Thursday, 30 July 2020

شیعہ روافض کا غلیظ عقیدہ : ابوبکر و عمر کو قبر سے نکال کر جلائیں گے

شیعہ روافض کا غلیظ عقیدہ : ابوبکر و عمر کو قبر سے نکال کر جلائیں گے

محترم قارئینِ کرام : خدا را ایک بار اس مضمون کو غور سے ضرور پڑھیئے گا ۔ نقلِ کفر کفر نہ باشد ۔ فقیر کا مقصد صرف اُن مردہ ضمیروں کو جگانا ہے جو ایسے غیلظ عقائد و نظریات رکھنے والے رافضیوں کی چاپلوسی کرتے ہیں ۔ انہیں اپنے اسٹیجوں پر بلاتے ہیں اُن کے گیت گاتے ہیں اور اُن مجالس و محافل میں جاتے ہیں ۔ اور اِن غلیظ عقائد و نظریات کے پھیلانے کا سبب بنتے اور خاموش رہتے ہیں ۔ خدا را اے مسلمانو جاگو اِس نسلِ ابن سباء یہودی اور اِن کے غلیظ عقائد و نظریات سے خود بھی بچو اور اپنی نسلوں کو بھی بچاؤ آیئے دل پر ہاتھ کر پڑھیں :

امام مہدی (رضی اللہ عنہ) مدینے میں آتے ہی پہلا کام حضرت مهدی (رضی اللہ عنہ) کا یہ ہے کہ ان ہر دو (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کو قبر سے باہر نکالیں گے وہ اپنی اسی صورت پر تروتازہ بدن کے ساتھ باہر نکالے جائیں گے پھر فرمائیں گے کہ : ان کا کفن اتارو، ان کا کفن حلق سے اتارا جائے گا ، ان کو اللہ کی قدرت سے زندہ کریں گے اور تمام مخلوق کو جمع ہونے کا حکم دیں گے پھر ابتداء عالم سے لے کر اخیر عالم تک جتنے ظلم اور کفر ہوئے ہیں ان سب کا گناہ ابوبکر وعمر پر لازم کردیں گے ، اور وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ اگر وہ پہلے دن خلیفہ برحق کا حق غصب نہ کرتے تو یہ گناہ نہ ہوتے ، پھر ان کو درخت پر چڑھانے کا حکم دیں گے اور آگ کو حکم دیں گے کہ زمین سے باہر آئے اور ان کو درخت کے ساتھ جلادے ، اور ہوا کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو اڑا کر دریاؤں میں گرادے ۔ امام ، خدا کے اذن سے انہیں زندہ کریں گے اور ان پر لعنت کریں گے اور وہ اپنے کئے ہوئے گناہوں کا اعتراف کریں گے ، اگر کوئی ایک دانہ کے برابر بھی ان سے محبت کرتا ہو گا وہ وہاں ظاہر ہو جائے گی ، پھر امام علیہ السلام اجازت فرمائیں گے اور جتنے لوگ وہاں موجود ہونگے وہ قصاص لیں گے . پھر امام حکم دیں گے اور زمین سے آگ نکلے گی یہ آگ وہی آگ ہو گی جو حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کے گھر پر جلائی گئی تھی وہ لکڑیاں اور آگ ان کو جلائے گی یہاں تک کہ یہ راکھ میں بدل جائیں گے پھر ہوا کو حکم ہو گا کہ انہیں جدا جدا دریا میں ڈال دو ۔ (حق الیقین جلد دوم صفحہ 34 ،35مترجم اردو مطبوعہ مجلس اسلامی پاکستان)،(حق الیقین ملّا باقر مجلسی صفحہ نمبر ۳۶۱۔۳۶۲، مطبوعہ کتاب فروشي اسلامیہ تہران ایران، ۱۳۵۷ھ۔)،(احتجاج 449، اِعلام الوری 436)،(عیون ج 1، ص 58)،(کمال الدین 253ـ377)،(الهدایة الکبری، 163،چشتی)(مثالب النواصب ، 113)،(ارشاد القلوب ج2، ص 285)(الایقاظ 287)(بحار 252ـ386، بحار ج 3، ص 277ـ276، و ج 36، ص 245، ج 52، ص 379 و 283، ج 53، ص 12ـ4)

کیوں جناب پیرانِ عظام ، سجادہ نسینان ، ذیشان خطیب حضرات ، مفتیانِ کرام و نقیب حضرات یہ کفر نہیں ہے ؟ یہ گستاخی نہیں ہے ؟

یہاں آپ کے قلم ، لب ، فتوے ، تقوے ، گھن گرج غریتِ ایمانی سب خاموش کیوں ؟

اس طرح کے عقائد رکھنے والوں کے خلاف آج تک کتنے مفتیوں نے ویڈیو بنا کر اپلوڈ کی ہیں اور کتنے مفتیوں کے فتوے جاری ہوئے ہیں ؟

اور کتنے پیروں کو اس پر درد ہوا تکلیف ہوئی اور انہوں نے ان گستاخیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور احتجاجی جلسے جلوس کیئے ؟

آخر ان مفتیوں اور پیروں اس طرح کے شیعوں کے غلیظ عقائد پر سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے کہاں ہیں مفتیانِ کرام ؟

کہاں ہیں پیرانِ عظام ؟

کہاں ہیں نقیبانِ محافل ؟

کہاں ہیں ذیشان خطیب حضرات ؟

یہاں آپ کی غیرتِ ایمانی کہاں دفن ہو گئی ؟

توہین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شرعی حکم

محترم قارئین کرام : جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے ۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں ، خواہ آل و اولاد ہو ، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں ، لہٰذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو ۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں ، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں ۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں ۔ (بحوالہ مہر منیر ، مکتوبات مجدد الف ثانی ، الیواقیت والجواہر ، فتاویٰ رضویہ و دیگر کتب اہلسنت)

امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص اصحاب رسول پر غضبناک ہوا وہ کافر ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان پر کافر غضبناک ہوتے ہیں ۔ (شرح شفاء للعلی قاری جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 98)

