Wednesday, 27 April 2016

مسئلہ ظل النبی (سایہ رسول) ﷺ پر تحقیقی نظر اور دلا ئل نفی واثبات کاجا ئزہ

تقریباً ایک مہینہ ہوگیا (حضرت غزالیٔ زماں علیہ الرحمہ نے یہ بات ماہنامہ 148السعید147 ملتان، (ظل نمبر)شمارہ، شوال ۱۳۷۹ھ/اپریل ۱۹۶۰ء کے ص ۹ پر لکھی)کہ مختلف اور متعدد مقامات سے احباب کے پیغامات آرہے ہیں کہ ماہنامہ تجلی دیوبنداور ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہوروغیرہ رسائل میں حضور نبی کریم ﷺ کے جسم اقدس کا تاریک سایہ ثابت کرنے کے لئے زور دار مضامین شائع کئے گئے ہیں اور اعلیٰ حضرت بریلوی ؒ نے جو ایک رسالہ "نفی الفیء عمن اناربنورہ کل شیء" حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے پر تحریر فرمایا ہے، اس پر اچھی طرح پھبتیاں کسی گئی ہیں اور اس کا خوب مذاق اڑایا گیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ صحیح حدیثوں سے حضور ﷺ کا سایہ ثابت کیا گیا ہے جنہیں پڑھ کر عامۃ المسلمین نہایت مضطرب اور متعجب ہیں، اس لئے ان حدیثوں کے جوابات اور اعلیٰ حضرت ؒ کے رسالہ مبارکہ کی تائید و توضیح نہایت ضروری ہے تاکہ مسلک اہل سنت بے غبار ہوجائے اور کسی قسم کا خلجان (شک و شبہ) باقی نہ رہے، اس سلسلہ میں ہم سب سے پہلے موصول شدہ خطوط (موصول شدہ خطوط میں ایک خط مولانا ابودائود محمد صادق صاحب نگران اخبار "رضائے مصطفیٰ" گوجرانوالہ کا ہے اور ایک خط مرزا ریاض احمد صاحب حافظ آبادی کا ہے جو امام اہل سنت حضرت قبلہ علامہ ابوالبرکات صاحب شیخ التفسیر والحدیث دارالعلوم حزب الاحناف کے نام آیا تھا اور دفتر ماہنامہ رضوان لاہور سے فقیر کو موصول ہوا۔احمد سعید کاظمی) سے منکرین نور مصطفیٰ ﷺ کے مضامین کا خلاصہ ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
1- ماہنامہ تجلی دیوبند نے لکھا ہے
بہت سی غلط باتوں کی طرح ایک یہ بات بھی شہرہ پاگئی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کا سایہ نہیں تھا، بعض سادہ فطرت اور جذباتی اسلاف نے تو اس بے اصل خیال کا چرچا کیا ہی تھا لیکن ہندوستان میں اسے پھیلانے کی ذمہ داری قبرپرستوں پر عموماً اورمولانااحمد رضا خان صاحب پر خصوصاً ہے، انہوں نے "اناہ الفی" نام سے ایک کتابچہ لکھا تھا جس میں اپنے معروف علم کلام کے ذریعہ سے اس بے اساس عقیدے کو حقیقت ثابتہ منوانے کی کوشش کی تھی، نتیجہ ظاہر ہے ان کے معتقدین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بات پھیل گئی۔
(ماہنامہ تجلی دیوبند، ص۱۱، بابت فروری ۱۹۵۹ء)
اس کے بعد ماہنامہ تجلی میں لکھتے ہیں
"دیوبندی مکتبۂ فکر کو اگر ایک عمارت سمجھ لیا جائے تو کون نہیں جانتا کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اس کے ایک ستون رہے ہیں ان کا فتویٰ ملاحظہ ہو۔فتاویٰ رشیدیہ جلد اول (مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دہلی) میں عنوان ہے۔ "حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہ پڑنے کی حدیث کا موضوع ہونا"، اس کے تحت ایک سائل کے جواب میں مولانا لکھتے ہیں "سائل نے اسی روایت کا ذکر کیا تھا جو الخصائص الکبریٰ کے واسطہ سے مفتی کا مستدل ہے، یہ روایت کتب صحاح میں نہیں اور نوادر کی روایت کا بندہ کو حال معلوم نہیں کہ کیسی ہے، نوادرالاصول حکیم ترمذی کی ہے نہ کہ ابو عیسیٰ ترمذی کی"۔
(ماہنامہ تجلی دیوبند، شمارہ، فروری، مارچ ۱۹۵۹ء؁، ص۱۲، کالم۲)
نیز صفحہ نمبر ۱۳ پر ماہنامہ تجلی میں مرقوم ہے!
"الحاصل اوّل تو ایک ایسے عامۃ الورود واقعہ میں تمام صحابہ کا سکوت اور صرف ایک حدیث مرسل کا اس میں مذکور ہوناہی علامت قویہ، روایت کے غیر ثابت وغیر معتبر ہونے کی ہے۔ ثانیاً روایت مرسل ہے۔ ثالثًا اس کا راوی بالکل کاذب واضع حدیث ہے، جس سے اگر حدیث کو موضوع کہہ دیا جائے تو بعید نہیں"۔
(ماہنامہ تجلی دیوبند، بابت ماہ فروری، مارچ ۱۹۵۹ء؁، ص۱۳)
منکرین کے مضامین کا یہ خلاصہ مرزا ریاض احمد صاحب حافظ آبادی کے مکتوب سے لیا گیا ہے۔
2- اب مولانا ابودائود محمد صادق صاحب نگران "رضائے مصطفیٰ" گوجرانوالہ کے مکتوب گرامی سے ہم ان حادیث کو پیش کرتے ہیں جو مولانا ممدوح نے منکرین کے رسائل وجرائد سے نقل فرمائی ہیں اور منکرین نے ان کو حضور ﷺ کے سایہ کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔
حدیث نمبر ۱۔ مسند امام احمد میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے، اس میں ایک گھریلو شکر رنجی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اُم المومنین فرماتی ہیں فبینما انا یومًا بنصف النھار اذا انا بظل رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم مقبل۔ پس ایک دن دوپہرکے وقت دفعۃً رسول اللہ تشریف لائے اور میں نے پہلے ان کا سایہ ہی دیکھا۔
حدیث نمبر ۲۔ ایک حدیث حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب "حادی الارواح الی بلاد الافراح" میں بیان کی ہے، اس میں حضور ہی کی زبان مبارک سے "ظلی و ظلکم" (میرا اور تمہارا سایہ) کے الفاظ صادر ہوئے ہیں، یہ روایات نہ مرسل ہیں نہ ان کا کوئی راوی ساقط الاعتبار ہے۔
(ماہنامہ تجلی، دیوبند، شمارہ فروری، مارچ۱۹۵۹ء، ص۱۸۔ رسالہ"ظل نبی"، ص۶، ۷)
حدیث نمبر۳۔ آٹھویں صدی کے مشہور محدّث حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد، جلد چہارم، طبع قاہرہ کے صفحہ323 پر نقل کی ہے اور اس کے تمام راویوں کی توثیق فرمائی ہے، امید ہے آپ اس پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
عن عائشۃ قالت کان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فی سفر ونحن معہٗ فاعتل بعیر لصفیۃ وکان مع زینب فضل فقال لھا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ان بعیر صفیۃقداعتل فلواعطیتھا بعیرا لک قالت انما اعطی ھذہ الیھودیۃ فغضب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم وھجرھا بقیۃ ذی الحجۃ ومحرم وصفر وایاماً من شھر ربیع الاول حتی رفعت متاعھا وسریرھا وظنت انہ لا حاجۃ لہ فیھا فبینما ھی ذات یوم قاعد ۃ بنصف النھار اذ رأت ظلہ قد اقبل فاعاد ت سریرھا ومتاعھا۔
( ہفت روزہ 148تنظیم اہل حدیث147 لاہور، شمارہ ۸؍ جنوری ۱۹۶۰ء، ص۴)
احباب کے خطوط سے منکرین کے دلائل کا جو مواد ہمارے سامنے آیاوہ من وعن ناظرین کرام کی خدمت میں ہم نے پیش کردیا، منکرین کی تحریروں میں سے صرف ایک رسالہ "ظل نبی" منظوم بزبان پنجابی ہماری نظر سے گذرا ہے، ماہنامہ تجلی دیوبند ہمیں نہیں ملا، نہ مجمع الزوائد دستیاب ہوسکی، البتہ مسند امام احمد میں منکرین کی پیش کردہ روایت ہم نے تلاش کرلی، جس کے دیکھنے سے ہمیں پتہ چل گیا کہ مجمع الزوائد، جلد چہارم، ص۳۲۳ اور مسند امام احمد، جلد۶، ص۱۳۲ سے منقولہ دونوں روایتوں کا مضمون واحد ہے اور ان دونوں پیش کردہ روایتوں میں حجۃ الوداع کے سفر میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وہی ایک واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ ترجمہ درج ذیل ہے۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں حضور ﷺ ایک سفر میں تھے اور ہم حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ تھے، راستہ میں (اُم المومنین حضرت) صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا، (اُم المومنین حضرت) زینب کے پاس فالتو اونٹ تھا، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان سے فرمایاکہ صفیہ کا اونٹ بیمار ہوگیا ہے اور تمہارے پاس زیادہ اونٹ موجود ہے، اگر تم اپنا ایک اونٹ صفیہ کو دے دو تو بہتر ہے، حضرت زینب نے کہا حضور ! اس یہودیہ کو میں اپنا اونٹ دے دوں؟ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ناراض ہوگئے اور ان سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا(حجۃ الوداع کے سفر میں بماہ ذی الحجہ یہ واقعہ پیش آیا تھا) حضرت زینب کو چھوڑے رکھنے کا زمانہ اتنا طویل ہوا کہ ذی الحجہ کا بقیہ مہینہ گزر گیا، محرم اور صفر کے دونوں مہینے گزر گئے اور ماہ ربیع الاول کے چند دن بھی اسی حال میں گزرے، حتیٰ کہ حضرت زینب نے اپنا بستر اور چارپائی وغیرہ سامان بھی اٹھادیااور یہ سمجھا کہ حضور ﷺ کو اب ان کی کوئی ضرورت نہیں رہی ہے، وہ اسی حال میں ایک دن بیٹھی ہوئی تھیں، دوپہر کا وقت تھا، ناگہاں انہوں نے حضور ﷺ کے ظل کریم کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو اسی وقت اپنے بستر وغیرہ کو واپس لوٹادیا۔
تنظیم اہل حدیث کا پرچہ بھی ہمیں نہ مل سکا، اور "حادی الارواح الیٰ بلادالافراح" مصنفہ علامہ ابن قیم بھی دستیاب نہ ہو سکی، لیکن رسالہ"ظل نبی" سے اس کا مضمون سامنے آگیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ!
"حضور نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے دوزخ وجنت کو حضور کے سامنے کردیا، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے صحابہ سے ارشاد فرمایا! پھر میں نے اپنے اور تمہارے درمیان نار کو دیکھا، اور ساتھ فرمایا "حتیٰ لقد رأیت ظلی وظلکم" (یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا ظل دیکھا)۔
(رسالہ ظل نبی، ص۶)۱
علاوہ ازیں رسالہ "ظل نبی" میں قرآن مجید کی تین آیتوں سے بھی حضور ﷺ کا سایہ ثابت کیا گیا ہے جو حسب ذیل ہیں!
