حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شمار اپنی قوم کے افضل ترین لوگوں میں ہوتا تھا ۔ آپ جاہ و حشمت کے مالک ، شیریں کلام اور شرم و حیا کے پیکر تھے ۔ مال و دولت اور ظاہری اسباب کی فراوانی تھی ۔ قوم کے لوگ آپ کی عزت و تکریم کرتے ۔ ایسی نیک فطرت کہ نہ قبل از اسلام کسی بت کو سجدہ کیا ، نہ برائی کے مرتکب ہوئے اور نہ کبھی شراب کی طرف نہ دیکھا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں : میں نے کبھی گیت نہیں گایا ، نہ اس کی تمنا کی اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوا ، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں کبھی شراب نوشی کی اور جاہلیت واسلام میں کبھی زنا کے قریب نہ گیا ۔ (حلیة الاولیا جلد 1 صفحہ 60 -61)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا لقب ذو النورین مشہور ہے اور اس کا سبب آپ کا سرکار کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما سے یکے بعد دیگرے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ہے ۔ امام بدر الدین عینی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں : آپ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی زوجیت میں کسی بھی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں ۔ (عمدة القاری شرح بخاری جلد 16صفحہ 201)
آپ رضی اللہ عنہ کا نسب مبارک عبد مناف پر سرکارِ دوعالم کے سلسلہ نسب سے جا ملتا ہے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دعوتِ اسلام دی تو آپ کی عمر مبارک 34 برس تھی ۔ فطرتِ سلیمہ پر پروان چڑھنے والی اس شخصیت نے دین فطرت کو پہچاننے میں دیر نہ کی اور بلا لیت ولعل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر لبیک کہا اور یوں سابقین اولین کی فہرست میں داخل ہو گئے ۔ آپ چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی فروغِ اسلام کے لیے دی جانے والی قربانیاں اپنی مثال آپ ہیں ۔ بئرِ رومہ خرید کر لوگو ںکے لیے وقف کردینا، مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین خریدنا، جملہ غزوات بالخصوص غزوہ تبوک کے موقع پر انفاق کی حد کردینا، قحط اور مالی مشکلات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر مال و دولت اور غلہ کے ڈھیر حضور کے قدموں میں نچھاور کردینا آپ کی انفرادی خصوصیات میں شامل ہے۔ آپ کی اس حد درجہ انفاق ہی کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرمائی ۔
حضرت حفصہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا ، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کےلیے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی ۔ پھر وہ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیک وسلم آپ صلی ﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر ، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی ﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی ﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (احمد بن حنبل فی المسند 26510،چشتی)(الطبرانی فی المعجم الکبیر)
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے ۔ (ابونعیم فی الحلیۃ ، و ابن ابی عاصم فی السنۃ 1281)
حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے ؟ راوی نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرے تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہیں ان کی قوم ان کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں ۔ (الطبرانی فی المعجم الکبیر : 4939،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق الکبیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان میں آپ کے خلیفہ بننے کے بارے میں پیشنگوئی موجود تھی ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا : عثمان اللہ تعالیٰ تمہیں کو ایک کرتہ پہنائے گا ۔ اگر لوگ تجھ سے یہ مطالبہ کریں کہ اس کرتہ کو اتار دو تو تم ہر گز اس کو نہ اتارنا ۔ (مشکوٰۃ باب مناقب عثمان غنی،چشتی)
اس پیشگوئی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی پوری تصویر کھینچ دی گئی تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے اور دورانِ خلافت کوئی فتنہ نمودار ہو گا اور فتنہ کرنے والے آپ کو خلافت چھوڑنے پر مجبور کریں گے تا کہ خلافت راشدہ کسی طرح ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی وحدت اور طاقت منتشر ہو جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایسی صورت میں اپنے منصب پر مضبو طی سے قائم رہنا ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں جہاں اسلام کو مزید تر قیات نصیب ہوئیں اور سلطنت کو وسعت ملی وہاں فتنوں نے بھی سر اٹھا یالیکن آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا اور مضبوطی کے ساتھ اپنے منصب پر قائم رہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے 35 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا ۔ 23 سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمات کی توفیق پائی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہما کی خلافتوں کے دوران جن کا عرصہ بارہ سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے خدمات سر انجام دیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں خلیفہ بن کر بھی آپ رضی اللہ عنہ کےلیے مزید اتنے سال خدمت دین کی توفیق لکھی تھی جتنے سال مجموعی طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافتوں کا زمانہ بنتا ہے ۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابہ کرام شامل تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے ۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا ۔ اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمان کو کثر ت رائے سے خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا ۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی ذمہ داریاں سرانجام دیں ۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں ۔ (معجم اوسط جلد 4 صفحہ322،حدیث:6116)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ ، ہمدرد اور غم گُسار ہستی کےلیے ہیں جسے خلیفۂ ثالث (یعنی تیسرے خلیفہ) امیرالمؤمنین حضرت عثمانِ غنی رضیَ اللہُ عنہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ پیدائش و قبولِ اسلام : آپ رضیَ اللہُ عنہ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے ۔ (الاصابہ،ج 4،ص377)
آپ رضیَ اللہُ عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر لَبَّیْک کہا ۔ (معجم کبیر جلد 1 صفحہ 85 حدیث:124)
اسلام لانے کے بعد چچا حَکَم بن ابو العاص نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کو رسیوں سے باندھ دیا اور دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا تو آپ رضیَ اللہُ عنہ نے اسے صاف صاف کہہ دیا : میں دینِ اسلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے جد ا ہوں گا ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39،چشتی)
حُلیہ مبارکہ
آپ رضیَ اللہُ عنہ کا سینہ چوڑا ، قد دَرْمِیانہ کہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا اور خدوخال حسین تھے جنہیں گندُمی رنگ نےاور پُرکشش (Attractive) بنا دیا تھا جبکہ زرد خِضاب میں رنگی ہوئی بڑی داڑھی چہرے پر بہت بھلی معلوم ہوتی تھی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 12)
القاب و اِعْزازات
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو شہزادیوں رضیَ اللہُ عنہما سے یکے بعد دیگرے نکاح کر کے ذُوالنُّورین (2 نور والے) کا لقب پایا ، حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی ۔(معجم کبیر،ج1،ص90، حدیث: 143)
اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ کی ، ایک مرتبہ حَبْشہ کی طرف تو دوسری بار مدینے کی جانب ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 8،چشتی)
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کا اِعزاز پایا ۔
آپ رضیَ اللہُ عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب (Wine) پی ، نہ بدکاری کے قریب گئے ، نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 33)(تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 27،225)
سیرتِ مبارَکہ
اَدَب ، سَخاوت ، خیر خواہی ، حیا ، سادَگی ، عاجِزی ، رَحْم دلی ، دل جوئی ، فکرِ آخِرت ، اِتِّباعِ سنّت اور خوفِ خدا آپ رضیَ اللہُ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کے روشن پَہلو ہیں ۔
اَدَبِِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایساتھا کہ جس ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ حق پرست پر بَیعت کی اس ہاتھ سے کبھی اپنی شَرْم گاہ کو نہیں چُھوا ۔ (معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124)
سخاوت
ایسی کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کی بے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے پہلی بار ایک سو (100) اونٹ (Camel) ، دوسری بار دوسو (200) اونٹ اور تیسری بار تین سو (300) اونٹ دینے کا وعدہ کیا ۔ (ترمذی جلد 5 صفحہ 391 حدیث:3720،چشتی)
مگر حاضِر کرنے کے وَقت آپ نے 950 اُونٹ ، 50گھوڑے اور 1000 اشرفیاں پیش کیں ، پھر بعد میں 10 ہزار اشرَفیا ں اور پیش کیں ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 395)
خیر خواہی
ایسی کہ ہر جُمُعہ (Friday) کو غلام آزاد کیا کرتے ، اگر کسی جمعہ ناغہ ہوجاتا تو اگلے جمعہ دو غلام آزاد کرتے تھے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 28)
با حیا : ایسے کہ بند کمرے میں غُسْل کرتے ہوئے نہ اپنے کپڑے اتارتے اور نہ اپنی کمر سیدھی کر پاتے ۔ (حلیۃ الاولیاء، ج1،ص94)
لباس میں سادَگی : ایسی کہ مال و دولت کی فَراوانی کے باوجود جمعہ کے دن مِنبر پر خُطبہ دیتے ہوئے بھی چار (4) یا پانچ (5) درہم کا معمولی تہبند جسم کی زِینت ہوتا ۔ (معرفۃ الصحابہ جلد 1 صفحہ 79،چشتی)
کھانے میں سادگی : ایسی کہ لوگوں کو امیر وں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سِرکہ اور زیتون (Olive) پر گُزارہ کرتے ۔ (الزہدلامام احمد صفحہ 155،رقم: 684)
عاجِزی : ایسی کہ خلافت جیسے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود خچّر پر سُوار ہوتے تو پیچھے غلام کو بٹھانے میں کوئی عار (شرم) مَحسوس نہ کرتے ۔(الزہد لامام احمد ،153،رقم: 672)
رَحْم دلی : ایسی کہ خادِم یا غلام کے آرام کا خیال فرماتے اور رات کے وقت کوئی کام پڑتا تو خادموں کوجگانا مناسب خیال نہ کرتے اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 39 صفحہ 236)
دل جوئی : کی ایسی پیاری عادت کہ ایک مرتبہ حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ رضیَ اللہُ عنہ کے غلام کا نکاح ہوا تو اس نے آپ کو شرکت کی دعوت دی ۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ تشریف لائے اور فرمایا : میں روزے سے ہوں مگر میں نے یہ پسند کیا کہ تمہاری دعوت کو قبول کروں اور تمہارے لیے برکت کی دعا کروں ۔ (الزہدلامام احمد، صفحہ 156، رقم:689،چشتی)
عبادت گزار : ایسے تھے کہ رات کے ابتدائی حصّے میں آرام کرکےرات بھر عبادت کرتے رہتے جبکہ دن نفلی روزے میں گزرتا ۔ (الزہدلامام احمد صفحہ 156، رقم : 688)
تلاوتِ قرآن کے عاشق : ایسے کہ ایک رکعت میں ختمِ قرآن کر لیتے تھے ۔ (معجم کبیر جلد 1 صفحہ 87،حدیث 130)
خود فرمایا کرتے تھے : اگر تمہارے دل پاک ہوں تو کلامِ الٰہی سے کبھی بھی سیر نہ ہوں ۔ (الزھد لامام احمد ، ص 154، رقم:680)
عَشَرۂ مُبَشَّرہ (دس جنتی صحابہ) میں شامل ہونے کے باوجود فکرِ آخرت : ایسی کہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اِس قَدَر روتے کہ آنسوؤں سے آپ رضیَ اللہُ عنہ کی رِیش (یعنی داڑھی) مبارَک تَر ہو جاتی ۔ ( ترمذی جلد 4 صفحہ 138 حدیث:2315)
اتباعِ سنّت کا جذبہ : ایسا کہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دَستی کا گوشت منگوا یا اور کھایا اور بِغیر تازہ وُضو کیے نَماز اداکی پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اِسی جگہ بیٹھ کر یِہی کھایا تھا اور اِسی طرح کیا تھا ۔ (مُسندِ احمد جلد 1 صفحہ 137 حدیث:441 ،چشتی)
خوفِ خدا : ایسا کہ ایک بار اپنے غلام سے فرمایا : میں نے ایک مرتبہ تمہارا کان کھینچا تھا ، تم مجھ سے اس کا بدلہ لے لو،اس نے کان پکڑا تو فرمایا : زور سے کھینچو ، پھر فرمایا : کتنی اچھی بات ہےکہ قِصاص کا مُعامَلہ دنیا ہی میں ہے ، آخرت میں نہیں ۔(الریاض النضرۃ جلد 2 صفحہ 45)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت میں عصر حاضر کےلیے بے شمار رہنمائی پنہاں ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ سن چوبیس ہجری کی ابتداء میں مجلس شوری کے انتخاب سے تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین منتخب ہوئے۔ آپ کارِ خلافت شیخین کی سنت کے مطابق انجام دیتے تھے۔آپ اپنے نظامِ حکومت میں اسلامی تشریحات کو فوقیت دیتے اور کوشاں رہتے کہ ہر شعبہ حیات میں ان ہی تعلیمات کی پیروی رہے۔ ان قوانین اسلام کا اولین اطلاق حاکم وقت پر ہوتا۔ پھر اس کے نامزد والیان، عمال اورقضاۃ (گورنروں، وزرا اور ججوں) پر ہوتا تاکہ حکام کی سیرت اور قوانین کی پاسداری کا عمل رعایا کےلیے مشعلِ راہ بنے اور وہ قوانین کی پاسداری کریں ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا طرز حکومت، خلافت راشدہ کے باقی حکمرانوں کی طرح ہر دور میں حقیقت کے متلاشی کے لیے رہبر و رہنما ہے ۔ عصر حاضر میں بھی موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی خواہش مند ہے، کیا ہی کمال ہو کہ وہ ریاستی اصولوں، ترجیحات کے تعین اور عدل وانصاف کی فراہمی میں عہد عثمانی سے رہنمائی لے۔ حقیقی تبدیلی کےلیے پاکستان میں حکومت وقت کو اس طرز عمل کو لازمی اپنانا چاہیے ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے سابقہ اسلامی حکومتوں کی اتباع میں اسلامی دنیا کی وحدت کو برقرار رکھا۔ نظامِ عدل اور نظامِ اقتصاد میں برابری کو ملحوظ رکھا گیا۔خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد آپ نے عصرِ فاروقی کی تمام پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس بات کا شعور دلاتا ہے کہ حکومتیں قومی نوعیت کے قوانین کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بدلتی نہ پھریں بلکہ قومی مفاد میں وجود میں آئی طویل مدتی پالیسیز کو جاری رکھا جانا چاہیے ۔ ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکمرانی کی چند جھلکیاں نذرِ قارئین ہیں :⬇
حکومتی ترجیحات
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے طرزِ حکومت کا عمومی تصور واضح کرنا مقصود ہو اور آپ کی حکومت کی ترجیحات کا تعین جاننا ہو تو ان خطوط کا بخوبی مطالعہ کر لینا چاہیے جو آپ نے اپنے گورنروں ، سپہ سالاروں، خراج وصول کرنے والوں اور عام رعایا کے نام لکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو واضح پیغام ارسال فرمایا کہ صرف ٹیکس وصول کرنے والے نہ بنیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے خطوط میں ٹیکس وصول کرنے والی حکومتوں میں اور مصالح عامہ کےلیے کام کرنے والی حکومتوں میں فرق واضح فرمایا۔ نیز فرمایا کہ کامیاب حکومت وہ ہے جو محض لوگوں سے مختلف مدات میں رقم جمع کرنے میں نہ لگی رہے بلکہ رفاہ عامہ کےلیے مصروف عمل رہے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حکومتی حکام پر واضح کیا کہ ان کے ذمے رعایا کی مصالح کا خیال رکھنا ہے۔رعایا پر جو واجبات ہیں وہ وصول کریں اور ان کے جو حقوق ہیں وہ ادا کریں۔ پھر واضح فرمایا کہ اگر رعایا اور حکومت کی جانب سے حقوق کی ادائیگی اور فراہمی کا ایسا دوہرا توازن برقرار نہ رہا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ حیا،امانت داری اور وفاداری مفقود ہو جائے گی۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ ان پر عادلانہ طرز سیاست کو اختیار کرنے کا حکم دیا بلکہ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی اقدار کو بھی اپنائے رکھنے کی تاکید فرمائی ۔
عدل و انصاف اصولی ضابطہ
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہر قول وعمل سے یہ واضح کیا کہ ریاستی معاملات میں اصولی ضابطہ: لا طاعة فی المعصیة، إنما الطاعة فی المعروف رہے یعنی معصیت میں کسی کی اطاعت درست نہیں ہوگی بلکہ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہو گی۔ یوں آپ نے اسلام کے ابد الآباد تک متعارف کرائے آفاقی ضابطے کو اپنے عہد میں جاری فرمایا اور لوگوں کو واضح کر دیا کہ اجتماعی قوانین کی پاسداری ہی کی صورت میں حاکم وقت کی پیروی ہے اور اگر ایسا نہ ہو، حاکم اپنی من مانی پر اتر آئے تو رعایا کو اس کے محاسبے کا حق حاصل ہے ۔
آپ نے طرز حکومت میں شورائی نظام ہی کو اختیار فرمایا۔ آپ جنگی مہموں کی تنفیذ اور انتظام وانصرام کےلیے مشورے کیا کرتے تھے اور ہر صورت مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین فرماتے۔ آپ فرماتے : بھلائی کا حکم دو جبکہ برائی سے روکو۔ مومن (بصورت حق تلفیِ غیر) اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دے۔ میری حمایت ہمیشہ طاقتور کے خلاف اور کمزور کے ساتھ ہے، اگر وہ مظلوم ہو ۔ (طبری، 4: 414)
مغربی تہذیب آج صدیوں بعد جس نظامِ عدل کے قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اس کی اساس میں برابری کا تصور وہی ہے جو خلافت راشدہ میں متعین ہو چکا تھا ۔
قانون کی حکمرانی
آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ رعایا کو نہ صرف آزادی رائے حاصل رہتی بلکہ رعایا کی براہ راست خلیفہ وقت تک رسائی ہوتی اور اگر وہ کسی گورنر سے ناخوش ہوتے تو جائز وجوہات کے ہونے کی صورت میں اسے باآسانی معزول کروا دینے کا اختیار بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ روایات بتاتی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ولید بن عقبہ پر اعتراضات ثابت ہونے کی صورت میں کوفہ کی گورنری سے معزول کر دیا تھا ۔
اسلامی حکومتی قوانین میں عمومی فائدہ ملحوظ رکھنا اور فرد واحد کا ذاتی نفع ٹھکرا دینا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی امتیازی خصوصیت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوانین متعین کرنے میں فرد واحد یا چند خاندانوں کا نفع ملحوظ رکھا گیا تو نتیجے میں عام رعایا کے ہاتھ سوائے تباہی، استحصال، استبداد اور محرومیوں کے کچھ نہ آیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قوانین کے تقرر میں ان ہی مصالحِ عامہ کو پیش نظر رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بحیثیت امیر المومنین بیت المال کے حق کوحاصل کرنے میں غلو سے منع فرمایا اور زکوٰۃ میں لوگوں کا بہترین مال لینے سے منع فرمایا۔ پھلوں کی زکوٰۃ وصول کرنے میں آسانی وتخفیف کا حکم دیا ۔
آپ کے اصولوں میں سے یہ تھا کہ خدماتِ عامہ (پبلک سروس) کی شکل میں حکومت؛ عوام کو جو عطیات پیش کرتی ہے اس میں یہ جائز نہیں کہ فرد معین کی منفعت پیش نظر ہو بلکہ ضروری ہے کہ پوری امت کا نفع پیش نظر رکھا جائے ۔ (السیاسة المالیة لعثمان، صفحہ 64،چشتی)
صوبوں کو حاصل خود مختاری اور نگرانی کا عمل
آپ رضی اللہ عنہ کی سلطنت مختلف صوبوں میں منقسم تھی ، ہر صوبے کا ایک گورنر تھا اس کو بیت المال سے تنخواہ ملتی۔ وہ اسلامی قوانین کے مطابق صوبے کا انتظام وانصرام سنبھالتا۔ گورنر کو اختیار ہوتا کہ بیت المال پر خلیفہ کی طرف سے نمائندہ مقرر نہ ہونے کی صورت میں وہ جزیہ وخراج اور تجارتی عشر کی وصولی کی نگرانی کرتا اور اسے صوبے کی ضروریات پر خرچ کرتا۔ زائد مال مدینہ میں مرکزی بیت المال کو بھیج دیتا۔ صوبے کے امراء سے لیکر فقرا پر خرچ کیا جاتا ۔ (سیدنا عثمان بن عفان صفحہ 186،چشتی)
آپ رضی اللہ عنہ کا طرز عمل بتاتا ہے کہ سوائے چند امور کے وفاق کو صوبوں کی خود مختاری کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وسائل واختیارات زیادہ تیزی سے عام شخص تک پہنچیں ۔
گورنروں ، وزرا اور ججوں کی کارکردگی سے متعلق معلومات کے حصول اور ان کے احوال واخبار پر نگرانی کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مختلف اسلوب اختیار فرمائے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ریاست میں عہدہ ایک امانت ہے، جس کا استحقاق صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہے اور اعلی مناصب صرف اہل لوگوں کو ہی دیے جانے چاہئیں جیسا کہ قرآن وسنت اس کی صراحت کرتے ہیں۔ چنانچہ اعلی حکام کی نگرانی کے لیے آپ رضی اللہ عنہ درجہ ذیل ضوابط پر عمل فرماتے : ⬇
آپ رضی اللہ عنہ حج کے موقع پر حجاج سے ملتے، ان کی شکایتیں سنتے ۔ نیز گورنروں کو بھی حکم تھا کہ وہ بھی حج میں شریک ہوں ۔
مختلف اطراف وامصار سے لوگ مدینہ میں ملنے حاضر ہوتے جس سے پورے ملک کی خبریں آپ رضی اللہ عنہ تک پہنچتیں ۔
مختلف علاقوں سے خطوط کا سلسلہ بھی جاری رہتا جو انہیں گورنروں کی کارکردگی کی خبر دیا کرتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ صوبوں میں معائنہ کےلیے مختلف وفود بھیجتے ۔ اسی مقصد کے لیے عمار بن یاسر کو مصر، محمد بن مسلمہ کو کوفہ، اسامہ بن زید کو بصرہ اور عبد اللہ بن عمر کو شام بھیجا ۔دیگر لوگوں کو بھی دیگر صوبوں میں روانہ فرمایا ۔
آپ رضی اللہ عنہ خود صوبوں کا سفر فرماتے اور براہ راست رعایا سے ملتے ان کے مسائل سنتے ۔
صوبوں سے وفود طلب کیے جاتے تاکہ وہ وہاں کے معمولات کی اطلاع دیں ۔
کبھی حالات دریافت کرنے کےلیے گورنروں کو دار الخلافہ طلب فرما لیتے اور کبھی بشکل مراسلہ رپورٹ طلب فرما لیتے ۔
آپ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے گورنروں کے اوقات کار سے متعلق باقاعدہ ہدایات جاری فرما رکھی تھیں کہ عوام الناس کو کبھی بھی کسی صورت گورنر سے ملاقات کے لیے پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ روایات میں آتا ہے کہ کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ سے متعلق مشہور تھا کہ ان کے گھر پر دروازہ نہیں تھا۔ وہ ہر وقت لوگوں کا استقبال کرتے، لوگوں کو مکمل آزادی حاصل تھی کہ جب چاہیں گورنر سے ملیں اور اپنے مسائل حل کروائیں ۔ (سیدنا عثمان بن عفان صفحہ 338)
آپ رضی اللہ عنہ کا طرزِ حکومت ایک مثالی طرزِ حکومت ہے جو تاقیامت آنے والے حکمرانوں کو اصولِ حکومت مہیا کرتا رہے گا ۔
اسبابِ شہادت
تاریخ عالم میں ہمیں شاذ ہی کوئی ایسی مثال ملے گی کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ’’کابل‘‘ سے لے کر ’’مراکش‘‘ تک کے تمام علاقوں میں زمین کے طول وعرض میں حکومت دے اور اس کی حکمرانی کے خلاف چند مٹھی بھر لوگ بغاوت کر دیں اور وہ ان باغیوں کی سرکوبی سے صرف اس لیے روک دے کہ کہیں حرمتِ مدینہ پامال نہ ہوجائے اور اس کی ذات کے لیے کوئی جان تلف نہ ہو جائے۔ جبکہ صورت حال یہ ہو کہ جانثار رفقا، ارکان دولت اور تمام افواج اس کے حامی ہوں اور باغیوں کی سرکوبی کا مطالبہ بھی کر رہے ہوں ۔
مورخین کہتے ہیں کہ عہد عثمانی کے نصف ثانی (سن 30 تا 35 ہجری) میں فتنے پیدا ہونے شروع ہوئے جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہوئی ۔ (طبقات ابن سعد، 1: 39-47،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں سوچی سمجھی بڑی سازش کے نتیجے میں بعض لوگوں نے شورش پیدا کر دی اور فتنہ وفساد کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ اسلام مخالف دشمن کا مقصد مسلمانوں میں افتراق پیدا کر کے ان کی قوت کو پاش پاش کرنا تھا۔ اس غرض کے تحت تمام سازشی ذہن بلا تفریق ِ قوم ومذہب اپنی کوشش میں تھے۔ اشتر نخعی، جندب اور صعصعہ نے کوفہ کو اپنی شرارتوں کا مرکز بنا رکھا تھا، لیکن سب سے زیادہ خطرناک شخص ایک نو مسلم عبد اللہ بن سبا تھا جس نے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال فتنہ پروروں کو ایک مرکز پر متحد کیا۔عبد اللہ بن سبا اور اس کے حواریوں کا طریقِ واردات یہ تھا کہ بظاہر متقی اور پرہیز گار بنتے اور وعظ ونصیحت سے لوگوں کو اپنا حلقہ بگوش کرتے لیکن یہ لوگ در حقیقت عمال کو تنگ کرتے اور ہر ممکن طریقہ سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ انہوں نے ہر جگہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اقربا پروری اور ناانصافی کی خود ساختہ من گھڑت داستانیں مشہور کرنا شروع کر دیں ۔
حقیت حال یہ ہے کہ ان کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا اتہام بالکل بے بنیاد تھا۔ طبری وغیرہ نے اس کی وضاحت کی کہ آپ نے صرف چند مناصب پر اموی خاندان کے افراد کو متعین کیا تھا۔ جن میں سے ایک حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان اموی ہیں ، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے دورِ خلافت سے شام کے گورنر تھے ۔ دوسرے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح عامری تھے جنہیں مصر کا عامل بنایا۔ تیسرے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز اموی تھے جو بصرہ کے عامل مقرر تھے اور چوتھے مروان بن حکم اموی کاتب تھے ۔
ان چاروں کے علاوہ دو اموی عاملوں کو مقرر کر کے آپ نے معزول کر دیا جن میں سے ایک ولید بن عقبہ اور دوسرے سعید بن العاص تھے ۔ یہ تھے کل وہ اموی افراد جن کے بارے میں مخالفین نے تہلکہ مچا دیا کہ آپ نے کنبہ پروری اور اقربا نوازی کر کے اپنے خاندان کے افراد کو حکومت کے عہدے سونپے اور کسی نے یہ نہ دیکھا کہ اس کے علاوہ تقریباً اٹھارہ جگہ پر بلاد اسلامیہ میں گورنری اور دیگر اہم عہدوں پر سب غیر اموی افراد مقرر تھے۔ اگر پانچ عہدے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امویوں کو تفویض فرما دیے،جو عمال کی تقرری کے عمومی ضابطوں کے مطابق بھی تھے، تو اس پر اتنی شورش اور ہنگامہ کھڑا کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھا ۔
آپ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا گیا کہ آپ نے کم عمر جوانوں کو اونچے منصب پر براجمان کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ خود فرماتے : مجھ سے پہلے کم عمر لوگوں کو مناصب دیے گئے تو مجھ پر اعتراض کیوں ؟ یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسامہ بن زید ، (جنہیں روم پر چڑھائی کےلیے تیار لشکر پر سپہ سالار بنایا گیا) سے متعلق کی گئی ۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا : ایسا ہی ہے ۔ فرمایا : لوگ بلا سوچے سمجھے عیب لگاتے ہیں ۔ (طبری جلد 5 صفحہ 355)
البدایہ والنہایہ میں ہے کہ مولا علی شیر خدا فرماتے ہیں : عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کو بھی والی بنایا، سب باصلاحیت اور عادل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عتاب بن اسید کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا تھا حالانکہ وہ ابھی بیس سال کے تھے ۔ (البدایه والنهایه، 8: 178)
المختصر یوں باغیوں کے سرغنہ؛ رہبروں کا حلیہ اپنائے طرح طرح کے بہتان باندھ کر لوگوں کو بغاوت پر اکساتے رہے اور ریاست کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوتے رہے۔ ان حالات میں حضرت عثمان غنی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے ۔ آپ نے وفود بھی روانہ کیے لیکن آپ کی کاوش بے سود نکلی کیونکہ مخالفین کے مقاصد ہی کچھ اور تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ جب اکثر صحابہ حج کی ادائیگی میں مصروف تھے تو ان ہی ایام میں چند سو باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور مطالبہ کرنے لگے کے آپ رضی اللہ عنہ خلافت سے دستبردار ہوں ۔
احوالِ وقتِ شہادت
آپ رضی رضی اللہ عنہ کو مخبر صادق نبی بر حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ملنے والی بشارات سے اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ آپ کی شہادت اب قریب آ گئی ہے۔ تاہم اسی لیے باربار صحابہ کرام کے اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے باغیوں کو کچلنے کا اذن نہ دیا۔ کم وبیش سات سو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں آپ کی حفاظت پر مامور تھے۔ آپ فرماتے کہ میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔
آپ کی رہائش کا چالیس روز محاصرہ رہا ، آپ کو ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا مگر کیا شان استغنائی تھی کہ خندہ پیشانی سے بھوک وپیاس برداشت کرتے رہے مگر صبر واستقامت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آپ کی رعایا کو آپ کے حق پر ہونے کا یقین تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ غیب کی خبریں دینے والے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حق پر ہونے اور آپ کی شہادت کی خبر بھی دے چکے تھے ۔
محاصرہ کے دوران حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اطمینان اور عدمِ اضطراب بھی بلا وجہ نہ تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ پر عجیب روحانی وجدانی کیفیات طاری تھیں۔ قدرت الہٰیہ انہیں اگلے عالم کی خوشگوار اور اطمینان بخش نعمتوں کا مشاہدہ کروا رہی تھی۔ جن میں سے کچھ کا اظہار تو آپ نے فرما بھی دیا تھا تاکہ اپنے قریبی واقفِ حال جاں نثار خدام زیادہ پریشان نہ ہوں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس اطمینان کا اور باغیوں سے جھڑپ نہ کرنے دینے میں پوشیدہ حکمت اور راز کو سمجھ جائیں ۔
چنانچہ ایسی مافوق الطبیعاتی روحانی واردات اور مشاہدات نے آپ کو لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون والی کیفیت دے رکھی تھی۔آپ کے خادم حضرت مسلم فرماتے ہیں کہ : آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیس غلاموں کو آزاد کر دیا،ایک پاجامہ منگوایا اور زیب تن فرما لیا۔ ایسا لباس آپ نے نہ کبھی زمانہ جاہلیت میں زیب تن فرمایا نہ کبھی دور اسلام میں۔ پھر فرمایا : میں نے گزشتہ رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ وہ سب کہنے لگے : اے عثمان صبر کرو، تم کل افطار ہمارے ساتھ کرو گے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مصحف منگوایا اور اسے کھول کر تلاوت کرنے لگے۔ اسی اثنا میں آپ کو شہید کر دیا گیا اور وہ مصحف آپ کے سینے پر تھا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عظمتوں کا کیا کہنا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نہ مکہ کی حرمتوں کو خطرے میں پڑنے دیا ، نہ مدینۃ الرسول کو میدان جنگ بننے دیا ۔ نہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کے تحفظ کےلیے دیارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑا اور نہ اپنے جانثار رفقا کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ۔۔۔ حتی کہ آخری وقت میں اپنے غلاموں کو بھی آزاد کر دیا اور ظلم وستم کے تمام وار اپنی جان پر جھیلے ۔
محترم قارئینِ کرام : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی تمام تر صفات میں امت کےلیے رہبر و راہنما ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جائے ، وہی جہت امت کےلیے بہترین نمونہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ذات مقدسہ اپنے اندر بے شمار صفات اور خصائص سمیٹے ہوئے ہے جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ اپنی زندگی میں عزم و استقلال کا کوہِ گراں تھے ۔ اللہ تعالیٰ حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے اور ان کی سیرت کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔
لقب "ذو النورین" کی وجہ تسمیہ : ⬇
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو یہ امتیازی شرف حاصل ہے کہ آپ کا عقد یکے بعد دیگرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوشہزادیوں سے ہوا ، اسی لیے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نور والے کہا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : والذی نفسی بیدہ لو أن عندی مائۃ بنت تموت واحدۃ بعد واحدۃ زوجتک أخری حتی لا یبقی من المائۃ شیء ہذا جبریل أخبرنی أن اللہ أمرنی أن أزوجک أختہا ۔
ترجمہ : اللہ کی قسم اگر میری سو لڑکیاں ہوتیں اور یکے بعد دیگر ے سب کا انتقال ہوتا جاتا تو میں ایک کے بعد ایک تمہارے نکاح میں دیتا جاتا ، یہاں تک کہ سو (100) مکمل ہو جاتیں ، ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے ، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے یہ حکم فرمایا ہے کہ میں ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو تمہارے نکاح میں دوں ۔ (جامع الأحادیث حدیث نمبر 16107)(الجامع الکبیر للسیوطی حرف الام)(کنز العمال کتاب الفضائل حدیث نمبر 36206)(نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللهَ أَوْحَی إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِیْمَتِي مِنْ عُثْمَانَ ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 512 الرقم : 837)
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں ۔
حضرت اُمّ عیاش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ ۔ (معجم الکبیر طبرانی جلد 25 صفحہ 92 الرقم : 236)
ترجمہ : میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی اُم کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : ألَا أَبَا أَیِّمٍ، أَلاَ أَخَا أَیِّمٍ، تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ؟ فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَا زَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ، وَأَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ یَا عُثْمَانُ، هَذَا جِبْرَائِیْلُ یُخْبِرُنِي أَنَّ اللهَ قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَی مِثْلِ صِدَاقِ رُقَیَّۃَ، وَ عَلَی مِثْلِ صُحْبَتِھَا ۔ (معجم الکبیر طبرانی جلد 22 صفحہ 436 الرقم : 1063)
ترجمہ : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی ! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحیِ الٰہی کے مطابق کی اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبریل امین ہیں ۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کر دی ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں آپ کے لقب مبارک "ذوالنورین " سے متعلق روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوصاحبزادیاں آپ کے عقد میں تھیں اسی لیے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے ، اور حضرت آدم علیہ السلام سے قیامت تک کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ہواکہ کسی نبی کی دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں ہوں ۔ یہ عظیم سعادت آپ کے حصہ میں آئی ۔ وأخرج البیہقی فی سننہ عن عبد اللہ بن عمر بن أبان الجعفی قال: قال لی خالی حسین الجعفی : تدری لم سمی عثمان ذا النورین قلت لا قال : لم یجمع بین بنتی نبی منذ خلق اللہ آدم إلی أن تقوم الساعۃ غیر عثمان فلذلک سمی ذا النورین ۔ (تاریخ الخلفاء جلد 1 صفحہ 60)
عَنْ عُثْمَانَ، هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ، فَرَأَي قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ : مَنْ هَؤُلَاءِ القَوْمُ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ : فَمَنِ الشَّيْخُ فِيْهِمْ؟ قَالُوْا : عَبْدُ اللہ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّيْ سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِيْ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَدْرٍ وَ لَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : اﷲُ أَکْبَرُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالْ أُبَيِنْ لَکَ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اللہ ؟ عَفَا عَنْهُ وَ غَفَرَلَهُ، وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ مَرِيْضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهْمَهُ. وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ، وَ کَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَي مَکَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَي : هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِهَا عَلَي يَدِهِ، فَقَالَ : هَذِهِ لِعُثْمَانَ ۔ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : اذْهَبْ بِهَا الآنَ مَعَکَ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا ، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے ؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے ؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ٹھہریے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیا گیا ۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لیے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے ۔ (تم اس کی تیمار داری کےلیے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کےلیے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے ۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا ۔ (البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اللہ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839،چشتی)(الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706)(أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772)
عَنْ عُبَيْدِ اللہ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيَارِ، فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا ۔ عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اللہ عزوجل بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَِ ﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ آمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ کَمَا قُلْتُ وَ نِلْتُ صِهْرَ رَسُوْلِ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم وَ بَايَعْتُ رَسُوْلَ اللہ فَوَﷲِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّي تَوَفَّاهُ ﷲُ عزوجل ۔
ترجمہ : حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیارسے ایک طویل روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اس پر ایمان لائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکر بھیجا گیا ۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتۂِ دامادی پایا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور خدا کی قسم میں نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دھوکہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے ۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے ۔ (احمد بن حنبل في المسند جلد 1 صفحہ 66 الحديث رقم : 480،چشتی)(مجمع الزوائد، 9 / 88)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : إِنَّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحٰي إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِيْمَتِيْ مِنْ عُثْمَانَ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں ۔ (طبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414،چشتی)(طبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501)(مجمع الزوائد، 9 / 83)(احمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837)
20. عَنْ أُمِّ عَيَاشٍ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّمَاءِ ۔
ترجمہ : حضرت ام عیاش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236)(طبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269)(مجمع الزوائد، 9 / 83)(تاريخ بغداد، 12 / 364)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اللہ عَلَي قَبْرِ ابْنَتِهِ الثَّانِيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ فَقَالَ : ألَا أَبَا أَيِمٍ، أَلاَ أَخَا أَيِمٍ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ، فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَازَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرَائِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ اللہ لقَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَي مِثْلِ صِدَاقِ رُقَيَةَ وَ عَليٰ مِثْلِ صُحْبَتِهَا ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کر دیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں ۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 22 / 436، الحديث رقم : 1063)(الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 378، الحديث رقم : 2982)(ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 590، الحديث رقم : 1291)
عَنْ عِصْمَةَ، قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُوْلِ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم الَّتِيْ تَحْتَ عُثْمَانَ ، قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : زَوِّجُوْا عُثْمَانَ، لَوْکَانَ لِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهُ وَ مَا زَوَّجْتُهُ اِلَّابِالْوَحْيِ مِنَ اللہ عزوجل ۔
ترجمہ : حضرت عصمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490,چشتی)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ النُّوْرُ فَقِيْلَ لَهُ مَا النُّوْرُ ؟ قَالَ : النُّوْرُ شَمْسٌ فِي السَّمَاءِ وَ الجِنَانِ وَ النُّوْرُ يَفْضُلُ عَلَي الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَ إِنِّي زَوَّجْتُهُ ابْنَتِي فَلِذَلِکَ سَمَّاهُ اللہ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ ذَاالنُّوْرِ وَ سَمَّاهُ فِي الجِنَانِ ذَاالنُّوْرَيْنِ ، فَمَنْ شَتَمَ عُثْمَانَ فَقَدْ شَتَمَنِي ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور والے ہیں ۔ عرض کیا گیا نور سے کیا مراد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نور سے مراد آسمانوں اور جنتوں کا آفتاب ہے اور یہ نور جنتی حوروں کو بھی شرماتا ہے اور میں نے اس نور یعنی عثمان بن عفان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا ہے پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالمِ ملائکہ میں ان کا نام ذاالنور (نور والا) رکھا ہے اور جنتوں میں ذا النوریں (دو نور والا) رکھا ہے تو جس نے عثمان کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے ۔ (تاريخ دمشق الکبير جلد 41 صفحہ 33)
وہ عثمان رضی اللہ عنہ جن کا فرشتے بھی حیا کرتے ہیں : ⬇
حیاء مردِ مومن کا زیور , زندگی کا حسن اور دنیا اور آخرت میں اس کے اعزاز و شرف کا سبب ہے ۔ یہ انسانی شخصییت میں وہ فطری وصف اور ملکہ ہےجو اسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ بے شمار اخلاقی براءیوں سے چھٹکارے کا سبب بنتا ہے ۔ مانگنے والے کو کچھ عطا کر کے رخصت کرنا ، بڑوں کے ساتھ ادب اور عاجزی سے پیش آنا ،چھوٹوں سے شفقت و محبت کارویہ رکھنا ،ہر کسی کے ساتھ مروت اور چشم پوشی کا معاملہ کرنا،دوسروں کی ملامت اور مذمت کے خوف سےگناہوں اور قبیح اعمال کو ترک کر دینا یہ سب اچھائیاں اسی کی بدولت نصیب ہوتی ہیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر اس کا کمال یہ ہےکہ یہ انسانی شخصیت میں برائی کے معاملے میں جھجک وشرم اور آنکھوں ، کانوں ، زبان ، شرمگاہ اور دل و دماغ کی پاکیزگی اس انتہاء تک پیدا کر دیتی ہے کہ انسان اپنی سیرت و کردار کی پاکیزگی میں معاشرے کا قابلِ فخر فرد اور دوسرے افراد کے لیے عفت و پاکبازی کا چلتا پھرتا نمونہ بن جاتا ہے ۔حیاء کی صفت اتنی پاکیزہ ہے کہ اسے سب سے پہلے اللہ عزوجل نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے۔
حضرت سلیمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ۔
ترجمہ : تمہارا رب بہت حیاء کرنے والا اور کریم ہے ۔ وہ اپنے بندے سے حیاء کرتا یے کہ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو اٹھاءے اور وہ اسے خالی وااپس پلٹا دے ۔ (سنن ترمذی ابواب دعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم رقم الحدیث : 3556،چشتی)
اس سے مراد ہے کہ وہ ہاتھ اٹھانے والوں کو ضرور کچھ نہ کچھ عطا فرماتا ہے ۔ یہ بات بھی یاد ریے کہ اللہ کا حیاء بندوں کہ حیاء کی طرح کا نہیں ہے کیونکہ اللہ بندوں کے افعال سے پاک ہے ، بلکہ اس کے حیاء سے مراد اس کا اپنے بندوں کے ساتھ کرم نوازی اور جود و عطا کا معاملہ کرنا ہے ۔ اور پھر یہی حیاء تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت کریمہ میں شامل رہا ہے ۔
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ : الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ ۔
ترجمہ : چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں:حیاء کرنا خوشبو لگانا ،مسواک کرنا اور نکاح ۔ (ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی،ابواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،باب:ما جاء فی فضل التزویج والحث علیہ ،رقم الحدیث:1080)
جب حیاء رسولانِ عظام علیہم السلام کی سنت سے ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ اعلٰی صفت سب سے بڑھ کر ہو گی اور یقینًا ہے بھی ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ست روایت یے کہ : کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا ۔
تجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خیمے میں بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء والے تھے ۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الادب ،باب الحیاء ،رقم الحدیث:6119،چشتی)
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمة لکھتے ہیں حیاء کی دو قسمیں ہیں : ایک حیا غزیری ہے۔ یہ وہ حیاءہے جو انسانی فطرت میں شامل ہے اور اسے ہی حدیث میں ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے ۔ دوسری حیاء کسبی ہے جو انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں حیاء کی یہ دونوں قسمیں جمع تھیں ۔ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 522-523)
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمة نے کیا خوب کہا ہے : ⬇
نیچی آنکھوں کی شرم و حیاء پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے انبیاء کو حیاء کی صورت میں جو پاکیزہ وصف عطاہوا تھا اور پھر ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں جو اپنے پورے کمال تک پہنچا تھا ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس سے محروم نہیں رہنے دیا ۔ آپ نے اپنی امت کو اس کا حصہ عطا فرماتے ہوئے اسے اپنے دین کا ایک مستقل شعبہ قرار دیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ۔
ترجمہ : حیاء کے ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں , اور حیاء بھی ایمان کا شعبہ ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ،باب:بیان عدد شعب الایمان رقم الحدیث : 24)
ایک روایت میں ستر سے کچھ زائد شعبے کے الفاظ آئے ہیں ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان عدد)(شعب الایمان رقم الحدیث: 35،چشتی)
علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمة لکھتے ہیں کہ : اس حدیث میں ایمان کے دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں حیاء کو اس لیے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےکہ حیاء ہی انسان کو گناہوں سے بچنے اوراللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا عادی بناتی ہے ۔ (عمدة القاری جلد 1 صفحہ 202)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاء کو ہمارے لیے صرف لازم ہی قرار نہیں دیا بلکہ ایک تو اپنی ذات کو اس کےلیے بطورِ نمونہ پیش کیا اور دوسرا اپنے امتیوں میں سے حضرت سیدنا عثمانِ غنی ر ضی اللہ عنہ کی اس شعبہ میں خصوصی تربیت فرمائی اور انہیں اپنی امت کے سامنے بطورِنمونہ پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : اَلْحَیَاءُمِنَ الاِیْمَانِ وَاَحْیٰی اُمّتِیْ عُثْمَانُ ۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ نمبر 20،چشتی)
ترجمہ : حیاء ایمان سے ہے اور میری امت میں سب سے زیادہ عثمانِ غنی حیاء والے ہیں ۔
ایک مقام پر اسی حوالےسے دیگر صحابہ کے مقابلے میں آپ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ ۔
ترجمہ : اور (میرے صحابہ میں) سب سے سچی حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابنِ ماجہ،السنن،المقدمہ،باب:فی فضائل اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،رقم الحدیث:154،چشتی)
عَنْ أَبِيْ مُوْسَي قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ قَاعِداً فِيمَکَانٍ فِيْهِ مَاءٌ، قَدِ انْکَشَفَ عَنْ رُکْبَتَيْهِ، أَوْ رُکْبَتِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا ، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492)(البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367)(شوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِيْ، کَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ. أَوْ سَاقَيْهِ. فَاسْتَأْذَنَ أَبُوْبَکْرٍ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ کَذَلِکَ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ. فَجَلَسَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : وَسَوَّي ثِيَابَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ : وَ لَا أَقُوْلُ ذَلِکَ فِيْ يَوْمٍ وَاحِدٍ. فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ. فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ : دَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ فَلَم تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَ سَوَّيْتَ ثِيَابَکَ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے ، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اللہ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401،چشتی)(ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907)(أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907)(البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059)
عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيْدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ؛ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عُثْمَانَ حَدَّثَاهُ؛ أَنَّ أَبَابَکْرٍ إِسْتَأْذَنَ عَلَي رَسُوْلِ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَي فِرَاشِه لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ فَأَذِنَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ هُوَ کَذٰلِکَ. فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ. ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَ هُو عَلٰي تِلْکَ الْحَالِ فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ قَالَ عُثْمَانُ : ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَجَلَسَ وَ قَالَ لِعَائِشَةَ : إِجْمَعِيْ عَلَيْکِ ثِيَابَکِ فَقَضَيْتُ إِلَيْهِ حَاجَتِيْ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُوْلَ اللہ! مَنْ لَمْ أَرَکَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ عُمَرَ رضي اللہ عنهما کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَ إِنِّي خَشِيْتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِيْ حَاجَتِهِ ۔
ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی ۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی ۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلیے اس قدر اہتمام نہ فرمایا ۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کےلیے فرمایا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402)(أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514،چشتی)(أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818)(الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515)(البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060)(البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355)(البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600)
عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ بَيْنَ فَخِذَيْهِ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي هَيْئَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَأَذِنَ لَهُمْ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ وَ رَسُوْلُ اللہ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَتَجَلَّلَ ثَوْبَهُ ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَتَحَدَّثُوْا سَاعَةً ثُمَّ خَرَجُوْا، وَ قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اللہ دَخَلَ عَلَيْکَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عَلِيٌّ وَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ وَ أَنْتَ عَلَي هَيْئَتِکَ لَمْ تَتَحَرَّکْ فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَکَ؟ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِ مِمَّنْ تَسْتَحِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ ۔
ترجمہ : حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا ، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کےلیے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسمِ اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی ۔ پھر وہ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم آپ صلی اللہ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر ، عمر ، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیک وسلم نے اپنے جسمِ اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ؟ ۔ (احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510)(الطبراني في المعجم الکبير، 23!205)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81)(عبد بن حميد في المسند، 1!446)
عَنْ بَدْرِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : وَقَفَ عَلَيْنَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَوْمَ الْدَّارِ فَقَالَ : أَلاَ تَسْتَحْيُوْنَ مِمَّْنْ تَسْتَحْيِ مِنْهُ الْمَلاَئِکَةُ قُلْنَا : وَ مَاذَاکَ؟ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَرَِّبيْ عُثْمَانُ وَ عِنْدِي مَلَکٌ مِنَ الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ شَهِيْدٌ يَقْتُلُهُ قُوْمُهُ إِنَّا لَنَسْتَحْيِ مِنْهُ قَالَ بَدْرٌ : فَانْصَرَفْنَا عَنْهُ عَصَابَةً مِنَ النَّاسِ ۔
ترجمہ : حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939)(طبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297)(الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم : أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے ۔ (أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56)(ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْحَمُ أُمَّتِيْ أَبُوْبَکْرٍ وَ أَشَدُّهُمْ فِي اﷲِ عُمَرُ وَ أَکْرَمُ حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَ أَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے ۔ (تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64)
آپ کی حیاء کے متعلق ایک اور خوبصورت گواہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیثِ پاک میں موجود ہے ۔ آپ فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے ۔ آپ کی دونوں رانوں یا دونوں پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ۔ اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ۔ آپ نے اجازت عطا فرما دی اور خود اپنی حالت پر بر قرار رہے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ، آپ نے انہیں اجازت عطا فرما دی لیکن اپنی حالت پر برقرار رہے ۔ پھر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گے اور کپڑا درست کر لیا۔جب سب چلے گے تو میں نے عرض کی : یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم : حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما آئے تو آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے ’ کپڑوں کو درست کر لیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ۔
ترجمہ : کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ رضی اللہ عنہم باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رقم الحدیث :2401،چشتی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمة نے اس حدیث کی شرح میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا کے متعلق درج ذیل نکات تحریر فرما ئے ہیں : ⬇
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء کرتے تھے اور آپ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے تھے،گویا کہ حیاء میں تمام صحابہ آپ کے طالب اور حضرت عثمانِ غنی آپ کے مطلوب تھے ۔
مواخاةِ مدینہ کے موقع پر ایک مرتبہ آپ کے سینے سے قمیص ہٹ گئی تو فرشتے بھی وہاں سے ہٹ گئے , جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرشتوں سے اسکی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں عثمان سے حیاء آتی ہے ۔
آپ غسل خانے میں بھی تہبند باندھ کر غسل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی حیاء سے سر جھکائے رکھتے ۔
آپ نے کبھی بھی اپنی شرمگاہ کو نہیں دیکھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وجہ سے اپنے کپڑوں کو سیدھا کیا کہ میرا عثمان بڑا شرمیلا ہے , میری اس حالت میں یہ نہ ادھر بیٹھ سکے گا اور نہ میرے ساتھ بات کر سکے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگی : اے اللہ ! میرا عثمان بڑا شر میلا ہے قیامت کے دن اس سے حساب نہ لینا کیونکہ یہ شرم کی وجہ سے تیرے سامنے کھڑا ہو کر حساب نہ دے سکے گا ۔ آپ کی دعا قبول ہوئی اور قیامت کے دن آپ کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ (مرآة المناجیح جلد 8 صفحہ 350)
محترم قارٸینِ کرام : آپ نے حیاء کی اہمیت , انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و فوائد اور اس سلسلے میں امتِ مسلمہ کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تربیت یافتہ فرد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ پڑھ لیا ۔ تو یہاں پہنچ کر ہمیں پہلے تو اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہو گا کہ ہمارے اندر یہ صفت حیاء کہاں تک موجود ہے ۔ اور اس حوالے سے خو د ہمارے اندر کون کون سی کمزوریاں موجود ییں تا کہ انہیں دور کیا جا سکے۔پھر ہمیں اپنے معاشرے کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ آج باطل قوتیں انٹرنیٹ ، میڈیا اور دیگر ذرائع سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے کس طرح بے حیائی عام کر کے ہمارےپاکیزہ اور حیاء پرمبنی کلچر کو پاش پاش کر رہی ہیں ۔ہمارے بچوں کی ترجیحات کو تبدیل کر رہی ہیں ۔ ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں اور دل سے پاکدامنی کا جوہر ختم کر کے وہاں بے حیائی اور گندگی داخل کر رہی ہیں ۔ ہمارےبڑوں کی غیرت و حمیت پہ پردہ ڈال رہی ہیں اور ہماری ماؤوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی چادرِ حیاء کو تار تار کرکے آزادیِ نسواں کے نام پر انہیں معاشرے کی گندی نظروں کا نشانہ بنا رہی ہیں ۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اس سازش کو سمجھیں اور کسی سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے اس کلچر اور پاکیزہ ورثےکی حفاظت کے لیےاٹھ کھڑے ہوں ۔ باطل قوتوں کی اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک ایک فرد سے لیکر پورے معاشرے تک حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس پیغام کو عام کریں ۔ اس کا آغاز پہلے اپنی ذات سے کریں پھر اپنے گھر میں یہ پیغام عام کریں پھر اپنے محلے میں اور پھر اسکی کرنیں پورے معاشرے میں پھیلا دیں ۔ تاکہ یہاں سے بے حیائی کے کلچرکو دیس نکال ہو اور ہر طرف شرم و حیاء اور پاکیزگی کے پہرے قائم ہوں ۔ یہی حضرت عثنانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا پیغام ہے , ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کل انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصد زندگی بھی ہے اور ہم سب کا اجتماعی فریضہ بھی ہے ۔ اللہ ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرما ئے آمین ۔
اللہ تبارک و تعالی کا امتِ مسلمہ پر یہ احسان ہے کہ اس نے اسے ایسی عظیم ہستیاں عطا فرمائیں جنہیں تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ جن کی زندگیاں ہمارے لیے روشن مثال ہیں ۔ انہی عظیم ہستیوں میں سے منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت نیرِ تاباں سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ہر پہلو نہ صرف مسلمانوں کےلیے بلکہ عالمِ انسانیت کےلیے مشعل راہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں ۔ آپ کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ میں کامل الحیا ء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : اَلَا اَسْتَحْیِیْ مِمَّنْ تَسْتَحْیِی مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ ۔ (حاکم المستدرک 3/11، رقم: 4556)
ترجمہ : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔
حیاتِ مبارکہ پر ایک نظر
آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی نانی محترمہ ام حکیم البیضاء حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں ۔ اس نسبت سے آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھانجے ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش عام الفیل کے چھٹے سال یعنی ہجرتِ نبوی سے 47 سال قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کا شمار ’السابقون الاولون‘ میں ہوتا ہے۔ امام طبری رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ میں آپ کو قدیم الاسلام لکھا ہے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور حضرت زید بن حارثہ l کے بعد اسلام قبول کرنے والوں میں چوتھا نمبر ہے ۔
قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت سیدہ بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوگیا تھا۔ بعدازاں آپ رضی اللہ عنہ کو ہجرتِ حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ چلے آئے،جہاں آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔ جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا جس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہوگیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ذَاکَ امْرُؤٌ یُدْعٰی فی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی ذَالنُّوْرَیْنِ ۔ (ابن حجر العسقلانی، الاصابة، 4: 457)
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں ذوالنورین کہا جاتا ہے ۔
اخلاقِ عالیہ ، صفات حمیدہ ، عادات شریفہ اور خصائل کریمہ آپ رضی اللہ عنہ کے خمیر میں شامل تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَاِنَّهُ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِیْ بِیْ خُلُقًا ۔(طبرانی، المعجم الکبیر، 1: 76، رقم: 99)
ترجمہ : بے شک عثمان میرے صحابہ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا : اَللّٰهُمَّ اِنَّ عُثْمَانَ فِی حَاجَتِکَ وَحَاجَةِ رَسُوْلِکَ ۔ (ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 361، رقم: 32041،چشتی)
ترجمہ : بے شک عثمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی طرف سے بیعت کرتا ہوں ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا کسی کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا ۔
سن 6 ہجری میں واقعہ حدیبیہ کے موقع پریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اوراپنی جان کی پرواکئے بغیر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپیغام قریش مکہ تک پہنچایا۔ اسی موقع پر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص پر بیعت لی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت لے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں دستِ مبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا۔ اسی بیعت کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے سورۃٔ فتح کی آیت نمبر 18 میں فرمایا : لَقَدْ رَضِیَ اﷲُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ۔
تجمہ : اللہ یقینا اُن مؤمنین سے راضی ہو گیا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ (سورہ الفتح آیت نمبر 18)
گویا ان چودہ سو صحابہ کو حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہم کی وجہ سے اللہ کی رضا کا پروانہ ملا ۔
سنن ترمذی میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کے باب میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کی نمازِ جنازہ اس لیے چھوڑ دی کہ وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا جس وجہ سے اللہ نے بھی اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا ۔
امام ترمذی حضرت طلحہ بن عبید ﷲ رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لِکُلِّ نَبِیِّ رَفِیْقٌ وَ رَفِیْقِیْ یَعْنِی فِی الْجَنَّةِ عُثْمَانُ ۔ (ترمذی، السنن، 5: 624، رقم: 3698)
ترجمہ : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا : أَفِی الْجَنَّةِ بَرْقٌ؟ قَالَ: نَعَمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ عُثْمَانَ لَیَتَحَوَّلُ فَتَبْرُق لَهُ الْجَنَّة ۔ (الحاکم، المستدرک، 3: 105، رقم: 4540،چشتی)
تجمہ : کیا جنت میں بجلی ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس (کے چہرہ کے نور) کی وجہ سے چمک اٹھے گی ۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک لقب غنی بھی ہے اور درحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق بھی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمہ تن دینِ اسلام کےلیے وقف رہے اور ان کا مال ودولت ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی ضروریات پرخرچ ہوتا رہا۔ یوں توساری عمر آپ نے اپنامال بڑی فیاضی سے راہِ اسلام میں خرچ کیاتاہم غزوہ تبوک میں آپ کامالی انفاق حدسے بڑھ گیا۔ آپ نے اس موقع پر روایات کے مطابق نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے، دو سو اوقیہ چاندی اورایک ہزاردینارخدمتِ نبوی میں پیش کیے جس پرخوش ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : مَاضَرَّ عُثْمَانَ مَاعَمِلَ بَعْدَ الْیَوْمِ ۔ (ترمذی، السنن، 5: 626، رقم: 3701)
ترجمہ : آج کے بعدعثمان جوبھی کریں انہیں ضررنہ ہوگا ۔
مشکل حالات میں آپ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کےلیے ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کیا، خصوصاً ٹھنڈے میٹھے پانی کے کنویں وقف کیے ، غزوات میں اسلحہ ، سواریاں اور فوجی راشن کا بندوبست کرنا اور زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کرنا آپ رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان ہے ۔
تاریخ طبری میں ہے کہ عرب کا اتنا بڑا تاجر جب خلافت کے منصب پر آتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ خود فرماتے ہیں کہ جس وقت میں خلیفہ بنایا گیا اس وقت میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج میرے پاس سوائے ان دو اونٹوں کے کچھ بھی نہیں جو میں نے حج کے لیے رکھے ہوئے ہیں ۔
آپ کے یومِ شہادت کے موقع پر اسلامی دنیا کے حکمرانوں کےلیے بالعموم اور پاکستانی حکمرانوں کےلیے بالخصوص یہ پیغام ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے سبق سیکھیں اور اللہ کے سامنے حساب دینے سے ڈریں کہ انہوں نے کس طرح عوام کی دولت کمیشنز اور تجارت کی مد میں اکٹھی کر کے دوسرے ممالک میں چھپا رکھی ہے ۔ قومی ادارے اُن کی عدم توجہ کے سبب دیوالیہ ہو چکے ہیں مگر ان کے اپنے کاروبار دن دو گنی اور رات پچاس گنی ترقی کرتے ہوئے پانامہ تک پہنچ چکے ہیں، جو ان کی منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنت عثمانی تو یہ تھی کہ اگر کوئی تاجر حکومت میں آئے تو اسے اپنا کاروبار بند کر دینا چاہیے ۔ کاش ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں اسلاف کی تاریخ کو یاد رکھتے توآج نوبت یہاں نہ پہنچتی ۔
امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں ان کے مشیر و معتمد رہے ۔ اپنے اپنے دور خلافت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے امور خلافت میں مشورہ لیتے اور اکثر اوقات آپ کے مشوروں کے مطابق فیصلے فرمایا کرتے تھے ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جن حالات میں عہدہ خلافت قبول کیا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کی فراست ، سیاسی شعوراور بہتر حکمت عملی کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی ۔
آپ نے فوجیوں کے وظائف میں سو سو درہم کے اضافے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ طرابلس ، قبرص اور آرمینیہ میں فوجی مراکز قائم کیے ۔ ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا ، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے، اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں کی الگ الگ تقسیم فرمائی۔ چونکہ اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کے لیے چراہ گاہیں بنوائیں۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ نامی چراہ گاہ میں چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لاتعداد فتوحات ہوئیں اور اسلامی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوگئی۔ خلافت کے صدیقی دور میں کیونکہ اسلامی سلطنت اتنی وسیع نہیں تھی اس لیے کنٹرول مظبوط رہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سلطنت کو وسعت ملی مگر امورِ سلطنت چلانے میں اور بغاوت کے سر نہ اٹھانے کے معاملے میں اُن کی سختی کام آئی لہذا اس دور میں کسی کو بغاوت کی ہمت نہ ہوئی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامی کافی وسیع ہو چکی تھی، قریش کے علاوہ جن لوگوں کی تلواروں کی وجہ سے دور دور کے علاقے فتح ہوئے تھے، وہ بھی اب اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگے ۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی کی وجہ سے اُن کی خلافت کے خلاف شورشیں سر اٹھانے لگیں۔ ایسی سازش کا سرغنہ عبداللہ بن سبأ یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اُڑھ رکھا تھا۔ اس نے مختلف انداز سے آپ کی خلافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایا۔ مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانیہ کے گورنر عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ فواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی ۔
حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے سازشیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت کے لیے جس فتنے کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا، اگرچہ اس کا دروازہ سختی سے بند کر دیا جائے،لہذا میں اس دروازے کو نرمی سے بند کروں گا، البتہ حق تعالی کی حدود میں ہر گز نرمی نہیں برتوں گا، بے شک فتنے کی چکی چلنے والی ہے۔ اگر عثمان اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اس چکی کو حرکت نہیں دی تو یہ عثمان کےلیے خوشخبری ہے ۔
آخرکار فتنے کی چکی چلی ، کوفی ، بصری اور مصری سبائیوں کا پانچ سو پر مشتمل قافلہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے معزولی کا مطالبہ کرنے مدینہ کے لیے روانہ ہوا۔ سیدنا عثمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ مذکرات کے لیے بھیجا مگر وہ اپنے عزائم سے باز نہ آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف وہی الزامات دہرائے جو پہلے بیان کیے جا چکے ہیں۔ اشرار کے اس وفدکو آخر مسجدِ نبوی میں طلب کیا گیا جہاں اہلِ مدینہ بار بار ان کے قتل کا مشورہ دیتے مگر سیدنا عثمان نے انہیں معاف کردیا اور ان لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے میں عافیت سمجھی ۔
جب ابن سبأ کو معلوم ہوا کہ ہماری سازش ناکام ہو گئی ہے تو اس بدبخت نے دوسری سازش یہ تیار کی کہ ہر صوبے کے سبائی مدینہ کے مضافات میں جمع ہوں اور پھر یک مشت مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی معزولی کا مطالبہ کریں اور مطالبہ پورا ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئیں مگر اُنہیں اس بار بھی مدینہ سے ناکام لوٹنا پڑا ۔
بظاہر سبائی بدبخت لوگ مدینہ سے باہر نکل آئے مگر وہ وہاں سے نکلنے کا بہانا کر رہے تھے۔ آس پاس رہ کر سازش تیار کر رہے تھے کہ ایک دن اہلِ مدینہ نے مدینہ کی گلیوں میں گھوڑے دوڑنے کی آوازیں سنیں،جب دیکھا تو وہ سبائی تھے جو اہلِ مدینہ سے کہہ رہے تھے اگر امان چاہتے ہو تو ہاتھ اٹھا لو۔ اہلِ مدینہ یہ سمجھ کر کہ مدینہ میں خون ریزی نہ ہو، گھروں میں چلے گئے۔ اس کے بعد سبائیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ انچاس (49) روز تک آپ کو قصرِ خلافت میں محصور رکھا گیا حتی کہ بعد میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی آپ کو روک دیا گیا تھا۔ بئرِ رومہ خرید کراہلِ مدینہ کے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کرنے والے کا پانی باغیوں نے بند کر دیا۔ جن کے مال و دولت سے صرف جنگِ تبوک کے لشکر میں سے بارہ ہزار افراد کے کھانے پینے اور سواری کا بندوبست ہو اور جن کی سخاوت پورے عرب میں مشہور تھی، آج اس مہربان کا کھانا بند کر دیا گیا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے بار بار باغیوں کے قتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انہیں سختی سے منع کیا اور فرمایا : میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔ اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔
باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا چالیس یا انچاس دن تک محاصرہ کر کے 18 ذوالحج 35 ہجری بروز جمعہ تقریباً نماز عصر کے وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔
آپ کا صبر اور باغیوں کے مقابلے سے صحابہ کو روکنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اپنی شہادت کا یقین تھا کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبل ثبیر کو یہ کہہ کر لرزنے سے سکون دلایا تھا کہ تمہارے اوپر ایک رسول،ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں اور وہ دو شہید سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے 82 سال کی عمر پائی ۔
حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے اور آپ کی زبان پر اللہ کے حضور یہ دعا جاری تھی : اے اللہ امت محمدیہ کو باہمی اتفاق نصیب فرما ۔
آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے مطالعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطرراہ حق میں پیش آمدہ تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اور امت کو انتشار سے بچاناصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت ہے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا حیاء اور ہمارے معاشرے میں اس نفاذ کی ضرورت
حیاء مردِ مومن کا زیور ,زندگی کا حسن اور دنیا اور آخرت میں اس کے اعزاز و شرف کا سبب ہے۔یہ انسانی شخصییت میں وہ فطری وصف اور ملکہ ہےجو اسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ بے شمار اخلاقی براءیوں سے چھٹکارے کا سبب بنتا ہے ۔ مانگنے والے کو کچھ عطا کر کے رخصت کرنا ، بڑوں کے ساتھ ادب اور عاجزی سے پیش آنا ،چھوٹوں سے شفقت و محبت کارویہ رکھنا ،ہر کسی کے ساتھ مروت اور چشم پوشی کا معاملہ کرنا،دوسروں کی ملامت اور مذمت کے خوف سےگناہوں اور قبیح اعمال کو ترک کر دینا یہ سب اچھائیاں اسی کی بدولت نصیب ہوتی ہیں۔اور پھر سب سے بڑھ کر اس کا کمال یہ ہےکہ یہ انسانی شخصیت میں برائی کے معاملے میں جھجک وشرم اور آنکھوں ،کانوں،زبان ،شرمگاہ اور دل و دماغ کی پاکیزگی اس انتہاء تک پیدا کر دیتی ہے کہ انسان اپنی سیرت و کردار کی پاکیزگی میں معاشرے کا قابلِ فخر فرد اور دوسرے افراد کے لیے عفت و پاکبازی کا چلتا پھرتا نمونہ بن جاتا ہے۔حیاء کی صفت اتنی پاکیزہ ہے کہ اسے سب سے پہلے اللّٰہ تعالٰی نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے۔
حضرت سلیمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّٰی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ۔
ترجمہ : تمہارا رب بہت حیاء کرنے والا اور کریم ہے۔وہ اپنے بندے سے حیاء کرتا یے کہ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو اٹھاءے اور وہ اسے خالی وااپس پلٹا دے ۔ (ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی السنن ابواب : دعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم, رقم الحدیث:3556،چشتی)
اس سے مراد ہے کہ وہ ہاتھ اٹھانے والوں کو ضرور کچھ نہ کچھ عطا فرماتا ہے ۔ یہ بات بھی یاد ریے کہ اللہ کا حیاء بندوں کہ حیاء کی طرح کا نہیں ہے کیونکہ اللہ بندوں کے افعال سے پاک ہے،بلکہ اسکے حیاء سے مراد اسکا اپنے بندوں کے ساتھ کرم نوازی اور جود و عطا کا معاملہ کرنا ہے۔
اور پھر یہی حیاء تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی عادت کریمہ میں شامل رہا ہے۔
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ : الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ ۔
ترجمہ : چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں:حیاء کرنا خوشبو لگانا ،مسواک کرنا اور نکاح ۔ (ترمذی،ابو عیسٰی محمد بن عیسٰی،ابواب النکاح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،باب:ما جاء فی فضل التزویج والحث علیہ ،رقم الحدیث:1080)
جب حیاء رسولانِ عظام علیہم السلام کی سنت سے ہے تو پھر سید المرسلین حضرت سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں یہ اعلٰی صفت سب سے بڑھ کر ہو گی اور یقینًا یے بھی۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ست روایت یے کہ : کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا ۔
تجمہ : نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خیمے میں بیٹھی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء والے تھے ۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الادب ،باب الحیاء ،رقم الحدیث:6119،چشتی)
علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمة لکھتے ہیں حیاء کی دو قسمیں ہیں : ایک حیا غزیری ہے۔ یہ وہ حیاءہے جو انسانی فطرت میں شامل ہے اور اسے ہی حدیث میں ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔دوسری حیاء کسبی ہے جو انسان اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں حیاء کی یہ دونوں قسمیں جمع تھیں ۔ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 522-523)
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمة نے کیا خوب کہا ہے : ⬇
نیچی آنکھوں کی شرم و حیاء پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالٰی کی بارگاہ سے انبیاء کو حیاء کی صورت میں جو پاکیزہ وصف عطاہوا تھا اور پھر ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں جو اپنے پورے کمال تک پہنچا تھ ہمارے نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اس سے محروم نہیں رہنے دیا ۔آپ نے اپنی امت کو اس کا حصہ عطا فرماتے ہوئے اسے اپنے دین کا ایک مستقل شعبہ قرار دیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ۔
” حیاء کے ساٹھ سے کچھ زائد شعبے ہیں, اور حیاء بھی ایمان کا شعبہ ہے ۔ (بخاری محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الایمان ،باب:بیان عدد شعب الایمان ، رقم الحدیث:24 )
ایک روایت میں ستر سے کچھ زائد شعبے کے الفاظ آئے ہیں ۔ (قشیری, مسلم بن حجاج, الجامع الصحیح, کتاب الایمان, باب:بیان عدد شعب الایمان, رقم الحدیث: 35،چشتی)
علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمة لکھتے ہیں کہ : اس حدیث میں ایمان کے دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں حیاء کو اس لیے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےکہ حیاء ہی انسان کو گناہوں سے بچنے اوراللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا عادی بناتی ہے ۔ (عمدة القاری،جلد:1،ص 202)
پھر ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاء کو ہمارے لیے صرف لازم ہی قرار نہیں دیا بلکہ ایک تو اپنی ذات کو اسکے لیے بطورِ نمونہ پیش کیا اور دوسرا اپنے امتیوں میں سے حضرت سیدنا عثمانِ غنی ر ضی اللہ عنہ کی اس شعبہ میں خصوصی تربیت فرمائی اور انھیں اپنی امت کے سامنے بطورِنمونہ پیش کرتے ہوئےارشاد فرمایا : اَلْحَیَاءُمِنَ الاِیْمَانِ وَاَحْیٰی اُمّتِیْ عُثْمَانُ ۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ نمبر 20،چشتی)
ترجمہ : حیاء ایمان سے ہے اور میری امت میں سب سے زیادہ عثمانِ غنی حیاء والے ہیں ۔
ایک مقام پر اسی حوالےسے دیگر صحابہ کے مقابلے میں آپکی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : أَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ ۔
ترجمہ : اور (میرے صحابہ میں)سب سے سچی حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (ابنِ ماجہ،السنن،المقدمہ،باب:فی فضائل اصحابِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ،رقم الحدیث:154،چشتی)
آپ کی حیاء کے متعلق ایک اور خوبصورت گواہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیثِ پاک میں موجود ہے۔آپ فرماتی ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے۔آپ کی دونوں رانوں یا دونوں پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔آپ نے اجازت عطا فرما دی اور خود اپنی حالت پر بر قرار رہے ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی ،آپ نے انھیں اجازت عطا فرما دی لیکن اپنی حالت پر برقرار رہے۔پھر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ اٹھ کر بیٹھ گے اور کپڑا درست کر لیا۔جب سب چلے گے تو میں نے عرض کی :یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم :حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما آئے تو آپ نے ان کی پرواہ نہیں کی اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے’ کپڑوں کو درست کر لیا اس کی کیا وجہ ہے ؟
تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ۔
ترجمہ : کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں ۔ (قشیری مسلم بن حجاج،الجامع الصحیح،کتاب: فضائل الصحابہ رضی اللہ عنھم ،باب:من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ, رقم الحدیث:2401،چشتی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمة نے اس حدیث کی شرح میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا کے متعلق درج ذیل نکات تحریر فرما ئے ہیں : ⬇
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء کرتے تھےاور آپ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے حیاء کرتے تھے،گویا کہ حیاء میں تمام صحابہ آپ کے طالب اور حضرت عثمانِ غنی آپ کے مطلوب تھے ۔
مواخاة مدینہ کے موقع پر ایک مرتبہ آپ کے سینے سے قمیص ہٹ گئ تو فرشتے بھی وہاں سے ہٹ گئے,جب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرشتوں سے اسکی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں عثمان سے حیاءآتی ہے ۔
آپ غسل خانے میں بھی تہبند باندھ کر غسل کرتے تھے لیکن اسکےباوجود بھی حیاء سے سر جھکائے رکھتے ۔
آپ نے کبھی بھی اپنی شرمگاہ کو نہیں دیکھا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وجہ سے اپنے کپڑوں کو سیدھا کیا کہ میرا عثمان بڑا شرمیلا ہے,میری اس حالت میں یہ نہ ادھر بیٹھ سکے گا اور نہ میرے ساتھ بات کر سکے گا ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگی : اے اللہ!میرا عثمان بڑا شر میلا ہے قیامت کے دن اس سے حساب نہ لینا کیونکہ یہ شرم کی وجہ سے تیرے سامنے کھڑا ہو کر حساب نہ دے سکے گا۔ آپ کی دعا قبول ہوئی اور قیامت کے دن آپ کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ (مرآة المناجیح جلد 8 صفحہ 350،چشتی)
محترم قارٸینِ کرام : آپ نے حیاء کی اہمیت , انسانی زندگی میں اس کی ضرورت و فوائد اور اس سلسلے میں امتِ مسلمہ کےلیے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تربیت یافتہ فرد حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ پڑھ لیا ۔ آج ہم 18 ذوالحجہ انہیں کا یوم شہادت بھی مناتے ہیں تو یہاں پہنچ کر ہمیں پہلے تو اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہو گا کہ ہمارے اندر یہ صفت حیاء کہاں تک موجود ہے ۔ اور اس حوالے سے خو د ہمارے اندر کون کون سی کمزوریاں موجود ییں تا کہ انہیں دور کیا جا سکے۔پھر ہمیں اپنے معاشرے کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہے کہ آج باطل قوتیں انٹرنیٹ ، میڈیا اور دیگر ذرائع سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے کس طرح بے حیائی عام کر کے ہمارےپاکیزہ اور حیاء پرمبنی کلچر کو پاش پاش کر رہی ہیں ۔ہمارے بچوں کی ترجیحات کو تبدیل کر رہی ہیں ۔ ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں اور دل سے پاکدامنی کا جوہر ختم کر کے وہاں بے حیائی اور گندگی داخل کر رہی ہیں ۔ ہمارےبڑوں کی غیرت و حمیت پہ پردہ ڈال رہی ہیں اور ہماری ماؤوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی چادرِ حیاء کو تار تار کرکے آزادیِ نسواں کے نام پر انہیں معاشرے کی گندی نظروں کا نشانہ بنا رہی ہیں ۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اس سازش کو سمجھیں اور کسی سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے اس کلچر اور پاکیزہ ورثےکی حفاظت کےلیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ باطل قوتوں کی اس سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک ایک فرد سے لیکر پورے معاشرے تک حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اس پیغام کو عام کریں ۔ اس کا آغاز پہلے اپنی ذات سے کریں پھر اپنے گھر میں یہ پیغام عام کریں پھر اپنے محلے میں اور پھر اسکی کرنیں پورے معاشرے میں پھیلا دیں ۔ تاکہ یہاں سے بے حیائی کے کلچرکو دیس نکال ہو اور ہر طرف شرم و حیاء اور پاکیزگی کے پہرے قائم ہوں ۔ یہی حضرت عثنانِ غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کا پیغام ہے , ہمارے محبوب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور کل انبیاء کرام علیہم السلام کا مقصدِ زندگی بھی ہے اور ہم سب کا اجتماعی فریضہ بھی ہے ۔ اللہ ہمیں سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرما ئے آمین ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات : امیر المومنین حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقف ِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسر ت وتنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبو ت سے دادِ تحسین حاصل کرنا او رسرکار کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا ” ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ” (آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ، بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ، یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کےلیے صرف حضرت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔
ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن کا ان کی ذات کومورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کئے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہیے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کرآج تک زور و شور سے جاری ہے ۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے : ⬇
پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا ! ہاں ۔۔۔۔۔۔ اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ، خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کا جواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔ فرمایا !۔۔۔۔۔۔ جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں ان کی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟) دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اسلئے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صاحبزادی او ر اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔ انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا ۔ او رتیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بنا کر ان کازبردست اعزاز و اکرام فرمایا ان کے مکہ جانے کے بعد بیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ، اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔ حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا ”اذھب بھاالآن” ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا ، یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیا کہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ المصابیح مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہوچکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوابنایا اورسادہ لوح عوام کواپنے دام تزویرمیں پھنسا کرخلیفہ اسلام سے بد گمان کرکے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات و نسل آج بھی ان خودساختہ الزامات کو بنیاد بناکرحضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کوہدفِ تنقید بنارہے ہیں ۔ اوراہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کرکے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہذا مناسب ہوگاکہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیاجائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کیے گئے ہیں :⬇
(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ، چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹا کرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور ان کی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ، اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹا کر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ، یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا ، ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیاد اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ، عبد اللہ بن عامر ، اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی رٰ اللہ عنہم کے قریبی رشتہ دار تھے ۔
(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔
(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لیے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا تھے ۔
(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ، کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھا مدینہ طیبہ میں حضر ت علی ، حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کر رہا تھا ، جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے گورنر مصر کے نام لکھا ہے جس میں اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ، اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا ۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ، اس لئے لوگوں نے نتیجہ نکالا کہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگا جو حضر ت عثمان کے چچازاد بھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حجۃالوداع میں منیٰ و عرفات میں نمازِ قصر ادا فرمائی اور شیخین کاعمل بھی اسی پر رہا مگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میں اتمام کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔
ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات : ⬇
پہلے ، دوسرے اور پانچویں سوال اور بہت سے دیگرسوالات کے خود حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دیے جو ھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں ، چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ، ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طور پر مال دیتے ہیں مثلاً عبد اللہ بن سعد کو آپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ میں اس کو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ، فاروقی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیز و اقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاً معاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھا ہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کر کے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ، کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجدا کر کے ولید بن عقبہ کو اس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا ۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایا کہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ اگرآپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اور مجھ پر ان کی بے جا رعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلئے تیار ہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کر کے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہا تم نے بلا استحقاق اور ناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاً عبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں ان کو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیا کہ عبد اللہ بن عامر عقل و فراست ، دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسامہ بن زید کو صرف 17 سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی ، اپنے رشتہ داروں کیلئے بلا استحقاق کیسے لے سکتا ہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیار ہے چاہے جس کو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیں میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اور وہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اس کا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میں پوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذا میرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 341 ،چشتی)
گورنروں کے عزل ونصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔ شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اس کے معقول اسباب و وجوہ تھے ۔ اورجن حضر ت کا تقرر فرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، عہدِ شیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے ۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے ۔
جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے ان کی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے ان کی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ ٥٣ مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ ۔۔۔۔۔۔! ”فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃ ردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان ۔
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کو مدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے ان کی واپسی کا وعدہ فرمایا ۔
او ر چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اس کا حکم دیا اور نہ یہ آپ کی مہر تھی اور نہ ہی اس میں مروان ملوث تھا بلکہ یہ شیعہ مذھب کے بانی عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضرت عثمانِ غنی کو شہید کیا اس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھا بلکہ حضرت علی ، حضرت طلحہ ، حضر ت زبیر کے نام سے مختلف شہروں کے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہا گیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکر حضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو ، چنانچہ (حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ ج٧ص١٧٥) میں اس خط کے بارے میں حضر ت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ”فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم” ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اسکے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جا سکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ، ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان ۔
ترجمہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میں انہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کو کہا گیا تھا اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹا الزام ہے ، ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی و طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا ، اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹا خط لکھا گیا ۔
رافضیوں و نیم رافضیوں کے اعتراض حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے قرآن جلانے کا حکم دے دیا ۔ (حوالہ بخاری) کا جواب
جواب : یہ بھی رافضیوں و نیم رافضیوں کے اپنے مرض کا اظہار ہے ورنہ بخاری شریف میں قرآن پاک جلانے کا حکم ہے اور نہ ہی جلایا گیا مگر کیا کیا جائے ان مریضان باطل کا جو یہود کی روش (یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ،، لفظوں کے مطلب کو بدل دیتے ہیں) کو داڑھوں کے ساتھ مضبوط تھام کر کھڑے ہیں ۔ اور دھوکہ دینے کےلیے کبھی عبارت کا گھناؤنا مطلب تراش لاتے ہیں تو کبھی صاف صاف لفظوں کا معنی من گھڑت کرتے اور شور مچاتے ہیں کہ دیکھو فلاں گنده عقیده تو سنیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ غور فرمائیے بخاری شریف میں قرآن پاک جلانے کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہو ۔ اس ترجمہ کا ایک لفظ بھی یہاں موجود نہیں ہے ۔
جس طرح اہل علم ہر شے کی تعریف کرتے ہیں قرآن پاک کی بھی تعریف ہے جس میں جنس اور فصل کے ذریعے قرآن پاک کا تعارف پیش کیا جاتا ہے اگر کسی کتاب میں مثلاً قرآن پاک کی آیات وغیرہ بطور دلیل وغیرہ کے لکھی ہوئی ہوں تو اگرچہ لکھی ہوئی آیت قرآن کی سی ہے مگر اس کتاب کا نام قرآن نہیں رکھا جاتا جیسے دینی کتب میں بہت کم ایسی ہوتی ہیں جن میں قرآنی آیت لکھی ہوئی نہ ہو مگر ان تمام دینی کتابوں کو قرآن نہیں کہا جاتا باوجود اس کے کہ ان کتابوں میں قرآن کی آیت وغیرہ موجود ہے اس لئے کہ قرآن کی تعریف ان کتابوں پر صادق نہیں آتی لہذا باوجود قرآنی آیت کی موجودگی کے وہ قرآن نہیں کہلاتی۔ بعینہ اسی طرح کچھ ایسے صحیفے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کیے ہوئے تھے جن میں تفسیری نکات ، مختلف قرأتیں منسوخ شده آیات وغیرہ مختلف درج تھیں. ان صحیفوں میں اگرچہ قرآن کی آیات بھی تھیں جیسے دیگر دینی کتابوں میں درج ہوتی ہیں مگر ان پر قرآن کی تعریف صادق نہیں آتی تھی لہذا اُن کوقرآن قرار دینا جن پر قرآن کی تعریف صادق نہ آئے ۔ صراحتاً جھوٹ ہے ۔
قرآن پاک جب نازل ہو رہا تھا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن پاک کے علاوہ کسی دوسری چیز (حدیث وغیره) لکھنے سے وقتی طور پر اس لیے روک دیا تھا کہ کہیں قرآن پاک اور حدیث پاک آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں جس کی وجہ سے قرآن پاک میں اختلاف ہونے لگے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حفاظت قرآن کی تمام تدبیریں اختیار کرنا از حد ضروری ہیں اگرچہ اس کی وجہ سے کچھ علمی نقصان بھی اٹھانا پڑے ۔ اسی حفظ قرآن کے پیش نظر حضرت عثمان ، حضرت علی دیگر اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان تمام کتابچوں اور صحیفوں کو تلف کرنے کا حکم جاری فرمایا جن میں قرآن پاک کی آیات کے ساتھ قرأت شاذه آیات منسوخہ ، تفسیری نکات اور فوائد وغیرہ لکھے ہوئے موجود تھے تا کہ اس سے اختلاف نہ پیدا ہو جائے اور غیر قرآن کو لوگ قرآن نہ جاننے لگ جائیں اسی واقعہ کو امام بخاری نے یہاں درج فرمایا ہے ۔ اب ایسے صحیفے جن میں مختلف تفسیری نکات لکھے ہوئے تھے گویا ان کی حیثیت دینی کتابوں کی سی تھی مگر چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لکھا تھا اس لئے اندیشہ تھا کہ بعد میں لوگ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے لکھے ہوئے صحیفوں کو بھی قرآن نہ جاننے لگ جائیں ان کو تلف کرنے کا حکم دیا ۔
کتاب اللہ کی حفاظت اور اختلاف سے امت کو بچانے کا ایسا کارنامہ اللہ تعالی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے صادر کروایا جو ان کی عظمت پر ہمیشہ کیلئے بطور نشان کے تابندہ رہے گا اکابرین امت نے اس عظیم الشان واقعہ پر انتہائی مسرت و خوشی کا اظہار فرمایا چنانچہ تفسیر برہان میں ہے : ولقد وقف الأمر العظيم و رفع الاختلاف و جمع الكلمة و اراح الأمة ۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو الله تعالی نے اس عظیم خدمت کو سرانجام دینے ، اختلاف ختم کرنے اور امت کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اہل اسلام کو (افتراق و انتشار کی مصیبت سے) راحت پہنچائی ۔ (تفسیر البرهان جزو اول صفحہ 339 طبع اول،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض دشمنانِ دین نے یہ بات پھیلائی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے علاوہ صحیفوں کو جلا کر غلطی کی ہے ، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : يقول یا ایها الناس لا تغلوا في عثمان و لا تقولوا له الأخيرا في المصاحف و احراق المصاحف فوالله ما فعل الذي فعل في المصاحف الاعن ملامنا جميعاً ۔
ترجمہ : (سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے) اے لوگو ! عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں غلو نہ کرنا (یعنی ان پر الزام تراشیاں مت کرنا) اور ان کے بارے میں خیر و بھلائی کے علاوہ کوئی بات نہ کہنا مصاحف اور احراق مصاحف کے بارے میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ ہم لوگوں کی جماعت کے مشورہ کے بغیر ہرگز نہیں کیا ۔ (کتاب المصاحف لابی داؤد السجستانی صفحہ 22 ، 23،چشتی)(الاتقان جلد 1 صفحہ 129)
تھوڑا آگے چل کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی مذکورہ کتاب میں موجود ہے کہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے اگر میں بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ حاکم ہوتا تو میں بھی وہی کرتا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ (کتاب المصاحف صفحہ 23)
اسی طرح کا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ارشاد تفسیر البرہان جلد 1 صفحہ 245 پر بھی موجود ہے. ان گزارشات سے واضح ہوا کہ :
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک جلانے کا حکم نہیں دیا تھا ۔
مصاحف کا ترجمہ قرآن کرنا صرف رافضی و نیم بیمار دماغوں کی کارستانی ہے حقیقت نہیں ۔
ان مصاحف میں تفسیری نکات وغیرہ بھی لکھے تھے جو بعد میں اختلاب کا باعث بن سکتے تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اختلاف کی بنیاد مٹا ڈالی ۔
ان مصاحف کا تلف کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے اور مشورہ اور ان کی رضاء کے بغیرنہیں ہوا ۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت کے حاکم ہوتے تو وہ بھی ان مصاحف کو تلف کر دیتے ۔
ان مصاحف کا تلف کرنا اتفاق امت کا سبب بنا ۔
اس نشر قرآن میں اور متفقہ قرات ولہجہ مرتب کرنے میں اکابرین صحابہ رضی اللہ عنہم پورے طور پر شریک تھے ۔
اس متفقہ متواتر مشہور قراءت پر مشتمل کلام اللہ کے علاوہ جو قراءت شاذہ وغیرہ مختلف مصاحف میں لکھی ہوئی تھیں ان کے تلف کرنے پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم راضی تھے اور اس عمل میں آل رسول علیہم السلام پیش پیش تھے ۔
ان مختلف مصاحف کے تلف کیے جانے پر ان لوگوں نے اختلاف کیا جو حیدر کرار رضی اللہ عنہ کے مذہب سے دشمنی رکھتے اور اختلاف رکھتے تھے ۔
اس واقعہ پر اختلاف کرنے والوں کی زبانیں بند کرنے کےلیے حیدر کرار رضی اللہ عنہ نے زور دار بیان فرمائے اور اختلاف کرنے والوں کو نصیحت فرمائی ۔
مگر افسوس صد افسوس کہ انتشار و اختلاف کے دلدادہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر دھوکہ دینے والوں کو حیدری نصحیت کا کچھ اثر نہ ہوا حتی کہ پندرہویں صدی میں بھی وہی اعتراض تحقیقی دستاویز میں داغ دیا جس کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے خود رفع فرما دیا تھا اور شیعہ لوگ اب تک وہی راگ الاپے جارہے ہیں جو نسلِ ابنِ سبا نے جاری کیے تھے ارباب انصاف خود ہی غور کر کے فیصلہ کر لیں کہ یہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نصیحت سے روگردانی کرنے والے ان کے دوست ہیں یا دشمن ؟
معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہ عافیت : ⬇
حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام و اتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالا جاتا ہے انتخاب کیا گیا اور پھر اختصار کے ساتھ ان کا جواب دیا گیا حق کے متلاشی کے لئے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصو صاًخلفائے راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے ۔ شرح عقائد میں ہے : ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ۔
ترجمہ : ذکرِصحابہ رضی اللہ عنہم سے زبان کو روکا جائے مگر بھلائی کے ساتھ او ریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہا ہے اور احادیث ان کے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں ۔
یداللّٰہ فوق ایدیھم ،
ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔
رضی اللّٰہ عنہ و رضو عنہ ،
اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔
کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،
سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔
اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں ۔
لایمس النا رمسلماًرأنی ، جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔
اکرموااصحابی فانھم خیارکم ۔
میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں ۔
لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا ۔
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ ۔
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ ۔
جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔
اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم ۔
جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو ۔
خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جاری ہونے والاپروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔ ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں ۔ اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہو کہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں لسانِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نبوت سے نویدِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہٰذا راہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کواہمیت دی جاسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب و اذہان میں صحابہ واہلِ بیت کی محبت بسائے او ران کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔
حضرتِ عثمان ذوالنورین اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
تیسرے خلیفہ راشد ، ذوالنورین ، حیا دار و سخی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ایسے محبوب کہ جن سے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں ، رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادیاں کردیں ۔ کسی ایک ہی آدمی کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں ، یہ ایسا شرفِ عظیم ہے جو نہ پہلی امتوں میں سے کسی کو ملا نہ پچھلی امتوں میں سے کسی کو ۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دوست و ہم سر ، جنہوں نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے ہجرت کی ، اسلام کا پرچم اٹھا کر دنیا کے ان کونوں تک پہنچے جو ابھی تک اسلام کے نام سے نا آشنا و بیگانہ تھے ، جنہوں نے مسلمانوں کی فتوحات میں گراں قدر اضافہ کیا ۔ نئے اور وسیع و عریض ممالک کو فتح کر کے اسلامی مملکت کے زیرِنگیں کیا ۔ جنہوں نے اپنی جیب سے مسلمانوں کی ہر موقع پر دل کھول کر امداد کی ۔ اس ارضِ مقدس پر جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اپنے نبوت و رسالت والے قدموں سے مقدس بنا دیا ، ہجرت کے بعد جب اس سرزمین پر مسلمانوں کے پانی پینے کےلیے کوئی کنواں نہیں تھا ، آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو کنواں خرید کر دیا تھا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ ہی نے زمین کا وہ ٹکڑا خرید کر دیا ، جس پر مسلمانوں نے وہ مسجد تعمیر کی ، جسے آخری نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی آخری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ کا یہ لطف و کرم اور جو دو سخا عوام اور خواص سب کےلیے تھا ، جہاں آپ نے جیشِ عسرہ کو امدادِ بہم پہنچا کر اور اسی جیسی دوسری خدمات پیش کرکے اجتماعی بہبود کے کام کیے ، وہاں آپ رضی اللہ عنہ خواص کےلیے بھی سراپا خیر و برکت ، کریم و سخی اور ان کی ضروریات کےلیے اپنے خزانوں کا منہ کھول دیا کرتے تھے ۔
آپ رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شادی میں آپ رضی اللہ عنہ کی مدد و معاونت کی تھی ۔ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جنہیں شیعہ حضرات پہلا امام معصوم ، سب نبیوں ، رسولوں اور اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی افضل و برتر سمجھتے ہیں ۔ (المناقب للخوارزمی ص ۲۵۲، ۲۵۳ مطبوعہ نجف)۔(کشف الغمۃ للاربلی ج ۱ ص ۳۵۹)۔(بحارالانوار للمجلسی ص ۳۹،۴۰ مطبوعہ ایران)
آپ رضی اللہ عنہ ہی نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو شادی کے تمام اخراجات مہیا کیے ، جیسا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : اپنی زرہ بیچ دو اور اس کی قیمت میرے پاس لے آؤ تاکہ میں تمہارے اور اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کےلیے (ایسا سامان وغیرہ) تیار کروں جو تم دونوں کےلیے اچھا رہے ، علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اپنی زرہ اٹھائی اور اسے بیچنے کےلیے بازار کی طرف چل نکلا ۔ وہ زرہ میں نے چار سو درہم کے عوض عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ ڈالی ۔ جب میں نے آپ سے درہم لے لیے اور آپ نے مجھ سے زرہ لے لی تو آپ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اے بوالحسن کیا اب میں زرہ کا حقدار اور تم درہم کے حق دار نہیں ہو ؟ میں نے کہا : ہاں کیوں نہیں ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : تو پھر یہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے ، میں نے زرہ بھی لے لی اور درہم بھی لے لیے اور نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس آگیا ۔ میں نے زرہ اور درہم دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو بتایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ان کےلیے دعائے خیر کی ۔
شیعہ حضرات کے نزدیک بارہ امام ، انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں ! محمد بن حسن الصفار ’’بصائر الدرجات‘‘ میں عبداللہ بن ولید سمان سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے : ’’مجھ سے ابوجعفر علیہ السلام نے پوچھا ، اے عبداللہ! علی، موسیٰ اور عیسیٰ کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا میں قربان جاؤں، کس پہلو کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں ؟ آپ نے کہا : علم کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہا : وہ (علی رضی اللہ عنہ) خدا کی قسم ان دونوں سے زیادہ عالم تھے، آپ نے کہا: اے عبداللہ کیا یہ نہیں کہتے کہ جتنا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو تھا ، سب علی کو بھی تھا ؟ میں نے کہا : ہا آپ نے کہا پھر اس میں وہ جھگڑنے لگے کہ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہے ، وکتبنا لہ فی الالواح من کل شی ۔ (اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز) ۔ تو ہمیں بتایا کہ پوری بات ان پر واضح نہیں تھی ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے کہا تھا : و جئنالک علیٰ ھولاء شھیدا ۔ وانزلنا علیک القرآن تبیانا لکل شیئ ۔ (اور ہم لائے ہیں آپ کو ان لوگوں پر گواہ اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر قرآن اتارا ہے جس میں ہرچیز کی وضاحت ہے ۔
علی بن اسماعیل محمد بن عمر زیات سے روایت کرتے ہیں کہ : ابوعبداللہ نے پوچھا : موسیٰ، عیسیٰ اور امیر المومنین علیہم السلام کے بارے میں شیعہ کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ موسیٰ اور عیسیٰ امیر المومنین سے افضل تھے ، آپ نے کہا: کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امیر المومنین ہر وہ چیز جانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم جانتے تھے ؟ میں نے کہا : ہاں مگر وہ خدا کے اولو العزم نبیوں میں سے کسی پر آپ کو ترجیح نہیں دیتے ، کہتا ہے ، ابو عبداللہ نے کہا : تو پھر وہ کتاب اللہ سے جھگڑتے ہیں ، میں نے پوچھا ، کتاب اللہ کے کس مقام سے ؟ آپ نے کہا : اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : وکتبنا لہ فی الالواح من کل شیئ اور ہم نے لکھ دی ہے تختیوں میں اس کے لیے ہر چیز ۔ عیسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا : ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ ۔ اور تاکہ میں واضح کروں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو ۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے کہا تھا ۔ وجئنا بک علٰی ھٰؤلاء شھیدا ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ ۔ اور ہم لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو ان پر گواہ اور ہم نے آپ پر کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت ہے ۔
علی بن محمد سے روایت ہے ، ابوعبداللہ نے کہا : خدا نے اولوالعزم رسول پیدا کیے اور انہیں علم کی فضیلت بخشی ، ہمیں ان کا علم دیا گیا اور ان کے علم پر فضیلت بخشی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو وہ علم دیا گیا ، جو انہیں نہیں دیا گیا تھا، ہمیں ان کا علم بھی دیا گیا اور رسول کا علم بھی ۔ (منقول از شیعہ کتاب ۔ الفصول المہمۃ للحرالعاملی ص ۲۵۱، ۲۵۲)
ابنِ بابویہ قمی شیعہ نے بھی اپنی کتاب ’’عیون اخبار الرضا‘‘ میں روایت بیان کی ہے کہ ’’ابو الحسن علی بن موسیٰ رضا اپنے والد کے، وہ اپنے آباء کے، وہ علی کے واسطہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر نازل ہوئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم خدائے بزرگ و برتر کہہ رہے ہیں : اگر میں علی علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا تو میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کےلیے روئے زمین پر آدم سے لے کر مابعد آنے والوں تک کوئی ہم پلہ نہ ہوتا ۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۱ ص ۲۲۵)
شیعہ سید لاجوردی اس پر حاشیہ لکھتے ہوئے کہتا ہے : بعض محققین نے حدیث کے اس فقرے سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام نبیوں سے افضل ہیں ۔ (عیون اخبار الرضا جلد ۱ ص ۲۲۵،چشتی)
حرالعاملی نے تہذیب میں طوسی شیعہ سے نقل کرتے ہوئے یہ روایت اسی عنوان کے تحت درج کی ہے کہ ’’یہ باب اس بارے میں ہے کہ بارہ امام تمام مخلوقات، انبیاء او صیاء اور ملائکہ وغیرہ سے بھی افضل ہیں ۔ (شیعہ کتاب ’’الفصول المہمۃ‘‘ صفحہ ۵۱ مطبوعہ قم ایران)
اسی باب میں ایک اور روایت بھی رضا سے نقل کی گئی ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا : خدا نے کسی کو بھی مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ عزت والا نہیں بنایا ۔ علی کہتے ہیں میں نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم آپ افضل ہیں یا جبرئیل ؟ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے کہا : اللہ نے اپنے فرستادہ نبیوں کو مقرب ملائکہ پر فضیلت دی ہے ۔ اور مجھے تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل بنایا ہے ۔ اے علی میرے بعد افضلیت تیرے لیے اور تیرے بعد آنے والے ائمہ کے لیے ہے۔ فرشتے ہمارے اور ہم سے محبت کرنے والوں کے خادم ہیں ۔ اس کے بعد کہا ۔ اور ہم کیوں فرشتوں سے افضل نہ ہوں ، ہم اپنے رب کی معرفت اور تسبیح و تقدیس میں ان سے سبقت لے گئے ہیں ۔ اس کے بعد کہا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، اور ہمیں ان کی پشت میں رکھا، پھر ہماری عظمت اور اکرام کی وجہ سے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، ان کا سجدہ خدائے بزرگ و برتر ہی کی عبودیت کےلیے تھا لیکن اس میں بنی آدم کا اکرام اور اطاعت بھی تھی، ہم آپ کی پشت میں تھے تو کیونکر فرشتوں سے افضل نہ ہوئے کہ سب کے سب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا ہے ۔ (شیعہ کتب ۔ الفصول صفحہ ۱۵۳،چشتی)(عیون اخبار الرضا‘‘ جلد ۱ ص ۲۶۳‘ زیرِ عنوان افضیلت النبی والائمہ علی جمیع الملائکۃ والانبیاء علیہم السلام)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، اللہ ، ابو عمرو (حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ) پر رحم کرے، آپ سب سے کریم مددگار اور سب سے افضل بزرگ و پرہیزگار تھے ۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے تھے، دوزخ کا ذکر ہوتا تو آپ بہت رونے اور آنسو بہانے والے تھے، نیکی و اچھائی کے کام میں چست اور ہر عطاؤ بخشش میں سب سے آگے تھے، بڑے پیارے، وفادار تھے، آپ رضی اللہ عنہ ہی نے جیشِ عسرہ کو سازو سامان دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے ۔ (شیعہ کتب ۔ تاریخ المسعودی‘‘ ج ۳ ص ۵۱ مطبوعہ مصر)(ناسخ التواریخ للمرزہ محمد تقی ج ۵ ص ۱۴۲ مطبوعہ طہران)
نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے گواہوں میں آپ رضی اللہ عنہ کو بھی گواہ بنایا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا : ’’جاؤ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ اور اتنے ہی آدمی انصار میں سے، چنانچہ میں گیا اور ان کو بلا لایا۔ جب سب حضرات اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح علی رضی اللہ عنہ سے چار سو مثقال چاندی کے عوض کردیا ہے ۔ (کشف الغمۃ‘‘ ج۱ ص ۳۵۸ ’’المناقب‘‘ للخوارزمی ص ۲۵۲ ’’بحارالانوار‘‘ للمجلسی ج ۱۰ ص ۳۸)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے یہ شرف و فخر ہی بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اپنی ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کرکے انہیں اپنے ذوی الارحام اور سسرالی رشتہ داروں میں شامل کرلیا۔ اسی بناء پر شیعہ حضرات آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت و امامت، اور آپ رضی اللہ عنہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل ہیں تو ان کے بارے میں کیا خیال ہے، جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں کیں ؟ عثمان رضی اللہ عنہ کےلیے یہ بات بھی باعثِ فخر ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی شادی پر سارا خرچہ کیا، اس کے لیے تمام اسباب مہیا کیے اور انہیں شادی کا ایک گواہ بنایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے یہی فخر بہت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو وہ شرف و اعزاز ملا، جو پوری کائنات میں سے کسی کو نہیں ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کی شادیاں آپ رضی اللہ عنہ سے کیں ۔ پوری تاریخ انسانی میں اس کی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے گی ۔
پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے مکہ میں حکم خداوندی سے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی آپ رضی اللہ عنہسے کردی کہ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شان یہ ہے : وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔
رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی بھی آپ رضی اللہ عنہ سے کردی ۔ شیعہ حضرات کے علماء بھی ان شادیوں کے معترف ہیں ۔ دیکھیے انتہائی متعصب شیعہ، مجلسی، جو صحابہ علیہم السلام پر بد زبانی و طعن میں مشہور و معروف ہے، اپنی کتاب ’’حیات القلوب‘‘ میں ابنِ بابویہ قمی سے سندِ صحیح کے ساتھ نقل کر رہا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ہاں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے قاسم، عبداللہ (جنہیں طاہر کہا جاتا ہے) ، امِ کلثوم ، رقیہ ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنھن پیدا ہوئیں ۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی ، ابو العاص بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے زینب رضی اللہ عنہا سے ، یہ دونوں حضرات بنی امیہ سے تھے ۔ اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو کہ تعلقِ زوجیت سے پہلے ہی وفات پاگئیں ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم بدر کی طرف جانے لگے تو رقیہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ان کی شادی کردی ۔ حیات القلوب للمجلسی جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۸۸ باب ۵۱،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر اعتراضات اور ان کے جوابات : ⬇
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کئی بار جنت کی بشارت پانا ، بیررومہ کا وقفِ عام فرما کر جنتی چشمہ کا مالک بننا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر عسرت و تنگ دستی کے دور میں سب سے زیادہ فیاضی فرما کر لسانِ نبوت سے دادِ تحسین حاصل کرنا او رسرکار کا اس موقع پر ان کی نذر کردہ رقم کو اچھالتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمانا '' ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم '' آج کے بعد عثما ن پر کسی عمل کامواخذہ نہیں ۔ جیسا کہ ہم سابقہ مضامین میں تفصیل سے عرض کر چکے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو شہزادیوں کا یکے بعد دیگر ے ان کے عقد میں آکر ذوالنورین کا خطاب پانا ،بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنے دستِ کریم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر انہیں شاملِ بیعت فرمانا ،دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک مصحف پر جمع فرماکر ملتِ اسلامیہ کو بڑے افتراق وانتشار سے محفوظ فرمانا ،یہ وہ مناقبِ جلیلہ او ر اوصافِ حمیدہ ہیں جن کے لئے صرف حضر ت امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا کو چنا گیا ہے ۔
ان اعلیٰ اوصاف کے تناظر میں کوئی مسلمان ان بیہودہ او ر خود ساختہ الزامات کا حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات میں موجود گی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جن کا ان کی ذات کو مورد ٹھہرایا گیا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کایہ پہلو بڑا درد ناک ہے کہ جوبے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے جا تے ہیں ان میں بیشتر الزامات وہ ہیں جو ان کی حیاتِ طیبہ میں ان کے روبر ولگائے گئے اور ان کے تشفی بخش جوابات خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دیے ، چاہیے تو یہ تھا کہ سلسلہءِ اعتراضات ختم ہو جاتا مگر افسوس یہ سلسلہ آپ کی شہادت کے بعد بھی دورِ صحابہ کرام سے لے کرآج تک زوروشور سے جاری ہے۔ مشکوۃ شریف میں صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بابت حضر ت عبدا للہ بن عمر اور ایک صاحب کے درمیان مکالمہ مذکو رہے جس کاخلاصہ کچھ اس طرح ہے کہ ایامِ حج میں ایک صاحب نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تین سوال کیے ۔
پہلا یہ تھا کہ کیا عثما ن جنگِ احد میں بھاگے نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ دوسراسوال یہ کہ کیاعثمان غنی جنگِ بدر میں غیر حاضر نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں۔۔۔۔۔۔ اس کاتیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟۔۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا !ہاں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس شخص نے یہ جان کرکہ میرے سوالات کا حضر ت ابنِ عمر نے اعتراف کیاہے ،خوش ہوکر اللہ اکبر کانعرہ لگایا ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ان تینوں سوالوں کاجواب بھی لیتاجا،پھر آپ نے اس کے سوالوں کاترتیب وار جواب دیا ۔فرمایا!۔۔۔۔۔۔جہاں تک جنگِ احد میں فرار کاتعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں انکی معافی کااعلان کرچکا ہے (یعنی جب اللہ تعالیٰ نے معافی کااعلان فرمادیا تو اعتراض کیسا ۔۔۔۔۔۔؟)دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ وہ جنگِ بدر میں اس لیے حاضر نہیں ہوسکے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی اور اپنی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھے جس پر سرکارؐ نے انہیں دو انعاموں سے نوازا ۔۔۔۔۔۔انہیں مجاہدینِ بدر میں شامل فرماکر ان کے لئے اجروثواب کااعلان فرمایا اور انہیں غنیمت میں دوسرے مجاہدین کی طرح حصہ بھی عطا فرمایا۔
اور تیسرے سوال کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کواہلِ مکہ کی جانب اپنا سفیر اور نمائندہ بناکر ان کازبردست اعزازواکرام فرمایا انکے مکہ جانے کے بعدبیعت ِرضوان کامعاملہ پیش آیا پھر بھی رسول اللہ ؐ نے انہیں بیعتِ رضوان کے خوش بخت لوگوں میں شامل فرمایا ،اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فرمایایہ عثمان کاہاتھ ہے پھر اس اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان غنی کی بیعت لی ۔حضرت ابنِ عمر نے جوابات سے فارغ ہوکر اس معترض سے فرمایا''اذھب بھاالآن'' ان جوابات کو اپنے ساتھ لیتاجا،یعنی ان سوالات کے ذریعے تم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نیچادکھانا چاہتے تھے مگر تم نے دیکھ لیاکہ تینوں واقعات ان کی عظمت کے چمکتے ہوئے نشانات ہیں ۔ (مشکوۃ شریف مناقب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ،چشتی)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف اس طوفانِ بدتمیزی کا اصل سبب یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلام کا بدخواہ ایک سازشی گروہ پیدا ہو چکا تھا جس کا قائد عبد اللہ بن سبا تھا جس نے بڑی تیزی کے ساتھ کوفہ ، بصرہ ، مصر اور بعض دوسرے شہروں میں لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا اور سادہ لوح عوام کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر خلیفہءِ اسلام سے بد گمان کر کے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کیا یہ بے بنیاد الزامات و اتہامات اسی گروہ کے تراشے ہوئے ہیں ۔ اس سبائی گروہ کی باقیات آج بھی ان خود ساختہ الزامات کو بنیاد بنا کر حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں ۔ اور اہلِ حق نے ہمیشہ ہر دور میں ان الزامات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی براء ت ثابت کر کے ان کی پوزیشن واضح فرمائی ۔ لہذا مناسب ہوگا کہ ان سطو رمیں چند ایسے الزامات کامع جوابات کے ذکر کیا جائے جو شہرت کے ساتھ آپ کی ذات پر عائد کیے گئے ہیں ۔
(1) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے مناصب سے معزول کرکے اپنے رشتہ داروں کو ان کی جگہ مقرر کیا ،چنا چہ حضر ت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کی گورنری سے ہٹاکرحضرت سعد بن ابی وقاص کا تقرر کیا پھر انہیں معزول کیا اور انکی جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر بنایا ،اسی طرح حضر ت ابو موسیٰ اشعری کوبصرہ کی گورنر ی ہٹاکر عبد اللہ بن عامر کو بطورگور نرمقرر کیا ،یونہی حضر ت عمر وبن العاص کو مصر کی گورنر ی معزول کرکے عبد اللہ بن ابی سرح کو اس منصب پر بٹھایا،ان تمام کاروائیوں کی اصل بنیا د اقربہ پروری ہے کیونکہ عبد اللہ بن ابنی سرح ،عبد اللہ بن عامر ،اور ولید بن عقبہ حضر ت عثما نِ غنی کے قریبی رشتہ دار تھے ۔
(2) بغیر کسی استحقاق کے اپنے اعزہ واقارب کو بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں دلائیں ۔
(3) حکم بن ابی العاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے افشاء راز کے جرم میں طائف کی طرف جلاوطن کردیا تھا ،سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد شیخین نے اس سزاکو برقراررکھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو حکم کو مدینہ طیبہ بلالیا اور یہ اس لیے تھا کہ وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچاتھے ۔
(4) باغیوں کا ایک وفد جو مصر ،کوفہ اور بصرہ کے لوگوں پر مشتمل تھامدینہ طیبہ میں حضر ت علی،حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر وغیرہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزل کا مطالبہ کررہاتھا ،جب ان بزگوں نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر واپس کردیا تو بعد میں بصری وفد حضرت علی کے پاس آیا انہوں نے ان کی واپسی کی وجہ پوچھی توانہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک خط پکڑاہے جو حضرت عثمان غنی نے گورنر مصر کے نام لکھاہے جس میں اسے حکم دیا گیاہے کہ جب وفد تمہارے پاس پہنچے تو اسے قتل کردینا ،اس خط پر حضرت عثما نِ غنی کی مہر لگی ہوئی تھی جب حضرت عثمان غنی سے اس خط کی بابت سوال کیا گیا۔ توآپ نے لاعلمی کا اظہارکیا ،اسلئے لوگوں نے نتیجہ نکالاکہ پھر یہ خط مروان نے لکھا ہوگاجوحضر ت عثمان کے چچازادبھائی ان کے سیکریٹری ہیں سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی سازش پکڑے جانے کے باوجود حضرت عثمان نے مروان کوسزاکیوں نہ دی او راسکے جرائم پرپردہ کیوں ڈالا گیا ۔
(5) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃالوداع میں منیٰ وعرفات میں نمازِ قصر ادافرمائی اورشیخین کاعمل بھی اسی پررہامگر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ وعرفات میںاتمام کرتے تھے جو سرکارؐاور طریقہ شیخین کے خلاف تھا ۔
ان تمام سوالات کے اختصارکے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں : ⬇
پہلے ،دوسرے اور پانچویں سوالوں اوربہت سے دیگرسوالات کے خودحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوابات دئیے جوھدیہ قارئین کئے جاتے ہیں،چنانچہ تاریخِ اسلام مؤلفہ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی میں ہے ،ایک شخص نے اٹھ کر سوال کیاکہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طورپرمال دیتے ہیں مثلاًعبداللہ بن سعدکوآپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیاکہ میں اسکو مالِ غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیاہے مجھ سے پہلے خلافتِ صدیقی ،فاروقی میں بھی اسکی مثالیں موجود ہیں ۔ اسکے بعد ایک اورشخص اٹھا اس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیزواقارب کو امارتیں اور حکومتیں دے رکھی ہیں مثلاًمعاویہ بن سفیان جن کو تمام ملک ِشام پر امیر بنا رکھاہے بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کومعزول کرکے ان کی جگہ عبد اللہ بن عامر کو امیر بنایا ،کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کوجداکرکے ولید بن عقبہ کواسکے بعد سعید بن العاص کوامیربنایا۔ یہ سن کر حضرت عثمانِ غنی نے فرمایاکہ جن لوگوں کومیں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ سارے میرے اقارب نہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ اگر آپ کی رائے کے مطابق امارت کے قابل نہیں ہیں اور مجھ پران کی بے جارعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کےلیے تیارہوں ۔ چنانچہ میں نے سعید بن العاص کو ان کی امارت سے الگ کرکے ابو موسیٰ اشعر ی کو کوفہ کا گورنر بنایا ہے ۔ اس کے بعد ایک شخص نے کہاتم نے بلا استحقاق اور ناقابلِ رشتہ داروں کوامارتیں دی جوان امارتوں کے اہل نہ تھے مثلاًعبد اللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں انکو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمان نے جواب دیاکہ عبد اللہ بن عامر عقل وفراست ،دین داری اور قابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ بن زید کو صرف ١٧ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا ۔
اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے آپ ان کو بڑے بڑے عطیا ت دیتے ہیں حضرت عثمانِ غنی نے جواب دیا کہ خاندان والوں سے محبت ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں اگر ان کو عطیا ت دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں بیت المال سے تو میں اپنے خرچ کیلئے بھی ایک کوڑی نہیں لی،اپنے رشتہ داروں کیلئے بلااستحقاق کیسے لے سکتاہوں اپنے ذاتی مال کا مجھے اختیا ر ہے چاہے جسکو بھی دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا او راس نے کہاکہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حضر ت عثما نِ غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ نہ تھا تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے پاس نہ ہی بکریاں لیکن آج کل میرے پا س صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے ہیںمیں انکو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ مخصوص ضرور ہے اوروہ میرے زمانے میں نہیں بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آ رہی ہے اسکا مجھ پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ۔
پھر ایک شخص نے کہا کہ تم بتاؤکہ تم نے منیٰ میںپوری نمازکیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھی حضرت عثمان نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذامیرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا ۔ (تاریخ اسلام جلد اول ص٣٤١،چشتی)
گورنروں کے عزل و نصب کے سلسلے میںیہ با ت ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تقرری اور برخاستگی کاسلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت کے ساتھ مخصوص نہیں ۔شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے دورمیں جہاں عزل ونصب کی ضرور ت محسوس کی گئی ، عزل ونصب کیاگیا ۔ چنانچہ حضر ت عمر نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ کی گورنری سے علیحدہ کیا اسی طرح حضرت سعدبن ابی وقاص کوبھی بصرہ کی گورنری سے حضرت عمر نے معزول فرمایا تھا اورحضر ت خالد بن ولیدکی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے برخاستگی مشہورومعروف ہے جس طرح حضرت عمر نے بعض حالات کے تحت بعض جلیل الشان صحابہ کو ان کے عہدوں سے الگ کیا اسی طرح حضر ت عثما نِ غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کوانکے عہدوں سے الگ کیا اسکے معقول اسبا ب ووجودہ تھے۔ اورجن حضر ت کا تقررفرمایا وہ باصلاحیت لوگ تھے ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو زمانہ سر کار ،عہدِشیخین میں کسی عہدہ پر فائز رہے تھے۔ مثلاً ولیدبن عقبہ فتح مکہ کے زور مسلمان ہوئے پھر انہیں سرکارؐ نے بنو مصطلق کے صدقات کاعامل مقرر فرمایا او ر حضرت عمر نے انہیں عرب الجزیرہ کاعامل بنایا اسی طرح عبد اللہ بن ابی سرح فاتح افریقہ اورعبد اللہ بن عامر فاتحِ ایر ان وخراسان ہیں حضر ت عثمانِ غنی کی مردم شناس نگاہوں نے جن عظیم افراد کاانتخاب فرمایا وہ رشتہ داری کی بناء پر نہیں بلکہ خداداد صلاحیتوں کی بناء پرچنے گئے اور وہ مستقبل میں قوم کے ہیرو بنے جن کے کارناموں پر اسلام واہلِ اسلام کو نازہے۔
جہاں تک تیسرے سوال کاتعلق ہے کہ حضر ت عثما نِ غنی نے حکم بن ابی العاص کو طائف سے مدینہ طیبہ میں بلالیا حضرت عثما نِ غنی نے انکی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں سرکا رؐ سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے انکی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔
چنانچہ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ ٥٣ مطبوعہ المکتبہ اسلامیہ تہران میں ہے کہ ! ''فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان'' ۔
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کومدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ؐ سے سفارش کی تھی تو سرکارؐ نے مجھ سے انکی واپسی کاوعدہ فرمایا ۔
او ر چوتھے سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ خط نہ حضر ت عثمانِ غنی نے لکھا اور نہ اسکا حکم دیااورنہ یہ آپ کی مہرتھی او رنہ ہی اس میںمروان ملوث تھا بلکہ یہ عبد اللہ بن سبا کی جماعت کی سازش تھی جنہوں نے حضر ت عثمانِ غنی کوشہید کیااس جماعت نے صرف حضر ت عثمانِ غنی کے نام سے جعلی خط نہیں لکھابلکہ حضرت علی ،حضرت طلحہ ،حضر ت زبیرکے نام سے مختلف شہروںکے عوام کو جعلی خطوط لکھے گئے جن میں ان سے کہاگیا کہ تم لوگ مد ینہ طیبہ میں جمع ہوکرحضر ت عثمانِ غنی سے معزول ہونے کا مطالبہ کرو،
چنانچہ علامہ حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد ٧ صفحہ ١٧٥ میں اس خط کے بارے میں حضرت عثمانِ غنی کے تاثرات ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں ''فو اللہ لاکتبت ولااملیت ولادریت بشیء من ذالک والخاتم قد یزورعلی خاتم'' ترجمہ : بخدا میں نے یہ خط نہ لکھوایا نہ اس کے بارے میں کچھ علم ہے اور انگوٹھی ۔۔۔۔۔ انگوٹھی توجعلی بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ چند سطربعد حافظ ابن کثیر ،ابن جریر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ان الصحابۃ کتبو االی الافاق من المدینۃ یامرون باالنا س بالقدوم علی عثما ن لیقاتلوہ .وھذاکذب علی الصحابۃ .وانما کتبت کتبا مزورۃ علیھم کماکتبو من جھۃ علی وطلحۃ والزبیرالی الخوارج کتبا مزورۃ علیھم انکروھا وھکذا زورھذالکتاب علی عثمان۔
ترجمہ : صحابہ کرام نے مدینہ طیبہ سے باہر رہنے والوں کو خطوط لکھے جس میںانہیں مدینہ طیبہ میں آکر حضر ت عثما ن سے لڑائی کرنے کوکہا گیا تھا اور یہ صحابہ کر ام پر جھوٹا الزام ہے ،ان بزرگوں کی طرف سے جھوٹے لکھے گئے جیسے علی وطلحہ وزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے جھوٹے خطوط لکھے گئے جس کا انہوں نے انکار کیا،اسی طرح حضرت عثمانِ غنی کی طرف سے یہ جھوٹاخط لکھاگیا۔
معاملاتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راہ عافیت : حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعداء دین کی طرف سے لگائے گئے الزام واتہامات کی ایک طویل فہر ست ہے جن میں سے چند ایسے مطاعن جنہیں بہت زیادہ اچھالاجاتاہے انتخاب کیا گیااو رپھراختصارکے ساتھ ان کاجواب دیا گیا حق کے متلاشی کےلیے یہ چند سطو رکافی وشافی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ صحابہ کرام خصوصاً خلفاء راشدین علیھم الرضوان کی عدالت ایک مسلم امر ہے اور اپنی زبانوں کوان کے حق میں برائی سے روکنا عقائدِ اہلِسنت میں شامل ہے۔
شرح عقائد میں ہے ''ویکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ''یعنی ذکرِصحابہ سے زبان کو روکا جائے مگربھلائی کے ساتھ اوریہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم ان کی عظمتوں کی گواہی دے رہاہے اوراحادیث انکے فضائل ومناقب سے مالامال ہیں ۔ یہ آیتیں ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔! ٭
یداللّٰہ فوق ایدیھم،
ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے ۔
رضی اللّٰہ عنہ ورضو عنہ،
اللہ ان سے راضی اوروہ اللہ سے راضی ہیں۔
کلا وعداللّٰہ الحسنیٰ ،
سب صحابہ سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی (جنت )کاوعدہ فرمایا ہے ۔
اور یہ حدیثیں بھی ہمارے ذہن نشین رہنی چاہییں۔۔۔۔۔۔
لایمس النا رمسلماًرأنی
،جس مسلمان نے میرا دیدارکیااسے آگ نہیں چھوئے گی ۔
اکرموااصحابی فانھم خیارکم
میرے سارے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم سب میں بہترہیں۔
لاتسبوااصحابی،میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔
اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا،
میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈروانہیں طعن کانشانہ نہ بناؤ۔
من سب اصحابی فعلیہ لعنۃاللّٰہ،
جومیرے صحابہ کو گالی دے اس پراللہ کی لعنت ۔
اذارأیتم الذین یسبون اصحابی فقولوالعنۃاللّٰہ علی شرکم،
جب تم ایسے لوگوں کودیکھوجو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں توکہوتمہارے شرپر اللہ کی لعنت ہو۔
خصوصاً حضر ت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دربارِ رسالت سے جاری ہونے والا پروانہءِ بشارت کبھی لوحِ قلب سے محو نہ ہو ۔
ماعلی عثمان ماعمل بعد الیوم ، آج کے بعد عثمان پرکسی عمل کامؤاخذہ نہیں ۔
اور یہ بات بھی ہر دم ملحوظ ہوکہ وہ ان دس خوش بختوں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں لسانِ رسالت سے نبوت سے نوید ِ جنت ملی ۔ ان نصوص کے مقابلہ میں ان تاریخی کتب کی کیا حیثیت ہے جو ضعاف درکنار موضوعات سے بھری پڑی ہیں جب کتبِ احادیث موضو عات سے محفوظ نہ رہ سکیں تو کتبِ تاریخ کا کیا ٹھکانا ، لہٰذاراہِ احتیاط قرآن و سنت کو اپنا نے میں ہے تاریخی موضوعات و مہملات کو عقیدے کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا او رنہ ہی نصوصِ شرعیہ کے مقابلے میں تاریخی واقعات کو اہمیت دی جا سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کے قلوب واذہان میں صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت بسائے اور ان کی بارگاہ میں زبا ن درازی سے محفوظ فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)