صدرُ الشریعہ علامہ امجد علی قادری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی وگمراہی اور استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ بغض ہے ۔ ایسا شخص رافضی ہے اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سنی کہے ۔ مثلاً حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابوسفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہند ۔ اسی طرح حضرت سیدنا عمرو بن عاص و حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابوموسیٰ اشعری ث حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہم جنہوں نے قبل اسلام حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور بعد اسلام اخبثُ الناس خبیث مسیلمہ کذاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا ۔ ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تبرا ہے اور اس کا قائل رافضی ۔ یہ اگرچہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی توہین کی مثل نہیں ہو سکتی کہ ان کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے ۔ (بہارِ شریعت حصہ ۱:۷۷،چشتی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ، ان حضرات کا ایک ایک عمل احد پہاڑ کے برابر ثواب رکھتا ہے، انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے اعلی وارفع مقام انہی حضرات قدسی صفات کا ہے ، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم وتکریم امت پر فرض اور ان کی شان میں بدگوئی کرنا حرام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق نامناسب کلمات کہنے سے منع فرمایاہے اور بدکلامی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ اللہ سے ڈریں ، اللہ تعالی ان کی سخت گرفت فرمائے گا چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے :
عن عبداللہ بن مغفل قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لاتتخذوہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اٰذاہم فقد اٰذانی ومن اٰذنی فقداٰذی اللہ ومن اٰذی اللہ یوشک ان یأخذہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں بدگوئی کا نشانہ مت بناؤ ،پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کے باعث ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہنچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی ، ابواب المناقب ، حدیث نمبر:3797)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی اور ان کے حق میں بدکلامی موجب لعنت ہے جیسا کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی معجم کبیر میں حدیث پاک ہے : عن ابن عباس: قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: من سب أصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس أجمعین ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جو میرے صحابہ کے بارے میں بدگوئی کرے اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، باب العین، حدیث نمبر:12709،چشتی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں بے ادبی کرنے والا‘بد گوئی کرنے والا بروز محشر بھی ملعون ہوگا ، کنز العمال میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کل الناس یرجو النجاۃ یوم القیامۃ إلا من سب أصحابی فإن أہل الموقف یلعنونہم .
ترجمہ : سارے لوگ قیامت کے دن نجات کی امید رکھینگے لیکن وہ بدگو شخص نہیں ‘ جس نے میرے صحابہ کو برا کہا ، اہل محشر اس پر لعنت بھیجیں گے ۔ (کنز العمال ، الفصل الاول فی فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر:32539،چشتی)
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حدیث پاک ہے : عن ابن عمر یقول:لا تسبوا أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلمقام أحدہم ساعۃ خیر من عمل أحدہم عمرہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو ، ان میںسے کسی کے ایک گھڑی کا قیام لوگوںمیں سے کسی کے زندگی بھر عمل سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الفضائل ، حدیث نمبر:32415)

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں ۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں ۔ تاہم عزت و تکریم میں ، جنتی ہونے میں ، ادب و احترام میں سب برابر ہیں ۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں اٹھاتا ہے ۔

ارشاد فرمایا : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا ۔ (العاديات:1 تا 4)
ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں ۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں ۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔

جن شہسواروں کے گھوڑوں کو ، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا ، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق امت کو خیر خواہی ، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی ۔ فرمایا : الله الله فی اصحابی ، الله الله فی اصحابی ، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه ۔ (ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554،چشتی)
ترجمہ : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا ، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا ۔

اسی طرح ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم . (مشکوٰة، 554)
ترجمہ : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے ۔ قرآن کریم میں ہے : رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.(التوبة:100)
ترجمہ : اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے ۔

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ، ان کے راستے پر چلنا ، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا ، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا ، ان کی بے ادبی کرنا ، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں ۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.(سورہ مومن:7) ۔ (بحوالہ فتاویٰ منہاج القرآن و ماہنامہ منہاج القرآن)

امام شہاب الدین خفاجی رحمۃُ اللہ علیہ رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ میں فرمایا : ومن یکون یطعن فی معٰویۃ فذالک کلب میں کلاب الہاویۃ ۔
ترجمہ جو امیر معاویہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتّوں سے ایک کُتا ہے ۔ (نسیم الریاض جز رابع صفحہ 525 مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد29 صفحہ 264 ۔ امام اہلسنت اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ)

امام اہلسنت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنے والا جہنّمی کتوں میں سے ایک کتا ہے اور بد تر خبیث تبرائی رافضی ہے ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے ۔ (احکام شریعت صفحہ نمبر 120 ، 121 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی ۔ (1) جنگ صفین ۔ (2) جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں :

(1) باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا ۔

(2) ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔

(3) وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے ، یکدم رک گئے ۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی ۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے ۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف ۔ اس مسئلہ میں ناصبی ، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی شیعہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے ۔ صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ائمہ و اولیاء علیہم الرّحمہ و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے کر گستاخ رسول کو قتل کردے تو کیا حکم ہے ؟

اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے کر گستاخ رسول کو قتل کردے تو کیا حکم ہے ؟
محترم قارئینِ کرام : اگر کسی نے انفرادی طور پر اُٹھ کر ایسے گستاخ کو قتل کردیا تو اس کا کیا حکم ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نبوی زندگی میں اس کی کوئی مثال اگر ہےتو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایسے گستاخ کے قاتل کے ساتھ کیا رویہ اپنایا ہے ۔ ہمارا اعلی تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا سیکولر طبقہ ایسے ہر موقع پر جب توہین رسالت کے کسی مجرم اور گستاخ رسول کو کوئی سچا پکا مسلمان اور اپنے نبی کا دیوانہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کیفر کردار کو پہنچا دیتا ہے تو شور مچا دیتا ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ بجا فرمایا قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے لیکن یہ طبقہ ذرا یہ تو بتائے کہ یہ عدالتیں ان ملعنوں کے کیسز کو تمام ثبوت اور شواہد ہونے کے باوجود کئی کئی سال لمبی لمبی تاریخیں دے کر کیا قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتی ہیں بلکہ ہاتھ میں کیا یہ تو ایسے کیسز کو جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔ مزید ستم یہ کہ ایسے گستاخوں کو خصوصی پروٹوکول دے کر بیرون ملک فرار کروا دیا جاتا ہے کیا یہ قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں ہے ؟؟؟؟ اور پھر بیروں ملک ان کو وی آئی پی کا سٹیٹس دے کر ہمارے سینوں پر مونگ دلی جاتی ہے ہمیں بے بسی کا احساس دلایا جاتا ہے ہمیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ تمہیں اپنے آزاد اسلامی ملک میں اگر اپنے نبی کی حرمت کا احساس نہیں ہے تمہاری حکومتیں اگر اپنے نبی کی حرمت سے زیادہ ہماری خوشنودی کی طلبگار ہیں تو تم بھگتو ہمیں تو اپنے عیسائی اپنے قادیانی کی حرمت کا پورا احساس ہے ہم تو ان کا تحفظ ان کو وی آئی پی کا سٹیٹس دے کر کریں گے ۔ ہمیں ان کے رویوں میں یہ منافقت نظر آتی ہے کہ وہ سیکولر ضرور ہیں لیکن اپنے کسی ہم مذہب کو جیل جاتا پھانسی چڑھتا نہیں دیکھ سکتے لیکن ہمارے لبرل اور سیکولر انسانیت کا رونا روتے رہتے ہیں اور قانون قانون کی رٹ لگا کر ہمیں جاہل پاگل اور ذہنی مریض ثابت کیا جاتا ہے. کیا قائد اعظم جب غازی علم الدین شہید کا مقدمہ لڑ رہے تھے تو کیا وہ ذہنی مریض تھے ؟؟ جب علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گئیے تو کیا وہ ذہنی مریض تھے ۔

(1) حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ اناعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ ۔ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیتی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخیاں کرتی تھی ، یہ نابینا اس کو روکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی ۔ راوی کہتا ہے کہ جب ایک رات پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخیاں کرنی اور گالیں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا ، عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل پڑا ، جو کچھ وہاں تھا خون الود ہوا ۔ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا کہ اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے ، تو نابینا کھڑا ہوا ، لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑا کہ وہ کانپ رہا تھا ، حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ہوں اسے مارنے والا ، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا تھا وہ نہ رکتی تھی ، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی ، لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ (بے سزا) ہے ۔

(2) عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ۔ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ : حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور برا کہتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اسکے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا ۔

پہلی حدیث تو ایک مملوکہ باندی کا تھا اور دوسری حدیث غیر مملوکہ غیر مسلم کے متعلق ہے، مگرغیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال کئے بغیر جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیا اور حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکا بدلہ باطل قرار دیا ۔ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دینے والے مباح الدم بن جاتا ہے اور اگر کوئی اس گستاخ کو انفرادی طور پر قتل کرے تو قاتل کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس گستاخ کا قاتل ہر قسم کے جرم و سزا سے آزاد ہوگا۔نیز حق کا علمبردار بن کر ثواب عظیم کا مستحق بن جاتا ہے ۔ گستاخ رسول کا قتل حکومت کا ذمہ ہے ۔ اور عام آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے ، لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اس گستاخ کو قتل کیا تو اس قاتل پر کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہوگا کیونکہ مرتد مباح الدم ہوتا ہے اور جائز القتل ہوتا ہے ۔ عام آدمی اگر اس کو قتل کردے تو یہ آدمی مجرم نہیں ہوگا ۔

محترم قارئینِ کرام : اگر کسی کی ماں بہن یا بیوی کو کوئی بدبخت سرعام اور بیچ چوراہے کے چھیڑے اور اس کی عزت و حرمت کو نیلام کرنے کی کوشش کرے تو کتنے ایسے ہیں جو وہاں پر اپنی ماں یا بہن کو اس بات کی تلقین کریں گے کہ نہیں مسئلہ قانونی ہے ؟ ہمیں قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے ؟ کتنے ایسے ہیں جو ایسے فعل بد کے خلاف تحریک چلائیں گے اور حکومت جو تحفظ نہیں دے سکتی اسے ہٹا کر دوسری حکومت بنائیں گے جو تحفظ دے گی ؟ کتنے ایسے جو طاقت کے باوجود رواداری کا درس دینا شروع کردیں گے ؟ کتنے ایسے ہیں جنہیں ایسے مواقع پر "سافٹ امیج" عزیز ہو گا ؟ یقینا ہر شخص کے دماغ کی پھرکی گھومے گی اور ایسے بدبخت کو سبق سکھانے کے لیے تمام دلائل کو پس پشت ڈال کر جان تک قربان کرنے لیے تیار ہو جائے گا ۔

مگر ذرا سوچیے : یہی معاملہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حرمت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ حکومتوں سے لے کر عدالتوں تک ہر ایک ٹال مٹول سے کام لیتا ہے ۔۔۔۔ اور کوئی غازی اٹھ کر "غیرت" کا مظاہرہ کرتا ہے تو ہمیں رواداری کی ساری آیات و احادیث یاد آجاتی ہیں ۔۔۔۔۔ سافٹ امیج کا خیال آ جاتا ہے ۔۔۔۔ دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ڈاکٹروں ، سکالروں اور انجینئروں کے دروس بطور دلیل نقل کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔ ایسے لوگوں سے میرا سوال ہے ؛ کہ آج تک کتنے گستاخوں کو سزا دی گئی ؟ اور آپ نے سزا نہ دینے پر کتنا احتجاج کیا ؟ قانون کی عملداری کی باتیں کرنا آسان ہے ۔۔۔۔ مگر اس پر عمل درآمد کے لیے آپ نے کتنی کوششیں کی ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔ تو پھر ایسے غازیوں کی مذمت کر کے لبرلز کے ہاتھ مضبوط ۔۔۔۔ اور غازیان اسلام کے حوصلے پست مت کریں ۔۔۔۔۔۔ جس دن اس ملک میں قانون پر عمل در آمد ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ایسے واقعات رو نما ہونا بند ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔ مزید ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ " اس طرح حرمت رسول کے قانون کو لوگ اپنی مرضی سے استعمال کریں گے " اور جھوٹ بول کر جسے چاہیں گے گستاخ قرار دے کر قتل کردیں گے ۔۔۔۔۔ میرا سوال ہے کہ آج تک کتنی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس قانون کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق غلط استعمال کیا ہو ؟ ۔۔۔۔۔ خدا را بزدلی چھوڑیئے ۔۔۔۔اگر کچھ کر نہیں سکتے تو خاموش رہیے ۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : کعب کو کون قتل کرے گا یہ اللہ و رسول کو ایذا دیتا ہے تو صحابہ نے اسے قتل کردیا ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3031)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انصار کی ایک جماعت کو بجھیجا کہ ابورافع کو قتل کرے تو عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اسے سوتے ھوئے قتل کیا ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3022،چشتی)

فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا کہ ابنِ خطل کعبہ کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور چھپا ہوا ہے تو حکم ارشاد فرمایا
اسے قتل کر دو ۔ (صحیح بخاری,حدیث نمبر3044)

ایک ملعون نے حنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں بکتا تھا تو آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے پوچھا کون اسے قتل کرے گا ؟ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا ۔ (الشفاء,جلدنمبر1,صفحہ نمبر62)

ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بےادبی کیا کرتی تھی تو ایک صحابی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس عورت کا خون رائیگاں جانے دیا اور قاتل کو سزا نہیں دی ۔ (سنن ابو داؤد,حدیث نمبر4362)

ایک صحابی نے عرض کی کہ میرا باپ آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا تو میں نے اسے مار دیا تو حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو اس کے قتل کا کوئی دکھ نہ ہوا ۔ (الشفاء,جلدنمبر2,صفحہ نمبر195،چشتی)

ایک نابینا صحابی کی ایک لونڈی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرتی تھی تو ان نابینا صحابی نے اسے قتل کردیا اورآ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کا خون رائیگاں جانا اور کوئی سزا نہیں دی ۔ (سنن ابو داؤد,حدیث نمبر4341)

خلافتِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ میں ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی گستاخی میں گانا گایا تو مہاجر بن امیہ نے اس کے دونوں ہاتھ اور زبان کاٹ دی ۔ جب اس کی خبر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہوئی تو آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ نہ کیا ہوتا تو میں اسے قتل کروا دیتا کہ انبیاء کی گستاخ کی سزا عام سزاؤں کی طرح نہیں ہوتی ۔ (الشفاء,جلدنمبر2, صفحہ نمبر196)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت کا مرتکب واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقًا کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی خواہ وہ قبل الأخذ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا بعد الأخذ مقدمے کے اندراج یا گرفتاری کے بعد تائب ہو، ہر صورت برابر ہے۔ کسی صور ت میں بھی قطعاً قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس موقف پر دلائل درج ذیل ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِا ﷲِ وَاٰيٰـتِهِ وَرَسُوْلِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُوْنَ o لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ ۔
ترجمہ : اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو، بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے مسلمان ہو کر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے ۔ (سورۃُ التوبة، 9 : 65، 66)

مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : قَدْ کَفَرْتُمْ ، قد أظهرتم الکفر بإيذاء الرسول والطعن فيه.
’’تم کافر ہو چکے ہو یعنی تمہارا کفر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت وتکلیف دینے ، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں طعن وتشنیع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوچکا ہے ۔
عظیم مفسر علامہ عبد ﷲ بن عمر بيضاوی رحمۃ اللہ علیہ ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، 3: 155، بيروت، لبنان: دارالفکر ۔
أبو السعود محمد بن محمد رحمۃ اللہ علیہ، تفسير أبو السعود، 4: 80، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي ۔
علامہ محمود آلوسي رحمۃ اللہ علیہ، روح المعاني، 10: 131، بيروت، لبنان: دارا حياء التراث العربي ۔(چشتی)
دیگر مفسرین کرام کی اکثریت نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت مباکہ میں ہے : اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ ﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ ﷲُ فِی الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ۔
ترجمہ : بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃُ الاحزاب، 33 ۔ 57)

اس آیت کریمہ سے علامہ ابن تیمیہ استدلال کرتے ہوے لکھتے ہیں : ان المسلم يقتل اذا سب من غير استتابة وان اظهر التوبة بعد اخذه کما هو مذهب الجمهور.
ترجمہ : کوئی بھی مسلمان (جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے گا) اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے ۔ اگر چہ وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرلے یہی مذہب جمہور ہے ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 635، بيروت، لبنان: دار ابن حزم)
علامہ ابن تیمیہ مزید بیان کرتے ہیں، نسبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے، شان رسالتمآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کرنے والے کی سزا تو بہ کا موقع دیئے بغیر اسے قتل کرنا ہے ۔ حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی بات سامنے آتی ہے : فانه امر بقتل الذي کذب عليه من غير استتابه.
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس شخص کے بارے میں بغیر توبہ کا موقع دیئے قتل کا حکم صادر فرمایا جس نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 638،چشتی)
فتنہ اہانت رسول میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ۔ دونوں پر حد کا اجراء ہوگا، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ و مبراء نہ ہوگا ۔ امام مالک رحمہ ﷲ نے اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : من سب رسول ﷲ أو شتمه أو عابه أو قتل مسلما کان أو کافراً ولا يستتاب.
ترجمہ : جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا عیب لگایا یا آپ کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 572)

امام احمد بن حنبل رحمہ ﷲ نے فرمایا ہروہ شخص جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی یا تنقیص واہانت کا مرتکب ہوا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس جسارت پر سزائے قتل اس پر لازم ہوجائے گی ۔ مزید برآں فرماتے ہیں : اری ان يقتل ولا يستتاب ۔
ترجمہ : کہ میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ ﷲ کے صاحبزادے فرماتے ہیں ایک روز میں نے والد گرامی سے پوچھا جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے آپ کی شان اقدس میں دشنام طرازی کا ارتکاب کرے تو ایسے شخص کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : قد وجب عليه القتل ولايستتاب ۔ ترجمہ : سزائے قتل اس پر واجب ہو چکی ہے اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، 3: 551،چشتی)

جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے ادبی وگستاخی کا مرتکب ہو کیا اس کی توبہ قبول کی جائے گی ؟ اس کے بارے میں امام زین الدین ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ قلبی طور پر بغض وعداوت رکھتا ہے وہ مرتد ہے جبکہ کھلم کھلا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والا بطریق اولیٰ کافرومرتد ہے : يقتل عندنا حدا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل ۔
ترجمہ : ہمارے نزدیک (یعنی مذہب احناف کے مطابق) اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور حد قتل کو ساقط کرنے کے حوالے سے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ )البحر الرائق، 5: 136، بيروت، لبنان: دارالمعرفة)

امام ابن عابدین شامی حنفی رحمہ ﷲ شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اہانت وگستاخی کے مرتکب کی سزا کے متعلق فرماتے ہیں : فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته لأن الحد لايسقط بالتوبة، وأفاد أنه حکم الدنيا وأما عند ﷲ تعالیٰ فھي مقبولة ۔
ترجمہ : اسے حداً قتل کر دیا جائے گا ۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط ومعاف نہیں ہوتی، یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں ﷲ رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی ۔ (رد المحتار ، 4: 230، 231، بيروت، لبنان: دارالفکر،چشتی)

محمد بن علی بن محمد علاؤ الدین دمشقی المعروف حصکفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الکافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب ﷲ تعالیٰ قبلت لأنه حق ﷲ تعالیٰ والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک في عذابه وکفره کفر ۔
ترجمہ : انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیں ہوگی ۔ اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی) تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی ۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے (جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے) جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ (الدر المختار، 4: 231، 232، بيروت، لبنان: دارالفکر)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی ، توہین و تنقیص ، تحقیر و استخفاف ، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر ، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے ۔ اللہ تعالیٰ جملہ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 29 July 2020

آیتِ مباہلہ اور شیعہ رافضیوں کے جھوٹ اور فریب کا انہیں کے گھر سے جواب

آیتِ مباہلہ اور شیعہ رافضیوں کے جھوٹ اور فریب کا انہیں کے گھر سے جواب

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَ نَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَکُمْ۟ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیۡنَ ۔ ﴿سورہ النساء آیت نمبر 61﴾
ترجمہ : پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ۔

محترم قارئینِ کرام : سورہ آل عمران کی یہ آیت جو کہ آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے اس آیت کو پیش کر کے شیعہ حضرات یہاں یہ بات ثابت کرنے کی بے جا کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہی تھیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اور صاحبزادیاں ہوتیں تو وہ سب بھی اس روز مباہلہ میں شرکت کرتیں ۔ تو جناب گذارش یہ ہے کہ شیعہ حضرات کی تاریخ کی تمام معتبر کتابوں (ناسخ التوریخ اور کافی وغیرہ) میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں تھیں اس دن خاتون جنت سلام اللہ علیہا کا تنہا تشریف لانا اس لئیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی باقی صاحبزادیاں انتقال فرما چکی تھیں ۔ یہ واقعہ 10ہجری کا ہے جبکہ حضرت رقیہ 2 ہجری میں ، حضرت زینب 8 ہجری میں اور حضرت ام کلثوم نے 9 ہجری میں انتقال فرمایا ۔

محترم قارئینِ کرام : ہم اہل تشیع اور روافض کی کتابوں سے حوالہ پیش کررہے ہیں جس سے روافض کی غلط بیانی کی نشاندہی ہو جائیگی کہ خود ان کے گھر کی معتبر کتابیں اس بات کی شہادت دیتیں ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کل چار بیٹیاں تھیں ۔

شیعہ مذہب کی بنیادی کتابیں چار ہیں ۔ جنہیں ”صحاح اربعہ “ کہا جاتا ہے ۔ (1) اصول کافی ۔ (2) من لا یحضر الفقیة۔ (3) تهذيب الاحکام ۔ (4) الاستبصار ۔

ان چار میں سے سب سے زیادہ اہمیت ”اصول کافی“ کو دیجاتی ہے اس کتاب کو لکھنے والے معروف شیعہ عالم“ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی” ہیں ۔ کلینی 329ھ میں فوت ہوا ۔ محمد بن یعقوب کلینی نے اس کتاب کی " کتاب الحجہ باب مولد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم " میں ذکر کیا ہے کہ : وتزوج الخديجة وهو ابن بضع وعشرین سنة فولدہ منهاقبل مبعثه القاسم ورقیة وزینب وام کلثوم وولدلہ بعد المبعث الطیب والطاهر وفاطمةعليها السلام ۔ (اصول کافی ص439 طبع بازار سلطانی تہران۔ایران،چشتی)
ترجمہ : یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خدیجہ کے ساتھ نکاح کیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی پھر خدیجہ سے جناب کی اولاد بعثت سے پہلے جو پیدا ہوئی وہ يہ ہے قاسم، رقیہ ، زینب اور ام کلثوم اور بعثت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اولاد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اصول کا فی جو اصول اربعہ کی نمبر1 کتاب ہے اس نے مسئلہ بالکل واضح کر دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار صاحبزادیاں ہیں اور چاروں صاحبزادیاں حضرت خدیجہ الکبری سے متولد ہیں اور پھر اصول کافی کے تمام تر شارحین نے اس کی تشریح اور توضیح عمدہ طریقے پر کر دی ہے مثلاً مرآة العقول شرح اصول جو باقر مجلسی نے لکھی ہے اور ” الصافی شرح کافی “ ملا خلیل قزوینی نے لکھی ہے انہوں نے اس روایت کو بالکل درست کہا ہے ۔ آج چودہویں صدی کے شیعہ علماءاپنی عوام کو ”بدھو بنانے کے غرض سے يہ کہہ کرجان چھڑا لیتےہیں کہ يہ روایت ضعیف ہے مگر آج تک شیعہ برادری ضعيف روایت کی معقول وجہ پیش نہیں کر سکی اور نہ قیامت تک کر سکتی ہے ۔

