مجتہد کی غلطی پر بھی اجر ہے اور خطائے اجتہادی کی نسبت
محترم قارئینِ کرام : اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی ۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ امام شاطبی نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے ۔
اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو، پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو۔‘‘ نیز ایک مجتہد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے رسوم و رواج کو بھی حالات زمانہ اور ضروریات معاشرہ وغیرہ کو بھی جانتا ہو ۔
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا : إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ .
ترجمہ : جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں ، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه ، باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919،چشتی)(مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 : 1342، رقم : 1716)
شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیئے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)
وَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فلهُ أجرٌ واحدٌ ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت عبد ﷲ ابن عمر اور ابوہریرہ سے دونوں فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور درست فیصلہ کرے (1) تو اس کو دو ثواب ہیں (2) اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اورغلطی کرے تو اس کے لیے ایک ثواب ہے (3) (مسلم،بخاری) (4) ۔
(1) کہ اس کا فیصلہ ﷲ رسول کے فرمان عالی کے مطابق ہوجائے ، یہ بھی رب تعالٰی کا کرم ہی ہے کہ انسان کا فیصلہ اس کے منشاء کے مطابق ہوجائے ۔
(2) ایک ثواب تو اجتہاد و کوشش کرنے کا اور دوسرا ثواب درست فیصلہ کرنے کا کہ درستی بھی بڑا عمل ہے ، قاضی عالم بلکہ درجہ اجتہاد والا چاہیے ، اگر خود عالم و فقیہ نہ ہو تو فقہاء کے علم سے فائدہ اٹھائے ان کا مقلد اور متبع ہو ۔
(3) یہ حدیث تمام مجتہدین کو شامل ہے کہ مجتہد سے اگر غلطی بھی ہوجائے تب بھی اجتہاد کی محنت کا ثواب ہے لہذا چاروں مذہب یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی برحق ہیں کہ اگرچہ ان میں سے درست و صحیح تو ایک ہی ہے مگر گناہ کسی میں نہیں بلکہ جن آئمہ مجتہدین سے خطا ہوئی ایک ثواب انہیں بھی ہے ، نیز حضرت علی و معاویہ میں گنہگار کوئی نہیں ، حق پر حضرت علی ہیں اور جناب معاویہ سے غلطی ہوئی گنہگار وہ بھی نہیں ۔ ایک موقعہ پر حضرت داؤد علیہ السلام سے خطا ہوگئی اور جناب سلیمان علیہ السلام نے درست فیصلہ فرمایا تو ان دونوں بزرگوں میں گنہگار کوئی نہیں ہوا ۔ رب تعالٰی فرماتاہے : "فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیۡمٰنَ" ۔ وہ حدیث کریمہ اس آیت کی تائید کرتی ہے مگر یہ حکم مجتہد عالم کے لیے ہے غیر مجتہد یا غیر عالم اگر غلط مسئلہ بتائے گا تو گنہگار ہوگا بلکہ غیر عالم کو فتویٰ دینا ہی جائز نہیں اور مسئلہ بھی فروعی اجتہادی ہو اصول شریعت میں غلطی معاف نہیں ہوتی ۔ اس کی تحقیق کتب اصول اور مرقات میں ملاحظہ کیجئے ۔ اجتہادی خطا کی مثال یوں سمجھئے کہ مسافر جنگل میں نماز پڑھے اسے سمت قبلہ کا پتہ نہ چلے تو اپنی رائے سے کام لے،اگر چار رکعت میں چار طرف اس کی رائے ہوئی اور اس نے ہر رکعت ایک طرف پڑھی تو اگرچہ قبلہ ایک ہی طرف تھا مگر چاروں رکعتیں درست ہوگئیں اور اس کو نماز کا ثواب یقینًا مل گیا۔اس کی نفیس بحث ہماری کتاب جاءالحق حصہ اول میں دیکھئے ۔
نوٹ : حضرت داؤد علیہ السلام سے خطا ہوگئی اس جملہ کے متعلق اہلِ کیا فرماتے ہیں یہ کون سی خطاء تھی ؟ اور جب پیغمبر معصوم عنِ الخطاء ہیں تو اُن کی طرف کس خطاء کی نسبت کی جا سکتی ہے ؟ اور انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم عنِ الخطاء نہیں ہاں محفوظ عنِ الخطاء ہیں (یہ اہلسنّت کا متفقہ عقیدہ ہے) اگر کسی پیغمبر علیہ السّلام کی طرف خطاء (اس خطاء کی تعریف اہلِ علم فرمائیں) کی نسبت جائز ہے تو غیر پیغمبر کی طرف اگر خطائے اجتہادی کی نسبت کی جائے تو اِس کا شرعی حکم کیا ہوگا ؟ جہلاء جواب دینے کی زحمت نہ کریں شکریہ ۔
(4) یہ حدیث احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی نے بروایت حضرت عمرو ابن عاص نقل فرمائی،احمد نے حضرت ابوہریرہ سے بھی نقل کی ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ الفصل الاول پہلی فصل باب العمل فی القضاء و الخوف منہ باب فیصلوں میں عمل کرنا اور ان سے ڈرنا جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 436 مطبوعہ نعیمی کتبخانہ گجرات،چشتی)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
بہت اچھی کوشش ہے ا س سے بہت فاءدہ ہوا
ReplyDelete