۱۔ وَ لِلہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ ظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُ وِّ وَ الْاٰصَالِ۔ (الرعد: ۱۵)
اور واسطے اللہ تعالیٰ کے سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمانوں کے اور زمین کے بیچ ہے، خوشی اور نا خوشی سے اور سائے ان کے صبح کو اور شام کو(رسالہ ظل نبی، ص۳)
۲۔ اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَ ھُمْ دٰخِرُوْنَ۔ (النحل : ۴۸)
کیا نہیں دیکھا انہوں نے مخلوق خدا میں سے کسی کو بھی کہ اس سائے دائیں بائیں جھک کر خدا کے سامنے سربسجود ہیں۔
(رسالہ ظل نبی، ص۴)
۳۔ وَ لِلہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ۔ یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔ (النحل : ۴۹، ۵۰)
اور ﷲ کے واسطے سجدہ کرتے ہیں جو کچھ بیچ آسمانوں کے اور جو کچھ بیچ زمین کے ہیں، چلنے والوں سے اور فرشتے اور وہ نہیں تکبر کرتے، ڈرتے ہیں پروردگار اپنے سے اوپر اپنے سے اور کرتے ہیں جو کچھ حکم کئے جاتے ہیں۔
(رسالہ ظل نبی، ص۵)
تین آیتیں اور تین حدیثیں مثبتین ظل نبی ﷺ کا مزعومہ سرمایہ ہے، مثبتین ظل نبی ﷺ کا "سرمایہ مزعومہ" یہی تین آیتیں اور تین حدیثیں ہیں، جنہیں ان کے دعوے ٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جن کا ایک لفظ بھی یہ نہیں بتاتا کہ حضور نبی اکرم نور مجسم ﷺ کے جسم اقدس کا سایہ تھا، جیسا کہ ان شاء اللہ العزیز عنقریب ہمارے ناظرین کرام پر واضح ہو جائے گا، اور حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجائے گی کہ منکرین نورانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کے استدلال کی عمارت اِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ سے بھی گئی گزری ہے۔
رہے وہ رکیک شبہات اور نفی ظل کی حدیث پر اعتراضات جو بحوالہ ماہنامہ "تجلی" دیوبند، جناب مرزا ریاض احمد صاحب حافظ آبادی کے مکتوب سے ہم نقل کرچکے ہیں، تو ان سب کا سہارا اور اصل، منکرین کی پیش کردہ آیات واحادیث کاوہی غلط مفہوم ہے جس کو ظل نبی ﷺ کے ثبوت میں پیش کیا گیا، جب ان آیات و احادیث کا مفہوم سامنے آجائے گا، تو وہ سہارا بھی باقی نہ رہے گا اور اہل انصاف بے ساختہ کہہ اُٹھیں گے کہ

وہ شاخ ہی نہیں ہے اب جس پہ آشیانہ تھا

اب رہا منکرین و معترضین کا امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مجدد ملت ؒ کی شان اقدس میں ناشائستہ کلمات کہنا اور حضرت ممدوح کے رسالۂ مبارکہ "نفی الفیء" پر پھبتیاں اڑانا، تو یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ لوگ اعلیٰ حضرت ؒ کی تصانیف جلیلہ پر اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہمیشہ مذاق اڑاتے اور منہ کی کھاتے رہے، پچھلے دنوں ہمارے ناظرین کرام"الصدیق، ملتان" کا مضمون اعلیٰ حضرت کے خلاف اور اس کا دندان شکن جواب " السعید" کے صفحات میں پڑھ چکے ہوں گے، اور اس سے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی جلالت علمی اور منکرین کی بے مائیگی ولاعلمی کا انہیں بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون کے مطالعہ سے یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت ؒ کی وسعت علم کو پانا تو درکنار اس کا سمجھنا اور اندازہ لگانا بھی ان لوگوں کے لئے آسان نہیں۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔
بیان مسئلہ اور منکرین کے استدلال پر کلام کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بعض لوگ کم علمی اور ناواقفیت کی وجہ سے ہر مسئلہ شرعیہ پر نصوص قطعیہ اور قرآن وحدیث سے دلائل صریحہ طلب کرتے ہیں اور کہہ دیا کرتے ہیں کہ مطلقاً باب عقائد میں بجز نص قطعی قرآن و حدیث کی صریح عبارت کے کوئی چیز قابل قبول نہیں، حالانکہ اِن کا یہ کہنا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے، یاد رکھئے قطعی دلیل اور قرآن وحدیث کی صریح قطعی عبارتیں صرف ان عقائد کے لئے ضروری ہیں جو قطعی ہوں اور جن پر مدارایمان ہو۔باقی رہے عقائد ظنیہ تو ان کے لئے ظنی دلیلیں پیش کی جائیں گی، شرح عقائد نسفی میں "تفضیل رسل" پر کلام کرتے ہوئے شارح علامہ فرماتے ہیں ولا خفاء فی ان ھذہ المسئلۃ ظنّیَّۃٌ یکتفٰی فیھا بالادلۃ الظنّیّۃ۔
(شرح عقائد نسفی، ص۱۲۶)
"اس امر میں کوئی خفا نہیں کہ یہ مسئلہ ظنی ہے، جس میں ظنی دلائل پر اکتفا کرلیا جاتاہے"، اسی طرح "نبراس، شرح، شرح عقائد" میں ص۲۴ پر عقائد کی دو قسمیں قطعی اور ظنی بیان فرمائیں اور اسی مضمون کو واضح فرمایا، نیز اسی نبراس شرح عقائد کی شرح میں ص۵۹۸ پر منقولہ بالا عبارت کے تحت بہت تفصیل کے ساتھ فرمایا :
حاصل الجواب ان المسائل الاعتقادیۃ قسمان احدھما مایکون المطلوب فیہ الیقین کوحدۃ الواجب وصدق النبی صلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم وثانیھما مایکتفی فیھا بالظن کھذہ المسئلۃ والاکتفاء بالد لیل الظنی انما لا یجوز فی الاول بخلاف الثانی الخ۔
ترجمہ۔ شارح کے جواب کا ماحصل یہ ہے کہ مسائل اعتقادیہ کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس میں یقین مطلوب ہو، جیسے واجب تعالیٰ کی وحدت اور نبی کریم ﷺ کا صدق، دوسری وہ جس میں ظن پر اکتفا کرلیا جائے، جیسے (تفضیل رسل کا) یہی مسئلہ، دلیل ظنی پر جن مسائل میں اکتفا ناجائز ہے وہ صرف پہلی قسم کے مسائل ہیں جن میں یقین مطلوب ہوتا ہے، بخلاف دوسری قسم کے جن میں صرف ظن مطلوب ہو، کہ ان میں دلیل ظنی پر بلا شبہ اکتفا جائز ہے، احکام کا بھی یہی حال ہے کہ حکم جتنا قوی ہوگا اس کی دلیل اتنی ہی قوی ہوگی۔
عقائد واحکام کے بعد فضائل ومناقب کی طرف آئیے تو اس سے بھی تنزل اختیار کرنا پڑے گا، یعنی ضعیف حدیثیں بھی اس باب میں معتبر ہوں گی، جیسا کہ خود محدثین کرام نے جابجا اس کی تصریح فرمائی ہے اور ائمہ فقہاء نے فضائل اعمال میں ضعیف ترین احادیث کو معمول بہا قرار دیا ہے، دیکھئے مسح رقبہ(وضو میں گردن پر مسح کرنے) کی حدیث ایسی ضعیف شدید ہے کہ بعض محدثین نے اسے موضوع تک کہہ دیا، لیکن ائمہ وفقہاء نے اسے بھی معمول بہا مانا اور آج تک اس پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔
فضائل ومناقب میں ضعاف کا معتبر ہونا متفق علیہ ہے، ابن حجر، ملا علی قاری، شاہ عبدالحق دہلوی وغیرہ ہم علماء کی تصریحات خصوصاً محدثین وفقہاء احناف نے صاف صاف ارقام فرمایا، جس سے کوئی اہل علم بے خبر نہیں، دیکھئے افضل القریٰ، ص ۱۱۴، مقدمہ مشکوٰۃ، ص۹، موضوعات کبیر، ص۶۳، ۶۴ قفو الاثر، ص ۲۹، بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ حدیث کا مضمون قوی حدیث کے مضمون سے مؤید ہو، لازماً اس حدیث ضعیف کو فضائل ومناقب میں قابل احتجاج سمجھا جائے گا۔
عقائد واعمال سے متعلق ہمارے بے شمار ایسے مسائل ہیں جنہیں ہم جزم و یقین کے مرتبہ میں شمار نہیں کرتے، بلکہ محض فضیلت ومنقبت کے درجہ میں مانتے ہیں، حتیٰ کہ اگر کوئی نیک دل طالب حق محض دلیل نہ ملنے کی وجہ سے ہمارے اس مسئلہ کو تسلیم نہ کرے، تو ہم اسے بد عقیدہ نہیں کہتے، نہ اس کے حق میں برا بھلا کہنا جائز سمجھتے ہیں، بشرطیکہ اس کا انکار رسول اللہ ﷺ کی عداوت اور بغض وکینہ کی وجہ سے نہ ہو۔
رہا یہ امر کہ اس نیک نیتی اور بغض وعداوت کا امتیاز کیسے ہو گا، تو میں عرض کروں گا کہ یہ امتیاز اس طرح ہوگا کہ جس نے نہ خود کبھی حضور ﷺ کی توہین کی اور نہ کبھی توہین رسول کرنے والے کو جان بوجھ کر اچھا مانا، نہ اس کے قول وفعل یا حال سے اس کی بد عقیدگی ثابت ہوئی، تو ایسے شخص کے متعلق سمجھا جائے گا کہ یہ شخص نیک دل ہے اور اس کا انکار محض اس وجہ سے ہے کہ ہمارے مسئلہ کی کوئی دلیل اس نے نہیں پائی یا اس کی سمجھ میں نہیں آئی، اور جن لوگوں نے شان رسالت میں گستاخیاں کیں، یا گستاخوں کی گستاخی پر مطلع ہوکر انہیں اچھا جانا اور اپنا مقتدا مانا، یا ان کے کسی قول، فعل یا حال سے بارگاہ نبوت میں بد اعتقادی ظاہر ہوئی، تو ایسے لوگ جب کسی فضیلت ومنقبت کا انکار کریں گے، تو ان کی بد اعتقادی و گستاخی اور گستاخ نوازی اس امر کی روشن دلیل ہوگی کہ ان کا یہ انکار معاذ اللہ محض عداوت اور بغضِ رسول ﷺ کی وجہ سے ہے، پہلا انکار تو ایسی زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، لیکن دوسرا یقینا ایسا خوفناک ہے کہ جس کے تصور سے قلب ِمومن لرز اُٹھتا ہے۔
الحاصل نبی کریم ﷺ کے جسم اقدس کا سایہ نہ ہونا بھی باب فضائل ومناقب سے ہے، جس پر کفرو ایمان کا مدار نہیں، لیکن منکرین کے دل کا بغض وعناد اس بات سے خوب ظاہر ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی ایک فضیلتِ ثابتہ کی نفی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، حتیٰ کہ بزعم خود تین حدیثیں معاذ اللہ جسم اقدس کا تاریک سایہ ثابت کرنے کےلئے تلاش بسیار کے بعد نکال لیں، جن سے استدلال مذکور کا تصور آج تک کسی کے ذہن میں نہ آیا تھا، فضائل وکمالات نبوت کو مٹانے کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سا شرمناک اقدام ہوسکتا ہے۔
منکرین نے تلاشِ بسیار کے بعد جو تین حدیثیں پیش کی ہیں ان کی صحت وحقانیت سے ہمیں بحث نہیں، لیکن ان کے استدلال کی گفتگو جب ہمارے کان سنتے ہیں تو ہمیں نبی اکرم نور مجسم ﷺ کی وہ مبارک حدیث یاد آجاتی ہے جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا :
سیکون فی اٰخر اُمتی اناسٌ یحد ثو نکم بما لم تسمعوا انتم ولا اٰباؤ کم فایا کم وایا ھم وفی روایۃٍ یا تو نکم من الاحادیث بما لم تسمعوا انتم ولا اٰباؤکم فایا کم وایاھم لا یضلو نکم ولا یفتنونکم، رواہ مسلم۔
(مسلم، جلد اوّل، ص۹۔ مشکوٰۃ، جلد اوّل، ص۲۸)

حضور سیّد عالم ﷺ نے فرمایا! اخیر زمانہ میں میرے اُمتی(کہلانے والے) تمہیں ایسی حدیثیں(باتیں) سنائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے، خبردار! ان سے دُور رہنا، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
الفاظ حدیث پڑھ کر دل گواہی دیتا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ چودہ سو برس پہلے نگاہِ رسالت سے مخفی نہ تھا، پھر قابلِ غور یہ امر ہے کہ ابتداء اسلام میں ایک دور گزرا جبکہ جاہل ابناء اور ان کے مشرک آباء کا جاہلانہ وجدان شرک وجاہلیت کا معیار ہونے کی وجہ سے انتہائی نفرت وحقارت اور شدید ترین مذمت کے قابل تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مَا وَجَدْ نَا عَلَیْہِ اٰبَآءَنَا وغیرہ آیات میں ان کا مقولہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے بیان فرمایا، لیکن اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد رسو ل اللہ ﷺ کی تعلیمات کی برکت ملاحظہ فرمائیے کہ اخیر زمانہ کے سچے مسلمانوں اور ان کے آباء مسلمین کے وجدان وسماعت کو حق وصداقت کا معیار بلکہ ہدایت کا وہ چمکتا ہوا مینار بنا دیا گیا کہ جو بات ان کے کانوں نے کبھی نہیں سنی وہ کسی مسلمان کے لئے سننے کے قابل ہی نہیں۔
اَب اس بات کا فیصلہ ناظرین خود کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اقدس کا معاذاللہ تاریک سایہ ثابت کرنے کی بات آپ نے یا آپ کے باپ دادا نے سنی تھی؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو سمجھ لیجئے کہ یہ ایسی بات ہے جو آپ کے سننے کے قابل نہیں بلکہ اپنے آقا ومولیٰ حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے بموجب آپ پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں سے آپ بچیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی باتوں میں آکر آپ گمراہی کے گڑھے میں جا پڑیں یا خدا نخواستہ کسی اور فتنہ میں مبتلا ہوجائیں، معاذ ﷲ ثم معاذ ﷲ۔
مخالفین کی پیش کردہ آیات واحادیث پر کلام کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں محل نزاع متعین کردیا جائے تاکہ نفی واثبات کے دونوں پہلو ناظرین کرام پر اچھی طرح واضح ہوجائیں۔ فاقول وباللہ التوفیق۔
اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے بشری جسم اقدس کو ایسا لطیف ونظیف اور پاکیزہ ومطہر کردیا تھا کہ اس میں کسی قسم کی عنصری اور مادی کثافت باقی نہ رہی تھی، اس لئے چاند، سورج، چراغ وغیرہ کی روشنی میں جب حضور ﷺ تشریف فرما ہوتے تو جسم اقدس اس روشنی کے لئے حائل نہ ہوتا تھا اور دیگر اجسام کثیفہ کی طرح حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جسم پاک کا کوئی تاریک سایہ نہ پڑتا تھا، کیونکہ سایہ اس جگہ کی تاریکی کو کہتے ہیں جہاں جسم کثیف کے حائل وحاجب ہوجانے کی وجہ سے چاند سورج وغیرہ کی روشنی نہ پہنچ سکے، جسم مبارک میں جب کثافت ہی نہ تھی تو وہ نورانی جسم کسی روشن چیز کی روشنی کے لئے کیونکر حائل ہوسکتا تھا؟ اس لئے تاریک سایہ سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا جسم مبارک پاک تھا۔
رہا یہ امر کہ بشری جسم کا مادی اور عنصری کثافتوں سے اس طرح پاک ہونا محال ہے کہ وہ روشنی کے لئے حاجب نہ ہو سکے، تو یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا صریح انکار ہے، جب وہ قادر مطلق نور سے ظلمت اور ظلمت سے نور کو ظاہر کرسکتا ہے اور زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، عدم کو وجود اور وجود کو عدم سے بدل دینے پر قادر ہے تو اس کے لئے بشری جسم کو مادی کثافتوں سے پاک کردینا کون سی بڑی بات ہے ؟
