1۔ تم فرمادو کہ تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہو کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں ۔
اس آیت کی چار توجہیں مفسرین نے کی ہیں اولا تو یہ کہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔ دوم یہ کہ کل علم کی نفی ہے۔ تیسرے یہ کہ کلام تواضع انکسار کے طور پر بیان فرمادیا گیا ہے ۔چہارم یہ کہ آیت کے معنٰی یہ ہیں میں دعوے نہیں کرتا کہ میں غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علم غیب کی نفی ہے نہ کہ علم غیب کی، ملاحظہ ہوں تفاسیر۔
تفسیر نیشاپوری میں اس آیت کے ماتحت ہے ۔
یحتمل ان یکون ولا اعلم الغیب عطفا علی لا اقول لکم ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا اللہ۔
“اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گہ کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔‘
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت۔
لا اعلم الغیب مالم یوح الی اولم ینتصب علیہ دلیل ۔
“ میں غیب نہیں جانتا جب تک اسکی مجھ پر وحی نہ کی جاوے یا کوئی دلیل اس پر قائم نہ ہو۔“
یا اس سے مراد کل علم نفی ہے۔
تفسیر کبیر میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
قالہ لا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات۔
“ یہ فرمان کہ میں غیب نہیں جانتا حضور علیہ السلام کے اس اقرار پر دلالت کرتا ہے کہ آپ سارے معلومات نہیں جانتے۔“
یا یہ کلام بطور تواضع و انکسار فرمایا گیا۔
تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ۔
“حضور علیہ السلام نے ان چیزونکی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائئی رب کے لئے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اسمیں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر عرائس البیان میں ہے ۔
وتواضع حین اقام نفسہ مقام الانسانیۃ بعد ان کان اشرف خلق اللہ من العرش الی الثریی و اطھر من الکز وبیین الزوحانییین خضوعا لجبروتہ و خشوعا لمکوتہ۔
“ حضور علیہ السلام نے انکسار فرمایا اپنی ذات کو انسانیت کہ جگہ میں رکھا ورنہ آپ از عرش تا فرش ساری مخلوق میں اشرف ہیں اور ملائکہ اور روحانین سے زیادہ ستھرے ہیں ۔ حق تعالٰی کی شان جباری کے سمانے عاجزی کے طور پر اسکی سطوت کے سامنے پستی کے اظہار کے طریقے پر یہ فرمایا ۔ یہ دعوٰی علم غیب کی نفی ہے کہ میں علم غیب کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر نیشا پوری میں ہے۔
ای لا ادعی القدرۃ علی کل المقدورات والعلم بکل المعلومات۔
“ یعنی میں تمام مقدورات پر قدرت رکھنے اور تمام معلومات کت جاننے کا دعوٰی نہیں کرتا۔“
تفسیر کبیر یہ ہی آیت۔
ای لا ادعی کونی موصوفا بعلم اللہ و بمجموع ھذین الکلامین حصل انہ لا یدعی الالھیۃ۔
“ یعنی میں اللہ کے علم سے متصف ہونیکا دعوٰی نہیں کرتا اور ان دونوں باتوں کے مجموعہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور علیہ السلام خدا ہونیکا دعوٰی نہیں کرتا۔“ روح البیان یہ ہی آیت ۔
عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔
اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہین کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں ۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا۔
تفسیر مدارک یہ ہی آیت۔
ومحل لا اعلم الغیب النصب عطفا علی محل عندی خزائن اللہ لانہ من جملۃ المقول کانہ قال لا اقول لکم ھذا القول ولا ھذا القول ولا اعلم الغیب ۔
“ ولا اعلم الغیب اعراب زبر ہے۔ عندی خزائن اللہ کے محل پر عطف کی وجہ سے کیونکہ یہ بھی کہی ہوئی بات میں سے ہے گویا آپ نے یوں فرمایا کہ میں تم سے نہ یہ کہتا ہوں اور نہ یہ۔“
تفسیر نیشاپوری
ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب باستقلال لا یعلم الا اللہ ۔
نکتہ : اس آیت میں لا اقول دو جگہ ہے پہلے لا اقول کے بعد دو چیزوں کا ذکر ہے کہ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ غیب جانتا ہوں ۔ دوسرے لا اقول کے بعد صرف ایک چیز کا ذکر ہے میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔اس لئے کہ پہلے دو میں تو دعوٰی کی نفی ہے اور مدعٰی کا ثبوت اور دوسرے قول میں دعوٰی اور مدعٰی دونوں کی نفی ہے یعنی میرے پاس اللہ کے خزانے بھی ہیں اور میں غیب بھی جانتا ہوں ۔ مگر ان کا دعوی اور مدعٰی دونوں کی نفی ہے یعنی میرے پاس اللہ کے خزانے بھی ہیں اور میں غیب بھی جانتا ہوں۔ مگر ان کا دعوٰی نہیں کرتا ۔
حدیث پاک میں ہے ۔
اوتیت مفاتیح خزائن الارض ( مشکوۃ باب فضائل سید المرسلین) یعنی “ مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی “
اور علم غیب کی احادیث ہم پیش کر چکے ہیں ۔ اور نہ میں واقع میں فرشتہ ہوں اور نہ اس کا دعوٰی کرتا ہوں ۔ اگر یہ نکتہ نہیں ۔ تو ایک ہی جگہ لا اقول کافی تھا ۔ دوجگہ کیوں لایا گیا اگر ہماری بیان کی ہوئی توجیہیں نہ کی جاویں تو یہ آیت مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ بعض علم غیب تو وہ بھی مانتے ہیں ۔ اور یہ آیت بالکل نفی کر رہی ہے ۔ نیز یہاں لکم میں کفار سے خطاب ہے یعنی اے کافروں میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں تم تو چور ہو۔ چوروں کو خزانے نہیں بتائے جاتے۔ تم شیطان کی طرح اسرار کی چوری نہ کرلو ۔ رب تعالٰی نے بھی شیطان کو آسمان پر جانے سے اسی لئے روکا کہ وہ چور ہے۔ یہ تو صدیق سے کہا جاویگا کہ مجھے خزائن الہیہ کی کنجیاں سپرد ہوئیں یہاں عندی فرماکر بتایا کہ خزانہ میرے پاس نہیں میری ملک میں ہیں کیونکہ خزانہ خزانچی کے پاس اور مالک کی ملک میں ہوتا ہے۔میں خزانچی نہیں کیا نہ دیکھا کہ ان کے اشارے پر بادل برسا ۔ ان کی انگلیوں سے چشمے جاری ہوئے۔
2۔ ولو کنت اعلم الغیب لا ستثرت من الخیر ۔ ( پارہ 9 سورہ 7 آیت 188)
“ اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی۔“
