Saturday 16 July 2022

فضائل و مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حصّہ ششم

0 comments

فضائل و مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرتِ عثمان ذوالنورین اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم :  تیسرے خلیفہ راشد، ذوالنورین ، حیا دار و سخی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کے ایسے محبوب کہ جن سے آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں ، رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادیاں کردیں ۔ کسی ایک ہی آدمی کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں ، یہ ایسا شرفِ عظیم ہے جو نہ پہلی امتوں میں سے کسی کو ملا نہ پچھلی امتوں میں سے کسی کو ۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دوست و ہم سر ، جنہوں نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے ہجرت کی ، اسلام کا پرچم اٹھا کر دنیا کے ان کونوں تک پہنچے جو ابھی تک اسلام کے نام سے نا آشنا و بیگانہ تھے ، جنہوں نے مسلمانوں کی فتوحات میں گراں قدر اضافہ کیا ۔ نئے اور وسیع و عریض ممالک کو فتح کرکے اسلامی مملکت کے زیرنگیں کیا ۔ جنہوں نے اپنی جیب سے مسلمانوں کی ہر موقع پر دل کھول کر امداد کی ۔ اس ارضِ مقدس پر جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے اپنے نبوت و رسالت والے قدموں سے مقدس بنا دیا ، ہجرت کے بعد جب اس سرزمین پر مسلمانوں کے پانی پینے کےلیے کوئی کنواں نہیں تھا ، آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو کنواں خرید کر دیا تھا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ ہی نے زمین کا وہ ٹکڑا خرید کر دیا، جس پر مسلمانوں نے وہ مسجد تعمیر کی ، جسے آخری نبی صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کی آخری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کا یہ لطف و کرم اور جو دو سخا عوام اور خواص سب کےلیے تھا ، جہاں آپ نے جیشِ عسرہ کو امدادِ بہم پہنچا کر اور اسی جیسی دوسری خدمات پیش کرکے اجتماعی بہبود کے کام کیے ، وہاں آپ رضی اللہ عنہ خواص کےلیے بھی سراپا خیر و برکت ، کریم و سخی اور ان کی ضروریات کےلیے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا کرتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شادی میں آپ رضی اللہ عنہ کی مدد و معاونت کی تھی ۔ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جنہیں شیعہ حضرات پہلا امام معصوم ، سب نبیوں ، رسولوں اور اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی افضل و برتر سمجھتے ہیں ۔ (المناقب للخوارزمی ص ۲۵۲، ۲۵۳ مطبوعہ نجف)۔(کشف الغمۃ للاربلی ج ۱ ص ۳۵۹)۔(بحارالانوار للمجلسی ص ۳۹،۴۰ مطبوعہ ایران)

آپ رضی اللہ عنہ ہی نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو شادی کے تمام اخراجات مہیا کیے ، جیسا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اپنی زرہ بیچ دو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تاکہ میں تمہارے اور اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کےلیے (ایسا سامان وغیرہ) تیار کروں جو تم دونوں کےلیے اچھا رہے ، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اپنی زرہ اٹھائی اور اسے بیچنے کےلیے بازار کی طرف چل نکلا ۔ وہ زرہ میں نے چار سو درہم کے عوض عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ ڈالی ۔ جب میں نے آپ سے درہم لے لیے اور آپ نے مجھ سے زرہ لے لی تو آپ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے بوالحسن کیا اب میں زرہ کا حقدار اور تم درہم کے حق دار نہیں ہو ؟ میں نے کہا : ہاں کیوں نہیں ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : تو پھر یہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے ، میں نے زرہ بھی لے لی اور درہم بھی لے لیے اور نبی صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کے پاس آگیا ۔ میں نے زرہ اور درہم دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کو بتایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے ان کےلیے دعائے خیر کی ۔

شیعہ حضرات کے نزدیک بارہ امام ، انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں ! محمد بن حسن الصفار ’’بصائر الدرجات‘‘ میں عبداللہ بن ولید سمان سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’مجھ سے ابوجعفر علیہ السلام نے پوچھا ، اے عبداللہ! علی، موسیٰ اور عیسیٰ کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا میں قربان جاؤں، کس پہلو کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں ؟ آپ نے کہا : علم کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہا : وہ (علی رضی اللہ عنہ) خدا کی قسم ان دونوں سے زیادہ عالم تھے، آپ نے کہا: اے عبداللہ کیا یہ نہیں کہتے کہ جتنا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کو تھا ، سب علی کو بھی تھا ؟ میں نے کہا : ہا آپ نے کہا پھر اس میں وہ جھگڑنے لگے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہے ، وکتبنا لہ فی الالواح من کل شی ۔ (اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز) ۔ تو ہمیں بتایا کہ پوری بات ان پر واضح نہیں تھی ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم سے کہا تھا : و جئنالک علیٰ ھولاء شھیدا ۔ وانزلنا علیک القرآن تبیانا لکل شیئ ۔ (اور ہم لائے ہیں آپ کو ان لوگوں پر گواہ اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم پر قرآن اتارا ہے جس میں ہرچیز کی وضاحت ہے ۔

