Monday, 20 July 2020

کیا اللہ عز و جل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گالیاں دیتے ہیں ؟ حصّہ اوّل

کیا اللہ عز و جل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گالیاں دیتے ہیں ؟ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عرفِ عام میں گالی اور دشنام کسے کہتے ہیں ۔ کسی بری صِفت کا دوسرے کی طرف منسوب کرنا جبکہ وہ حقیقت میں نہ ہو ’ گالی کہلاتا ہے ۔ ایک لحاظ سے گالی جھوٹ پر مبنی بات ہوتی ہے ۔ سورة القلم میں اللہ تعالیٰ نے ایک مشرک اور اسلام کے بدترین دشمن کے چند برے خصائل گنوائے ہیں اور آخر میں فرمایا : عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ ۔ (سورة القلم آیت نمبر13)
ترجمہ : دُرُشت خُو اس سب پر طُرّہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا ۔ (ترجمہ کنز الایمان امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ)

اس آیت میں اس کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے اور ان تمام عیوب سے بڑھ کر ا س کاعیب یہ ہے کہ وہ ناجائز پیداوار ہے تو اس سے خبیث اَفعال کے صادر ہونے میں کیا تعجب ہے ۔

ابو البرکات عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا : محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے میرے بارے میں دس باتیں بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 9 کے بارے میں تومیں جانتا ہوں کہ وہ مجھ میں موجود ہیں لیکن ان کی یہ بات کہ میں ناجائز پیداوار ہوں ، اس کا حال مجھے معلوم نہیں ، اب تو مجھے سچ سچ بتادے (کہ اصل حقیقت کیا ہے)ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا۔ اِس پر اُس کی ماں نے کہا کہ ’’تیرا باپ نامرد تھا ،ا س لئے مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ جب وہ مرجائے گا تو اس کا مال دوسرے لوگ لے جائیں گے، تو(اس چیز سے بچنے کے لئے ) میں نے ایک چَرواہے کو اپنے پاس بلالیا اورتو اس چرواہے کی اولاد ہے ۔ (تفسیر مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۲۶۷،چشتی)

اس سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت ، شانِ محبوبیّت اور بارگاہِ الٰہی میں آپ کا مقام معلوم ہوتا ہے کہ ولید نے اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ایک جھوٹا کلمہ کہا تھا کہ (مَعَاذَاللّٰہ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مجنون ہیں ، اس کے جواب میں اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے دس وہ عیوب ظاہر فرمادیئے جو واقعی ا س میں موجود تھے اور ان میں سے ایک عیب یعنی حرامی ہونا ایسا تھا کہ یہ اس آیت کے نازل ہونے سے ہی معلوم ہوا ورنہ اب تک ا س کے بارے میں سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ خاندانِ قریش سے ہے ۔


زنیم کا معنیٰ و مفہوم

زنیم کے اصلی معنی کتب ادب اور لغت کی زبانی۔ یہ لفظ سورۃ القلم کی آیت نمبر 13میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے :

(1) عربی لغات میں زَنِیْم کے معنی لکھے ہیں : ( اَلْمُلْصَقُ بِالقوم وَلَیْسَ مِنْھُمْ ۔ لسان العرب ص277، ج12)،(اَلْمُسْتَلْحَقُ فِیْ قَوْمٍ وَّلَیْسَ مِنْھُمْ ۔ تاج العروس شرح قاموس)

One adapted among a people to whom he does not belong.(عربی انگریزی ڈکشنری از۔ ای ڈبلیو کین)

عربی کی ان مشہور و معروف اور مستند لغات کی رو سے زَنِیْم کے معنی ہیں:
’’ وہ شخص جو کسی دوسری قوم میں شامل ہو جائے، بحالیکہ وہ اس قوم سے نہیں۔

کسی لفظ کے معنی وہی صحیح سمجھے جاتے ہیں جو ادب اور لٹریچر کی کتابوں میں بیان ہوں۔ عربی زبان سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا انسان بھی خوب سمجھتا ہے کہ علامہ عصر المبرد کی شہرہ آفاق کتاب ’’الکامل‘‘ کا مرتبہ اور درجہ کتنا بلند ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں مولوی فاضل اور ایم۔ اے عربی کے نصاب میں داخل ہے اور علامہ ابنِ خلدون نے اس کتاب کو عربی ادب کے ارکان اربعہ میں پہلا درجہ دیا ہے۔ اس مستند اور مشہور کتاب میں زَنِیْم والی آیت نقل کرکے زَنِیْم کے معنی علامہ موصوف نے یہ لکھے ہیں۔ ھُوَ الدَّاعِی الْمُلْزَقُ یعنی ہو تو کسی قوم سے اور مل جائے کسی دوسری قوم کے ساتھ ۔ (الکامل للمبرد ص1146ج 3ولسان العرب ص277، ج12،چشتی)

حضرت حسان رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خاص شاعروں میں سے تھے، ایک شعر میں ’’زنیم‘‘ کا لفظ استعمال کرکے خود ہی اس کے معنے لکھتے ہیں :

زَنِیْمٌ تَدَاعَاہُ الرجالُ زیادَۃٌ
کَمَا زِیْدَنِیْ عَرْضِ الْاَدِیْمِ الْاکارِعُ
ترجمہ : زنیم وہ ہے جسے لوگ زائد سے تعبیر کرتے ہیں جس طرح کھال میں ٹانگیں زائد معلوم ہوتی ہیں ۔ (لسان العرب ص۲۷۷، ج۱۲واساس البلاغۃ ص۱۹۶)

عربی کتب ادب اور لغات کی رُو سے زنیم کے معنی ہیں ’’ وہ آدمی جو ایک قوم میں سے تو نہ ہو مگر اس میں آملے ۔

قرآن مجید کی آیت پر اعتراض کرنے والے قادیانیوں کو غور کرنا چاہیے کہ مرزا قادیانی کی محبت میں وہ اللہ اور رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہدفِ طعن بناتے ہیں ، قرآن پاک کی عظمت پر حملہ کرتے ہیں ۔ قرآنِ حمید اس سے بہت بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس قسم کے نازیبا الفاظ اپنے مخالفین کے حق میں استعمال کرے ۔ گالیاں تو وہ دیتا ہے جو کمزور ہو ، اللہ عزوجل جو سب جہانوں کا مالک ہے، جس کے ارادے کو کوئی روک نہیں سکتا ، جو آنکھ جھپکنے میں چاہے تو سارے جہان کو تباہ و برباد کردے، اسے کیا ضرورت ہے کہ گالیوں پر اتر آئے ؟ قرآنِ عزیز کے نزول کا مقصد تو یہ ہے کہ دلوں کو پاک بنائے ۔ سینوں میں ہدایت کا نور بھر دے ۔ گمراہوں کو سیدھے راستے پر لے آئے۔ کیا ایسی گالیوں کو قرآن میں ثابت کرنا راجپالی ذہنیت نہیں ؟ کیا یہ کلام اللہ کی توہین نہیں ؟ کیا قرآن کی عظمت کے خلاف نہیں ؟ یقینا ہے ۔

ابن دُریْد جو لغت کا مشہور امام ہے کتاب الاشتقاق میں زنیم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وَالزَّنِیْمُ الَّذِیْ لَہٗ زَنَمَۃٌ مِّنَ الشَرِّیُعْرَفُ بِھَا اَیْ عَلَامَۃٌ ۔ پھر قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت نقل کرکے لکھتے ہیں : اِنَّمَا اداد بزنیمْ اَنَّ لَہٗ ذَنَمَۃٌ مِنَ الشَّرِ ۔ (کتاب الاشتقاق ص108) ، یعنی زنیم کے معنی قرآنی آیت میں ہیں : ’’ شرارت میں مشہور‘‘ ابن دُرَیْد ایسا مسلمہ امام لغت لکھتا ہے کہ زنیم گالی وغیرہ کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے معنی ہیں وہ شخص جو اپنی شرارتوں کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہو جائے ۔

مرزا محمود قادیانی ، سورہ القلم کی آیت 14کی تشریح میں لکھتا ہے کہ قرآن مجید میں زنیم کالفظ ہے ۔ جس کے معنیٰ ہوتے ہیں کہ وہ شخص جو کسی قوم کا فرد تو نہیں مگر اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتا ہے ہم نے اس کا ترجمہ خدا کا بندہ ہو کر شیطان سے تعلق رکھتا ہے ، کیا ہے یعنی ہے تو وہ خدا کا مگر اپنے آپ کو منسوب بتوں کی طرف کرتا ہے ۔ (تفسیر صغیر ص763طبعہ 1990ء)

محمد علی مرزائی قادیانی لاہوری اپنی تفسیر، بیان القرآن ص1867، ج3حاشیہ 3401 میں لکھتا ہے کہ زنیم ۔ جو ایک قوم میں سے نہیں مگر ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔


صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : یعنی بد گوہر تو اُس سے افعالِ خبیثہ کا صدور کیا عجب ۔مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ولید بن مغیرہ نے اپنی ماں سے جا کر کہا کہ محمد (مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے میرے حق میں 10 باتیں فرمائی ہیں 9 کو تو میں جانتا ہوں کہ مجھ میں موجود ہیں لیکن دسویں بات اصل میں خطا ہونے کی، اُس کا حال مجھے معلوم نہیں یا تو مجھے سچ سچ بتا دے ورنہ میں تیری گردن مار دوں گا۔اس پر اُس کی ماں نے کہا کہ تیرا باپ نامرد تھا مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ مر جائے گا تو اُس کا مال غیر لے جائیں گے تو میں نے ایک چرواہے کو بُلا لیا، تُو اُس سے ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان،چشتی)

اب اللہ نے (نعوذ باللہ) گالی نہیں دی ۔ گالی تب ہوتی اگر وہ حرامی نہ ہوتا اور اُسے حرامی کہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادة ہے۔ اس نے حقیقت حال کو بیان کیا ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ نفس الامر میں حرامی ہے، اسی طرح رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث میں جن الفاظ کا ذکر آتا ہے تو ان سے بھی حقیقت حال کا بیان ہے ناں کہ وہ ”گالی“ ہے۔کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو وحی کے ذریعے حقیقت حال سے باخبر کر دیا جاتا تھا ۔

سورة القلم کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے ”مَا انتَ بِنِعمَةِ رَبِّکَ بِمَجنُونٍO وَانّٙ لَکَ لَاجرًا غَیرَ مَمنُونٍO“تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں اور یقینا تیرے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے اس سے آگے فرمایا : ”وَانّک لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍO“ اور تو یقینا بلند اخلاق کا مالک ہے ۔ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاق عظیمہ کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمنِ اسلام کا ذکر کیا ہے ۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ سورة کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی فضیلت و عظمت کو اخلاق عظیم کے حوالے سے بیان فرماتا ہے اور کچھ آیات کے بعد ، ایک کافر و مشرک کو (بقول شخصے) گالیاں دیتا ہے ۔ افَلاَ یَتَدَبَّرُونَ القُر آنَ وَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اختِلاَفًا کَثِیرًا ۔ (سورة النساء: 82)
ترجمہ : پھر کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے ۔

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اخلاق عظیم یہ ہے کہ یہودیوں نے سلام کے بجائے سام بولا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اس جسارت پر فرمایا السام علیکم ولعنکم اللہ و غضب علیکم (تم پر موت، اللہ کی لعنت اور غضب ہو) مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے منع فرما دیا جبکہ یہ ایسا موقع تھا کہ جس وقت آپ کچھ نہ کچھ فرما سکتے تھے لیکن آپ نے وعلیکم فرمایا یہ بھی حقیقت حال ہی کا بیان ہے یعنی جو تم مجھ پر بھیج رہے ہو اگر یہ اتنا اچھا اور پسندیدہ ہے تو میں تمہیں واپس لوٹا رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہ فرمایا اور نہ ہی کسی کو کہنے دیا ۔

دُکھ اس بات کا ہے کہ بعض حضرات یہ دلیل اپنے مخالف مسالک کے علماء ، مفتیان کرام اور اُن کی عوام کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان مشرکوں ، کافروں اور گستاخوں (جن کا کفر و عداوت روزِ روشن سے بھی زیادہ واضح تھا) کو دشنام و گالی نہیں دیتے لیکن اِن صاحب کی جسارت اور جرات دیکھیئے کہ وہ قرآن و حدیث کو بنیاد بنا کر اپنے مسلمان بھائی کو گالی دینا جائز سمجھتے ہیں جسے ویسے بھی گالی دینا شدید ممنوع اورحرام ہے جس پر ثقہ اور مستند احادیث موجود ہیں ۔ اگر یہی ایذا رسانی کا رویہ مخالف مسالک کے علماءو خطباءاختیار کرتے ہیں تو وہ بھی قابلِ مذمت ہے ۔

اِن علماء و خطباء سے پوچھیئے ! آپ کے پاس اس کے علاوہ گفتگو کا کوئی اور میڈیم بھی ہے ؟ آخر کار ، آپ دین کے خادم ٹھہرے ، کیا دینِ اسلام میں کوئی ایسی ہدایت و راہنمائی نہیں جس کی روشنی میں آپ ایسا اندازِ گفتگو اختیار کریں جس سے مسلمان بھائیوں میں باہمی نفرت و تفرقہ کے بجائے محبت و اتحاد پیدا ہو جس سے آپ کے باہمی اختلافات کا کوئی حل سامنے آئے ۔ آپ کا دین بقول علاّمہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ : دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد ۔ نہ کہلائے بلکہ معاشرے میں ، آپ کی تحریر و تقریر سے امن ، سکون اور عافیت کا ماحول پیدا ہو پاکستانی قوم بھی سُکھ کا سانس لے اور آپ کو ڈھیر ساری دُعائیں دے ۔

اب آتے ہیں اس مسلہ کی طرف کہ بعض حضرات نے اس آیتِ مبارکہ کو لے کر اپنا تکیہ کلام بنا لیا ہے گالیاں دینا ہے ، اپنی گفتگو میں گالیوں کا استعمال کرنا ، جب اسے منع کیا جاتا ہے کہ گالیاں مت دو ، یہ فسق ہے تو وہ جواب میں کہا جاتا ہے کہ " گالیاں دینا غلط نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں گالیاں دی ہیں ، حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے گالیاں دی ہیں اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے گالیاں دی ہیں" کیا گالیوں کی اضافت اللہ تعالی ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ اقدس اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کرنا جائز ہے ؟ اس کے متعلق احباب نے بار بار اصرار فرمایا کہ کچھ لکھیں اگر چہ فقیر اس موضوع پر کافی عرصہ پہلے مضمون پوسٹ کر چکا ہے مزید وضاحت پیشِ خدمت ہے آیئے پڑھتے ہیں :
جواب

شریعت کی نظر میں گالی دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے ( الامن ظلم بمثل ماعوقب) لہذا اس کو غلط نہ سمجھنا غلط ہے ، اللہ اوررسول کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرناجو قرآن وحدیث سے ثابت نہیں بالخصوص نقص والی بات منسوب کرنا بالکل جائز نہیں ہے ، لہذا گالی دینے اور اللہ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف اس کی نسبت کرنےسے فوراً توبہ واستغفارکرنا اور آئندہ اس سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے ، قرآن کریم میں ضرب المثل اورکفار کی صفات بیان کرنے کا ذکرتو ملتا ہے جیسے (مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا) ۔ (الجمعة:5) لیکن قرآن پاک گالیوں اورخلافِ حقیقت بے ہودہ باتوں سے منزہ اورپاک ہے ، بعض لوگوں کو" عتل بعد ذلک زنیم" جیسی آیات سے شبہ ہوا ہے ، مگر یہ درست نہیں ، اس لیے کہ تمام معتبر تراجم میں اس کا جو ترجمہ کیا گیا ہے اس میں گالی کا پہلو نہیں ہے جیسے کہ بدنام ، شر کے ساتھ معروف وغیرہ یہ تو ایک شخص میں موجود ایک وصف اور حقیقت کا بیان ہے ، نیز اس میں کسی کا نام بھی نہیں لیا گیا ہے ، بلکہ عام وصف ذکر کرکے مسلمانوں کو اس جیسے وصف اپنانے نے منع کیا گیاہے ، اوراس کو عرف میں گالی دینا نہیں کہا جاتا ۔
اسی طرح نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارےمیں بڑٰی وضاحت کے ساتھ احادیث میں آتا ہے کہ" لم يكن النبي سبابا، ولا فحاشا، ولا لعانا" ۔ (تاريخ المدينة لابن شبة (2/ 636 ) ، نہ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گالی دینے والے تھے نہ فحش گفتگو کرنے والے تھے اورنہ ہی لعن طعن کرنے والے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عام عادت گالی دینےکی بالکل نہیں تھی ، وہ بڑے عمدہ اخلاق والے انسان تھے ، ایک حدیث میں ہے کہ ایک مجلس ایک شخص نے آپ کو گالیاں دی ، (آپ خاموش رہے) اورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی تعجب فرمارہے تھے اورمسکرا رہے تھے پھرجب اس شخص نے زیادہ گالیاں دی توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جس پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غصے ہوگئے اور وہاں سے چلے گئے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے چلے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما تھے جب میں نے جواب دیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غصے ہوگئے اور چلے گئے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا جب آپ نے جواب دیا تو شیطان درمیان میں آگیا ، اورمیں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا (اس لیے اٹھ کر آگیا) ایک اور موقع پر ایک غلام کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی بات پرلعن طعن کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا "يا أبا بكر، اللعانين والصديقين ؟ كلا و رب الكعبة » ، مرتين أو ثلاثا " یعنی لعنت کرنے والے اور صدیقین کبھی جمع ہوسکتے ہیں ؟ رب کعبہ کی قسم جمع نہیں ہوسکتے یعنی آپ صدیق ہو کرلعن طعن کر رہے ہو ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو کفارے کے طورآزاد فرمایا اورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس آکر عرض کیا "لا أعود"میں اس طرح دوبارہ نہیں کروں گا ۔ اسی طرح عروہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اہل مکہ کے اس وقت حالتِ کفر میں تھے تو نمائندے بن کرآئے تھے) ایک موقع پر ایک سخت کلمہ کہا لیکن وہ انتقاماً تھا اور جواباً اورمظلوم کو انتقام لینے کی شرعاً اجازت ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیّدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی عام عادت قطعاً گالیاں دینے کی نہیں تھی اورجن دو تین مواقع پر ایسی نوبت آئی تھی اور کچھ سخت کلمات آپ کے منہ سے نکلے تھے تو وہ بھی یا تومحض جواباً تھے یا غصہ کی وجہ تھے ، مگر بھی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو موقعوں پر اس پرسخت ناگواری کا اظہار فرمایا تھا ، اوران کو منع کیا تھا ، کیونکہ یہ حضرت سیّدنا صدیق اکبررضی اللہ کے شایانِ شان نہیں تھے گو ظلم کا انتقام ہونے کی وجہ سے جائز تھے ۔ لہٰذا گالیاں دینا اوردلیل کے طور پہ یہ کہنا کہ (العیاذ باللہ) قرآن میں گالیاں ہیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (العیاذ باللہ ) گالیاں دیتے تھے یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گالیاں دیتے تھے بالکل غلط بات ہے ، ایسے شخص پر لازم ہے اپنے دونوں گناہوں (گالیاں دینے اورمقدس شخصیات کی طرف گالیوں کی نسبت کرنے) سے صدقِ دل سے توبہ کرے اورآئندہ اس قسم کی باتوں سے مکمل اجتناب کرے ۔

درج ذیل حوالہ جات سے مذکورہ عبارت ترتیب دی گئی ہے :
مسند أحمد مخرجا (11/ 64) ، حدثني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله لا يحب الفحش أو يبغض الفاحش والمتفحش»
قال محمد رشيد رضا في تفسير المنار (1354هـ) الذَّمُّ : الْوَصْفُ بِالْقَبِيحِ، وَالسَّبُّ وَالشَّتْمُ: مَا يُقْصَدُ بِهِ التَّعْيِيرُ وَالتَّشَفِّي مِنَ الذَّمِّ، سَوَاءٌ كان مَعْنَاهُ صَحِيحًا وَاقِعًا أَوْ إِفْكًا مُفْتَرًى. وَالْقُرْآنُ مُنَزَّهٌ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ تَعَالَى: ﴿وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾”(37)

وفی تفسیر المراعی (10/168) ،(زنیم)ای معروف بالشروالآثام ،کما تعرف الشاۃ بالزنمۃ ،وری عن ابن عباس انہ قال :ھو الرجل یمرعلی القوم فیقولون رجل سوء.
تاريخ المدينة لابن شبة (2/ 636)
عن أنس رضي الله عنه قال: " لم يكن النبي سبابا، ولا فحاشا، ولا لعانا، كان يقول لأحدنا عند المعتبة: ما له ترب جبينه "
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَجُلًا شَتَمَ أَبَا بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْجَبُ وَيَتَبَسَّمُ ، فَلَمَّا أَكْثَرَ رَدَّ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ ، فَلَحِقَهُ أَبُو بَكْرٍ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ كَانَ يَشْتُمُنِي وَأَنْتَ جَالِسٌ ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، غَضِبْتَ وَقُمْتَ ، قَالَ: " إِنَّهُ كَانَ مَعَكَ مَلَكٌ يَرُدُّ عَنْكَ ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَيْهِ بَعْضَ قَوْلِهِ ، وَقَعَ الشَّيْطَانُ ، فَلَمْ أَكُنْ لِأَقْعُدَ مَعَ الشَّيْطَانِ " .
ثُمَّ قَالَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ ثَلَاثٌ كُلُّهُنَّ حَقٌّ: مَا مِنْ عَبْدٍ ظُلِمَ بِمَظْلَمَةٍ فَيُغْضِي عَنْهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، إِلَّا أَعَزَّ اللهُ بِهَا نَصْرَهُ ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ عَطِيَّةٍ ، يُرِيدُ بِهَا صِلَةً ، إِلَّا زَادَهُ اللهُ بِهَا كَثْرَةً ، وَمَا فَتَحَ رَجُلٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ ، يُرِيدُ بِهَا كَثْرَةً ، إِلَّا زَادَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا قِلَّةً " . أخرجه أحمد في "مسنده" (9624) ، وأبو داود في "سننه" (4879) ، والبزار في "مسنده" (8495) ، والبغوي في "شرح السنة" (3586) ، والبيهقي في "السنن الكبرى" (10/236)،والقضاعي في "مسند الشهاب" (820) ، جميعا من طريق محمد بن عجلان عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة رضي الله عنه به .
معنى الحديث ، على تقدير صحته ، وهو ما سأل عنه الأخ الكريم ، فجوابه ما يلي :
كان النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس ومعه أبو بكر الصديق رضي الله عنه ، فسب رجلٌ أبا بكر رضي الله عنه مرتين ، كما في رواية أبي داود (4896) ، وفي كل مرة يصمت أبو بكر ولا يرد عليه ، والنبي صلى الله عليه وسلم يتعجب ويبتسم ، ثم سبه الرجل مرة ثالثة ، وحينئذ ردّ عليه أبو بكر وانتصر ، فقام النبي صلى الله عليه وسلم من المجلس ، فتبعه أبو بكر ، وسأله عن سبب غضبه وذهابه من المجلس ، فأخبره أنه ما من مرة سبَّه فيها الرجل وسكت ، إلا ردّ عليه مَلَك ، فلما انتصر أبو بكر ، وردّ بنفسه ، ذهب الملك وحضر الشيطان ، وما كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحضر مجلسا فيه الشيطان .وردُّ أبي بكر على الرجل ليس حراماً ، بل هو أخذ بالرخصة في الانتصار لمن ظُلم ، قال ابن رسلان في "شرح سنن أبي داود" (18/639) :"فانتصر منه أبو بكر بعد ظلمه له ثلاث مرات ، وأخذ بحقه ، وجاوبه بمثل ما قال ، ولم يجاوز مثل ما قال له ، فالمنتصر مطيع لله بما أباحه له ، وقد ذكر الله حد الانتصار فقال :" وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا " الشورى/40 .....
ثم قال :" وأما هذا الحديث فمن وقع في عرضه إنسان فله حالتان : حالة جواز وإباحة ، وهو الانتصار ممن وقع فيه دون عدوان ، وحالة فضيلة وحصول ثواب على صبره ، فأبو بكر استعمل فضيلة الجواز بعد ثالثة ، فانتصر ، والنبي صلى الله عليه وسلم أراد له حالة الفضيلة وحصول الثواب ". اهـ وقال القاري في "مرقاة المفاتيح"(8/3185) في سبب ردّ أبي بكر على الرجل :" عَمَلًا بِالرُّخْصَةِ الْمُجَوِّزَةِ لِلْعَوَامِّ ، وَتَرْكًا لِلْعَزِيمَةِ الْمُنَاسِبَةِ لِمَرْتَبَةِ الْخَوَاصِ ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ} [الشورى: 39] ، {وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ} [الشورى: 40] وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ} [النحل: 126]". اهـ وأما قيام النبي صلى الله عليه وسلم من المجلس ، فلأمرين :الأول : أنه أراد من أبي بكر رضي الله عنه أن يأخذ بالكمال المناسب لمنزلته وفضله ، قال القاري في "مرقاة المفاتيح"(8/3185) :" وَهُوَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَإِنْ كَانَ جَمَعَ بَيْنَ الِانْتِقَامِ عَنْ بَعْضِ حَقِّهِ ، وَبَيْنَ الصَّبْرِ عَنْ بَعْضِهِ، لَكِنَّ لَمَّا كَانَ الْمَطْلُوبُ مِنْهُ الْكَمَالَ الْمُنَاسِبَ لِمَرْتَبَتِهِ مِنَ الصِّدِّيقِيَّةِ ؛ مَا اسْتَحْسَنَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَهَذَا مَعْنَى قَوْلِهِ: (فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں ” زنیم “ کا لفظ ہے ، اس کا معنی ہے : بد نام ، جو شخص کسی بری شناخت سے معروف ہو اور وہ شخص جو اپنے آپ کو کسی قوم میں شامل کرے اور فی الواقع وہ اس قوم سے نہ ہو ۔ کچھ ہم نے اوپر عرض کر دیا ہے مزید اس کے متعلق اقوال مفسّرین پیشِ خدمت ہیں :

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ نے کہا :” زنیم “ کے متعلق متعدد اقوال ہیں : فرا نے کہا ہے : یہ وہ شخص ہے جس کے نسب میں تہمت ہو ، وہ اپنے آپ کو کسی قوم کے ساتھ ملائے اور وہ ان میں سے نہ ہو ” زنیم “ اس ولد الزنا کو کہتے ہیں جو خود کو کسی قوم کے ساتھ منسوب کرے اور حقیقت میں وہ اس قوم میں سے نہ ہو، ولید بن مغیرہ قریش کے نسب میں متہم تھا اور ان کی اصل سے نہ تھا، اس کے باپ نے اس کی پیدائش کے اٹھارہ سال بعد دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی ماں نے بدکاری کی تھی مگر مشہور نہ تھا حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ، شعبی کا قول ہے کہ ” زنیم “ وہ شخص ہے جو اپنی برائی اور ملامت میں اس طرح مشہور ہے جیسے بکری اپنے لٹکے ہوئے کان کے ساتھ پہچانی جاتی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :” زنیم “ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے گلے میں زائد گوشت ہونے کی وجہ سے مشہور ہوا ، اور مقاتل نے کہا : زنیم “ وہ شخص ہے جس کے کان کی جڑ میں زائد گوشت ہو ۔ (تفسیر کبیر ج 10 ص 605 ، داراحیاء التراث العربی ، بیروت : 1415 ھ)۔(جاری ہے)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...