Saturday 16 July 2022

اسلام میں ووٹ کی شرعی حیثیت

0 comments
اسلام میں ووٹ کی شرعی حیثیت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّا امِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ‌ ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ۔ (سورۃ نمبر 5 المائدة آیت نمبر 8)
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ کےلیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجاؤ دراں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو ‘ کسی قوم کی عداوت تمہیں بےانصافی پر نہ ابھارے ‘ تم عدل کرتے رہو وہ خوف خدا کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ بیشک اللہ تمہارے کاموں کی بہت خبر رکھنے والا ہے ۔

یہ آیت بھی سابقہ آیت سے متصل ہے اور اس سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر برانگیختہ کرنا اس آیت میں دو حکم ہیں (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنا اور انصاف کے ساتھ گواہی دینا ‘ اور اللہ کے تمام احکام کا خلاصہ بھی دو چیزیں ہیں ۔ اللہ کی تعظیم اور بندوں پر شفقت کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں اور حق پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا ‘ اس کا تعلق اللہ کی تعظیم کے ساتھ ہے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینا اس کا تعلق بندوں پر شفقت کے ساتھ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اپنے قرابت داروں اور دوستوں کی محبت کی وجہ سے شہادت دینے میں کوتاہی یا کمی نہ کرو ‘ اور اپنے مخالفوں اور دشمنوں سے بغض کی وجہ سے شہادت میں کوئی رد وبدل نہ کرو ‘ صرف انصاف کی رو سے شہادت دو ‘ خواہ اس سے تمہارے دوستوں کو نقصان پہنچے یا تمہارے دشمنوں کو فائدہ پہنچے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی قوم کی عداوت تمہیں بےانصافی پر نہ ابھارے ۔

ووٹ ایک جدید اصطلاح ہے ۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، عہدِ خلافتِ راشدہ اور قرونِ اُولیٰ میں اس کے ہم معنی کوئی اصطلاح رائج نہیں ہوئی ، یہ جدید جمہوری دور کی اصطلاح ہے ۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، عہدِ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ہمیں "بیعت" کی اصطلاح ملتی ہے ، جو قرآن وحدیث میں بھی مذکور ہے ۔ عہدِ رسالت میں مختلف مواقع پر بیعت کی مندرجہ ذیل صورتیں ہمیں ملتی ہیں : (1) قبولِ اسلام کےلیے "بیعت علی الاسلام "، (2) ہجرت کے موقع پر"بیعت علی الہجرۃ " ، (3) جہاد کے موقع پر "بیعت علی الجہاد "، سلمہ بن اکوع سے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دو مرتبہ جہاد پر بیعت لی ۔ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں :میں نے سلمہ سے کہا : آپ کس چیز پر بیعت کرتے تھے ، انہوں نے کہا : موت پر ۔ (صحیح البخاری:4169) ۔ (4) ایک بیعت مُحرَّمات ومُنکَرات کے ترک کرنے اورمامورات پر عمل کرنے کے بارے میں تھی ، جو الممتحنہ :12 میں مذکور ہے اور اسے "بیعتِ مومنات" بھی کہا جاتا ہے ، مگر یہ مومنات کے ساتھ خاص نہیں ہے ، عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے عورتوں والی بیعت کی ، کیونکہ اس وقت تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بعد بیعتِ امارت یا بیعتِ خلافت تھی،جوکئی صدیوں تک رائج رہی ۔

خلفائے راشدین بیعتِ عام مسجد نبوی میں لیتے تھے، اُس کی حیثیت آج کے Vote of Confidence کی تھی۔ فرق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی بیعت غیر مشروط تھی، انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہوتے ہیں اور اُن کے علم کا منبع وحیِ ربّانی ہوتا ہے، لہٰذا اُن کے فرامین کو رد کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جبکہ اُولِی الامر یاحاکمِ وقت کی اطاعت قرآن وسنت کی موافقت کے ساتھ مشروط ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "پس اگر تمہارا ان سے کسی چیز میں اختلاف ہوجائے، تو اُس (درپیش مسئلے )کو اللہ اور اس کے رسول (یعنی قرآن وسنت)کی طرف لوٹادو،(النسآء:59)"۔ اللہ تعالیٰ کی منشا قرآن سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی منشا حدیث سے معلوم ہوگی، یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی منشا ایک دوسرے کی ضدنہیں ہیں، بلکہ ایک ہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے (درحقیقت ) اللہ (ہی) کی اطاعت کی، (النسآء: 80)"، ہمارے موجودہ دستوری نظام میں بھی حاکم کا حکم اگرآئین وقانون کے خلاف ہو، تو اُسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جس کا موقف آئین وقانون کے مطابق ہوگا، عدالت اُس کی توثیق کرے گی ۔

