Sunday 10 July 2022

خضاب لگانے کا شرعی حکم حصّہ اوّل

0 comments

خضاب لگانے کا شرعی حکم حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے ۔ البتہ خالص سیاہ خضاب کے سلسلہ میں علماء نے جہاد میں دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کےلیے اور بیوی اگر جوان ہو تو اس کی دل جمعی کے خاطر اجازت دی ہے اور جہاں دھوکہ اور فریب کے مواقع ہو وہاں فقہاء نے مکروہ تحریمی کا حکم بیان کیا ہے ۔ جیسے شادی کےلیے کم عمری ظاہر کرنے کےلیےخضاب لگانا وغیرہ وغیرہ ۔ اور جہاں تک جوانی کا مسئلہ تو اس سلسلہ میں فقہاء نے گنجائش دی ہے ۔ کہ وہ سیاہ خضاب یعنی کالی مہندی کا استعمال کریں ۔

سیاہ رنگ کے سوا دوسرے رنگوں کا خضاب علمائے مجتہدین کے نزدیک جائز بلکہ مستحب ہے ۔ اورسفید بالوں کو رنگنے کا حکم مرد و عورت دونوں کےلیے یکساں ہے یعنی دونوں کےلیے اپنے سفید بالوں کومہندی سے رنگنا مستحب ہے اور مہندی میں کتم ۔ (یعنی ایک گھاس جو زیتون کے پتوں کےمشابہ ہوتی ہے ، جس کا رنگ گہرا سرخ مائل بسیاہی ہوتا ہے اس کی پتیاں ملا کر گہرے سرخ رنگ کا خضاب) تنہا مہندی کے خضاب سے بہتر ہے اور زرد رنگ اس سےبھی بہتر ہے ، الجوھرۃ النیرۃ میں ہیں : وأماخضب الشیب بالحناء،فلابأس بہ للرجال والنساء (الجوھرۃ النیرۃ کتاب الحظر و الاباحۃ،ج٢/٦١٧،مطبوعہ کراچی)
یعنی مردوں اورعورتوں کے لئےسفید بالوں کو مہندی سے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

خالص سیاہ خضاب میں تین صورتیں ہیں : ⬇

(1) ۔ مجاہدوغازی بوقت جہاد لگائے تاکہ دشمن پر رعب ظاہر ہو یہ باجماع ائمہ واتفاق مشائخ جائز ہے ۔
لما في العالمگیرية : وأماالخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاة ليكون اهيب في عين العدو فهومحمود منه،اتفق عليه المشائخ رحمهم الله تعالى ۔ (عالمگیری کتاب الکرہیت  ۲۰ ۳۹۹ ، جلد ۵)

(2) ۔ کسی کو دھوکہ دینے کےلیے سیاہ خضاب کریں ، جیسے مرد عورت کو یا عورت مرد کو دھوکہ دینے اور اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے کےلیے سیاہ خضاب لگائے یاکوئی ملازم اپنے آقا کو دھوکہ دینے کےلیے اس طرح کرے ، یہ بالاتفاق ناجائز ہے ۔

(3) ۔ صرف زینت کی غرض سے خالص سیاہ خضاب لگائے تاکہ اپنی بیوی کو خوش کرے ، اس میں اختلاف ہے جمہور ائمہ و مشائخ اس کو مکروہ فرماتے ہیں ، امام ابو یوسف اور دیگر بعض مشائخ علیہم الرحمہ جائز قرار دیتے ہیں ۔
أما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلک من الغزاۃ لیکون أھیب فی عین العدو فھو محمود منہ اتفق علیہ المشائخ و من فعل ذلک لیزین نفسہ للنساء أو لیحبب نفسہ الیھن فذلک مکروہ و علیہ عامۃ المشائخ ۔ (عالمگیری: ٥/٣٥٩)
(و یستحب للرجل خضاب شعرہ ولحیتہ ۔ و یکرہ بالسواد ۔ (درمختار)
و فی الشامیۃ قولہ یکرہ بالسواد أی بغیر الحرب ۔ وإن لیزین نفسہ للنساء فمکروہ‘ وعلیہ عامۃ المشائخ ۔ (کتاب الحظر والإباحۃ‘ باب فی البیع ٦/٤٢٢ ‘ ط سعید)

