Sunday 31 July 2022

فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دہم

0 comments
فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ دہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آپ جو مشورہ دیتے یا رائے پیش کرتے ، قرآن کریم آپ کی رائے کے موافق نازل ہوتا ۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق تقریباً 20 سے زیادہ آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بے شک قرآنِ کریم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق احکام موجود ہیں ۔ (سیرۃ حلبیۃ باب الھجرۃ  الاولی الی ارض الحبشۃ  ۔ الخ ۱/۴۷۴)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اگر بعض امور میں لوگوں کے رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی کچھ اور ، تو قرآن مجید حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٧)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا،''میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی ۔ مقامِ ابراہیم پر نماز کے متعلق، پردے کے بارے میں اور بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّلَاةِ أَبْوَابُ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ وَمَنْ لَمْ يَرَ رقم الحديث: 390،چشتی)

عَنْ أنَسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ : فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ! لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی) وَ آيَةُ الْحِجَابِ، قُلْتُ يَارَسُوْلَ ﷲِ! لَوْ أمَرْتَ نِسَاءَ کَ أنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُکَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَ الْفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ وَ اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ (عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أنْ يُبَدِّلَهُ أزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ) فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی۔ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول ﷲ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول ﷲ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا۔ ’’اگر وہ آپ کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو اسلام میں آپ سے بہتر ہوں۔‘‘ تو یہی آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء في القبلة 1 / 157، الحديث رقم : 393، و في کتاب التفسير، باب و قوله و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلی، 4 / 1629، الحديث رقم : 4213، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 319، الحديث رقم : 6896، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 23، الحديث رقم : 157، و سعيد بن منصور في السنن، 2 / 607، الحديث رقم : 215)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے) ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ (أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399،چشتی)(الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 / 92،93، الحديث رقم : 5896، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1276)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ ﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔ وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے ۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد ﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا نام لیا گیا) ۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی روایات مذکور ہیں ۔ (أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 318، الحديث رقم : 6895، و في 15 / 312، الحديث رقم : 6889، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 53، الحديث رقم : 5145، و الحاکم في المستدرک، 3 / 93، الحديث رقم : 4501، و الهيثمي في موراد الظمان، 1 / 536، الحديث رقم : 2184)

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا رَأَی الرَّاْيَ نَزَلَ بِهِ الْقُرْانُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ ۔
ترجمہ : حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی رائے دیتے تو اس کے مطابق قرآن نازل ہوتا ۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31980،چشتی)

محدثینِ کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ ان تین امور میں حصر کی وجہ ان کی شہرت ہے ورنہ موافقت کی تعداد اس سے زائد ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے رب نے مجھ سے اکیس (21) باتوں میں موافقت فرمائی ہے ۔ جن کا تذکرہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ الخلفاء" میں کیا ہے ۔

(1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ تین باتوں میں رب عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے میری موافقت ہوئی (ان میں   سے ایک یہ بھی ہے کہ) میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اگر ہم مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی (یعنی نماز پڑھنے کی جگہ) بنائیں   (تو کیسا رہے گا؟) تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہی آیتِ مبارکہ میری تائید میں نازل فرما کر مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنانے کا حکم ارشاد فرمادیا : (وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ۔ پ۱ ،  البقرۃ: ۱۲۵) ۔ ترجمہ : اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ ۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔ الخ ج ۱ ص ۱۵۸ حدیث: ۴۰۲)(تفسیر در منثور ،  پ۱ ،  البقرۃ : ۱۲۵ ،  ج۱ ،  ص۲۹۰)

(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں   عرض کیا : اِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِمُ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ لَوْاَمَرْتَ اُمَّھَاتَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالْحِجَابِ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر قسم کے لوگ حاضر آتے ہیں ، پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم امہات المؤمنین کو حجاب میں رہنے کا حکم دیں  ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت حجاب نازل ہوگئی : (یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۔ (پ۲۲ ، الاحزاب:  ۵۹) ۔ ترجمہ : اے نبی اپنی بیبیوں   اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں   سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (صحیح بخاری ،  کتاب التفسیر ،  باب قولہ لا تدخلوا۔۔۔الخ ،  ج۳ ،  ص۳۰۴ ،  حدیث: ۴۷۹۰،چشتی)