اس سے قطع نظر کہ مطلق جمہوریت کی شرعی حیثیت کیا ہے، جدید دور میں مختلف سطح کے قانون ساز اداروں کے ارکان، وزرائے اعظم اور صدور کا انتخاب ووٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بعض مناصب کے انتخابات بالواسطہ اور بعض کے بلاواسطہ ہوتے ہیں اور ووٹر کے لیے کم از کم عمر کی شرط ہوتی ہے، تعلیم یا صداقت و دیانت کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ عام انتخابات میں ہر ادنیٰ واعلیٰ، عالم وجاہل، دیانت دار اور بد دیانت کی رائے کا وزن برابر ہوتا ہے ۔

مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں :

(1) : خصوصاً اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے، جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت وامانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے ۔

(2) : اسی طرح امتحانات میں طلبہ کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے، اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی، تو یہ جھوٹی شہادت ہے، جوحرام اور سخت گناہ ہے ۔

(3) : قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے، جس کو سفارش کہا جاتا ہے : گویاووٹ دینے والا یہ سفارش کرتاہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے،" اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"اور جو شخص اچھی سفارش کرے گا، تو( نیک کاموں میں)اس کا بھی حصہ ہوگا اور جو بری سفارش کرے گا ، تو ( برے کاموں میں) اُس کا برابر کا حصہ ہوگا ۔ (النسآء:85)۔

(4) : ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا کسی امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لیے وکیل بناتا ہے، اگر یہ وکالت قومی امور کی انجام دہی کے لیے ہے، توکسی نا اہل کو وکیل بنانا پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے "۔ خلاصہ یہ کہ ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں: "ایک شہادت، دوسری شفاعت، تیسری مشترکہ حقوق میں وکالت، پس نا اہل اور بے دین کو ووٹ دینا بیک وقت جھوٹی شہادت، بری سفارش اور ناجائز وکالت ہے، اس کے تباہ کن نتائج کا ذمے دار ووٹ دینے والا بھی ہوگا ۔ (معارف القرآن جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 70-71،بتصرف)

ہماری رائے میں مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ووٹ کی یہ حیثیتیں محلِ نظر ہیں : جس قضایا عدالت میں گواہی دی جاتی ہے، اُسے اُس کے ردّوقبول کا اختیار ہوتا ہے، جبکہ جائز ووٹ کو الیکشن کا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر رد نہیں کرسکتا۔اسی طرح کسی کے حق میں سفارش کی جائے، تو جس کے پاس سفارش کی جارہی ہے، شریعت کی رُو سے اُسے اُس کے رد وقبول کا اختیار ہوتا ہے، جو حدیثِ پاک سے ثابت ہے،لیکن پولنگ اسٹیشن کا پریذائیڈنگ آفیسر یا عملہ یا ریٹرننگ آفیسر ازروئے قانون کسی جائز ووٹ کو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔اسی طرح موکِّل اپنے وکیل کو معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جب کہ ووٹ دیتے ہی مؤثر ہوجاتا ہے، اس کے بعدووٹر نہ اپنے امیدوار کو معزول کرسکتا ہے اور نہ اپنے ووٹ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ منتخب امیدوار کی نا اہلی کو جانچنے اور نا اہلی کی بنیاد پرمعزول کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن یا الیکشن ٹریبونل یااعلیٰ عدالتوں کے پاس ہوتاہے، ووٹر زکے پاس نہیں ہوتا ۔