اب شیعہ مذہب کی دوسری کتاب كا حوالہ ملاحظہ ہو ۔ مشہور شیعہ عالم ابو العباس عبداﷲ بن جعفری الحمیری اپنی کتاب " قرب الاسناد" لکھتے ہیں قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة – وهو من بني أمية – زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله – من أم إبراهيم – إبراهيم، وهي مارية القبطية، أهداها إليه صاحب الإسكندرية مع البغلة الشهباء وأشياء معها ۔ (کتاب قرب الاسناد الحميري القمي الصفحة ٩،چشتی)
ترجمہ : رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جن کی پیدائش وہ قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ اور زینب ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے ان کی شادی کی ۔

اس روایت نے مسئلہ ہذا کو مزید واضح کر دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقی بیٹیاں چار ہی تھیں اور چاروں خدیجة الکبری کے بطن سے پیدا ہوئیں اور يہ اس کتاب کا حوالہ ہے جس کے مصنف کا دعوی ہے کہ میں جواب طلب مسئلہ ايک چٹھی پر لکھ کر درخت کی کھوہ میں رکھ دیتا تھا دو دن کے بعد جب جا کر ديکھتا تو اس پر امام غائب (شیعوں کے امام مہدی) کی مہر لگی ہوتی تھی چنانچہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کتاب کا اصل نام ”قرب الاسناد الی صاحب الامر“ ہے ۔ (تحفہ اثناعشریہ ص245)

ليجئے اب تو اس مسئلہ پر امام مہدی (جو شیعہ عقائد کے مطابق” روپوش“ ہیں اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے) اس کی مہر لگ گئی ہے نیز اسی کتاب کی اس روایت کو شیعہ مجتہدین نے اپنی اپنی تصا نیف میں بطور تائید نقل کیا ہے مثلاً باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد نمبر2 ص718 میں اور عباس القمی نے ”منتھی الآمال جلد نمبر1 ص108 میں اور عبداﷲ مامقانی نے ” تنقیح المقال“ کے آخر میں تائیداً ذکر کیا ہے ۔ اب شیعہ حضرات خود فیصلہ صادر فرمائیں کہ ان کے سابق اکابر حضرات حق پر تھے یا يہ آج کل کے مجلس خوان ذاکر ؟

شیعہ مذہب کی نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی نے اپنی مايہ ناز کتاب ”کتاب الخصال“ کےا ندر متعدد بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے چنانچہ ايک مقام پر قول نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : رسول خدا کی سات اولاد تھیں

شیعہ مذہب کا نہایت قابل اعتماد عالم شیخ صدوق ابن بابويہ القمی لکھتا ہے :

حدثنا أبي ، ومحمد بن الحسن رضي الله عنهما قالا: حدثنا سعد بن – عبد الله، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقي، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن علي بن – أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله، وأم كلثوم، ورقية، وزينب، وفاطمة. وتزوج علي ابن أبي طالب عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن الربيع وهو رجل من بني أمية زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم فماتت ولم يدخل بها، فلما ساروا إلى بدر زوجه رسول الله صلى الله عليه وآله رقية. وولد لرسول الله صلى الله عليه وآله إبراهيم من مارية القبطية وهي أم إبراهيم أم ولد ۔ (کتاب الخصال الشيخ الصدوق عربی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 404،چشتی)(مترجم اردو کا صفحہ نمبر 223)

ترجمہ : امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چھ اولاد تھیں قاسم ، طاہر کہ ان کا نام عبدالله تھا ، ام کلثوم ، رقیہ ، زینب اور فاطمہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں لہٰذا جب مسلمانوں نے بدر کی جانب رخ کیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے اس کی شادی کی ۔

یہی شیخ صدوق ابن بابويہ القمی لکھتا ہے : ان خدیجة رحمها ﷲ و لدت منی طاهر وهو عبد ﷲ هو المطهر و ولدت منی القاسم وفاطمة ورقیة وام کلثوم وزینب ۔
ترجمہ : (رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا) ﷲ تعالی خدیجہ پر رحم فرمائے کہ اس کے بطن سے میری اولاد ہوئی طاہر جس کو عبد ﷲ کہتے ہیں اور وہی مطہر ہے اور خدیجہ سے ميرے ہاں قاسم ، فاطمہ، رقیہ، ام کلثوم او زینب پیدا ہوئيں ۔ (کتاب الخصال للصدوق عربی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 405،چشتی)،(کتاب الخصال للصدوق مترجم اردو صفحہ نمبر 223)

گیارہویں صدی ہجری کے شیعوں کے جلیل القدر محدث سید نعمت ﷲ الجزائری اپنی معر ف کتاب ” انوار النعمانیة“ میں ذکر کرتے ہیں کہ : انما ولدت له ابنان واربع بنات زینب ورقیة وام کلثوم وفاطمة ۔
ترجمہ : حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں دو صاحبزداے اور چار صاحبزدایاں پیدا ہوئیں ايک زینب دوسری رقیہ تیسری ام کلثوم اور چوتھے نمبر پر فاطمہ رضی اﷲ تعالی عنھن ۔

يہ نعمت اﷲ الجزائری صاحب وہ ہیں جنہوں نے ”متعے“ کی فضلیت پر بھی بہت کچھ لکھا ہے اس لئے کم ازکم شیعوں کو ” ان صاحب“ کی بات تو ضرور مان لینی چاہيے کیوں کہ انہوں نے ملت شیعہ پر احسان عظیم کیا ہے کہ" متعہ جیسی لذیذ" عبادت پر قلم چلایا ہے ۔

چودہویں صدی کا شیعوں کا مجتہد و محققِ اعظم شیخ عباس قمی لکھتا ہے : ورد في (قرب الاسناد) عن الامام الصادق (علیه السلام) انه ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم ، ورقية ، وفاطمة ، وزينب . فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام ، وتزوج أبو العاص بن ربيعة ، وهو من بني أمية ۔ زينب ، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت ، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية ۔ (منتهى الامال في تواريخ النبي والال عليهم السلام الشيخ ، عباس القمي جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 151،چشتی)
ترجمہ : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جن کی پیدائش وہ قاسم ، طاہر ، ام کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ اور زینب ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، ابو العاص ابن ربیع رضی اللہ تعالی عنہ نے جو بنو میہ میں سے تھا حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کی، عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے شادی کی مگر وہ رخصتی سے پہلے انتقال کر گئیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے رقیہ رضی اللہ عنہا سے ان کی شادی کی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں اور آج تک علی التواتر شیعہ مذہب کی ”امہات الکتب“ میں ان چاروں کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ شیعہ مذہب کے ايک اور متبحر عالم اور مجتہد ملا باقر مجلسی اصفہانی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتے ہیں : پس اول فرزند کہ از برائے او بہم رسید عبد ﷲ بود کہ اور بعبد ﷲ وطیب طاہر ملقب ساختند و بغد از قاسم متولد شدو بعضے گفتہ کہ قاسم ازعبد ﷲ بزرگ توبود چہار دختراز وبرائے حضرت آورد زینب و زقیہ ان کلثوم وفاطمہ ۔ (حیات القلوب ج2ص728طبع لکھنو،چشتی)
ترجمہ : یعنی حضرت خدیجہ رضی ﷲ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاں پہلے فرزند عبد ﷲ پیدا ہوئے جس کو طیب اور طاہر کے ساتھ بھی ملقب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد قاسم متولد ہوئے اوربعض علماء کہتے ہیں قاسم عبد ﷲ سے بڑے تھے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ رضی اﷲتعالی عنہن ۔

واضح ہو گیا کہ ملا باقر مجلسی نے بھی اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے صاف اقرار کیا کہ صاحبزادیاں چار ہی تھیں اور يہ باقرمجلسی وہ ہیں جن کے متعلق خود خمینی نے لکھا کہ ۔ کتاب ہائی فارسی راکہ مرحوم مجلسی برائی مردم پارسی زبان نوشتہ نجوائید ۔ (کشف الاسرار)
ترجمہ : وہ فارسی کتب جو مرحوم باقر مجلسی نے اہل فارس کےلئے لکھی ہیں انہیں پڑھو ۔

شیعہ مذہب کے قدیم مورخ عتمد مؤرخ احمد بن یعقوب بن جعفر جو تیسری صدی ہجری میں گذرا ہے وہ ”تاریخ یعقوبی“ میں لکھتا ہے : ولدت له قبل ان يبعث : القاسم , ورقية , وزينب ,وام كلثوم , وبعد ما بعث : عبد اللّه وهو الطيب والطاهر , لانه ولد في الاسلام وفاطمة ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بعثت سے پہلے قاسم رقیہ زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد عبد اللہ جو طیب اور طاہر بھی کہلاتے تھے اور فاطمہ پیدا ہوئیں ۔ (تأريخ اليعقوبي عربی أحمد بن يعقوب بن وهب جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 340،چشتی)(تأريخ اليعقوبي مترجم اردو أحمد بن يعقوب بن وهب جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 37 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

ديگر کتابوں کی طرح اس تاریخ یعقوبی کو بھی شیعہ مذہب میں کافی اہمیت حاصل ہے اب ان تمام متعبر کتابوں کے حوالہ جات کے بعد آپ اس نتیجہ پر ضرور پہنچیں گے کہ تمام صاحبزادیوں کا حضرت خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا سے متولدہونا شیعہ و سنی سب کے نزدیک مسلمہ امر ہے مگر آج کے شیعہ اپنی سابقہ کتب کی تکذیب پر ڈٹے ہوئے ہیں اگر شیعہ حضرات سنجیدگی کے ساتھ غور کریں تو کم ازکم اس اس مسئلہ پر تو اختلاف ختم ہو سکتا ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی ديکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شیعہ قوم کبھی بھی اس کےلئے تیار نہیں ہوگی ۔ وﷲ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم ۔

شیعہ مذہب کے نزدیک حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ کے کلام کا مشہور ومستند مجموعہ کتاب ”نہج البلاغہ“ ہے حضرات علماء شیعہ کے نزدیک يہ کتاب انتہائی معتبر ہے اس کتاب میں حضرت علی المرتضی رضی ﷲ عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی ﷲ عنہ کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اے عثمان رضی ﷲ عنہ آپ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طرف حضرات ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے قرابت اور رشتہ داری میں زیادہ قریب ہیں اور آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ دامادی کا شرف پایا ہے جس ابو بکرو عمر رضی ﷲ عنہما نہیں پاسکے ۔ ’’نہج البلاغہ“ کی عبارت ملاحظہ ہو ۔" وانت اقرب الی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شیجته رحم منهما وقدنلت من صهره مالم ینا لا الخ " ۔ (نہج البلاغہ ص303جلد1مطبوعہ تہران،چشتی)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ بھی حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حقیقی داماد قرار ديتے تھے وہ دامادی مشہورو معروف ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو صاحبزادیاں يکے بعد دیگرے آپ رضی ﷲ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ ان واضح تائیدات کے باوجود بھی اگر شیعہ تین صاحبزادیو ں کا انکا رکریں تو يہ صرف اور صرف دروغ گوئی اورحضرت علی رضی ﷲ عنہ کے فرمان کی کھلی تکذیب ہے ۔

مشہور شیعہ عالم علی بن عیسیٰ ”ازبلی“ نے ساتوں ہجری میں ايک کتاب لکھی جس کو شیعہ مذيب میں بڑی مقبولیت ملی اس کا نام ”کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ“ اس میں لکھا ہے کہ : وکانت اول امراة تزوجها رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و اولاد كلهم منها الاابراهيم فانه من مارية القبطية ۔ (کشف الغمہ)
ترجمہ : یعنی خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے پہلی زوجہ تھیں جن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شادی کی اور آنجناب کی تمام اولاد (صاحبزادے ، صاحبزادیاں) خدیجہ الکبری رضی ﷲ عنہا ہی سے متولد ہوئیں مگر ابراہیم ماریہ قبطیہ رضی ﷲ عنہا سے متولد ہوئے ۔