(3) ایک بار نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  حضرت سیدتنا اُمّ المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رونق ا فروز ہوئے  ،  وہ آپ کی اجازت سے اپنے والد گرامی حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی عیادت کےلئے تشریف لے گئیں ۔ ان کے جانے کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے حضرت سیدتنا ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا  کو خدمت سے سرفراز فرمایا تو یہ بات حضرت سیدتنا حفصہ رضی اللہ عنہا پر گراں گذری ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ان کی دلجوئی کےلئے فرمایا : میں نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیا ۔ وہ اس سے خوش ہوگئیں اور نہایت خوشی میں انہوں نے یہ تمام گفتگو حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کو بتادی ۔بعد ازاں رب عَزَّ وَجَلَّ نے ان دونوں ازواج مطہرات سے تنبیہاً خطاب فرمایا ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ان دونوں ازواجِ مطہرات سے ارشاد فرمایا : عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ ۔ یعنی ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے ۔  ‘‘  توآپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   ان ہی الفاظ میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی :  (عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ)  (پ۲۸ ،  التحریم: ۵) ۔ ترجمہ : ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں کہ انہیں تم سے بہتر بیبیاں بدل دے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ،  پ۲۸  التحریم : ۵ ص۱۰۳۷،چشتی)(عمدۃ القاری کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی القبلۃ۔۔۔الخ ،  ج۳ ،  ص۳۸۹)

(4) جب جنگ بدر میں   ستّر کافِر قید کر کے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی بارگاہ میں لائے گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اُن کے متعلق صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے مشورہ طلب فرمایا۔ امیر المؤمنین خلیفہ رسول اللہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں میری رائے میں   انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا بعید کہ اللہ تعالٰی اسی سبب سے انہیں دولت اسلام سے سرفراز فرما دے ۔ جبکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ،  آپ کو مکۂ مکرّمہ میں نہ رہنے دیا یہ کُفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں   اُڑائیں ۔ اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فدیہ سے غنی کیا ہے ، علی المرتضٰی کو عقیل پر اور حضرت حمزہ کو عباس پر اور مجھے میرے رشتہ داروں پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں  ۔ بہرحال امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کی رائے پر سب کا اتفاق ہوگیا اور فدیہ لینے کی رائے قرار پائی ۔ لیکن بعد ازاں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت میں   نازل ہوگئی : (مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ۔ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ۔ (پ۱۰ ،  الانفال: ۶۷) ۔ ترجمہ : کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں   ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الجھاد باب الامداد ۔ الخ ،  ص۹۷۰ حدیث: ۹۰)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ وَفِي الْحِجَابِ وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ ۔ یعنی میں نے اپنے رب کی تین چیزوں میں موافقت کی : مقام ابراہیم میں ،  حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں  ۔ (صحیح مسلم ،  کتاب فضائل الصحابۃ ،  باب من فضائل عمر ص۱۳۰۶  حدیث ۲۴،چشتی)

(5 تا 7) شراب کی حرمت سے متعلقہ تین آیات مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں نازل ہوئیں  ۔ چنانچہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی : اللّٰهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما۔تو سورۂ بقرہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی:  (یَسْــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ) ۔ (پ۲ ،  البقرۃ: ۲۱۹) ۔ ترجمہ : تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى ۔ (پ۵ ،  النساء: ۴۳) ۔ ترجمہ :   اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا اور انہیں یہ آیت مبارکہ سنائی گئی تو انہوں نے دوبارہ یہی دعا کی : اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شِفَاءً ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما ۔ تو سورۂ مائدہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ۔ (پ۷ ،  المائدۃ: ۹۱) ترجمہ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے ۔ جب یہ تیسری آیت مبارکہ نازل ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اِطمینان کا اظہار فرمایا۔(سنن ابو داود ، کتاب الاشربۃ ،  باب فی تحریم الخمر ،  ج۳ ،  ص۴۵۴ ،  حدیث: ۳۶۷۰)

