فضائل و مناقب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حصّہ نہم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کراماتِ حضرت سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ : بیہقی و ابو نعیم وغیرہ محدثین نے بطریقِ معتبر روایت کیا کہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اثناء خطبہ میں تین مرتبہ فرمایا : یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ حاضرین مُتَحَیِّر و مُتَعَجِّب ہوئے کہ اَثناء ِخطبہ میں یہ کیا کلام ہے ۔ بعد کو آپ سے دریافت کیا گیا کہ آج آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ فرماتے فرماتے یہ کیا کلمہ فرمایا ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ لشکرِ اسلام جو ملکِ عجم میں مقامِ نِہاوَنْد میں کفار کے ساتھ مصروفِ پیکارہے میں نے دیکھا کہ کفار اس کو دونوں طرف سے گھیر کر مارنا چاہتے ہیں ۔ ایسی حالت میں مَیں نے پکار کر کہہ دیا کہ اے ساریہ ! جبل ۔ یعنی پہاڑ کی آڑلو ۔ یہ سن کر لوگ منتظر رہے کہ لشکر سے کوئی خبر آئے تو تفصیلی حال دریافت ہو ۔ کچھ عرصہ کے بعد ساریہ کا قاصد خط لے کر آیا اس میں تحریر تھا کہ جمعہ کے روز د شمن سے مقابلہ ہو رہا تھا خاص نماز جمعہ کے وقت ہم نے سنا : ”یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلْ” یہ سن کر ہم پہاڑ سے مل گئے اور ہمیں دشمن پر غلبہ حاصل ہوا یہاں تک کہ دشمن کو ہزیمت ہوئی ۔ (تاریخ الخلفاء عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ صفحہ ۹۹،چشتی)
خلیفۂ اسلام کی نظر مدینۂ طیَّبہ سے نِہاوَنْدمیں لشکر کو ملاحظہ فرمائے اور یہاں سے ندا کرے تو لشکر کو اپنی آواز سنائے نہ کوئی دوربین ہے نہ ٹیلیفون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی کا صدقہ ہے۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
ابوا لقاسم نے اپنی ”فوائد” میں روایت کی کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے اس کانام دریافت فرمایا:کہنے لگا: میرانام جمرہ (اخگر) ہے ۔فرمایا : کس کا بیٹا ؟ کہا : ابن شہاب (آتش پارہ ) کا، فرمایا :کن لوگوں میں سے ہے؟ کہا :حرقہ (سوزش) میں سے، فرمایا : تیرا وطن کہاں ہے ؟کہا :حرہ ( تپش) ،فرمایا: اس کے کس مقام پر ؟کہا: ذات لظٰی (شعلہ وار) میں ،فرمایا:اپنے گھر والوں کی خبر لے سب جل گئے، لوٹ کر گھر آیا تو سارا کنبہ جلا پایا ۔ (تاریخ الخلفاء، عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ، ص۱۰۰)
امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کا دریائے نیل خشک ہو گیا ۔ مصری رعایا مصر کے گورنر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اے امیر! ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا میں زندہ درگور کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا اب ہم کیا کریں ؟
گورنر نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رحمت والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگز ایسے ظالمانہ اور جاہلانہ فعل کی اجازت نہیں دیتا تم لوگ انتظار کرو میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھتا ہوں وہاں سے جو حکم ملے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔
چنانچہ گورنر کا قاصد مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیا اور دریائے نیل خشک ہونے کا حال سُنایا۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ خبر سُن کر نہ گھبرائے نہ پریشان ہوئے بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھا جیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو خط لکھ کر اُس سے مُخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے ۔
الیٰ نیل مصر من عبداللہ عمر بن الخطاب: اما بعد فان کنت تجری بنفسک فلا حاجۃ لنا الیک وان کنت تجری باللہ فانجر علی اسم اللہ ۔
اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا (تو میں امیرالمومنین رضی اللہ تعالی عنہ ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں) کہ تو پھر اللہ تعالیٰ کے نام پر جاری ہو جا ۔ (ازالۃ الخفاء جلد دوئم صفحہ نمبر ۱۶۶،چشتی)