علماء شیعہ کے معروف عالم شیخ عبد ﷲ مامقانی اپنی مشہور تصنیف ”تنقیح المقال فی احوال الرجال“ رقمطراز ہیں : وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم ۔ (تنقیح المقال ج3ص73طبع لنبان،چشتی)
ترجمہ:یعنی خدیجہ رضی ﷲ عنہا سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پایا اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی اور وہ زینب ، فاطمہ ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں ۔

شیعوں کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی لکھتا ہے : زوج فاطمة عليها السلام عليا وهو أمير المؤمنين صلوات الله وسلامه عليه ، وأمها خديجة أم المؤمنين ، وزوج بنتيه رقية وأم كلثوم عثمان ، لما ماتت الثانية ، قال : لو كانت ثالثة لزوجناه إياها ، وتزوج الزبير أسماء بنت أبي بكر ، وهي أخت عايشة ، وتزوج طلحة أختها الأخرى ۔ (کتاب المبسوط الشيخ الطوسي جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 159،چشتی)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کی اور ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں اور اپنی دونوں بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کی جب پہلی کا انتقال ہو گیا اور کہا کے اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو تو میں اس کے نکاح میں دیتا حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے شادی کی اور یہ بہن تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کی دوسری بہن سے شادی کی ۔

شیعہ مذھب کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی یہ دعاء امام موسی کاظم علیہ السّلام سے منسوب کر کے لکھتا ہے : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى الْقَاسِمِ وَ الطَّاهِرِ ابْنَيْ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى رُقَيَّةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ الْعَنْ مَنْ آذَى نَبِيَّكَ فِيهَا ۔
ترجمہ : اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بیٹے قاسم اور طاہر پر ، اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج رقیہ پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اس کے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی ، اے الله جلّ جلالہ صلوات بھیج ام کلثوم پر جو تیرے نبی کی بیٹی ہے اور لعنت کر اس پر جس نے اس کے ذریعے تیرے نبی کو اذیت دی ۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 120،چشتی)

شیخ طوسی اس کو اپنی کتاب تهذيب الأحكام میں لائے ہیں صحیح سند کے ساتھ ۔ تهذيب الأحكام ہماری کتب اربعہ میں سے ایک ہے ۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو بیٹیوں کا ذکر ہو رہا ہے ، رقیہ اور ام کلثوم ، سلام اللہ علیہا ۔
اس کی سند : محمد بن يعقوب عن علي بن إبراهيم عن أبيه عن ابن محبوب عن علي بن رئاب عن عبد صالح عليه السلام قال، ادع بهذا الدعاء في شهر رمضان مستقبل دخول السنة ۔
ترجمہ : محمد بن یعقوب ، جنہوں نے روایت کی علی بن ابراہیم سے اور انہوں نے اپنے والد سے ، ان کے والد نے محبوب سے اور انہوں نے علی بن رئاب سے ، جنہوں نے عبد صالح (امام موسى الكاظم) عليه السلام سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ اس دعاء سے الله جلّ جلالہ کو پکارو آئندہ جب بھی نیا سال آئے ۔۔۔ پھر دعاء تعلیم فرمائی جس کا کچھ حصہ اوپر نقل کیا ہے ۔ سند کے تمام راوی معتبر ہیں ، علامہ مجلسی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔
أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام ۔
ترجمہ : احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام الصادق ععلیہ السّلام سے جنہوں نے فرمایا کہ ان کے والد (امام الباقر علیہ السّلام) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جن کی والدہ زینب بنت رسول الله جلّ جلالہ تھیں نے علی علیہ السّلام کے بعد شادی کی ۔۔۔ الخ ۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا بھی رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹی تھیں ۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 258،چشتی)

شیعہ مذھب کا شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن حسن طوسی یہ روایت بھی لکھتا ہے : وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا ۔
ترجمہ : زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی وفات ہوئی تو فاطمہ علیہا السّلام اپنی عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی ۔ اس کی بھی سند معتبر ہے۔ (تهذيب الأحكام جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 333)

شیعوں کا محققِ و مجتہدِ اعظم ملاّں باقر مجلسی لکھتا ہے : معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اولاد جو ہوئی اُن کے نام یہ ہیں ، طاہر و قاسم ، فاطمہ ، ام کلثوم ، رقیہ اور زینب رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ (حیات القلوب مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 869،چشتی) ، (حیات القلوب فارسی جلد دوم صفحہ 559 ملا باقر مجلسی)

شیعوں کا علاّمہ ملاّں باقر مجلسی لکھتا ہے : ولدت خدیجة له صلی اللہ علیه وسلم زینب و رقیة و ام کلثوم و فاطمة القاسم وبه کان یکنی والاطاھر والطیب ۔ (مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول العلامة المجلسي جلد نمبر5 صفحہ نمبر 181،چشتی)
ترجمہ : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بچوں میں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم ، فاطمہ ، طاہر، اور قاسم (رضی اللہ عنہم) پیدا ہوئے ۔

مشہور شیعہ عالم و محقق محمد کاظم قزوینی لکھتا ہے : بنات اربع : زینب و ام کلثوم و رقیة و فاطمة الزھراء ۔ بنات اربع : زینب و ام کلثوم و رقیة و فاطمة الزھراء
وھناک اختلاف بین المورخین والمحدثین حول بنتین الاولین فقیل انھما لیستا من بنات النبي والصحیح انھما من بناته وصلبه وسیاتي الکلام حول ذالک في المستقبل بالمناسبة باذن اللہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چار بیٹیاں ہیں ، زینب ، ام کلثوم ، رقیہ و فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہن) ۔ (کتاب فاطمة الزهراء عليها السلام من المهد الى اللحد كاظم القزويني الصفحة ٣١،چشتی)

محترم قارئینِ کرام : یہ چند حوالہ جات ہم نے شیعہ کتب سے پیش کیئے ہیں جو دور حاضر کے روافض کی غلط بیانی کی پول کو کھولتے ہیں اورہدایت کے متلاشی کیلئے دلیلِ کافی ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)











مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...