Tuesday 21 July 2020

علماء میں حسد اور اس کا نقصان

0 comments
علماء میں حسد اور اس کا نقصان
محترم قارئینِ کرام :علم اختلافات کو زائل کرنے والا اور جھگڑے مٹانے والا ہے لیکن جب عالِم میں حسد پیدا ہو جائے تو علم اختلافات کو زائل کرنے اور جھگڑے مٹانے کی بجائے بڑھا دیتا ہے ۔ افسوس ! ہمارے زمانے میں بھی علماء کی ایک تعداد ایسی ہے جو باطنی گناہوں کا یا تو علم ہی نہیں رکھتے اور یا پھر علم رکھنے کے باوجود ایک دوسرے سے اختلافات اور آپس میں انتشار کا شکار ہیں اور اس کا بنیادی سبب ایک دوسرے سے حسد کرنا ہے ۔ علماء کے باہمی حسد کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ایک عالم دوسرے عالم سے تو حسد کرتا ہے لیکن کسی عبادت گزار سے حسد نہیں کرتا اسی طرح ایک عبادت گزار دوسرے عبادت گزار سے تو حسد کرتا ہے لیکن عالم سے حسد نہیں کرتا۔مزید فرماتے ہیں ’’وعظ کرنے والا جتنا کسی دوسرے وعظ کرنے والے سے حسد کرتا ہے اتناکسی فقیہ یا حکیم سے حسد نہیں کرتا کیونکہ ان دونوں کے درمیان ایک مقصد پر جھگڑا ہوتا ہے تو ان حسدوں کی اصل وجہ اور دشمنی کی بنیاد کسی ایک غرض پر اکٹھاہونا ہے اور ایک غرض پر وہ دو آدمی جمع نہیں ہوتے جو ایک دوسرے سے دور ہوں بلکہ ان کے درمیان کسی قسم کی مناسبت ضروری ہے اسی لئے ان دو آدمیوں کے درمیان حسد ہوتا ہے ۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب ذمّ الغضب والحقد والحسد ، القول فی ذمّ الحسد۔۔۔ الخ ، بیان السبب فی کثرۃ الحسد۔۔۔ الخ ، ۳ / ۲۴۰،چشتی)

اور حسد کی وجہ سے فی زمانہ علماء کا باہمی حال یہ نظر آتا ہے جس کی نشاندہی اس حدیث پاک میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ فقہاء ایک دوسرے سے حسد کریں گے اور ایک دوسرے سے اس طرح لڑائی کیا کریں گے جیسے جنگلی بکرے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں ۔ ( تاریخ بغداد ، ذکر من اسمہ عبد الرحمٰن ، ۵۴۴۷-عبد الرحمٰن بن ابراہیم بن محمد بن یحی۔۔۔ الخ ، ۱۰ / ۳۰۱)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علم والوں سے محتاط رہو ۔ اگر اُن کے ساتھ انار کے بارے میں اختلاف ہوجائے اور میں کہوں انار میٹھا ہے اور وہ کہے ترش (کھٹا) ہے تو مجھے خوف وہ مجھے ظالم حکمران سے قتل کروانے کی کوشش کرے گا ۔ (منہاج العابدین مترجم اردو صفحہ نمبر 215 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات میں دین اور حلال و حرام کے بیان نیز نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری کے معاملے کی روشن دلیلیں دیں لیکن انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے منصب اور ریاست ختم ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حسد کیا اور دشمنی مول لی اور اپنے پاس علم آجانے کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر پہلے سے متفق ہونے کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بعثت کے بارے میں اختلاف کیا حالانکہ علم اختلاف زائل کرنے کا سبب ہوتا ہے اور یہاں ان لوگوں کے لئے اختلاف کا سبب ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مقصود علم نہ تھا بلکہ اُن کا مقصود منصب و ریاست کی طلب تھی اسی لئے انہوں نے اختلاف کیا ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ کا رب قیامت کے دن بنی اسرائیل کے درمیان اس بات کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں ۔ (خازن ، الجاثیۃ ، تحت الآیۃ: ۱۷ ، ۴ / ۱۱۹،چشتی)(جلالین مع صاوی ، الجاثیۃ ، تحت الآیۃ: ۱۷ ، ۵ / ۱۹۲۴)

کَانَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ عُمَرَ رضی الله عنهما يَقُوْلُ: لَا يَکُوْنُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ حَتّٰی لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ وَلَا يَحْقِرَ مَنْ تَحْتَهُ وَلَا يَبْتَغِيَ بِالْعِلْمِ ثَمَناً ۔ (الطبقات الکبری/ 39)
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے : آدمی اس وقت تک اہل علم میں شمار نہیں ہوتا جب تک وہ (علم میں) اپنے سے فوقیت رکھنے والوں پر حسد کرنا ، اپنے سے کم درجہ افراد کو حقیر جاننا اور علم کے ذریعے کسی مال کا طلب کرنا ترک نہیں کرتا ۔