اس آیت کے بھی مفسرین نے تین مطلب بتائے ہیں ۔ ایک یہ کہ حضور علیہ السلام کا یہ کلام بطور انکسار کے ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس میں تمام معلومات الہیہ جاننے کی نفی کرنا مقصود ہے ۔ تیسرے یہ کہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے ۔
نسیم الریاض میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی فامر متحق بقولہ تعالٰٰی فلا یظھر علٰی غیبیہ احدا الا من ارتضٰی من رسول۔
“ علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ “ ولو کنت اعلم الغیب الخ“ کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور علیہ السلام کا غٰب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے رب تعالٰٰی کے اس فرمان کی وجہ سے
فلا یظھر علٰی غیبیہ الخ کل معلومات الہیہ جاننے کی نفی ہے۔
شرح مواقف میں میر سید شریف فرماتے ہیں۔
الا اطلاع علٰٰ جمیع المغیبات لایحبب للنبی ولذا قال علیہ السلام لو کنت اعلم الغیب ( الایۃ) وجمیع مغیبات غیر متناھیۃ۔
صاوی حاشیہ جلالین میں ہے یہ ہی آیت۔
ان قلت ان ھذا یشکل مع ما تقدم من انہ اطلع علٰی جمیع مغیبات الدنیا والاخرۃ فالجواب انہ قال ذالک تواصنعا۔
تمام غیبیوں پر مطلع ہونا نبی کے لئے ذروری نہیں اسی لئے حضور علیہ السلام نے فرمایا “ ولو کنت اعلم الغیب“ الآیتہ تمام غیب غیر متناہی ہیں۔ ( یہ کلام انکسار کے طور پر ہے اگر تم کہو کہ یہ آیت گذشتہ کلام کے خلاف ہے۔ کہ حضور علیہ السلام کو تمام دینی و دنیاوی غیبوں پر مطلع کر دیا گیا تو جواب یہ ہے کہ یہ کلام “ لا اعلم الغیب“ بطور انکسار فرمایا گیا ہے۔
تفسیر خازن میں جمیل حاشیہ جلال سے اسی آیت کے ما تحت نقل کیا۔
فان قلت قد اخبر النبی علیہ السلام عن المغیبات قد جاءت احادیث فی الصحیح بذلک وھو من اعظم معجزاتہ فکیف الجمع بینہ قولہ لو کنت اعلم الغیب قلت یحتمل ان یکون فانہ تواصنعا وادبا والمعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللہ علیہ و یقدرہ لی و یحتمل ان یکون قال ذلک قبل ان طللعہ اللہ علی الغیب فلما اطلعہ اللہ اخبربہ۔
“ پس اگر تم کہو کہ حضور علیہ السلام نے بہت سے غیبیوں کی خبر دی ہے اور اس کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ وارد ہیں۔ اور علم غیب تو حضور علیہ السلام کا بڑا معجزہ ہے تو ان باتوں میں اور اس آیت میں “ لو کنت اعلم الغیب“ میں مطابقت کس طرح ہوگی تو میں یہ کہوں گا کہ یہاں احتمال یہ ہے کہ کلام انکسار کا طریقہ پر فرمایا ہو اور اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا بغیر خدا کے بتائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام غیب پر مطلع ہونے سے پہلے کا ہو ۔ جب اللہ تعالٰی نے حضور علیہ السلام کو غیب پر مطلع فرمادیا تو خبریں دیں۔
علامہ سلیمان جمل نے فتوحات الہیہ حاشیہ جلالین جلد دوم صفحہ 258 میں اسی کے مثل فرمایا ۔
ای قل لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب باستقلال لا یعلم الا اللہ۔
“ یعنی فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا الخ پس آیت میں اس پر دلالت ہے کہ غیب بالاستقلال یعنی ذآتی خدا کے سائے کوئی نہیں جانتا “۔
تفسیر صاوی یہ ہی آیت
او ان علمہ بالمغیب کلاعلم من حیث انہ لا قدرۃ لہ علی تحبیر ما قدر اللہ فیکون المعنے حینئذ لا کان علم حقیقی بان اقدر علی ماارید وقوعہ لا ستثرت من الخیر۔
“ حضور علیہ السلام کا علم غیب جاننا نہ جاننے کی طرح ہے ۔ کیونکہ آپ کو اس چیز کے بدلنے پر قدرت نہیں جو اللہ تعالٰی نے مقدر فرمادیں۔ تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھ کو علم حقیقی ہوتا اس طرح کہ میں اپنی مراد کے واقع کرنے پر قادر ہوتا تو خیر بہت سی جمع کر لیتا۔“
یہ توجیح نہایت ہی نفیس ہے کیونکہ آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھ کو تکلیف نہ پہنچتی اور صرف کسی چیز کا جاننا خیر جمع کرنے اور مصیبت سے بچنے کے لئے کافی نہیں جب تک کہ خیر کے حاصل کرنے اور مصیبت سے بچنے پر مستقل قدرت نہ ہو ۔ مجھ کو علم ہے کہ بڑھاپا آویگا اور اس کے بعد مجھ کو یہ تکالیف پہنچیں گی ۔ مگر بڑھاپے کے دفع کرنے پر قدرت نہیں۔ مجھے آج خبر ہے کہ غلہ چند روز کے بعد گراں ہو جاوے گا ۔ کہ میرے پاس آج روپیہ نہیں کہ بہت سا غلہ خرید لوں خرید نہیں سکتا۔ معلوم ہوا کہ خیر حاصل کرنا مصیبت سے بچنا علم اور قدرت دونوں پر موقوف ہے اور یہاں قدرت کا ذکر نہیں ۔ تو علم غیب سے وہ علم مراد ہے جو قدرت حقیقی کے ستاھ ہو یعنی علم ذاتی جو لازم الوہیت ہے جس کے ساتھ قدرت حقیقی لازم ہے ورنہ آیت کے معنٰی نہیں درست ہوتے۔ کیونکہ مقدم اور تالی میں لزوم نہیں رہتا اور اس کے بغیر قیاس درست نہیں ہوتا۔
نیز دیوبندی تو اس آیت کے یہ معنٰی کرتے ہیں اگر میں غیب جانتا تو بہت خیر جمع کر لیتا اور مجھے کوئی مصیبت نہ مہنچتی۔ مگر چونکہ نہ میرے پاس خیر اور نہ میں مصیبت سے بچا لہذا غیب نہیں جانتا۔
ہم یہ ترجمہ کر سکتے ہیں کہ غور کر لو اگر میرے پاس خیر ہو اور میں مصیبت سے بچوں تو سمجھ لو کہ مجھے علم غیب بھی ہے میرے پاس بہت خیر تو ہے“ من یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا“ نیز “ انا اعطینک الکوثر “ نیز “ یعلمھم الکتب و الحکمۃ “ اور میں مصیبت سے بھی محفوظ کہ رب تعالٰی نے فرمایا “ واللہ یعصمک منا الناس“ لہذا مجھے علم غیب بھی ہے۔ یہ آیت تو علم غیب کے ثنوت میں ہے نہ کہ انکار میں ۔
روح البیان یہ ہی آیت۔
وقد ذھب بعض المشائح الی ان النبی علیہ السلام کان یعرف وقت الساعۃ باعلام اللہ وھولا ینافی الحصر فی الایۃ کما لا یخفٰے۔
“ بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں۔“
3۔ وعندنا مفاتیح الغیب لایعلمھا الا ھو ( پارہ 7 سورہ 6 آیت 59)
“ اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی ان کو وہ ہی جانتا ہے۔“
