علم اختلافات اور عالِم میں حسد پیدا ہو جائے تو
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِۚ-فَمَا اخْتَلَفُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُۙ-بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ (سورہ الجاثیہ آیت نمبر 17)
ترجمہ : اور ہم نے اُنھیں اس کام کی روشن دلیلیں دیں تو اُنھوں نے اختلاف نہ کیا مگر بعد اس کے کہ علم اُن کے پاس آچکا آپس کے حسد سے بے شک تمہارا رب قیامت کے دن اُن میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے ہیں ۔
حسَد کے لغوی اور اصطلاحی معنی : حسد کا لغوی معانی کسی کی نعمت کے زول اور خود اپنے لیے اس کے حصول کی تمناکرنا یا آرزو رکھنا ۔ (المنجد۔:حسد(ن،ض))
علامہ ابن منظور محمد بن مکرم بن علی بن احمد الانصاری الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ (711ھ) حسد کے بارے میں رقم طراز ہیں : حسدکے معنی چیچڑی (جوں کے مشابہ قدرے لمبا کیڑا) ہے جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے- اسی طرح حسد بھی انسان کے دل سے لپٹ کر گویا اس کا خون چوستا رہتا ہے اس لیے اسے حسد کہتے ہیں ۔ (لسان العرب، باب الحاء، ج: 1، ص:826)
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ حسد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں ۔ (المفردات، ص:118)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات میں دین اور حلال و حرام کے بیان نیز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے معاملے کی روشن دلیلیں دیں لیکن انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے منصب اور ریاست ختم ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حسد کیا اور دشمنی مول لی اور اپنے پاس علم آجانے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر پہلے سے متفق ہونے کے باوجود آپ کی بعثت کے بارے میں اختلاف کیا حالانکہ علم اختلاف زائل کرنے کا سبب ہوتا ہے اور یہاں ان لوگوں کے لئے اختلاف کا سبب ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مقصود علم نہ تھا بلکہ اُن کا مقصود منصب و ریاست کی طلب تھی اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا رب قیامت کے دن بنی اسرائیل کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔ ( خازن تحت الآیۃ: ۱۷، ۴ / ۱۱۹،چشتی)(جلالین مع صاوی تحت الآیۃ: ۱۷، ۵ / ۱۹۲۴)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علم اختلافات کو زائل کرنے والا اور جھگڑے مٹانے والا ہے لیکن جب عالِم میں حسد پیدا ہو جائے تو علم اختلافات کو زائل کرنے اور جھگڑے مٹانے کی بجائے بڑھا دیتا ہے ۔ افسوس!ہمارے زمانے میں بھی علماء کی ایک تعداد ایسی ہے جو باطنی گناہوں کا یا تو علم ہی نہیں رکھتے اور یا پھر علم رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے اختلافات اور آپس میں انتشار کا شکار ہیں اور ا س کا بنیادی سبب ایک دوسرے سے حسد کرنا ہے۔علماء کے باہمی حسد کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ایک عالم دوسرے عالم سے تو حسد کرتا ہے لیکن کسی عبادت گزار سے حسد نہیں کرتا اسی طرح ایک عبادت گزار دوسرے عبادت گزار سے تو حسد کرتا ہے لیکن عالم سے حسد نہیں کرتا۔مزید فرماتے ہیں ’’وعظ کرنے والا جتنا کسی دوسرے وعظ کرنے والے سے حسد کرتا ہے اتناکسی فقیہ یا حکیم سے حسد نہیں کرتا کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک مقصد پر جھگڑا ہوتا ہے تو ان حسدوں کی اصل وجہ اور دشمنی کی بنیاد کسی ایک غرض پر اکٹھاہونا ہے اور ایک غرض پر وہ دو آدمی جمع نہیں ہوتے جو ایک دوسرے سے دور ہوں بلکہ ان کے درمیان کسی قسم کی مناسبت ضروری ہے اسی لئے ان دو آدمیوں کے درمیان حسد ہوتا ہے ۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغضب والحقد والحسد، القول فی ذمّ الحسد۔۔۔ الخ، بیان السبب فی کثرۃ الحسد۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰،چشتی)