جوانی میں سیاہ خضاب لگانا

لیکن جوانی  میں بال سفید ہونے کی صورت میں سیاہ خضاب کے استعمال سے متعلق عبارات  فقہاء میں کوئی صریح عبارت  مذکور نہیں ۔ البتہ بڑھاپے میں سیاہ خضاب کی ممانعت کی جو علت  فقہاء کرام علیہم الرّحمہ نے ذکر فرمائی ہے وہ خداع اور دھوکہ ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کےلیے  سیاہ خضاب لگائے اس میں اگر چہ قصد خداع کا نہیں لیکن  دیکھنے والے جوان سمجھیں گے اس لیے ایک طرح کا دھوکہ یا کتمانِ حقیقت  ہے ۔ اس لیے جمہور فقہاء کرام نے مکروہ فرمایا ہے ۔ لیکن جوانی میں سیاہ خضاب لگانے میں کسی قسم کا دھوکہ یا کتمان حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک طرح  کا اظہار حقیقت  ہے کیونکہ سیاہ بال اس کی طبعی عمر کا تقاضا ہے اس لیے سیاہ خضاب  کا استعمال جائز معلوم ہوتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ جوانی میں بالوں کا سفید ہونا ایک عیب ہے  اور ازالہ عیب شرعاً جائز ہے ۔ جس طرح  جنگ  کلاب میں حضرت عرفجۃ بن اسعد رضی اللہ عنہ کی ناک  کٹ گئی تھی انہوں نے  چاندی کی ناک لگائی جب اس میں بدبو پیدا ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونے کی ناک بنوانے کی اجازت مرحمت  فرمائی اس پر قیاس کرتے ہوئے بھی جوانی میں سیاہ خضاب کا استعمال درست معلوم ہوتا ہے ۔ البتہ سیاہ رنگ جس سے تہ جم جاتی ہے درست نہیں ہے اس لیے کہ وہ مخل وضوء ہے ۔

عورت اگر زینت کےلیے اور شوہر کو خوش کرنے کےلیے خالص سیاہ خضاب لگائے تو اس کی گنجائش ہے ۔
فی تکملة فتح الملہم : اما خضاب المراة شعرھا لتتزین لزوجھا فقداجازہ قتادہ ….وکذالک اجازہ اسحاق فیما حکی عنہ ۔ (تکملة فتح الملہم ٤:١٤٨)

اب جوانی کا اطلاق کتنی عمر پر ہوتا ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، بعض اہل علم نے یوں فتویٰ دیا ہے کہ جوانی کی عمر میں کالا خضاب لگا سکتے ہیں ، عمر کی کوئی تحدید نہیں کی ، جبکہ بعض نے چالیس سال کی تحدید کی ہے کہ چالیس سال تک لگا سکتے ہیں ، اس کے بعد نہیں ۔ گویا جوانی کا معیار یہ ہے کہ جس میں عام طور سے بال سفید نہیں ہوتے ۔ تاہم بہتر اور احوط یہی ہے کہ جوانی میں بھی کالے خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب استعمال کیا جائے ، مثلا : سرخ ، زرد ، سرخی مائل بسیاہ یا گہرا براؤن خضاب استعمال کیا جائے جس کے جائز ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی نوجوان کالا خضاب لگالے تو امید ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا ۔

اب احادیث شریفہ کے نصوص پر غور کرتے ہے تو دو قسم کی روایات ہمارے سامنے آتی ہیں ، بعض روایات تو وہ ہیں جن سے مطلقا جواز ثابت ہوتا ہے اور بعض روایات وہ ہیں جن سے عدمِ جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اس لیے دونوں قسم کی روایات کو جمع کرنے کے بعد ہمیں غور کرنا ہےکہ سیاہ خضاب لگانا حرام ، مکروہ تحریمی اور موجب فسق ہے ، یا مکروہ  تنزیہی ہے ، جس کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانے والے پر فستق کا حکم نہیں لگ سکتا ۔

پہلی قسم کی روایات امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کا عمل نقل فرمایا ہے کہ یہ دونوں حضرات سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اور عالی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے ، اور اس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے ۔ نیز حضرت امامِ حسن و حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہم کا عمل بھی صحیح سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے اور حضرت امام محمد بن حنفیہ سے سیاہ خضاب لگانے کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو انہوں نے جواب دیا ” لا أعلم به بأسا ‘ ‘ (اس میں کوئی حرج نہیں) اور اس موضوع سے متعلق روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے فقیر چند روایات نقل کر دیتا ہے : ⬇

عن أبي عشانة المعافري قال : رأيت عقبة بن عامر يخضب بالسواد ، ويقول نسود أعلاها و تأبى أصولها ۔ (مصنف ابن أبي شيبة، مؤسسة علوم القرآن۵۵۰/ ۱۳،رقمرقم: ۲۵۵۶۹،چشتی)

عن الحسن أنه كان لا يرى بأسا بالخضاب بالسواد ۔ ( مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲ ، رقم : ۲۵۵۲۳)

عن قيس مولى خباب قال : دخلت على الحسن ، والحسين و هما يخضبان بالسواد ۔ (مصنف ابن أبي شیبة١٢/٥٥٤رقم : ۲۵۵۲۰
عن أبي عون قال : كانوا يسألون محمدا عن الخضاب بالسواد ، فيقول: لا أعلم به باسا ۔ (مصنف ابن أبي شيبة ٥٥٤/۱۲، رقم : ۲۰۰۲۶،چشتی)

عن سعيد بن المسيب أن سعد ابن أبي وقاص كان يخضب بالسواد ۔ (المعجم الكبير للطبراني، دار احیاء التراث العربي ۱۳۸/۱ ، رقم : ۲۹۵)

عن عامر بن سعدأن سعد ، كان يخضب بالسواد ۔ (المعجم الكبير للطبراني ۱۳٨ / ۱ / ۲۹۶، مجمع الزوائد ، دار الكتب العلمية بيروت ۱۹۸/۰)

دوسری قسم کی روایات جن میں سیاہ خضاب کی ممانعت ہے ، ان کی بھی تعداد اچھی خاصی ہے ، ان میں سے دو روایتیں ایسی ہیں جن میں کراہت تحریمی کا حکم لگانا ممکن ہے ۔

حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے ، جن میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہم کے والد حضرت ابو قحافہ کے بال کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم کیا گیا ہے ، اوران الفاظ سے حضورنے حکم فرمایا : غيروا هذا بشيئ واجتنبوا السواد ۔ (مسلم شریف ، باب في صبغ الشعر وتغيير الشيب ، النسخة الهندية ۲ / ۱۹۹ ، بیت الأفكار رقم : ۲۱۰۲ ، نسائي شريف ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دارالسلام رقم : ۵۰۷۶)

دوسری روایت عبد الله ابن عباس کی ہے، جس میں وعید کے الفاظ بھی موجود ہیں ، اس میں الفاظ یہ ہیں : قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يكون قوم یخضبون في آخرالزمان بالسواد كحواصل الحمام لايريحون رائحة الجنة ۔ (سنن أبوداؤد شریف ، باب ماجاء في خضاب السواد ، النسخة الهندية ۵۷۸/۲ ، دار السلام رقم : 4۲۱۲،چشتی،)(سنن النسائي ، النهي عن الخضاب بالسواد ، النسخة الهندية ۲۳۹/۲ ، دار السلام رقم : ۵۰۷۵)

پہلی روایت میں امر کا صیغہ ہے اور امر کا صیغہ وجوب کےلیے ہوتا ہے ، اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو جملے امر کے صیغہ کے ساتھ استعال فرمائے ہیں : پہلے جملے میں حضرت ابو قحافہ کے بالوں کو خضاب لگا کر تغیر کرنے کا حکم فرمایا ، دوسرے جملے میں سیاہ خضاب سے اجتناب کا حکم فرمایا ۔ دوسرے جملے سے سیاه خضاب سے اجتناب واجب ہے ، لہٰذا اس کا لگانا حرام یا مکروہ تحریمی ہے ، پہلے جملے میں بھی امر سے خطاب ہے جس میں سفید بالوں کو خضاب کے ذریعہ تغییر کرنے کا حکم ہے ، وہ بھی وجوب پر محمول ہونا چاہیے اس صورت میں سبھی سفید داڑھی والوں پر خضاب لگانا واجب ہوجائےگا ، حالانکہ سفید بال اور سفید داڑھی والوں پر خضاب لگا کر بالوں کی تغییر کے وجوب کا قائل کوئی بھی نہیں ہے ، اس لیے امر کے دونوں صیغے ترغیب پر محمول ہوں گے ، وجوب یاتحریمی پر نہیں ہو سکتے ۔

دوسری حدیث شریف میں اس قوم کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جن کو جنت کی بو بھی حاصل نہ ہوگی ، اس قوم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہچان بیان فرمائی ہیں : وہ قوم سیاہ خضاب لگائے گی۔
اس قوم کی جسمانی کیفیت کبوتروں کے پوٹے کی طرح ہوگی ، سیاہ خضاب لگانے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس قوم کی پہچان قرار دی ہے، وعید کی علت قرار نہیں دی ہے ، اور جن حضرات نے اس کو وعید کی علت قرار دی ہے ، ان کو اس حدیث شریف پر دوبارہ نظر ثانی کرنی چاہیے ، ور نہ حضرت سعد ابن ابی وقاص ، حضرت جریر بن عبد اللہ ، حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت امامِ حسن و حضرت امامِ حسین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر العیاذ باللہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب اور فسق کا الزام عائد ہو سکتا ہے ، جو قطعا درست نہیں ہے ۔

حضرت امام نووی علیہ الرحمہ نے اس بات پر اجماع نقل فرمایا ہے کہ ان روایات میں صیغہ امر سے بالاجماع وجوب کاحکم ثابت نہیں ہے ، اور صیغہ نہی سے بالاجماع مکروہ تحریمی یا حرمت کا ثبوت نہیں ہوتا ہے ؛ لہٰذا صرف مکروہ تنزیہی کا حکم ثابت ہو سکتا ہے ، امام نووی کی عبارت ملاحظہ فرمایئے : واختلاف السلف في فعل الأمرين بحسب اختلاف أحوالهم في ذالك مع أن الأمر والنهي في ذالک ليس للوجوب بالإجماع ، ولهذا لم ينكر بعضهم على بعض خلافه في ذالک قال : ولا يجوز أن يقال فيهما ناسخ و منسوخ ۔ (شرح نووي على المسلم ۱۹۹/۲ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے ۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے ۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سر انجام دینے کی ممانعت آئی ہے ۔ اس ممانعت کا کیا حکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلافِ اولیٰ ؟

اسلاف ِامت کا عمل پیش کرنے سے پہلے قارئین کرام وہ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں جن سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت ثابت کی جاتی ہے : ⬇

مرفوع احادیث اور ان کا صحیح معنیٰ و مفہوم

حدیث نمبر 1 : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ فتح مکہ والے دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ِگرامی سیدنا ابوقحافہ رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے۔ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال بالکل سفید تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غَیِّرُوا ھٰذَا بِشَيْئٍ، وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ‘ ’’اس سفیدی کو کوئی بھی رنگ دے دو ، البتہ سیاہ رنگ سے اجتناب کرو ۔‘‘ (صحیح مسلم : 199/2، ح : 2102)

اس حدیث میں دو باتوں کا حکم موجود ہے ، ایک بالوں کو رنگنے کا اور دوسرے سیاہ خضاب سے بچنے کا ۔ جس طرح بہت سے اسلاف بالوں کو نہیں رنگتے تھے اور ان کے فہم و عمل کی بنا پر بالوں کو رنگنا فرض نہیں ، اسی طرح بہت سے اسلاف سیاہ خضاب لگاتے تھے اور اس کی اجازت بھی دیتے تھے ، لہٰذا سلف کے فہم و عمل کی بنا پر سیاہ خضاب بھی حرام نہیں ۔ اس حدیثِ پاک میں موجود یہ دونوں حکم استحباب ہی پر محمول ہیں ۔

حدیث نمبر 2 : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ’یَکُونُ قَوْمٌ یَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ، کَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ، لَا یَرِیحُونَ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ‘ ۔
ترجمہ : آخری زمانے میں ایک قوم ایسی ہو گی جو کبوتر کے پوٹے کی طرح سیاہ خضاب لگائے گی ۔ یہ لوگ جنت کی خوشبو نہیں پائیں گے ۔ (سنن أبي داوٗد : 4213، سنن النسائي : 138/8، ح : 5078،چشتی)(مسند الإمام أحمد : 273/1)(المعجم الکبیر للطبراني : 413/12)(التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 909)(المختارۃ للضیاء المقدسي : 233/10، ح : 244)(شرح السنۃ للبغوي : 3180، وسندہٗ صحیحٌ)

اس حدیث کے بارے میں امامِ ذہبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ ۔ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ (سیر أعلام النبلاء : 339/4)

حافظ عراقی رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘کہا ہے ۔(تخریج إحیاء علوم الدین 143/1)

حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے اس کی سند کو ’’قوی‘‘ قرار دیا ہے ۔ (فتح الباري : 499/6)

اس کے راوی عبد الکریم جزری کو حافظ ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ نے عبد الکریم بن ابو المخارق سمجھ کر اس پر جرح کی ہے ۔(الموضوعات : 55/3)
حالانکہ اس حدیث کی بعض ’’صحیح‘‘ سندوں میں عبد الکریم کے جزری ہونے کی صراحت موجود ہے ۔

فائدہ : مسند اسحاق بن راہویہ (کما في النکت الظراف علی الأطراف لابن حجر : 424/4) میں یہ الفاظ ہیں : یَخْضِبُونَ لِحَاھُمْ بِالسَّوَادِ ۔ ’’وہ اپنی ڈاڑھیوں کو سیاہ خضاب لگائیں گے ۔‘‘

بعض لوگ اس حدیث ِپاک سے سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت پردلیل لیتے ہیں ، لیکن ان کا یہ استدلال کمزور ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلافِ امت اور محدثین کرام علیہم الرحمہ میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب کی ممانعت و حرمت کا قائل نہیں ۔ دوسری یہ کہ اہلِ علم نے اس حدیث کا یہ معنیٰ و مفہوم بیان نہیں کیا ، بلکہ بعض اہل علم نے اس سے سیاہ خضاب کی حرمت و کراہت کے استدلال کا ردّ کیا ہے ۔ اہل علم کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں : ⬇

مشہور محدث،امام ابوبکر ابن ابو عاصم رحمہ اللہ (287-206ھ) فرماتے ہیں : فَإِنَّہٗ لَا دَلَالَۃَ فِیہِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فِیہِ الْإِخْبَارُ عَنْ قَوْمٍ ھٰذَا صِفَتُھُمْ ۔ ’’اس حدیث میں سیاہ خضاب کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں۔اس میں تو ایک قوم کے بارے میں خبر دی گئی ہے،جن کی نشانی یہ ہو گی ۔‘‘ (فتح الباري في شرح صحیح البخاري لابن حجر : 354/10،چشتی)

امام طحاوی حنفی رحمة اللہ علیہ (321-238ھ)لکھتے ہیں : فَعَقَلْنَا بِذٰلِکَ أَنَّ الْکَرَاھَۃَ إِنَّمَا کَانَتْ لِذٰلِکَ، لِأَنَّہٗ أَفْعَالُ قَوْمٍ مَّذْمُومِینَ، لَا لِأَنَّہٗ فِي نَفْسِہٖ مَذْمُومٌ، وَقَدْ خَضَبَ نَاسٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالسَّوَادِ، مِنْھُمْ عُقْبَۃُ بْنُ عَامِرٍ ۔
ترجمہ : اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ کراہت اس لیے ہے کہ حدیث میں سیاہ خضاب قابل مذمت لوگوں کا فعل ہے ۔ اس لیے نہیں کہ سیاہ خضاب لگانا فی نفسہٖ مذموم ہے ۔ (شرح مشکل الآثار : 313/9، ح : 3699)

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (597 - 508ھ) فرماتے ہیں : وَاعْلَمْ أَنَّہٗ قَدْ خَضَبَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ بِالسَّوَادِ، مِنْہُمُ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَسَعْدُ ابْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَخَلْقٌ کَثِیرٌ مِّنَ التَّابِعِینَ، وَإِنَّمَا کَرِہَہٗ قَوْمٌ لِّمَا فِیہِ مِنَ التَّدْلِیسِ، فَأَمَّا أَنْ یَّرْتَقِيَ إِلٰی دَرَجَۃِ التَّحْرِیمِ، إِذْ لَمْ یُدَلِّسْ، فَیَجِبَ فِیہِ ہٰذَا الْوَعِیدُ، فَلَمْ یَقُلْ بِذٰلِکَ أَحَدٌ، ثُمَّ نَقُولُ عَلٰی تَقْدِیرِ الصِّحَّۃِ : یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ الْمَعْنٰی : لَا یَرِیحُونَ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ، لِفِعْلٍ یَّصْدُرُ مِنْہُم، أَوِ اعْتِقَادٍ، لَا لِعِلَّۃِ الْخِضَابِ، وَیَکُونُ الْخِضَابُ سِیمَاہُمْ، فَعَرَّفَہُمْ بِالسِّیمَا، کَمَا قَالَ فِي الْخَوَارِجِ : سِیمَاہُمُ التَّحْلِیقُ، وَإِنْ کَانَ تَحْلِیقُ الشَّعْرِ لَیْسَ بِحَرَامٍ ۔
ترجمہ : آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے سیاہ خضاب استعمال کیا ہے ۔ ان میں سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما ، سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ بہت سے تابعین کرام علیہم الرحمہ بھی ایسا کرتے تھے ۔ بعض لوگوں نے اسے اس لیے مکروہ سمجھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھوکا ہے ۔ رہی یہ بات کہ سیاہ خضاب کے ذریعے دھوکے کا ارادہ نہ بھی ہو تو اس کا استعمال حرمت کے درجے تک پہنچ جائے اور اس کے استعمال کنندہ پر جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کی وعید صادق آ جائے ، تو یہ بات آج تک کسی اہلِ علم نے نہیں کہی ۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس معنیٰ کا احتمال ہے کہ وہ اپنے کسی غلط عقیدے یا عمل کی بنا پر جنت کی خوشبو سے محروم رہیں گے ، سیاہ خضاب کی بنا پر نہیں ۔ یہ خضاب تو ان کی ایک نشانی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی پہچان کےلیے بتلائی ہے ، جس طرح خارجیوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا کہ ان کی نشانی سر کے بالوں کو منڈانا ہے ۔ اس کے باوجود سر کے بالوں کو منڈانا حرام نہیں ۔ (الموضوعات : 55/3)

ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث میں موجود وعید سیاہ خضاب کی وجہ سے نہیں ، ورنہ ’’آخری زمانے‘‘ کی قید کا کیا معنیٰ ؟ سیاہ خضاب کا استعمال کرنے والے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔

غیرمقلد عالم عبد الرحمن مبارک پوری (1353ھ) لکھتے ہیں :
فَالِاسْتِدْلَالُ بِہٰذَا الْحَدِیثِ عَلٰی کَرَاھَۃِ الْخَضْبِ بِالسَّوَادِ لَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔
ترجمہ : اس حدیث سے سیاہ خضاب کے مکروہ ہونے کی دلیل لینا صحیح نہیں ۔ (تحفۃ الأحوذي : 55/3)

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ’إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُیِّرَ بِہٖ ھٰذَا الشَّیْبُ الْحِنَّائُ وَالْکَتَمُ‘ ۔
ترجمہ : بڑھاپے کے سفید بالوں کو رنگنے کےلیے بہترین چیز مہندی اور کتم کا آمیزہ ہے ۔ (سنن أبي داوٗد : 4205، مسند الإمام أحمد : 147/5، 150، وسندہٗ صحیحٌ)

اس حدیث کے راوی سعید بن ایاس جُرَیری آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے ، البتہ معمر اور عبد الوارث نے ان سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں ، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے ۔

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (1753) نے ’’حسن صحیح‘‘ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (5474) نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) ’’کتم‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : وَالْکَتَمُ نَبَاتٌ بِالْیَمَنِ، یُخْرِجُ الصَِّبْغَ أَسْوَدَ، یَمِیلُ إِلَی الْحُمْرَۃِ، وَصَِبْغُ الْحِنَّائِ أَحْمَرُ، فَالصَِّبْغُ بِھِمَا معًا یَخْرُجُ بَیْنَ السَّوَادِ وَالْحُمْرَۃِ ۔
تجمہ : کتم یمن کے علاقے کی ایک بُوٹی ہے جو سرخی مائل سیاہ رنگ دیتی ہے ۔ مہندی کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔یوں کتم اور مہندی مل کر سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ دیتے ہیں ۔ (فتح الباري : 355/10)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہی اور سرخی کا درمیانی رنگ سفید بالوں کو دینے کےلیے بہتر اور احسن رنگ ہے ۔ اس سے کالے خضاب کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔

ان صحیح احادیث اور ان کے بارے میں اہلِ علم کی رائے کے بعد سیاہ خضاب کے بارے میں سلف صالحین علیہم الرحمہ  کا عمل اور فہم ملاحظہ فرمائیں : ⬇

سیاہ خضاب اور سلف صالحین
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سیاہ خضاب : ⬇

حضرے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : أُتِيَ عُبَیْدُ اللّٰہِ ابْنُ زِیَادٍ بِرَأْسِ الحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ، فَجَعَلَ یَنْکُتُ، وَقَالَ فِي حُسْنِہٖ شَیْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ : کَانَ أَشْبَہَہُمْ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ مَخْضُوبًا بِالوَسْمَۃِ ۔
ترجمہ : عبیداللہ بن زیاد کے پاس سیدنا امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک لایا گیا ۔ اسے ایک پلیٹ میں رکھ دیا گیا ۔ عبیداللہ زمین کُریدنے لگا اور اس نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے حسن کی تعریف کی ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو سیاہ خضاب لگا ہوا تھا ۔ (صحیح البخاري : 530/1، ح : 3748)

امام ابوجعفر باقر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ کَانَ یَخْضِبُ بِالسَّوَادِ ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سیاہ خضاب سے اپنے بالوں کو رنگ دیتے تھے ۔ (المعجم الکبیر للطبراني : 22/3، ح : 2535، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبھاني : 1750، وسندہٗ صحیحٌ،چشتی)

حي بن یومن،ابوعشانہ معافری بیان کرتے ہیں : رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ الْجُھَنِيَّ، یَصْبَغُ بِالسَّوَادِ ۔
ترجمہ : میں نے سیدنا عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ۔ آپ سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 437/8، التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ : 1391، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 345/7، الثقات لابن حبّان : 280/3، المعجم الکبیر للطبراني : 268/17، وسندہٗ صحیحٌ متّصلٌ،چشتی)
ایک روایت میں ہے : إِنَّہٗ کَانَ یَصْبَغُ شَعْرَ رَأْسِہٖ بِشَجَرَۃٍ، یُقَالُ لَھَا : ، کَأَشَدِّ السَّوَادِ ۔
ترجمہ : آپ اپنے سرکے بالوں کو ایک ۔۔۔ نامی درخت سے رنگ دیتے تھے ۔ یہ سخت سیاہ رنگ ہوتا تھا ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 437/8، وسندہٗ صحیحٌ)

تابعین عظام اور سیاہ خضاب

درج ذیل تابعین کرام رضی اللہ عنہم بھی سیاہ خضاب لگاتے تھے : ⬇

ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف،قرشی (م : 94/104ھ) ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد : 119/5، وسندہٗ صحیحٌ)

محمد بن اسحاق بن یسار،مدنی (م : 150ھ)۔ (المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفسوي : 137/1، وسندہٗ صحیحٌ)

علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب،قرشی،ہاشمی(118ھ) ۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 240/5، وسندہٗ صحیحٌ)

ابوقلابہ،عبد اللہ بن زید بن عمرو،جرمی،بصری (م : 104ھ) ۔
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 138/7، وسندہٗ صحیحٌ)

ابو عبد اللہ،بکر بن عبداللہ مزنی بصری(م : 106ھ) ۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 158/7، وسندہٗ صحیحٌ،چشتی)

قاضی ،محارب بن دثار سدوسی کوفی(م : 116ھ) ۔ (مسند علي بن الجعد : 725، وسندہٗ حسنٌ)

ابوبکر،محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری مدنی (م : 125ھ) ۔ (جامع معمر بن راشد : 155/11، وسندہٗ صحیحٌ)

موسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ قرشی(م : 103ھ) ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 436/8، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 124/5، وسندہٗ حسنٌ،چشتی)

نافع بن جبیر بن مطعم بن عدی قرشی،نوفلی (م : 99ھ) ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 430/8)(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 158/5، وسندہٗ حسنٌ)

امام شعبہ بن حجاج کے استاذ عمر بن ابوسلمہ ۔ (تہذیب الآثار للطبري : 895، وسندہٗ صحیحٌ، الجزء المفقود)

ابوخطاب امام قتادہ بن دعامہ بن قتادہ سدوسی بصری (م : بعد 110ھ) نے فرمایا : رَخَّصَ فِي صِبَاغِ الشَّعْرِ بِالسَّوَادِ لِلنِّسَائِ ۔
ترجمہ : عورتوں کےلیے بالوں کو سیاہ خضاب دینے میں رخصت ہے ۔ (جامع معمر بن راشد : 20182، وسندہٗ صحیحٌ)

عبداللہ بن عون بیان کرتے ہیں : کَانُوا یَسْأَلُونَ مُحَمَّدًا عَنِ الْخِضَابِ بِالسَّوَادِ، فَیَقُولُ : لَا أَعْلَمُ بِہٖ بَأْسًا ۔
ترجمہ : لوگ محمدبن سیرین تابعی رحمة اللہ علیہ (م : 110ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں سوال کرتے تھے ۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں جانتا ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 436/8، وسندہٗ صحیحٌ)

تابعین کے کچھ متعارض اقوال

سابقہ تصریحات قارئین ملاحظہ فرما چکے ہیں اس کے برعکس امام عطاء بن ابو رباح رحمة اللہ علیہ (115-27ھ) سے سیاہ خضاب استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
ھُوَ مِمَّا أَحْدَثَ النَّاسُ، قَدْ رَأَیْتُ نَفَرًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا مِّنْھُمْ یَخْتَضِبُ بِالْوَسْمَۃِ، مَا کَانُوا یَخْضِبُونَ إِلَّا بِالْحِنَّائِ وَالْکَتَمِ وَھٰذِہِ الصُّفْرَۃِ ۔
تجمہ : یہ تو لوگوں نے نیا طریقہ بنایا ہے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کو دیکھا ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی سیاہ خضاب نہیں لگاتا تھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا درخت) ملا کر اور اس زرد رنگ کے ساتھ بالوں کو رنگ دیتے تھے ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 438/8، وسندہٗ صحیحٌ،چشتی)

امام عطا رحمة اللہ علیہ نے اپنے علم کے مطابق یہ بیان دیا ہے ۔ ہم صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال ثابت کر چکے ہیں ۔ امام عطا رحمة اللہ علیہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہیں دیکھا ہو گا جو سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے ۔

امام سعید بن جبیر تابعی رحمة اللہ علیہ (م : 95ھ) سے سیاہ خضاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : یَکْسُو اللّٰہُ الْعَبْدَ فِي وَجْہِہِ النُّورَ، ثُمَّ یُطْفِئُہٗ بِالسَّوَادِ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ بندے کے چہرے کو منور کرتا ہے ، پھر بندہ سیاہ خضاب کے ساتھ اس نور کو بجھا دیتا ہے ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 439/8، وسندہٗ صحیحٌ)

خضاب بالوں کو لگایا جاتا ہے ، چہرے کو نہیں ۔ مہندی اور کتم ملا کر خضاب لگایا جائے تو زرد سا رنگ نکلتا ہے اور یہ سنت سے بھی ثابت ہے ۔ کیا کہا جا سکتا ہے کہ بندے نے نورانی چہرے کو زرد کر لیا ؟ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے ، ان کے چہروں سے نور ختم نہیں ہوا تھا ؟ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے ۔

امام مکحول تابعی رحمة اللہ علہ (م : بعد110ھ) نے سیاہ خضاب کو مکروہ قرار دیا ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 438/8، وسندہٗ صحیحٌ،چشتی)

اس سے کراہت تنزیہی یعنی خلافِ ِاولیٰ ہونا مراد ہے ۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں موجود ممانعت سے یہی مراد ہے ۔اسلافِ امت علیہم الرحمہ میں سے کسی نے سیاہ خضاب کو ناجائز ، ممنوع اور حرام قرار نہیں دیا ۔

ائمہ دین علیہم الرّحمہ اور سیاہ خضاب : ⬇

امام اسحاق بن راہویہ رحمة اللہ علیہ (م : 294ھ) سے پوچھا گیا کہ عورت سیاہ خضاب استعمال کر سکتی ہے ، توانہوں نے فرمایا : لَا بَأْسَ بِذٰلِکَ لِلزَّوْجِ أَنْ تَتَزَیَّنَ لَہٗ ۔
ترجمہ : عورت اپنے خاوند کےلیے مزین ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (الوقوف والترجّل من الجامع لمسائل الإمام أحمد لأبي بکر الخلّال : 142، وسندہٗ صحیحٌ)

امام مالک رحمة اللہ علیہ (179 - 93ھ) سیاہ خضاب کے بارے میں فرماتے ہیں : لَمْ أَسْمَعْ فِي ذٰلِکَ شَیْئًا مَّعْلُومًا، وَغَیْرُ ذٰلِکَ مِنَ الصَّبْغِ أَحَبُّ إِلَيَّ، وَتَرْکُ الصَّبْغِ کُلِّہٖ وَاسِعٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ، لَیْسَ عَلَی النَّاسِ فِیہِ ضَیْقٌ ۔
ترجمہ : میں نے اس بارے میں کوئی متعین بات نہیں سنی ۔ سیاہ کے مقابلے میں دوسرے رنگ مجھے زیادہ پسند ہیں ۔ بالوں کو بالکل نہ رنگنے کی بھی گنجائش ہے ۔ ان شاء اللہ ! بالوں کو خضاب لگانے کے بارے میں لوگوں پر کوئی تنگی نہیں رکھی گئی ۔ (المؤطّأ للإمام مالک بروایۃ یحیٰی : 3497) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