Wednesday, 22 July 2020

منافق کو سیّد نہ کہو ، خاموش پیغام اہلِ اسلام کے نام

منافق کو سیّد نہ کہو ، خاموش پیغام اہلِ اسلام کے نام

محترم قارئینِ کرام : علاّمہ سیّد عرفان شاہ صاحب مشہدی فرماتے ہیں : پہلے خلاصہ بیان پڑھیں جس کی ویڈیو ساتھ دی جا رہی ہے اس کے بعد قرآن و حدیث کی روشنی میں مختصر مضمون جو ساتھ دیا جا رہا ہے ضرور پڑھیں تاکہ منافقینِ زمانہ کو پہچان سکیں اور اُن کے شر و فتنہ سے بچیں ۔

خلاصہ بیان : ہمارے یہاں کوئی بھی چیز ایسی نہیں آپ یقین کریں البتہ افسوس ہوتا ہے ، افسوس ہوتا ہے لوگ اگر کُھلے دشمن ہوں تو ان سے نمٹنا آسان ہے اپنوں کے بھیس میں بات کریں گے ۔ کچی لسی ، ملاوٹ کی بات ، میں نے کہا عیسائیوں سے ہی تو اتنا سیکھ لو (اونا کوئی ملاوٹ وی کرنی ہووے تے اوتے لکھدے نے) کہ یہ ملاوٹ ہے اس میں ، تم مسلمان ہوکر اور لباس تم فقیروں کا پہن کر اور سیدوں کا لیبل لگا کر ، لیبل سیدوں کے لگے ہوئے ہیں حالانکہ سید میرے پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے سنئے سنن ابی داؤد شریف اٹھا کے دیکھو۔ سنن ابی داؤد شریف اٹھا کے دیکھو میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، لا تقولوا للمنافقِ سيد ، اے میرے امتیوں کسی منافق کو سید نہ کہنا ، فإنه إن يكُ سيدًا فقد أسخطتم ربَّكم عزوجل ،کیونکہ اگر تم نے کسی بد عقیدہ منافق کو سید کہا تو تمہارا رب تم پر غضب کرے گا کیونکہ وہ کسی منافق اور بدعقیدہ کو سید کہنا برداشت نہیں کرتا ، سید وہی ہو سکتا ہے جو صحیح العقیدہ ہو ۔ صحاہ ستہ میں یہ حدیث شریف ہے ۔
لہٰذا احتیاط رکھو بدعقیدگی کی بات کرنا اور اُس کے بعد کہنا کے سید ہیں کیوں (ساڈا شجرہ تکو میں آکھیا شجرہ اگر تکیاں سید بنی دا تے ابو لہب دا وی تکو ، سکا چاچا نہیں سی) خون سے شجرے بنتے ہیں ؟ شجرے ایمان سے بنتے ہیں ؟ یہ کیا بات ہوئی (ساڈا شجرہ تکو ، میں اکھیا تکنے آں تُسی سَن پہلےاپنا ایمان دسو اسی توہن خون دا شجرہ تکانے آں نال قرآن دی آیت پڑھنے آں خون اک اے)
لیکن قرآن اکھدا اے
تَبَّتْ يَدَآ اَبِىْ لَـهَبٍ وَّتَبَّ ۔
(اخے یا اللہ خون نہیں تکیا ، فرمایا میں خون نہیں تکدا میں ایمان تکناں)
اگر خون والا ایمان والا ہوگا تو پھر خون کی دوہری قدر ہوگی لیکن اگر ایمان والا نہیں تو اکیلی قدر بھی نہیں کیوں ؟
إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔
نوحؑ تمہاری کشتی میں گدھے اور کتے کی جگہ تو ہو سکتی ہے لیکن جو بیٹا ایمان میں تیرے ساتھ نہیں اس بیٹے کی بھی جگہ نہیں دی جا سکتی ۔ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ اس کو نکال اپنی کشتی سے حالانکہ نوحؑ کہہ رہے ہیں بیٹا ہے میرا فرمایا بیٹا مت کہیں اس کو ،نہیں بیٹا تیرا خون تیرا ہے مگر بیٹا تیرا نہیں، کیوں کہ بیٹا تیرا وہ ہوگا جو تیرے دین پر ہوگا ۔ خون ہے چچا کا مگر کوئی نام لیتا ہے ، ؟ اُس چچا کا نام خطبہ میں پڑھا جاتا ہے جو چچا ایمان لایا حضرتِ عباس رضی اللہ عنہ اور حضرتِ امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام خطبہ میں پڑھتے ہیں ۔ چچا تو دس (10) تھے ، حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تو دس (10) تھے، دو (2) کے نام خطبہ میں کیوں بولتے ہیں ۔ والعمیہ شریفین مطہرین من الادناس سید یناہ الحمزہ و ابی الفضل العباس ، (میں اکھیا سوہنیا کانی ونڈ ہوندی اے پئی دوں (2) دے نام آئے اٹھاں (8) دے کیوں نہیں آئے فرمایا ایتھے چاچے بابے دی گل نہیں ایتھے مومن دی گل اے) ۔ اگر مومن بنے تو پھر خون کی قدر ہے بدعقیدہ بنے تو پھر خون کی کوئی قدر نہیں ہے ۔ میں کبھی کبھی کہتا ہوں آپ کے سامنے یہ مقبولِ نظر خُلفاء ہیں کیوں کہتا ہوں اس لیے کہ جو نبی کا فقیر ہوتا ہے اس کو اللہ کی قسم اپنے ماننے والے اپنے بیٹوں جیسے عزیز ہوتے ہیں ، کیوں کے نبی کی نسبت یہ بتاتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جاؤ پیچھے کھڑے ہونا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مصلےٰ پر کھڑا کرنا ۔ (وڈیو ساتھ دی جارہی ہے سماعت فرمائیں)

