Saturday, 25 July 2020

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کو پاگل و بے وقوف کہنا حصّہ دوم

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء کو پاگل و بے وقوف کہنا حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ اس موضوع کا پہلا حصّہ پڑھ چکے ہونگے جس کا لنک یہ ہے (https://faizahmadchishti.blogspot.com/2020/07/blog-post_24.html) آیئے اب اس موضوع کا دوسرا حصّہ پڑھتے ہیں :

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمْ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمْ ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہۡزِءُوۡنَ ۔ ﴿سورپ البقری آیت نمبر 14﴾
ترجمہ : اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں ۔


سفاہت ، (سَفاہَت) ، { سَفا + ہَت } ، ( عربی )

تفصیلات : اصلاً عربی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی اور حالت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ تحریراً ١٧٨٠ء سے "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے ۔

معانی

اسم کیفیت (مؤنث - واحد)

(1) بے وقوفی ، حماقت ۔

"قاری اس کی باقاعدگی سے مرعوب ہو کر اس کے مندرجات کی سفاہت اور ذہنی افلاس سے واقف نہ ہو سکے ۔ (١٩٧٠ء، برش قلم، ٣٢٧)

(2) گھٹیا پن ، کمینہ پن ۔

یہ طیش و سفاہت یہ کذب و خنا فہم فی الریا ستہ متنا فسون ۔ ( ١٩٦٩ء، مزمورِ میر مغنی، ٥١)


سفاہت (بے وقوفی) (السَّفَاهَةُ) ، الثقافة والدعوة أصول الفقه التربية والسلوك
المعنى الاصطلاحي : کم عقلی جو انسان کو برے رویے پر برانگیختہ کرتی ہے، خواہ یہ معاملہ خود اس کے اور اس کے نفس کے درمیان ہو، یا اس کے اور اس کے خالق کے درمیان، یا اس کے اور دیگر مخلوق کے درمیان ہو ۔

الشرح المختصر : ’سفاہت‘ کمزور عقل والے لوگوں کی صفات میں سے ہے۔ یہ ایک قسم کی جہالت اور ناسمجھی ہے جو ایسے شخص کو برے اقوال و افعال پر ابھارتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: دینی امور میں سفاہت: اس میں شامل کچھ صورتیں یہ ہیں: بندہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے امید و خوف اور محبت رکھے۔ اسی طرح ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے زبان کو مسلمانوں کی عزت ریزی میں آزاد چھوڑ دینا اور اچھے لوگوں کو مطعون کرنا۔ اسی طرح بغیر کسی سبب کے بہت زیادہ غصہ کرنا اور جلدی سے منفعل ہو جانا، ان کے علاوہ سفاہت کے دیگر مظاہر۔ دوسری قسم: دنیوی امور میں سفاہت: اس سے مراد تدبیر و تنظیم کی کمی اور عقل سلیم کے برخلاف رائے اور عمل کی خرابی ہے۔ اس کے کچھ مظاہر یہ ہیں: سفیہ (بے وقوف شخص) کا اپنے مال کو ایسی چیز میں خرچ کرنا جو مناسب نھیں ہے جیسے اسراف و فضول خرچی کے مختلف وجوہ اور شکلیں، اور اس کا اس کی اصلاح کرنے اور اسے اچھے طریقے سے استعمال کرنے سے قاصر رہنا۔ اسی طرح بلا فائدہ بہت زیادہ باتیں کرنا اور دنیا کی خاطر رذیل لوگوں کی تعریف کرنا وغیرہ ۔

التعريف اللغوي المختصر : السَّفاهَةُ : ’نادانی‘۔ ’سفاہت‘ کی ضد بردباری اور ہوشمندی کے الفاظ آتے ہیں۔ سفاہت کا حقیقی معنی ہے: (عقل کا) ہلکا پن، حرکت اور طىش۔ ایک اور قول کی رو سے اس کا معنی ہے: میلان اور اضطراب۔ اسی وجہ سے کم عقل کو ’سفیہ‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ مضطرب و پریشان ہوتا ہے ۔ (ترجمة هذه المفردة متوفرة باللغات التالية)