پس ہماری رائے میں ووٹ قضا ہے، جس طرح ہمارے نظامِ عدالت میں ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ کرتا ہے، مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلہ کبھی ایک جج کرتا ہے، اسے Single Bench کہتے ہیں، کبھی دو یا تین جج کرتے ہیں، اسے Small Bench کہتے ہیں، کبھی اس سے زیادہ جج کرتے ہیں، اسے Larger Bench کہتے ہیں اور اگرکبھی عدالت کے تمام جج صاحبان کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں، تو اسے Full Court کہتے ہیں۔ دو ججوں کی رائے مختلف ہوجائے تو ریفری جج مقرر کیا جاتا ہے، دو سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کی صورت میں اگر ان کے درمیان اتفاقِ رائے نہ ہوسکے تو کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے ۔ لہٰذا ایک حلقۂ انتخاب میں کل ووٹروں کی مثال ایک جیوری یا عدالت کی ہے، اگر ووٹ ازروئے قانون درست ہے، تو اُسے کوئی رد نہیں کرسکتا، اگر کرے گا توعدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ملکی قانون میں انتخاب کے موقع پر جو ووٹر انتخاب میں حصہ نہیں لیتے، وہ اپنے حقِ قضا سے محروم ہوجاتے ہیں اور جو حصہ لیتے ہیں، اُن کی رائے قضا میں شامل ہوتی ہے اورفل کورٹ کی طرح اکثریت کا فیصلہ جس امیدوار کے حق میں آئے، وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ امیدوار کو کسی بھی درجے کے امتحان یاکسی منصب کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا بھی قضا ہے،اسی طرح وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن یا کسی بھی سلیکشن بورڈ کی حیثیت بھی قضا کی ہے۔ پرائمری تا پی ایچ ڈی کسی بھی تعلیمی درجے میں کامیاب طالب علم کو سند دینااس امر کی شہادت ہے کہ وہ مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس علمی قابلیت کا حامل ہے، سو اگر کسی کو مطلوبہ امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر سند دی گئی ہے، تو یہ شہادتِ کاذبہ ہے، حرام ہے اور گناہ ہے "۔پس طالب علم یا امیدوار کو اس درجے کے امتحان میں کامیاب یا ناکام قرار دینا قضا ہے اور اُس کی سند شہادت ہے۔اگر ووٹر اپنی قضا میں خیانت کرتا ہے، تو اس کے بارے میں شدید وعید آئی ہے :

عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا:اگرصاحبِ اختیار نے یہ جاننے کے باوجود کہ (منصب کے لیے ) کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا زیادہ علم رکھنے والا بہتر شخص موجود ہے، کسی( جاہل اور خائن) کو عامل بنایا تو اس نے اللہ ، اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی:20364،چشتی)

آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا: "جس کو لوگوں پر قاضی بنایا گیا، اُس کو (گویا)بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا ۔ (سنن ترمذی:1325)
بغیر چھری کے ذبح کیے جانے سے مراد کسی ایسے کند آلے سے ذبح کرنا ہے جس کی تکلیف ناقابلِ تصور ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہواور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے ۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتاہے،تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے ، وہ بھی جہنم میں ہوگا ۔ (سنن ابوداؤد:3573)

پس جب ووٹرز کے پاس منصبِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں، تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علمبردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگاکر گلاب کے پھولوں یا انگور کے خوشوں کی تمنّا کرنے کے مترادف ہے ۔

شہادت کی تعریف

علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٦ ھ لکھتے ہیں : قاضی کے سامنے ایک شخص کے دوسرے شخص پر حق کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینا (مثلا کہے میں شہادت دیتا ہوں کہ فلاں آدمی کا فلاں شخص پر فلاں حق ہے) شریعت میں شہادت ہے ۔ (کتاب التعریفات ‘ ص ٥٧‘ مطبوعہ ایران)

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : شہادت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم علم اور یقین کے قائم مقام ہے ‘ اس میں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں جانتا ہوں بلکہ یہ کہنا ضروری ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں۔ دوسری قسم وہ ہے جو قسم کے قائم مقام ہے ‘ اس میں مثلا یہ کہے کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ زید چلنے والا ہے ۔ (امفردات ‘ ص ٢٦٨)

علامہ محمد بن محمود بابرتی حنفی متوفی ٧٨٦ ھ لکھتے ہیں : جب گواہ مسموعات کی جنس سے کوئی بات سنے مثلا بیع ‘ اقرار یا حاکم کے حکم کو سنے ‘ یا مبصرات میں سے کسی چیز کو دیکھے مثلا کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھے ‘ یا کسی کو غصب کرتے ہوئے دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ گواہی دے کہ میں گواہی دیتا ہوں فلاں شخص نے بیع کی ‘ یا حاکم نے فیصلہ کیا خواہ اس کو گواہ نہ بنایا گیا ہو ۔ (عنایہ مع فتح القدیر ‘ ج ٧ ص ٣٥٧‘ طبع بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ کمال الدین ابن ہمام متوفی ٨٦١ ھ نے لکھا ہے کہ شہادت میں لفظ شہادت (مثلا میں شہادت دیتا ہوں) کہنا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اسی لفظ کے ساتھ شہادت دینے کا حکم فرمایا ہے ۔

واشھدوا ذوی عدل منکم  ۔ (الطلاق : ٢)
ترجمہ : اور تم میں سے دو نیک شخص شہادت دیں ۔
واشھدوا اذا تبایعتم ۔ (البقرہ : ٢٨٢) 
ترجمہ : جب تم آپس میں خریدوفروخت کرو شاھد (گواہ) بنالو ۔
واستشھدوا شھیدین من رجالکم ۔ (البقرہ : ٢٨٢)
ترجمہ : اور تم اپنے مردوں میں سے دو شاہد طلب کرو ۔
واقیموا الشھادۃ للہ ۔ (الطلاق : ٢)
ترجمہ : اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو ۔

امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شہادت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اس کی مثل ہو تو شہادت دو ‘ ورنہ چھوڑ دو ۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ١٩٨‘ سنن کبری ‘ ج ١٠‘ ص ١٥٦،چشتی) 

ان تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ کسی سنی ہوئی بات یا کسی وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینے کو شہادت کہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر جو کسی مریض کے متعلق اپنی رائے لکھتا ہے ‘ یا ممتحن کی پر چہ پر نمبر لگاتا ہے ‘ اس میں کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر نہیں دی جاتی ‘ بلکہ اپنی طرف سے ایک رائے دی جاتی ہے یا ایک حکم لگایا جاتا ہے۔ اس لیے ان امور کو شہادت کے ذیل میں لانا صحیح نہیں ہے۔ البتہ ! اگر بدنیتی کی وجہ سے صحیح رائے نہ لکھی جائے یا صحیح حکم نہ لگایا جائے تو یہ عدل کے خلاف ہے اور ظلم ہے ‘ اور اگر اس نے دانستہ اپنی فی الواقع رائے کے خلاف لکھا تو یہ جھوٹ ہے اور بہرحال گناہ کبیرہ ہے ۔ 

نااہل شخص کو ووٹ دینے کا عدم جواز اور بحث ونظر :

مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : کامیاب ہونے والے والے فارغ التحصیل طلباء کو سند یا سرٹیفکیٹ دینا اس کی شہادت ہے کہ وہ متعلقہ کام کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وہ شخص واقع میں ایسا نہیں ہے تو اس پر سرٹیفکیٹ یا سند پر دستخط کرنے والے سب کے سب شہادت کاذبہ کے مجرم ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح اسمبلیوں اور کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے۔ جس میں ووٹ دہندہ کی طرف سے اس کی گواہی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ شخص اپنی استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے بھی اور دیانت وامانت کے اعتبار سے بھی قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے ۔ اب غور کیجئے کہ ہمارے نمائندوں میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے حق میں یہ گواہی سچی اور صحیح ثابت ہو سکے ‘ مگر ہمارے عوام ہیں کہ انہوں نے اس کو محض ہار جیت کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لیے ووٹ کا حق کبھی پیسوں کے عوض میں فروخت ہوتا ہے کبھی کسی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے ‘ کبھی ناپائدار دوستوں اور ذلیل وعدوں کے بھروسہ پر اس کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور تو اور ‘ لکھے پڑھے دیندار مسلمان بھی نااہل لوگوں کو ووٹ دیتے وقت کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم یہ جھوٹی گواہی دے کر مستحق لعنت و عذاب بن رہے ہیں ۔ نمائدوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی از روئے قرآن ایک دوسرے حیثیت بھی ہے جس کو شفاعت یا سفارش کہا جاتا ہے ‘ کہ ووٹ دینے والا گویا یہ سفارش کرتا ہے فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اس کا حکم قرآن کریم کے الفاظ میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ارشاد ہے :  ومن یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا ۔ 
ترجمہ : یعنی جو شخص اچھی اور سچی سفارش کرے گا تو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کا حصہ اس کو بھی ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرتا ہے یعنی کسی نااہل اور برے شخص کو کامیاب بنانے کی سعی کرتا ہے ‘ اس کو اس کے برے اعمال کا حصہ ملے گا ۔ 
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امیدوار اپنی کار کردگی کے پنج سالہ دور میں غلط اور ناجائز کام کرے گا ‘ ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔ 
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسکی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا ‘ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر رہا ۔ 
خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت ‘ دوسرے شفاعت ‘ اور تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں ‘ اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ 
اس لیے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے ‘ وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ‘ اور دیانت دار ہے یا نہیں ‘ محض غفلت و بےپرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ بنے ۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٧٢۔ ٧١‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ،چشتی) 