ابو الشیخ نے ”کتاب العظمۃ” میں روایت کی ہے کہ جب مصرفتح ہوا تو ایک روز اہلِ مصر نے حضرت عمر وبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ اے امیر! ہمارے دریائے نیل کی ایک رسم ہے جب تک اس کو ادانہ کیاجائے دریاجاری نہیں رہتا انہوں نے دریافت کیا : کیا ؟ کہا : اس مہینے کی گیارہ تاریخ کو ہم ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین سے لے کر عمدہ لباس اور نفیس زیور سے سجا کر دریائے نیل میں ڈالتے ہیں ۔ حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اسلام میں ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا اور اسلام پرانی واہیات رسموں کو مٹاتا ہے ۔ پس وہ رسم موقوف رکھی گئی اور دریا کی روانی کم ہوتی گئی یہاں تک کہ لوگوں نے وہاں سے چلے جانے کا قصد کیا، یہ دیکھ کر حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں تمام واقعہ لکھ بھیجا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔بے شک اسلام ایسی رسموں کو مٹاتا ہے۔ میرے اس خط میں ایک رقعہ ہے اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔ عمرو بن عاص کے پاس جب امیر المومنین کا خط پہنچا اور انہوں نے وہ رقعہ اس خط میں سے نکالا تو اس میں لکھاتھا : ”از جانب بندۂ خدا عمر امیرا لمومنین بسوئے نیلِ مصر بعد ازحمدو صلوٰۃ آنکہ اگر تو خود جاری ہے تو نہ جاری ہو اور اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تو میں اللہ واحد قہار سے درخواست کرتاہوں کہ تجھے جاری فرما دے ۔ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈالا ایک شب میں سولہ گز پانی بڑھ گیااور بھینٹ چڑھانے کی رسم مصر سے بالکل موقوف ہوگئی ۔ (تاریخ الخلفاء،عمر بن الخطاب فصل فی کراماتہ،ص۱۰۰)
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس خط کو لفافے میں بند کر کے قاصد کو دیا اور فرمایا اس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہو گیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا ۔ یہ دریا کب سے خط پڑھنا سیکھ گیا جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خط کو پاتے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم کو پاتے ہی جاری ہو گیا، میری سمجھ میں بات یہی آتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے سچّے غلام تھے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا حکم دریاؤں پر بھی چلتا تھا ۔
امیرُالْمُؤمِنِین حضرت فاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک بار ایک صالِح (یعنی نیک پرہیز گار) نوجوان کی قَبْر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : اے فُلاں ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وعدہ فرمایا ہے : وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ ۔ (پ۲۷،الرحمٰن:۴۶)
ترجَمہ : اور جواپنے رب کے حُضُور کھڑے ہونے سے ڈرے اُس کےلیے دو جنّتیں ہیں ۔
اے نوجوان بتا تیرا قَبْر میں کیا حال ہے ؟
اُس صالِح (یعنی باعمل) نوجوان نے قَبْر کے اندر سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا نام لے کر پکارا اور بآوازِ بلند دو مرتبہ جواب دیا : قَدْ اَعْطَانِیْہِمَا رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْجَنَّۃِ ۔
میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے یہ دونوں جنّتیں مجھے عطا فرما دی ہیں ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکِر جلد ۴۵ صفحہ ۴۵۰،چشتی)
امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے فلاں! اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ولمن خاف مقام ربہ جنتان (یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں) اے نوجوان! بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟ اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نام لے کر پکارا اور بآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطا فرمادی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین جلد 2 صفحہ 860 بحوالہ حاکم)
کیا شان ہے فاروقِ اَعظم حضرتِ سیِّدُنا عُمَر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی کہ بعطائے رب عَزَّوَجَلَّ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اہلِ قَبْر کے اَحوال معلوم کر لیے ۔ اِس رِوایَت سے یہ بھی پتاچلا کہ جوشخص نیکیوں بھری زندَگی گزارے گا اور خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے لرزاں وترساں رہے گا ، بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں کھڑا ہو نے سے ڈرے گا ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمتِ کامِلہ سے دو جنّتوں کا حقدار قرار پائے گا ۔
امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر نہاوند کی سر زمین میں جہاد کیلئے روانہ فرمادیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا کہ یاساریۃ الجبل (یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ تو سرزمین نہاوند میں مصروف جہاد ہیں اور مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔ آج امیرالمومنین نے انہیں کیونکر اور کیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی۔ اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے کی آواز آئی جو چلا چلا کر یہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ! تم پہاڑ کی طرف اپنی پیٹھ کرلو۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ یہ تو امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آواز ہے۔ یہ کہا اور فوراً ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کرکے صف بندی کا حکم دیا اور اس کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو اچانک جنگ کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور چشم زدن میں اسلامی لشکر نے کفار کی فوجوں کو روند ڈالا اور عساکر اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکرکفارکا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا ۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات ص546)(حجۃ اللہ ج 2 ص860)(تاریخ الخلفاء ص 85)
روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خلافت کے دور میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا جب لوگوں نے دربار خلافت میں فریاد کی تو امیرالمومنین نے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس مقدس چادر کو لے کر روانہ ہوگئے اور جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے یکایک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی اور جب یہ چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 صفحہ 172،چشتی)
امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا‘ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فریاد کی اور یہ کہا کہ مصر کی تمام تر پیداوار کا دارو مدار اسی دریائے نیل کے پانی پر ہے۔ اے امیر! اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجایا کرتا تھا۔ اب ہم کیا کریں ؟ گورنر نے جواب دیا کہ ارحم الراحمین اور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رحمت بھرا دین ہمارا اسلام ہرگز ہرگز کبھی بھی اس بے رحمی اور ظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو۔ میں دربار خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتا ہوں۔ وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔ چنانچہ ایک قاصد گورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا ۔ امیرالمومنین نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’اے دریائے نیل! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا!‘‘ امیرالمومنین نے اس خط کو قاصد کے حوالہ فرمایا اور حکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں دفن کردیا جائے چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نےا س خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن کردیا۔ خدا کی شان کہ جیسے ہی امیرالمومنین کا خط دریا میں دفن کیا گیا‘ فوراً ہی دریا جاری ہوگیا اور اس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا ۔
مار سے زلزلہ ختم : امام الحرمین نے اپنی کتاب ’’الشامل‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آگیا اور زمین زوروں کے ساتھ کانپنے اور ہلنے لگی ۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جلال میں زمین پر ایک درہ مارا اور بلند آواز سے فرمایا : ’’اے زمین! ساکن ہوجا‘ کیا میں نے تیرے اوپر عدل نہیں کیا ہے؟‘‘ آپؓ کا فرمان جلالت شان سنتے ہی زمین ساکن ہوگئی اور زلزلہ ختم ہوگیا اور اس کے بعد مدینہ منورہ کی سرزمین کبھی نہ کانپی ۔ (حجۃ اللہ جلد 2 صفحہ 861،چشتی)(ازالۃ الخفاء مقصد 2 صفحہ 172)
روایت ہے کہ بادشاہ روم کا بھیجا ہوا ایک عجمی کافر مدینہ منورہ آیا اور لوگوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا پتہ پوچھا۔ لوگوں نے بتادیا کہ وہ دوپہر کو کھجور کے باغوں میں شہر سے کچھ دور قیلولہ فرماتے ہوئے تم کو ملیں گے۔ یہ عجمی کافر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے پاس پہنچ گیا اور یہ دیکھا کہ آپ اپنا چمڑے کا درہ اپنے سر کے نیچے رکھ کر زمین پر گہری نیند سورہے ہیں۔ عجمی کافر اس ارادے سے تلوار کو نیام سے نکال کر آگے بڑھا کہ امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو قتل کرکے بھاگ جائے مگر وہ جیسے ہی آگے بڑھا بالکل ہی اچانک اس نے یہ دیکھا کہ دو شیر منہ پھاڑے ہوئے اس پر حملہ کرنے والے ہیں‘ یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ خوف و دہشت سے بلبلا کر چیخ پڑا اور اس کی چیخ کی آواز سے امیرالمومنین بیدار ہوگئے اور یہ دیکھا کہ عجمی کافر کی ننگی تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے تھر تھر کانپ رہا ہے ۔ آپ نے اس کی چیخ اور دہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے سچ سچ سارا واقعہ بیان کردیا اور پھر بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگیا اور امیرالمومنین نے اس کے ساتھ نہایت مشفقانہ برتاؤ فرما کر اس کے قصور کو معاف کردیا ۔ (ازالۃ الخفاء مقصد 2 ص172)(تفسیر کبیر ج5 ص 478،چشتی)
شہادت حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود دی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کوہ احد پر تشریف لے گئے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان ۔ (صحيح البخاری، کتاب فضائل صحابة، رقم: 3483)