سفاہت کا لغوی معنی ہے خفت ‘ سبکی ‘ ہلکا ہونا ۔ سفیہ : سبک سر ‘ بیوقوف ‘ قاصر الفہم ، (رفسیر مظری پارہ نمبر 2 ،چشتی)

علاّمہ ریاض حسین شاہ پنڈی والے لکھتے ہیں : حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو منافقینِ مکّہ بے وقوف و احمق کہتے تھے،اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں انہیں سفاہت نظر آتی تھی۔(تبصرہ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ )

منافقین کی خصلتیں : جھوٹ ، دھوکا، عدم شعور ، قلبی بیماریاں ، سفاہت ، احکام الٰہی کا استہزاء ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب ۔ اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے ۔

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا : اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں ۔ منافقین کا مسلمانوں کو بے وقوف کہنا اور کفار سے ظہارِ یکجہتی کرنا اپنی نجی محفلوں میں تھا جبکہ مسلمانوں سے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم مخلص مومن ہیں ، اسی طرح آج کل کے گمراہ لوگ مسلمانوں سے اپنے فاسد خیالات کو چھپاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی کتابوں اور تحریروں سے ان کے راز فاش کر دیتا ہے ۔

یاد رہے کہ اس آیت سے مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ وہ بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں ۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنْ دُوۡنِکُمْ لَا یَاۡ لُوۡنَکُمْ خَبٰلًاؕ وَدُّوۡا مَاعَنِتُّمْۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوٰہِہِمْۚۖ وَمَا تُخْفِیۡ صُدُوۡرُہُمْ اَکْبَرُؕ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْقِلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾ ہٰۤاَنۡتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوۡنَہُمْ وَ لَا یُحِبُّوۡنَکُمْ وَتُؤْمِنُوۡنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖۚ وَ اِذَا لَقُوۡکُمْ قَالُوۡۤا اٰمَنَّاۚ٭ۖ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الْغَیۡظِؕ قُلْ مُوۡتُوۡا بِغَیۡظِکُمْؕ اِنَّ اللہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۱۹﴾ اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ۫ وَ اِنۡ تُصِبْکُمْ سَیِّـَٔۃٌ یَّفْرَحُوۡا بِہَاؕ وَ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا لَا یَضُرُّکُمْ کَیۡدُہُمْ شَیۡـًٔاؕ اِنَّ اللہَ بِمَا یَعْمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ۔ ﴿سورہ اٰل عمران آیت نمبر 118 ، 120)
ترجمہ : اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔ خبردار : یہ تم ہی ہو جو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ اے حبیب! تم فرما دو ،اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بیشک اللہ دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ ، ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کروکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں ۔ (مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الروایۃ۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ و رسول سے زیادہ کوئی ہماری بھلائی چاہنے والا نہیں ، (اور اللہ و رسول) جَلَّ وَعَلَا وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جس بات کی طرف بلائیں یقینا ہمارے دونوں جہان کا اس میں بھلاہے ، اور جس بات سے منع فرمائیں بلا شبہ سراسر ضرروبلاہے ۔ مسلمان صورت میں ظاہرہوکر جواِن کے حکم کے خلاف کی طرف بلائے یقین جان لو کہ یہ ڈاکو ہے ، اس کی تاویلوں پر ہر گز کان نہ رکھو ، رہزن جو جماعت سے باہر نکال کر کسی کو لے جانا چاہتا ہے ضرور چکنی چکنی باتیں کرے گا اور جب یہ دھوکے میں آیا اور ساتھ ہولیا تو گردن مارے گا ، مال لوٹے گا ، شامت اس بکری کی کہ اپنے راعی (یعنی چرانے والے) کا ارشاد نہ سنے اور بھیڑیا جو کسی بھیڑ کی اون پہن کر آیا اس کے ساتھ ہولے ، ارے ! مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمہیں منع فرماتے ہیں وہ تمہاری جان سے بڑھ کر تمہارے خیر خواہ ہیں :’’حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ‘‘ تمہارا مشقت میں پڑنا ان کے قلب ِاقدس پر گراں ہے : ’’عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ‘‘ واللہ وہ تم پر اس سے زیادہ مہربان ہیں جیسے نہایت چہیتی ماں اکلوتے بیٹے پر : ’’بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ‘‘۔ ارے! ان کی سنو، ان کا دامن تھام لو، ان کے قدموں سے لپٹ جاؤ ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵/۱۰۵،چشتی)

وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیۡنِہِمْ : اور جب اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں ۔ یہاں شیاطین سے کفار کے وہ سردار مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ منافق جب اُن سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے ملنا محض استہزاء کے طور پر ہے اور ہم ان سے اس لیے ملتے ہیں تا کہ ان کے راز معلوم ہوں اور ان میں فساد انگیزی کے مواقع ملیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح جِنّات میں شیاطین ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں ۔

منافقین صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سامنے ان کی تعریفیں کرتے اور بعد میں ان کا مذاق اڑاتے تھے، اسی بات کو بیان کرنے کیلئے یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء دین کا مذاق اڑانے کا حکم

مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور پیشوایانِ دین کامذاق اڑانا منافقوں کا کام ہے ۔ آج کل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی مجلسوں اور مخصوص لوگوں میں ’’علماء و صلحاء‘‘ اور’’ دینداروں ‘‘ کا مذاق اُڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے ہیں اور جب ان کے سامنے آتے ہیں تو منافقت سے بھرپور ہوکر خوشامداور چاپلوسی کرتے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ، یونہی ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہیں مذہب اور مذہبی نام سے نفرت ہے اور مذہبی حلیہ اور وضع قطع دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دین کا مذاق اڑانا کفر ہے،یونہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بے ادبی گمراہی ہے ، اسی طرح علم کی وجہ سے علمائے دین کا مذاق اڑانا کفر ہے ورنہ حرام ہے ۔

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بعض یہودی (یعنی منافق) جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب سے ملاقات کرتے تو کہتے : ہم تمہارے دین پر ہیں ‘ اور جب اپنے اصحاب سے ملتے جو کافروں کے سردار تھے ‘ تو کہتے یقیناً ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ ہم تو صرف مذاق کرتے ہیں ۔ (جامع البیان ج 1 ص 101 مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ 1409 ھ)

علامہ خازن رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں : روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ سامنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی طرف آرہے ہیں ‘ اس نے اپنی قوم سے کہا : دیکھو میں ان بیوقوفوں کو کس طرح تم سے واپس کرتا ہوں ‘ اس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو تیم کے سردار ! شیخ الاسلام ‘ غار میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رفیق ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت عمر ؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے بنو عدی کے سردار ! فاروق ‘ دین میں قومی ‘ اپنی جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : مرحبا ! اے رسول اللہ کے عم زاد ! آپ کے داماد ‘ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سوا تمام بنو ہاشم کے سردار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابی ! اللہ سے ڈر ‘ نفاق نہ کر ‘ منافق اللہ کی بدترین مخلوق ہیں ‘ عبد اللہ بن ابی نے کہا : اے ابوالحسن ! ذرا ٹھہرئیے ‘ خدا کی قسم ! میں نے یہ باتیں از راہ نفاق نہیں کہیں ‘ ہمارا ایمان آپ ہی کی طرح ہے ‘ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جانے کے بعد عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم نے دیکھا میں نے ان کو کیسے بیوقوف بنایا ! (معاذ اللہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکر یہ واقعہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سنایا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن ج 1 ص 30۔ 29‘ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ‘ پشاور،چشتی)

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت پر حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : اس حدیث کو واحدی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند بیان کر کے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے اور کہا : یہ سلسلۃ الذھب نہیں ہے بلکہ سلسلۃ الکذب ہے (یعنی جھوٹی سند ہے) اور اس حدیث کے موضوع ہونے آثار ظاہر ہیں ‘ کیونکہ محدثین کی تصحیح کے مطابق نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ آتے ہی شروع میں سورة بقرہ نازل ہوئی تھی اور ہجرت کے دوسرے سال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تھی ‘ اور اس حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن ابی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا داماد کہا : (عنایۃ القاضی ج 1 ص 339‘ مطبوعہ دار صادر ‘’ بیروت ‘ 1383 ھ)
علامہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شیاطین سے مراد یہود کے پانچ قبیلے ہیں : کعب بن اشرف مدینہ میں ‘ ابوبردہ اسلمی بنو اسلم میں ‘ ابوالسوداء شام میں ‘ عبد الدار جہینہ میں سے اور عوف بن مالک بنواسد سے ‘ ابوعبیدہ نے کہا : ہر وہ شخص جو گمراہ اور سرکش ہو وہ شیطان ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ ان کے ساتھ استہزاء فرماتا ہے ۔ (البقرہ : 15)

علامہ راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ قصدا مذاق کرنے کو استہزاء کہتے ہیں اور استہزاء کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت ہو تو اس کا معنی استہزاء کی جزا دینا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ایک مدت تک مہلت دیتا ہے ‘ پھر اچانک ان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ‘ اس کو استہزاء اس لیے فرمایا ہے کہ منافقین اس دھوکے میں تھے کہ وہ مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے نفاق اور سرکشی کے باوجود ان پر مسلمانوں کے احکام جاری کئے گئے اور ان سے مواخذہ نہیں کیا گیا لیکن حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کے نفاق کا علم تھا اور آخرت میں ان کے ساتھ استہزاء کیا جائے گا ۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ دوزخ میں دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ دوزخ سے نکلو اور دوزخ کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ‘ جب وہ درزخ کے کھلے ہوئے دروازے دیکھیں گے تو وہ دوزخ سے نکلنے کے لیے بھاگیں گے اور مومن جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے اور جب کفار دروازوں کے قریب پہنچیں گے تو وہ دروازے بند ہوجائیں گے اور مومن ان پر ہنسیں گے ۔ (حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ ‘ درمنثور ج 1 ص 31‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون علی الارآئک ینظرون ھل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون (المطففین : 36۔ 34)
ترجمہ : تو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہیں وہ (عالی شان) تختوں پر بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ کافروں کو ان کے کیے ہوئے کاموں کا کیا بدلہ ملا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے منافقین کے استہزاء کی جزاء (سزا) کو استہزاء صورۃ فرمایا ہے حقیقت میں یہ استہزاء نہیں ہے ‘ اس کی نظیر یہ آیت ہے : وجزؤا سیءۃ مثلھا “ (الشوری : 40)
ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے ۔

حالانکہ برائی کا بدلہ حقیقت میں عدل و انصاف ہوتا ہے برائی نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کا بدلہ صورۃ اسی کی مثل ہوتا ہے اس لیے اس کو برائی فرمایا ‘ اسی طرح منافقین کے استہزاء کا بدلہ حقیقۃ استہزاء نہیں صورۃ مماثل ہونے کی وجہ سے اس کو استہزاء فرمایا ۔

امام اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رکھو ! علماء ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں اور ان کے عُلوم انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علوم سے حاصل شدہ ہیں تو جس طرح باعمل علماء ، انبیاء اور مُرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اعمال اور علوم کے وارث ہیں اسی طرح علماء کا مذاق اڑانے والے ابو جہل ، عقبہ بن ابی معیط اور ان جیسے دیگر کافروں کے مذاق اڑانے میں وارث ہیں ۔ ( روح البیان ، الکہف ، تحت الآیۃ: ۱۰۶ ، ۵ / ۳۰۵) ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے جو میڈیا پر اور اپنی نجی محفلوں میں اہلِ حق علمائے کرام کا مذاق اڑانے میں لگے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...