Tuesday, 15 June 2021

میری امت کا اختلاف رحمت ہے

 میری امت کا اختلاف رحمت ہے

محترم قارئینِ کرام : اختلاف أمتي رحمة ۔ محدثین نے اسے حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے جیسے نصر مقدسی نے کتاب الحجة میں ، خطابی نے غریب الحدیث میں اور امام بیہقی نے رسالة اشعریہ میں ۔ (جامع الأحادیث للسیوطی ۱:۱۲۴ حدیث نمبر: ۷۰۶ اور کشف الخفاء ۱:۶۴-۶۶ حدیث نمبر، ۱۵۳)


اختلاف امتی رحمة ۔

تجمہ : میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، 10: 136، الرقم: 28686)


امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اختلاف اصول میں ہرگز نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ اختلاف فروعی چیزوں میں ہوتا ہے ، ان سب چیزوں کی منزل ایک ہی ہوتی ہے ، مگر راستے الگ الگ ہیں ۔ اس کو رحمت اس وجہ سے قرار دیا جاتا ہے کہ کوئی مسلمان جو بھی طریقہ اور راستہ اپنائے گا اسے منزل مل جائے گی اور وہ منزل ہے رضائے الہی ۔ جو طریقہ اور راستہ آسان ہو ، اس کو اختیار کرکے منزل مقصود تک پہنچنا ۔


اگر ایک ہی راستہ ہو تو اس میں مشکلات ہوتی ہیں ۔ لہذا فروعی مسائل میں اختلاف امت کے لیے رحمت ہے اور اصول میں اختلاف امت کےلیے زحمت ہے ۔


حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ بڑے مرتبہ کے تابعی اورمدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک ہیں ۔ خاندانی شرافت میں بھی ممتاز ہیں ۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خانوادہ سے ان کا تعلق ہے آپ فرماتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب رضی اللہ عنہم  کا اختلاف لوگوں کےلیے رحمت ہے ۔ (ادب الخلاف)


امام مالک رحمة اللہ علیہ کے نام نامی سے کون شخص ناواقف اور جاہل ہوگا ۔ نامور محدث اور ائمہ اربعہ علیہم الرّحمہ میں سے ایک ہیں ۔ان سے جب ہارون رشید نے درخواست کی اور اجازت چاہی کہ پورے اسلامی میں موطا امام اما م مالک کے مطابق عمل نافذ کر دیا جائے توانہوں نے جواب میں یہ فرمایا ۔ اے امیر المومنین علماء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی اس امت پر رحمت ہے ہر ایک اپنے نزدیک صحیح ثابت شدہ امر کی پیروی کرتا ہے اور ہر ایک ہدایت پر ہے اور ہر ایک کا مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے ۔ (تاریخ بغداد)(سیر اعلام النبلاء)


امام بغوی رحمة اللہ علیہ مشہور محدث و ومفسر ہیں ان کی کتاب شرح السنۃ محتاج تعارف نہیں ہے لکھتے ہیں : اما الاختلاف فی الفروع بین العلماء فاختلاف رحمۃ اراد اللہ ان لایکون علی المومنین حرج فی الدین فذلک لایوجب الجھران والقطیعة ،لان ھذاالاختلاف کان بین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع کونھم اخوانا موتلفین ،رحماء بینھم وتمسک بقول کل فریق منھم طائفة من اھل العلم بعدھم وکل طلب الحق وسلوک سبیل الرشد مشترکون ۔ (شرح السنۃ 1/229،چشتی)

ترجمہ : بہرحال فروعات میں علماء کے درمیان اختلاف کا واقع ہونا اللہ کی رحمت ہے۔اللہ کی مشیت اس کی متقاضی ہوئی کہ مومنین پر دین پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہ ہو ۔ اسی لیے واجب ہے کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے کسی کو چھوڑنا اور بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے اس لیے کہ یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی موجود تھا اور اسی کے ساتھ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ ، مہربانی کرنے والے تھے ۔ اورانہی کے اقوال سے بعد کے اہل علم نے استدلال کیاہے اوران میں سے ہر ایک حق کا جویاں ہے اور ہدایت کے راہ پر چلنے میں سبھی مشترک ہیں ۔


امام ابن قدامہ بڑے محدث اور فقیہہ ہیں ۔مذہباًحنبلی ہیں اور ان کی کتاب المغنی فقہ کی نامور کتابوں میں شمار کی جاتی ہے بطور خاص فقہ حنبلی میں اسے ممتاز مقام حاصل ہے ۔ وہ اپنی اس مایہ ناز کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : جعل فی سلف ھذہ الامة ایٔمة من الاعلام مھد بھم قواعد الاسلام واوضح بھم المشکلات الاحکام ، اتفاقھم حجة قاطعة واختلافھم رحمة واسعة ۔

ترجمہ : اللہ نے اس امت کے متقدمین میں ایسے نامور علماء اورایٔمہ پیداکیٔے جنہوں نے اسلام کے اصول وضوابط طے کیٔے (اصول فقہ) اوران کے ذریعہ احکام کے مشکلات کوواضح کیا۔ان کا کسی مسیئلہ پر اتفاق حجت قاطعہ اوران کا اختلاف رحمت واسعہ ہے ۔ (ادب الخلاف صفحہ نمبر 12)


امام شاطبی رحمة اللہ علیہبڑے نامور فقیہ اوراصولی ہیں ۔ ان کی کتب الموافقات اور الاعتصام بہت مشہور ہیں ۔ اول الذکر کتاب مقاصد شریعت کے بیان میں اور ثانیت الذکر سنت و بدعت کے بیان میں اپنے موضوع پر فردِفرید سمجھی جاتی ہیں ۔ وہ الاعتصام میں لکھتے ہیں : ان جماعۃ من السلف الصالح جعلوا اختلاف الامۃ فی الفروع ضربا من ضروب الرحمۃ ، واذاکان من جملۃ الرحمۃ فلایمکن ان یکون صاحبہ خارجا من قسم اہل الرحمۃ ۔ (شاطبی الاعتصام (2/170،چشتی)

ترجمہ : سلف صالحین کی ایک جماعت نے فروعی مسائل میں امت کے اختلاف کو رحمت کی اقسام میں سے ایک قسم قرار دیا ہے اور جب یہ اختلاف رحمت ہے تو فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے کوئی اہل رحمت میں سے خارج نہیں ہوگا ۔

ایک دوسرے مقام پر امام شاطبی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : انانقطع بان الخلاف فی مسایٔل الاجتہاد واقع فیمن حصل لہ محض الرحمة وھم الصحابۃ ومن اتبعھم باحسان ۔ (الاعتصام)

ترجمہ : ہمارایقین جازم ہے کہ اجہتادی مسائل میں اختلاف جو کچھ واقع ہوا ہے وہ رحمت خداوندی کا تقاضاہے اور یہ اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد والوں کے درمیان واقع ہوا ہے ۔


اختلاف امتی سے مراد ،’’ اختلاف مجتہدین ہے ، اس لئے کہ اس اختلاف سے بہت سے مشکل مسائل حل ہوگئے ، بہت سی دقیق باتیں جن کو کم فہم ، کم علم سمجھنے سے عاجز تھے ، ان کے لئے آسان کردیا ، مجتہدین نے قرآن وسنت میں امعان نظر کر کے بال کی کھال نکالی ، قواعد مقرر کئے ، اور ان پر جزویات متفرع کئے ، انہوں نے خلائق کے حوادث کے باوجود اس کے اختلاف کے مواقع کے بعینہٖ لکھ دیئے یا جو ان حوادث پر دلالت کرتے تھے بلکہ فقہ ان امور میں تکلم کیا ، جو بھی واقع نہیں ہوتے اس تصور سے کہ مبادا اگر ایسا موقع ہو تو مسلمان حیران نہ ہوں اور جو جزوی منصوص نہیں وہ نادر اور کمیاب ہے اور گاہے منصوص بھی ہوتا ہے ، لیکن ناظر اس کے محل سے قاصر ہے ، فہم کا قصور ہے ، ہر امر فقہ میں مذکور خواہ بمفہوم ہو یا منطوق ۔ (طحطاوی)


اگر اہلِ اسلام انصاف کریں تو حضرات مجتہد عظام اور فقہاء کرام کے احسان کی شکر گذاری سے اپنے آپ کو عاجز جانیں ۔ اللھم فارحم المجتھدین و فقھاء الدین وجزاھم عنا خیرالجزاء یا ارحم الراحمین ۔


ہمارے امام رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک یہ ہے ، نعمان بن ثابت ، لقب امام اعظم ، کنیت ابو حنیفہ (سب باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف جانا اس کو حنیف کہتے ہیں) اہلِ عرب کی عادت ہے ، جو چیز کسی سے زیادہ صادر ہو جائے تو اس کی اس کی کنیت بنادیتے ہیں ، گویا کہ وہ چیز اس سے پیدا ہوئی ، اور یہ شخص اس کا باپ ٹھہرا ، حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ باطل کو مٹانے والے ، برباد کرنے والے ، ہمیشہ حق کے تابع ، حق کے پیرو حق پر چلنے والے تھے ، گویا کہ حق امام اعظم رضی اللہ عنہ سے پیدا ہوا اور حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ حق کے باپ ہوئے اس لئے امام اعظم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حنیفہ ہوئی ۔


حدیث "اختلاف أمتي رحمة" جس کا ترجمہ ہے کہ "میری امت کا اختلاف رحمت ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ علم کا دین کے فروعی اَحکام میں اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلّم کی امت کے لیے رحمت ہے ۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے مختلف حالات میں عمل کرنے کے لیے آسانی ہوجاتی ہے ، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں ، مثلاً : بنو قریظہ کا مشہور واقعہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلّم نے وہاں پہنچ کر نماز عصر کی ادائیگی کا کہا تھا ، راستہ میں جب نماز قضا ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستہ ہی نماز پڑھ  لی اور بعض نے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضا ہوجانے دی اور وہاں پہنچ کر ہی نماز ادا کی۔  بعد میں جب حضور صلی اللہ علیہ و وآلہ وسلّم سے پوچھا گیا تو دونوں کی تصویب فرمائی ۔ اس طرح کے واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ علماء کی آراء کے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں ، بلکہ اس اختلاف میں بھی امت کےلیے سہولت کے دروازے کھلتے ہیں ۔


البتہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اُصولی اَحکام کے مسائل جن کا تعلق عقائد سے ہے یا اسی طرح وہ مسائل جن میں اہلِ سنت و جماعت کا اجماع ہو ، ان میں اختلاف کرنا گمراہی ہے اور اس حدیث میں ذکر کی گئی ’’رحمت‘‘ کے تحت شامل نہیں ہے ۔


(اختلاف) افتعال من الخلف وهو ما يقع من افتراق بعد اجتماع في أمر من الأمور ذكره الحراني (أمتي) أي مجتهدي أمتي في الفروع التي يسوغ الاجتهاد فيها فالكلام في الاجتهاد في الأحكام كما في تفسير القاضي قال: فالنهي مخصوص بالتفرق في الأصول لا الفروع انتهى. قال السبكي: ولا شك أن الاختلاف في الأصول ضلال وسبب كل فساد كما أشار إليه القرآن وأما ما ذهب إليه جمع من أن المراد الاختلاف في الحرف والصنائع فرده السبكي بأنه كان المناسب على هذا أن يقال اختلاف الناس رحمة إذ لا خصوص للأمة بذلك فإن كل الأمم مختلفون في الحرف والصنائع فلا بد من خصوصية قال: وما ذكره إمام الحرمين في النهاية كالحليمي من أن المراد اختلافهم في المناصب والدرجات والمراتب فلا ينساق الذهن من لفظ الاختلاف إليه (رحمة) للناس كذا هو ثابت في رواية من عزى المصنف الحديث إليه فسقطت اللفظة منه سهوا أي اختلافهم توسعة على الناس بجعل المذاهب كشرائع متعددة بعث النبي صلى الله عليه وسلم بكلها تضيق بهم الأمور من إضافة الحق الذي فرضه الله تعالى على المجتهدين دون غيرهم ولم يكلفوا ما لا طاقة لهم به توسعة في شريعتهم السمحة السهلة فاختلاف المذاهب نعمة كبيرة وفضيلة جسيمة خصت بها هذه الأمة فالمذاهب التي استنبطها أصحابه فمن بعدهم من أقواله وأفعاله على تنوعها كشرائع متعددة له وقد وعد بوقوع ذلك فوقع وهو من معجزاته صلى الله عليه وسلم أما الاجتهاد في العقائد فضلال ووبال كما تقرر والحق ما عليه أهل السنة والجماعة فقط فالحديث إنما هو في الاختلاف في الأحكام ورحمة نكرة في سياق الإثبات لا تقتضي عموماً فيكفي في صحته أن يحصل في الاختلاف رحمة ما في وقت ما في حال ما على وجه ما. وأخرج البيهقي في المدخل عن القاسم بن محمد أو عمر بن عبد العزيز لا يسرني أن أصحاب محمد لم يختلفوا لأنهم لو لم يختلفوا لم تكن رخصة ويدل لذلك ما رواه البيهقي من حديث ابن عباس مرفوعا أصحابي بمنزلة النجوم في السماء فبأيهم اقتديتم اهتديتم واختلاف أصحابي لكم رحمة قال السمهودي: واختلاف الصحابة في فتيا اختلاف الأمة وما روي من أن مالكاً لما أراده الرشيد على الذهاب معه إلى العراق وأن يحمل الناس [ص:210] على الموطأ كما حمل عثمان الناس على القرآن. فقال مالك: أما حمل الناس على الموطأ فلا سبيل إليه لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم افترقوا بعد موته صلى الله عليه وسلم في الأمصار فحدثوا فعند أهل كل مصر علم وقد قال صلى الله عليه وسلم: اختلاف أمتي رحمة، كالصريح في أن المراد الاختلاف في الأحكام كما نقله ابن الصلاح عن مالك من أنه قال: في اختلاف أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم مخطئ ومصيب، فعليك الاجتهاد قال: وليس كما قال ناس: فيه توسعة على الأمة بالاجتهاد، إنما هو بالنسبة إلى المجتهد، لقوله: فعليك بالاجتهاد، فالمجتهد مكلف بما أداه إليه اجتهاده، فلا توسعة عليه في اختلافهم، وإنما التوسعة على المقلد، فقول الحديث: اختلاف أمتي رحمة، للناس أي لمقلديهم، ومساق قول مالك: مخطئ ومصيب إلخ إنما هو الرد على من قال: من كان أهلاً للاجتهاد له تقليد الصحابة دون غيرهم، وفي العقائد لابن قدامة الحنبلي: أن اختلاف الأئمة رحمة، واتفاقهم حجة، انتهى ۔ (فيض القدير 1 / 209،چشتی)