(8) حضرت ابو خلیل صالح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں :  وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ (۱۲) ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪ (۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاۗ-ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ ۔ (پ۱۸ ،  المؤمنون: ۱۲تا۱۴) ۔ ترجمہ :    اور بیشک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے بنایاپھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ میں پھر ہم نے اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں   پھر ان ہڈیوں   پر گوشت پہنایا پھر اسے اور صورت میں اٹھان دی ۔ تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے یوں  فرمایا  فَتَبَارَكَ اللہ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ ‘‘ تو یہی الفاظ آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   نازل ہوگئے اور نبی کرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ اِنَّهَا خَتَمَتْ بِالَّذِيْ تَكَلَّمْتَ يَا عُمَر ۔ یعنی اے عمر اس رب عَزَّ وَجَلَّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے یہ آیت مبارکہ تو بعینہ انہی الفاظ پر ختم کردی گئی ہے جو الفاظ تمہاری زبان سے نکلےتھے ۔ (تفسیر درمنثور ،  پ۱۸ ، المؤمنون : ۱۴ ،  جلد ۶ ،  صفحہ ۹۲،چشتی)

(9) جب منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ بن ابی نےجو مسلمان  ،  صالح  ،  مخلِص صحابی اور کثیر العبادت تھے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اُن کے والد عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمائیں اور نمازِ جنازہ بھی پڑھائیں  ۔ یہ سن کر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ان دونوں امور کے ارادے سے آگے بڑھے تو حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فوراً اٹھا اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے بالکل سامنے کھڑا ہوگیا اور دست بستہ عرض کی : اَعَلٰى عَدُوِّ اللہ ابْنِ اُبَيْ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا آپ دشمن خدا عبد اللہ بن اُبی کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں ؟ جس نے فلاں فلاں دن ایسی ایسی گستاخیاں کی تھیں  ۔ لیکن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس منافق کو اپنی قمیص بھی عطا فرمائی اور اس کے جنازے میں بھی شرکت فرمائی ۔ بعد میں یہ آیت مبارکہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی موافقت میں   نازل ہوگئی : وَ ا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (پ۱۰ ،  التوبۃ: ۸۴) ترجمہ : اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکِر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ۔ (تفسیر خزائن العرفان ،  پ۱۰ ،  التوبۃ ،  : ۸۴ ،  ص۳۷۶)

(10) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے جب منافقین کے استغفار کی کثرت کی تو امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی زبان پر یہ کلمات آئے : سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ کا ان منافقین کے لیے استغفار فرمانا یا نہ فرمانا دونوں برابر ہیں ، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان ہی الفاظ میں آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت کریمہ نازل فرمادی : سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ ۔ (پ۲۸ ،  المنافقون: ۶) ۔ ترجمہ : ان پر ایک سا ہے تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو ۔ (الصواعق المحرقۃ ، ص۱۰۰،چشتی)(تاریخ الخلفاء ،  ۹۷)