اور حسد کی وجہ سے فی زمانہ علماء کا باہمی حال یہ نظر آتا ہے جس کی نشاندہی اس حدیث پاک میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میری امت پر ایک زمانہ ایساآئے گا کہ فقہاء ایک دوسرے سے حسد کریں گے اور ایک دوسرے سے اس طرح لڑائی کیا کریں گے جیسے جنگلی بکرے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔ ( تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ عبد الرحمٰن، ۵۴۴۷-عبد الرحمٰن بن ابراہیم بن محمد بن یحی۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۳۰۱)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔ (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث :4903)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا : ایک دوسرے سے بغض نہ کرو ، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث 6065)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ ِ اقدس میں عرض کی گئی : سب لوگوں میں افضل کون ہے ؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہر(وہ شخص جو) مخموم القلب اور زبان کا سچا ہو ۔ عرض کی گئی یارسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ زبان کا سچا کون ہے لیکن مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت سے ڈرنے والا ، پاکباز ، جس میں کوئی گناہ نہ ہو اور نہ (اس میں) بغاوت ، کینہ اور حسد ہو ۔ (سنن ابن ماجہ، ج:4، ص:475،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے ۔ (سنن نسائی، ج: 2، ص:44)
حسد کی وضاحت امام غزالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حسد صرف نعمت پر ہی ہوتا ہے، جب باری تعالیٰ تمھارے کسی مسلمان بھائی کو کوئی نعمت عطا فرماتا ہے تو اس وقت تمھاری دو حالتیں ہوتی ہیں :
(1) تم اس کی نعمت کو ناپسند کرو، اور اس کے زوال کی آرزو کرو، اس حالت کو حسد کہتے ہیں ۔
(2) تم نہ تو زوالِ نعمت کی تمنا کرو ، اور نہ ہی اس کے وجود کو ناپسند جانو ، البتہ تمھارے دل میں یہ چاہت ہو کہ تمھیں بھی اس قسم کی نعمت ملے، اس حالت کو رشک کہتے ہیں ۔ (إحیاء العلوم للغزالی، باب: بيان حقيقة الحسد وحكمه وأقسامه ومراتبه، جزء: ۳، ص: ۱۹۲)
امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل علم نے فرمایا کہ حسد کی دو صورتیں ہوتی ہیں : (1) حقیقی(2) مجازی ۔
(1) حقیقی حسد یہ ہے کہ صاحبِ نعمت سے زوالِ نعمت کی تمنا کی جائے ۔ اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے ۔
(2) مجازی حسد [جسے غبطہ بھی کہا جاتا ہے] یہ ہے کہ صاحبِ نعمت سے زوالِ نعمت کی تمنا کیے بغیر ، اس جیسی نعمت کے حصول کی آرزو کی جائے ۔ اگر یہ دنیوی امور میں ہو تو مباح ہے ، اور اگر طاعات میں ہو تو مستحب ہے ۔ (شرح النووي علی مسلم، الجزء السادس، باب: فضل من یقول بالقرآن ویعلمه إلخ، جزء: ٦، ص: ۹۷)
حسد کی دو قسمیں ہیں
(1) دنیوی امور سے متعلق ، مثلاً مال ودولت ، جاہ ومنصب اور حسن وجمال وغیرہ۔
(2) دینی امور سے متعلق ، مثلاً نبوت و رسالت وغیرہ ۔
حسد کے چار درجے ہیں
پہلا درجہ یہ ہے کہ حاسد ، دوسروں کی نعمت کا زوال چاہے ، اگرچہ اسے نہ ملے ۔ اس قسم کا حسد، مسلمانوں پر گناہ کبیرہ ہے ، اور کافر فاسق کے حق میں جائز ، مثلاً کوئی مال دار اپنے مال سے کفر یا ظلم کر رہا ہے، اس کے مال کی بربادی، اس لیے چاہتا ہے کہ دنیا، کفر و ظلم سے بچے ۔ یہ جائز ہے ۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد، دوسروں کی نعمت خود لینا چاہے کہ فلاں کا باغ یا اس کی جائداد میرے پاس آ جائے ، یا اس کی ریاست کا، میں مالک ہو جاؤں۔ یہ حسد بھی مسلمانوں کے حق میں حرام ہے ۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد ، اس نعمت کے حاصل کرنے سے خود تو عاجز ہے ؛ اس لیے آرزو کرتا ہے کہ دوسروں کے پاس بھی نہ رہے تاکہ وہ مجھ سے بڑھ نہ جائے۔ یہ بھی منع ہے ۔