مفسرین نے فرمایا ہے کہ “ مفاتیح الغیب“ ( غیب کی کنجیوں ) سے پراد یا تو غیب کے خزانے ہیں ۔ یعنی سارے معلمات الہیہ کا جاننا یا اس سے مراد ہے کہ غیب کو حاضر کرنے یعنی چیزوں کے پیدا کرنے پر قادر ہونا ۔ کیونکہ کجنی کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ اس سے قفل کھولا جائے اور اندر کی چیز باہر اور باہر کی چیز اندر کر دی جائے اسی طرح حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر کرنا یعنی پیدا کرنے اور موت دینے کی قدرے پروردگار ہی کو ہے۔
تفسیر کبیر یہ ہی آیت ۔
فکذلک ھھنا لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنی بالعبارۃ المذکورۃ وعلی التقدیر الثانی المراد منہ القدرۃ علی کل الممکنات۔
“ جبکہ پروردگار تمام معلومات کا جاننے والا ہے تو اس مطلب کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسری صورت پر مراد اس سے سارے ممکنات پر قادر ہونا ہے۔“
تفسیر روح البیان میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
وقلم تصویر ھا الذی ھو مفتاح یفتح بہ باب علم تکوینھا علی صورتھا و کونھا ھو الملکوت فبقلم ملکوت کل شئی یکون کل شئی و قلم الملکوت بیداللہ لان الغیب ھو علم التکوین ۔
“ ان چیزوں کے نقش باندھنے کا قلم جو ایسی کجنی ہے جس سے ان چیزوں کا پیدائش کا دروازہ کھولا جاتا ہے ( انکی مناسب صورتوں پر) وہ ہی ملکوتہے، پس ہر چیز کے ملکوت کے قلم سےہر چیز کی ہستی ہوتی ہے اور ملکوت کا قلم اللہ کے ہاتھ میں ہے اسلئے کہ غیب سے مراد پیدا کرنیکا جاننا ہے۔“
تفسیر خازن میں اسی آیت کا ماتحت ہے۔
لان اللہ تعالٰی لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنٰی بھذا العبادۃ و علی التفسیر الثانی یکون المعنٰی وعندہ خزائن الغیب و المراد منہ القدرۃ الکاملۃ علٰی کل الممکنات۔
“ کیونکہ رب تعالٰی جب تمام معلومات کا جاننے والا تو اس کے معنٰی کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسراتفسیر پر اسکے معنٰے یہ ہونگے کہ اس کے نزدیک غیب کے خزانے ہیں اور اس سے مراد ہے ہر ممکن چیز پر قدرت کاملہ۔“
یا اس سے مراد ہے کہ غیب کی کنجیاں بغیر تعلیم الہی کوئی نہیں جانتا۔
تفسیر عرائس البیان میں ہے۔
قال الحریری لا یعلمھا الا ھو و من یطلعہ علیھا من خلیل و حییب ای لا یعلمھا الاولون و الاکرون قبل اظھارہ تعالٰی ذلک لھم۔
“ حریری نے فرمایا کہ ان کنجیوں کو سوائے اللہ تعالٰی کے اور سوائے ان محبوبوب کے جب کو اللہ خبردار کرے کوئی نہیں جانتا یعنی ان کو اگلے پچھلے اللہ کے ظاہر فرمانے سے پہلے نہیں جانتے۔“
تفسیر عنایت القاضی یہ ہی آیت۔
وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لا یعلمھا کما ھی ابتداء الا ھو۔
“ ان غیب کی کنجیوں کے خدا تعالٰی کے ساتھ خاص ہونیکی وجہ یہ ہے کہ جیسی وہ ہیں اسطرح ابتداء خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“
اس آیت کے اگر وہ مطلب نہ بیان کئے جاویں جو ہم نے بتائے تو یہ مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ بعض علم غیب وہ بھی مانتے ہیں۔ اور اس میں علم غیب کی بالکل نفی ہے۔
نکتہ : بعض صاحبوں نے مجھ سے فرمایا کہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے اس جگہ ایک نکتہ لکھا ہے وہ یہ کہ اس آیت میں ہے ۔“ عند مفاتح الغیب“ دوسری میں ہے ۔ “ لہ مقالید السموٰت والارض“ متاتح اور مقالید دونوں کے معنے ہیں کنجیاں اور اگر مفاتح کا اول و آخر یعنی م،ح، لو اور مقالید کا اول و آخر حرف یعنی م، دلو تو بنتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ذات رسول اللہ ظہور عالم کا کنجی ہے۔
“ لا یعلمھا الا ھو“ میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضور علیہ السلام جیسے ہیں ویسا کوئی نہیں جانتا۔ حقیقت محمد یہ کو رب ہی جانے “ مفاتح“ جمع اس لئے بولا کہ آپ کی ہر ادا رحمت الہی کی کنجی ہے آپ کا نور عالم کی کنجی “ کل الخلق من نوری “ قیامت میں آپ کا سجدہ شفاعت کی کنجی ہے جنت میں آپ کا نام ہر نعمت کی کنجی اور جنت میں آپ کا جانا سب کے لئے جنت کے کھلنے کی کنجی ہے۔ دیکھو ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن۔
نکتہ: اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ رب تعالٰی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں اب یہ سوال ہے کہ کنجی سے کسی کے لئے دروازہ غیب کھولا بھی گیا یا نہیں۔؟ یا کسی کو کوئی کجنی دی گئی نہیں؟ اس جواب قرآن و حدیث سے پوچھو قرآن فرماتا ہے۔ “ انافتحنا لک فتحا مبینا“ ہم نے آپ کے لئے ظاہر پر کھول دیا۔ کیا کھول دیا؟ اس کی نفیس توجھیں ہماری کتاب شان حبیب الرحمٰن من آیات القرآن میں دیکھو۔ قفل اور کجنی میں وہ ہی چیز رکھی جاتی ہے۔ جو کھول کر نکالنی ہو اور جسے نکالنا ہو۔ وہ زمین میں دفن کر دی جاتی ہے۔ پتہ لگا کہ غیب کسی کو دینا تھا اس لئے کجنی بھی بھیجی۔
حدیث میں ہے۔
“ اوتیت مفاتیح خزائن الارض“
مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو کنجی دی بھی گئی آپ کے لئے فتح یاب بھی ہوا۔
4۔ قل لا یعلم من فی المسموت والارض لغیب الا اللہ۔ ( پارہ 20 سورہ 27 آیت 65)
“ تم فرماؤ خود غیب نہیں جانتے وہ آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللہ۔“
اس آیت کے بھی مفسرین نے دو مطلب بیان فرمائے غیب ذاتی کوئی نہیں جانتا۔ کلی غیب کوئی نہیں جانتا۔
تفسیر المودج جلیل میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
معناہ یعلم الغیب بلا دلیل الا او بلاتعلیم او جمیع الغیب۔
“ اس آیت کے معنٰے یہ ہیں کہ بغیر دلیل یا بغیر بتائے یا سارے غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔“
تفسیر مدارک یہ ہی آٰیت۔
والغیب مالم یقم علیہ دلیل ولا اطلع علیہ مخلوق۔
“غیب وہ ہے جس پر کوئی دلیل نہ ہو اور کسی مخلوق کو اس پر مطلع نہ کیا گیا ہو ۔“
مدارک کی اس توجیہ سے معلوم ہوا کہ ان کی اصلاح میں جو علم عطائی ہو وہ غیب نہیں کیا جاتا غیب صرف ذاتی کو کہتے ہیں۔ ان کوئی اشکال ہی نہیں رہا۔ جن آیات میں غیب کی نفی ہے وہ علم ذاتی کی ہے ، اس آیت کے کچھ آگے ہے۔
