Sunday, 26 July 2020

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر صحابی رضی اللہ عنہ جنتی ہے

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہر صحابی رضی اللہ عنہ جنتی ہے
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 100)
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔

سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار ۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں ۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد اسانید کے ساتھ عامر اور شعبی سے روایت کیا ہے کہ یہ وہ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں جو بیعت رضوان کے موقع پر حاضر تھے ۔ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ، سعید بن مسیب ، ابن سیرین اور قتادہ سے روایت ہے کہ یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دونوں قبلوں بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ۔ سو وہ مہاجرین اولین میں سے ہیں ۔ (جامع البیان جز 11، ص 11۔ 10،چشتی)(تفسیر ابن ابی حاتم ج 6، ص 1868)

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 597 ھ لکھتے ہیں : اس آیت کے مصداق میں چھ قول ہیں : (1) حضرت ابوموسیٰ اشعری ، سعید بن مسیب ، ابنِ سیرین رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔ (2) شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہاتھ پر بیعت رضوان کی تھی اور یہ بیعت حدیبیہ ہے ۔ (3) عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ان سے مراد اہل بدر ہیں ۔ (4) محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ان سے مراد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام اصحاب ہیں ۔ ان کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں سبقت حاصل ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام اصحاب کی مغفرت کردی ہے اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا ہے۔ خواہ وہ نیکوکار ہوں یا خطاکار۔ (5) علامہ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے موت اور شہادت میں سبقت کی اور اللہ کے ثواب کی طرف سبقت کی ۔ (6) قاضی ابویعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ان سے مراد وہ صحابہ ہیں جو ہجرت سے پہلے اسلام لائے ۔ (زاد المسیر ج 3، ص 491۔ 490، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ،چشتی)

تاہم اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ ان تمام اقسام کو اس آیت کا مصداق قرار دیا جائے ۔ ابومنصور بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ تمام صحابہ میں افضل خلفاء اربعہ ہیں ۔ پھر عشرہ مبشرہ میں سے باقی چھ ، (حضرت طلحہ، حضرت زبیر ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ اجمعین) (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3747) پھر اصحابِ بدر، پھر اصحابِ احد، پھر حدیبیہ میں اہل بیعت رضوان ۔ (فتح القدیر ج 2 ص 563، مطبوعہ دارالوفاء بیروت، 1418 ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ لکھتے ہیں : میرے نزدیک اس آیت کا مصداق وہ شخص ہے جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہجرت اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت میں سب سے سابق اور سب سے اول ہو۔ اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ کیونکہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور ہر مقام اور ہر جگہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس لیے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقام دوسرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بہت زیادہ بلند ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بن ابی طالب اگرچہ مہاجرین اولین میں سے ہیں لیکن انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہجرت کے بعد ہجرت کی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمات کو انجام دینے کے لیے مکہ میں رہے لیکن ہجرت میں سبقت کرنے کا شرف حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حاصل ہوا ۔ اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت میں بھی سبقت کا شرف حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حاصل ہے ۔ (تفسیر کبیر ج 6، ص 138۔ 137، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جو بد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے : حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا ۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ شانِ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں آیات قرآنیہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : لہٰذا معلوم ہوا وہ سارے (صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین) جنتی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا ۔ (الاصابہ مترجم اردو جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 61 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازارلاہور،چشتی)

صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا امّت میں سب سے افضل اور فائق ہونا ، نبیِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یوں واضح کیا : میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لئے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مُد (ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے کو ۔ (بخاری،ج2،ص522،حدیث:3673)

صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَحبّت رکھنے ، ان کی محبّت کو نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مَحبت اور ان سے بغض کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بغض قرار دیا اور ان کے متعلّق دل و زبان سنبھالنے کا حکم دیا : میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا ۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض رکھا تو اس نے میرے بُغْض کے سبب ان سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے ۔ (ترمذی،ج 5،ص463، حدیث:3888)

حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا نہ کہو۔ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خیرات کرے تو وہ ان کے دیئے ہوئے ایک مد یا نصف (ایک کلو گرام یا نصف) کے برابر نہیں ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3673، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2541، سنن ابودائود رقم الحدیث : 4658، سنن الترمذی رقم الحدیث : 3861، مسند احمد ج 3 ص 11، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : 1087، 1198، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 7253)

حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو اپنے طعن کا نشانہ نہ بنائو۔ جس نے ان سے محبت رکھی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذاء دی اس نے مجھ کو ایذاء دی اور جس نے مجھ کو ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی عنقریب وہ اس کو پکڑ لے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3862، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 7256، مسند احمد ج 4 ص 87، حلیتہ الاولیاء ج 8 ص 287)

حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا کہتے ہیں تو کہو تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3866،چشتی)(المعجم الاوسط رقم الحدیث : 8362)(تاریخ بغداد ج 13 ص 195، تہذیب الکمال ج 12 ص 327)

دامنِ مُصْطَفٰے سے جو لپٹا یگانہ ہوگیا
جس کے حضور ہوگئے اس کا زمانہ ہوگیا

ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی
ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی

چار یارِ نبی جنتی جنتی
ابوبکر و عمر بھی جنّتی جنّتی

عثمانِ غنی جنّتی جنّتی
فاطمہ اور علی جنّتی جنّتی

حسن بھی حسین بھی جنّتی جنّتی
ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی (رضی اللہ عہم اجمعین)

الحمد للہ اہل سنت و جماعت کا شروع سے یہی عقیدہ چلا آ رہا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے نقش قدم پر قائم و دائم رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...