(11) ملک شام سے کفار کا ایک قافلہ سازوسامان کے ساتھ آرہا تھا ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کے ساتھ اس قافلے سے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ،  ادھر جب کفار مکہ کو معلوم ہوا تو ابوجہل بھی قریش کا ایک بڑا لشکر لے کر ملک شام سے آنے والے قافلے کی مدد کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ لیکن جب اس قافلے کو معلوم ہوا کہ مسلمان ان کے مقابلے کے لیے آرہے ہیں   تو انہوں   نے وہ راستہ تبدیل کردیا اور سمندی راستے سےکسی اور راہ نکل گئے ۔ ابو جہل کو جب یہ معلوم ہوا تواس کے ساتھیوں   نے کہا کہ قافلہ تو صحیح سلامت دوسرے راہ نکل گیا لہٰذا واپس مکہ مکرمہ چلتے ہیں لیکن اس نے واپس جانے سے انکار کردیا اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کےلیے مقام بدر کی طرف چل پڑا ۔ ادھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوا تو آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کُفّار کے دونوں گروہوں میں سے ایک پر مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا خواہ وہ ملک شام والا قافلہ ہو یا مکہ مکرمہ سے آنے والے کفار قریش کا لشکر ۔ قافلہ چونکہ نکل چکا تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : ہم باقاعدہ جنگ کی تیاری سے نہیں آئے تھے ،  لہٰذا ابو جہل کے لشکر سے اعراض کر کے اسی ملک شام والے قافلے کا تعاقب کرنا چاہیے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! جیسا آپ کے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو حکم فرمایا ہے ویسا ہی کیجئے یعنی بدر کی طرف تشریف لے چلیے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ ۔ (پ۹ ،  الانفال: ۵) ۔ ترجمہ : جس طرح اے محبوب تمہیں   تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بے شک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔ ‘‘  (تفسیرالبیضاوی ،  پ۹ ،  الانفال : ۵ ، ج۳ ص۸۹،چشتی)(تاریخ الخلفاء ص۹۷ ،  الصواعق المحرقۃ ،   ص۱۰۰)

(12) پانچ ۵ ہجری میں غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت قافلہ مدینہ منورہ کے قریب ایک مقام پر ٹھہرا تو اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ضرورت کےلیے کسی گوشہ میں تشریف لے گئیں وہاں   آپ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ گیا ،  آپ رضی اللہ عنہا اس کی تلاش میں مصروف ہو گئیں  اور قافلے والے آپ کو قافلے میں سمجھ کر روانہ ہوگئے ۔ بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہا  حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آگئیں   تو قافلے میں موجود منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا کی شان میں بدگوئی شروع کردی اور اَوہام فاسدہ (غلط وسوسے) پھیلانا شروع کر دیے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس معاملے میں گفتگو فرمائی تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کی گواہی دی ۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مَنْ زَوَّجَکَھَا ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا نکاح کس نے فرمایا ؟ ۔ فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ۔ عرض کیا : اَتَنْظُرُ اَنَّ رَبَّكَ دَلَّسَ عَلَيْكَ فِيْهَا ۔ یعنی کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ کے رب عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو عیب دار چیز عطا فرمائی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے سُبْحَانَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ۔ یعنی الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ کی موافقت میں یہی الفاظ رب عَزَّ وَجَلَّ نے نازل فرما دیے : وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ ۔ (پ۱۸ ،  النور: ۱۶) ۔ ترجمہ : اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں   الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے ۔ (عمدۃ القاری ،  کتاب الصلاۃ ،  باب ما جاء فی القبلۃ ۔۔۔ الخ ،   جلد ۳ ،  صفحہ ۳۸۷ ،  تحت حدیث : ۴۰۲،چشتی)

(13) ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کی راتوں میں اپنی زوجہ سے مباشرت کرنا جائز نہیں تھا ، لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ودیگر چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جماع کرلیا تو رمضان المبارک کی راتوں میں جماع کے جواز کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ) ۔ (پ۲ ،  البقرۃ: ۱۸۷) ۔ ترجمہ : روزوں کی راتوں میں   اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں   ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو ۔ (سنن ابی داود ،  کتاب الاذان ،  کیف الاذان ،  ج۱ ،  ص۲۱۳ ،  الحدیث: ۵۰۶،چشتی)

(14) حضرت سیِّدُنا ابن ابی حاتم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن ابی لیلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کی ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے ایک یہودی کی ملاقات ہوئی تو اس نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا : اِنَّ جِبْرِيْلَ الَّذِيْ يَذْكَرُ صَاحِبُكُمْ عَدُوٌّ لَّنَا یعنی یہ جو جبریل ہے جس کا تذکرہ تمہارے دوست (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کرتے ہیں   وہ ہمارا دشمن ہے۔ ‘‘  یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:   ’’ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَائِیلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ یعنی جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں   اور اس کے رسولوں   اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں   کا۔ ‘‘   چنانچہ   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں انہی الفاظ میں   یہ آیت مبارکہ نازل فرمادی :  (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِیْنَ(۹۸)) (پ۱ ،  البقرۃ:  ۹۸) ترجمہ :   ’’ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں   اور اس کے رسولوں   اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں   کا ۔ (درمنثور ،  پ۱ ،  البقرۃ : ۹۷ ،  ج۱ ،  ص۲۲۴)

(15) حضرت سیِّدُنا ابن ابی حاتم اور حضرت سیِّدُنا ابن مردویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا     حضرت سیِّدُنا ابو الاسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں   کہ دو شخصوں   نے اپنا مقدمہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے مابین فیصلہ فرمادیا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے دوسرے سے کہا کہ آؤ ہم حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فیصلہ کرواتے ہیں  ۔ دونوں   بارگاہِ فاروقی میں پہنچےتو جس کے حق میں   فیصلہ ہوا تھا اس شخص نے عرض کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں فیصلہ فرمادیا ہے ۔ یہ سن کر امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا : مَكَانَكُمَا حَتّٰى اَخْرُجَ اِلَيْكُمَا فَاَقْضِیْ بَیْنَکُمَا ۔ یعنی میرے واپس آنے تک یہیں   ٹھہرو  ، میں   ابھی تم دونوں   کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں  ۔ ‘‘   پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اندر تشریف لے گئے اور ننگی تلوار ہاتھ میں لیے باہر تشریف لائے اور جس کے خلاف رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فیصلہ فرمایا تھا اس کا سر قلم کر دیا ۔ یہ دیکھ کر دوسرا شخص خوف سے بھاگ کر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پہنچا اور عرض کیا :   ’’ قَتَلَ عُمَرُ وَاللہ صَاحِبِیْ ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے میرے ساتھی کو قتل کردیا ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : مَا کُنْتُ اَظُنُّ اَنْ یَجْتَرِئَ عُمَرُ عَلَی قَتْلِ مُؤْمِنٍ ۔ یعنی مجھے یقین ہے کہ عمر کسی مؤمن کو قتل کرنے کی جرأت نہیں   کر سکتا ۔ پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :  (فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ۔ (پ۵ ،  النساء: ۶۵) ۔ ترجمہ : تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں   تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں   اور جی سے مان لیں ۔ (تفسیر درمنثور ،  پ۵ ،  النساء : ۶۵ ،  ج۲ ، ص۵۸۵،چشتی)

(16) ایک بار امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ رات کے وقت آرام فرماتے رہے تھے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خادم آپ کے کمرے میں داخل ہوا ۔ آپ چونکہ نیند کی حالت میں تھے لہٰذا بدن سے کچھ کپڑا ہٹا ہوا تھا ایسی حالت میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غلام کا بلا اجازت داخل ہونا اچھا نہ لگا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رب عزوجل کی بارگاہ میں یوں دعا کی : اَللّٰهُمَّ حَرِّمِ الدُّخُوْلَ عَلَيْنَا فِيْ وَقْتِ نَوْمِنَا ۔ یعنی یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمارے سونے کے اوقات میں بلا اجازت داخلہ حرام فرمادے ۔ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوگئی : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَ تُسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَهْلِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ۔ (پ۱۸ ، النور: ۲۷) ۔ ترجمہ : اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں   میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے ساکنوں پر سلام نہ کر لو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (ارشاد الساری کتاب تفسیر القرآن سورۃ الاحزاب  باب قولہ: لاتدخلوا ۔ الخ ،  ج۱۰ ص۵۹۶ تحت الحدیث: ۴۷۹۰،چشتی)