مامن غائب فی الارض ولا فی السمائ الا فی کتٰب مبین ہ
جس سے معلوم ہوا کہ ہر غیب لوح محفوظ یا قرآن میں محفعظ ہے۔
فتاوٰی امام نووی
ما معنٰی قول اللہ لا یعلم من فی السمٰوٰت واشباہ ذلک مع انہ قد علم ما فی غدو الجواب معناہ لا یعلم ذلک استقلالا واما المعجزات والکرامات فحصلت باعلام اللہ لا اسقلالا ۔
آیت “ لا یعلم من فی السمٰوٰت“ وغیرہ کے کیا معنٰی ہیں۔ حالانکہ حضور علیہ السلام آئندہ کی باتیں جانتے ہیں جو اب اس کے معنٰے یہ ہیں کہ غیب کو مستقل طور پر (ذاتی) کوئی نہیں جانتا لیکن معجزات اور کرامات پس یہ رب کے بتانے سے حاصل ہوئے نہ کہ بالاستقلال۔
امام ابن حجر مکی فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں۔
ما ذکر فی الایٰت صرح بہ النووی فی فتاواہ فقال لا یعلم ذلک اسقلالا وعلم احاطۃ بکل المعلومات۔
شرح شفاء خفاجی میں ہے۔
ھذا لا ینافی الاٰیٰت الدالۃ علٰی انہ یعلم الغیب الا اللہ فان النقی علما من غیر واسطۃ اما اطلاعہ علیہ باعلام اللہ فامر متحقق۔
ہم نے اس آیت کے بارے میں جو کچھ کہا اسکی امام نووی نے اپنے فتاوٰی تصریح کی ہے انہوں نے کہا کہ غیب مستقل طور پو سارے معلومات الہیہ کو کوئی نہیں جانتا یہ کلام ان آیات کے خلاف نہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا کیونکہ نفی بے واسطہ علم کی ہے ۔ لیکن اللہ کی تعلیم سے جاننا یہ ثابت ہے۔
اگر اس آیت کے یہ مطلب نا مانے جاویں تو مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ بھی بعض غیبوں کا علم حضور علیہ السلام کا مانتے ہیں۔ اور اس میں بالکل نفی ہے ۔ نیز زنہوں نے شیطان و ملک الموت کو علم غیب مانا ہے دیکھو براہیں قاطعہ صفحہ5 پھر اس آیت کا کیا مطلب بتائیں گے قرآن کریم میں ہے “ ان الحکم الا اللہ“ حکم خدا کے سوا کسی کا نہیں۔“ لہ ما فی السموٰت وما فی الارض“ خدا کی ہی وہ تمام چیزیں ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ۔“ وکفٰی باللہ شھیدا“ اللہ کافی گواہ ہے۔ “ وکفٰی باللہ وکیلا“ اللہ کافی وکیل ہے۔ “ وکفٰٰی باللہ حسیبا“ اللہ کافی حساب لینے والا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ حکومت، ملکیت، گواہی، وکالے، حساب لینا سب اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہیں ۔ اب بادشاہ کو حاکم ، ہر شخص کو اپنی چیزوں کا مالک، مشرکین کو وکیل محاسب اور عام لوگوں کو مقدمات کا گواہ مانا جاتاہے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ ان آیات میں حکومت ملکیت وغیرہ سے حقیقی اور ذاتی مراد ہے اور دوسروں کے لئے یہ اوصاف بہ عطائے الہی مانے گئے اسی طرح آیات غیب میں توجیہ کرنا لازم ہے کہ حقیقی کی غیر سے نفی ہے اور عطائی کا ثبوت۔
5۔ وما علمنا الشعر وما ینبغی لہ ان ھو الا ذکر و قرآن مبین ہ ( پارہ 23 سورہ یٰس آیت 69)
“ اور ہم نے اس کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن۔“
مفسرین نے اس آیت کے تین مطلب بتائے ہیں اولا یہ کہ علم کے چند معنٰی ہیں۔ جاننا بلکہ ( مشق و تجربہ وغیرہ) اس جگہ علم کے دوسرے معنٰی مراد ہیں ۔ یعنی ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعر گوئی کا ملکہ نہ دیا نہ یہ کہ ان کو اچھا برا صحیح غلط شعر مہچاننے کا شعور نہ دیا۔ دوسرے یہ کہ شعر کے دو معنٰی ہیں ایک تو وزن و قافیہ والا کلام ( غزل) دوسرے جھوٹی اور وہمی ہم نے ان کو جھوٹی اور وہمی باتیں نہ سکھائیں وہ جا کچھ فرماتے ہیں حق ہے۔ تیسرے یہ کہ شعر سے مراد اس جگہ اجمالی کلام ہے۔ یعنی ہم نے ان کو ہر چیز کی تفصیل بتائی ہے نہ کی معمے اور جمالی باتیں “ وتفصیلا لکل شئی علم“ بمعنی ملکہ قرآن کریم فرماتا ہے۔“ وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم“ اور ہم نے ان کو تمھارا ایک پہناوا بنانا سکھایا۔
وہلمی نے حضرت جابر سے روایت کیا۔
“ علموا بینکم الرمی“
یعنی اپنی اولاد کو تیر اندازی سکھاؤ۔
والاصخ انہ کان لا یحسنہ ولکن کان یمیز جید الشعر وردیہ۔
“ زیادہ صحیح یہ ہے کہ آپ شعر بخوبی پڑھتے نہ تھے لیکن اچھے اور ردی شعر میں فرق فرمالیتے تھے۔“
روح البیان یہ ہی آٰیت۔
انا المحرم علیہ انما ھو انشاء الشعر۔
آپ کے لئے شعر بنانا منع تھا۔ شعر کے معنٰی ہیں جھوٹا کلام کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم شعر ہے اور حضور علیہ السلام شاعر ہیں ۔ “ بل ھو شاعر“ اس شعر سے مراد تھی جھوٹا کلام تو ان کے اس بکواس کی تروید اسی آیت نے کردی کیونکہ فرمایا گیا۔ “ ان ھو الا ذکر و قرآن مبین“ وہ تو نہیں مگر نصیحت اور روشن قرآن یہاں اگر شعر سے مراد منظوم کلا ہو تو اس عبارت سے آیت کا کیا تعلق ہو گا۔
مدارک یہ ہی آیت
ای ما علمنا النبی علیہ السلام قول الشعر اوما علناہ بتعلیم القراٰن الشعر علٰی معنٰی ان القراٰن لیس بشعر ۔
“یعنی ہم نے نبی علیہ السلام کو شعر کہنا نہ سکھایا یا ہم نے ان کو قرآن کی تعلیم سے شعر نہ سکھایا۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم شعر نہیں۔“
خازن یہ ہی آیت
ولما نفٰی ان یکون القراٰن من جنس الشعر قال اللہ تعالٰی ان ھو الا ذکر و قراٰن مبین ہ
“ جبکہ اس کی تردید فرمادی کہ قرآن کریم شعر کی جنس سے ہو تو رب تعالٰی نے فرمادیا کہ نہیں ہے وہ مگر نصیحت اور روشن کتاب۔“
قیل ان کفار قریش قالوا ان محمدا شاعر وما یقولہ شعر فانزل اللہ تکذیبا لھم وما علمناہ الشعر۔
“ کہا گیا کہ کفار قریش نے کہا تھا کہ حضور علیہ السلام شاعر ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں (قرآن) وہ شعر ہے اس کی تکذیب کے لئے رب تعالٰی نے یہ آیے اتاری۔‘
تنبیہ :
اس جگہ مخالفین یہ سوال کرتے ہیں کہ روایات میں آیا ہے کہ نبی علیہ السلام کی زبان پاک شعر کے موافق نہ تھی یعنی آپ کوئی شعر پرھتے تو شعر بگڑ جاتا۔
دیکھو اسی خازن میں ہے۔