مطلب في حديث «اختلاف أمتي رحمة» : (قوله: من آثار الرحمة) فإن اختلاف أئمة الهدى توسعة للناس كما في أول التتارخانية، وهذا يشير إلى الحديث المشهور على ألسنة الناس، وهو «اختلاف أمتي رحمة» قال في المقاصد الحسنة: رواه البيهقي بسند منقطع عن ابن عباس - رضي الله تعالى عنهما - بلفظ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مهما أوتيتم من كتاب الله فالعمل به لا عذر لأحد في تركه، فإن لم يكن في كتاب الله فسنة مني ماضية، فإن لم تكن سنة مني فما قال أصحابي، إن أصحابي بمنزلة النجوم في السماء، فأيما أخذتم به اهتديتم، واختلاف أصحابي لكم رحمة» وأورده ابن الحاجب في المختصر بلفظ «اختلاف أمتي رحمة للناس» وقال منلا علي القاري: إن السيوطي قال: أخرجه نصر المقدسي في الحجة والبيهقي في الرسالة الأشعرية بغير سند، ورواه الحليمي والقاضي حسين وإمام الحرمين وغيرهم، ولعله خرج في بعض كتب الحفاظ التي لم تصل إلينا. ونقل السيوطي عن عمر بن عبد العزيز أنه كان يقول: ما سرني لو أن أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - لم يختلفوا؛ لأنهم لو لم يختلفوا لم تكن رخصة. وأخرج الخطيب أن هارون الرشيد قال لمالك بن أنس: يا أبا عبد الله نكتب هذه الكتب يعني مؤلفات الإمام مالك ونفرقها في آفاق الإسلام لنحمل عليها الأمة، قال: يا أمير المؤمنين، إن اختلاف العلماء رحمة من الله تعالى على هذه الأمة، كل يتبع ما صح عنده، وكلهم على هدى، وكل يريد الله تعالى، وتمامه في [كشف الخفاء ومزيل الإلباس] لشيخ مشايخنا الشيخ إسماعيل الجراحي ۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ،رد المحتار ، 1 / 68)


قال في المقاصد : رواه البيهقي في المداخل بسند منقطع عن ابن عباس بلفظ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مهما أوتيتم من كتاب الله فالعمل به لا عذر لأحد في تركه، فإن لم يكن في كتاب الله فسنة مني ماضية، فإن لم تكن سنة مني فما قاله أصحابي؛ إن أصحابي بمنزلة النجوم في السماء، فأيما أخذتم به اهتديتم، واختلاف أصحابي لكم رحمة".ومن هذا الوجه أخرجه الطبراني والديلمي بلفظه وفيه ضعف, وعزاه الزركشي وابن حجر في اللآلئ لنصر المقدسي في الحجة مرفوعًا من غير بيان لسنده ولا لصاحبيه، وعزاه العراقي لآدم بن أبي إياس في كتاب العلم والحكم بغير بيان لسنده أيضًا بلفظ: اختلاف أصحابي رحمة لأمتي, وهو مرسل وضعيف.وبهذا اللفظ أيضًا ذكره البيهقي في رسالته الأشعرية بغير إسناد، وفي المدخل له عن القاسم بن محمد عن قوله: اختلاف أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم رحمة لعباد الله. وفيه أيضًا عن عمر بن عبد العزيز أنه كان يقول: ما سرني لو أن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لم يختلفوا؛ لأنهم لو لم يختلفوا لم تكن رخصة. وفيه أيضًا عن يحيى بن سعيد أنه قال: أهل العلم أهل توسعة, وما برح المفتون يختلفون فيحلل هذا ويحرم هذا، فلايعيب هذا على هذا. ثم قال في المقاصد أيضًا: قرأت بخط شيخنا، يعني الحافظ ابن حجر، أنه حديث مشهور على الألسنة، وقد أورده ابن الحاجب في المختصر في مباحث القياس بلفظ: اختلاف أمتي رحمة للناس، وكثر السؤال عنه، وزعم الكثير من الأئمة أنه لا أصل له، لكن ذكره الخطابي في غريب الحديث مستطردًا، فقال: اعترض هذا الحديث رجلان أحدهما ماجن، والآخر ملحد، وهما إسحاق الموصلي وعمرو بن بحر الجاحظ, وقالا: لو كان الاختلاف رحمة لكان الاتفاق عذابًا، ثم تشاغل الخطابي برد كلامهما، ولم يشف في عزو الحديث, لكنه أشعر بأن له أصلًا عنده، ثم قال الخطابي: والاختلاف في الدين ثلاثة أقسام:الأول:في إثبات الصانع ووحدانيته, وإنكاره كفر.والثاني:في صفاته ومشيئته، وإنكارهما بدعة. والثالث:في أحكام الفروع المحتملة وجوهًا، فهذا جعله الله رحمة وكرامة للعلماء، وهو المراد بحديث: اختلاف أمتي رحمة، انتهى ۔ (كشف الخفاء ت هنداوي 1 / 75،چشتی)


اسلام میں فقہی فروعی اختلافات کے ہزاروں نظائر ایسے موجود ہیں جو اس کے پیرو کاروں کے لئے باعث رحمت قرار دئے جاتے ہیں اور آج بھی ایسے اختلافات رحمت ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی بنیادیں اخلاص وللہیت پر استوار کی گئی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ دلائل شرعیہ بھی ان کی پشت پناہی کرتے ہوں۔

اخلاص و للہیت کا تعلق قلبی عزائم سے ہے جن تک عام بندگان خدا کے علم و فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی اس لیے ہمیں اپنی نظر اس امر پر مذکور رکھنی چاہیئے کہ اختلاف اگر شرعی امکانات کے حدود میں ہو تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسے اخلاص وللہیت پر ہی محمول کریں۔ فقہائے کرام کے ہزار ہا ہزار اختلافات اس کے شاہد عدل ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ یہ اختلافات کبھی ان کے مابین عداوت کا بیج نہ بوسکے اور ان کے دلوں کے نہاں خانے میں نفرت کی خلیج کبھی حائل نہ ہو سکی بلکہ اس کے بر خلاف وہ باہم اخوت ومحبت اور دریا دلی کے مثالی پیکر نظر آتے تھے ۔اختلاف کی دھرتی پر محبت کا یہ خو ش نما پودا،آج کے دور تشت وانتشار میں ہم سب کے لئے نمونۂ عبرت ہے ۔ لیکن کیا سارے اختلافات اسی نوعیت کے ہوتے ہیں ؟ ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ۔ بلکہ بہت سارے اختلافات ایسے بھی ہوتے ہیں جو معاصی و منکرات کے دائرے میں آنے کی وجہ سے مذموم قرار پاتے ہیں اور ان پر نکیر لازمی ہوتی ہے : اس لیے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس اختلاف کو معصیت قرار دیا جائے اور کس اختلاف کو استحسان یا اباحت کے درجہ میں رکھا جائے بلفظ دیگر اختلاف کے باب میں معیار حسن وقبح و رحمت وزحمت کیا ہے ؟


آیئے اس کے بارے میں جانتے ہیں


فقیہ فقید المثال اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمة اللہ علیہ انکشاف فرماتے ہیں : (علمائے کرام تصریح فرماتے ہیں کہ مسئلۂ مختلف فیہا منکر شرعی و معصیت دینی نہیں ، نہ کہ معاذ اللہ اسے ضلالت کہنا جیسا کہ داب وہابیت ہے کہ صریح جہالت وضلالت ہے ۔ اگر علماء بوجہ اختلاف متردد فیہ ٹھہرا کر واجب الترک مان لیتے تو منکر و معصیت نہ سمجھنے کے کیا معنیٰ تھے ۔ امام ابن الہمام فتح القدیر مسئلہ صلاۃ الجنازۃ فی المسجد میں فرماتے ہیں : الا نکاری الذی یجب عدم السکوت معہ ھو المنکر العاصی من قام بہٖ لاالفصول المجتھد فیھا ۔

ترجمہ : جس اختلاف پر عدم سکوت واجب ہے یہ وہ اختلاف ہے جو منکر ہوتا ہے اور اس کا مرتکب عاصی قرار پاتا ہے ، وہ مسائل نہیں جو مجتہد فیہ ہیں ۔

امام علامہ عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ‘فصل ثانی‘باب اول میں زیر قول ماتن رحمہ اللہ تعالیٰ’’اذاانکر علیھم بعض امور ھم المخالف للشرع الشریف‘‘ فرماتے ہیں:المراد ما ھو المجمع علیہ بین المجتھدین کالزنا وشرب الخمر والسرقۃ وترک الصلوٰۃ وما اشبہ ذلک۔ واما مالم یکن کذلک فلیس بمنکر ۔قال الامام الغزالی فی الاحیاء فی شروط المنکر :ان یکون کونہ منکرا معلوما بغیر اجتھاد ،فکل ماھو فی محل الاجتھاد فلا حسبۃفیہ فلیس للحنفی ان ینکر علی الشافعی اکلہ الضب والصنع ومتروک التسمیۃ،ولا للشافعی ان ینکرعلی الحنفی شربہ للنبیذ الذی لیس بمنکر، الی آخر ما بستہ من الکلام فی ھذا المقام۔

ترجمہ : ’’مخالف شرع امر ‘‘سے مراد وہ امر ہے جس پر مجتہدین کا اجماع ہے جیسے زنا،شراب نوشی، چوری، ترک نماز ،اور دوسرے وہ امور جو ان کے مشابہ ہیں ۔

رہے وہ امور جن پر مجتہدین کا اجماع نہیں ہے تو وہ منکر نہیں ۔چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں منکر کی شرطیں شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شرط یہ ہے کہ شئی کا منکر ہونا بغیر اجتہاد کے معلوم ہو کیونکہ جو امر محل اجتہاد میں ہوتا ہے اس پر کوئی محاسبہ نہیں ہوتا ۔لہٰذا حنفی کو یہ رَوا نہیں کہ شافعی پر یہ اعتراض کرے کہ وہ گوہ ،بجواور جس جانور کے ذبح پر قصدا ًبسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو کیسے کھاتا ہے یونہی شافعی کے لئے یہ روا نہیں کہ غیر نشہ آور نبیذ پینے کی وجہ سے حنفی پر اعتراض کرے)

اسی میں ہے : ’’ انما المنکر ما وقع الاجماع علیٰ حرمتہ و النہی عنہ ‘‘ منکر محض وہ ہے جس کے حرام ہونے اور اس سے روکنے پر اجماع ہو ۔

اسی میں ہے : ’’لا ینبغی ان ینہیٰ الواعظ عما قال بہ امام من ائمۃ المسلمین بل ینبغی ان یقع النہی عما اجمع الائمۃ کلہم علیٰ تحریمہ و النہی عنہ الزنا و الربوٰ ، و الریا ، والطعن فی اولیاء اللہ تعالیٰ با الجہل فی معانی کلامہم و انکار کراماتہم بعد الموت و اعتقاد ان و لا یتہم انقطعت بموتہم و نہی الناس عن التبرک بہم الیٰ غیر ذلک من القبائح اہ مختصراً ‘‘

مختلف فیہ مسائل میں ممانعت نہ چاہئے ، منع کے لائق صرف وہ باتیں ہیں جن کی حرمت پر اجماع ہے ، جیسے زنا و ربا و ریا ، اور اولیاء اللہ کا کلام نہ سمجھ کر ان پر طعن کرنا اور بعد وصال ان کی کرامات کا منکر ہونا اور یہ سمجھنا کہ انتقال سے ان کی ولایت بھی جاتی رہی ، اور لوگوں کو ان کے مزارات کریمہ سے برکت حاصل کرنے سے منع کرنا ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے حرام ہونے پر تمام امت کا اجماع ہے ۔

مقدمۂ کتاب مستطاب میں شرح مقاصد سے گزرا: ’’خلافا للمبطلین حتی ربما جعلوا الاختلاف فی فروع ایضا بدعۃ و ضلالۃ ‘‘ یعنی اہل باطل فرعی مسائل مختلف فیہا میں بھی بدعت و ضلالت کا حکم دیتے ہیں ۔

تحفۂ اثنا عشریہ شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی میں ہے کہ : یا با وجود ایں ہمہ (اختلافات) قول جازم نمائندہ بے باک و بے احتیاط سنت و ہمیں ست شان محتاطین از علماء راسخین کہ در اجتہادیات مختلف فیہا جزم باحد الطرفین نمی کنند ۔ (حاشیہ اذاقۃ الآثام ص؍ ۱۴۴، ۱۴۵)

