُوا الشَّیْبَ وَلاَ تَشَبَّھُوا بِالْیَھُوْدِ ۔ (جامع ترمذی،1752)
ترجمہ : بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو ، یہود جیسے نہ بنو ۔
اس مضمون کی حدیث بخاری (5899) مسلم (2103) ابو داؤد (4203) اور نسائی (5069) میں بھی مروی ہے ۔ دوسری طرف بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے ۔
   
خضاب یا دیگر اشیاء جن سے بالوں کو کلر کیا جاتا ہے شرعا استعمال کر سکتے ہیں ، اگر طبی طور پر ان کا کوئی برا اثر نہ پڑے ۔ خواہ عام دن ہوں یا شادی کے مخصوص دن کوئی پابندی نہیں ہے ۔

عن أبی هريرة رضی الله عنه قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم ان اليهود والنصاری لا يصبغون فخالفوهم ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک یہود اور نصاری خضاب نہیں کرتے لہذا تم ان کی مخالفت کیا کرو ۔ (بخاری الصحیح 5 : 2210، رقم : 5559، دار ابن کثیر الیمامۃ بیروت)(مسلم الصحیح، 3 : 1663، رقم : 2103، دار احیاء، التراث العربی، بیروت)(ابو داؤد السنن، 4 : 85، رقم : 4203، دار الفکر،چشتی)(ابن ماجہ السنن، 2 : 1196، رقم : 3621، دار الفکر بیروت)

عن أبی هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم غيروا الشيب ولا تشبهوا باليهود ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بڑھاپے (بالوں کی سفیدی) کو بدلو اور یہودیوں سے مشابہت نہ رکھو ۔ (احمد بن حنبل، 2 : 261، رقم : 7536، مؤسسۃ قرطبۃ مصر)(ترمذی، السنن، 4 : 232، رقم : 1752، دار احیاء التراث العربی بیروت)(ابی یعلی، المسند، 10 : 381، رقم : 5977، دار المامون للتراث، دمشق)(ابن حبان، الصحیح، 12 : 287، رقم : 5473، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)

عن أبی ذر قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ان أحسن ما غيربه هذا الشيب الحناء والکتم ۔
ترجمہ : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس بڑھاپے کو تبدیل کرنے کے لیے مہندی اور وسمہ (خضاب) کیا ہی بہترین چیز ہیں ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5 : 147، رقم : 21345،چشتی)(ابو داؤد، السنن، 4 : 85، رقم : 4205)(ترمذی، السنن، 4 : 232، رقم : 1753)(ابو حنیفۃ، المسند، 1 : 264، مکتبۃ الکوثر الریاض)(ابن ماجہ، السنن، 2 : 1196، رقم : 3622)(بزار، المسند، 9 : 355، رقم : 3922، مؤسسۃ علوم القرآن، مکتبۃ بیروت المدینۃ)(نسائی، السنن الکبری، 5 : 416، رقم : 9350، دار الکتب العلمیۃ بیروت)(ابن حبان الصحیح، 12 : 287، رقم : 5474)(ابن ابی شیبۃ المصنف، 5 : 182، رقم : 25001، مکتبۃ الرشید الریاض)(طبرانی المعجم الاوسط، 3 : 232، رقم : 3010، دار الحرمین القاھرۃ،چشتی)(بیہقی السنن الکبری، 7 : 310، رقم : 14595، مکتبۃ دار الباز مکۃ المکرمۃ)

عن أنس أنه سئل عن خضاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فذکر أنه لم يخضب ولکن قد خضب أبو بکر وعمر رضی الله عنهما ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خضاب نہیں لگاتے تھے لیکن حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے خضاب لگایا ۔ (ابو داؤد، السنن، 4 : 86، رقم : 4209)

عن محمد بن سيرين قال سالت أنسا أخضب النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال لم يبلغ الشيب الا قليلا ۔
ترجمہ : محمد بن سیرین کا بیان ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خضاب لگایا کرتے تھے ؟ فرمایا کہ آپ بڑھاپے کے نزدیک بہت کم گئے تھے ۔ (بخاری الصحیح، 5 ۔ 2210 ، رقم : 5555،چشتی)

عن ثابت قال سئل أنس عن خضاب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال انه لم يبلغ ما يخضب لو شئت أن أعد شمطاته فی لحيته ۔
ترجمہ : حضرت ثابت کا بیان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ خضاب کی عمر کو پہنچے ہی نہیں تھے اگر میں چاہتا تو آپ کی داڑھی مبارک کے سفید بالوں کو گن سکتا تھا ۔ (بخاری، الصحیح، 5 : 2210، رقم : 5556)

عن سعيد بن المسيب کان سعد يخضب بالسواد ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سیاہ خضاب لگاتے تھے ۔ (حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3 : 567، رقم : 6099، دار الکتب العلمیۃ بیروت)

علما نے دونوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے ۔ امام طبری علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں : جن احادیث میں سفیدی کو بدلنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن میں اس کی ممانعت آئی ہے ، دونوں صحیح ہیں ۔ ان کے درمیان تناقض نہیں ہے ۔ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے تمام بال سفید ہوگئے ہوں اور ممانعت اس شخص کےلیے ہے جس کے ابھی چند ہی بال سفید ہوئے ہوں ۔ اس معاملے میں علمائے سلف کا اختلاف احوال کے اختلاف کی بنا پر ہے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں حکم اور ممانعت دونوں بالاجماع وجوب کےلیے نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں نے ایک دوسرے کا رد نہیں کیا ہے ۔ (نیل الاوطار، ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ مصر ، 1344ھ، 146/1،چشتی)

اسی طرح بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے خضاب کا استعمال کیا ہے اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا ۔ ان دونوں میں بھی تطبیق دی گئی ہے ۔ طبری کہتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا معمول اکثر خضاب نہ استعمال کرنے کا تھا ، البتہ بسا اوقات آپ نے اس کا استعمال کیا ہے ۔ جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو اس حال میں دیکھا انہوں نے صراحت سے بیان کردیا کہ آپ خضاب کا استعمال کرتے تھے ۔ (نیل الاوطار: 147/1)

صدرِ اول میں جو چیزیں بہ طورِ خصاب مستعمل تھیں ، ان میں سے حنا (مہندی) ، زعفران ، ورس اور کتم کا نام احادیث میں ملتا ہے ۔ ورس ایک پودا ہے ، جو رنگائی کے کام میں لایا جاتا ہے ۔ اس کا رنگ ہلدی کے مثل زرد ہوتا ہے ۔ کتم کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہوتا ہے ۔

متعدد صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام رضی اللہ عنہم سے خضاب کا استعمال ثابت ہے ۔ حضرت عمر بن الخطاب صرف حنا کا خضاب لگایا کرتے تھے ۔ حضرت ابوبکر حنا میں کتم کی بھی آمیزش کرلیا کرتے تھے ۔ حضرت ابنِ عمر ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت علی اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زرد خضاب لگایا کرتے تھے ۔ (نیل الاوطار، 145/1)

سیاہ خضاب کا کیا حکم ہے ؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں ۔ مالکیہ ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں ، البتہ مکروہ کہتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ حافظ ابنِ حجر کہتے ہیں : ’’بعض علماء نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے ۔ (ابن حجر ، فتح الباری ، دار المعرفۃ ، بیروت ،354/10،چشتی)

ایک قول حضرت عمر بن الخطاب کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ (تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی ، طبع دیوبند ،356/5)

متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے ، مثلاً حضرت عثمان بن عفان ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ، حضرت عمرو بن العاص ، حضرت جریر بن عبد اللہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین ، حضرت عقبہ بن عامر ، حضرت عبد اللہ بن جعفر ضی اللہ عنہم اجمعین ۔ تابعین اور بعد کے مشاہیر میں ابن سیرین ، ابو بردہ ، محمد بن اسحاقؒ صاحب المغازی ، ابن ابی عاصم ، اور ابن الجوزی علیہم الرحمہ بھی کالا خضاب استعمال کیا کرتے تھے ۔ (تحفۃ الاحوذی، 355/5 ، اور بھی بہت سے تابعین و مشاہیر کے نام تحریر کیے ہیں ۔ 357/5_358 )

کتب حدیث و سیرت میں ایک روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ کو قبولِ اسلام کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً نوّے برس تھی ۔ (ابن الاثیر الجزری ، اسد الغابۃ ، دار الشعب قاہرہ، 583/3)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی خدمت میں لے کر آئے ۔ ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل 'ثغامہ' کی مانند تھے ۔ (ثغامہ ایک درخت کا نام ہے ، جس کا پھل اور پھول سفید ہوتے ہیں ۔ جب وہ خشک ہوجاتے ہیں تو ان کی سفیدی اور بڑھ جاتی ہے) اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا : غَیِّرُو ھُمَا بِشَـْیئٍ وَ جَنِّبُوا السَّوَادَ ۔ ’’ان کو یعنی ان کے بالوں کی سفیدی کو کسی چیز سے ختم کردو ، البتہ انھیں سیاہ نہ کرنا ۔‘‘ (مسلم 2102 ، ابن ماجہ:3634 ، مسند احمد 160/3، ابن حجر، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دار المعرفۃ بیروت،1236/2، ابن الاثیر الجزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، 581/3،چشتی)

اس ممانعت کو بعض علماء نے حرمت اور بعض نے کراہت پر محمول کیا ہے ۔ لیکن علامہ ابنِ حجر فرماتے ہیں کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کا یہ ارشاد اس صورت کےلیے مخصوص تھا جب بال بہت زیادہ سفید ہونے کی وجہ سے برے لگنے لگتے ہیں ۔ اس کا اطلاق ہر ایک پر نہیں ہوتا ۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے حضرت ابوقحافہ سے اس لیے فرمائی تھی کہ ان کے بال بہت زیادہ سفیدی کی وجہ سے برے لگنے لگے تھے ۔" ابن ابی عاصم کہتے ہیں : ’’اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کالے خضاب کا استعمال لوگ عموماً کیا کرتے تھے ۔‘‘ ابن شہاب کہتے ہیں :" ہم کالے خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے ، جب چہرہ ترو تازہ تھا (اس پر جوانی کے آثار تھے) لیکن جب جھریاں پڑگئیں اور دانت گرگئے (ہم بوڑھے ہوگئے) تو ہم نے اسے ترک کردیا ۔ (فتح الباری، 355/10،چشتی)

فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بالوں کی سفیدی کو خضاب کے ذریعے دور کرنے کی اجازت مردوں کی طرح عورتوں کےلیے بھی ہے ۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مادّہ کو دھو دینے کے بعد بالوں پر اس کا جو رنگ چڑھ جاتا ہے وہ مانعِ طہارت نہیں ہے ، اس لیے خضاب لگانے والے کا وضو اور غسل درست ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ کویت ، 281/2_282)

بلاکسی شرعی عذر کے سیاہ خضاب لگانا مکروہ ہے ، اور جو شخص اپنی جوان بیوی کو خوش کرنے کےلیے سیاہ خضاب استعمال کرے ، تو عام علماء نے اگرچہ اس کو بھی مکروہ کہا ہے ، مگر حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت اس کے جواز کی مروی ہے ؛ لہٰذا اس مقصد سےخضاب لگانے کو مکروہِ تحریمی نہیں کہہ سکتے ، اور ایسے شخص کی امامت ناجائز نہ ہوگی ۔

عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: أتی بأبي قحافۃ إلی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم یوم الفتح کأن رأسہ ثغامۃ بیضاء، فقال: غیروہ وجنبوہ السواد۔ (مسند أحمد رقم: ۱۴۴۹۵، شرح مشکل الآثار رقم: ۳۶۸۴، المعجم الأوسط ۴۵۶۸، المعجم الکبیر رقم: ۸۳۲۴،چشتی)
قال النووي: یحرم خضابہ بالسواد علی الأصح، وقیل: یکرہ تنزیہاً، والمختار التحریم، لقولہ علیہ السلام: اجتنبوہ السواد وہٰذا مذہبنا۔ (أوجز المسالک ۶؍۳۳۴ یحیویۃ سہارنفور)
قال ابن عابدین: یکرہ بالسواد أي لغیر الحرب۔ قال في الذخیرۃ: فمکروہ وعلیہ عامۃ المشائخ۔ (شامي ۹؍۶۰۵ زکریا، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹، فتاویٰ قاضي خاں ۳؍۴۱۲، فتاویٰ بزازیۃ ۶؍۳۷۷، العرف الشذي علی الترمذي ۱؍۳۰۵)
روي عن أبي یوسف أنہ قال کما یعجبني أن تتزین لي یعجبہا أن أتزین لہا۔ (شامي ۹؍۶۰۵ زکریا، کذا في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹، بذل المجہود ۶؍۸۲)

احادیث مبارکہ میں سفید بال ختم کرنے اور سیاہ خضاب سے منع کیا گیا ہے لیکن بالوں کو رنگنے سے منع نہیں کیا گیا ۔ دوسری طرف آثار صحابہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سیاہ خضاب لگانا بھی ثابت ہے ۔ ان تمام احادیث مبارکہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی تطبیق یوں کی جائے گی جو عقل و شعور بھی تسلیم کرتا ہے کہ سفید بالوں کو تبدیل کرنے کی اجازت ہے جو مذکورہ بالا احادیث میں واضح ہے لیکن عمر کے اعتبار سے بالوں کو رنگ لگایا جائے تو پھر ٹھیک ہے ۔ مثلاً ایک اسی نوے سال کا بزرگ جس کے ہاتھ پاؤں حرکت کرنے سے عاری ہوں وہ سیاہ خضاب لگائے تو اس کےلیے مناسب نہیں ہو گا یا پندرہ سے تیس سال والے مرد سرخ مہندی لگائے پھرتے ہوں تو ان کےلیے بھی یہ مناسب نہیں ہے ۔ لہٰذا جس کے سفید بال خوبصورت لگ رہے ہوں اس کی تو ضرورت نہیں ہے کہ ان کو تبدیل کر لے ۔ لیکن جس کے سفید بال مناسب نہ لگیں تو اس کو عمر کے مطابق رنگنے چاہیں ، جوان ہے تو سیاہ کر لے اور بوڑھا ہے تو سرخ مہندی وغیرہ لگا لے ۔ آخری گذارش یہ ہے کہ جب دونوں طرح کے دلاٸل و مٶقف موجود ہیں تو ہمیں شدت پسندی سے گریز کرنا چاہیے ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی دونوں طرف کے دلاٸل پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ بہتر ہے سیاہ خضاب سے پرھیز کیا جاۓ باقی رنگ کا خضاب یا کلر لگانے میں کوٸی اختلاف نہیں ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں شدت پسندی سے بچاۓ اور راہِ اعتدال پر چلنے اور اسلاف و اکابرین کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...