(17) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا ۔ (پ ۵ ، النساء:  ۶۰) ۔ ترجمہ : کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوٰی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور اُن کا تو حکم یہ تھا کہ اُسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکاوے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہما سے روایت ہے کہ بِشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا ،  یہودی نے کہا:  ’’  چلو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے طے کرالیں کیونکہ وہ تمہارے سچے نبی ہیں  ۔ منافق نے سوچا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو کسی کی رعایت کیے بغیر صرف سچا فیصلہ کریں گے اور اس سے مطلب حاصل نہ ہوگا اس لئے اُس نے باوجود مدعی ایمان ہونے کے یہ کہا کہ ایسا کرتے ہیں   کعب بن اشرف یہودی کے پاس چل کر اس سے فیصلہ کرواتے ہیں۔(قرآن کریم میں   طاغوت سے اس کعب بن اشرف کے پاس فیصلہ لے جانا مراد ہے) یہودی جانتا تھا کہ کعب رشوت خور ہے اِس لئے اُس نے باوجو د ہم مذہب ہونے کے اُس کو پنچ تسلیم نہ کیا۔ بالآخر منافق کو فیصلے کے لئے حضورنبی ٔرحمت ،  شفیعِ اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارگاہ میں   حاضر ہونا پڑا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فریقین کی بات سننے کے بعد یہودی کے حق میں   فیصلہ سنا دیا۔فیصلہ سننے کے بعد منافق نے اسے تسلیم نہ کیا اور یہودی کو اس بات پر مجبور کیا کہ ’’  ایسا کرتے ہیں   کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں چلتے ہیں   وہ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہوگا ۔ ‘‘  دونوں بارگاہِ فاروقی میں حاضر ہوئے تو یہودی نے عرض کیا کہ  ’’ اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں   فیصلہ دیا ہے لیکن یہ شخص آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے متفق نہیں ،  یہ آپ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا :   ’’ مَكَانَكُمَا حَتّٰى اَخْرُجَ اِلَيْكُمَا ۔ یعنی تم دونوں   میرے واپس آنے تک یہیں   ٹھہرو ۔ ‘‘   پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاندر تشریف لے گئے اور ننگی تلوار لے کر باہر آئے اور اس منافق کی گردن تن سے جدا کردی ۔ ارشاد فرمایا : هٰكَذَا اَقْضِيْ لِمَن لَّم يَرْضِ بِقَضَاءِ اللہ وَرَسُوْلِهٖ ۔ یعنی جو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیصلے سے راضی نہیں عمر اس کا فیصلہ یوں   کرے گا ۔ (درمنثور ،  پ۵ ،  النساء ،  تحت الآیۃ: ۶۰ ،  جلد ۲ ،  صفحہ ۵۸۲،چشتی)

(18) قیامت کے دن تین طرح کے لوگ ہوں   گے:  (۱) اَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃِ یعنی جن کے نامۂِ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں   میں   دیئے جائیں   گے ۔ (۲) اَصْحَابُ الْمَشْئَمَۃِ یعنی وہ جن کے نامۂِ اعمال بائیں   ہاتھوں   میں   دیئے جائیں   گے ۔ (۳) السّٰبِقُوْنَ یعنی وہ لوگ جو نیکیوں   میں   سبقت لے گئے۔پھر ان کے جنتی ہونے کا بیان ہے۔اس تیسری قسم کے لوگوں   کی دو قسمیں   بیان کی گئی ہیں  : (۱)اگلے یعنی پہلے والے (۲)پچھلے یعنی بعد والے۔اگلوں   سے مراد صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  اور پچھلوں   سے مراد بعد والے لوگ ہیں  ۔فرمایا گیا:  (ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳) وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ ۔ (پ۲۷ ،  الواقعہ:  ۱۴ / ۱۳) ترجمۂ کنزالایمان:   ’’ اگلوں   میں   سے ایک گروہ اور پچھلوں   میں   سے تھوڑے۔ ‘‘  تو امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ عرض کیا:  ’’ یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگلوں   میں   سے پورا ایک گروہ اور پچھلوں   میں   صرف تھوڑے سے ؟ ‘‘   تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت میں   یہ آیات مبارکہ نازل ہوگئیں  :  ( ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳) وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَؕ ۔ (پ۲۷ ،  الواقعہ: ۳۹ / ۴۰) ۔ ترجمہ : اگلوں میں سے ایک گروہ اور پچھلوں   میں سے ایک گروہ ۔ (تفسیر در منثور ،  پ۲۷ ، الواقعۃ)