جو شخص علم اور عمل کے اعتبار سے نااہل ہو ‘ اس کو ووٹ دینا ہمارے نزدیک بھی ناجائز اور گناہ ہے ‘ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ووٹ کسی کے حق میں شہادت ہے ‘ یا وکالت ہے ‘ یا شفاعت ہے ‘ اس کا شہادت نہ ہونا تو ہماری پہلی تقریر سے واضح ہوگیا۔ شہادت میں کسی دیکھے ہوئے یا سنے ہوئے واقعہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دی جاتی ہے ‘ اور ووٹ دینے کا معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ شفاعت اس لیے نہیں ہے کہ شفاعت میں کسی تیسرے شخص کے پاس کسی منصب کے لیے سفارش کی جاتی ہے ‘ اور اس تیسرے شخص کے اختیار میں یہ معاملہ ہوتا ہے کہ خواہ اس شفاعت کو قبول کرے خواہ رد کر دے ‘ جبکہ ووٹ کی حیثیت اس طرح نہیں ہے۔ جس نمائندہ کے ووٹ ڈالے گئے ہیں ‘ اگر اس کے ووٹ اپنے مقابل سے زیادہ ہوں تو وہ اسمبلی کا ممبر بن جائے گا۔ اس میں کسی کے قبول کرنے نہ کرنے کا کوئی معاملہ نہیں ہے ‘ اس طرح ووٹ وکالت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وکالت میں موکل کسی شخص کو وکیل بنانے کے بعد اس کو معزول بھی کرسکتا ہے۔ (ھدایہ اخرین ‘ ص ١٩٩) اور ووٹر کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے ووٹ کو کینسل نہیں کرسکتا ‘ اور نہ ہی منتخب ہونے کے بعد اس امیدوار کو معزول کرسکتا ہے ۔ 

اگر کوئی شخص کسی تعلق یا لالچ یا دباؤ کی وجہ سے کسی نااہل شخص کو ووٹ ڈال رہا ہے ‘ تو اس عمل کے ناجائز ہونے کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک منصب کے لیے نااہل شخص کو مقرر کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اور اسلام میں کسی نااہل کو منصب دینے سے منع کیا گیا ہے ۔ 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے اپنی بات مکمل کر کے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٩‘ مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٨٧١٤‘ الجامع الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٨٨٧‘ الجامع الکبیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٩٥) 

جو کسی ایسے شخص کو قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالتا ہے ‘ جو دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ مند نہ ہو اور اس کا بدچلن اور بدکردار ہونا بالکل واضح ہو تو وہ اس نمائندگی کے لیے نااہل شخص کو منتخب کر رہا ہے اور نااہل کو منصب کے لیے منتخب کرنا اس حدیث کے مطابق قیامت آجانے کے مترادف ہے۔ نیز اس سلسلہ میں مزید احادیث ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا ‘ حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ اللہ کا فرماں بردار بندہ تھا ‘ تو بنانے والے نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی۔ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٩٣۔ ٩٢‘ مطبوعہ دارالباز ‘ مکہ المکرمہ،چشتی) 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا ‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔ (کنزالعمال ‘ ج ٦ ص ٧٩‘ مطبوعہ موسسہ الرسالہ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ) 