ای ما یسھل لہ ذلک وما یصلح منہ بحیث لو ارادا= نظم شعر لم یتات لذلک “ مدارک“ ای جعلناہ بحیث لو اراد قرءۃ شعر لم یتسھل۔
“ یعنی آپ کو شعر پرھنا اسان نہ تھا اور آپ سے درست نہ ادا ہوتا تھا اگر کسی شعر کو نظم فرمانیکا ارادہ فرماتے تو نہ ہو سکتا تھا یعنی ہم نے آپ کو اس طرح کیا ہے کہ آپ شعر پڑھنے کا ارادہ فرمادیں تو آسان نہ ہو۔“
تفسیر کبیر ۔
وما یتسھل لہ حتٰی انہ ان تمثل لہ بیت شعر سمع منہ مزاحقا۔
“ آپ کو شعر آسان نہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو ادا فرمانے کا ارادہ فرمادیں تو آپ سے ٹوٹا سنا جاتا ہے۔“
اس کا جواب یہ ہے کہ شعر کا علم اور ہے اور شعر کا پڑھنا اور بڑے بڑے شعر اور علماء گا کر پڑھ نہیں سکتے بہت سے نعت خواں اور قوال علم شعر نہیں رکھتے مگر شعر پڑھنے پر پورے قادر ہوتے ہیں۔ آپ روٹی پکانا جانتے نہیں مگر اچھی بری ، موٹی باریک خوب جان لیتے ہیں۔
آپ کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو شعر پڑھنے کا ملکہ اور مشق نہ تھی ۔ نہ کہ شعر کی پہچان تھی۔ یہ ہی ہم نے کہا تھا ۔ حضور علیہ السلام کو بعض شعر پسند تھے اور بعض نا پسند۔
کان اھب الحدیث علیہ السلام الشعر وایضا کان ابغض الحدیث الیہ علیہ السلام الشعر ۔
“ حضور علیہ السلام کو شعر بہت پسند بھی تھا اور نہایت نا پسند بھی۔“
نیز احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے بعج شعراء کے شعر پڑھے ہین اور ان کی تعریف فرمائی جیسے کہ “ لا کل شئی ما خلا اللہ باطلا “ اگر اچھے برے شعر کی پہچان نہین تو یہ تعریف فرمانا کیا؟ شعر سے مراد اجھمالی یعنی غیر مفصل کلام اور معمے ہیں۔
روح البیان میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
قال الشیخ الاکبر اعلم ان الشعر محل للاجمال واللغز و التوریۃ ای ما رمزنا محمدا علیہ السلام شئیا ولا الغزنا ولا خطبناہ بشئی و نحن نرید شیئا ولا جعلناہ لہ الخطاب حیث لم یفھم ۔
“ جاننا چاھئیے کہ شعر اجمالی اور پھسلنے اور اشاروں کا مقام ہے یعنی ہم نے حضور علیہ السلام کے لئے کسی چیز کے اشارے نہ کئے اور نہ یہ کیا کہ ہم نے ارادہ کچھ فرمائیں اور خطاب کچھ کریں اور ان سے اسطرح اجمالی کلام نہ فرمایا کہ سمجھ میں نہ آوے۔‘
6۔ منھم من قصصنا علیک و منھم من لم نقصص علیک۔ ( پارہ 24 سورہ 40 آیت 78)
“ ان نبیوں میں سے کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔“
اس آیت کی تفسیر میں چند توجھیں فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں تمام انبیاء کے حالات کا علم دینے کی نفی نہیں ۔ بلکہ قرآن کریم میں صراحۃ ذکر کی نفی ہے ۔ یعنی بعض انبیاء کے واقعات صراحۃ بیان نہ فرمائے ۔ دوسرے یہ کہ ذکر تفصیلی کی نفی ہے ۔ اور اجمالی ذکر سب کا فرمایا گیا ۔ تیسرے یہ کہ وحی ظاہر میں سب کا بیان نہ ہوا۔ وحی خفی میں سب کا ذکر فرمایا گیا۔
تفسیر صاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
ان النبی علیہ السلام لم یخرج من الدنیا حتٰی علم جمیع الانبیاء تفصیلا کیف لا وھم مخلقون منہ و خلفھم لیلۃ الاسرآء فی بیت المقدس ولکنہ العلم المکنون وانما ترک بیان قصصھم لامتہ رحمۃ بھم فلم یکلفھم الا بما کانوا یطیقون ۔
“حضور علیہ السلام دنیا سے تشریف نہ لے گئے یہاں تک کہ تمام انبیاء کو تفصیلا جان لیا۔ کیونکر نہ جانیں وہ سب پیغمبر آپ ہی سے پیدا ہوئے اور شب معراج بیت المقدس میں آپ کے مقتدی بنے لیکن یہ علم مکنون ہے اور ان پیغمبروں کے قصے چھوڑ دئیے امت کے لئے ان پر رحمت فرماتے ہوئے پس انکو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔“ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد اول صفحہ 50 میں ہے۔
ھذا لا ینافی قولہ تعالٰے منھم من لم تفصص علیک لان امنفی ھو التفصیل والثابت ھو الاجمال او النفی مقید بالوحی الجلی والثبوت متحقق بالوحی الخفی۔
یہ کلام اس آیت کے خلاف نہیں لپ “ منھم من لم نقصص علیک“ کیونکہ نفی تو علم تفصیلی کی ہے اور ثبوت علم اجمالی کا ہے یا نفی وحی ظاہر (قرآن) کی ہے۔ اور ثبوت وحی خفی ( حدیث) کا ہے۔
قرآن فرماتا ہے :
کلا نقص علیک من انباۃ الرسل ما نثبت بہ فؤادک۔
“ اور سب کچھ ہم تم کو رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمھارا دل ٹھرائیں۔“
7۔ یوم یجمع اللہ الرسل فیقول ماذا اجبتم قالوالا علم لنا انک انت علام الغیوب۔ (پارہ 7 سورہ 5 آیت 105)
“ جس دن اللہ جمع فرمادیگا رسولوں کو ۔ پھر فرما دیگا کہ تم کو کیا جواب ملا۔ عرض کرینگے میں کچھ علم نہیں بے شک تو ہی غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔“
مفسرین نے اس آیت کریمہ کہ دو توجھیں فرمائی ہیں اولا یہ کہ خدایا تیرے علم کے مقابلے میں ہم کو علم نہیں ۔ دوسرے یہ کہ ادبا یہ عرض کیا گیا ۔ تیسرے یہ کہ قیامت میں جس وقت نفسی نفسی فرمانے کا وقت ہو گا اس وقت انبیاء کرام یہ فرمائیں گے ۔ بعد میں عرض کریں گے ہم نے اپنی قوم کو تبلیغ احکام کی مگر انہوں نے نہیں مانا۔ وہ کفار کہیں گے ہم کو احکام نہ پہنچے ۔ جس پر امت مصطفٰی علیہ السلام انبیائے کرام کی گواہی دے گی۔
تفسیر خازن میں اسی آیت کے ماتحت ہے۔
فعلی ھزا القول انما نفو العلم عن نفسھم وان کانوا علماء لان علمھم صار کلا علم عند علم اللہ۔
“ پس اس قول کی بناء پر پیغمبروں نے اپنی ذات سے علم کی نفی کی اگرچہ وہ جانتے تھے کیونکہ علم اللہ کے علم کے سامنے مثل نہ ہونے کے ہو گیا۔“
مدارک:
قالوا ذلک تاذبا ای علمنا ساقط مع علمک فکانہ لا علم لنا۔
“ ان انبیاء نے عرض کیا ادبا یعنی ہمارا علم تیرے علم کے ساتھ ساقط ہے پس گویا ہم کو علم ہی نہیں۔“
تفسیر کبیر یہ ہی آیت۔
ان السل علیھم السلام لما علموا ان اللہ عالم لا یجھل حلیم لا یسفہ عادل لا یظلم علموا ان فوقھم لا یفید خیرا ولا یدفع شرا فالادب فی السکوت و تفویض الامر الٰی اللہ و عدلہ فقالوا لا علم لنا۔ بیضاوی یہ ہی آٰیت۔ وقیل العنٰے لا علم لنا الٰی جنب علمک۔