ترجمہ : اے احد ! ٹھہر جا ۔ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔
روضہ اقدس میں مزار
26 ذوالحجہ 23 ھجری کو آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے ۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے ۔ آخر وقت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاٶ اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے ۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی ہیں۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں نے وہ جگہ اپنی قبر کےلیے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے ۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آگئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے بٹھادو ۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیا گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو ایک بار پھر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگنا۔ اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کردینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جاکر دفنا دینا ۔
یکم محرم الحرام 24 ھجری کو اپنے بیٹے سے کہا : میری پیشانی زمین سے لگادو ۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان ، جان آفرین کے سپرد کردی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
بعض لوگ امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے یوم شہادت کی تاریخ یکم محرم الحرام کی نہ صرف نفی کرتے ہیں ، بلکہ جو اس بات کا قائل ہو ، اور اِس دن آپ کا یوم مناتا ہو ، اُسے طرح طرح کی باتیں بھی کرتے ہیں ، اور اب تو اِن علمی یتیموں کی بدمعاشیاں اتنی بڑھ چکی ہیں ، کہ سُنیوں کو یہ طعنہ بھی دینا شروع کردیا کہ : تم یکم محرم کو یومِ فاروق اعظم ، معاذاللہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بغض میں مناتے ہو ، کہ آپ کا یوم وصال تو 26 ذی الحج ہے لہٰذا اس دن آپ رضی الله کا ذکر وغیرہ کرتے ۔
ایسے مبغضین کےلیے کچھ حوالہ جات پیشِ خدمت ہیں : ⬇
ادارہ منہاج القرآن کے مفتی اعظم جناب علامہ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی صاحب لکھتے ہیں : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو 26 ذوالحجہ 23 ھجری بروز بدھ نماز فجر کے وقت جب آپ محراب میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے ابولولو فیروز مجوسی ایرانی نے دو دھاری دار خنجر سے تین یا چھ ضربیں لگائیں ۔ ۔ ۔ تین دن بعد آپ کی وفات ہوگئی اور بروز ہفتہ یکم محرم 24 ھجری آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قرب اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔(منہاج الفتاوی ، جلد اول صفحہ 496۔497 ، منہاج القرآن پبلی کیشنز لاہور،چشتی)
ماہنامہ منہاج القرآن ستمبر 2018ء میں حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ پر ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں لکھا ہے کہ : یکم محرم الحرام کو آپ (سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ) کا یوم شہادت ہے زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 16 ستمبر 2018 لاہور)
ادارہ منہاج القرآن کے مشہور ریسرچ اسکالر جناب ڈاکٹر علی اکبر الازھری صاحب کا مضمون ''حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیکرِ عدل و صاحب بصیرت'' شائع ہوا ، جس میں ٹاپ پر ہی لکھا ہے کہ : یوم شہادت یکم محرم الحرام کی مناسبت سے خصوصی تحریر ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن ، اکتوبر 2015ء لاہور،چشتی)
ایک ماہنامہ منہاج القرآن جو نومبر 2013ء میں شائع ہوا ، اُس میں بھی آپ کا یوم شہادت یکم محرم الحرام درج ہے ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن صفحہ 20 نومبر 2013ء لاہور)
ماہنامہ دختران اسلام منہاج القرآن اکتوبر 2016ء کے صفحہ نمبر 42 پر بھی 26 ذی الحج کو زخمی اور یکم محرم کو شہید ہونا لکھا ہے ۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ کا یوم شہادت 26 ذی الحج نہیں ، بلکہ یکم محرم الحرام ہے ، لہٰذا مبغضینِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا یکم محرم والے سُنّیوں پر فتوے لگانا ، انہیں بُرا بھلا کہنا اِن کی اپنی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، کہ یہ وہ جہلا ہیں ، جو نہ گھر کے نہ ہی گھاٹ کے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے ۔
صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو مجوسی تھا ۔ اس کا نام ابو لولوہ تھا ۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ اس سے روزانہ چار درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجیے ۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو چار درہم روز کے تمہارے لیے زیادہ نہیں ہیں ۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا ۔ 26 ذی الحجہ 23 ھجری بروز بدھ آپ رضی اللہ عنہ نماز فجر کی ادائیگی کےلیے مسجد نبوی میں تشریف لائے ۔ جب آپ نماز پڑھانے کےلیے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ بُری طرح زخمی ہو گئے اور تین دن کے بعد دس سال چھ ماہ اور چار دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دینے کے بعد 23 سال کی عًُمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شہادت کے موقع پر لوگوں نے پوچھا ، یا امیر المؤمنین کچھ وصیتیں فرمائیے اور خلافت کےلیے کسی کا انتخاب بھی فرما دیجیے اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا خلافت کےلیے میں ان چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مستحق سمجھتا ہوں جن سے اللہ کے رسول دنیا سے راضی ہو کر گئے ہیں ۔ پھر آپ نے چھ صحابہ کے نام بتائے ۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم ان چھ صحابہ میں سے جن کو چاہیں منتخب کر لیں ۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو خلیفہ کے انتخاب کےلیے جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ پہلے تین آدمی اپنا حق تین آدمیوں کو دے کر خلافت کے حق سے الگ ہو جائیں ۔ لوگوں نے اس کی حمایت کی ۔ چنانچہ حضرت زبیر حضرت علی کے حق میں ، حضرت سعد بن وقاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کے حق میں ، اور حضرت طلحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے حق میں دست بردار ہو گئے ۔
تینوں منتخب صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشورے کےلیے ایک طرف چلے گئے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنے لیے خلافت پسند نہیں کرتا لٰہذا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما خاموش کھڑے رہے ۔ پھر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے دونوں صحابہ سے فرمایا ۔ اگر آپ دونوں حضرات خلیفہ کے انتخاب کا کام میرے ذِمے چھوڑ دیں تو خدا کی قسم ! میں آپ دونوں میں سے بہتر اور افضل شخص کا انتخاب کروں گا ۔ دونوں حضرات اس پر متفق ہو گئے ۔ دونوں بزرگوں سے عہد و پیماں لینے کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت علی کو ایک کونے میں لے گئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے علی رضی اللہ عنہ آپ اسلام قبول کرنے والے اولین میں سے ہیں اور آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی عزیز ہیں لٰہذا میں اگر آپ کو خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ خلافت قبول کر لیں گے ۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں ۔ اگر میں آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو آپ پر خلیفہ مقرر کروں تو کیا آپ منظور کر لیں گے ۔ حضرت علی نے فرمایا ۔ مجھے یہ بھی منظور ہے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ، حضرت عثمان غنی کو ایک کونے میں لے گئے اور یہی دو سوال کئے وہ بھی متفق ہو گئے ۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس طرح حضرت علی نے بھی بیعت کر لی ۔ رضی اللہ عنہم ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر ایک کافر مجوسی ابو لؤلؤ فیروز نے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا ۔ اسلام کے سنہری دور اور فتنوں کے درمیان دروازہ ٹوٹ گیا تھا ۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آگیا ۔ اس حالت میں ایک نوجوان آیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہے تو آپ نے فرمایا : ابْنَ أخِیْ ! اِرْفَعْ ثَوْبَکَ فَإنَّہُ أَ نْقَی لِثَوْبِکَ وَأَتْقَی لِرَبِّکَ ‘‘ بھتیجے اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) اوپر کرو ، اس سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور تیرے رب کے نزدیک یہ سب سے زیادہ تقوے والی بات ہے ۔ (صحیح البخاری حدیث نمبر 3700،چشتی)
سبحان اللہ ! اپنے زخموں کی فکر نہیں بلکہ آخری وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو سربلند کرنے کی ہی فکر اور جذبہ ہے ۔ یا اللہ عزوجل ! ہمارے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔
یا اللہ عزوجل ! جو بدنصیب و بے ایمان لوگ امیر المؤمنین شہید رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں ، ان لوگوں کی بد نصیبیاں و بے ایمانیاں ختم کر کے ان کے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے ۔ جو پھر بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بُغض پر ڈٹا رہے ایسے شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ذلیل و رسوا کر دے آمین ۔ طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی لاہور پاکستان ۔
No comments:
Post a Comment