(19) حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک شخص امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنا واقعہ کچھ یوں عرض کرنے لگا کہ ایک عورت میرے پاس کچھ خریدنے آئی تو میں   اسے اپنے کمرہ خاص میں لے گیا اور زنا کے علاوہ سب کچھ کیا ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : وَيْحَكَ لَعَلَّهَا مُغِيْبٌ فِي سَبِيْلِ ۔ اللہ تیری بربادی ہو شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے؟ ‘‘   اس نے کہا :  ’’  جی ہاں  ۔ ‘‘   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں جاؤ۔ وہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں گیا اور سارا معاملہ بیان کیا تو انہوں نے بھی حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی موافقت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لَعَلَّهَا مُغِيْبٌ فِيْ سَبِيْلِ اللہ ۔ شاید اس کا شوہر جہاد پر گیا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں  ۔ ‘‘  پھر وہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی وہی ارشاد فرمایا جو حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا تھا ۔ پھر سورۂ ھود کی یہ آیت کریمہ نازل ہوگئی:  (وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِؕ-اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ ۔ (پ۱۲ ،  ھود: ۱۱۴) ۔ ترجمہ : اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حصوں   میں بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں   یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں   کو ۔ ‘‘ 

تو اس شخص نے پوچھا : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا اس آیت میں   جو حکم ہے وہ صرف میرے لیے خاص ہے ؟ ‘‘   امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : یہ تیرے لیے خاص نہیں   بلکہ سب کے لیے عام ہے ۔ نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تائید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : صَدَقَ عُمَرُ یعنی عمر نے سچ کہا ۔ (مسند امام احمد ،  مسند عبد اللہ بن عباس ج۱ ص۲۵۹ ،  حدیث: ۲۲۰۶،چشتی)

حضرت عبداللہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے لوگوں کو نماز کی دعوت کے لیے ناقوس بجانے کا حکم دیا تو میں   نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص دو سبز کپڑوں میں ملبوس ہاتھ میں ایک ناقوس لے کر میرے پاس آیا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے بندے ! کیا یہ ناقوس مجھے بیچو گے ؟ وہ کہنے لگا یہ تمہارے کس کام کا ؟ میں نے کہا : میں اس کے ساتھ لوگوں کو نماز کی طرف بلاٶں گا ۔ وہ کہنے لگا : اگر تم چاہو تو میں تمہیں نماز کے لیے بلانے کا اس سے بہتر طریقہ نہ بتاؤں ؟ میں نے کہا : ضرور بتائیے ۔ وہ کہنے لگا : تم یہ کہا کرو : اللہ اکبر اللہ اکبر ۔ اوراس نے ساری اذان کہہ سنائی ۔ پھر اس نے کہا:   ’’ جب تم جماعت قائم کرنے لگو تو یوں کہو : اللہ اکبر اللہ اکبر ۔ اور اس نے ساری اقامت کہہ سنائی ۔ جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا : اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چاہا تو یہ خواب ضرور سچ ہوگا ۔ تم بلال کے ساتھ جاؤ اور جو کچھ تم نے خواب میں سنا ہے وہ بلال کو سناتے جاٶ کیونکہ اس کی آواز تم سے بلند ہے ۔ تو میں نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ساتھ کھڑا کرلیا  ،  میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کلمات اذان بتاتا رہا اور آپ اذان دیتے رہے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے گھر میں یہ آواز سنی تو دوڑے دوڑے مسجد میں   آئے اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کی چادر زمین پر گھسٹتی آرہی تھی اور وہ کہہ رہے تھے : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللّٰهِ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَاَى ۔ یعنی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اس خدا کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا ہے ،  میں نے آج خواب میں یہی الفاظ سنے ہیں ۔ نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : فَلِلَّهِ الْحَمْدُ  یعنی تمام تعریفیں رب عَزَّ وَجَلَّ کے لیے ہیں  ۔ (سنن ابو داود  ، کتاب ا لصلاۃ  ، باب کیف الاذان ج۱ ص ۲۱۰ حدیث: ۴۹۹) ۔ (مزید حصّہ یازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