“ (خازن) انبیاء کرام نے جب جان لیا کہ اللہ عالم ہے بے علم نہیں۔ حلیم ہے سفیہ نہیں۔ انصاف والا ہے ظالم نہیں۔ وہ سمجھ گئے کہا ن کی بات نہ تو بھلائی کا فائدہ دے گی اور نہ مصیبت کو دفع کرے گی۔ پس ادب خاموشی میں ہے اور معاملہ کو عدل کیطرف سپرد کردینے میں لہذا انہوں نے عرض کر دیا کہ ہم کو علم نہین کہا گیا ہے کہ آٰت کے معنٰی یہ ہیں کہ ہم کو تیرے علم کے مقابل علم نہیں۔“
روح البیان یہ ہی آیت:
ان ھذا الجواب یکون فی بعض مواطن القیٰمۃ وترجع عقولھم الیھم فیشھدون علٰی قومھم انھم بلغوا الرسالہ وان قومھم کیف رذو علیھم۔
“ یہ جواب قیامت کے بعض موقعوں پر ہو گا ۔ اور اس کے بعد حواس قائم ہوں گے تو اپنی قوم پر گواہی دیں گے کہ ہم نے رسالت کی تبلیغ فرمادی اور ہماری قوم نے کیا جواب دیا۔ ( ملخصا)
8۔ وما ادری ما یفعل بی ولا بکم۔
“اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جاویگا اور تمہارے ساتھ کیا۔“
اس سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو نہ تو اپنی خبر تھی۔ نہ کسی اور کی کہ قیامت میں ہم سے کیا معاملہ کیا جاویگا۔ لیکن اس کی تفسیر میں مفسرین کے دو قول ہیں۔ اولا یہ کہ اس روایت میں روائیت کی نفی ہے نہ کہ علم کی۔ ورائت اٹکل اور قیاس سے جاننے کو کہتے ہیں۔ یعنی میں بغیر وحی اپنے قیاس سے یہ امور نہیں جانتا۔ وحی سے جانتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ یہ آیت حضور علیہ السلام کو یہ باتیں بتانے سے پہلے کہ ہے۔ لہذا یہ منسوخ ہے۔
تفسیر صاوی میں ہے یہ ہی آیت۔
ماخرج علیہ السلام من الدنیا حتٰی علمہ اللہ فی القراٰن ما یعمل بہ و بالمومنین فی الدنیا و الاٰخرۃ اجمالا و تفصیلا۔
“ کہ ان سے مومنین سے اور کافروں سے دنیا اور آخفت میں کیا کیا جاوےگا ۔ کہ ان سے اور مومنین سے اور کافروں سے دنیا اور آخرت میں کیا کیا جاوےگا۔“
ملا عند الرحمان محمد و مشقی رسالہ ناسخ و منسوخ میں فرماتے ہیں۔
وما ادری ما یفعل بی ولا بکم نسخ بقولہ انا فتحنا لک ۔۔۔ آیت ۔۔۔۔ ما ادری ۔۔۔۔ منسوخ ہے۔ انا فتحنالک سے۔
تفسیر خازن میں اسی آٰیت کے ما تحت ہے۔
لما نزلت ھذہ الاٰیۃ فرح المشرکون فقالوا واللات والعزٰی ما امرنا وامر محمد الا واحد او مالہ علینا من مزیۃ و فضل لو لا انہ ما ابتدع ما یقولہ لا خبرہ الذی بعثہ بما یفعل بہ فانزل اللہ عزوجل لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک ( الاٰ یۃ) فقالت الصحابۃ ھنیئا لک یا نبی اللہ قد علمت ما یفعل بک فماذا یفعل بنا فانزل اللہ لیدخل المؤمنین والمؤمنات جنت ( الاٰیۃ) وانزل وبشر المؤمنین بان لھم من اللہ فضلا کبیرا وھذا قول انس وقتادۃ و عکرمۃ قالوا انما ھذا قبل ان یخبر بغفران ذنبہ وانما اخبر بغفران ذنبہ عالم الحدیبیۃ فنسخ ذلک۔
“جب یہ آٰیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزٰی کی قسم ہمارا اور حضور علیہ السلام کا تو یکساں حال ہے انکو ہم پر کوئی زیادتی اور بزرگی نہیں اگر وہ قرآن کو اپنی طرف سے گھڑ کر نہ کہتے ہوتے تو ان کو بہیجنے والا خدا انہیں بتا دیتا کہ ان سے کیا معاملہ کریگا تو رب نے یہ آیت اتاری “ لیغفرلک اللہ ما تقدم“ پس صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو آپ نے تو جان لیا جو آپ کے ستاھ ہو گا ہم سے کیا معاملہ کیا جاویگا تو یہ آیت اتری کہ داخل فرمائیگا اللہ مسلمان مرد اور عورتوں کو جنتوں میں ( آلاٰیۃ) اور یہ آیت اتری کہ مسلمانوں کو خوشخبریدیجیئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے یہ حضرت انس اور قتادہ و عکرمہ کا قول ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت سے پہلے کی ہے جبکہ حضور علیہ السلام کو ان کی مغفرت کی خبر دی گئی مغفرت کی خبر آپکو حدیبیہ کے ساک دی گئی تو یہ آیت منسوخ ہو گئی۔“
اگر کوئی کہے کہ آیت “لاادری“ خبر ہے اور منسوخ نہیں ہو سکتی تو اس کے چند جواب ہیں ایک یہ کے بہت سے علماء تسخ خبر جائز کہتے ہیں۔ جیسے۔۔ “ وان تبدوا“ ( الآیۃ) لا یکلف نفسا سے منسوخ ہے ایسے ہی لا ادری کو ابن عباس و انس و ابن مالک رضی اللہ عمھم نے انا فتحنا لک سے منسوخ مانا ( تفسیر کبیر در منثور ابو السعود) دوسرے یہ کہ یہاں گویا فرمایا گیا۔ قل لا ادری اور قل امر ہے ۔ تسخ کا تعلق اسی سے ہے ۔ تیسرے یہ کہ بعض آیات صورت میں خبر اور معنٰی میں حکم ہیں۔ جیسے کتب علیکم الصیام باللہ علٰی الناس حج البیت وغیرہ ان جیسی خبروں کا نسخ جائز ہے چوتھے یہ کہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ ان تفاسیر اور احادیث پر ہے جس سے نسخ ثانت ہے۔
اگر اس آیت کے مذکورہ بالا مطلب نہ بہان کئے ھاویں تو صدہا احادیث کی مخالفت ہوگی حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن “ لواء الحمد“ ہمارے ہاتھ میں ہوگا آدم و آدمیان ہمارے جھنڈے کے نیچے ہونگے۔ شفاعت کبرٰی ہم فرمائیں گے ۔ ہمارا حوض ایسا ہوگا ۔ اس کے برتن اس طرح ہونگے وغیرہ وغیرہ ابو بکر جنتی ہیں۔ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ فاطمہ زہرا خواتین جنت کی سردار ہیں۔ کسی کو فرمایا تو جھنمی ہے۔ ایک آدمی بہت اچھا جہاد کر رہا ہے صحابہ کرام نے اس کی تعریف کی فرمایا کہ وہ جہنمی ہے ۔ آخرکار اس نے خودکشی کی۔ اگر معاذ اللہ حضور علیہ السلام کو اپنی بھی خبر نہ ہوتو اپنی اور دیگر حضرات کی خبریں کس طرح سنا رہے ہیں وہ تو جس کے ایمان کی رجسٹری فرمادیں۔ وہ کامل مؤمن ہے۔ اس جگہ بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر اختصارا اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ، خدا درست سمجھ عطا فرمادے آمین۔
9۔ لا نعلمھم نحن تعلمھم ( پارہ 11 سورہ 9 آیت 101)
“ تم انکو نہیں جانتے ہم انکو جانتے ہیں۔“
اس آیت سے مخالفین دلیل پکڑتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دربار میں آنے والے منافقوں کو نہ پہچانتے تھے پھر علم غیب کیسا ؟ مگر مفسرین نے اس آیت کی توجہیہ کی ہے کہ اس آیت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی “ ولتعرفھمفنھم فی لحن القول“ اور ضرور تم ان کو بات کے طریقے سے پہچان لوگے لہذا یہ آیت منسوخ ہے یا تو یہ توجہیہ ہے کہ بغیر ھمارے بتائے انکو نہیں پہچانتے۔
جمل میں اسی آیت کے ما تحت ہے ۔
فان قلت کیف نفی عنہ علم بحال النافقین واثبتہ فی قولہ تعالٰٰی و لتعرفھم فی لحن القول فالجواب ان اٰیۃ النفی نزلت قبل اٰیۃ الاثبات۔
اسی جمل میں زیر آیت۔
“ ولتعرفھم فی لحن القول“ ہے فکان بعد ذلک لا یتکلم منافق عند النبی علیہ السلام الا عرفیہ ویستدل علٰٰی فساباطنہ و نفاقہ۔
اگر تم کہو کہ حضور علیہ السلام کے منافقین کا حال جاننے کی نفی کیوں کی گئی حالانکہ آیت “ ولتعرفھم فی لحن القول“ میں اس کے جاننے کا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفی کی آیت کا ثبوت کی آٰیت سے پہلے اتری ہے اس آیت کے بعد کوئی بھی منافق حضور علیہ السلام کی حرفت میں کلام نہ کرتا تھا۔ مگر حضور علیہ السلام ان کو پہچان لیتے تھے اور اس کے فساد باطن اور نفاق پر دلیل پکڑتے تھے۔
تفسیر بیضاوی یہ ہی آیت۔
خفی علیک حالھم مع کمال فطنتک وصدق فراستک۔
“ آپ پر ان کا حال باوجود آپ کی کمال سمجھ اور سچی پردم شناسی کے مخفی رہ گیا۔“
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اندازہ سے پتہ لگا لینے کی نفی ہے۔ اگر اس آیت کی یہ توجہیہں نہ کی جاویں تو ان احادیث کی مخالفت ہوگی جن سے ثابت ہے کہ حضور علیہ السلام منافقوں کو پہچانتے تھے ۔ مگر پردہ پوشی سے کام لیتے تھے۔
عینی شرح بخاری جلد صفحہ 221 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
خطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یوم الجمعۃ فقال اخرج یا فلان فانک منافق فاخرج منھم ناسا ففضحھ۔
“ حضور علیہ السلام نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا۔ پس فرمایا کہ اے فلاں نکل جا کیونکہ تو منافق ہے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو رسوا کر کے نکال دیا۔“
شرح شفا ملا علی قاری جلد اول صفحہ 241 میں فرماتے ہیں۔
عن ابن عباس کان امنفقون من الرجال ثلثۃ مائۃ ومن النساء مائۃ و سبعین۔
“ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منافقین مرد تین سو تھے اور عورتیں ایک سو ستر۔“
ہم اثبات علم غیب میں ایک حدیث پیچ کر چکے ہیں ۔ جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم پر ہماری امت پیچ کی گئی۔ لہذا ہم نے منافقوں اور کفار اور مومنین کو پہچان لیا۔ اس پر منافقین نے اعتراج کیا اور قرآن کی آیت ان کے جواب کے لئے آئی۔ ان سب دلائل میں مطابقت کرنے کے لئے یہ توجہیہ کرنا ضروری ہے۔ نیز یہ کلام اظہار غضب کے لئے ہوتا ہے اگر بچہ باپ کو مارنے لگے اور کوئی باپ سے بچائے تو وہ کہتا ہے کہ اس خبیث کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں ۔ اس سے علم کی نفی نہیں۔
10۔ رب تعالٰی فرماتا ہے ۔
“ ولا تصل علٰی احد منھم مات ابدا“
حضور علیہ السلام نے عبد اللہ ابن ابی منافق کی نماز جنازہ یا تو پڑھ لی یا پڑھنا چاہی فاروق اعظم نے منع کیا ۔ مگر ان کی عرض نہ سنی تب یہ آیت اتری ۔ جس میں آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے روکا گیا۔ اگر علم غیب تھا تو منافق کا جنازہ کیوں پڑھا ؟
جواب:
اس منافق کا حضرت عباس پس کچھ احسان تھا اور اسکا فرزند مخلص مومن تھا اور خود اس منافق نے اصیت کی تھی کہ میرا جنازہ حضور پڑھائیں ۔ اس وقت اس کی ممانعت نہ تھی۔ لہذا دینی مصلحت سے اجازت پر عمل کیافرمایا ۔ تفسیر کبیر و روح البیان نے فرمایا کہ اس کی وصیت علامت توبہ تھی اور شریعت کا حکم ظاہر پر ہے ۔ جس پر حضور علیہ السلام نے عمل فرمایا ۔ رب کو منظور نہ تھا کہ حبیب کا دشمن ظاہری عزت بی پاوے لہذا قرآن کریم نے حضرت فاروق کی تائید فرمادی غرضیکہ اس مسئلہ کو علم غیب سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کا منافق ظاہر ہونا تھا۔ مگر اس کی نماز میں بہت سی مصلحتیں تھیں کریم کا کرم غیر اختیاری ہوتا ہے۔ اور پھر کیسے ہو سکتا ہے کہپ فاروق اعظم کو پتہ لگ جائے مگر حضور کو پتہ نہ لگے۔
11۔ ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ ( پارہ 15 سورہ 17 آیت 85)
“ اور تم سے روح کو پوچھتے ہیں۔ تم فرماؤ کہ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تم کو علم نہ ملا مگر تھوڑا۔“
مخالفین اس آیت سے دلیل لاتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو روح کا علم نہ تھا کہ روح کیا چیز ہے لہذا آپ کو علم غیب کلی نہ ہوا اس میں تین امور قابل غور ہیں۔ اولا یہ کہ اس آیت میں یہ کہاں ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کو یہ علم نہ دیا۔ یا حضور علیہ السلام نے کہاں فرمایا کہ مجھے روح کا علم نہیں ملا۔ لہذا اس آیت کو نفی علم روح کی دلیل بنانا محض غلط ہے۔ اس میں تو پوچھنے والے کافروں سے فرمایا گیا کہ تم کو علم بہت تھوڑا سا دیا گیا ہے کہ تم کو روح کی حقیقت کا علم نہیں دوسرے یہ کہ “ قل الروح من امر ربی“ کے معنٰی حضرت قبلہ عالم پہر علی شاہ صاحب فاضل گولڑوی علیہ الرحمتہ نے سیف چشتیائی میں حضرت محی الدین ابن عربی سے یہ نقل فرمایا کہ “ قل الروح من امر ربی“ فرمادو کہ روح امر ربی سے ہے ۔ یعنی عالم بہت سے ہیں عالم عناصر ، عالم امر ، عالم امکان وغیرہ تو روح عالم امر کی چیز ہے اور تم لوگ عالم عناصر کے تم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے کیونکہ اے کافرو تم کو تھوڑا علم دیا گیاہے۔
روح البیان میں زیر آیت
“ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار“ ہے۔ لانہ تجاوز فی تلک اللیلۃ عن عالم العناصر ثم عن عالم الطبعیۃ ثم عن عالم الارواح حتٰی وصل الٰی عالم الامر و عین الراس من عالم الاجسام فانسلخ عن الکل وراٰی ربہ بالکل۔