چوتھا درجہ یہ ہے کہ وہ تمنا کرے کہ یہ نعمت ، دوسروں کے پاس بھی رہے ، اور مجھے بھی مل جائے یعنی دوسروں کا زوال نہیں چاہتا ، اپنی ترقی کا خواہش مند ہے ، اسے غبطہ کہتے ہیں ۔ یہ دنیوی باتوں میں منع اور دینی باتوں میں اچھا اور کبھی واجب ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے ( وَفِيْ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ) ۔ (سورہ المطففین : ۸۳، الآیۃ: ٢٦) ۔ (اور اسی پر چاہیے کہ للچائیں للچانے والے)
حدیث شریف میں ہے کہ (دو شخصوں پر حسد یعنی غبطہ جائز ہے : ایک وہ عالم دین جو اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہو ۔ دوسرا وہ سخی مال دار جس کے مال سے فیض جاری ہو) ۔ (تفسیر نعیمي للمفتي أحمد یار خان النعیمي، البقرۃ، الآیۃ: ۱۰۹)
غرور و تکبر میں مبتلا شخص ہر چیز پراپنی اجارہ داری سمجھتا ہے ۔ خود پسندی میں مبتلا ہوتا ہے اور اگر کوئی اور انسان اس کے برابر آجائے تو وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بڑا نہ ہوجائے یا اگر اُس سے کم حیثیت کا شخص اس کے برابر آجائے یا اس سے آگے بڑھ جائے تو وہ اس کی بلندی کو برداشت نہیں کرپاتا اور حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اُسے اپنی حیثیت و مقام کھو جانے کا خو ف لاحق ہوجاتا ہے۔ مشرکین مکہ کا رسول اللہ1 سے حسد اسی نوعیت کا تھا ۔
بعض اَوقات انسان اپنے فن ، علم ، حیثیت ، عہدے ، دین اور صلاحیتوں میں ممتاز ہوتا ہے ، یگانۂ روز گار ہوتا ہے اور جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور علاقے یا جگہ میں اس کی طرح کا ایک اور انسان موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں ۔ یا اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ اُس فرد کے مرجانے یا اس کی نعمت کے زائل ہوجانے کی تمنا کرنے لگتا ہے اور یہ جذبات حسد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں ۔
بغض و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے ۔ اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتاہے اور حضرت انسان کو اپنے دشمن کا نقصان اور مصیبت اچھی لگتی ہے اور دشمن کو ملنے والی نعمت یابھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہوجانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے ۔ گویا عداوت ، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں اور جس نے حسد کی بیماری کا علاج کیا ہے اُسے عداوت اور بغض کا علاج بھی کرنا ہوگا، کیونکہ اگر اسباب باقی رہے تو بیماری کبھی بھی پلٹ کر حملہ آور ہوسکتی ہے۔حسد کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اَسباب کا خاتمہ ضروری ہے ۔
وہ علماء ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ مقصود بنا لیا ہے ، شریعت مطہرہ پر عمل کرنے کی بجائے حیلے بہانے تراش کر من گھڑت طریقے اپنائے ہیں ، حکمرانوں کے پجاری بن گئے ہیں ، ظالموں کی خوشامد کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے ، تکبر و عناد ، حسد و بغض اور دنیا پرستی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے ۔ وہ بندگان ہوا و ہوس اس قدر تصنع اور بناوٹ میں مبتلا ہیں کہ بزرگان دین کے مقابلہ میں اپنی علمی فوقیت دکھاتے ہیں ، ان علمائے سوء نے انہی بری خصلتوں کی بنا پر مذہب و شریعت کو بدنام کیا ہے۔ چونکہ وہ دین کے ٹھیکیدار بن کر لوگوں کو دین سے دور کرنے والے ہیں، اس لیے ایسے علماء کے تعلق و محبت اور صحبت سے محفوظ رہنا ایمان کی سلامتی کے لئے بہت ضروری ہے ۔
حسد کے درجات ہیں ۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ دوسرے کی خوبی اور نعمت قبول نہیں ہوتی یا ہضم نہیں ہوتی جیسا کہ علماء کے طبقے میں اسے "معاصرت” کہہ دیتے ہیں کہ کئی بڑے بڑے علماء اس کا شکار رہے ہیں ، اور چھوٹوں کا تو کیا ہی کہنا ۔ یعنی ایک عالم دین کی دوسرے سے لگتی نہیں ہے اور وہ اس کی خوبی سامنے آنے پر اس پر منفی تبصرہ کر دیتا ہے تو یہ حسد کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اللہ عزّ و جل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اہلِ علم حضرات کو اپنا اصلی مقصد سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment