حقوقِ اہلبیت ، امامِ باقر ، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم اور اُن کی محبت
محترم قارئینِ کرام شیعہ مذہب کے مشہور مصنفین لکھتے ہیں کہ : کثیر نوار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے آپ اہلبیت کے حقوق کے بارے میں ذرا بھی ظلم کیا کثیر نوار کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ میرے جان آپ پر قربان ہو ۔ کیا ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے آپ اہلبیت کے حقوق کے بارے میں ذرا بھی ظلم کیا تھا یا آپ کے حق دبائے رکھے ۔ تو امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا ۔ تا کہ تمام جہانوں کے لیے وہ زندہ نذیر بن جائے ۔ ہمارے حقوق میں سے ایک رتی برابر بھی ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے ہم پر ظلم نہی کیا ۔ میں نے امام باقر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ پر قربان جاؤں ۔ کیا میں ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے محبت رکھوں توامام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ۔ تو برباد ہوجائے ۔ تو ان دونوں ابوبکر عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے دونوں جہانوں میں دوست رکھ ۔ اور اگر اس وجہ سے تجھے کوئی نقصان ہو تو وہ میر ے ذمہ ہے ۔ پھر امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مغیرہ اور بنان سے خدا نپٹے ان دونوں نے ہم اہلبیت پر جھوٹ گھڑا ۔ (السقیفہ و فدک صفحہ نمبر 110،چشتی)،(شرح نہج البلاغہ جلد نمبر 16 صفحہ نمبر 326)
کیا شرح ابن ابی الحدید اہل سنت کی معتبر کتاب ہے ؟ شیعہ فریب کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی شیعہ مذہب میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر الزام تراشی اور طعن و تشنیع عقائد میں شامل ہے ۔ شیعہ اپنے الزامات اور عقائد کو ثابت کرنے کے لیے کچھ کتب کے حوالے دیتے ہیں اور ساتھ ان کتب کو اہل سنت کی معتبر کتب بھی کہہ دیتے ہیں اور ہمارے سادہ لوح سنی پریشان ہو جاتے ہیں ان بےچاروں نے تو ہو سکتا ہے کتاب کا نام بھی پہلی بار سنا ہو ۔ حالانکہ یہ کتابیں شیعہ کی اپنی ہوتی ہیں اور اہل سنت کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا جنہیں وہ کمال ڈھٹائی سے اہل سنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا اگر مصنف اہل سنت ہو تو معتمد و مستند عالم نہیں ہوتا بلکہ کسی واعظ یا غیر معروف شخص کی ہوتی ہیں ۔ یا ان روایات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان کے راوی ضعیف ، کذاب یا محترق شیعہ ہوتے ہیں اس لیے یہ روایات قابل قبول نہیں ہوتی ۔
ایسی ہی ایک کتاب شرح ابن ابی الحدید جو کہ نہج البلاغہ کی شرح ہے ۔ آج کل شیعہ اور ان کے ساتھ ساتھ شیعہ کے بڑے بڑے ذاکرین اور مصنفین بھی اس کتاب کو اہل سنت کی معتبر کتاب کا کہہ کر شور مچاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس کتاب کا مصنف عزالدین عبد الحمید ایک معتزلی شیعت پسند تھا اور اس نے یہ کتاب بھی ایک شیعہ وزیر کی فرمائش پر لکھی تھی ۔ اس کا ثبوت شیعہ کی اپنی کتابوں اور اس مصنف کے اپنے بیان سے پیشِ خدمت ہے ۔
شیعہ مذہب کا معتبر عالم و مصنف شیخ عباس قمی اپنی کتاب الکنی والألقاب (جو کہ شیعہ کی اسماء الرجال کی کتب میں سے ایک معروف کتاب ہے) میں ابن ابی الحدید کے متعلق لکھتا ہے ۔ (ابن ابی الحدید ) عزالدین عبدالحمید بن محمد بن محمد بن حسين بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الأديب المؤرخ الحکیم الشاعر شارح نہج البلاغہ المکرمہ و صاحب القصائد السبع المشهورة ، کان مذہبہ الاعتزال کما شھد لنفسه فی احدی قصائده فی مدح أميرالمؤمنين ع بقوله ۔۔۔
ورأيت دين الاعتزال وإنني
اھوی لأجلك کل من یتشیع
( الکنی والألقاب جلد اول صفحہ 193 مطبوعہ تہران ۔ طبع جدید،چشتی)
ترجمہ : عزالدین عبد الحمید بن محمد بن محمد بن حسين بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الأديب المؤرخ الحکیم الشاعر نہج البلاغہ کا شارح ہے اور سات مشہور قصائد کا قائل ہے ۔ مذہب کے اعتبار سے معتزلہ تھا جیسا کہ خود اس نے اپنے معتزلہ ہونے کا اقرار اپنے ایک قصیدہ میں کیا جو اس نے حضرت علی المرتضٰی کی شان میں کہا ۔ "اور میں اپنے آپ کو معتزلہ سمجھتا ہوں اور میں آپ کی وجہ سے ہر شیعہ کہلانے والے کو دل سے چاہتا ہوں" ۔
ابن ابی الحدید معتزلی ہونے کے باوجود تشیع کو پسند کرتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ معتزلی ہوتے ہوئے تشیع کو اپنائے ہوئے تھے بلکہ تشیع ان کے لئے ضروری تھا اس کا ثبوت خود ابن ابی الحدید کے مقدمہ میں یوں مذکور ہے ۔
ولد فی المدائن فی غرة ذىالحجة سنة ست ثمانين وخمسمائة و نشأبها وتلقى عن شيوخها ودرس المذهب الكلامية ثم مال إلى مذهب الاعتزال منها وكان الغالب على أهل المدائن التشيع والتطرف والمقالاة فسار في دربهم وتقبل مذهبهم ونظم القصائد المعروفة بالعلويات على طريقتهم وفيها غالى وتشيع وذهب به الإسراف في كثير من ابياتها كل مذهب يقول في إحداها.
ورأيت دين الاعتزال وإنني
أهوى لأجلك كل من يتشيع
( شرح ابن ابی الحدید
تحقیق محمد ابو الفضل ابراهيم الجزء الأول صفحة 14 مقدمة ۔ ۔ 12 جلدوں میں شائع ہونے والی شرح ابن ابی الحدید کے مقدمہ میں مذکورہ عبارت موجود ہے ۔
ترجمہ : ابن ابی الحدید مدائن میں پیدا ہوا ۔ اس کا سن پیدائش 586 ہجری ہے اور مدائن میں پرورش پائی ۔ اور وہی کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مذہب کلامیہ پڑھا ۔ پھرتا اعتزال کی طرف پلٹ گیا ان دنوں اہل مدائن میں شیعت غالب تھی ۔ اس بارے میں غلو اور ادھر ادھر کی بہت سی باتیں موجود تھیں ۔ اس نے بھی ان کی روش اختیار کی ۔ اور ان کے مذہب کو اپنا لیا۔ اس نے علویات نامی مشہور قصیدے بھی لکھے ۔ جن میں اہل مدائن کے معتقدات بھی بیان کئے ۔ ان میں اس نے غلو بھی کیا اور تشیع کا اظہار بھی ۔ ان قصائد کے بہت سے اشعار میں مذہب اعتزال کا اعتراف بھی ہے ۔ اسی کا ان قصائد میں ایک شعر یہ بھی ہے ۔
میں نے مذہب اعتزال اختیار کیا اور تیری وجہ سے ہر اس شخص سے محبت رکھتا ہوں جس تشیع رکھتا ہے ۔
ابن ابی الحدید نے شرح ابن ابی الحدید اپنے دور کے ابن علقمی نامی شیعہ وزیر کی فرمائش پر لکھی اور اسی وزیر کے کہنے پر حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں سات قصیدے بھی لکھے جس کا اقرار خود اہل تشیع کے معتبر علماء اپنی معروف تصنیفات میں کر چکے ہیں ۔ شیعہ مذہب کی کتاب الذریعہ الی تصانیف الشیعہ کا مصنف لکھتا ہے ۔
شرح النھج الشيخ عزالدین ابی حامد عبدالحمید بن ھبة الله ابن أبي الحديد المعتزلى المولود فى المدائن سنة ٥٨٦ والمتوفى ببغداد سنة ٦٥٥ هو فى عشرين جزء طبع بطهران جميعها فى مجلدين فى سنة ١٢٧٠ وطبع بعد ذلك فى مصر وغيرها مكررا وقد الفه للوزير مؤيدالدين ابي طالب محمد الشهير بابن علقمی وكتب له إجازة روايته وقد رأيت صورة الاجازة وفى اخر بعض أجزائه فى مكتبة الفاضلية قبل هدمها ولعلها نقلت إلى الرضويه كما أنه نظم القصائد ( سبع العلويات ) المطبوعة بإيران فى ١٣١٧ أيضا للوزير ابن العلقمی وقد رأيت نسختها التي كانت عليها خط ابن العلقمی فى مكتبة العلامة الشيخ محمد السماوى . (الذريعه إلى تصانیف الشيعه جلد ١٤ صفحة ١٥٨ تا ١٥٩ مطبوعة بيروت طبع جدید،چشتی)
ترجمہ : نہج البلاغہ کی شرح ( ابن ابی الحدید ) جسے شیخ عزالدین ابو حامد عبدالحمید بن ہبة اللہ ابن ابی الحدید معتزلی نے لکھا ۔ وہ مدائن میں 586 ہجری میں پیدا ہوا اور 655 ہجری کو بغداد میں فوت ہوا ۔ اس کی بیس جلدیں ہیں ۔ 1270 ہجری میں یہ شرح تہران میں دو جلدوں میں شائع ہوئی پھر مصر اور دوسرے شہروں میں کئی بار چھپی ۔ یہ شرح ابن ابی الحدید نے اپنے دور کے ایک وزیر مويدالدين ابی طالب محمد کے حکم پر لکھی جو ابن علقمی کے لقب سے مشہور تھا ۔ مصنف نے وزیر موصوف کو اس کتاب کی روایت کی بھی اجازت دی ۔ میں نے اس اجازت نامہ کی تحریر خود مکتبہ فاضلیہ میں دیکھی ۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ مکتبہ فاضلیہ ابھی قائم تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس مکتبہ کی بربادی سے کچھ عرصہ پہلے یہ منتقل ہو کر مکتبہ رضویہ چلی گئی ہو ۔ اسی طرح ابن ابی الحدید نے وزیر ابن علقمی کی فرمائش پر سات مشہور قصیدے بھی لکھے جو 1317 میں ایران میں طبع ہوئے ۔ میں نے وہ نسخہ بھی دیکھا ہے جس پر ابن العلقمی کی تحریر تھی ۔ یہ نسخہ علامہ شیخ محمد سماوی کے مکتبہ میں تھا ۔