حضور علیہ السلام معراج کی رات عالم عناصر سے آگے بڑھے پھر عالم طبیعت سے پھر عالم ارواح سے یہاں تک کہ عالم امر تک جا پہنچے اور سر کی آنکھ سے عالم اجسام سے ہے پس آپ کی ان تمام چیزوں سے علیحدہ ہو گئے اور رب تعالٰٰ کو کل ذات سے دیکھا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ شب معراج میں حضور علیہ السلام نے عالم امر کی سیر ہی نہیں بلکہ خود بھی عالم امر میں سے بن گئے ۔ اور اپنے رب کو دیکھا۔ اور اسی عالم امر کی روح بھی ہے۔ پھر آپ پر روح کیونکر مخفی رہ سکتی۔ جس طرح ہم کو جسموں کو جانتے پہچانتے عیسٰی علیہ السلام آدھے بشر اور آدھے روح تھے کیونکہ حضرت مریم تو بشر تھیں اور حضرت جبریل روح “ فارسلنا الیھا روحنا“ ہم نے حضرت مریم کے پاس اپنی روح یعنی جبریل بھیجا ۔ اور آپ کی پیدائش حضرت جبریل کی پھونک سے ہوئی۔ اس لئے دونوں امور آپ میں موجود ہیں۔
فتوحات کلیہ باب 575 میں شیخ اکبر فرماتے ہیں۔
فکان نصفہ بشرا و نصفہ الاٰخر روحا مطھرا ملکا لان جبریل وھبہ لمریم۔
“ حضرت مسیح نصف بشر اور نصف دوم پاک روح ہیں۔ کیونکہ جبریل نے حضرت مریم کو انہیں بخشا۔“
اور ان کی پیدائش بھی حضور علیہ السلام کے نور سے ہے ۔ تو گویا حضور علیہ السلام از سر تا پا روح ہیں۔
روح البیان نے اسی آیت “ لا تدرک“ کے ماتحت لکھا ہے۔
الحقیقت المحمدیۃ ھی حقیقۃ الحقائق وھو الموجود العام الشامل۔
“ حقیقت محمدیہ تمام حقیقتوں کی حقیقت ہے اور وہ ہی وجوہ عام ہے۔“
لہذا آیت کے معنٰی یہ ہوئے کہ روح وہ جو امر یعنی کن سے بلاواطہ پیدا ہوا۔ اور وہ حقیقت محمدیہ ہے ۔ کہ بلا واسطہ ان کی پیدائش ان کے نور سے ہے مطلب یہ ہوا کہ عالم کی روح حقیقی میں ہوں۔ تفسیر کبیر نے اس جگہ فرمایا کہ یہاں روح سے قرآن یا جبریل مراد ہیں۔ کفار نے سوال کیا تھا کہ قرآن کیا ہے شعر ہے یا کہانت؟ جبریل کون ہیں؟ اور کیسے آتے ہیں؟ جواب دیا گیا کہ قرآن امر الہٰی ہے نہ شعر ہے نہ جادو ۔ جبیل امر الہٰی سے آتے ہیں۔
“وما یتنزل الا بامر ربک “ اسی کبیر میں ہے۔ “ فاذا کان معرفت اللہ تعالٰی ممکنۃ بل حاصلۃ فای مانع یمنع من معرفۃ الروح“ جب حضور علیہ السلام خدا کو پہچانیں تو روح کو کیوں نہ پہچانیں۔“
تیسرے یہ کہ مفسرین و محدثین نے تصریح فرمائی کہ حضور علیہ السلام کو روح کا علم تھا۔
تفسیر خازن نے اسی آٰیت کے ما تحت لکھا۔
قیل ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم معنٰی الروح لکن لم یخبربہ لان ترک الاخبار کان علما لنبؤتہ والقول الاصخ ان اللہ استاثر بعلم الروح۔
“ کہا گہا ہے کہ نبی علیہ السلام کو حقیقت روح معلوم تھی لیکن اسکی خبر نہ دی کیونکہ یہ خبر دینا آپکی نبوت کی علامت اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالٰی علم روح سے خاص ہے ۔ اس عبارت میں علم روح ماننے والوں کو مشرک نہ کہا گیا اور نہ ان کے قول کو غلط بتایا۔“
تفسیر روح البیان اسی آٰیت کی تفسیر میں ہے۔
جل منصب حبیب اللہ ان یکون جاھلا بالروح مع انہ عالم باللہ وقد من اللہ علیہ بقولہ و علمک مالم تمن تعلم۔
“ حضور علیہ السلام کی شان اس سے بلند ہے کہ آپ روح سے نا واقف ہوں حالنکہ آپ اللہ سے واقف ہیں رب نے آپ پر احسان جتایا کہ فرمایا جو کچھ آپ نہ جانتے تھے وہ آپ کو بتا دیا۔“
تفسیر مدارک یہ ہی آیت۔
وقیل کان السوال عن خلق الروح یعنی مخلوق ام لا لقولہ من امر ربی دلیل خلق قلروح فکان جوابا۔
“ کہا گیا ہے کہ سوال روح کی پیدائش سے متعلق تھا کہ روح مخلوق بھی ہے یا نہیں اور رب کا فرمان “ من امر ربی“ روح کے مخلوق ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ جواب ہو گیا۔‘
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں روح کا علم نہ ہونے سے بحث ہی نہیں ہو رہی ہے یہاں تو ذکر مخلوقیت روح کا ہے۔
مدارج النبوت جلد دوم صفحہ 40 وصل ایذا رسانی کفار فقراء صحابہ میں شیخ فرماتے ہیں۔
چہ کونہ جرات کند مومن عارف کی نفی علم بحقیقت روح از سید المرسلین و امام العارفین کند و داوہ است اور اھق سبحانہ ، علم ذات و صفات خود فتح کردہ برائے او فتح مبین از علوم اولین و آخرین روح انسانی چہ باشد کہ در جنب جامعیت وے قطرہ ایست از در یا وذرہ ایست از بیدا۔
احیاء العلوم میں امام غزالی فرماتے ہیں ۔
ولا تطن ان ذلک لم یکن مکشوفا لرسول اللہ علیہ السلام فان من لمیعرف نفسہ فکیف یعرف اللہ سبحنہ فلا ان یکون ذلک مکشوفا لبعض الاولیاء و العلماء۔
“ مومن عارف یہ ہمت کس طرح کر سکتا ہے کہ حضور علیہ السلام سے حقیقت روح کے علم کی نفی کرے حالانکہ رب نے انکو اپنی ذات و صفات کا علم دیا ہے اور ان پر علوم اولین و آخرین کھول دئے حضور علیہ السلام کے علم کے مقابل روح انسانی کی کیا حقیقت ہے وہ تو اس دریا کا ایک قطرہ اور جنگل کا ایک ذرہ ہے۔ تم یہ گما نہ کرنا کہ روح حضور علیہ السلام کو نہ تھی۔ کیونکہ جو آپ کو نہ پہچانے گا ۔ وہ اللہ کو کس طرح پہچان سکتا ہے یہ بھی بعید نہیں کہ روح بعض اولیا و علماء کو ظاہر ہو۔
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم روح عطا ہوا بلکہ حضور کے صدقے سے بعض علماء و اولیاء کو بھی ملا۔ بعض لوگوں نے اس کا انکار بھی کیا۔ مگر وہ بلا دلیل ہے ۔ بغیر ثبوت و نفی کے دلائل ہوں تو ثبوت کو اختیار کرنا چاہیئے جیسا کہ ہم قاعدہ اصول کا بیان کر چکے ہیں۔
12۔ عفا اللہ عنک لما اذنت لھم۔
غزوہ تبوک میں بعض منافقین نے غلط بہانہ کر کے شرکت نہ کی۔ حضور علیہ السلام کو ان کی حیلہ سازی کا پتہ لگا اور انہیں جہاد میں نہ جانے کی اجازت دے دی اس آیت میں آپ پر عتاب فرمایا گیا کیوں کہ اجازت دے دی۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا۔ تو اصل حال آپ پر ظاہر ہوتا۔
جواب:- نہ اس آیت میں آپ پر عتاب ہے اور نہ حضور علیہ السلام ان کے فریب سے بے خبر ہیں۔ بلکہ حضور علیہ السلام نے انکی پردہ پوشی فرماتے ہوئے اجازت دی ۔ رب نے فرمایا کہ اے مجرموں کے پردہ پوش! آپ نے ان کو رسوا کیوں نہ کیا ؟ عتاب غلطی پر ہوتا ہے یہاں غلطی کون سی تھی؟ “ عفا اللہ“ کلمہ دعائیہ ہے نہ کے عتاب۔
No comments:
Post a Comment