Friday, 24 July 2020

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کو پاگل و بے وقوف کہنا حصّہ اوّل

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کو پاگل و بے وقوف کہنا حصّہ اوّل
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمْ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَلٰکِنۡ لَّا یَعْلَمُوۡنَ ۔ ﴿سورہ البقرہ آیت نمبر 13﴾
ترجمہ : اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لا ئے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایما ن لے آئیں ؟ سنتا ہے ! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں ۔

کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ : جیسے اور لوگ ایمان لائے ۔ یہاں ’’النَّاسُ‘‘ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد ان کی کامل اتباع کرنے والے مراد ہیں ۔

نجات والے کون لوگ ہیں ؟

اس آیت میں بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں ۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم و ائمہ اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر ؟ نیز علماء و صلحاء اور دیندار لوگوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے ۔ نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں ۔

صحابہ کرام کی بارگاہ الٰہی میں مقبولیت

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو گالی گلوچ نہ کرو ، (ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ تعالیٰ کی راہ میں ) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار) بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : لو کنت متخذا خلیلاً، ۲/۵۲۲، الحدیث: ۳۶۷۳،چشتی)

اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے ، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴/۲۴۸، الحدیث: ۶۵۰۲)

اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں ۔

صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر سب و شتم کی مذمت اور رد

منافقین نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کیا اور ان کی زیادہ جہالت بیان کی کہ وہ نہ صرف جاہل ہیں بلکہ ان کو اپنی جہالت کا علم بھی نہیں اور اس آیت میں قصر قلب ہے اور کئی وجہ سے تاکید ہے ‘ قصر قلب کا تقاضا یہ ہے کہ اصحاب رسول جاہل نہیں ہیں بلکہ یہی جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور خود کو عالم سمجھ رہے ہیں اور اس جملہ کو اللہ تعالیٰ نے ” الا ‘ ان “ اور اسمیت جملہ سے موکد فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ جہالت میں رہیں گے اور ان کو اپنی جہالت کا علم نہیں ہوگا اور ایسی جہالت زیادہ لائق مذمت ہے کیونکہ جس شخص کو کسی چیز کا پتا نہ ہو اس میں صرف ایک جہالت ہے ‘ اور وہ بسا اوقات معذور ہوتا ہے اور جب اس کو اس چیز کا پتا چل جائے یا اس کو مسئلہ بتادیا جائے تو اس کی جہالت زائل ہوجاتی ہے اور اس کو ہدایت سے نفع پہنچتا ہے اور جو شخص جاہل ہو اور وہ اپنی جہالت سے بھی جاہل ہو اس میں دو جہالتیں ہیں : ایک مسئلہ سے جہالت دوسری اپنی جہالت سے جہالت اس کو جہل مرکب کہتے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کو سب وشتم کرنا اللہ کو بہت ناگوار ہے ‘ منافقین نے ایک بار صحابہ کرام ؓ کو جاہل کہا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت نازل کردی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ جاہل نہیں بلکہ ان کو جاہل کہنے والے خود جاہل ہیں اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہیں اور ان کا جہل دائمی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کی جہل سے براءت کی اور ان کو جاہل کہنے والوں کی مذمت کی ‘ منافقوں نے تو ایک بار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو جاہل کہا تھا لیکن جب تک قرآن مجید پڑھا جاتا رہے گا یہ کہا جاتا رہے گا کہ منافق جاہل ہیں اور دائمی جہل میں گرفتار ہیں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر سب وشتم کرنے والوں کا رد کرنا چاہیے اور صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا دفاع کرنا چاہیے کہ یہ سنت الہیہ ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص (جس نے یہ بات کہی تھی) نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی کے کجاوے کی رسی پکڑ کر دوڑ رہا تھا ، پتھر اس کے پاوں کو زخمی کررہے تھے اور وہ معذرت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا : اے اللہ کے رسول : ہم تو صرف مذاق کی باتیں کررہے تھے ، اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے جواب میں صرف یہ فرماتے تھے : قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (66) (سورہ التوبۃ) کیا اللہ ، اس کی آیتیں اور اس کے رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ، اب بہانے نہ بناو تم لوگ ایمان لانے کے بعد اب کافر ہوگئے ہو ۔ (تفسیر الطبری : 6/409،چشتی)

اب بہانے نہ بناو ، یقینا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے ” وہ لوگ یک گونہ مومن تھے اور یہ ساری باتیں انہوں نے بطور مذاق ، ہنسی اور صرف دلچسپی کے لئے کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا عذر قبول نہ ہوا، بلکہ ان کے اس موقف پر نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی دیکھئے کہ یہ بات کہنے والا شخص معذرت بھی کررہا ہے ، نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی کے کجاوہ کا پٹہ پکڑے ہوئے دوڑ رہا ہے ، ننگے پیر ہونے کی وجہ سے اس کے پیر پتھروں سے زخمی ہو رہے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارا مقصد صرف اور صرف ہنسی مذاق تھا ، لیکن نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ناراضگی اس حدتک ہے کہ آپ صرف یہ جواب دے رہے ہیں ” کیا اللہ ، اس کے احکام اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔

علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : کہ یہ آیت اس بارے میں نص ہے کہ اللہ تعالی اور اس کی آیتوں اور حکموں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا کفر ہے ۔ (مجموع الفتاوی : 15/48)

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : دین کا مذاق خواہ جس نیت سے ہو اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے ۔ (التفسیر الکبیر : 6/126)

امام سیّد محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اس بارے میں اماموں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ (تفسیر روح المعانی تحت الآیہ مذکورہ)

ایک بار امیر تیمور کچھ ذہنی پریشانی اور الجھن کا شکار تھے اور کسی کی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے ، اتنے میں ان کے مصاحبین میں سے وہ شخص جو انہیں خوش رکھنے کا کام کررہا تھا ، اس نے امیر کو ہنسانے کے لئے کہا : ابھی ابھی میرے پاس شہر کے قاضی تشریف لائے اور ماہ رمضان کے بارے مین بیان کرنے لگے ، اس پر ایک شخص نے کہا : قاضی صاحب : میرے پاس اس کی شہادت موجود ہے کہ فلاں شخص رمضان کے روزے کھا گیا ، یہ سن کر قاضی صاحب نے کہا کہ کاشکہ کوئی ایسا بھی ہوتا جو نما ز کو کھا جاتا کہ نماز و روزے سے ہمیں فرصت مل جاتی ، یہ سن کہ امیر مذکور سخت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ ہنسی مذاق کے لئے صرف دینی باتیں ہی رہ گئی ہیں ، پھر اس شخص کو سخت سزا دینے کا حکم دیا ۔ (شر فقہ اکبر :264،چشتی)

مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ نمبر173)

کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاؤ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (ترمذی کتاب البرّ والصّلة، باب ما جاء فی المراء، ۳ / ۴۰۰، الحدیث : ۲۰۰۲)

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبة، ۴ / ۳۵۳، الحدیث : ۴۸۷۵)۔(جاری ہے)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...