شیخ عباس قمی الکنی والألقاب میں اسی کے متعلق لکھتا ہے ۔ ابن العلقمی ھو الوزير ابو طالب مويدالدين محمد بن محمد ( احمد خ ل ) بن علی العلقمی البغدادی الشیعی کان وزیر المعتصم آخر خلفاء بنی عباس وکان کاتبا خبیرا بتدبير الملک ناصحا لأصحابه وکان امامی المذهب صحیح الاعتقاد رفيع الھمة محبا للعلماء والزھاد کثیرا المبار ولأجلہ صنف ابن ابی الحدید شرح نہج فی عشرين مجلدا والسبع العلويات توفی فی ٢ جمادی الأخرى سنة ٦٥٦ ( خون ) وقد یطلق علی لابیہ شرف الدین ابی القاسم علی بن محمد ۔ (الکنی والألقاب جلد اول صفحہ نمبر ٣٦٢ مطبوعہ تہران طبع جدید)
ترجمہ : ابن العلقمی یعنی ابو طالب مويدالدين محمد بن محمد بن علی العلقمی البغدادی الشیعی معتصم کا وزیر تھا۔ جو کہ بنی عباس کے خلفاء میں سے سب سے آخری خلیفہ تھا ۔ یہ وزیر کاتب تھا اور ملکی معاملات کو بخوبی سمجھتا تھا ۔ اپنے دوستوں کا خیر خواہ تھا اور مذہب میں امامی شیعہ تھا ۔ ہمت کا بلند اور علماء و زھاد سے محبت کرنے والا تھا ۔ اسی کے لئے ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی اور سات مشہور قصیدے بھی اسی کے کہنے پر لکھے ۔ ابن علقمی 2 جمادی الآخر 656 ہجری میں فوت ہوا ۔ اس کا ایک بیٹا تھا جسے شرف الدین ابو القاسم علی بن محمد کہتے ہیں ۔
اوپر جن دو کتب (الکنی والألقاب اور الذریعہ) سے عبارات نقل کیں یہ اہل تشیع کی معتبر اور مستند کتابوں میں سے ہیں اور ان کتابوں کی تصنیف و تالیف کا مقصد بھی یہی تھا کہ اہل تشیع کی کتابوں کی نشاندہی کی جا سکے ۔ لہذا ان دونوں کتابوں سے علقمی وزیر کا شیعہ ہونا ثابت ہو گیا جس وزیر نے ابن ابی الحدید سے نہج البلاغہ کی شرح لکھوائی ۔
اب اگر ابن ابی الحدید نے ایک شیعہ وزیر کی فرمائش پر کتاب لکھی ہے تو ظاہر ہے وہ اس کتاب میں وہی کچھ لکھے گا جو اس وزیر کو پسند ہو گا اہلسنت کی حمایت کرنے سے تو وہ رہا ۔ ایسی کتاب کو اگر کوئی اہل سنت کی معتبر کتاب کہے تو اس سے بڑا جاہل یا منافق کون ہے ؟
اہل سنت کی کتب میں بھی ابن ابی الحدید کو شیعہ کہا گیا ہے ایک کتاب کی عبارت بطور ثبوت نقل کر رہا ہوں ۔
نہج البلاغہ فقد شرحه عزالدین عبدالحمید بن هبة الله المدائنی الشاعر الشيعى فى عشرين مجلدا وتوفى ٦٥٥ هجري ۔ (الكشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون جلد ٢ صفحة ١٩٩١ مطبوعة بيروت طبع جدید،چشتی)
ترجمہ : نہج البلاغہ کی ایک شرح ابن ابی الحدید عزالدین عبدالحمید بن ھبة اللہ المدائنی شیعہ نے لکھی جو 20 جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کا انتقال 655 ھ میں ہوا ۔
ان تمام حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ نہ تو ابن ابی الحدید سنی عالم یا مصنف تھا نہ ہی شرح ابن ابی الحدید اہل سنت کی کتاب ہے ہاں یہ ضرور پتہ چل رہا ہے کہ یہ ایک شیعہ تھا اور شیعہ وزیر کی فرمائش پر ہی اس نے یہ کتاب لکھی ۔ اور ایسی کتاب میں اصحاب رسول پر تنقید کی روایات کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور اہل سنت اہل تشیع کی کسی بھی کتاب کے حوالے کے ذمہ دار نہیں ۔
ابن ابی الحدید تشیع پسند تھا
عزالدین عبد الحمید بن محمد بن الحسین بن ابی الحدید المدائنی الفاضل الادیب المؤرخ الحکیم الشاعر نہج البلاغہ کا شارح ہے اور سات مشہور قصیدوں کا قائل ہے ۔ مذہب کے اعتبار سے معتزلہ تھا، جیسا کہ اپنے بارے میں خود اسے معتزلہ ہونے کا اقرار ہے اور یہ اقرار اس نے ایک قصیدے میں کہا، جو اس نے حضرت علی المرتضی کی شان میں کہا : اور میں اپنے آپ کو معتزلہ سمجھتا ہوں ، اور میں آپ کی وجہ سے ہر شیعہ کہلانے والے کو دل سے چاہتا ہوں ۔ (الکنی والالقاب جلد اوّل ص 239)
ابن ابی الحدید باوجود معتزلی ہونے کے “تشیع پسند” تھا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص جن لوگوں میں زندگی بسر کر رہا تھا وہ معتزلی ہوتے ہوئے تشیع کو اپنائے ہوئے تھے، بلکہ تشیع ان کے لئے ضروری تھا۔ اس بات کا ثبوت شرح ابن ابی الحدید کے مقدمے میں بھی کچھ اس طرح مذکور ہے ۔
مقدمہ شرح ابی الحدید کے مطابق ابن ابی الحدید معتزلی شیعہ تھا
ترجمہ : ابن ابی الحدید مدائن میں پیدا ہوا۔ اس کا سن پیدائش 586 ھجری ہے اور مدائن میں پرورش پائی اور اسی کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مذہب کلامیہ پڑھا پھر اعتزال کی طرف پلٹ گیا۔ ان دنوں اہل مدائن میں شیعت غالب تھی اور اس بارے میں غلو اور ادھر ادھر کی بہت سی باتیں ان میں موجود تھیں، اس نے بھی ان کی روش اختیار کی اور ان کے مذہب کو اپنا لیا۔ اس نے “علویات” نامی مشہور قصیدے بھی لکھے۔ جن میں اہل مدائن کے معتقدات بھی بیان کئے، ان میں اس نے غلو بھی کیا اور تشیع کا اظہار بھی۔ ان قصائد میں بہت سے اشعار میں مذہب اعتزال کا اعتراف میں اظہار کیا، ان قصائد میں ایک شعر یہ بھی ہے ۔
میں نے مذہب اعتزال اختیار کیا اور تیری وجہ سے ہر اس شخص سے محبت کرتا ہوں جو تشیع رکھتا ہے ۔ (شرح ابن ابی الحدید تحقیق محمد ابوالفضل ابراھیم الجزء الاول ص 13,14) ۔ بارہ 12 جلدوں میں جو شرح ابن ابی الحدید چھپی ہے ، اس کے مقدمے میں مذکورہ عبارت موجود ہے ۔
ان حوالا جات سے معلوم ہوا کہ
ابن ابی الحدید خود اقراری ہے کہ وہ معتزلی شیعہ تھا کیونکہ جس علاقہ میں اس کی نشونما ہوئی ، ان لوگوں میں یہ مرض بکثرت تھا ۔
ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح لکھی ، جسے “شرح ابن ابی الحدید” کہا جاتا ہے ۔
یہ شرح اس دور کے ایک وزیر ابن علقمی کے کہنے پر لکھی گئی ، جو شیعہ تھا ۔
غور فرمائیں : نہج البلاغہ کی شرح لکھنے کا حکم بھی شیعہ وزیر دے اور لکھنے والا خود اپنا شیعہ ہونا تسلیم کرے تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس شرح کو وہ مسلک اہل سنت کے مطابق اور ان کے معتقدات کے موافق تحریر کرے ۔ شرح ابن ابی الحدید کو اہل سنت کی کتاب قرار دینا اورعلامہ ابن ابی الحدید کو اہل سنت کا عالم کہنا صریح جھوٹ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment