Monday 27 July 2020

اے نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات و صاحبزادیوں سے فرمادیں

0 comments
اے نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات و صاحبزادیوں سے فرمادیں

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ ۔
ترجمہ : اے نبی (صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں (رضی اللہ عنہن) فرمادو ۔ (سورہ احزاب آیت نمبر 59)

محترم قارئینِ کرام : کسی بھی مترجم کا ترجمہ اور دیکھیں وہاں‌ یہی ملے گا “اے نبی اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں‌ سے فرمادیجیے” کسی بھی جگہ یہ نہیں ملے گا اے نبی اپنی بیویوں سے اور بیٹی سے فرمادیجیے ۔

اب خدا کا خوف کریں‌ وہ لوگ جو کہتے ہیں‌ کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک ہی بیٹی تھی ۔ کیا یہاں‌ جمع کا صیغہ بے معنیٰ استعمال ہوا ہے ؟

اس پر شیعہ حضرات اعتراضات شروع کر دیتے ہیں‌ اور کم علم مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اس آیت پر کہتے ہیں :‌ یہاں جمع کا صیغہ ضرور ہے پر مراد صرف ایک ہی بیٹی ہے ۔

جواب‌ : قرآن کی تفسیر بیان کرنے کہ لیے یا تو قرآن ہی کی آیت پیش کرنی ہوگی یا جو تفسیر نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کی ہو یا پھر چلیں اپنی معتبر کتابوں سے کسی امام کا قول دکھا دیں ۔

جب نہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ تفسیر کی نہ کسی امام کا قول ہے تو بتاؤ کے اگر ذرا سا ایمان بھی دل میں ہے تو کیا قرآن کے اس واضع حکم کو محض کسی ذاکر کے کہنے پر جھٹلا دوگے ؟

نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک بیٹی تھی یہ عقیدہ کہاں سے لیا آپ نے؟

شیعہ حضرات کی کسی معتبر کتاب میں ایسا نہیں تو پھر کیا ذاکروں‌ کے کہنے پر چل پڑے ؟

قرآن ایسے لوگوں سے فرماتا ہے کہ : أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُبِينٌ ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر 156) ۔ ترجمہ : یا تمہارے پاس اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔

سورہ الطور میں ہے : أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ ۖ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (سورہ الطور آیت نمبر 38)
ترجمہ : یا کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے ، جس پر چڑہ کر یہ سنتے ہیں” (اگر ایسا ہے ( تو ان کا سننے والا کوئی روشن دلیل پیش کرے ۔

سورہ البقرہ میں ‌فرمایا : قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 111)
ترجمہ : ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔

اگر نہیں پتا تو کہ ایسی کوئی تفسیر ہے تو کم از کم اپنی طرف سے تفسیر نہ کریں ۔

اس شخص سے بڑھ کر شقی اور بدبخت کون ہو سکتا ہے جو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری بیٹیوں کو کسی کالے کافر کی اولاد قرار دے ، جو جہالت و ضلالت کا سوداگر بن کر یہ نعرہ بلند کرے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی ، جو اپنے غلیظ دامن میں یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ اہل بیت کی تحقیر و تصغیر فرض عین ہے ، جو بصیرت قلبی سے محروم ہو کر قرآنی و حدیثی اور اجماعی دلائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ کہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن کے بابا نہیں محض مربی تھے ؟(چشتی)

قیامت کے دن کا وہ منظر کتنا اندوہناک ہو گا جب ان ناانصافوں کے خلاف نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری بیٹیاں اللہ احکم الحاکمین کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گی کہ انہوں نے ہماری نسبت ہمارے پاک بابا سے توڑنے اور ایک ناپاک کافر سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں اور باغیوں کو گرفتار کر کے عبرت ناک عذاب سے دوچار کرے گا۔ وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جس دن ان کے ناپاک ارادے خاک میں مل جائیں گے ۔

شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار صاحبزادوں کا ثبوت

شیعہ حضرات نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اولاد شریف کے حق میں افراط و تفریط کرتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صرف ايک صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا کو حقیقی دختر شمار کرتے ہیں اور باقی تین صاحبزدایوں کو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اولاد سے خارج گردانتے ہیں لطف کی بات يہ ہے کہ شیعہ مذہب کی ابتدائی بنیادی کتابوں میں واضح طور پرلکھا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار بیٹیاں ہیں لیکن ہم نہیں سمجھ سکے کہ شیعہ حضرات اپنے اکابر ومجتہدین سے ناراض کیوں ہیں ؟

شیعہ ملاّں نے امام جعفر باقر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا : ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وام كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب ۔
ترجمہ : سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد یہ تھی : قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب رضی اللہ عنھن ۔ (قرب الإسناد للحميري : 9/3، بحار الأنوار للمجلسي : 151/22،چشتی) ، شیعہ کے اصولوں کے مطابق یہ قول بالکل صحیح اور ثابت ہے ۔

ایک اور شیعہ ملاّں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے : ولد لرسول الله صلى الله عليه وسلم من خديجة : القاسم، والطاهر، وهو عبدالله، وام كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی۔ قاسم، عبداللہ طاہر، ام کلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن ۔ (الخصال لابن بابويه القمي، ص : 404)

شیعہ مذھب کے ملاّں محمر باقر مجلس رافضی (م : 1111ھ) نے رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی تسبیح یوں ذکر کی ہے : اللهم صل على أم كلثوم ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها، اللهم صل على رقية ابنة نبيك، والعن من أذى نبيك فيها ۔
ترجمہ : اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی ام کلثوم پر رحمتیں نازل فرما اور اس شخص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تکلیف دی ۔ اے اللہ ! تو اپنے نبی کی بیٹی رقیہ پر رحمتیں نازل فرما اور اس شحص پر لعنت فرما جس نے تیرے نبی کو رقیہ کے حوالے سے تکلیف پہنچائی ۔ (بحار الأنوار : 110/95،چشتی)

ابن ابی الحدید رافضی شیعہ (م : 656ھ) نے لکھا ہے : ثم ولدت خديجة من رسول الله صلى الله عليه وسلم : القاسم، والطاهر، وزينب، ورقية، وأم كلثوم، وفاطمة ۔
ترجمہ : سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو بیٹے، قاسم و طاہر رضی اللہ عنہما اور چار بیٹیاں، زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن تھیں ۔ (شرح نهج البلاغة : 132/5)

قرآن واحادیث کی واضح سے نصوص او ر کتبِ سیرت وتاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے متعدد شادیاں کیں اور اللہ تعالی نے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ام المومنین حضرت خدیجہ اور سید ہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہما سے اولاد جیسی نعمت سےنوازا ۔ مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار صاحبزادیاں ہیں ، البتہ صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے ۔ اختلاف کا سبب یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بیٹے بچپن میں ہی وصال فرما گئے۔ اکثر مؤرخین نے بیٹوں کی تعداد تین بتائی ہیں جن کے نام ہیں حضرت قاسم ، حضرت عبد اللہ اور حضرت ابراہیم رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘ جبکہ بعض نے کہا چوتھے صاحبزادے حضرت طیب اور پانچویں حضرت طاہر بتائے ہیں‘ اول الذکر اصحاب کی رائے کے مطابق طیب اور طاہر حضرت عبداللہ ہی کے القاب ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری اولاد ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی‘ سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو ام المؤمنین سیدہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے ۔

ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی پہلی شادی ابو ہالہ ہند بن النباش بن زُرارہ التمیمی سے ہوئی جس سے دو بیٹے ہالہ اور ہند پیدا ہوئے۔ اس کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی عتیق بن عابد بن عبداللہ المخزومی سے ہوئی جس سے ایک بیٹا ہند بن عتیق پیدا ہوا۔ اس سے طلاق لینے (یا بعض روایات کے مطابق اس کی وفات) کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا ۔ (سالم، محمد، الخضر، لسيرة العطرة لأم المؤمنين خديجة: 13، الکویت، مبرة الال و الاصحاب، 2009،چشتی)

نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی ۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں ۔ (السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷،چشتی)(اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید،ج۷،ص۹۱)

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چار صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے رضوان اللہ علیہم اجمعین پیدا ہوئے ۔ آپ کی صاحبزادیوں کے مختصر احوال درج ذیل ہیں :

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنھا

ام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں ۔ بعثت نبوی سے دس سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ اعلان نبوت کے وقت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول فرمایا تو سیدہ زینب کی عمر دس سال تھی‘ اپنی والدہ کے ہمراہ مشرف بہ اسلام ہوئیں ۔ (البدایة وانهایة، ج: 3، ص: 113)

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص بن ربیع سے ہوا جو مکہ کے صا حب ثروت، شریف اور امانت دار شخص تھے۔ حضرت ابوالعاص سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے سگے بھانجے تھے ۔ اعلانِ نبوت کے بعد مشرکین مکہ نے حضرت ابوالعاص کو اکسایا کہ حضرت محمد صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کوطلاق دے دو اور قبیلہ قریش کی جس عورت سے نکاح کرنا چاہو ہم پیش کر سکتے ہیں ۔ حضرت ابوالعاص نے سیدہ زینب کو طلاق دینے سے انکار کر دیا۔ شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام میں بھی ابوالعاص نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دوسرے محصورین کے لیے خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرتے رہے‘ اس لیے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ابوالعاص نے ہماری دامادی کی بہترین رعایت کی اور اس کا حق ادا کر دیا‘ حالانکہ حضرت ابوالعاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا ۔

حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد میں ایک بیٹا علی بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ اور ایک صاحبزادی امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا تھیں ۔ جبکہ ایک صاحبزادہ صغر سنی میں ہی فوت ہوگیا ۔ فتح مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا ‘ ان کی شہادت یرموک کے معرکہ میں ہوئی، بعض روایات کے مطابق قریب البلوغ ہو کر طبعی موت سے وصال ہوا ۔ (ابن حجر عسقلانی، الاصابه، ج: 2، ص: 503،چشتی)

مکہ سے مدینہ ہجرت کے دوران حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں‘ یہی زخم آپ کی وفات کا سبب بنا ۔ اسی وجہ سے بعض اکابرین نے انہیں شہیدہ کے نام سے تعبیر کیا ہے ۔ ان کی تجہیز و تکفین کے بعد رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا تہبند سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے کفن کے ساتھ رکھنے کے لیے دیا‘ آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدہ کو خود قبر میں اتارا اور پھر فرمایا : قبر کی تنگی اور خوف ناکی میرے سامنے تھی اور زینب کی کمزوری اور ضعف بھی میرے سامنے تھا‘ اس بات نے مجھے رنجیدہ کیا ۔ پس میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ زینب کے لئے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور زینب کے لئے آسانی فرما دی ۔ (الهیثمی، مجمع الزوائد، ج: 3، ص: 47)

حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیّدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دوسری صاحبزادی ہیں جو حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تین سال چھوٹی ہیں ۔ حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئیں ۔ ان کی پیدائش کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔ اعلان نبوت کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی والدہ اور بڑی بہن کے ہمراہ اسلام قبول کیا ۔

بعثت سے قبل حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر رخصتی ہونا باقی تھی ۔ اعلانِ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹے کو رقیہ بنتِ محمد سے علیحدگی اختیار کرنے پر زور دیا‘ اس پر عتبہ بن ابولہب نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی ۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا گیا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ ووآلہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی بھی کردی ۔

نبوت کے پانچویں سال نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا‘ اس موقعہ پر رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’یہ جوڑا کس قدر خوبصورت ہے ۔‘ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی ۔ حبشہ میں قیام کے دوران اس مبارک جوڑے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبداللہ رکھا گیا‘ جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبد اللہ مشہور ہوئی۔ حضرت عبداللہ کا وصال 6 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوا ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اتارا ۔

ہجرت کے دوسرے سال غزوہ بدر رونما ہوا‘ اسی دوران سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا خسرہ سے بیمار ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کو سیدہ رقیہ کی تیمار داری کے لئے مدینہ میں ہی مقیم رہنے کا فرمایا۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غزوہ بدر کے لیے روانہ ہونے کے بعد سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پرملال ہوا ۔ جب جب زید بن حارثہ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔ (ابن سعد، طبقات، ج: 8، ص: 25،چشتی)

چند ایام کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کے لئے حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی ۔

حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تیسری بیٹی ہیں ۔ یہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں ۔ ان کی ولادت بھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی ۔

اعلان نبوت سے پہلے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا‘ رخصتی ہونا باقی تھی کہ ابو لہب کے کہنے پر عتیبہ نے آپ کو طلاق دے دی۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہلِ خانہ میں سے ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ مکرمہ میں ہی رہ گئے ۔ بعد ازاں حضرت ابو رافع اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما ان کو لینے آئے اور بحفاظت مدینہ طیّبہ پہنچایا ۔ (ابن کثیر، البدایه و النهایه، 3: 202)

حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سیدہ ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ روایات کے مطابق حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ یہ چھ سال تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں رہیں اور شعبان 9 ہجری کو ان کا وصال ہوا ۔ (ابن سعد، طبقات، 8: 52)

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں ۔ ان کی ولادت کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی اور اعلانِ نبوت ہو چکا تھا ۔ آپ کی پرورش اور تربیت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے ام المؤمنن سیدہ سودہ بنتِ زمعہ اور بڑی بہن سیدہ ام کلثوم کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حفاظت میں ہجرت فرمائی ۔

ماہ رجب 2 ہجری میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا ، نکاح کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر پندرہ یا اٹھارہ برس تھی ۔ (تفسیر القرطبی، 41: 142،چشتی)

حضرت سید فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی ، جن میں حضرت امامِ حسن، حضرت امام حسین، حضرت زینب کبریٰ، حضرت زینب کبریٰ (ام کلثوم) اور حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم شامل ہیں ۔ حضرت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ صغر سنی میں وصال فرما گئے۔ سیدہ زینب کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا جبکہ حضرت زینبِ صغریٰ (ام کلثوم) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح امیر المومین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 17 ہجری کو ہوا ۔

نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہایت مغموم رہتی تھیں ۔ یہی غم آپ کے لیے مرض الموت ثابت ہوا ۔ بیماری کے دوران خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری اور خدمات سرانجام دیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار ہوئیں اور چند روزہ بیماری کے بعد تین رمضان 11 ہجری‘ منگل کی شب اٹھائیس یا انتیس برس کی عمر مبارک میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا ۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت کی اور سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سمیت کثیر صحابہ کرام جنازہ میں شریک ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو قبر میں اتارا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)








0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