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقُولُوا لِلْمُنَافِقِ:‏‏‏‏ سَيِّدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ سَيِّدًا فَقَدْ أَسْخَطْتُمْ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ ۔
ترجمہ : سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ منافق کو سید نہ کہو اس لیے کہ اگر وہ سید ہے (یعنی قوم کا سردار ہے یا غلام و لونڈی اور مال والا ہے) تو تم نے اپنے رب کو ناراض کیا ۔(سنن ابو داؤد - ادب کا بیان - حدیث نمبر 4977،چشتی)(سنن النسائی الیوم واللیة (٢٤٤)،(تحفة الأشراف: ١٥٤٨٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٤٦، ٣٤٧)

حدثنا علي بن عبد الله ، قال‏:‏ حدثنا معاذ بن هشام قال‏:‏ حدثني ابي ، عن قتادة ، عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏ :‏ لا تقولوا للمنافق‏ :‏ سيد ، فإنه إن يك سيدكم فقد اسخطتم ربكم عز وجل‏ ۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم منافق کو سید مت کہو، کیونکہ اگر وہ تمہارا سید اور سردار ہے تو لامحالہ تم نے اپنے رب عز و جل کو ناراض کر دیا ۔ (الادب المفرد كتاب الأقوال . بَابُ لا يَقُولُ لِلْمُنَافِقِ‏ سَيِّدٌ ، منافق کو سید نہیں کہنا چاہیے ۔ حدیث نمبر 760)،(سنن أبوداؤد، كتاب الأدب: 4977،چشتی)(النسائي فى الكبريٰ : 101/9)

لا تقولوا للمنافق سيدنا فإنه إن يك سيدكم فقد اسخطتم ربكم عز وجل ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کو یوں نہ کہو : اے ہمارے سردار ۔ کیونکہ اگر ایسا شخص تمہارا سردار ہوا تو یقیناً تم اپنے ربّ عزوجل کو (‏‏‏‏اپنے آپ پر) ناراض کر دو گے ۔ (سلسله احاديث صحيحه الاداب والاستئذان حدیث نمبر 2710)


وَعَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَا تَقُولُوا لِلْمُنَافِقِ سَيِّدٌ فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ سَيِّدًا فَقَدْ أَسْخَطْتُمْ رَبَّكُمْ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ۔
ترجمہ : روایت ہے انہیں سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرمایا منافق کو سیّد نہ کہو (1) کہ اگر وہ سید ہوا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کردیا (2) ۔ (ابوداؤ د) ۔ (رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ المصابیح آداب کا بیان حدیث نمبر 4682،چشتی)

حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر 6 میں اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں :

(1) اس حکم میں کافر، فاسق ، منافق سب ہی داخل ہیں بلا ضرورت خوشامد کے لیے ان لوگوں کو ایسے الفاظ کہنے سخت جرم ہیں ، رب تعالی نے عزیز مصر کو حضرت یوسف علیہ السلام کا سید نہ کہا بلکہ زلیخا کا سید یعنی خاوند کہا " اَلْفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الْبَابِ ۔
(2) اس سے معلوم ہوا کہ بے دین کو نہ تو صرف سید کہو نہ سید القوم کہو بے دین تو ذلیل ہے سید عزت والا ہوتا ہے،یوں ہی اسے سردار،سرور،حضور وغیرہ کہنا حرام ہے کہ تعظیمی الفاظ کفار کے لیے استعمال کرنا رب تعالٰی کی ناراضی کا باعث ہیں ضرورت دین یا ضرورت دنیاوی کی وجہ سے یہ کہنا معاف ہے یوں ہی بیدینوں کو مولانا تعظیمًا کہنا جائز نہیں کہ مولیٰ تو سید سے بھی زیادہ تعظیم کا لفظ ہے الله تعالٰی کے لیے مولانا فرمایا گیا سیدنا نہیں کہا گیا انت مولانا،ہاں اگر مولیٰ بمعنی غلام مراد لے کر اسے مولانا کہا جاوے تو جائز، رب تعالٰی فرماتا ہے :"فَاِخْوٰنُکُمْ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوٰلِیۡکُمْ" بہرحال توریہ جائز ہے تعظیم ناجائز،اس کی پوری تحقیق یہاں ہی مرقات میں دیکھو ۔