حضرت ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ جب کوئی اہل شخص دین کا والی ہو تو دین پر نہ رونا اور جب نااہل والی ہو تو پھر دین پر رونا۔ (علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد ‘ ج ١٧‘ رقم الحدیث : ٢٣٤٧٦‘ امام حاکم اور امام ذہبی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ المستدرک ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ص ‘ ٤‘ ص ٥١٥‘ نیز امام طبرانی ‘ متوفی ٣٦٠ ھ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط ج ١ رقم الحدیث : ٢٨٦‘ المعجم الکبیر ج ٤‘ رقم الحدیث ٣٩٩٩،چشتی) ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ جو شخص پیسوں کے لالچ ‘ برادری کے تعلق یا کسی بااثر آدمی کے دباؤ کی وجہ سے نااہل کو ووٹ ڈالتا ہے ‘ وہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کرتا ہے۔ نیز اہل شخص کے ہوتے ہوئے نااہل شخص کو ووٹ ڈالنا ‘ ظلم ہے ‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہی یہ ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا اور ظالموں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے ‘ اور ظلم گناہ کبیرہ ہے۔ 

نیز جب کوئی بدکردار اور فاسق وفاجر یا بدمذہب شخص اسمبلی میں پہنچے گا اور اس کو قانون سازی کا اختیار ملے گا ‘ تو یہ ممکن ہے کہ وہ خلاف شرع قانون بنائے ‘ یا اس کے حق میں ووٹ دے۔ جیسے ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے جو سراسر غیر اسلامی ہیں اور ١٩٩٣ ء تا ١٩٩٦ ء کی وقافی کا بینہ نے یہ مسودہ قانون منظور کیا کہ عورت خواہ قاتل ہو ‘ اس کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی اور یہ صریح قرآن کے خلاف ہے۔ جن لوگوں نے ایسے بےدین لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچایا ‘ یا جنہوں نے خلاف شرع قانون سازی کی ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ اس لیے جو لوگ غیر متدین اور غیر صالح لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچائیں گے ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہوں گے۔ اس لیے نااہل شخص کو ووٹ دینا بالکل جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے ‘ ظلم ہے ‘ اور خلاف شرع قانون بنانے کا ذریعہ ہے۔

ہمارے ملک میں طریق انتخاب کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کیلیے ہر امیداوار از خود کھڑا ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں از خود عہدہ کی طلب کرنا ممنوع ہے۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو عم زاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ نے جن چیزوں پر آپ کو ولایت دی ہے ‘ ان میں سے بعض پر ہمیں امیر بنادیں ‘ دوسرے نے بھی اسی طرح کہا : آپ نے فرمایا بخدا ! ہم اس شخص کو کسی منصب پرامیر نہیں بنائیں گے جو اس کا سوال کرے گا ‘ اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے گا ۔ (صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ١٧٣٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی) 

طالب منصب کو منصب نہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ طالب منصب کے ساتھ اللہ کی توفیق اور تائید شامل نہیں ہوتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ منصب کو طلب کرنا جائز ہے ‘ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے اپنے لیے حکومت کا عہدہ طلب کیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے : قال اجعلنی علی خزآئن الارض انی حفیظ علیم ۔ (یوسف : ٥٥) 
حضرت یوسف (علیہ السلام) نے (عزیز مصر سے) کہا ‘ ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ۔ 

یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ شریعت سابقہ ہے اور شریعت سابقہ کے جو احکام ہماری شریعت کے خلاف ہوں ‘ وہ ہم پر حجت نہیں ہوتے۔ ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخدا ہم اس شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کو طلب کرے گا اور نہ اس شخص کو عامل بنائیں گے جو اس کی حرص کرے گا۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ 

دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے اور نبی کا تقوی قطعی اور یقینی ہوتا ہے ‘ نبی کو وحی کی تائید حاصل ہوتی ہے ‘ اور وہ اپنے افعال کے متعلق اللہ کی رضا سے مطلع رہتے ہیں ‘ جبکہ عام آدمی کا تقوی قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اور غیر قطعی کو قطعی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عہدہ طلب کرنا اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھا ‘ جو ان کو وحی سے حاصل ہوئی اور عام آدمی کے حق میں یہ متصور نہیں ہے۔ 

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی منصب کا اہل ہو ‘ اس کا محض خدمت کے لیے منصب کو طلب کرنا ضرورت کی بناء پر جائز ہے۔ ہمیں اس قاعدہ کی صحت سے انکار نہیں ہے ‘ لیکن جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز کی گئی ہو ‘ اس کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھنا صحیح ہے۔ اس کو عام رواج اور معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے ‘ مثلا جب کوئی حلال چیز کھانے کے لیے دستیاب نہ ہو تو ضرورت کی بنا پر شراب اور خنزیر کی حرمت ساقط ہوجاتی ہے ‘ لیکن اگر کوئی شخص ضرورت کے حوالے سے خنزیر اور شراب کو کھانے پینے کا عام معمول بنا لے ‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔ 

موجودہ طریقہ انتخاب کا غیر اسلامی ہونا

پاکستان میں انتخاب کے موقع پر ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار از خود کھڑے ہوتے ہیں اور زرکثیر خرچ کرکے اپنے لیے کنوینسگ کرتے ہیں اور مخالف امیدوار کی کردار کشی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں غیبت ‘ افتراء اور تہمت کی تمام حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اور یہ طریقہ اسلام میں بالکل ناجائز ہے ‘ اور ہر امیدوار کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ضرورت کی بناء پر کھڑا ہوا ہے ‘ بداہۃ باطل ہے۔ کیونکہ ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ چونکہ اور کوئی اہل ہیں تھا ‘ اس لیے یہ سب امیداوار کھڑے ہوگئے ہیں۔ 

امیداوار کے لیے شرائط اہلیت نہ ہونے کے غلط نتائج : ⬇

درحقیقت پاکستان کے آئین میں طلب منصب کی اجازت دینا ہی غیر اسلامی دفعہ ہے۔ جو امیدوار انتخاب کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ‘ ان ہی میں سے منتخب افراد آگے چل کر وزیر اعظم ‘ صدر مملکت اور وزراء اعلی کا انتخاب کرتے ہیں اور یہی لوگ اسمبلی میں جا کر کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ملک کے سر برآوردہ علماء اور دانشوروں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل اتفاق رائے سے کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتی ہے ‘ لیکن وہ اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قومی اسمبلی اس کو منظور نہ کرے اور قومی اسمبلی کے ممبروں کے لیے اسلامی علوم یا مروجہ علوم میں کسی علم کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نیکی اور تقوی کی مبہم شرائط رکھی گئی ہیں اور ان کا دیانت داری سے متعلقہ امیدواروں پر اطلاق بھی نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں صدر مملکت چیف الیکشن کمشز اور بالواسطہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کا اطلاق کون کرے گا ؟ اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ ایسے کڑے معیار پر کون اترے گا ؟ گویا وہ بالواسطہ طورکہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعات 62 اور 63 ناقابل عمل ہیں۔ نیزسیاسی تجربہ اور تدبر کی حتی کہ مرد ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں ہے۔ دفتر میں کلرک بھرتی ہونے کے لیے بھی کم از کم میٹرک پاس ہونے کی شرط ہوتی ہے۔ بس چلانے والے ڈرائیور کے لیے بھی تجربہ کی شرط ہوتی ہے لیکن اس ملک کو چلانے کے لیے امیدواروں کے علم اور تجربہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ ہر فاسق وفاجر ‘ جاہل اور ناتجربہ کار شخص خواہ مرد ہو یا عورت ‘ انتخاب کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے اور پیسہ اور اثر ورسوخ کے زور پر اسمبلی میں پہنچ کر صدر مملکت ‘ وزیر اعظم ‘ وزیر اعلی یا کسی بھی محکمہ کا وزیر بن سکتا ہے۔ اور وہ دینی علم ‘ تجربہ اور اچھے کردار کے بغیر بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ سفارشات کو مسترد کرسکتا ہے ‘ اور کسی بھی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