حسد اور حسد کرنے والوں کا انجام

حسد و کینہ ایسی بری عادت ہے جس کی مذمت میں بہت سی اَحادیث بیان ہوئی ہیں ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حسد نعمت پر ہی ہوا کرتا ہے ۔ پس جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی بندہ کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو دوسرے شخص کو اْس کے پاس وہ نعمت بْری معلوم ہو اس کو حسد کہیں گے ۔ حضرت سیّدنا آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے اور یہ حاسدین کا قائد ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی اَولاد میں حسد کی آگ میں جلنے والا قابیل ہے جس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا ۔

حسد کے تین درجے ہیں

پہلا درجہ یہ ہے کہ حاسد دوسروں کی نعمت کا زوال چاہے کہ خواہ مجھے نہ ملے مگر اِس کے پاس سے بھی جاتی رہے۔ اِس قسم کا حسد مسلمانوں پر گناہ کبیرہ ہے اور کافر فاسق کے حق میں حسد کرنا جائز مثلاً کوئی مالدار اپنے مال سے کفر یا ظلم کر رہا ہے‘ اْس کے مال کی اِس لئے بربادی چاہنا کہ دْنیا اس کے کفر و ظلم سے بچے‘ جائز ہے ۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ حاسددوسرے کی نعمت خود لینا چاہے کہ فلاں کا باغ یا اْس کی جائیداد میرے پاس آ جائے یا اُس کی ریاست کا میں مالک ہوں یہ حسد بھی مسلمانوں کے حق میں حرام ہے ۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ حاسد اس نعمت کے حاصل کرنے سے خود تو عاجز ہے اِس لئے آرزو کرتا ہے کہ دوسرے کے پاس بھی نہ رہے تاکہ وہ مجھ سے بڑھ نہ جائے یہ بھی منع ہے ۔

حسد کے کل سات اَسباب ہیں پہلا سبب عداوت اور بغض ہے جس سے کسی کو اِیذاء پہنچ جائے۔ پہلے تو وہ بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور مجبور ہو کر چاہتا ہے کہ اِس پر غیبی مار پڑے اِس کی مصیبت سے خوش اور آرام سے ناخوش ہوتا ہے جیسا کہ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : اگر آپ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو بھلائی پہنچے تو اُن کو بُرا لگتا ہے ۔ (آل عمران:۰۲۱)

دوسرا سبب تکبر ہے کہ حاسد اپنی بڑائی کا خواہشمند ہے ۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : کیوں نہ اُتارا گیا یہ قرآنِ (مجید) اِن دو شہروں کے کسے بڑے آدمی پر ۔ (الزخرف:۱۳)

تیسرا سبب سرداری کی خواہش ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ سب میرے حاجت مند ہوں۔

چوتھا سبب غصب اور بڑائی ہے ۔ حاسد دوسرے کو نعمت کا نااہل سمجھتا ہے‘ اِس لئے چاہتا ہے کہ اْس کے پاس نہ رہے ۔

پانچواں سبب یہ ہے کہ حاسد دوسروں کے کمال میں اپنا زوال سمجھے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو میں ناکام ہو جاؤں گا۔ جیسے کہ آج ہم اپنے ہم پیشہ سے اِسی قسم کا حسد رکھتے ہیں ۔ چھٹا سبب‘ حبِ حکومت ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ میں اپنے کمال میں بے نظیر رہوں کہ میرے برابر کوئی دوسرا نہ نکلے ۔ اور سب سے بڑھ کر حاسد کی کم ظرفی اور کمینہ پن یہ ہے کہ اْس سے کسی کا خوشحال ہونا دیکھا نہیں جاتا ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے : آپس میں حسد نہ کرو اور قطع تعلقی نہ کروایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو ۔ (مسلم جلد۲باب تحریم التحاسد والتباغض والتدابر رقم۳۲،چشتی)(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۷ص۳۰۳‘ شرح السنة جلد۶ ص۶۹۴‘ ابن ماجہ حدیث نمبر۹۴۸۳)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادِ مبارک فرمایا : تم حسد کی بیماری سے بہت بچو حسد اِنسان کی نیکیوں کو اِس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔ (مشکوٰة حدیث نمبر ۰۴۰۵)(ابوداؤد حدیث نمبر۳۰۹۴‘ مرقاة جلد۹ص۲۴۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : نہ مال و دولت کی حرص میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور نہ آپس میں حسد کرو ۔ (بخاری ‘ مسلم ‘ ابوداؤد ‘ مسنداحمد‘ کنزالعمال)

حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : حسد کرنے والا، چغل خور اور کاہن میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا اور نہ میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : ترجمہ : وہ لوگ جو اذیت پہنچاتے ہیں اِیماندار مردوں اور اِیمان دار عورتوں کو حالانکہ اْنہوں نے اَیسا کوئی (بُرا) کام نہیں کیا تو اِن (اذیت پہنچانے والوں) لوگوں نے اپنے سروں پر بہتان باندھنے اور کھلے گناہ کا بوجھ اُٹھا لیا ۔ (سورہ الاحزاب:۸۵الترغیب والترہیب)

حضرت عبد اللہ بن کعب اپنے والد ِ گرامی سے روایت کرتے ہیں‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہے ”دو بھوکے بھیڑئیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں وہ بکریوں کا اِتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی حرص اور حسد مسلمان کے دین کا نقصان کرتے ہیں ۔ (الترغیب والترہیب)

اللہ ربُّ العزّت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حسد جیسے مرض سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