علی بن اسماعیل محمد بن عمر زیات سے روایت کرتے ہیں کہ : ابوعبداللہ نے پوچھا : موسیٰ، عیسیٰ اور امیر المومنین علیہم السلام کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ موسیٰ اور عیسیٰ امیر المومنین سے افضل تھے ، آپ نے کہا: کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین ہر وہ چیز جانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم جانتے تھے ؟ میں نے کہا : ہاں مگر وہ خدا کے اولو العزم نبیوں میں سے کسی پر آپ کو ترجیح نہیں دیتے ، کہتا ہے ، ابو عبداللہ نے کہا : تو پھر وہ کتاب اللہ سے جھگڑتے ہیں ، میں نے پوچھا ، کتاب اللہ کے کس مقام سے ؟ آپ نے کہا : اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : وکتبنا لہ فی الالواح من کل شیئ  اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز ۔ عیسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ ۔ اور تاکہ میں واضح کروں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو ۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم سے کہا تھا ۔ وجئنا بک علٰی ھٰؤلاء شھیدا ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ ۔ اور ہم لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کو ان پر گواہ اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے ۔
علی بن محمد سے روایت ہے ، ابوعبداللہ نے کہا : خدا نے اولوالعزم رسول پیدا کیے اور انہیں علم کی فضیلت بخشی ، ہمیں ان کا علم دیا گیا اور ان کے علم پر فضیلت بخشی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کو وہ علم دیا گیا ، جو انہیں نہیں دیا گیا تھا، ہمیں ان کا علم بھی دیا گیا اور رسول کا علم بھی ۔ (منقول از شیعہ کتاب ۔ الفصول المہمۃ للحرالعاملی ص ۲۵۱، ۲۵۲)

ابنِ بابویہ قمی شیعہ نے بھی اپنی کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ میں روایت بیان کی ہے کہ ’’ابو الحسن علی بن موسیٰ رضا اپنے والد کے، وہ اپنے آباء کے، وہ علی کے واسطہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم پر نازل ہوئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم خدائے بزرگ و برتر کہہ رہے ہیں : اگر میں علی علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا تو میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کےلیے روئے زمین پر آدم سے لے کر مابعد آنے والوں تک کوئی ہم پلہ نہ ہوتا ۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۱ ص ۲۲۵)

شیعہ سید لاجوردی اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے کہتا ہے : بعض محققین نے حدیث کے اس فقرے سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام نبیوں سے افضل ہیں ۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۱ ص ۲۲۵،چشتی)

حرالعاملی نے تہذیب میں طوسی شیعہ سے نقل کرتے ہوئے یہ روایت اسی عنوان کے تحت درج کی ہے کہ ’’یہ باب اس بارے میں ہے کہ بارہ امام تمام مخلوقات، انبیاء او صیاء اور ملائکہ وغیرہ سے بھی افضل ہیں ۔ (شیعہ کتاب ’’الفصول المہمۃ‘‘ صفحہ ۵۱ مطبوعہ قم ایران)

اسی باب میں ایک اور روایت بھی رضا سے نقل کی گئی ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے فرمایا : خدا نے کسی کو بھی مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ عزت والا نہیں بنایا ۔ علی کہتے ہیں میں نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم آپ افضل ہیں یا جبرئیل ؟ آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے کہا : اللہ نے اپنے فرستادہ نبیوں کو مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے ۔ اور مجھے تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بنایا ہے ۔ اے علی میرے بعد افضلیت تیرے لیے اور تیرے بعد آنے والے ائمہ کے لیے ہے۔ فرشتے ہمارے اور ہم سے محبت کرنے والوں کے خادم ہیں ۔ اس کے بعد کہا ۔ اور ہم کیوں فرشتوں سے افضل نہ ہوں ، ہم اپنے رب کی معرفت اور تسبیح و تقدیس میں ان سے سبقت لے گئے ہیں ۔ اس کے بعد کہا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، اور ہمیں ان کی پشت میں رکھا، پھر ہماری عظمت اور اکرام کی وجہ سے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، ان کا سجدہ خدائے بزرگ و برتر ہی کی عبودیت کےلیے تھا لیکن اس میں بنی آدم کا اکرام اور اطاعت بھی تھی، ہم آپ کی پشت میں تھے تو کیونکر فرشتوں سے افضل نہ ہوئے کہ سب کے سب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا ہے ۔ (شیعہ کتب ۔ الفصول صفحہ ۱۵۳،چشتی)(عیون اخبار الرضا‘‘ جلد ۱ ص ۲۶۳‘ زیرِ عنوان افضیلت النبی والائمہ علی جمیع الملائکۃ والانبیاء علیہم السلام)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، اللہ ، ابو عمرو (حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ) پر رحم کرے، آپ سب سے کریم مددگار اور سب سے افضل بزرگ و پرہیزگار تھے ۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے تھے، دوزخ کا ذکر ہوتا تو آپ بہت رونے اور آنسو بہانے والے تھے، نیکی و اچھائی کے کام میں چست اور ہر عطاؤ بخشش میں سب سے آگے تھے، بڑے پیارے، وفادار تھے، آپ رضی اللہ عنہ ہی نے جیشِ عسرہ کو سازو سامان دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے ۔ (شیعہ کتب ۔ تاریخ المسعودی‘‘ ج ۳ ص ۵۱ مطبوعہ مصر)(ناسخ التواریخ للمرزہ محمد تقی ج ۵ ص ۱۴۲ مطبوعہ طہران)

نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے گواہوں میں آپ رضی اللہ عنہ کو بھی گواہ بنایا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے فرمایا : ’’جاؤ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اور اتنے ہی آدمی انصار میں سے، چنانچہ میں گیا اور ان کو بلا لایا۔ جب سب حضرات اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے چار سو مثقال چاندی کے عوض کردیا ہے ۔ (کشف الغمۃ‘‘ ج۱ ص ۳۵۸ ’’المناقب‘‘ للخوارزمی ص ۲۵۲ ’’بحارالانوار‘‘ للمجلسی ج ۱۰ ص ۳۸)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے یہ شرف و فخر ہی بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کرکے انہیں اپنے ذوی الارحام اور سسرالی رشتہ داروں میں شامل کرلیا۔ اسی بناء پر شیعہ حضرات آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت و امامت، اور آپ رضی اللہ عنہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل ہیں تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں کیں ؟ عثمان رضی اللہ عنہ کےلیے یہ بات بھی باعثِ فخر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی شادی پر سارا خرچہ کیا، اس کے لیے تمام اسباب مہیا کیے اور انہیں شادی کا ایک گواہ بنایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے یہی فخر بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو وہ شرف و اعزاز ملا، جو پوری کائنات میں سے کسی کو نہیں ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں آپ رضی اللہ عنہ سے کیں ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے گی ۔
پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے مکہ میں حکم خداوندی سے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی آپ رضی اللہ عنہسے کردی کہ آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کی شان یہ ہے : وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔
رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی بھی آپ رضی اللہ عنہ سے کردی ۔ شیعہ حضرات کے علماء بھی ان شادیوں کے معترف ہیں ۔ دیکھیے انتہائی متعصب شیعہ، مجلسی، جو صحابہ علیہم السلام پر بد زبانی و طعن میں مشہور و معروف ہے، اپنی کتاب ’’حیات القلوب‘‘ میں ابنِ بابویہ قمی سے سندِ صحیح کے ساتھ نقل کر رہا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم کے ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے قاسم، عبداللہ (جنہیں طاہر کہا جاتا ہے) ، امِ کلثوم ، رقیہ ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن پیدا ہوئیں ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی ، ابو العاص بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے زینب رضی اللہ عنہا سے ، یہ دونوں حضرات بنی امیہ سے تھے ۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو کہ تعلقِ زوجیت سے پہلے ہی وفات پاگئیں ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم بدر کی طرف جانے لگے تو رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ  آلہ وسلم نے ان کی شادی کردی ۔ حیات القلوب للمجلسی جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۸۸ باب ۵۱،چشتی)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات : ⬇

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقفِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسرت و تنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبوت سے دادِ تحسین حاصل کرنا او رسرکار کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں ۔ جیسا کہ ہم سابقہ مضامین میں تفصیل سے عرض کر چکے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ،بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ،دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کے لئے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔

ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جن کا ان کی ذات کو مورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہیے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام سے لے کرآج تک زوروشور سے جاری ہے۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے ۔
پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں۔۔۔۔۔۔ اس کاتیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ،خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کاجواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔فرمایا!۔۔۔۔۔۔جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں انکی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟)دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر سرکارؐ نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا۔

اور تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بناکر ان کازبردست اعزازواکرام فرمایا انکے مکہ جانے کے بعدبیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی رسول اللہ ؐ نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ،اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا،یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچادکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیاکہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ شریف مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہو چکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا اور سادہ لوح عوام کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر خلیفہءِ اسلام سے بد گمان کر کے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات آج بھی ان خود ساختہ الزامات کو بنیاد بنا کر حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں ۔ اور اہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کر کے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہذا مناسب ہوگا کہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیا جائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کیے گئے ہیں ۔

(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ،چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹاکرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور انکی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ،اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹاکر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ،یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا،ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیا د اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ،عبد اللہ بن عامر ،اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی کے قریبی رشتہ دار تھے ۔

(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔

(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ،سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لیے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچاتھے ۔

(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ،کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھامدینہ طیبہ میں حضر ت علی،حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کررہاتھا ،جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑاہے جو حضرت عثمان غنی نے گورنر مصر کے نام لکھاہے جس میں اسے حکم دیا گیاہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ،اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ،اسلئے لوگوں نے نتیجہ نکالاکہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگاجوحضر ت عثمان کے چچازادبھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔

(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃالوداع میں منیٰ وعرفات میں نمازِ قصر ادافرمائی اورشیخین کاعمل بھی اسی پررہامگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میںاتمام کرتے تھے جو سرکارؐاور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔

ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں : ⬇

پہلے ،دوسرے اور پانچویں سوالوں اوربہت سے دیگرسوالات کے خودحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دئیے جوھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں،چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ،ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیاکہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طورپرمال دیتے ہیں مثلاًعبداللہ بن سعدکوآپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیاکہ میں اسکو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیاہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ،فاروقی میں بھی اسکی مثالیں موجود ہیں ۔ اسکے بعد ایک اورشخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیزواقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاًمعاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھاہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کومعزول کرکے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ،کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجداکرکے ولید بن عقبہ کواسکے بعد سعید بن العاص کوامیربنایا۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایاکہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اور مجھ پران کی بے جارعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلیے تیارہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کرکے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہاتم نے بلا استحقاق اور ناقابلِ رشتہ داروں کوامارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاًعبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں انکو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیاکہ عبد اللہ بن عامر عقل وفراست ،دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ بن زید کو صرف ١٧ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔

اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی،اپنے رشتہ داروں کیلئے بلااستحقاق کیسے لے سکتاہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیا ر ہے چاہے جسکو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہاکہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیںمیں انکو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اوروہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اسکا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔

پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میںپوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذامیرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد اول ص٣٤١،چشتی)

گورنروں کے عزل و نصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اسکے معقول اسبا ب ووجودہ تھے۔ اورجن حضر ت کا تقررفرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ سر کار ،عہدِشیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں سرکارؐ نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے۔

جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے انکی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں سرکا رؐ سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے انکی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔

چنانچہ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ ٥٣ مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ ! ''فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان'' ۔
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کومدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ؐ سے سفارش کی تھی تو سرکارؐ نے مجھ سے انکی واپسی کاوعدہ فرمایا ۔

او ر چوتھے سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اسکا حکم دیااورنہ یہ آپ کی مہرتھی او رنہ ہی اس میںمروان ملوث تھا بلکہ یہ عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضر ت عثمانِ غنی کوشہید کیااس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھابلکہ حضرت علی ،حضرت طلحہ ،حضر ت زبیرکے نام سے مختلف شہروںکے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہاگیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکرحضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو،

چنانچہ علامہ حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد ٧ صفحہ ١٧٥ میں اس خط کے بارے میں حضرت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ''فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم'' ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اس کے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ،ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان۔
ترجمہ : صحابہ کرام نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میںانہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کوکہا گیا تھا اور یہ صحابہ کر ام پر جھوٹا الزام ہے ،ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی وطلحہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا،اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹاخط لکھاگیا۔

معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہ عافیت : حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام واتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالاجاتاہے انتخاب کیا گیااو رپھراختصارکے ساتھ ان کاجواب دیا گیا حق کے متلاشی کےلیے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصوصاً خلفاء راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے۔

شرح عقائد میں ہے ''ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ''یعنی ذکرِصحابہ سے زبان کو روکا جائے مگربھلائی کے ساتھ اوریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہاہے اوراحادیث انکے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔! ٭

یداللّٰہ فوق ایدیھم،

ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔

رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ،

اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔

کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،

سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔

اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔

لایمس النا رمسلماًرأنی

،جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔

اکرموااصحابی فانھم خیارکم

میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں۔

لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔

اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا،

میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ۔

من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ،

جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔

اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم،

جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو۔

خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت سے جاری ہونے والا پروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔

ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں ۔

اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہوکہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں لسانِ رسالت سے نبوت سے نوید ِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہذاراہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا او رنہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کو اہمیت دی جا سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب واذہان میں صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت بسائے اور ان کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