عربی میں سید کے معنی ہیں سردار آقا۔ ظاہر ہے کہ کسی منافق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا کہ اس کو کوئی مسلمان سردار آقا کہے بلکہ اگر کوئی منافق واقعتا سردار ہو بایں طور کہ وہ اپنی قوم کا سربراہ ہو یا کچھ لوگوں کا حاکم ہو اور غلام و باندی اور دوسرے اسباب کا مالک ہو تو اس کے باوجود وہ اس قابل نہیں سمجھا جائے گا کہ کوئی مسلمان اس کو سردار و آقا کہہ کر مخاطب کرے یا اس کو سید کہے اور اگر کوئی مسلمان اس کو سید و سردار و آقا کہے گا تو وہ اللہ کے غضب کا مستوجب ہوگا کیونکہ یہ لفظ سید تعظیم و احترام پر دلالت کرتا ہے اور وہ منافق مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی تعظیم کا مستحق نہیں ہے اور اگر صورت یہ ہو کہ وہ واقعتا کسی بھی طرح کی سیادت و سرداری رکھتا ہی نہ ہو تو اس کو سید کہنا اور بھی برا ہوگا کیونکہ اس کے باوجود اس کو سید کہنے والا نہ صرف مذکورہ حکم کی خلاف و رزی بلکہ جھوٹ اور نفاق کا بھی مرتکب ہوگا۔ ظاہر تو یہ ہے کہ اس بارے میں کافر، گم کردہ راہ ہدایت اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان بھی منافق کے حکم میں داخل ہوں لیکن حدیث میں خاص طور پر صرف منافق ہی کا ذکر ہے اس لئے کہا گیا ہے کہ منافق چونکہ بہر حال ظاہر طور پر مسلمان ہوتا ہے اس لئے عام مسلمانوں کا اس کی تعریف و خوشامند میں مبتلا ہونا زیادہ قریبی احتمال رکھتا ہے لہذا صرف منافق کا ذکر کر کے اس بات کی ممانعت فرمائی گئی کہ اس کو سید نہ کہو ۔

قرآن و حدیث میں منافقین کی علامات

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَO ُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَO فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَO وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَO أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَO وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَO وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَO اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَO أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَO مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَO صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَO أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَO يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔ (سورہ البقرہ، 2: 8 تا 20)
ترجمہ کنز الایمان
(8) اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں ،
(9) فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں ۔
(10) ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ، بدلا ان کے جھوٹ کا -
(11) اور ان سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے ہیں ،
(12 ) سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں ،
(13) اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں سنتا ہے وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں -
(14) اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں -
(15) اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔
(16) یہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے -
(17) ان کی کہاوت اس طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا -
(18) بہرے ، گونگے ،اندھے تو وہ پھر آ نے والے نہیں ،
(19) یا جیسے آسمان سے اترتا پانی کہ ان میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں ، کڑک کے سبب، موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو، گھیرے ہوئے ہے -
(20) بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا بیشک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ النَّبِيِّ قَالَ : آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَـلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ. وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ بات کرے تو جھوٹ بولے گا ۔ وعدہ کرے گا تو خلاف ورزی کرے گا اور امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے گا ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 33، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 59، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ: أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے ، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے ۔ (بخاري، الصحيح، 1: 21، رقم: 34،چشتی)(مسلم، الصحيح، 1: 78، رقم: 58،چشتی)

قرآن و حدیث میں منافقین کی درج ذیل علامات مذکور ہیں

دعوی ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر ایمان اس قدر ضروری نہ سمجھنا ۔
دھوکہ دہی اور مکرو فریب کی نفسیات ۔
یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں ۔
یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔
قلب و باطن کا بیمار ہونا ۔
جھوٹ بولنا ۔
نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی یعنی مفسدانہ طرزِ عمل کے باوجود خود کو صالح اور مصلح سمجھنا ۔
۔ دوسروں کو بے وقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا ۔
امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا ۔
اجماع امت یا سواد اعظم کی پیروی نہ کرنا ۔
کردار کا دوغلا پن اور ظاہر و باطن کا تضاد ۔
اہل حق کے خلاف مخفی سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا ۔
اہل حق کے استہزاء کی نفسیات ۔
مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور ان کی تحقیر و تمسخر کے در پے ہونا ۔
باطل کو حق پر ترجیح دینا ۔
سچائی کو روشن دیکھتے ہوئے بھی اس سے آنکھیں بند کر لینا ۔
تنگ نظری، تعصب اور عناد میں اس حد تک پہنچ جانا کہ کان، حق سن نہ سکیں ، زبان حق کہہ نہ سکے اور آنکھیں، حق دیکھ نہ سکیں ۔
اہل حق کی کامیابیوں پر دنگ رہ جانا اور ان پر حسد کرنا ۔
مفاد پرستانہ طرزِ عمل یعنی مفادات کے حصول کے لیے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا ۔
حق کے معاملے میں نیم دلی اور تذبذب کی کیفیت میں مبتلا رہنا ۔
اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کرنا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...