خاتم المحققین حجۃ الخلف حضرت مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب قادری برکاتی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (والد ماجد سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ و الرضوان ، جو اپنے زمانے کے عبقری فقیہ تھے) فرماتے ہیں : مسح رقبہ و نماز چاشت کے بدعت و سنت ہونے میں اختلاف ہے پھر کیا علما ء انہیں واجب الترک بتاتے ہیں فقہا صدہا جگہ بعد نقل اختلاف فعل کو جائز و مباح ٹھہراتے ہیں بلکہ علماء بحال اختلاف ایسے امور سے منع نہ کرنے کی تصریح فرماتے ہیں ۔ (اذاقۃ الآثام ص؍ ۱۴۲،چشتی)

اس مسئلۂ اختلاف کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اپنے ایک فتوٰی میں ارقام فرماتے ہیں : سیدی عارف باللہ محقق نابلسی کتاب مذکور (حدیقہ ندیہ) میں فرماتے ہیں کہ اب ہمارے شہر کی جامع مسجد میں مؤذنین جمعہ کے دن (امام کی دعا پر آمین) کہتے ہیں اس کی تخریج وثبوت ہمارے مذہب یا دوسرے مسلک میں ممکن ہے تو یہ ایسا ناجائز نہیں ہے کہ اس کا انکار اس سے منع لازم ہے، منکر تو وہ ہوتا ہو جن کی حرمت اور ممانعت پر اجماع ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم صفحہ ؍۴۸۴،۴۸۵؍ جلد ؍۸رضا اکیڈمی)

مولوی سید محمد شاہ صاحب صدر دوم ندوہ ، اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے ملنے کے لئے آئے ،اس موقع پر انہوں نے اعلیٰحضرت سے کہا : ’’میری رائے یہ ہے کہ کسی کو برا نہ کہنا چاہیئے ،، اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا : ’’بہت بجا فرمایا : جہا ں اختلافات فرعیہ ہو ں جیسے باہم حنفیہ و شافعیہ وغیرہما فرق اہل سنت میں ۔وہاں ہرگز ایک دوسرے کو برا کہنا جائز نہیں ۔اور فحش دشنام جس سے دہن آلودہ ہو کسی کو بھی نہ چاہئے ۔ (الملفوظ حصہ اول ص؍۳۹،۴۰)


فقیر سمجھتا ہے کہ ان عبارات سے یہ امر بخوبی عیاں ہوجاتا ہے کہ اختلاف کے باب میں ’’رحمت وزحمت کا معیار ‘‘ کیا ہے اس لئے ہمیں مسائل فقہیہ میں اختلاف کرنے والے کسی عالم اہل سنت سے اسی معیار کے مطابق برتائو کرنا چاہیئے ، یہی رحمت ہے اور اس سے عدول زحمت ہے ۔


نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالذات علمائے مجتہدین کو اور بالطبع دوسرے علماء کو اپنا جانشین و وارث قرار دیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : اَلْعُلَمَاء وَرَثَةُ الْاَنْبِيَآء ۔ ترجمہ : علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ (سنن ابی دائود، کتاب العلم، 1: 317، الرقم: 3641،چشتی)


ان وارثانِ انبیاء اور حاملینِ علمی نبوی نے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرمودات میں غور و فکر کر کے ان پانچ مقاصدِ شرع کا تعین کیا ہے : ایمان کی حفاظت ، جان کی حفاظت ، نسب کی حفاظت

عقل کی حفاظت ، مال کی حفاظت ۔


نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِی الدِّيْن ، ’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، 1: 39، الرقم: 71،چشتی)


یہاں فقہ سے مراد انہیں پانچ مقاصد کا حصول ہے ۔


مجتہدین عظام نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے طور سے فقہ کی تعریف کی ہے، لیکن سب کا عطر مجموعہ اور نچوڑ جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے ، وہ یہ ہے : فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے ۔ (فتاویٰ رضويہ)


الفاظ بہت کم ہیں ، مگر جتنی بھی تعریفیں اس سلسلے میں کی گئیں ہیں سب کو جامع ہیں ۔ آگے فرماتے ہیں : ’’مِنْ‘‘  کا ترجمہ ’’سے‘‘ اور ’’ا ِلٰی‘‘ کا ترجمہ ’’تک‘‘ جاننے کا نام فقہ نہیں ہے ۔ (فتاویٰ رضويہ) ، یعنی جیسے قرآن میں مِنْ آیا ہے ، اِلٰی آیا ہے ، فِیْ آیا ہے ، ان کا ترجمہ جاننے کا نام فقہ نہیں ہے۔ بلکہ فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے ۔ شریعت ہم سے کیا مطالبہ کرتی ہے ؟ کیا چاہتی ہے ؟ یہ جاننا ضروری ہے ۔


مثال کے طور پر زکوٰۃ و صدقات کے مصارف قرآن کریم میں آٹھ بیان کئے گئے ہیں۔ رسول کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آٹھوں مصارف کو زکوٰۃ دی گئی مگر چونکہ فقہ نام ہے مقصد شرع کے ادراک کا تو صحابہ کرام نے غوروفکر کیا کہ آٹھوں مصارف میں سے ہر ایک میں زکوٰۃ کا مقصدِ شرع کیا ہے؟ اور ہر ایک میں اس کا مقصد شرع آج بھی پایا جاتا ہے یا نہیں؟ صحابہ کرام نے سمجھا کہ غیر مسلموں کو تالیف قلب کے لئے زکوٰۃ دینے کا جو مقصد تھا آج وہ مقصد باقی نہیں رہا تو انہوں نے اجماع کرلیا کہ آج زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مولفۃ القلوب نہیں رہا۔ اب صرف سات ہی مصارف پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی۔ اب اس کے بعد اگر کوئی شخص مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔


دوسری طرف نصِ قرآنی بظاہر صاف ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صراحت کے ساتھ فرمایا کہ مولفۃ القلوب کو زکوۃ دی جائے گی لیکن صحابہ نے اجماع کرلیا کہ مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ صحابہ جانتے اور سمجھتے تھے کہ مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینے سے مقصود کیا ہے؟ جب تک وہ مقصد باقی رہا، ان کو زکوٰۃ دی گئی اور جب وہ مقصد باقی نہیں رہا تو مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینا بند کردیا گیا۔


بالفرض اگر آج کئی مصار ف ایسے ہوں جن سے مقصدِ شرع کی تکمیل نہیں ہوتی ہے یا مقصدِ شرع کی تکمیل میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی ہے تو سات سے چھ، چار یا تین بھی کیا جاسکتا ہے، یہ بالفرض کہہ رہا ہوں، اگرچہ واقعہ میں ایسا اب تک نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ فقہ درحقیقت مقصدِ شرع کے ادراک اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا نام ہے۔


تجزیہ و تحلیل کی اہمیت


آج ہم بس کتابیں پڑھ لیتے ہیں، اصولوں کا انطباق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے متقدمین فقہا نے نصوص شرعیہ میں تجزیہ و تحلیل سے ان پانچ مقاصدِ دین، ’’ایمان، جان، عقل، نسب اور مال کی حفاظت‘‘ کو بیان کیا ۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ : ایمان کی خاطر جان بھی جاسکتی ہے، جان کی خاطر ایمان نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اضطراری حالت میں کلمہ کفر ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے کہ جان بچالو، اس لئے کہ کلمہ کفر کا بول دینا اور ہے، کفر کا ارتکاب کرنا اور ہے۔ ایمان و کفر کا تعلق دل سے ہے، اگر دل مطمئن ہے تو اضطراری حالت میں کلمہ کفر کا بول دینا جائز قرار دیا جائے گا۔ پس ایمان کا درجہ پہلا ہے اور جان کا درجہ دوسرا ہے۔

آپ جہاد کی مشروعیت دیکھیں، ایمان ہی کی خاطر جہاد کی مشروعیت ہوئی ہے۔ جہاد میں جانیں جاتی ہیں، جانیں لی جاتی ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ ایمان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔ پس جان کا نمبر دوسرا ہے اور ایمان کا نمبر پہلا ہے ۔ عقل کی حفاظت تیسرے نمبر پر ہے، کیوں؟ اس کو جاننے کے لئے یہ سمجھنا ہوگا کہ عقل سے مقصود کیا ہے؟ عقل سے مقصود یہ ہے کہ اگر آدمی کے پاس عقل نہ ہو تو وہ دنیا میں کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ فتنے پھیلا سکتا ہے، کسی کا مال غصب کرسکتا ہے، لوٹ سکتا ہے، کچھ بھی کرسکتا ہے، تو اگر عقل سلامت رہتی ہے تو بہت سارے مفاسد سے بچا جاسکتا ہے اور بہت سے مصالح کا حصول ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد نسب کا درجہ ہے ۔ نسب کی حفاظت شریعت کا مقصود کیوں ہے ؟ اس لئے کہ اگر نسب محفوظ نہ ہو تو جو بچہ پیدا ہوگا اس کی کفالت و پرورش کون کرے گا ؟ اسے تعلیم کون دے گا؟ سچا پکا مسلمان کون بنائے گا؟ اسی لئے نسب کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ مقصودِ شرع ہے ۔ اس کے بعد درجہ ہے مال کی حفاظت کا، کیونکہ جان کی حفاظت میں من جملہ مال کی ضرورت ہے ۔

گویا فقہائے کرام نے اپنی تلاش و جستجو کے بعد ان پانچ مقاصد کو ترتیب وار متعین فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ فقہ سے مقصود ان پانچ مقاصد کا حصول ہے۔ جو شخص ان پانچ مقاصد کے حصول کے طریقے کا ادراک کرلے گا وہی فقیہ ہوگا ۔ فقہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ’’بہار شریعت‘‘ سے ایک مسئلہ یاد کرلیا اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ سے ایک مسئلہ یاد کرلیا اور فقیہ و مفتی بن گئے ۔ معاملہ یہ ہے کہ فقہ کا جو مقصد ہے ، جب تک اس مقصد تک پہنچا نہیں جائے گا اور اس مقصد کے مطابق عمل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہم فقیہ نہیں کہلائے جاسکتے ۔


فقہ ، تصوف اور کلام


فقہ نام ہے مقصد شرع کے ادراک کا اور فقہ کے ساتھ عمل بھی ہو تو وہ تصوف ہے۔ اسی لئے آپ متقدمین کے یہاں دیکھیں، جیسے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جو فقہ کی تعریف کی ہے، اس میں علم فقہ کے ساتھ علم کلام بھی داخل ہے اور علم تصوف بھی داخل ہے۔ گویا امام اعظم کے نزدیک مذکورہ تینوں علوم کے مجموعے کا نام فقہ ہے۔ فقیہ بھی اس زمانے میں وہی ہوتے تھے جو علم کلام، علم تصوف اور علم فقہ سے کماحقہ واقف ہوں اور نہ صرف واقف بلکہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں اس پر عامل بھی ہوں۔ گویا کوئی شخص اس وقت تک فقیہ نہیں ہوسکتا تھا، جب تک کہ وہ متکلم نہ ہو، اسی طرح وہ بھی فقیہ نہیں ہوسکتا تھا جو صوفی نہ ہو، مگر چونکہ اس زمانے میں نہ وہ قوت ارادی رہی اور نہ بلند حوصلہ رہا تو جیسے دنیاوی علوم میں ترقی ہوئی اور تخصص کے دور کا آغاز ہوا، ایسے ہی ہمارے بزرگوں نے دینی علوم میں تقسیم اور درجہ بندی شروع کردی۔ فقہ کا ایک حصہ ’’علم کلام‘‘ سے موسوم کیا گیا، ایک حصہ ’’علم تصوف‘‘ کے نام سے جانا گیا، اب اس تقسیم کے بعد جو ’’فقہ‘‘ بچا وہ فرعی و عملی احکام کو ان کے دلائل کے ساتھ جاننا ہے۔


فقہی اختلاف کے اسباب


یقینا امت محمدیہ بلکہ انسان مختلف الطبع پیدا ہوا ہے۔ اللہ نے بنی نوع آدم کو مختلف طبائع والا بنایا ہے، اسی لئے ہماری سوچ کچھ اور آپ کی سوچ کچھ اور ہے۔ آپ کی عقل کچھ کہہ رہی ہے جبکہ ہماری عقل کچھ کہہ رہی ہے۔ جب ہمارا علم آپ کے علم سے مختلف ہے تو اختلاف ہونا ناگزیر ہے ۔ اختلاف تو ہوگا اور اس اختلاف کو اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے ۔


اس سلسلے میں سب سے معتبر کتاب ہمارے علماء کےلیے بھی اور ہمارے طلبہ کےلیے بھی حضرت امام شعرانی کی کتاب ’’میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ ہے۔ اس کتاب کو آدمی پڑھ لے تو فکر میں بھی وسعت پیدا ہوگی اور ذہن کو بھی مضبوطی ملے گی۔ اختلاف جھگڑے کا نام نہیں بلکہ عین دین ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ اختلاف ہو، اس لئے کہ اگر اختلاف نہ ہو تو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے۔ وہ اسلام جو قیامت تک ایک آفاقی اور متحرک مذہب ہے، اس کی بنیاد ہی اختلاف پر ہے۔ ائمہ مجتہدین کے زمانے سے پہلے صحابہ کرام کا اختلاف اس کی واضح دلیل ہے۔


اختلاف کن مسائل میں ہوتا ہے ؟


ظاہر بات ہے کہ اختلاف اسی مسئلے میں ہوگا جو قرآن میں محکم اور مفسر نہیں، کیونکہ ظاہر میں اختلاف ہوسکتا ہے، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حدیث متواتر میں اختلاف نہیں، مشہور میں اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ تواتر میں بھی اس حیثیت سے اختلاف ہوسکتا ہے کہ وہ تواتر ہے کہ نہیں۔ مثلاً کسی قوم کے نزدیک کوئی بات تواتراً ثابت ہو اور دوسرے کے نزدیک تواتراً ثابت نہ ہو۔ حاصل یہ ہے کہ حدیث متواتر، محکم اور مفسر میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ظاہر میں اور نص میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ان سب کی مثالیں بھی آپ کے سامنے ہیں۔


اصول الشاشی میں پہلی مثال لفظ ’’قروء‘‘ کی آئی ہے۔ اس کا معنی امام اعظم کے نزدیک ’’حیض‘‘ ہے اور امام شافعی کے نزدیک ’’طہر‘‘ ہے۔ یہ سب کومعلوم ہے کہ کوئی حیض، طہر نہیں ہوسکتا اور کوئی طہر، حیض نہیں ہوسکتا، دونوں کے مابین تباین اور تضاد ہے۔ اس کے باوجود دو اماموں نے یہ دو متضاد معنی بیان کئے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں، ان دو میں سے کسی کو کوئی مردود نہیں کہتا۔ اسی اختلاف کو اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے۔


فقہی اختلاف رحمت ہے


اب آپ اس اختلاف کی حکمت دیکھئے : ایک مسئلہ ہمارے پاس آتا ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو پندرہ سال، اٹھارہ سال کی عمر تک یا ایک بچہ پیدا ہونے تک حیض آیا پھر اس کو کسی بیماری کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا۔ اب اگر شوہر طلاق دے دے تو اسے عدت گزارنی ہے اور وہ عورت عدت گزار کر دوسری شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ عدت تین حیض تھی اور حیض اس کو آہی نہیں رہے تو کیا اب وہ زندگی بھر شادی نہیں کرسکتی؟ آپ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اگر فقہی اختلاف نہ ہوتو بسا اوقات دین پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہ جائے گا اور دین اصلاح کے بجائے فساد کا ذریعہ بن جائے گا، اسی لئے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَة۔


آدابِ اختلاف


ان ہی اختلافات کی مثال دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب کسی مسئلے میں دو صحابہ کے درمیان اختلاف ہو جاتا اور وہ آپس میں مباحثے کےلیے بیٹھتے اور اپنے اپنے دلائل پیش کرتے تو دیکھنے والا دیکھتا تو سمجھتا کہ اب زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی ملاپ نہیں ہوگا، زندگی میں ان دونوں کے درمیان کبھی سلام و کلام نہیں ہوگا۔ وہ اپنے اپنے دلائل پیش کرتے، ان میں کسی ایک کی بات دوسرے کو سمجھ میں آجاتی تو قبول کرلیتا، اگر سمجھ میں نہ آتی تو دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے لیکن مجلس سے اٹھنے کے بعد ان دونوں کا انداز یہ ہوتا تھا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ زندگی میں ان دونوں میں کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں۔


اختلاف کے آداب میں سے یہ ایک ضروری ادب ہے کہ جب اختلاف ہو اور بحث کے میدان میں آیا جائے تو جانبین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہیں، جب تک دوسرے کی بات ذہن قبول نہ کرلے، اس سے متفق نہ ہو، لیکن جیسے ہی اس مجلس سے اٹھے تو ایسا محسوس ہوکہ ان دونوں میں کبھی کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کا احترام پہلے کی طرح کریں۔ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے اختلافات اور طریقہ اختلاف سے سبق لینا چاہئے۔


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے بعد تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو لیجئے، خود ائمہ مجتہدین کو دیکھئے، فقہ کی کوئی کتاب نہیں ملے گی جس میں ایک دوسرے کا رد نہ کیا جارہا ہو اور خاص کر ’ہدایہ‘ تو اسی لئے ہی لکھی گئی ہے تاکہ امام شافعی کی دلیل کو رد کیا جائے، امام مالک کی دلیل کو ناقص قرار دیا جائے، حنابلہ کی دلیل میں کمزوری دکھا کر احناف کی دلیل کو ثابت کیا جائے۔ مخالف کی دلیل کو کمزور قرار دے کر اپنے امام کی دلیل کو مضبوط قرار دینے کے ہی مقصد سے یہ کتابیں لکھی گئیں اوریہ مقصد ان کا غلط نہیں تھا۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مقلدیت وجود میں آجائے، اس لئے جو جس امام کی پیروی کررہا ہے، اس امام کی دلیل اس کو سب سے زیادہ مضبوط معلوم ہو تاکہ وہ اسی پر قائم رہے۔ لیکن مقلد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بھی حال میں وہ اپنے امام کا مسلک نہ چھوڑے۔


تبدیلی فتویٰ کی ایک مثال


فتاویٰ رضویہ کتاب الحج میں ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ اس زمانے میں جو قافلے مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ چلتے تھے، ان کا امیر حنبلی یا شافعی ہوتا تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حالت سفر میں عصر کی نماز، ظہر کے وقت میں اور مغرب کی نماز، عشاء کے وقت میں پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ ادا ہی کہلائے گی، قضا نہیں کہلائے گی۔ احناف کے نزدیک عصر کی نماز، ظہر کے وقت میں نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ سبب یعنی وقت نہیں پایا گیا۔ پس اگر سبب نہیں ہے تو مسبب یعنی نماز کا وجود کہاں سے ہوگا؟ اور مغرب کی نماز دانستہ طور پر قضا کردینا ناجائز و حرام ہے اور عشاء کے وقت میں ادا کی گئی مغرب کی نماز قضا کہلائے گی اور بغیر عذر کے ایسا کرنا درست نہیں ہے ۔ قافلہ، امام شافعی کے مذہب کے مطابق ظہر کی نماز کے وقت عصر ادا کرکے روانہ ہوجاتا تھا۔ احناف اپنے مذہب کے مطابق ظہر ہی کے وقت عصر کی نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ پورا قافلہ پچاس افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان میں احناف کسی قافلے میں پانچ، کسی قافلے میں دس اور کسی قافلے میں پندرہ ہوتے تھے۔ گویا قافلے میں غلبہ انہی لوگوں کا ہوتا تھا۔ قافلہ اپنے معمول کے مطابق چلتا رہتا، کہیں رکتا نہیں۔ قافلہ جب بھی رکتا، اپنے منزل پر ہی رکتا۔ چاہے عصر کا وقت ہوجائے یا مغرب کا وقت ہوجائے۔ ظہر کے وقت ہی میں عصر ادا کرکے روانہ ہوتے اور مغرب کی نماز اپنے وقت پر ادا نہیں کرتے بلکہ عشاء کے وقت منزل تک پہنچ کر مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کرتے۔ اس صورت میں وہاں احناف کیا کریں؟


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اس قافلہ میں موجود احناف عصر کی نماز، ظہر کے وقت ہی میں ادا کرلیں اور مغرب کی نماز، عشاء کے وقت میں ادا کریں۔ اب آپ دیکھئے کہ اعلیٰ حضرت ایک طرف تو یہ لکھتے ہیں کہ جب تک وقت نہ ہو نماز ہوگی ہی نہیں اور دوسری طرف یہ فرمارہے ہیں کہ شافعی کی طرح حنفی بھی عصر کی نماز، ظہر کے وقت ہی میں ادا کرلیں ۔ معاملہ کیا تھا ؟ یہ بات آپ پر اس وقت واضح ہوگی جب آپ یہ سمجھیں کہ فقہ مقصدِ شرع کے ادراک کا نام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر مقاصدِ شرع کو سامنے رکھ کر حکم سنایا ہے۔ نماز سے شریعت کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ وقت اصل مقصود نہیں ہے، اصل مقصود ہے اللہ کی عبادت اور اللہ کی بندگی۔ اللہ کی بندگی جو اصل مقصود ہے، اگر ہم عصر کے وقت نہیں کرسکتے تو ظہر کے وقت ہی کرلیں گے۔ مغرب کی نماز اس کے وقت میں ادا نہیں کرسکتے تو عشاء کے وقت میں ہی ادا کرلیں گے۔ اگر قافلہ چھوڑ کر کوئی نماز ادا کرنے لگے تو جان چلی جائے گی، بعض حالات میں مال چلا جائے گا، اسی لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایسا فتویٰ دیا۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ میں اس فتویٰ کے ذریعے ہمارے سامنے یہ واضح فرمادیا کہ مفتی کے لئے مقصدِ شرع کا ادراک بہت ضروری ہے لیکن ہمارے مفتیان کرام اس طرح کے فتوے پڑھتے ہیں اور پھر بغیر سوچے سمجھے نقل کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ حکم مکہ اور مدینہ والوں کے لئے خاص ہے، جیسے عرفہ اور مزدلفہ کے لئے حکم خاص ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ عرفہ اور مزدلفہ کے حکم کی تخصیص اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی لیکن جب تک اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ اور مدینے میں رہے تو مدینہ اور مکہ والوں کے لئے یہ تخفیف و تخصیص نہیں فرمائی۔ صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے فتاویٰ ’’فتاویٰ امجدیہ‘‘ میں ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت یہ حکم مکہ و مدینہ والوں کے لئے خاص ہے یا آج بھی ایسا ہوسکتا ہے اور کہیں بھی ہوسکتا ہے؟ صدر الشریعہ فرماتے ہیں: وہی حالات ہوں تو کہیں بھی اور آج بھی ہوسکتا ہے۔


حق کو تسلیم کرنا چاہئے


آپ کے ذہن میں ایک سوال ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ حق آنے کے بات بھی ہم میں سے بعض افراد قبول حق کے بجائے حق سے فرار کی راہ ڈھونڈتے ہیں؟ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دانستہ ہم کوئی مسئلہ بتاچکے ہوتے ہیں، کوئی رائے قائم کرچکے ہوتے ہیں، اب اس کو نبھانے کے لئے، اس کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹی سچی تعبیر میں الجھ جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اتفاقاً ہماری زبان سے کوئی بات نکل گئی اور وہ واقعہ کے مطابق نہیں ہے، شریعت کے مطابق نہیں ہے تو ہمیں تسلیم کرلینے میں عار کیوں محسوس ہوتا ہے؟ ہم جو تسلیم کررہے ہیں، وہ ہماری اپنی بات نہیں ہے، وہ تو اللہ و رسول کی بات ہے۔ مثلاً آپ سے ہمیں کوئی اختلاف ہوا، آپ کی بات مضبوط دلیل سے ثابت ہوگئی ، اب اگر ہم اس کو تسلیم نہ کریں تو ہم آپ کی بات سے انکار نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم تو شریعت کی بات کا انکار کر رہے ہیں اور اگر ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں تو گویا شریعت ہی کی بات مانتے ہیں اور شریعت کے سامنے سر جھکانا ہی چاہئے اور ہمیں ہمہ وقت شریعت کا پابند ہونا چاہئے ۔ یہ ہمارے ایمان کی علامت ہے ۔ ہمارے لئے راہ نجات اور باعث سعادت ہے کہ شریعت کے سامنے اپنا سر جھکائے رکھیں ۔


تقلیدِ امام اور احترامِ ائمہ


یہ ایک مستقل بحث ہے کہ ہم پر تقلید کیوں واجب ہے؟ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تقلید ہم پر واجب ہے۔ ہم امام اعظم کے مسلک کو اپنے حق میں اپنانا واجب سمجھتے ہیں مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اگر عدت کے لئے ’طہر‘ کو شمار کرنے کے لئے کہا ہے اور امام اعظم نے ’’حیض‘‘ کو عدت قرار دیا ہے تو ہم اپنے مذہب کو حق سمجھیں اور طہر کو عدت قرار دینا باطل سمجھیں۔ ایسا نہیں ہے، وہ باطل نہیں ہے، اگر باطل ہوتا تو رحمت کیسے ہوتا؟ وہ بھی حق پر ہیں، ہم بھی حق پر ہیں۔ مگر ہمارے لئے یہ حق ہے، ان کے لئے وہ حق ہے۔


ہاں، ایک ہی شخص کے حق میں ایک چیز جائز بھی ہو اور ناجائز بھی ہو، یہ نہیں ہوسکتا۔ حنفی کے حق میں ایک چیز جائز ہے اور وہی چیز شافعی کے حق میں فرض ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ شخص مذہب امام اعظم کو ہی صحیح قرار دے رہا ہے اور امام شافعی کو غلط کہہ رہا ہے۔ ہاں! جہاں ضرورت پڑ جائے اور مقصود شرع کے مطابق مذہب شافعی ہی موافق ہو تو وہاں امام اعظم کے مسلک کے بجائے امام شافعی ہی کے مسلک کے مطابق فتویٰ دینا صحیح اور جائز ہوگا جیسا کہ وہاں عصر کی نماز یہ کہہ کر ترک کردینا کہ امام اعظم کے مسلک کے مطابق عصر کی نماز ہوگی ہی نہیں، کیونکہ وقت جو سبب ہے وہ پایا ہی نہیں گیا، لہذا ہم عصر کی نماز ادا نہیں کریں گے، یہ حماقت ہے۔ اس وقت امام شافعی کے مسلک پر عمل کرلینا ہی مقصدِ شریعت کا ادراک ہے۔ اسی لئے اعلیٰ حضرت فافضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کا حکم دیا ہے جو اپنے زمانے کے بہت بڑے فقیہ تھے۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے خلفاء کا اختلاف


اختلافات کے حدود و آداب اجمالاً آپ کے سامنے آگئے ۔ اب آیئے میں بہت نیچے آجاٶں ، وہاں آجاٶں جہاں کسی کے لئے مجال دم زن نہ ہو۔ حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف ’’بہار شریعت‘‘ کے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور وہ ان کے خلیفہ بھی ہیں ۔ اسی طرح حضرت صدر الافاضل رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا برہان الحق جبل پوری بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے، مذکورہ تینوں حضرات کی ایک ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔


1۔ عورتوں کی زیارتِ قبور کا مسئلہ

حدیث پاک کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا اس سلسلے میں فقہائے متقدمین کے درمیان اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کو مطلق رکھا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے فرمایا : نہیں، صرف مردوں کے لئے اجازت ہے، عورتوں کےلیے اجازت نہیں۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا مسلک اس طرح ظاہر کیا ہے : حرام، حرام حرام، یہ نہ پوچھ کہ جانے میں کیا ثواب ہے، یہ پوچھ کہ جب وہ مزار کی زیارت کے ارادے سے گھر سے قدم نکالتی ہے تو اسی وقت سے اللہ اور اس کے رسول اور اس کے فرشتے کی لعنت شروع ہوتی ہے ، جب تک کہ واپس پھر اپنے گھر میں قدم نہ رکھے۔


حضرت برہانِ ملت مولانا برہان الحق جبل پوری رحمة اللہ علیہ نے ایک بہت مفصل فتویٰ رسالے کی شکل میں لکھا کہ ’’عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے‘‘ اور اس رسالے کو اصلاح کےلیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ میں نے وہ رسالہ تو نہیں دیکھا لیکن اعلیٰ حضرت کی تحریر دیکھی جس میں اس کا تذکرہ ہے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ برہان میاں نے عورتوں کے مزارات پر جانے کے تعلق سے جو اپنا رسالہ لکھا اور مجھے اصلاح کے لئے بھیجا، ایک مدت تک تو موقع مل ہی نہیں سکا کہ دیکھتا، بعد میں دیکھا، جہاں استدلال میں کوئی کمی تھی، اس کی تصحیح کردی۔


عورتوں کے مزارات پر جانے کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جو خود حرام لکھتے اور سمجھتے ہیں، اس کے خلاف لکھنے والے کی اصلاح و تصحیح فرمائی اور اضافہ و تکمیل اور تصدیق بھی فرمائی، مگر اس کے بعد اپنا مسلک ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مگر بحال زمانہ میں اسے ناجائز و حرام سمجھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فی نفسہ جائز تھا۔ مگر اس زمانہ میں مقصد شرع کے خلاف ہورہا تھا، اس لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ناجائز قرار دیا لیکن چونکہ فی نفسہ جائز تھا، اسی لئے ڈانٹنے اور توبہ کرانے کے بجائے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس رسالہ کی تکمیل فرمائی۔ حالانکہ مولانا برہان الحق، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو انہیں ڈانٹ سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔


2۔ قنوت نازلہ کب پڑھی جائے؟


حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی عقیدت تھی، اس کو میں نے خود مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے سنا اور کچھ لوگوں نے لکھا بھی ہے کہ انہوں نے جب فتاویٰ رضویہ (جلد اول) کا مطالعہ کیا تو بریلی آئے اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضور ! میں ایک طرف ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ دیکھ رہا ہوں اور ایک طرف ’’شامی‘‘، تو ایسا لگتا ہے کہ ’’شامی‘‘ کسی طفل مکتب کی لکھی ہوئی ہے اور فتاویٰ رضویہ ایک حکیم عالم کی لکھی ہوئی ہے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مولانا! ایسا نہیں ہے ۔ اس فقیر نے بائیس مرتبہ ’’شامی‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے تب آج یہ حال ہے ۔


اس طرح کی بات اگر آج کسی کے بارے میں کہہ دی جائے تو سننے والے بہت خوش ہوں گے کہ اس نے ’’شامی‘‘ سے مجھ کو بڑھا دیا ۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی حادثہ فاجعہ ہو تو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی جائے گی ۔ جب کہ یہ امام شافعی کا مسلک ہے۔ ہمارے یہاں ہمیشہ کے لئے نہیں ہے، صرف حادثہ فاجعہ ہو تو صحیح اور جائز ہے لیکن کب پڑھی جائے ؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : رکوع سے پہلے جیسے وتر میں پڑھی جاتی ہے، ویسے ہی پڑھی جائے گی۔ مگر صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے رکوع کے بعد پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے ۔ اب بتایئے کس کو آپ برا کہیں گے ؟ کس سے توبہ کا مطالبہ کریں گے ؟ اعلیٰ حضرت سے یا صدرالافاضل سے ؟ جیسے آداب یہاں ملحوظ رکھے جائیں گے ، وہی آداب آئندہ بھی اور آج بھی ملحوظ رہنا چاہئے ۔


3۔ دعائے قنوت کی جگہ سورہ فاتحہ


صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کے مطالعے سے دو مسئلے ایسے نکلے جہاں صدرالشریعہ نے اعلیٰ حضرت سے اختلاف کیا۔ ایک مسئلے میں اختلاف تو بڑا دلچسپ ہے۔ اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ کسی کو دعا قنوت یاد نہ ہو اور وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے، اس کی جگہ اس نے کوئی اور دعا نہیں پڑھی، سورہ فاتحہ پڑھ لی تو واجب ادا ہوا یا نہیں؟ اگر واجب ادا ہوگیا تو نماز ہوگئی اور اگر نہیں ہوا تو نماز لوٹانی چاہئے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ واجب ادا ہوگیا، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ فتاویٰ امجدیہ میں اس مسئلے کے بارے میں صدرالشریعہ سے سوال ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ واجب ادا نہیں ہوا، نماز لوٹانی ہوگی۔ مگر ہمارے علما نہ تو صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو برا بھلا کہتے ہیں ۔


4۔ نمازِ چاشت کے لئے تیمم ؟


جب حضرت صدرالشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہار شریعت لکھی تو اس کے ابتدائی حصے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میںپیش کئے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی اصلاح فرمائی اور بہار شریعت لکھنے پر صدرالشریعہ کو دعائیں دیں اور القاب سے نوازا۔ صدرالشریعہ کے بقول جہاں کہیں بھی صدرالشریعہ سے مفتیٰ بہ قول نقل کرنے میں چوک ہوئی، وہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے قلم زد فرمایا اور جو مفتیٰ بہ قول تھا اس کی طرف رہنمائی فرمائی ۔


اسی بہار شریعت میں چاشت کی نماز ، چاند گرہن کی نماز یا اس طرح کی دوسری نمازوں کے بارے میں مذکور ہے کہ اگر کسی کو یہ لگے کہ وہ جب تک وضو بنائے گا تب تک ان کا وقت ختم ہوجائے گا اور مکروہ وقت شروع ہوجائے گا، ایسے شخص کو چاہئے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے، کیونکہ چاشت کی نماز ، سورج گرہن کی نماز اور چاند گرہن کی نماز فوت ہوجائے گی ۔ اس لئے اس کے حق میں یہ تیمم کےلیے عذر ہے ، اسے چاہئے کہ تیمم کر کے ان نمازوں کو ادا کرلے ۔


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جنہوں نے بہار شریعت (تیسرا حصہ) ملاحظہ فرمایا اور صدرالشریعہ کی تعریف و توصیف کرکے اس پر تقریظ بھی لکھی لیکن وہ خود فتاویٰ رضویہ میں اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ ان نمازوں کے لئے تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔ خود تو ناجائز لکھ رہے ہیں، صدر الشریعہ کے جائز کہنے پر ان کی تصدیق بھی فرمارہے ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ کیونکہ اعلیٰ حضرت جانتے تھے کہ یہ فقہی فروعی مسئلہ ہے، اس میں جواز کی بھی گنجائش ہے اور عدم جواز کی بھی گنجائش ہے۔ ہمارے نزدیک قرائن کے اعتبار سے عدم جواز کو ترجیح حاصل ہورہی ہے، اسی لئے ہم نے عدم جواز کا حکم دیا ہے ۔ صدر الشریعہ کا موقف بھی صحیح ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرائن کی روشنی میں جواز کا پہلو راجح ہے ۔


آج فقہی اختلاف پر ناراضگی کیوں ؟


میرے محترم  بھائیو ! اگر صدرالشریعہ رحمة اللہ علیہ اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اختلاف کریں تو جائز ہے ، کیونکہ مسئلہ فروعی ہے ، جس میں اختلاف جائز ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے کسی کو برا بھلا نہیں کہا جائے گا ، کسی کو جاہل نہیں کہا جائے گا ، کسی کو گمراہ نہیں کہا جائے گا تو آج اگر کوئی آپ سے اختلاف کرے تو آپ اس کے پیچھے کیوں پڑجاتے ہیں کہ توبہ کرو ؟ تمہاری اقتدا میں نماز نہیں ہوگی ، ایسا نہیں ، ویسا نہیں ۔ کیا فروعی مسائل میں اختلاف کا دروازہ بند ہو گیا ہے ؟ یہ نبوت تو نہیں ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے ۔ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے ، ہاں ! واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کی جو شرائط ہیں ، وہ شرائط نہیں پائی جارہی ہیں ، اسی لئے کوئی مجتہد مطلق نہیں ہو پا رہا ہے ۔ یہ نہیں کہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ ہونا تو شرعاً ممکن ہے ، میرے بھائی! جب اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے تو تحقیق کا دروازہ کیوں بند کردیتے ہو ؟


معلوم ہوا کہ فقہی فروعی مسائل میں اختلاف کی آزادی ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا تھا جب تک میری بات تمہاری سمجھ میں نہ آجائے اور جب تک تمہیں ان کی دلیل معلوم نہ ہوجائے ، دل مطمئن نہ ہوجائے اس وقت تک میرے فتوے پر نہیں بلکہ اپنے اجتہاد پر عمل کرو ۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جانیں کہ شریعت کا کسی مسئلے میں مقصد کیا ہے؟ جب تک مقصد نہیں جانیں گے ، اس وقت تک اختلاف کی حقیقت واضح نہیں ہوگی اور اس وقت تک اختلاف کرنا روا بھی نہیں ہوگا ۔ اختلاف روا جب ہی ہوگا جب مقصد آپ کے سامنے ہو کہ شریعت ہم سے کیا چاہ رہی ہے اور ہمارے اختلاف سے اس مقصد کی تکمیل ہورہی ہے یا مقصد کی تکمیل نہیں ہورہی ہے ؟ تکمیل ہورہی ہے تو اختلاف رحمت ہے اور اگر تکمیل نہیں ہورہی ہے تو اختلاف ناروا ہے ۔ جو ہم رتبہ نہیں ہیں ، ان کے لئے اپنے سے بڑے رتبہ والے کی اتباع لازم ہے ، لیکن جو ہم رتبہ ہیں ، ان کا آپس میں اختلاف کرنا جائز ہے ، اختلاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، مگر یہ اختلاف اس طرح ہونا چاہئے جس کا ذکر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا کہ جب دو صحابی رضی اللہ عنہما بحث کرتے تھے تو لگتا تھا کہ دونوں جانی دشمن ہیں ، کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے لیکن جب ملتے تھے تو لگتا تھا کہ کبھی ان دونوں میں کوئی اختلاف ہوا ہی نہیں ہے اور نہ آئندہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ہی بزرگانِ دین کی روش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ بھائی بھائی

 حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ بھائی بھائی امام جعفر صادق نے یہ بات بتائی (رضی اللہ عنہم)


محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے رافضیوں اور تفضیلی رافضیوں نے پوسٹ بنائی کہ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا دشمن کہتے تھے جبکہ انہیں رافضیوں شیعوں اور تفضیلی رافضیوں کا معروف مجتہد و معتبر عالم عبد اللہ بن جعفر الحمیری اپنی معتبر کتاب قرب الاسناد میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے : عن جعفر عن أبيه أن عليا ( عليه السلام ) كان يقول لاهل حربه : إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم ولم نقاتلهم على التكفير لنا ولكنا رأينا أنا على حق ورأوا أنهم على حق ۔

ترجمہ : امام جعفر اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدِمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم انہیں کافر قرار دے کر جنگ نہیں لڑ رہے اور نہ ہی اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ ہمیں کافر قرار دیتے ہیں بلکہ ہمارے خیال کے مطابق ہم حق پر ہیں اور اُن کے خیال کے مطابق وہ حق پر ہیں ۔ (قرب الاسناد، باب، احادیث متفرقه، صفحہ نمبر 93 رقم 313 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت)


جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلي الشرك ولا إلي النفاق، ولكنّه كان يقول : هم إخواننا بغوا علينا ۔

ترجمہ : امام جعفر صادق اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے مدمقابل (معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی ۔ (قرب الاسناد باب احادیث متفرقه صفحہ نمبر 94 رقم 318 مطبوعہ مؤسسة آلِ بیت احیاء التراث بیروت،چشتی)


خیال رہے کہ اس حدیث کی سند میں حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام باقر اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔ جن کو شیعہ آئمہ معصومین کہتے ہیں اور شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امامِ معصوم ، رسول الله کے برابر ہوتا ہے : چنانچہ شیعہ محدث ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی لکھتا ہے : الآئمة بمنزلة رسول الله ۔ امام رسول اللہ کے برابر ہوتا ہے ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب الحجة، صفحہ270 ، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران،چشتی)


شیعہ عالم یعقوب الکلینی آئمہ کے بارے مزید لکھتا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام کہتے ہیں : نحن لسان الله و نحن وجه الله و نحن عین الله فی خلقه ۔

ترجمہ : ہم (آئمہ معصوم) الله کی مخلوق میں ، الله کی زبان ، الله کا چہرہ اور الله کی آنکھ ہیں ۔ (الاصول من الکافي، جلد2، کتاب التوحید، صفحہ145، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ، مرتضٰی آخوندی، بازار سلطانی تہران)


شیعہ مذھب کا خاتم المحدثین ملّا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ : پس خدا رسول اور اسکے بعد اھلبیت ہی جملہ ماسویٰ الله پر متصرف و غالب حاکم و بادشاہ اور ھادی و حافظ ہیں اور وہ اس لئے کہ معیارِ ولایت ان کو حاصل ہے باقی انبیاء اور ملائکہ یہ منصب نہیں رکھتے تو غیرِ معصوم جماعت کیونکر اس عہدے (معصومیت) کو لے سکتی ہے ؟ ۔ (جلاءالعیون، جلد 2، صفحہ29، مطبوعہ شیعہ بک ایجنسی انصاف پریس لاھور،چشتی)


محترم قارئینِ کرام : آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیعہ مجتہدین نے لکھا کہ آئمہ اھلبیت معصوم ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ علیہ السّلام کے درجہ کے برابر ہوتے ہیں اور الله کی زبان آنکھ ہوتے ہیں اور انبیاء و ملائکہ سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ تو یہی امام مولا علی رضی اللہ عنہ فرما رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے مخلص ساتھی ، مشرک و منافق نہیں ہیں بلکہ ہمارے بھائی ہیں ۔ جن کو مولا علی مخلص مومن اور اپنا بھائی کہیں ہم ان کو مخلص مؤمن اور مولا رضی اللہ عنہ کا بھائی کیوں نہ کہیں ؟ ۔ حُبِ علی رضی اللہ عنہ کا یہی تقاضہ ہے کہ قولِ علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی جائے ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ مولا علی رضی اللہ عنہ سے محبت بھی ہو اور ان کی بات بھی نہ مانی جائے ۔


مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرمائیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرا بھائی ہے اور مولا علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعوے دار کہے کہ نہیں یا علی سرکار آپ رضی اللہ عنہ سے غلطی ہو گئ معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کا دشمن ہے ۔ (معاذالله)


تو بتاؤ رافضیو اور تفضیلیو ہم مولا علی رضی اللہ عنہ کی مانیں یا تمہاری مانیں ؟


ہم تو علی رضی اللہ عنہ والے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کی مانیں گے ۔


باقی اگر کوئی شیعہ اس روایت سے انکار کرے گا تو خود اپنی نظر میں بھی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا کیونکہ وہ اپنے امامِ معصوم علی علیہ السّلام کے قول کو ٹھکرائے گا ۔


تو ہم مولا علی کی بولی بولیں گے کہ علی معاویہ بھائی بھائی رضی اللہ عنہما


خود کو سنی کہنے والے تفضیلی رافضی بھی سن لیں مولا علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان اہلسنّت کے عظیم محدّث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دادا استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے :


فرمان ِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں


حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :


جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں ۔


پوچھنے والے نے کہا : کیا وہ منافق ہیں ؟


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔


پوچھنے والے نے کہا : پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟


جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اخواننا بغواعلینا ، وہ لوگ ہمارے بھائی ہیں ، انہوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 1013 عربی) ،(مصنف ابی شیبہ مترجم اردو جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 734 مکتبہ رحمانیہ لاہور)


حُبِّ مولا علی کی آڑ میں امیر معاویہ (رضی اللہ عنہما) کی توہین کرنے والوں کے نام


محترم قارئینِ کرام : حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کو حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ سے افضل یا برابر جانتے ہیں ہرگز نہیں ، اللہ عزوجل مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی فداہ روحی کرم اللہ تعالی وجھہ کے صدقے ہمارے ایمان و سنیت کی حفاظت فرمائے فتنوں سے محفوظ فرمائے آمین ۔


کتب عقائد اہلسنت میں اس بات کی دو ٹوک صراحت ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا ۔ اس معاملے میں ہمارا وہی عقیدہ ہے جو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ : امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تو ان کا درجہ ان سب (عشرہ مبشرہ وغیرہ) کے بعد ہے ۔ اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شان منیع (عظمت ومنزلت) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار (ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا) صبا رفتار ( ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو، تیز گام ) تھک رہیں اور قطع (مسافت) نہ کرسکیں ۔ مگر فضل صحبت (و شرف صحابیت وفضل) و شرف سعادت خدائی دین ہے ۔ ( جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 29، صفحہ 370، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ حضرت مولا علی مشکل کُشا شیر خُدا خیبر شکن رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کے درمیان بجلی کی رفتار کا گھوڑا ہزروں سال دوڑتا رہے دوڑتا رہے تو بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ـ کیونکہ اس دور میں رافضی لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام لیکر تبرا و بکواسات کرتے ہیں تو ہم پر بھی لازم ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا تخصیص کیساتھ دفاع کریں بلکہ جس صحابی کی بھی ناموس پر حملہ ہو اسی صحابی کی تخیصیص کیساتھ شان و عظمت بیان کی جائے ۔ ان کے مقام ومرتبہ میں فرق وہی جس کو اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انداز میں بیان فرمایا کہ :


فرق مراتب بے شمار

اور حق بدست حیدر کرار


مگر معاویہ بھی ہمارے سردار

طعن ان پر بھی کار فجار


جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اہلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ۔ صحابہ کا آپسی اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والے اختلاف میں زبان بند رکھی جائے ۔ اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں ۔ ناکہ جیسا کہ بعض جاہلوں نے سمجھ لیا کہ فضائل کے بارے میں کف لسان کیا جائے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے آئمہ اہلسنّت علیہم الرّحمہ کیا فرماتے ہیں آٸیے پڑھتے ہیں :


اما م اہلسنت ابو الحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324ھجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل واجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626،چشتی)


قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کرے ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ‘ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)


حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 561ھجری) فرماتے ہیں : اہل سنت صحابہ علیہم الرضوان کے آپس کے معاملات میں کف لسان ، ان کی خطاؤں کے بیان سے رکنے اور ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنے پر اور جو معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرات طلحہ وعائشہ ومعاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مابین اختلاف ہوا اس کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے پر متفق ہیں جیسا کہ ہم ماقبل میں بیان کرچکے ہیں اور ان میں ہر فضل والے کو اس کا فضل دینے پر متفق ہیں ۔ (الغنية لطالبي طريق الحق عز وجل صفحہ نمبر 163)


کفِ لسان کے فریب کا جواب


کفَ لسان کا حکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے نہ کہ فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام علیھم الرضوان سے لے کرآج تک کوئی بھی آپ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین اور علمائے ربانیین علیہم الرّحمہ نے آپ کے فضائل بیان کیئے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔


ادارہ منہاج القرآن کے عظیم مفتی جناب مفتی عبد القیوم خان قادری صاحب لکھتے : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے جلیل القدر صحابی ، کاتب وحی اور اس امت کے ماموں ہیں ان کی شان میں کوئی مسلمان گستاخی نہیں کر سکتا ناصبی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اور رافضی حضرت امیر معاویہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں دونوں غلط ہیں ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ،چشتی)


وہ کون سا سُنی ہے جو حضرت سیدنا مولا علی کرّم اللہ وجھہ الکریم کے مقام رفیع سے آگاہ نہ ہو ……….. ، بات صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ سنیوں کو مولا علی پاک علیہ السّلام کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں ، جیسے کہ بعض لوگ اپنے دھرنے میں امام حسین علیہ السّلام اور یزید ملعون کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرتے رہے ۔ ان کا مقصد صرف ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روکنا اور صحاح کی اس حدیث : لاتذکروا معاویۃ الا بخیر ” کی مخالفت کرنا ہے ؛ چاہے انہیں کرنا پڑے ۔


معترضین سے گزارش ہے کہ امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسالیب البدیعہ پڑھیں ، تاکہ ان کا زاویہ نظر درست ہوسکے ، اور یہ جان سکیں کہ علمائے امت نے صرف تکفیر و تفسیق سے ہی منع نہیں کیا ، کچھ اور بھی کہا ہے ۔


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں کہ : صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذکر پر جس کی پیشانی پر بَل پڑ جائیں تو یہ بھٹکے ہو ئے لوگوں کی پہچان ہے جو راہ اعتدال چھوڑ چکے ہیں ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 263 ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری شیخ الاسلام منہاج القرآن،چشتی)


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید بیان فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کفر منسوب کرنے والا ان کو گالی دینے والا اشارہ یا کنایہ سےتو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 270)


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید بیان فرماتے ہیں کہ : فرمان حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہوشیار میرے حق میں دو گروہ ہلاک ہونگے ایک محبت میں میرا مرتبہ بڑھانے والے دوسرے بغض رکھنے والے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 262)


جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب مزید بیان فرماتے ہیں کہ : ہمارا مطالبہ ہے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور گستاخِ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پھانسی دی جائے ایسے شیطان کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 271)


جنابِ من جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے بیانات کی روشنی میں ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں کیا فرماتے ہیں آپ حضرات ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




حضرت امیر معاویہ حضرت علی اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں

 حضرت امیر معاویہ حضرت علی اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں

محترم قارئینِ کرام : آج کے اس مضمون میں اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آڑ لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرنے والوں کو اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے اقوال کی روشنی میں جواب دیا جا رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ لوگ گستاخیوں سے باز آجائیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطاء فرمائے آمین ۔ فقیر نے کوشش کی ہے کہ اخلاق کا دامن کہیں نہ چھوٹے پھر بھی اہل علم اگر کہیں غلطی پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں ۔


امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی مولا رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کے تاثرات ذکر کرنے سے پہلے ذرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں : اللہم اجعلہ ھادیا مہدیا و اہدبہ'' یعنی اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت پانے والا بنادے اور معاویہ کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔ (ترمذی،جلد:2ص: 225)(اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج ہم پیش کر چکے ہیں)


ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اے اللہ ! معاویہ کو قرآن اور حساب کا علم عطا فرمااور اسے عذاب سے نجات دے ۔ (البدایہ، جلد:8، ص:140، کنزل العمال، جلد:7ص: 87)


جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151پر درج کیا ہے : ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ ) کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اور ان کانبی ایک ، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے ۔ صرف خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوا اور ہم اس سے بری ہیں ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی ہیں ۔

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا : جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ مشر ک نہیں ہیں ۔

پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ منا فق بھی نہیں ہیں ۔

پوچھنے والے نے کہا : پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟

جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم اخواننا بغواعلینا ۔

ترجمہ : وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد: 4ص: 1013، چشتی)


وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : قَتْلَايَ وَقَتْلَى مُعَاوِيَةَ فِي الْجَنَّةِ ۔

ترجمہ : حضرت مولا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا : کے میری طرف سے قتل ہونے والے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف قتل ہونے والے دونوں جنت میں ہیں ۔ (المعجم الکبیرطبرانی)۔(مجمع الزوائد)


آپ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب اٹھائیں اور پڑھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قتلانا و قتلاہم فی الجنۃ ، ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد:4ص: 1036)


کتنے افسوس کامقام ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو اپنے جیسا ایماندار اورمسلمان اور ان کے مقتولین کو جنتی بتلائیں اور دشمنانِ صحابہ سبائی انہیں کافر اور منافق قرار دیں۔ اب قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات معتبر سمجھی جائے یا سبائی گروہ کی ۔ مولائے کائنات  نے تو واضح فرما دیا کہ ہمارے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقتولین جنتی ہیں ۔  لیکن محبین ماننے کو تیار نہیں ان کی الٹی گنگا  بہہ رہی ہے ، کہ محبت محب کی ہر بات آنکھ بند کر کے  ماننے کا تقاضہ کرتی ہے اور ان کی محبت ان محبین کو مولا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے جھٹلانے پر مجبور کرتی ہے ۔ اللہ ان محبین کو ہدایت عطا فرمائے ۔


اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیئے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ اختلاف کے باوجود ان کا کتنا احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں کس قدر حسنِ ظن رکھتے تھے۔

تاریخِ اسلام کے اوراق میں آپ کو نظر آئے گا کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جنگ جاری ہے ۔ منافقین کی شرارتوں ، خباثتوں اور کارستانیوں کے نتیجے میں گھمسان کا رن پڑ رہا ہے کہ اس دوران قیصر روم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاقے پر قبضہ کرنے کا خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں اور مجھے اس سے زیادہ مناسب موقع پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اس نے سوچا کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اندرونی طور پر سخت مشکل میں ہیں ان کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ٹھنی ہوئی ہے، میرے اس اقدام سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خوش ہوں گے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کے خطرناک اور زہریلے عزائم کی اطلاع ملی تو بے حد پریشان ہوئے۔ کیونکہ بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنا اور دو محاذوں پر جنگ جاری رکھنا ان کے لیے بہت دشوار اور مشکل تھا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس پریشانی اور اضطراب کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی للکار نے دور کردیا۔

قیصرِ روم کے اس ارادے کی اطلاع جب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو وہ بے چین ہوگئے اور اسی وقت ایک خط قیصر روم کے نام تحریر فرمایا جس کے ذریعے انہوں نے قیصر روم کی غلط فہمیوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ دور کیا کہ خط لکھنے کا حق ادا کر دیا۔ خط کیا تھا؟ ایک مؤثر ہتھیار تھا، پر مغز ، مؤثر اور جلال سے بھر پور، رعب و دہشت کا مجسمہ جسے پڑھ کر قیصر روم کے حواس اڑ گئے اور اوسان خطا ہوگئے۔ قیصر روم پر ایسی دہشت اور ایسا رعب طاری ہوا کہ ا س کے قدم جہا ں تھے وہیں رک گئے۔ سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خط کامضمون اور طرز تحریر کس قدر ایمان افروز اور کفر سوز ہے یہ ایک الگ حقیقت ہے ، مگر خط کی ا بتداء میں آپ نے جس تیز و تلخ ، رعب دار اور جلال سے بھر پور لہجے میں قیصر روم کو مخاطب کیا ہے وہ انداز اپنی جگہ ''اشداء علی الکفار '' کی عملی تصویر ہے۔

خط کے آغاز میں تحریر فرمایا : الے لعنتی انسان ! مجھے اپنے اللہ کی قسم ہے اگر تو اپنے ارادے سے باز نہ آیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس پلٹ نہ گیا تو کان کھول کر سن !!!پھر میں اور میرے چچا زاد بھائی تیرے خلاف صلح کرلیں گے۔پھر تجھے تیرے ملک سے نکال دیں گے اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ کردیں گے۔ (البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص:119، چشتی)


حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی ﷲ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا ۔ (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)


حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا : امارات معاویہ رضی ﷲعنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے ۔ ( شرح عقیدہ واسطیہ)


حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے ۔ (البدایہ ج 8 ص 130)


حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کو صاحب فضل کہا ۔ (البدایہ‘ ج 8ص 131)


حضرت ابو امامہ رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے ۔ (الروضہ الندیہ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)


حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے رجوع کیا ۔ ( موطا امام مالک)


حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا ۔ (تاج العروس ص 221)


حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا ۔ (بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ،چشتی)


حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے ۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد: 8ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3ص: 836)


جب سبائیوں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرکے خلافت ان کے سپر د کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا ۔ آپ نیزہ کے زخم کی تکلیف سے کراہ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اللہ کی قسم میں معاویہ کو اپنے لیئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے آپ کو میرا پیروکار کہتے ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا ، میرا خیمہ لوٹا ، میرے مال پر قبضہ کیا ۔ (شیعہ کتب ، جلاء العیون، احتجاج طبرسی، ص:148، چشتی)


زخم مندمل ہوجانے کے فورا بعد امیر المومنین حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلینا ہی بہتر ہے چنانچہ آپ نے ربیع الاول 41 ؁ھ کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی اور یہ صلح ڈر کر یا دب کر نہیں کی بلکہ آپ چاہتے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑ سکتے تھے۔ آپ کے پاس چالیس ہزار فوج مرنے کو تیار تھی مگر آپ نے مسلمانوں کو خونریزی سے بچانے کے لیے اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا صحیح اہل سمجھ کر صلح کی تھی ۔ (الاستیعاب لابن عبد البر جلد: 3ص: 298)


حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ پیشینگوئی پوری ہو گئی جو آپ نے اس وقت فرمائی تھی جب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار بیٹا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا ۔ (بخاری، جلد:1ص: 530)


انصاف آپ خود فرمائیں کہ نصف سلطنت خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی اور باقی نصف بھی حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے صلح کرکے سپر د کردی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کے اہل ، صحابی رسول، صاحبِ سیادت و فراست اور مدبر تھے اور اس وقت ان سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا ۔


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں : حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو سبائیوں نے جو صلح کے مخالف تھے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کوآمادہ کرنا چاہا کہ وہ بیعت ختم کر کے مقابلہ کریں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا: ہم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ، عہد کر لیا ہے، اب ہمارا بیعت توڑنا ممکن نہیں ۔ (شیعہ کتب ۔ اخبار الطوال، ص: 234، رجال کشی، ص: 102)


کتب تاریخ و سیر اس پر گواہ ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں بھائی اکثر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جایا کرتے تھے وہ دونوں کی بہت عزت و تکریم کرتے، محبت و شفقت سے پیش آتے اور اپنے برابر تخت پر بٹھاتے اور ایک ایک دن میں ان کو دو، دو لاکھ درہم عطا کرتے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بدستور ان کی مجلس میں تشریف لے جایا کرتے او روظائف او رعطایا حاصل کرتے۔(البدایہ و النہایہ،جلد: 8ص: 150)


آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حقیقی بھانجی آمنہ بنت میمونہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ اولیٰ تھیں ، اس لحاظ سے حضرت امام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے ۔ (طبری، جلد: 13ص: 19، چشتی)


اسی طرح حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ محترمہ ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں اس لحاظ سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام مومنوں کے ماموں ہوئے ۔


علامہ شہاب خفا جی رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا: ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔؂ ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے۔

(نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان،چشتی)


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ اور امام خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ یہ دونوں امام فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی روفضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121)


جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264)


امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ فرماتے ہیں ۔ (المفوظ، جلد:3ص:71)


حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اختلافی اُمور کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو دائرہ صحابیت سے خارج کرنا ، کافر ، مشرک ثابت کرنا نہ صرف گناہ عظیم بلکہ توہین رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہے اور موجب کفر ہے ۔ (نام و نسب باب نہم صفحہ نمبر 519 حضرت پیر نصیر الدین نصیر رحمۃُ اللہ علیہ)


محترم قارئین کرام : دشمنان صحابہ رضی اللہ عنہم سبائی رافضی ٹولہ نے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہمہ گیر پروپییگنڈہ کیا ہے کہ حقائق خرافات کے انبار میں دب کر رہ گئے ہیں اور مسلمان نسلاً بعد نسل اس شر انگیز پروپیگنڈے سے اس حد تک متاثر ہوتے چلے گئے ہیں کہ مدت سے نہ صرف عامۃ المسلمین بلکہ بہت سے خواص کے احساسات بھی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے عظیم و جلیل القدر اور کاتبِ وحی صحابی کے بارے میں ویسے باقی نہیں رہ گئے جیسے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں عموما پائے جاتے ہیں ۔

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ایسا جذبات انگیز تھا کہ خانوادہ علی رضی سللہ عنہم سے گہری محبت رکھنے والی امتِ مسلمہ کو اس کی آڑ میں بہت آسانی سے غلط خیالات و آراء میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے، حالانکہ جذباتی و خیا لی بلند پروازیوں سے الگ ہو کر ٹھوس حقیقی بنیادوں پر علمی و عقلی گفتگو کی جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن مقدس اسی طرح داغِ طغیان و معصیت سے پاک ہے جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ۔


محترم قارئینِ کرام : چلیے بقول کسے ایک منٹ کے لیئے تسلیم کرلیتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سیاسی خطا ہوئی مگر کیا ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کو چند سیاسی خطائیں اتنا پست و حقیر بنا سکتی ہیں کہ ہم جیسے حقیر و بے بضاعت اور گھٹیا لوگ بھی اس کی بے ادبی پر اتر آئیں ۔ ان کا احترام ہمارے دلوں سے اٹھ جائے اور ہم بلا تکلف انہیں جنگ و تفرقہ کا بانی ، باغی اور منافق کہہ گزریں ۔ کیا ستارہ سیاہ بدلی میں آجائے تو اتنا بے نور ہو جاتا ہے کہ تیل کے چراغ اس پر زبانِ طعن دراز کریں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آسمان دنیا پر چمکنے والے روشن ستارے ہیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ہدایت کا چرغ ہیں ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اگر صحابی ہیں اور یقیناً ہیں اور آخر سانس تک دین اسلام پر ثابت قدم رہے تو ''اصحاب" کے دائرے سے انہیں کون نکال سکتا ہے ؟


ویسے بھی ہمارا اور آپ کا جج بن بیٹھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عدالتِ خیال میں فریقین بنا کر لانا ایسی ناروا جسارت ہے کہ دُرّوں سے ہماری پیٹھ کُھرچ دینی چاہیے ۔ ہمیں کیا حق ہے کہ تقریبا چودہ سو برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعض محترم اصحاب میں سے ایک کو بر سرِ حق اور ایک کو مجرم اور غلط ثابت کرنے بیٹھیں اور تاریخی واقعات کو صحیفۂ آسمانی تصور کرلیں ۔ چاہے ان کی بعض تفصیلات سے قرآن کا توثیق فرمودہ کردارِ صحابہ مجروح ہوتا ہے ۔ ہمیں کچھ بھی حق نہیں سوائے اس کے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے لیئے دلوں میں عقیدت او رحسنِ ظن پر ورش کریں اور ان کے ہر فعل و عمل کی اچھی توجہیہ نکالنے میں کوشاں رہیں ۔


محترم قارئینِ کرام : یقین کیجیے کہ ہماری اس تحریر کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دامنِ صحابیّت سے ان چھینٹوں کو دھویا جائے جو دنیا ناحق اُن پر ڈالتی ہے ۔ ہماری نظر میں صحابیت عظمتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حِصار کا درجہ رکھتی ہے ۔ نبوت کے قصر کی فصیلیں صحابیّت ہی کے رنگ و روغن سے زینت پاتی ہیں ۔ اکرامِ صحابیت کا طلائی حِصار اگر ٹوٹ جائے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آبرو تک ہاتھ پہنچنا آسان ہوجاتا ہے ۔ پس جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں وہ در اصل امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آبرو اور ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر بد دیانتی اور خیانت کا الزام لگا کر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جملہ فتنوں سے ہماری حفاظت فرماۓ آمین ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مولودِ کعبہ حصہ سوم

 مولودِ کعبہ حصہ سوم

محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں سب سے مشہور روایت جو نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ : حلمیہ بنت ابی ذوہیب عبداللہ بن الحارث سعدیہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کے دور خلافت میں ان سے ملنے کے لیے گئیں ـ حجاج نے کہا : آئے حلمیہ ! اللہ تجھے میرے پاس لایا ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے بلاؤں اور تم سے انتقام لوں ، حلمیہ نے کہا: اس سورش و غصہ کا کیا سبب ہے ؟ حجاج نے جواب دیا : میں نے سنا ہے کہ تم علی کو ابوبکر اور عمر رضی عنہم پر فضیلت دیتی ہو ، حلمیہ نے کہا : حجاج ! خدا کی قسم میں اپنے امام کو اکیلی حضرت عمر و ابوبکر پر فضلیت نہیں دیتی ہوں ، ابوبکر و عمر میں کیا لیاقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہم سے ان کا موازنہ کیا جائے ، میں تو اپنے امام کو آدم ، نوح ، ابراہیم ، سلمیان ، موسی اور عیسی پر بھی فضیلت دیتی ہو، حجاج نے برآشفتہ ہو کر کہا میں تجھ سے دل برداشتہ ہوں ، میرے بدن میں آگ لگ گئی ہے ، اگر تو نے اس دعوٰی کو ثابت کردیا تو ٹھیک ورنہ میں تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا ، تاکہ تم دوسروں کے لئے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ، پھر حلمیہ نے ایک ایک کر کے دلائل کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی برتری ثابت کردی ـ یہاں تک کہ جب حجاج نے کہا تو کس دلیل سے علیؓ کو عیسی علیہ السلام پر ترجیح دیتی ہے ؟ حلمیہ نے کہا : اے حجاج سنو ! جب مریم بن عمران بچہ جننے کے قریب ہوئی جب کہ وہ بیت المقدس میں ٹھہری تھی ، حکم الہی آیا کہ بیت المقدس سے باہر نکل جاؤ اور جنگل کی طرف رخ کرو تاکہ بت المقدس تیرے نفاس سے ناپاک نہ ہوجائے ، اور جب حضرت علی کی ماں فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہما وضع حمل کے قریب ہوئیں تو وحی آئی کہ کعبہ میں داخل ہو جاؤ اور میرے گھر کو اس مولود کی پیدائش سے مشرف کر، پھر حلمیہ کہنے لگی اے حجاج اب تم ہی انصاف کروکہ دونوں بچوں میں کون شریف ہو گا ؟ حجاج یہ سن کر راضی ہو گیا اور حلمیہ کا وظیفہ مقرر کر دیا ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ صفحہ 111-113)

اس روایت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ سر تا پا جھوٹ و کذب او بہتان سے لبریز ہے ، اس میں بہت ساری باتیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ، جنکی تفصیل درج ذیل ہے ، کیونکہ : تراجم کی کتب میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ حلمیہ بنت ابی ذویب السعدیہ حجاج بن یوسف کے عہد تک زندہ تھیں اور نہ ہی کہیں کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ـ (سیرت ابن ہشام 1/160)۔(اسد العابہ 76/8،چشتی)

آئینہ مذاہب امامیہ کے مصنف حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : حلیمہ بن ابی ذویب مورخین کے اتفاق رائے سے حجاج بن یوسف کے زمانے تک زندہ نہیں رہی ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113)

اس روایت کو صحیح ماننے سے اہل سنت و جماعت کے اصولوں کی مخالفت لازم آئے گی کیونکہ اس روایت میں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو عمرین یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ، جبکہ اہل سنت و جماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان پھر علی اور ان کے بعد عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔

حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق جو بات اس روایت میں کہی گئی ہے وہ محض بکواس ہے اور تاریخ کے خلاف ہے کسی مؤرخ نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، اس کے برخلاف نص قرآن اس بات پر واضح دلالت کرتی کہ حضرت مریم علیہا السلام درد زہ سے پریشان ہو کر اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ وہ کسی چیز پر تکیہ کریں اور جب اس حالت میں جنگل میں جانا اور کسی کی مدد کے بغیر وضع حمل ہونا دشوار محسوس کیا تو انہوں نےاختیارِ موت کی خواہش کی، جس کی وضاحت قرآن میں اس طرح سے آئی ہے : فَاَجَآءَهَا الۡمَخَاضُ اِلٰى جِذۡعِ النَّخۡلَةِ‌ۚ قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا ۔ (سورۃ نمبر 19 مريم_آیت نمبر 23)

ترجمہ : پھر درد زہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگی اے کاش ! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی ۔

جَاءَ یَجِيْءُ مَجِیْا “ کا معنی ہے آنا اور ” أَجَاءَ یُجِيُ “ (افعال) کا معنی ہے لانا ، مگر اس کے مفہوم میں مجبور کرکے لانا پایا جاتا ہے ۔ (تفسیر زمحشری) ” الْمَخَاضُ “ عورت کو بچے کی پیدائش کے وقت ہونے والا درد ، یعنی درد زِہ۔ ” مَخِضَتِ الْمَرْأَۃُ “ (ع) جب عورت کے ہاں پیدائش کا وقت قریب ہو ۔ یہ ” مَخْضٌ“ سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی شدید حرکت ہے اور یہ نام رکھنے کی وجہ ولادت کے قریب ماں کے پیٹ میں بچے کا شدت سے حرکت کرنا ہے ۔ یعنی درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کر کے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی ، طعنے ملیں گے ، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی ، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا ، کہنے لگیں کہ اے کاش ! میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم علیہا السلام بھی تھی ۔ اور یہ جو بیان کیا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ بن اسد رضی اللہ عنہا کو بھی وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضع حمل کرے ، یہ بلکل جھوٹ ہے ، کیونکہ اسلامی اور غیر اسلامی فرقوں میں سے کوئی بھی فاطمہ بن اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے ، جبکہ یہاں وحی جو لفظ ہے وہ انبیاٰء کےلیے خاص ہے ۔

ایک روایت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف یوں منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ام عمارہ بن عباد الساعدیہ کی طرف سے زہد بنت عجلان الساعدیہ نے مجھے خبردی ، کہا کہ میں ایک دن عرب کی چند عورتوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک ابوطالب غمگین ہو کر آیا ، میں نے کہا : کیا حال ہے ؟ تو ابوطالب نے کہا : فاطمہ بنت اسد دردزہ میں مبتلا ہے اور وقت ہو جانے کے باوجود بچہ پیدا نہیں ہو رہا ، پھر ابوطالب اپنی بیوی فاطمہ کو خانہء کعبہ کے اندر لے آیاـ اور کہا کہ اللہ کے نام پر بیٹھ جاؤ ، بیٹھ گئی اور پھر دردزہ شروع ہو گیا ، اور ایک پاکیزہ بچہ پیدا ہوا جس کا نام ابوطالب نے علی رکھا ـ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی صفحہ 111-113،چشتی)

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت پر جرح کرتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیز دہلوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ صحیح اسلام تاریخ کے خلاف یہ محض بکواس ہے ۔ (آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صفحہ 111-113)

ایک روایت امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا ؟ وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت دردِ زِہ میں مبتلا ہیں ۔ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لیے ۔ اسی اثنا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : چچاجی کیامسئلہ ہے ؟ انہوں نے بتایا : فاطمہ بنت ِاسد دردِ زِہ سے دوچار ہیں ۔ ان کو کعبہ میں لا کر بٹھا دیا گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا نام لے کر بیٹھ جائیے ۔ انہوں نے ایک خوش،صاف ستھرا اور حسین ترین بچہ جنم دیا ۔ ابو طالب نے اس کا نام علی رکھ دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کو اٹھا کر گھر لائے ۔ (مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)

امِ عارہ بنت ِعبادہ سے منسوب ہے کہ : ایک دن میں عرب عورتوں کے پاس تھی کہ ابو طالب مغموم و پریشان تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا : ابوطالب! کیا ہوا؟وہ کہنے لگے : فاطمہ بنت ِاسد اس وقت سخت ۔۔۔۔۔انتہی!

(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي، الرقم : 3)

یہ جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ : اس کا راوی ابو طاہر یحییٰ بن حسن علوی کون ہے ، کوئی پتہ نہیں ۔ محمد بن سعید دارمی کی توثیق درکار ہے ۔ زیدہ بنت قریبہ کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔  ان کی ماں ام العارہ بنت ِعبادہ کون ہے ، معلوم نہیں ۔ پے در پے ’’مجہول‘‘راویوں کی بیان کردہ روایت کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟

حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ : خانہ کعبہ میں سب سے پہلے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ اور بنو ہاشم میں سب سے پہلے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ (أخبار مکّۃ للفاکھي : 198/3، الرقم : 2018)

اس قول کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے ، کیونکہ امام فاکہی کے استاذ ابراہیم بن ابو یوسف کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے ۔ شریعت نے ہمیں ثقہ اور معتبر راویوں کی روایات کا مکلف ٹھہرایا ہے ، نہ کہ مجہول اور غیر معتبر راویوں کے بیان کردہ قصے کہانیوں کا ۔

فقیر کہتا ہے کہ رافضیت کے پیروکار جس قدر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دلائل اتنے ہی بے وقعت اور کمزور ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایک اختراع ہیں ۔ کیونکہ خانہ کعبہ جیسے معزر گھر میں کسی کی بھی ولادت ہو وہ ایک عظیم شہرت کی بات ہے ، مؤرخین اس کا تذکرہ ہرگز ترک نہیں کر سکتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ :

امام سیوطی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ الخلفاء ” میں تقریبا 22 صفحات پر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کو بیان کیا ہے اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی 185/207)

امام ذہبی علیہ الرّحمہ نے اپنی کتاب ” تاریخ اسلام و وفیات الاعلان ”میں تقریبا 32 صفحات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت سے لیکر وفات تک زندگی کے مختلف گوشوں پر بحث کی ہے اور بے شمار خصوصیات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ہے ـ (تاریخ الاسلام للذھبی : 641/652،چشتی)

استعیاب ابن عبدالبر علیہ الرّحمہ نے 40 سے زائد صفحات پر خصائص علی رضی اللہ عنہ کا اور دیگر کامفصل تذکرہ کیا ہے ، لیکن مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ہے ـ (استعیاب 11٫4- 1089 /3)

ان کے علاوہ قابل ذکر و معتبر مؤرخین و محدثین علیہم الرّحمہ میں سے ابن الاثیر نے اپنی کتاب اسد الغابہ 134-100/4 ۔

ابونعیم اصفہانی نے معرفتہ الصحابہ 1970-1986

امام مزی نے تہذیب الکمال 472/20

امام مسلم نے ” باب ” من فضائل علی ابن ابی طالب ” میں ۔

امام المحدثین محمد بن عبداللہ بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے ” باب مناقب علی بن ابی طالب ”میں ۔ حضرت علی کے بے شمار فضائل ذکر کیا ہے ، لیکن کہیں بھی کسی نے مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ۔

اس کے برخلاف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں جس نے بھی قلم اٹھایا تقریبا سبھی لوگوں نے ان کو مولود کعبہ کی بات کی ہے ۔

حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبۃ، ولا يعرف ذلك لغيره. وأما ما روي أن عليا ولد فيها فضعيف عند العلماء ۔

ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور اس قول کے متعلق کہ حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی علما کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے ۔ (السيرة الحلبية۔إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون، أبو الفرج، نور الدين ابن برهان الدين حلبی،چشتی)

وذكر أبو الفرج بن الجوزي في كتابہ «مثير العزم الساكن إلى أشرف الأماكن»: وقول من قال: إن علي بن أبي طالب ولد في جوف الكعبۃليس بصحيح، لم يولد فيها غير حكيم ۔

ترجمہ امام ابن جوزی نے اپنی کتاب مثیر العزم الساکن الی اشرف الاماکن میں اس قول کے بارے کہاکہ حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبے میں ہوئی یہ صحیح نہیں حکیم بن حزام کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال، أبو عبد الله، علاء الدين)

ولد حكيم فى جوف الكعبۃ، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره ۔

ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (تهذيب الأسماء واللغات: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)

أنہ ولد في جوف الكعبہ، قال العلماء : ولا يعرف أحد شاركہ في هذا ۔

ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی ۔ (فوائد مختارة من النووي جمع واختيار: سليمان بن محمد الحميد)

ولم يولد في جوف الكعبۃ سوى حكيم بن حزام ۔

ترجمہ : اور کوئی حکیم بن حزام کے علاوہ کعبے میں پیدا نہیں ہوا ۔ (شرح صحيح الإمام البخاري، شمس الدين محمد بن عمر بن أحمد السفيري الشافعي،چشتی)

أنہ ولد في جوف الكعبۃ، ولا يُعرف هذا لغيره وولد فِي جوف الكعبۃ، ولم يُسمع هَذَا لغيره ۔

ترجمہ : حکیم بن حزام کعبے کے اندر پیدا ہوئے اور یہ بات کسی دوسرے کے متعلق سننے میں نہیں آئی اور نہ کسی کی پہچان ہے ۔ (شرح سنن النسائي المسمى «ذخيرة العقبى في شرح المجتبى،محمد بن علي بن آدم بن موسى الإثيوبي الوَلَّوِي)

اور یہی بات ان محدثین و علماۓ کرام نے بھی لکھی ہے : ⬇

وولد حكيم في جوف الكعبة كما سلف، ولا نعرف من ولد بها غيره وأما ما روي أن علياً ولد في جوفها فلا يصح ۔ (الإعلام بفوائد عمدة الأحكام: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)

بوَكَانَ وُلِدَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃوَلَمْ يَصِحَّ أَنَّ غَيْرَهُ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ ۔ (المجموع شرح المهذب : أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي)

حكيم بن حزام المولود في جوف الكعبۃ، ولا توجد هذه الخصيصۃ إلا لہ ۔ (شرح ألفيۃ العراقي : أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقي،چشتی)

ثُمَّ حَكِيمٌ مُفْرَدٌ بَأَنْ وُلِدْ … بِكَعْبَةٍ وَمَا لِغَيْرِهِ عُهِدْ ۔ (شرح أَلْفِيَّةِ السُّيوطي : الشيخ محمد ابن العلامۃ علي بن آدم ابن موسى الأثيوبي الولوي)

قال الزبير بن بكار كان مولد حكيم في جوف الكعبۃ۔ قال شيخ الإسلام ابن حجر: ولا يعرف ذلك لغيره ۔ (الوسيط في علوم ومصطلح الحديث: محمد بن محمد بن سويلم أبو شُهبة)

قَالَ الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ: كَانَ مَوْلِدُ حَكِيمٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَۃ۔ قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطی،چشتی)

بحَكِيم هَذَا ولد فِي جَوف الْكَعْبَۃ وَلَا يعرف أحد ولد فِيهَا غَيره ۔ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعۃ في الشرح الكبير: ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري)

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ صحیح سند سے مولود کعبہ ہونا صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی للہ عنہ کے لئے ثابت ہے ، جو کہ ام المومنین حضرت سدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے اور حالت کفر میں ہونے کے باوجود شعب بنی ہاشم میں محصوری کے دور میں مسلمانوں کو چوری چھپے غلہ وغیرہ پہنچایا کرتے تھے ۔ امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ان حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی بابت تصریح کی ہے کہ ان کے مناقب میں سے ہے کہ وہ کعبہ میں متولد ہوئے اور بعض علماء کا ماننا ہے کہ ان کی اس فضیلت میں کوئی دوسرا صحابی ان کا شریک نہیں ہے ۔ ان کے حالات میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے طویل عمر پائی جس میں سے ساٹھ سال حالت کفر میں اور ساٹھ سال حالت اسلام میں بسر کئے اور مدینہ میں 53 ہجری میں وفات پائی۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ان کی وفات 60 ہجری کی بتائی ہے ۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے لیکن کبھی مسلمانوں کے مخالف نہ آئے ۔ ابن حجر نے الاصابہ میں ان کے ترجمہ کے تحت لکھا ہے کہ یہ واقعہ فیل سے تیرہ سال قبل پیدا ہوئے اور واقعہ فیل کے وقت سمجھدار تھے ۔ ان کے والد حزام بن خویلد جو کہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے بھائی تھے حرب فجار میں مقتول ہوئے ۔ (اسد الغابہ 58/2) ۔ (تہذیب الکمال 173/7) ۔ (تاریخ اسلام 277/2) ۔ (الاصابہ (رقم : 1800،چشتی) ۔ (تہذیب التہذیب 447/2) ۔ (البدایہ واالنہایہ 68/8) ۔ (الاستعاب 362/1) ۔ (جمہرہ انساب العرب 121)

ان ⬆ تمام کتابوں کے مصنفین نے بھی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے بارے میں مولود کعبہ ہونے کی بات لکھی ہے ۔

الغرض صحیح تاریخی روایات سے صرف حضرت سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جن کا کعبہ میں متولد ہونا ثابت ہے ۔ رہا حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کا مولود کعبہ ہونا تو اس کی تصریح کسی صحیح سند سے ثابت نہیں اور اہل تشیع کے ہاں بھی یہ بات بلا دلیل ہی رائج ہے ۔ یہ سب صرف رافضیت و تفضیلیت کی خامہ فرسائی ہے کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے خصائص چھین کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو دے دیئے جائیں کہ جیسا کہ اسد اللہ جو کہ حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے جن کو جبرائیل علیہ السلام نے یہ لقب دیا تھا اور سیف اللہ جو کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب بھی ہے ، آج کتنے ہی کم علم لوگ ان القابات کا مصداق صرف حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو باور کرواتے ہیں ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اسد اللہ ، ذوالقارِ الہٰی ، حیدرِ کرار اور دلیر ہیں ۔ ہمارے لیے صحیح روایات میں آنے والے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص و فضلیت ان کی منقبت کےلیے کافی ہونے چاہیئں کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ہمارے سروں کے تاج ہیں اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا جز ہے ۔

محترم قارٸینِ کرام :  مذکورہ حقائق و دلاٸل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ بتانا ایک اختراع باطل ہے جس کی کوٸی صحیح سند موجود نہیں ہے ـ اس کی کوئی حقیقت نہیں ، صحیح تاریخ جو ثابت ہے وہ یہی ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ 

حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کہاں ہوئی؟ کچھ تذکرہ ہم سابقہ مضامین میں کر آۓ ہیں ۔ اس میں سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ان کی پیدائش نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جائے پیدائش سے قریب ایک گھاٹی میں ہوئی جو کہ شعب علی رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہے ۔ (الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194)

لہٰذا بے اصل روایتوں کو سہار بنا کر حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو مولودِ کعبہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس سے حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کی ذات عبقری ہے ، اور بے شمار فضائل ، مناقب و کمالات کی مالک ہے اور جھوٹے واقعات و قصص سے بلکل بے نیاز ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں حق و سچ بیان کرنے توفیق عطا فرماۓ اور ہر قسم کے جھوٹ و فتنہ سے محفوظ فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...