ہاں اگر آپ یہ سوال کریں کہ یہ امر محال تو نہیں لیکن اس کے وقوع کی کیا دلیل ہے ؟ تو میں عرض کروں گا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حضور ﷺ کو سِرَاجًا مُّنِیْرًا (روشن کرنے والا چراغ) قرار دینا اور ان کے حق میں قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ ﷲِ نُوْرٌ فرمانا اس وقوع کی چمکتی ہوئی دلیل ہے۔
کیونکہ جس ذات مقدسہ کو "اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ" کہنے کا حکم دیا تھا اگر اس کے وجود مبارک سے بشری کثافتوں کو پوری طرح دُور نہ کردیا ہوتا تو اس کے حق میں "مِنَ ﷲِ نُوْرٌ" اور "سِرَاجًا مُّنِیْرًا" کبھی نہ فرماتا، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ حضور نبی کریم ﷺ کو باوجود "بشر" فرمانے کے "نور و منیر" محض اس لئے فرمایا گیا کہ جسم اقدس سے ہر قسم کی بشری کثافتیں بالکل دور کردی گئی ہیں، اور جب کثافتیں دور ہوگئیں تو جسم اقدس کا تاریک سایہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہوگیا۔ وللہ الحمد۔
بعض حضرات "مِنَ ﷲِ نُوْرٌ" اور "سِرَاجًا مُّنِیْرًا" کا یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ یہاں "نور" اور "منیر" سے صرف نور ہدایت مراد ہے،حسّی اور جسمانی نور ہرگز مراد نہیں، ان شاء اللہ العزیز ہم اس موضوع پر کسی وقت مستقلاً سیرحاصل بحث کریں گے سردست اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ جب حضور ﷺ کے جسم اقدس کے لئے جسمانی اور حسّی نورانیت بھی احادیث کی روشنی میں ثابت ہے تو پھر آپ کو کیا حق ہے کہ اس کا انکار کریں، اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی خدمت میں مزید اتنی گزارش ہے کہ ہماری پیش کردہ اس دلیل کو آپ اس لئے نہیں مانتے کہ یہ ہمارے قلم سے صادر ہوئی ہے، چلئے ہم سے آپ ناراض ہیں آپ کی مرضی! مگر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی سے تو کوئی ناراضگی نہیں، لیجئے ان ہی کے منوانے سے مان لیجئے، ہمیں تو آپ کو منوانا مقصود ہے، خواہ کسی طرح آپ مانیں، دیکھئے آپ کے مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ارقام فرماتے ہیں :
"وازیں جا است کہ حق تعالیٰ در شان حبیب خود ﷺ فرمود کہ البتہ آمدہ نزد شما از طرف حق تعالیٰ نوروکتاب مبین ومراد از نور ذاتِ پاک حبیب خدا ﷺ ہست ونیز او تعالیٰ فرماید کہ اے نبی ﷺ ترا شاہد ومبشر ونذیر وداعی الی اللہ وسراج منیر فرستادہ ایم ومنیر روشن کنندہ ونور دہندہ را گویند پس اگر کسے را روشن کردن از انساناں محال بودے آں ذات پاک ﷺ را ہم ایں امر میسر نیا مدے کہ آں ذات پاک ﷺ ہم از جملہ اولاد آدم ؈ اند مگر آنحضرت ﷺ ذات خود را چناں مطہر فرمود کہ نور خالص گشتند وحق تعالیٰ آنجناب سلامہٗ علیہ را نور فرمود وبتواتر ثابت شد کہ آنحضرت عالی سایہ نداشتند وظاہر است کہ بجز نور ہمہ اجسام ظل مے دارند"۔ انتہی۔
(امداد السلوک، مطبوعہ بلالی دخانی پریس ساڈھورہ، ص۸۵،۸۶، مصنفہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی)
ترجمہ۔ "اور اسی جگہ سے یہ بات ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی شان میں فرمایا کہ"تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا اور کتاب مبین آئی"اور نور سے مراد حبیب خدا ﷺ کی ذات پاک ہے، نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو شاہد ومبشر اور نذیر اور داعی الی اللہ تعالیٰ اور سراج منیر بنا کر بھیجا ہے"، اور" منیر" روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں، پس اگر انسانوں میں سے کسی کو روشن کرنا محال ہوتا تو آنحضرت ﷺ کی ذات پاک کے لئے یہ امر میسرنہ ہوتا، کیونکہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات پاک بھی جملہ اولاد آدم ؈ سے ہے، مگر آنحضرت ﷺ نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمالیا کہ نور خالص ہوگئے اور حق تعالیٰ نے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نور فرمایا اور تواتر سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ سایہ نہ رکھتے تھے اور ظاہر ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں"۔
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی اس عبارت سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
۱۔ آیت کریمہ قَدْ جَآءَکُم مِّنَ اللہِ نُورٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْن (المائدة: ۱۵) میں نور سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات پاک مراد ہے۔
۲۔ حضور ﷺ سراج منیر ہیں اور منیر روشن کرنے والے اور نور دینے والے کو کہتے ہیں۔
۳۔ بشری جسم سے عنصری اور مادی کثافتوں کا دُور ہوجانا محال نہیں بلکہ واقع ہے۔
۴۔ حضور ﷺ نے اپنی ذات پاک کو ایسا مطہر فرمایا کہ حضور ﷺ نور خالص ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے حضور کو نور فرمایا۔
۵۔ بشریت اور نورانیت کا جمع ہونا ممکن ہے۔
۶۔ حضور ﷺ کے جسم پاک کا سایہ نہ تھا۔
۷۔ حضور ﷺ کے جسم اقدس کا سایہ نہ ہونا تواتر سے ثابت ہے۔
۸۔ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں۔
۹۔ لفظ نور اور منیر سے حضور ﷺ کے لئے جو نورانیت مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے ثابت کی ہے وہ محض ہدایت کی نورانیت نہیں بلکہ حسّی اور جسمانی نورانیت ہے، کیونکہ حضور کی نورانیت کو مولوی رشیداحمد صاحب گنگوہی نے حضور کے سایہ نہ ہونے کی علت قرار دیا ہے اور صاف صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ حضور کا سایہ نہ تھا اور نور کے سوا ہر جسم کا سایہ ہوتا ہے تو جب تک حضور ﷺ کے لئے جسمانی نورانیت ثابت نہ ہو جسم اقدس سے سایہ کی نفی نہیں ہوسکتی،لہٰذا آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ قرآن کریم کی دونوں آیتیں قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ ﷲِ نُوْرٌ اور سِرَاجًا مُّنِیْرًا حضور ﷺ کے جسمانی اور حسّی نور ہونے کی دلیل ہیں، اور یہ دونوں آیتیں ببانگ دہل حضور ﷺ کے جسم اقدس سے تاریک سائے کی نفی کررہی ہیں۔
اعلیٰ حضرت مولانااحمد رضا خاں بریلوی ؒ اور ان کے ساتھ عقیدت رکھنے والے احناف اہل سنت ان دونوں آیتوں سے اپنے مسلک پر استدلال کرنے میں اگر معاذ اللہ گمراہ اور بے دین ہیں تو مولوی رشید احمد گنگوہی اس گمراہی اور بے دینی سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔
منکرین پر سخت حیرت ہے کہ جس مسلک کو وہ کفر و ضلالت قرار دیتے ہیں اور اس کے قائلین کو جہنم تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتے اگر وہی مسلک ان کے اکابر پیش کردیں تو وہ ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے، محض اس لئے کہ وہ ان کے مقتدا اور پیشوا ہیں، میں نہایت اخلاص کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کروں گا کہ خدا کے خوف کو دل میں جگہ دے کر ذرا سوچئے کہ آپ کا یہ طرز عمل اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ کی عملی تفسیر نہیں تو اور کیا ہے؟
ماہنامہ تجلی دیوبند نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا ایک فتویٰ فتاویٰ رشیدیہ سے نقل کیا ہے جس میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی حدیث سے لا علمی کا اظہار فرمایا ہے، اس کی بابت عرض ہے کہ :
اگر آپ اس فتوے کو ہماری پیش کردہ عبارت کے معارض سمجھتے ہیں تو اس حیثیت سے کہ وہ آپ کے مقتدا ہیں، ان کے کلام میں رفعِ تناقض آپ ہی ذمہ ہے، جس طرح چاہیں اس تعارض کو دفع فرمائیں، اظہار لا علمی کو سوء حافظہ پر مبنی قرار دیں یا لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا پر محمول کریں۔
لیکن اس حقیقت سے آپ انکار نہیں کرسکتے کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے اپنی کتاب"امداد السلوک" میں حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کو تواتر سے ثابت مانا ہے، اَب آپ کے لئے دو ہی صورتیں ہیں، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے ہم پایہ مجرم قرار دیں یا مولانا احمد رضا خاں صاحب کو بھی کم از کم اس مسئلہ میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرح بے گناہ مان لیں ورنہ ظاہر ہے کہ آپ کی حق پسندی کا راز طشت از بام ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس تمام بحث وتمحیص کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے جسم اقدس کو ایسا لطیف ونظیف اور نورانی مانتے ہیں کہ اس کا تاریک سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا، اس کے برخلاف منکرین کا مسلک یہ ہے کہ حضور ﷺ کا جسم مبارک عام انسانوں کی طرح معاذ اللہ ایسا کثیف تھا کہ اس کا تاریک سایہ پڑتا تھا۔
محلِ نزاع کی تعیین کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ اپنے مسلک کی تائید میں ایک جامع بیان پیش کردیں تاکہ ناظرین کرام کو معلوم ہوجائے کہ جس مسلک کو لوگ غلط اور فاسد کہہ رہے ہیں اس کے ساتھ اُمت مسلمہ کے کیسے کیسے جلیل القدر علماء محدثین وفقہائے کرام وابستہ ہیں۔ فاقول وباللہ التوفیق عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ۔
اہل سنت کا مذہب ہے کہ حضور نبی اکرم نور مجسم ﷺ کا جسم اقدس اتنا لطیف ہے کہ اس میں کسی قسم کی جسمانی، عنصری اور مادی کثافت نہیں، حضور ﷺ نور ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ نُوْرًا کے چمکتے ہوئے الفاظ وارد ہیں، ملاحظہ فرمائیے مسلم، جلد اوّل، ص۲۶۱، مطبوعہ نول کشور، لکھنؤ۔
اس مقام پر یہ شبہ وارد نہیں ہوسکتا کہ اس دُعا سے پہلے حضور کی ذات پاک نور نہ تھی ورنہ دُعا کی حاجت نہ ہوتی کیونکہ دعا کرنے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ دُعا سے پہلے وہ صفت نہ ہو جس کے لئے دُعا کی گئی ہے، دیکھئے حضور ﷺ تمام عمر ہر نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دُعا فرماتے رہے، تو کیا کسی مسلمان کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ معاذ اللہ دُعا سے پہلے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام صراط مستقیم پر نہ تھے، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ! بلکہ اس مقام پر یوں کہنا پڑے گا کہ کسی نعمت کے لئے دُعا کرنا بسا اوقات اس کے ثابت وباقی رہنے کے لئے ہوتا ہے یا اس نعمت کی ترقی مقصود ہوتی ہے یا اعتراف عبدیت کے لئے دُعا کی جاتی ہے، اس کے ماسویٰ دُعا کی حکمت تعلیم اُمت بھی ہوسکتی ہے، علاوہ ازیں جن الفاظ میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دُعا فرمائی وہ ایسے بابرکت ہوگئے کہ اُمت جب ان الفاظ میں دُعا کرے گی تووہ دُعا حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بولے ہوئے الفاظ کی برکت کے طفیل اقرب الی الاجابت ہوگی اور اُمت کے حق میں وہ دُعا جس رنگ میں قبول ہوسکتی ہے ضرور قبول ہوگی کیونکہ اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کے بولے ہوئے الفاظ ہیں، انہیں خالی واپس کرنا اللہ تعالیٰ کو گوارا نہ ہوگا۔
حاصل کلام یہ کہ جب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دُعا سے حضور کی ذات پاک کا نور ہونا ثابت ہوگیا تو جسم اقدس کا سایہ نہ ہونا بھی لازمی طور پر ثابت ہوگیا، کیونکہ سایہ نہ ہونا لوازم نور سے ہے اور قاعدہ ہے اِذَا ثَبَتَ الشَیْءُ ثَبَتَ بِجَمِیْعِ لَوَازِمِہٖ ، لہٰذا نورانیت محمدیہ ﷺ بھی اپنے لازم کے ساتھ ثابت ہوگی اور نورانیت کا لازم "سایہ نہ ہونا ہے" لہٰذا حضور ﷺ کا نور ہونا حضور کے سایہ نہ ہونے کی روشن دلیل ہے۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب
جب بھی حضور ﷺ کی نورانیت کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو منکرین صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہاں علم وہدایت کا نور مراد ہے، جسمانی نور سے کیا تعلق ؟ پھر اِن آیات سے معارضہ کرتے ہیں جن میں علم وہدایت، قرآن و تورات اور اسلام وایمان کو نور کہا گیا ہے۔
جواباً عرض ہے کہ علم وہدایت کی نورانیت تو حسبِ مراتب ودرجات ہر اہل علم اور ہدایت یافتہ شخص کو حاصل ہے، حضور ﷺ کی شان اقدس تمام عالم سے بلندوبالا اور افضل واعلیٰ ہے، اس لئے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات مقدسہ اور کمالات مبارکہ کو عوام کی ذات وصفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جو صفت ملی ہے وہ دوسروں کی نسبت اکمل واتم ہے، اسی طرح عین کا قیاس معنی پر اور وصف کا قیاس ذات پر قیاس مع الفارق ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ نور از قبیل معانی بھی ہوتا ہے اور از قبیل اعیان بھی۔
اوّل، جیسے قرآن، ایمان، علم، ہدایت وغیرہ امور جواز قبیل معانی ہیں۔
دوم، جیسے چاند، سورج وغیرہ کہ یہ از قبیل اعیان ہیں۔
جو چیزیں ذات اور عین نہیں بلکہ محض معنی اور صفت کے قبیل سے ہیں، ان کے لئے جب لفظ نور بولا جائے گا، تو اس کے معنی اس چیز کے حسب حال ہوں گے، یعنی وصفی اور معنوی نورانیت، اور جو چیزیں "عین اور معنی" ذات اور صفت سب کی جامع ہوں گی، ان کے لئے جب لفظ نور کا اطلاق ہوگا تو اس سے وہی نورانیت مراد ہو گی جو ان چیزوں کے حسب حال اور شایان شان ہے، یعنی عین اور معنی دونوں قسم کی جامع نورانیت، لہٰذا قرآن وتوراۃ، اسلام وایمان، علم وہدایت، ان سب چیزوں کے لئے جو لفظ نور قرآن وحدیث میں وارد ہوا ہے اس سے وصفی اور معنوی نورانیت کے معنی مراد ہوں گے، کیونکہ یہ سب چیزیں از قبیل اوصاف ومعانی ہیں، اور ظاہر ہے کہ معنی کا عین، اور وصف کا ذات ہونا محال ہے، ہاں ! ایسی چیز جو "ذات و وصف" دونوں کی حامل اور"عین ومعنی" دونوں کی جامع ہو، اس کی نورانیت بھی ہر دو قسم کی نورانیت کی جامع ہوگی۔ (الا اذا قام الد لیل علی خلافہ)چونکہ حضور نبی کریم ﷺ ذات اور وصف دونوں کے جامع ہیں، عین اور معنی دونوںچیزیں علیٰ وجہ الکمال حضور ﷺ کی ذات پاک میں پائی جاتی ہیں، اس لئے حضور ﷺ کے لئے جو لفظ قرآن وحدیث میں وارد ہوا ہے، اس سے مراد وہی نور ہوسکتا ہے جو عینی ومعنوی، ذاتی و وصفی ہر قسم کی نورانیت کا جامع ہو، جس کا ماحصل یہ ہے کہ حضور ﷺ اسلام وایمان، ہدایت وقرآن، علم وعرفان تمام انوار معانی واوصاف کے حامل ہیں، اور اس کے علاوہ جملہ انوار اعیان یعنی ذات وعین کے قبیل سے جس قدر نور ہیں ان سب کے بھی حضور جامع ہیں، اس تفصیل کو ذہن نشین کر لینے کے بعد ہر شخص سمجھ جائے گا کہ منکرین کا معارضہ قطعاً باطل ہے۔
یہ جامع نورانیت جو ہم نے حضور ﷺ کے لئے ثابت کی ہے اس کی تائید مزید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے اور اکابر علماء دین محدثین ومحققین کرام کی واضح عبارات بھی حضور ﷺ کے لئے اسی قسم کی جامع نورانیت کی مثبت ہیں جن میں حضور ﷺ کی جسمانی نورانیت کا روشن بیان ہے، اور یہ تصریح موجود ہے کہ حضور ﷺ نور تھے اس لئے آپ کا سایہ نہ تھا، علاوہ ازیں منکرین کے پیشوائوں اور مقتدائوں کی تحریریں بھی اس کی مثبت ومؤید ہیں، اس سے ہمیں بحث نہیں کہ ان کا اعتقاد کیا ہے ؟ وہ حضور ﷺ کو اپنے جیسا بشر مانتے ہیں یا اس میں کچھ تبدیلی کرنے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی واضح تحریریں ہمارے بیان کی زبردست تائید کرتی ہیں، جیسا کہ امداد السلوک ص۸۵، ۸۶ سے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا بیان ہم نقل کرچکے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی نشرالطیب وغیرہ کے اقتباسات ہدیۂ ناظرین کریں گے۔
پہلے ہم اِن احادیث کا ذکر کرتے ہیں جن سے حضور ﷺ کی حِسّی عینی اور جسمانی نورانیت ثابت ہوتی ہے۔
حدیث نمبر۱۔ عن الحسن بن علی رضی ﷲ تعالیٰ عنھما قال سألت خالی ھند بن ابی ھالۃ(ربیب النبی ﷺ) وکان وصافاً عن حلیۃ النبی ﷺ وانا اشتھی ان یصف لی منھا شیئاً اتعلق بہٖ فقال کان رسول ﷲصلی ﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فخما مفخماً یتلا لؤ وجھہٗ تلا لؤ القمر لیلۃ البدر۔
(شمائل ترمذی، ص۲)
ترجمہ۔ سیدنا امام حسن ؈ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں (نبی ﷺ کے ربیب) ہند بنی ابی ہالہ سے جو حضور ﷺ کے بہترین وصاف تھے، حضور ﷺ کا حلیہ مبارکہ دریافت کیا، میرا دل چاہتا تھا کہ وہ حلیہ مقدسہ سے کچھ بیان کریں اور میں اس سے پوری طرح متعارف ہو جائوں، توانہوں نے فرمایا حضور ﷺ عظیم اور معظم تھے، آپ کا چہرۂ انور ایسا چمکتا اور روشنی دیتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے، اسی حدیث میں آگے چل کر فرماتے ہیں "لہٗ نورٌ یعلوہُ" حضور کی بینی مبارک کا نور بینی مبارک پر یا آپ کی ذات مقدسہ کا نور ذات پاک پر غالب رہتا۔
اسی حدیث کی شرح میں علامہ شیخ ابراہیم بن محمد بیجوری شافعی مصری فرماتے ہیں:
ومعنی یتلا لؤ یضیء ویشرق کاللؤلؤ وقولہ تلا لؤ القمر لیلۃ البد ر اَی مثل تلا لؤ القمر لیلۃ البدر (انتھٰی)
(شرح شمائل، مطبوعہ مصر، ص۲۳)
ترجمہ۔ یتلا لؤ کے معنی روشن ہونے اور چمکنے کے ہیں جیسے موتی چمکتا ہے اور تلا لؤ القمر لیلۃ البد ر کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ کا چہرۂ انور اس طرح چمکتا تھا جیسے چودہویں رات میں چاند چمکتا ہے۔
حدیث نمبر۲۔عن جابر بن سمرۃ قال رأ یت رسول ﷲ ﷺ فی لیلۃ اضحیان، وعلیہ حلۃ حمراء فجعلت انظر الیہ والی القمر فھو عندی احسن من القمر۔
(شمائل ترمذی، ص۲)
ترجمہ۔ حضرت جابر بن سمرہ ؄ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ چاندنی رات میں حضور ﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ آپ پر سرخ رنگ کا(دھاری دار) حُلہ تھا، میں حضور ﷺ کو بھی دیکھتا اور چاند پر بھی نظر کرتا تو حضور ﷺ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔
علامہ شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
وفی روایۃ فی عینی بدل عندی والتقیید بالعندیۃ فی الروایۃ الاولی لیس للتخصیص فان ذلک عند کل احدٍ راٰہ کذالک
(المواہب اللد نیہ علی الشمائل المحمدیہ، مطبوعہ مصر، ص۳۰)
ترجمہ۔ ایک اور روایت میں "عندی" کی بجائے "فی عینی" آیا ہے اور روایتِ اولیٰ میں "عندی" کی قید تخصیص کے لئے نہیں ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ میرے ہی نزدیک حضور چاند سے زیادہ حسین تھے بلکہ فی الواقع ہر دیکھنے والے کے نزدیک حضور ﷺ چاند سے زیادہ حسین تھے۔
اس کے بعد علامہ بیجوری علیہ الرحمہ اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وانما کا ن ﷺ احسن لان ضوء ہٗ یغلب علی ضوء القمر، بل وعلی ضوء الشمس، ففی روایۃ لابن المبارک وابن الجوزی لم یکن لہٗ ظل، ولم یقم مع شمس قط الا غلب ضوءہ علی ضوء الشمس، ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوءہ علی ضوء السراج"۔ انتھٰی
ترجمہ۔ اور حضور ﷺ چاند سے زیادہ حسین اس لئے تھے کہ حضور ﷺ کی روشنی چاند کی روشنی بلکہ سورج کی روشنی پر غالب رہتی تھی، کیونکہ سیدنا ابن مبارک اور علامہ ابن جوزی محدّث کی روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا، اور حضور ﷺ سورج کے سامنے کبھی کھڑے نہیں ہوئے مگر حضور کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی، اسی طرح چراغ کے سامنے بھی حضور کبھی کھڑے نہیں ہوئے مگر چراغ کی روشنی پر بھی حضور ﷺ کی روشنی غالب رہتی تھی۔
حدیث نمبر۳۔ "عن ابی اسحاق قال سال رجل البرائَ بن عازب اکان وجہ رسول ﷲ ﷺ مثل السیف ؟قال : لا، بل مثل القمر"۔
(بخاری شریف، ج۱، ص۵۰۲۔ شمائل ترمذی، ص۳)
ترجمہ۔ ابواسحاق سے روایت ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور ﷺ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا ؟ انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ چاند کی طرح تھا۔
اس حدیث کے تحت حضرت شیخ ابراہیم بیجوری فرماتے ہیں:
"قولہ (أکان وجہ رسول ﷲ ﷺ مثل السیف) أی: فی الاستنارۃ والاستطالۃ، فالسؤال عنھما معًا۔ قولہ: (قال: لا، بل مثل القمر) أی: لیس مثل السیف فی الاستنارۃ والاستطالۃ، بل مثل القمر المستدیر، الذی ھو أ نورمن السیف"۔ (مواہب اللد نیہ شرح شمائل المحمدیہ، مطبوعہ مصر، ص۳۰)
ترجمہ۔ یعنی "کیا حضور ﷺ کا چہرۂ انور روشنی اور لمبائی میں تلوار کی طرح تھا؟147 اس کلام میں روشنی اور لمبائی دونوں کے متعلق سوال ہے، حضرت براء بن عازب نے دونوں باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ چہرۂ انور روشنی اور لمبائی میں تلوار کی طرح نہ تھا بلکہ گول چاند کی طرح نورانی تھا جو تلوار سے کہیں زیادہ انور اور روشن ہے۔ انتہیٰ۔
حدیث نمبر۴۔ "عن ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما قال کان رسول ﷲ ﷺ افلج الثنیتین، اذا تکلم رأ ی کالنور یخرج من بین ثنایا ہ"۔ (شمائل ترمذی، ص۳)
ترجمہ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنے مبارک دانتوں کے درمیان کشادگی والے تھے، یعنی دندان مبارک کے درمیان جَھریاں تھیں، جب حضور ﷺ کلام فرماتے تو دندان مبارک کے درمیان جھریوں سے نور یا نور کی مانند کوئی چمکدار چیز نکلتی ہوئی دیکھی جاتی تھی۔انتہیٰ
حضرت شیخ ابراہیم بن محمد بیجوری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
أیْ رُأی شیء لہ صفاء، یلمع کالنور، یخرج من بین ثنایاہ۔ ویحتمل أن یکون الکاف زائدۃ للتفخیم ویکون الخارج حینئذ نورًا حسیًا معجزۃ لہ ﷺ. (انتھٰی)
(مواہب اللد نیہ شرح شمائل المحمدیۃ،ص۳۴) ترجمہ۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نور کی طرح صاف شفاف چیز چمکتی ہوئی دیکھی جاتی تھی جو حضور ﷺ کے نورانی دانتوں کے درمیان سے نکلتی تھی، اور یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ "کالنور" میں کاف زائدہ ہو، تفخیم کے لئے بڑھا دیا گیا ہو، اس تقدیر پر نور حسّی تھا جو حضور ﷺ کے دندان مبارک کے درمیان سے بطور ظہور معجزہ چمکتا تھا۔ انتہیٰ۔
حدیث نمبر۵۔ "عن عائشۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا اَنَّ رسول ﷲ ﷺ دخل علیھا مسرورًا تبرق اساریر وجھہٖ"۔
(بخاری شریف، ج، اوّل، ص۵۰۲)
ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ خوش اور مسرور ہوکر میرے پاس تشریف لائے درآنحالیکہ حضور ﷺ کی پیشانی اقدس کے خطوط چمک رہے تھے۔
حدیث نمبر۶۔ "عن کعب بن مالک قال فلما سلمت علیٰ رسول ﷲ ﷺ وھو یبرق وجھہٗ من السرور وکان رسول ﷲ ﷺ اذا سرَّاِستنار وجھہٗ کَاَ نَّہٗ قطعۃٌ من القمر"۔
(بخاری شریف، ج، اوّل، ص۵۰۲)
ترجمہ۔ کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے حضور ﷺ پر سلام عرض کیا تو چہرۂ انور فرحت وسرور سے چمک رہا تھا، اور حضور ﷺ جب خوش ہوتے تھے تو چہرۂ انور ایسا چمکنے لگتا تھا گویا کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔
فتح الباری وغیرہ شروح بخاری اُٹھا کر دیکھئے تمام شُراح کرام ان احادیث سے حضور نبی کریم ﷺ کے حقیقی حسّی نور کو ثابت مان رہے ہیں، اور واقعہ یہ ہے کہ ایسی چمکتی ہوئی روشن حدیثوں کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا شخص جس کے دل میں نور ایمان کی ادنیٰ جھلک بھی موجود ہے، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی جسمانیت مقدسہ کے لئے نور حسّی کا انکار نہیں کرسکتا، اور ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اس نورانیت کا مقتضیٰ سایہ نہ ہونا ہے، اسی لئے محدثین کرام نے حضور ﷺ کے نور ہونے کو حضور کے سایہ نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔
لیجئے حضور کی نورانیت مقدسہ پر چند اور حدیثیں یاد آگئیں، جن کو سن کر مومنین کے دل انوارِ ایمان سے چمک اُٹھیں گے۔
مواہب اللدنیہ میں امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
وقال ابو ھریرۃ وَاذا ضحک ﷺ یتلأ لأفی الجدر۔رواہ البزار والبیھقی، أی یضیء فی الجدر۔ بضم الجیم والدال، جمع جدارٍ وھو الحائط۔ اَیْ یشرق نورہٗ علیھا اشراقا کاشراق الشمس علیھا۔ انتھٰی۔
(مواہب اللد نیہ، جلد اوّل، ص۲۷۱)
ترجمہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا! حضور ﷺ جب ہنستے تھے تو حضور کا نور دیواروں پر چمکتا تھا، اس حدیث کو امام بزار اور بیہقی نے روایت کیا، امام قسطلانی حدیث کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا نور دیواروں پر ایسا چمکتا اور روشن ہوتا تھا جیسے سورج کی روشنی دیواروں پر پڑتی ہے اور چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انتہیٰ۔
خصائص کبریٰ میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں کپڑا سی رہی تھی، ہاتھ سے سوئی گرپڑی، چراغ گل ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا، اس لئے تلاش کرنے کے باوجود نہ ملی، اتنے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے آئے، حضور کے چہرۂ انور سے ایسا نور نکلا کہ سوئی ظاہر ہوگئی۔
مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں علامہ ابن سبع سے منقول ہے"کان (النبی) ﷺ یضیء البیت المظلم من نورہٖ "۔
تاریک گھر حضور ﷺ کے نور سے روشن ہوجاتا تھا
(علامہ محمد مہدی الفاسی،مطالع المسرات، طبع مصر۱۲۸۹ھ، ص۳۴۵)۔ (رانا)
یہ حدیثیں کتب احادیث وسیر میں اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ ان کا ا حصاء ممکن نہیں، ان کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضور کو نور حقیقی نہیں مانتا تو سمجھ لیجئے کہ وہ نور ایمان سے بالکل خالی ہے۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ
ان روایات میں حضور ﷺ کے لئے جو برق، تلالؤ، استنارہ ا ور نور وغیرہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سے محض رنگ کی صفیٔی اور حسن وجمال کا بیان مقصود ہے، اسی طرح قطعۃٌ من القمر یا مثل القمر سے بھی محض خوبصورتی کا اظہار مقصود ہے، حسّی روشنی اور چمک کے معنی مراد نہیں، شعراء عرب بلکہ ہر زبان کے ادباء اپنے محبوبوں کے حسن وجمال کا تذکرہ اسی قسم کے الفاظ میں کیا کرتے ہیںاور ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ وہ الفاظ از قبیل استعارات مانے جاتے ہیں، اسی قسم کے استعارات ان روایات واحادیث میں بھی وارد ہیں۔
جواباً عرض کروں گا کہ بدعقیدگی اور گمراہی کی ا صل بنیاد یہی ہے کہ حضور ﷺ کو عامۃ الناس کے زمرہ میں شمار کرلیا جائے، معاذ اللہ حضور ﷺ کے کمال کی نفی کرنے کے لئے حضور کا قیاس اپنے اوپر کرلینا اہل سنت کے نزدیک بدترین جہالت ہے۔
معمولی سمجھ والا انسان بھی اتنی بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر صرف رَاَیْتُ اَسَدًا کہا جائے تو لفظ اسد رجلِ شجاع سے استعارہ ہوسکے گا، لیکن جب کوئی رَاَیْتُ اَسَدًا یَفْتَرِسُ کہے تو پھر "اسد" سے حیوانِ مفترس ہی مراد ہوگا اور اسے بہادر آدمی کے لئے استعارہ قرار دینا درست نہ ہوگا۔
ہماری پیش کردہ احادیث میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے معترض کا استعارہ صحیح نہیں ہوتا، دیکھئے:
(۱) دندان ہائے مبارک کے درمیان سے نور نکلتا ہوا دیکھا جانا۔
(۲) بینی اقدس کے نور کا بینیٔ مبارک پر غالب ہوتا ہوا معلوم ہونا۔
(۳) پیشانی کے خطوط کی چمک کا مشاہدہ۔
(۴) نور اقدس سے دیواروں کا روشن ہوجانا ایسے امور ہیں جو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس چمک اور نور کے حسّی اور جسمانی ہونے کو اس وضاحت کے ساتھ متعین کررہے ہیں جس کے بعد معترض کے استعارہ کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔
پھر اجلہ شارحین حدیث مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی، امام بدرالدین عینی، امام شہاب الدین قسطلانی، علامہ عبدالباقی زرقانی، شیخ ابراہیم بیجوری علیہم الرحمۃ والرضوان کا ان احادیث کی شرح میں یضیء، یشرق، یبرق، یلمع جیسے چمکتے ہوئے الفاظ ارقام فرمانا حقیقت کو اور واضح کررہا ہے، اس پر بھی آپ مطمئن نہ ہوں تو امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی خصائص کبریٰ دیکھ لیجئے، انہوں نے اس میں حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کا ایک مستقل باب منعقد کیا اور فرمایا :
اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول ﷲ ﷺ لم یکن یریٰ لہ ظلٌ فی شمس ولا قمرٍ قال ا بن سبع من خصائصہٖ ﷺ اَنَّ ظلہٗ کان لا یقع علی الارض وانہٗ کان نورا فکان اذا مشیٰ فی الشمس او القمر لا ینظر لہٗ ظلٌ قال بعضھم ویشھد لہٗ حدیث قولہ ﷺ فی دُعائہٖ "واجعلنی نورًا۔ (خصائص کبریٰ، جلد۱، ص۶۸)
ترجمہ۔ حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے اخراج کیا کہ سورج اور چاند کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ دیکھا جاتا تھا، ابن سبع(محدّث) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے یہ بات ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، اور یہ کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نور تھے، اس لئے جب حضورﷺ سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو حضور ﷺ کا سایہ نظر نہ آتا تھا، بعض علماء (محدّثین) نے فرمایا کہ حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی شہادت حضور کی یہ حدیث بھی دیتی ہے جس میں حضور ﷺ کی یہ دُعا وارد ہے کہ : "واجعلنی نورًا" یا اللہ مجھے نور کردے۔
دیکھئے محدثین نے حضور ﷺ کی حدیث "واجعلنی نورًا" سے حضور کے نور ہونے پر استدلال کیا، اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لئے ایسی نورانیت ثابت کی جو حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی دلیل ہو، اور وہ حدیثِ ذکوان کے لئے شاہد قرار پائے۔
اسی طرح زرقانی شریف میں ہے
(ولم یکن لہٗ ﷺ ظلٌ فی شمس ولا قمر) لانہٗ کان نورًا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہٖ قیل وحکمۃ ذلک صیانتہٗ عن ان یطأ کافرٌ علیٰ ظلّہٖ۔
ترجمہ۔ اور نہ تھا حضور ﷺ کے لئے سایہ سورج میں اور نہ چاند میں، اس لئے کہ حضور نور تھے جیسا کہ ابن سبع(محدّث) نے کہا اور امام رزین نے فرمایا کہ سایہ نہ ہونا حضور کے غلبہ انوار کی وجہ سے تھا، بعض علماء نے کہا کہ اس کی حکمت حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس بات سے بچانا ہے کہ کسی کافر کا پائوں حضور ﷺ کے سایہ پر پڑے۔
آگے چل کر فرماتے ہیں :
(رواہ الترمذی الحکیم عن ذکوان) ابی صالح السمان الزیات المدنی اَوْ ابی عمرو المدنی مولٰی عائشۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما وکل منھما ثقۃٌ من التابعین فھو مرسلٌ لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس لم یکن للنبی ﷺ ظلٌ ولم یقم مع الشمس قط الا غلب ضوءہ ضوءَ ا لشمس ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوءہ ضوءَ السراج (وقال ابن سبع کان ﷺ نورًا فکان اذا مشیٰ فی الشمس او القمر لا یظھر لہٗ ظلٌ) لان النور لا ظل لہ (قال غیرہ ویشھد لہٗ قولہٗ ﷺ فی دعائہٖ) لما سَأل ﷲ تعالیٰ ان یجعل فی جمیع اعضائہٖ و جھاتہٖ نورًاختم بقولہٖ (واجعلنی نورًا) ای والنور لا ظل لہ وبہٖ یتم الاستشھاد"۔ انتھٰی (زرقانی، مطبوعہ مصر، جلد ۴، ص۲۲۰)
ترجمہ۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سایہ نہ ہونے کی اس حدیث کو ترمذی حکیم نے ذکوان سے روایت کیا، یہ ذکوان ابو صالح سمان روغن فروش مدنی ہیں یا ابوعمرو مدنی جو اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں (ان میں سے کوئی ہو بہرحال) یہ دونوں ثقہ ہیں تابعین سے، لہٰذا حدیث مرسل ہوگی (کیونکہ اس میں صحابی کا ذکر نہیں) لیکن حضرت ابن مبارک اور علامہ جوزی نے حضرت ابن عباس (صحابی) رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا، اور حضور ﷺ سورج کے سامنے کبھی نہ کھڑے ہوئے لیکن حضور کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی اور حضور ﷺ کبھی چراغ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے مگر حضور کی روشنی چراغ کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی، اور ابن سبع(محدّث) نے کہا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نور تھے اس لئے حضور جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تو حضور کا سایہ ظاہر نہ ہوتا تھا، کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا، اور ان کے علاوہ دوسرے علماء محدثین نے فرمایا کہ گواہی دیتا ہے حضور کے سایہ نہ ہونے پر حضور کا وہ قول مبارک جو حضور کی دُعا میں ہے، جب حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام اعضاء میں اور جمیع جہات میں نور کردے، تو حضورنے اپنی اس دُعا کو اس قول پر ختم فرمایا "وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا" یعنی مجھے بالکل نور کردے، یہ جملہ حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے پر اس لئے شہادت دیتا ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ یہ استشہاد تمام اور پورا ہوجاتا ہے۔
بالکل یہی عبارت زرقانی، جلد ۵، ص۲۴۹ پر ہے، اور اس میں اس مضمون کے بعد ابن سبع کی کتاب "شفاء الصدور" سے مزید اتنا کلام نقل کیا "فلم یکن فیہ قملٌ لانہٗ نورًا" یعنی حضور ﷺ کے لباس مبارک میں جوں بھی اس لئے نہ پڑتی تھی کہ حضور نور تھے۔
حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کا یہی مضمون امام قسطلانی شارح صحیح بخاری نے مواہب اللد نیہ میں بھی نہایت اہتمام کے ساتھ ارقام فرمایا، ملاحظہ فرمائیے مواہب اللدنیہ، جلد۱، ص۲۸۰، اور مفردات امام راغب میں ہے :
وَرَوی اَنَّ النبی ﷺ کان اذا مشیٰ لم یکن لہٗ ظلٌ۔
(مفردات امام راغب اصفہانی، مطبوعہ مصر، ص۳۱۷)
ترجمہ۔ مروی ہے کہ جب حضور ﷺ چلتے تو حضور کا سایہ نہ ہوتا۔
حکیم ترمذی اور ان کی کتاب نوادر الاصول کے متعلق کشف الظنون میں مرقوم ہے:
نوادر الاصول فی معرفۃ اخبار الرسول، لابی عبد ﷲ بن محمد بن علی بن حسن بن بشیر المؤذن الحکیم الترمذی المتوفی شہیدا ۲۵۵ھ خمس وخمسین ومأتین133 وھو الملقب بسلوۃ العارفین وبستان الموحدین۔
(کشف الظنون، جلد۲، ص۶۱۵، مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ نوادر الاصول فی معرفۃ اخبار الرسول، ابو عبداللہ بن محمد بن علی بن حسن بن بشیر مؤذن حکیم ترمذی کی کتاب ہے جو ۲۵۵ھ میں فوت ہوئے جن کا لقب سلوۃ العارفین اور بستان الموحدین ہے۔
امام المحدثین قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں ارقام فرماتے ہیں:
وَمَا ذُکِرَمِنْ اِنَّہٗ لَاظِلَّ لِشَخْصِہٖ فِیْ شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ لِاَنَّہٗ کَانَ نُورًا
(الشفاء قاضی عیاض، جلد ۱، ص۲۴۲، ۲۴۳)
اس کی شرح میں علامہ شہاب الدین خفاجی، نسیم الریاض میں فرماتے ہیں:
و من دلائل نبوتہٖ ﷺ (ماذُکِرَ) بالبنائِ للمجہول والذی ذکرہ ابن سبع (من انہٗ) بیان موصولۃ (لاظل لشخصہٖ) اَی لجسدہ الشریف اللطیف اذاکان(فی شمس ولا قمر) مما تری فیہ الظلال لحجب الأجسام ضوء النیرین ونحوھما، وعلل ذلک ابن سبع بقولہ ؛ (لأنہ) ﷺ، (کان نورًا) والأنوار شفافۃ لطیفۃ لا تحجب غیرھا و الانوار، لا ظل لھا کما ھو مشاہد فی الانوار الحقیقۃ، وہذا رواہ صاحب الوفاء عن ابن عباس، رضی ﷲ تعالیٰ عنھما، قال: لم یکن لرسول ﷲ ﷺ، ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا، ولا مع سراج الا غلب ضوءہ، وقد تقدم ھذا والکلام علیہ ورباعیتنا فیہ وھی:
ماجر لظل أحمد اذیال
فی الارض کرامۃ کما قد قالوا
ھذا عجب وکم بہ من عجب
والناس بظلہ جمیعًا قالوا
وقالوا: ھذا من القیلولۃ، وقد نطق القرآن بأنہ النور المبین وکونہ بشرًا لا ینافیہ کما توھم، فان فھمت فھو نور علی نور، فان النور ھو بنفسہ المظھر لغیرہ، وتفصیلہ فی مشکاۃ الأنوار للغزالی"۔
(نسیم الریاض، جز ۳، ص۳۱۹، مطبوعہ مصر) ۱
ترجمہ۔ اور حضور ﷺ کے دلائل نبوت سے جو کچھ ذکر کیا گیا یعنی محدّث ابن سبع نے ذکر کیا یہ ہے کہ جب حضور ﷺ سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور کے شخص کریم یعنی لطیف جسم مبارک کا سایہ نہ پڑتا تھا، ان سایوں میں سے جو روشنی میں اس وجہ سے دیکھے جاتے ہیں کہ اجسام(کثیفہ) چاند سورج وغیرہ کی روشنی کے لئے حاجب ہوجاتے ہیں اور ابن سبع محدّث نے حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی دلیل یہ بیان کی کہ حضور ﷺ نور تھے اور شفاف لطیف انوار اپنے غیر کے لئے حاجب نہیں ہوتے اور انوار کا سایہ نہیں ہوتا، جیسا کہ حِسّی حقیقی انوار میں اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کو صاحب ِ وفا نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا اور حضور سورج کی روشنی میں کھڑے نہ ہوتے تھے مگر حضور کی روشنی، سورج کی روشنی پر غالب ہوجاتی تھی، نہ کبھی چراغ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے مگر اس کی روشنی پر بھی حضور ﷺ کی روشنی غالب ہوجاتی تھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا اور اس پر کلام بھی گزر چکا اور ہماری یہ رباعی بھی مذکور ہوچکی کہ احمد مجتبیٰ ﷺ کے سایہ کے دامن حضور کی کرامت وفضیلت کی وجہ سے زمین پر نہ کھینچے گئے (یعنی حضور کا سایہ زمین پر واقع نہ ہوا) جیسا کہ محدثین نے فرمایا ہے، یہ بات تعجب کی ہے اور کس قدر تعجب کی ہے کہ زمین پر ان کا سایہ نہ ہونے کے باوجود سب لوگ ان کے سایہ میں پناہ لیتے اور آرام کرتے ہیں، رباعی کے آخری مصرعہ کا اخیری لفظ "قالوا قیلولہ" سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دوپہر کو آرام کرنا۔
اور بے شک قرآن پاک ناطق ہے کہ حضور ﷺ "نور مبین" ہیں، اور حضور کا بشر ہونا آپ کے نور ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا، پس اگر تو سمجھے تو وہ ایسے نور ہیں جو سب نوروں پر غالب ہے، کیونکہ نور اسے کہتے ہیں جوخود ظاہر ہو اور اپنے غیر کو ظاہر کرنے والا ہو، اس کی پوری تفصیل امام غزالی کی کتاب مشکوٰۃ الانوار میں ہے۔
اور سیرت حلبیہ میں ہے:
وانہٗ ﷺ اذا مشی فی الشمس اَو فی القمر لا یکون لہٗ ظلٌ لِانہٗ کَانَ نورًا۔ انتھٰی (سیر ۃ حلبیہ، مطبوعہ مصر، جلد۲، ص ۴۲۲)
ترجمہ۔ بے شک! حضور ﷺ جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور ﷺ کا سایہ نہ ہوتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور ﷺ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ انتہیٰ
تفسیر مدارک میں ہے :
وقال عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ان ﷲ مااوقع ظلک علی الارض لئلا یقع انسانٌ قد مہٗ علی ذلک۔ انتھٰی۔
(تفسیر مدارک، مطبوعہ مصر، ج۲، ص۱۰۳)
ترجمہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا! حضور! اللہ تعالیٰ نے آپ کا سایہ زمین پر نہ گرنے دیا تاکہ کوئی شخص اس پر اپنا پائوں نہ رکھ دے۔ انتہیٰ۔
تفسیر عزیزی میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وسایہ ایشاں بر زمین نیفتد۔ انتہیٰ۔
(تفسیر عزیزی، پ۳۰، ص۲۱۹)
حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔ انتہی
حضرت شاہ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں:
وعثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ گفت کہ سایہ شریف تو برزمین نمی افتد کہ مبادا برزمین نجس افتد۔ انتہیٰ۔
(مدارج النبوۃ، جلد ۲، ص ۱۶۱)
ترجمہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (براء ۃ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق) بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ حضور! آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا کہیں ایسا نہ ہو کہ ناپاک زمین پر واقع ہوجائے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سایہ کی اس قدر حفاظت کی تو آپ کے حرم محترم کو ناشائستگی سے کیونکر ملوث ہونے دے گا؟۔ انتہیٰ۔
یہی شاہ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسی مدارج النبوۃ میں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :
ونبود مر آنحضرت را ﷺ سایہ نہ در آفتاب ونہ در قمر رواہ الحکیم الترمذی عن ذکوان فی نوادر الاصول، وعجب است ازیں بزرگاں کہ ذکر نہ کردند چراغ را و نوریکے از اسمائے آنحضرت است ﷺ ونور را سایہ نمی باشد۔ انتہیٰ۔ (مدارج النبوۃ، جلد۱وّل، ص )
ترجمہ۔ اور نہ تھا حضور ﷺ کا سایہ نہ سورج میں نہ چاند میں اس کو حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں حضرت ذکوان سے روایت کیا، اور ان بزرگوں سے تعجب ہے کہ(اس موقعہ پر) انہوں نے چراغ کا ذکر نہ کیا، اور نور حضور ﷺ کے اسمائے مبارکہ سے ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ "افضل القریٰ" میں فرماتے ہیں:
ومما یؤید انہٗ ﷺ صار نورا انہ کان اذا مشیٰ فی الشمس والقمر لا یظھر لہٗ ظلٌ لانہ لایظھر الا للکثیف و ھو ﷺ قد خلصہُ ﷲ من سائر الکثافات الجسمانیۃ وصیرہٗ نورا صرفا لایظھر لہٗ ظلٌ اصلًا۔ انتھٰی۔
(افضل القریٰ، مطبوعہ مصر، ص ۷۲) ۱
ترجمہ۔ اور جو چیز اس بات کی تائید کرتی ہے کہ حضور ﷺ نور خالص ہوگئے یہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام جب سورج یا چاند کی روشنی میں چلتے تھے تو حضور ﷺ کا سایہ ظاہر نہ ہوتا تھا کیونکہ سایہ صرف جسم کثیف کا ظاہر ہوتا ہے، اور حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کرکے ایسا نور محض بنا لیا تھا جس کا سایہ اصلاً ظاہر نہ ہوتا تھا۔ انتہیٰ۔
مجمع بحار الانوار (مؤلفہ علامہ طاہر پٹنی) میں ہے :
من اسمائہٖ ﷺ النور قیل من خصائصہٖ ﷺ انہ اذا مشیٰ فی الارض فی الشمس والقمر لا یظھر لہٗ ظل۔ انتہٰی۔
(مجمع بحار الانوار، مطبوعہ نول کشور لکھنؤ، جلد سوم، ص ۴۰۲)
ترجمہ۔ حضورﷺ کے اسمائے مبارکہ سے ایک اسم پاک "النور" ہے، کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ کے خصائص سے یہ بات تھی کہ حضور ﷺ جب سورج یا چاند کی روشنی میں زمین پرچلتے تھے تو حضور ﷺ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ انتہیٰ۔
علامہ سلیمان جمل "فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ" میں فرماتے ہیں:
لم یکن لہٗ ﷺ ظلٌ فی شمس ولا قمر۔ انتہٰی۔
(فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ،مطبوعہ مصر۱۳۰۳ھ، ص۵)
حضور ﷺ کا سایہ نہ ہوتا تھا نہ سورج کی روشنی میں نہ چاند کی روشنی میں۔ انتہیٰ
علامہ حسین بن محمد الدیارالبکری کتاب "تاریخ الخمیس" میں فرماتے ہیں :
لم یقع ظلہٗ علی الارض ولارؤی لہٗ ظلٌ فی شمسٍ ولاقمرٍ۔ انتھٰی۔
(تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس، ج۱،النوع الرابع، مطبوعہ بیروت، ص۲۱۸)
ترجمہ۔ حضور ﷺ کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا نہ چاندنی میں۔
یہی عبارت "نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار" میں ہے۔
عارف کامل حضرت مولانا جلال الدین رومی قدس سرہٗ العزیز مثنوی شریف دفتر پنجم میں فرماتے ہیں:

چوں فناش از فقیر پیرایہ شود
او محمد وار بے سایہ شود

در مصرع ثانی اشارہ بمعجزۂ آں سرور ﷺ است کہ آں سرور را سایہ نمی افتاد۔ انتہیٰ۔ (شرح بحرالعلوم)
ترجمہ۔ مصرعہ ثانی میں سرور عالم ﷺ کے معجزہ کی طرف اشارہ ہے کہ حضور ﷺ کا سایہ نہ پڑتا تھا۔ انتہیٰ۔
حضرت مجدد الف ثانی ؄ فرماتے ہیں :
وبکشف صریح معلوم گشتہ است کہ خلقت آں سرور علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلوٰۃ والتسلیمات ناشی ازیں امکان است کہ بصفات اضافیہ تعلق دارد، نہ امکانیکہ در سائر ممکنات عالم کائن است، ہر چند بدقت نظر صحیفۂ ممکنات عالم را مطالعہ نمودہ می آید، وجود آں سرور آنجا مشہود نمی گردد، بلکہ منشاء خلقت وامکان او علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلوٰۃ والسلام در عالم ممکنات نباشد بلکہ فوق ایں عالم باشد ناچار اورا سایہ نبود، ونیز در عالم شہادت سایہ ہر شخص لطیف ترست وچوں لطیف تر ازوی در عالم نباشد اورا سایہ چہ صورت دارد، علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلوٰۃ والتسلیمات۔ انتہیٰ۔
(مکتوبات امام ربانی، جلد سوم، مطبوعہ نولکشور لکھنؤ، ص۱۸۷)
ترجمہ۔ اور کشف صریح سے معلوم ہوا کہ آں سرور عالم ﷺ کی خلقت اس امکان سے ناشی ہے جو صفات اضافیہ سے تعلق رکھتا ہے، نہ اس امکان سے جو تمام عالم ممکنات میں ہے، جس قدر بھی دقت نظر سے صحیفۂ ممکنات عالم کا مطالعہ کیا جائے آں سرور ﷺ کا وجود مبارک وہاں (امکان ممکنات سے متصف ہوکر) ظاہر نہیں ہوتا (حتیٰ کہ) حضور ﷺ کی خلقت وامکان کا منشا ٔ عالم ممکنات میں بالکل نہیں پایا جاتا، بلکہ منشا ٔ خلقت محمدی اس عالم امکان سے بالاتر ہے لہٰذا ناچار حضور ﷺ کا سایہ نہ تھا۔
نیز عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے لطیف تر ہوتا ہے، جب حضور ﷺ سے لطیف تر عالم میں کوئی چیز ہو نہیں سکتی تو حضور ﷺ کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ انتہیٰ۔
اس کے بعد اسی مکتوبات جلد سوم کے مکتوب"صد وبست ودوم" کے آخر میں فرماتے ہیں :

ممکن چہ بود کہ ظل واجب باشد

واجب را تعالیٰ چرا ظل بود موہم تولید مثل است ومبنی بر شائبہ عدم کمال لطافت اصل! ہر گاہ محمد رسول اللہ ﷺ را از لطافت ظل نبود خدائے محمد را چگو نہ ظل باشد۔ انتہیٰ (مکتوبات امام ربانی، جلد سوم، ص۲۳۷)
ترجمہ۔ کیسے ممکن ہے؟ کہ واجب کا سایہ ہو، واجب تعالیٰ کے لئے تو سایہ کا ہونا ممکن ہی نہیں، اس لئے کہ سایہ تولید مثل کا وہم پیدا کرتا ہے اور عدم لطافت اصل کا مُظہر ہے، جب کمال لطافت کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ تھا تو خدائے محمد کا سایہ کیونکر ہوسکتا ہے؟۔ انتہیٰ۔
حضور سیّد عالم ﷺ کے لئے حسّی حقیقی نورانیت کے ثبوت میں ناظرین کرام ہمارے دلائل پڑھ چکے، اَب ایک چھوٹی سی عبارت مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی بھی ملاحظہ فرمالی جائے، ان کے عقیدے سے ہمیں بحث نہیں سردست الزاماً علی الخصم"نشرالطیب" کی ایک عبارت ہدیہ ناظرین ہے۔
جب آپ ہنستے تھے تو دیواروں پر چمک پڑتی تھی۔
(نشرالطیب، مطبوعہ تاج کمپنی،ص۱۶۰)
ناظرین کرام غور فرمائیں کہ یہ عبارت حضور ﷺ کے لئے حسّی حقیقی نورانیت کی مثبت ہے یا نہیں ؟
اگر گنجائش ہوئی تو دیوبند کا فتویٰ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سایہ نہ ہونے کے بارہ میں فتاویٰ دیوبند سے نقل کیا جائے گا لیکن اہل انصاف کو اَب مزید کسی حوالہ کی ضرورت نہیں رہی الحمد ﷲ، حق آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا۔ ہم نے اس بیان میں جن علماء اُمت اور مصنفین کے اقوال وروایات پیش کئے ہیں اور جن کتابوں سے عبارات نقل کی ہیں ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔
علماء مصنفین
(۱) حکیم ترمذی۔ (۲) حافظ رزین۔ (۳) ابن مبارک۔ (۴) محدّث ابن سبع۔(۵)علامہ ابراہیم بیجوری۔ (۶) قاضی عیاض۔ (۷) مولانا روم۔ (۸) علامہ حسین بن محمد دیار البکری۔ (۹) محدّث ابن جوزی۔ (۱۰) صاحب سیرت شامی۔ (۱۱) صاحب سیرت حلبیہ۔ (۱۲) امام جلال الدین سیوطی۔ (۱۳) امام راغب اصفہانی۔ (۱۴) علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی۔ (۱۵) علامہ شہاب الدین خفاجی۔(۱۶) امام قسطلانی۔ (۱۷) امام زرقانی مالکی۔ (۱۸) شیخ عبدالحق دہلوی۔ (۱۹) حضرت مجدد الف ثانی۔ (۲۰) علامہ بحر العلوم لکھنوی۔ (۲۱) شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی۔ (۲۲) امام نسفی۔ (۲۳) علامہ سلیمان جمل۔ (۲۴) علامہ ابن حجر مکی۔
ان کے علاوہ دو مولوی مخالفین کے جن میں ایک مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور دوسرے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی ہیں۔
اور جن کتابوں سے ہم نے اپنے بیان کے دلائل کو اخذ کیا ہے ان کے نام حسب ذیل ہیں۔
(۱)نوادر الاصول فی بیان اخبار الرسول۔ (۲) سیرۃ حلبیہ۔ (۳) خصائص کبریٰ۔ (۴) مفردات امام راغب۔ (۵) مجمع بحار الانوار۔ (۶) نسیم الریاض۔ (۷) شفاء قاضی عیاض۔ (۸) زرقانی۔ (۹) مدارج النبوۃ۔ (۱۰) مکتوبات امام ربانی۔ (۱۱)تفسیر عزیزی۔ (۱۲) تفسیر مدارک۔ (۱۳) مثنوی شریف۔ (۱۴) شرح بحر العلوم۔ (۱۵) افضل القریٰ۔ (۱۶) مواہب اللدنیہ۔ (۱۷) شمائل ترمذی انموذج اللبیب اور ان کے علاوہ دیگر کتب معتبرہ سے روشن دلائل اخذ کرکے ناظرین کے سامنے پیش کردئیے ہیں۔
لیجئے ایک نظر دیوبند کا فتویٰ بھی دیکھتے چلئے۔
آنحضرت ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ سوال نمبر ۱۴۶۴
وہ حدیث کون سی ہے جس میں یہ ہے کہ رسول مقبول ﷺ کا سایہ زمین پر واقع نہیں ہوتا تھا ؟
الجواب۔ امام سیوطی نے خصائص کبریٰ میں آنحضرت ﷺ کا سایہ زمین پر واقع نہ ہونے کے بارے میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے، اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول ﷲ ﷺ لم یکن یری لہٗ ظل فی شمسٍ ولا قمرٍ الخ اور تواریخ حبیب الٰہ میں مفتی عنایت احمد صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ آپ کا بدن نور تھا اسی وجہ سے آپ کا سایہ نہ تھا، مولوی جامی ؒ نے آپ کا سایہ نہ ہونے کا خوب نکتہ لکھا ہے اس قطعہ میں۔

پیغمبر ما نداشت سایہ
تاشک بدل یقیں نیفتد
یعنی ہر کس کہ پیرو اوست
پیدا ست کہ پا زمیں نیفتد

(عزیز الفتاویٰ، جلد ہشتم، ص۲۰۲)

ایک شبہ کا جواب
فتاویٰ دیوبند سے فتویٰ منقولہ بالا نقل کرتے وقت ایک دوست نے شبہ وارد کیا کہ میں نے دیوبند ہی کے کسی مجموعہ فتاویٰ میں اس فتوے کے خلاف فتویٰ دیکھا ہے، فقیر نے جواباً عرض کیا کہ ان حضرات کے فتووں کا اختلاف کوئی نئی بات نہیں، نہ ہمیں اس سے کوئی بحث ہے، ہم تو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے محض اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس مسئلہ کو منسوب کیا وہ اعلیٰ حضرت پر افتراء کرتے ہیں دراصل ان کے مقتدا ء بھی ایسے فتوے دیتے چلے آئے اور انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ واقعی حضور ﷺ کا بدن مبارک نور تھا، جس کی وجہ سے حضور ﷺ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا اور عارف جامی جیسے حضرات کا بھی یہ مسلک ان کے نزدیک مسلّم ہے، اَب اگر وہ اس کے خلاف لکھیں تو مورد الزام وہ خود بنتے ہیں، جس کا جواب ان کے اپنے ذمہ ہے کہ جس بات کو وہ اہل حق کا مسلک مان چکے ہیں اس کا انکار کیوں کرتے ہیں؟
ایک اور اعتراض کا جواب
اس مقام پر ایک یہ اعتراض بھی ہوسکتا ہے کہ اگر واقعی حضور ﷺ کا جسم مبارک نور تھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس حدیث کے کیا معنی ہوں گے کہ نبی کریم ﷺ میرے حجرۂ مبارکہ میں رات کی نماز پڑھتے تھے چراغ نہ ہونے كی وجہ سے اندھیرا ہوتا تھا اور حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام جب سجدہ میں جاتے تو میرے پائوں کو اپنے مبارک ہاتھ سے دبا دیتے اور میں اپنے پائوں سکیڑ لیتی تب حضور ﷺ سجدہ فرماتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث سے یا اس قسم کی بعض دیگر روایات سے نور اقدس کے وجود کی نفی ہرگز ثابت نہیں ہوتی، بلکہ غایت ما فی الباب نور مبارک کے ظہور کی نفی ہوگی اور نفیٔ ظہور، نفیٔ وجود کو مستلزم نہیں، ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ نور دوقسم کا ہے حسّی اور معنوی، دیکھئے علم وادراک نور معنوی ہے لیکن جب عدم التفات کا حال طاری ہوتا ہے تو اس وقت نور ِعلم کا ظہور نہیں ہوتا، مگر اس کے وجود کی نفی آپ نہیں کرسکتے، کیونکہ تصدیق اور ایمان بھی علم ہے، جب مومن مصدق پر نیند، بے ہوشی یا اس کے علاوہ کسی قسم کے عدم التفات از قبیل ذہول وغیرہ کا غلبہ ہوتا ہے تو ظہورِ علم کی نفی ہوگی، وجود کی نفی نہیں ہوسکتی ورنہ علم کی نفی سے تصدیق کی نفی ہوجائے گی، کیونکہ وہ تصدیق کا منقسم ہے اور تصدیق ہی عین ایمان ہے، تو معاذ اللہ ان سب حالتوں میں مومن کے ایمان کی نفی ہوگی حالانکہ یہ قطعاً باطل ہے، پس جس طرح نور معنوی بعض احوال میں ظاہر نہیں ہوتا مگر موجود ہوتا ہے اسی طرح بمقتضائے حکمت ایزدی کسی وقت نور حسّی بھی ظاہر نہ ہو تو اس کا وجود منتفی نہ ہوگا، دیکھئے اسی حدیث میں نور اقدس کے عدم ظہور سے دین کے کئی مسئلے پیدا ہوگئے، مثلاً اگر نمازی پوری طرح مطمئن ہے تو اندھیرے میں نماز کا جواز ثابت ہوا، پھر یہ کہ نمازی کے سامنے عورت کا جانب قبلہ میں معترض ہونا مفسد صلوٰۃ نہ رہا، تیسرے یہ کہ نمازی اگر بحالت نماز عورت کے جسم کو ہاتھ لگادے تو وضو اور نماز دونوں صحیح ہیں، اگر اس وقت حضور کا نور بالقوہ نہ ہو جاتا تو یہ مسائل کیسے مدوّن ہوتے ؟ یاد رکھئے حضور کی ادائیں دین ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔
الغرض بربنائے حکمت جیسے نور معنوی کا عدم ظہور جائز ہے اسی طرح حکمت کے پیش نظر نور حسّی کا عدم ظہور بھی یقیناً جائز اور ممکن ہے مگر اس سے عدم وجود پر استدلال کرنا بے نوری کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے ؟
حرف آخر
الحمد للہ! ہم نے نہایت بسط وتفصیل کے ساتھ بیان کردیا کہ حضور ﷺ کا جسم پاک ایسا نورانی اور لطیف تھا کہ اس کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا، نفی سایہ کے بیان سے ہم فارغ ہوگئے البتہ حدیث ذکوان کے متعلق ابھی کچھ عرض کرنا باقی ہے۔ فاقول وباللہ التوفیق۔
اس میں شک نہیں کہ حدیث ذکوان ضعیف ہے، لیکن ایسی نہیں کہ بالکل ساقط الاعتبار ہو، چہ جائیکہ اسے موضوع کہا جائے، اس لئے کہ اگر یہ حدیث بالکل ساقط الاعتبار یا موضوع ہوتی تو وہ جلیل القدر ائمہ حدیث جن کی عبارات ہم اپنے بیان میں نہایت بسط وتفصیل کے ساتھ نقل کر آئے ہیں ہرگز اس روایت کو حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی تائید میں پیش نہ کرتے۔
اہل علم خوب جانتے ہیں کہ جن احادیثِ ضعیفہ کو محدثین نے مجروح کرکے چھوڑ دیا اور کسی معتبر محدّث نے ان سے کوئی استدلال نہیں کیا نہ کسی مسئلہ کی تائید میں انہیں پیش کیا ان سے استدلال کرنا ضرور محلِ نظر ہے، لیکن جن احادیث ضعیفہ سے اہل علم نے استدلال کیا یا انہیں کسی مسئلہ کی تائید میں پیش کیا، انہیں علی الاطلاق ساقط الاعتبار قرار دینا کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسی صورت میں وہ تمام محدثین اور علمائے اعلام مورد طعن قرار پائیں گے جنہوں نے ان احادیث کو کسی مسئلہ شرعیہ کی دلیل یا اس کا مؤید قرار دیا ہے اور اگر اس بارے میں کوئی شخص ان تمام اجلۂ محدثین کے خلاف اپنے خیال کو صحیح سمجھتا ہے تو یہ اس کی جرأت عظیمہ ہے جو اہل انصاف کے نزدیک کسی طرح مقبول اور پسندیدہ نہیں ہوسکتی۔
علاوہ ازیں ابواب فضائل ومناقب میں ضعاف کا معتبر ہونا ایک حقیقت ثابتہ ہے، جس کا انکار محض تعصب واعتساف ہے۔
اس کے بعد یہ بھی عرض کردوں کہ رسول اللہ ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی اصل دلیل ہمارے نزدیک وہ آیات قرآنیہ مرقومہ بالا ہیں جن میں حضور ﷺ کو نور فرمایا گیا ہے، نیز وہ احادیث مذکورۃ الصدر ہیں جن سے حضور ﷺ کے لئے ہم کامل نورانیت ثابت کرچکے ہیں اور سایہ نہ ہونے کی روایات ان آیات واحادیث کے مضمون کی مؤید ہیں، ایسی صورت میں ان کا ضعف کسی حال میں بھی ہمارے لئے مضر نہیں۔
اگر آپ اعتراض کریں کہ جب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا سایہ نہ ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو اس کا منکر تمہارے نزدیک خارج از اسلام ہونا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری پیش کردہ نصوص چونکہ دوسرے معنی کی بھی محتمل ہیں اس لئے ان کا یہ حکم قطعی نہیں لہٰذا منکر کو ہم خارج از اسلام نہیں کہہ سکتے۔
ہاں اس میں شک نہیں کہ دوسرا احتمال چونکہ ضعیف ہے اس لئے وہ ہمارے استدلال سے مانع نہیں ہوسکتا، لہٰذا باب مناقب میں ان سے ہمارا دعویٰ بھی ثابت ہوجائے گا اور عدم قطعیت کی وجہ سے اس کا منکر کافر بھی نہ ہوگا۔
پھر یہ کہ فقہاء اور اہل علم جس حدیث ضعیف سے کسی مسئلہ پر استدلال کریں یا اسے کسی مسئلہ شرعیہ کا مؤید قرار دیں تو اس میں فی الجملہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ کما لا یخفی علی الذکی۔
چونکہ اس حدیث کو بھی علماء محدثین نے حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی دلیل یا اس کا مؤید قرار دیا ہے اس لئے اس میں ایسی قوت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے اسے بالکلیہ ساقط الاعتبار کہنا درست نہیں۔
علاوہ ازیں یہ حدیث صرف ذکوان سے نہیں بلکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی مروی ہے جیسا کہ زرقانی علی المواہب میں ہے:
فھو مرسلٌ لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس لم یکن للنبی ﷺ ظل۔ الحدیث
(زرقانی، جلد رابع، مطبوعہ مصر، ص۲۲۰)
اور زرقانی علی المواہب کے متعلق آپ کے علامہ شبلی نعمانی "سیرۃ النبی" میں ارقام فرماتے ہیں :
"زرقانی علی المواہب، یہ مواہب ا للدنیہ کی شرح ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سہیلی (روض الانف) کے بعد کوئی کتاب اس جامعیت اور تحقیق سے نہیں لکھی گئی، آٹھ جلدوں میں ہے اور مصر میں چھپ گئی ہے"۔ (سیرۃ النبی، مؤلفہ شبلی نعمانی، جلد اوّل، طبع پنجم، ص۳۷)
لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر پیچھا چھڑانا ممکن نہیں، ہاں ! بعض رواۃ کی جہت سے اس کا ضعف مسلّم ہے، لیکن یاد رہے کہ اس حدیث کی صرف ایک روایت نہیں بلکہ ایک سے زائد روایتوں سے یہ حدیث مروی ہے جیسا کہ زرقانی کی منقولہ عبارت سے ثابت ہے لیکن تائید مزید کے لئے آپ کے علامہ شبلی نعمانی کی ایک عبارت بھی پیش کئے دیتا ہوں، دیکھئے وہ لکھتے ہیں:
ضعیف روایتوں میں ہے کہ آنحضرت صلعم کاسایہ نہ تھا، یعنی زمین پر جسم اقدس کا سایہ نہیں پڑتا تھا، لیکن محدثین کے نزدیک یہ روایتیں صحت سے خالی اور ناقابل اعتبار ہیں۔
(سیرۃ النبی، مؤلفہ شبلی نعمانی، جلد دوم، ص۱۹۸)
شبلی صاحب نے اس عبارت میں دو جگہ"ضعیف روایتوں" اور "یہ روایتیں" لکھ کر اس بات کو تسلیم کرلیا کہ حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کا مضمون ایک سے زیادہ کئی روایتوں میں آیا ہے، مانا کہ وہ سب ضعیف ہیں لیکن بہر حال وہ ایک روایت نہیں بلکہ کئی روایتیں ہیں، اس کے باوجود بھی انہیں ناقابل اعتبار کہنا ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے؟ فن حدیث سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ضعیف روایت طرق متعددہ سے مروی ہو تو اسے علی الاطلاق ناقابل اعتبار نہیں کہہ سکتے، اور علمائے محدثین کی عبارات تو ہم پہلے ہی نقل کرچکے ہیں جن کو پڑھ کر ہمارے ناظرین کرام کو محدثین کا مسلک معلوم ہوگیا ہوگا۔
ایک معمّہ
عبارت منقولہ بالا میں شبلی صاحب نے حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی روایتوں کی سند کا وجود تو مان لیا، یہ اور بات ہے کہ صحت کی نفی اور ضعف کا اثبات کیا لیکن بہر نوع سند کو ضرور تسلیم کیا کیونکہ صحیح یا ضعیف ہونا دراصل سند ہی کی صفت ہے اگر سند کا وجود نہ ہو تو صحت وضعف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
لیکن یہی شبلی صاحب اس سے پہلے ص۱۹۷ میں ارقام فرما چکے ہیں :
عام طور سے مشہور ہے کہ آپ کے سایہ نہ تھا لیکن اس کی کوئی سند نہیں۔ (سیرۃ النبی، مؤلفہ شبلی نعمانی، جلد دوم، ص۱۹۷)
اَب یہ معمہ شبلی صاحب یا ان کے مقلدین ہی حل فرمائیں گے کہ حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی جب کوئی سند ہی نہیں تو آپ کس چیز کو صحت سے خالی اور ضعیف قرار دے رہے ہیں۔
جن مودودیت زدہ لوگوں نے از راہ تعصب! حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی حدیث کو مرسل اور ضعیف کہہ کر بالکل ساقط الاعتبار قرار دیدیا، نہ تعدد روایات کا لحاظ رکھا نہ اجلۂ فضلائے اُمت کے مسلک کو دیکھا، گویا جلیل القدر محدثین کے مسلک کو قرآن وحدیث کے خلاف سمجھا، ان کی خدمت میں نہایت اخلاص کے ساتھ گزارش ہے کہ اس مقام پر ذرا مودودی صاحب کے ارشادات ہی ملاحظہ فرمالئے ہوتے، آپ کے مودودی صاحب نے ایک مرسل اور ضعیف حدیث سے پردہ کے بارہ میں(باب احکام میں) استدلال کیا مگر استاذ ناصرالدین نے جب ان کی گرفت کی تو مودودی صاحب نے ان کو وہی جوابات دئیے جو ایک زمانہ سے ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے چلے آئے ہیں، خدا را عناد کو چھوڑ کر ذرا انصاف کیجئے شرعی مسائل میں یہ جانب داری اچھی نہیں، وہاں تو احکام کا معاملہ ہے اور یہاں محض مناقب کا مسئلہ ہے اگر اَب بھی آپ اپنی ضد پر اڑے رہے تو یہ حق پسندی نہ ہوگی، مودودی صاحب کے بیان سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں انہیں غور سے پڑھ لیجئے، ماننا نہ ماننا آپ کی مرضی پر موقوف ہے، وہ ترجمان القرآن میں فرماتے ہیں:
"اوّلاً یہ بات اصحاب علم سے پوشیدہ نہیں ہے اور فاضل استاذ سے بھی پوشیدہ نہ ہوگی کہ ایک ضعیف حدیث اگر کسی مضمون کے بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کے ضعف سند کی وجہ سے اس کا حکم بھی ضعیف ہوجاتا ہے، لیکن اگر متعدد ضعیف احادیث ایک مضمون کے بیان کرنے میں متفق ہوں تو چاہے ان میں سے ہر ایک فرداً فرداً بلحاظ اسناد کتنی ہی ضعیف ہو ان کا مشترک مضمون قوی ہوجاتا ہے، استاذ محترم نے میری نقل کردہ ایک حدیث کے ضعف پر کلام کیا ہے مگر اس بات کو نظر انداز کردیا ہے کہ ان ضعیف احادیث کی مجموعی شہادت سے ان کے مشترک مضمون کو قوت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔
ثانیاً حدیث ضعیف کے معنی لازماً یہی نہیں ہے کہ وہ جھوٹ اور موضوع ہے، اس میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، کذب کا احتمال یہ تقاضا ضرور کرتا ہے کہ اس حکم کے معاملہ میں احتیاط برتی جائے جو اس میں بیان کیا گیا ہو پھر جب کہ اسی حکم کا ذکر متعدد دوسری ضعیف احادیث میں بھی ہو تو اس کے احتمالِ صدق کا پہلو زیادہ راجح ہوجاتا ہے، ہم چاہے یہ نہ کہہ سکیں کہ ان احادیث سے فلاں فعل کا واجب یا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن یہ تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ فلاں فعل شرع پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ، اور فلاں فعل کرنا چاہئے یا نہ کرنا چاہئے کم از کم اس سے شریعت کے رحجان کا پتہ ضرور چلتا ہے۔
ثالثاً یہ بات بھی فاضل استاذ سے پوشیدہ نہ ہوگی کہ فقہاء کی تلقی بالقبول احادیث کے ضعف میں نہیں بلکہ اس کی قوت میں اضافہ کرتی ہے"۔
(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، شمارہ جنوری ۱۹۶۰ء، ص۲۴)
اس کے بعد ص۲۵ پر فرماتے ہیں :
فاضل استاذ درست کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لئے ضعیف ہے لیکن صرف مرسل اور ضعیف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خبر بالکل جھوٹی اور ساقط الاعتبار ہی ہو۔
اس کے بعد ص۲۶ پر فرماتے ہیں :
جہاں تک قرآن اور سنت صحیحہ کے خلاف دعویٰ ہے اس کے متعلق تو میں بعد میں کچھ عرض کروں گا، لیکن یہاں اتنی بات عرض کئے بغیر میں نہیں رہ سکتا کہ ابن جریر اور قتادہ نہ تو قرآن سے اس قدر ناواقف ہیں کہ ایک چیز اس کے خلاف ہو مگر انہیں اس کا احساس نہ ہو اور نہ وہ ایسے جری ہیں کہ جان بوجھ کر ایک مخالف قرآنی بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کردیں، ایسا دعویٰ کرنے سے پہلے استاذ ناصر الدین کو اپنی جگہ اچھی طرح غور کرلینا چاہئے تھا کہ وہ کیا فرمارہے ہیں۔
آگے چل کر ص۳۳ پر فرماتے ہیں کہ:
اس کے متعلق استاذ موصوف کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے یعنی نبی ﷺ کا قول وفعل نہیں بلکہ ایک صحابیہ کا فعل ہے، اگر استاذ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آثار صحابہ ناقابل احتجاج ہیں اور ان سے کوئی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی، یا ان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے معاملہ میں شریعت کا منشاء معلوم کرنے کے لئے اُمہات المومنین کا عمل کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔
مودودی صاحب کے اس بیان کی روشنی میں حسب ذیل امور واضح ہوگئے:
۱۔ حدیث ذکوان جس میں حضور ﷺ کے جسمانی سایہ کی نفی ہے، باوجود مرسل اور ضعیف ہونے کے فی الجملہ قوت رکھتی ہے اس لئے کہ دیگر روایات اس کے مضمون کی مؤید ہیں، جیسا کہ ہم بالتفصیل عرض کرچکے ہیں۔
۲۔ محض ضعف کی وجہ سے اس حدیث کو جھوٹا اور موضوع کہنا جائز نہیں، اس کی روشنی میں کم از کم شریعت کا یہ رحجان تو ظاہر ہوگیا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا سایہ نہ تھا۔
۳۔ محدثین کا اس حدیث کو حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کے ثبوت یا اس کی تائید میں پیش کرنا اس کے ساقط الاعتبار ہونے کی تردید کرتا ہے۔
مخلصا نہ گزارش
اپنے مخالفین کی خدمت میں ایک دفعہ پھر گزارش کروں گا اور مخلصانہ عرض کروں گا کہ حضور سیّد عالم ﷺ کو نور مان کر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جسم اقدس سے سایہ کی نفی کرنے میں حسب ذیل اعلام اُمت ہمارے مقتداء ہیں جن کی چمکتی ہوئی عبارات کتب معتبرہ سے ہم نقل کرچکے ہیں اور بنظر سہولت اکثر کتابوں کے صفحات بھی تحریر کردئیے ہیں۔
(۱) حکیم ترمذی۔ (۲) حافظ رزین۔ (۳) ابن مبارک۔ (۴) ابن جوزی۔ (۵)محدّث ابن سبع۔ (۶) قاضی عیاض۔ (۷) جلال الدین سیوطی۔ (۸) علامہ حسین بن محمد دیار بکری۔ (۹)صاحب سیرت حلبیہ علامہ برہان الدین حلبی۔ (۱۰)عارف رومی۔ (۱۱) شہاب الدین خفاجی۔ (۱۲) امام قسطلانی۔ (۱۳)علامہ زرقانی۔ (۱۴) امام راغب اصفہانی۔ (۱۵) امام نسفی۔ (۱۶) مجدد الف ثانی۔ (۱۷)علامہ ابراہیم بیجوری۔ (۱۸) علامہ بحر العلوم عبدالعلی لکھنوی۔ (۱۹) امام محمد بن یوسف صالحی صاحب سیرت شامی۔(۲۰) علامہ سلیمان جمل۔(۲۱) علامہ ابن حجر مکی۔(۲۲)علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی۔(۲۳) شاہ عبدالحق محدّث دہلوی۔ (۲۴) شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی۔ علیہم الرحمۃ والرضوان۔
اگر ہمارے خلاف حضور ﷺ کی نورانیت کی نفی اور جسمانی سایہ کے ثبوت میں ایسے ہی محققین اعلام اُمت کے صریح اور واضح اقوال آپ کے پاس ہیں تو ازراہ کرم قائلین کے اسماء گرامی کے ساتھ اسی طرح دکھائیںجیسے ہم نے مسلّم بزرگان دین کے ارشادات اور ان کے اسماء گرامی کی فہرست آپ کے سامنے پیش کی ہے۔

اُولٰئِکَ اٰبَائی فجئنا فجاھم
اذا جمعتنا یا جریر المجامع

ورنہ برائے کرم غور فرمائیے کہ کیا ان اعلام اُمت نے معاذ اللہ! قرآن وحدیث کے خلاف اپنی طرف سے ایک جھوٹی بات حضور ﷺ کی طرف منسوب کردی؟ آپ کے خیال میں یہ حضرات قرآن وحدیث سے ایسے ہی ناواقف تھے کہ ایک خلاف واقعہ امر کو انہوں نے حضور ﷺ کی طرف نہایت شدومد کے ساتھ منسوب کردیا، اور انہیں اس کا احساس تک نہ ہوا۔
مجدد الف ثانی
پھر سب سے زیادہ عجیب یہ بات ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضور سید عالم ﷺ کو نور مان کر حضور کے جسم اقدس سے سایہ کی بار بار نفی فرمائی اور نہایت لطیف ونفیس اندازِ بیان میں اس نورانی مضمون کو ادا فرمایا۔
حضرت مجدد الف ثانی کو تمام دیوبندی اور خصوصاً مودودی قسم کے لوگ بھی مجدد مانتے ہیں اور وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مجدد کا کام یہ ہے کہ دین میں لوگوں کی پیدا کی ہوئی خرابیوں کا ازالہ کرے، مسلمانوں کے غلط اور فاسد خیالات کی تردید اور عقائد حقہ کی ترویج وتائید مجدد کے فرائض تجدید کا جزو لا ینفک ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ناظرین کرام نے دیکھ لیا کہ مجدد الف ثانی ؒ نے حضور اکرم نورِ مجسم ﷺ کی نورانیت کا عقیدہ ظاہر فرمایا اور جسم اقدس کے سایہ کی نفی فرمائی، جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ حضور ﷺ کے نور ہونے کا اعتقاد اور جسم اقدس کے سایہ کی نفی کا مسلک ہی حق ہے اور اس کا انکار کرنا شرعی نقطۂ نظر سے قطعاً غلط اور فاسد ہے۔
الحمد ﷲ! حدیث ذکوان پر کلام ختم ہوا اور مسئلہ ظل نبی ﷺ کی نفی کے پہلو کا مکمل جائزہ ناظرین کرام کے سامنے آگیا، اَب دلائل اثبات پر کلام شروع کرتا ہوں، علیہ توکلت وبہٖ استعین۔
حضور ﷺ کے سا یہ ہونے کی پہلی دلیل
ایک عامۃ الورود واقعہ میں تمام صحابہ کا سکوت دلیل ہے کہ حضور کا سایہ تھا۔
(ملخص از مکتوب میرزا ریاض احمد صاحب لاہوری، بحوالہ تجلی دیوبند)
جا ئزہ
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے سایہ نہ ہونے کی دلیل قرآن وحدیث کی وہ نصوص ہیں جن سے حضور سیّد عالم ﷺکی کمال نورانیت اور لطافت ثابت ہوتی ہے، ناظرین کرام پڑھ چکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے جسمانی نور سے دیواریں روشن ہوجاتی تھیں، تو جب ان آیتوں کی تلاوت شب وروز صحابہ کرام کرتے تھے اور ان حدیثوں کو روایت کرنے والے بھی صحابہ کرام ہی ہیں تو اَب ان کا سکوت کہاں رہا ؟ ذرا غور فرمائیے کہ صحابہ کرام حضور ﷺ کے لئے حسّی حقیقی نورانیت کے قائل ہیں اور حسّی حقیقی نورانیت کے لئے سایہ نہ ہونا لازم ہے تو جس نے حضور ﷺ کو نور حسّی حقیقی کہا اس نے حضور ﷺ کے جسم اقدس سے سایہ کی نفی کی، یاد رکھئے لوازم بیّنہ محتاجِ بیان نہیں ہوا کرتے، ملزوم کا ذکر ہی لازم کا ذکر ہوتا ہے، اگر میں کہوں کہ سورج نکل آیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے وجودِ نہار سے سکوت اختیار کیا یا میں نے کسی کو بنی آدم کہا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا ہر گز درست نہیں کہ میں اس کے انسان ہونے سے ساکت ہوں، کسی کو صالح کہنا اس کے مومن ہونے سے سکوت اختیار کرنا نہیں بلکہ اس کے ایمان کا اقرار ہے، دیکھئے قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے نہ کسی صحابی نے اللہ تعالیٰ کو واجب الوجود کہا، اَب اگر کوئی سادہ لوح یہ کہہ دے کہ قرآن وحدیث اور تمام صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے سے ساکت ہیں تو یہ اس کی نادانی ہوگی کیونکہ جب قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کو سبحان کہا گیا اور تمام صحابہ اللہ تعالیٰ کی سبحانیت کے قائل ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے کا اقرار کررہے ہیں کیونکہ سبحان کے لئے واجب الوجود ہونا لازم ہے، بس اسی طرح حضور ﷺ کے نور حقیقی ہونے کی وجہ سے حضور ﷺ کے لئے سایہ نہ ہونا لازم ہے، اور ملزوم کا اقرار لازم کا اقرار ہوتا ہے، اس لئے صحابہ کرام کو اس مسئلہ میں ساکت کہنا صحیح نہیں۔
رہا یہ امر کہ حضور ﷺ کو بے سایہ دیکھ کر کافر ایمان کیوں نہ لائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لانے والے نہ تھے وہ اس سے بھی بڑے عظیم وجلیل معجزات دیکھ کر ایمان نہیں لائے، کسی کے ایمان نہ لانے سے حضور ﷺ کے کسی کمال یا معجزہ کی نفی نہیں ہوسکتی۔
لوگوں کو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سایہ نہ ہونے پر تعجب ہے اور میں عرض کروں گا کہ حضور ﷺ کی نورانیت ثابت ہوجانے کے بعد حضور کا سایہ تعجب کی بات ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ کثیف چیز کا سایہ ہرگز تعجب کا باعث نہیں ہوتا، البتہ اگر کسی لطیف نورانی چیز کا سایہ پڑنے لگے تو ہر شخص کو تعجب ہوگا، جب حضور نبی کریم ﷺ کی نورانیت ولطافت اظہر من الشمس تھی تو اَب سایہ نہ ہونے پر کیا تعجب رہا؟
اس کے بعد اتنی بات اور عرض کردوں کہ ہمارے پیش کردہ بیس سے زیادہ ائمہ اعلام نے جب حضور ﷺ کے جسم اقدس سے سایہ کی نفی کردی تو اس کے بعد تمام علمائے اُمت کا سکوت اس امر کی روشن دلیل ہے کہ یہ مسلک حق ہے اور جو استشہاد اس بارے میں کیا گیا ہے صحیح ہے ورنہ ایک غلط استدلال اور باطل عقیدہ کے سامنے آجانے کے بعد کسی اہل حق کے لئے سکوت جائز نہیں ہوسکتا۔
ثبوت ظل کی احاد یث
اَب ان احادیث پر کلام کرتا ہوں جنہیں مخالفین نے حضور ﷺ کے جسمانی سایہ کے ثبوت میں پیش کیا ہے، وہ تین حدیثیں ہیں جو ناظرین کرام اس مضمون کے شروع میں پڑھ چکے ہیں، ان میں ایک حدیث مسند امام احمد کی ہے اور دوسری مجمع الزوائد کی، یہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعہ کے بیان میں وارد ہیں، وہ واقعہ ناظرین کرام کے سامنے آچکا ہے جو اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت اثناء سفر میں اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اونٹ بیمار ہوگیا، اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ضرورت سے زائد اونٹ تھا، حضور ﷺ نے حضرت زینب سے فرمایا کہ تم ایک اونٹ صفیہ کو دے دو، انہوں نے کہا حضور ! اس یہودیہ کو میں اپنا اونٹ دے دوں؟ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اس بات پر حضرت زینب سے ناراض ہوگئے اور ان سے بات چیت چھوڑ دی، یہ واقعہ حجۃ الوداع سے واپسی کے موقعہ پر سفر میں ذی الحجہ کے آخری دنوں میں پیش آیا تھا وہ باقی ایام سب اسی حالت میں گزرے حتیٰ کہ ماہ محرم اور ماہ صفر اور اس کے بعدربیع الاوّل شریف کے چند دن بھی اسی ناراضگی کے حال میں بسر ہوئے، حضرت زینب فرماتی ہیں میں نے سمجھا کہ حضور ﷺ کو اَب میری کوئی حاجت نہیں رہی، اس لئے میں نے اپنا بستر اور چارپائی وغیرہ سامان اُٹھا دیا،اسی اثناء میں مَیں ایک دن بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک ٹھیک نصف النہار کے وقت مَیں نے حضور ﷺ کے ظل مبارک کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔
مخالفین کے مبلغ علم پر حیرت ہوتی ہے کہ انہیں جہاں لفظ ظل نظر آیا فوراً اس کے معنی جسم کے تاریک سایہ کے سمجھ لئے، ایسی ذہنیت والوں سے تعجب نہیں کہ وہ حدیث مبارک سبعۃ یظلھم ﷲ بظلہ (سات آدمی ایسے ہوں گے جن پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا سایہ ڈالے گا) اور اسی طرح دوسری حدیث یوم لا ظل الاظلہ(قیامت کے دن اللہ کے سایہ کے سوا کسی کا سایہ نہ ہوگا) پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے لئے بھی جسمانی تاریک سایہ ثابت کردیں۔ معاذ ﷲ ثم معاذ ﷲ۔
سابقاً عرض کرچکا ہوں کہ مسند امام احمد اور مجمع الزوائد کی دونوں کتابوں میں یہی ایک واقعہ مروی ہے، حادی الارواح کی حدیث کا جواب ان شاء اللہ آخر میں پیش کروں گا، پہلے اسی واقعہ کی دونوں حدیثوں کا جواب عرض کرتا ہوں جس کے چار مقدمے ہیں، ان شاء اللہ ترتیب وار ہر مقدمہ کے دلائل لکھوں گا، جنہیں پڑھ کر ناظرین کرام پر واضح ہو جائے گا کہ مخالفین کا استدلال اِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ سے بھی گیا گزرا ہے۔
امر اوّل
ظل" کے معنی کا بیان اور اس بات کا ثبوت کہ لفظ "ظل" لغتِ عرب میں "شخص" اور "جسم" کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔
امر دوم
ظل اور فیٔ کے معنی میں فرق ہے۔
امر سوم
جس دن حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ٹھیک نصف النہار(دوپہر) کے وقت حضور ﷺ کے ظل کریم کو دیکھا تھا وہ دن گرمی کے موسم میں تھا۔
امر چہارم
موسم گرما میں نصف النہار کے وقت ظل اور فیٔ کا وجود نہیں ہوتا۔
امر اوّل
ظل کے معنی کا بیان اور "ظل" بمعنی شخص اور جسم کا ثبوت
۱۔ منتہی الارب لفظ ظل کے تحت فرماتے ہیں :
(۱) راحت (۲) ونعمت و خیال کہ از دیو وپری وجزآں پید اشد۔ (۳) واسپ مسلمہ بن عبدالملک (۴) و ارجمندی (۵) و استواری، (۶) و ریشہ (۷) وپرزۂ جامہ (۸) و شب (۹) یا بہرہ از شب، (۱۰)وکالبد (۱۱) وشخص ہر چیزے (۱۲) یا پوشش آں، (۱۳)واوّل جوانی۔ (منتہی الارب، جلد ۳، ص۷۸)
۲۔ اسی طرح تاج اللغت میں لفظ ظل کے معنی بیان کرتے ہوئے ارقام فرمایا
ونیز خیالے کہ(۱) دیدہ میشود از جن وجزآں، و (۲) نام اسپ مسلمہ بن عبدالملک و(۳) عزت و (۴) غلبہ و (۵) ریشہ و (۶) تار جامہ کہ از دوختن دو طرف جامہ ظاہر شودزمخشری گوید ھذا ثوبٌ مالہٗ ظلٌّ۔ آگے چل کر فرماتے ہیں ظل کل شیٔ (۷) شخص آں چیز یا (۸) پردۂ آں۔ انتہیٰ۔ (تاج اللغۃ، فصل الزاء)
۳۔ القاموس المحیط میں ہے:
الظل ، بالکسر : نقیض الضح، أو الفیء، أو بالغداۃ ، والفیء بالعشی، جمع ظلال وظلول وأظلال، والجنۃ۔ ومنہ: (وَلَا الظِلُّ وَلَا الْحَرُوْرُ)، والخیال من الجن وغیرہ یریٰ، وفرس مسلمۃ بن عبدالملک، والعز والمنعۃ، والزئبرُ، واللیل او جنحہ، ومن کل شیء، شخصہ، او کنہ، و من الشباب اولہٗ، ومن القیظ شدتہ، ومن السحاب ماورای الشمس منہ، أوسوادہ، ومن النھار لوانہ اذا غلبتہ الشمس، وھو فی ظلہ: کنفہ۔ انتہٰی۔
(القاموس المحیط، جلد رابع، ص۲، فصل الزاء، مطبوعہ فتح الکریم بمبئی)۱
ترجمہ۔ ظل بالکسر روشنی کی نقیض ہے یا ظل بمعنی فیٔ (سایہ) ہے یا ظل صبح کو ہوتا ہے اور فیٔ شام کو ہوتا ہے، جمع ظلال، ظلول اور اظلال ہے اور ظلِ جنت کو بھی ظل کہتے ہیں اور اسی سے ہے وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُ اور ظل جن وغیرہ کے خیال کو بھی کہتے ہیںاور مسلمہ بن عبدالملک کے گھوڑے کو بھی ظل کہتے ہیں، ظل کے معنی عزت بھی ہیں اور ظل کے معنی قوت اور غلبہ کے بھی ہیں اور ظل کپڑے کے تاگے کو بھی کہتے ہیں جو سینے کی وجہ سے دونوں طرف نظر آتا ہے، ظل کے معنی رات بھی ہیں اور ظل رات کی تاریکی کو بھی کہتے ہیں اور ہر چیز کے شخص اور بدن کو بھی ظل کہا جاتا ہے، یا کسی شئے کے پردے اور لباس کو بھی ظل کہتے ہیں، اوّل جوانی کو بھی ظل کہا جاتا ہے اور گرمی کی شدت کو بھی ظل کہتے ہیں اور بادل کے اس حصے کو بھی ظل کہتے ہیں جو سورج کو ڈھانک لے، اور بادل کی سیاہی کو بھی ظل کہا جاتا ہے اور دن کے رنگ کو بھی ظل کہتے ہیں جب سورج اس پر غالب ہوجائے، عرب کا محاورہ ہے وھو فی ظلہٖ اِس کے معنی ہیں فی کنفہٖ یعنی وہ فلاں شخص کے ظل میں ہے، اس کی پناہ اور حفاظت میں ہے۔ انتہیٰ۔
۴۔ اسی طرح اقرب الموارد میں بھی تمام معانی مرقومہ بالا لکھے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے ومن کل شیءٍ شخصہ ہر چیز کے شخص اور بدن کو بھی ظل کہتے ہیں۔ (اقرب الموارد، جلد دوم، ص۷۳۱)
۵۔ مجمع بحار الانوار میں علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی ؒ ص۳۳۳ پر ظل کے معنی جسم لکھ کر اس کے آگے ص۳۳۴ پر فرماتے ہیں وظلا لھم شخوصھم یعنی ان کے ظلال سے ان کے اشخاص یعنی اجسام مراد ہیں۔
(مجمع بحار الانوار، جلد ۲، ص۳۳۳، ۳۳۴، مطبوعہ نولکشور، لکھنؤ)
ناظرین کرام کو معلوم ہوگیا کہ کتب لغت میں ظل بمعنی سایہ ہی نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے معنی ہیں اور ان معانی میں ظل بمعنی شخص بھی وارد ہے، یعنی شخص اور جسم کو بھی لغت عرب میں ظل کہا جاتا ہے اور ان معنی کی تائید میں بعض مفسرین کی عبارات بھی ہدیۂ ناظرین کی جاتی ہیں، دیکھئے تفسیر مظہری میں ہے۔
ویمکن ان یقال المراد بمن فی السمٰوات والارض حقائق من فیھا وارواح الملٰئکۃ والمؤمنین وبظلا لھم اشخاصھم وقوالبھم کما عبر رسول ﷲ ﷺ فی دعائہ الظاھر بالسواد والباطن بالخیال حیث قال فی سجودہٖ سجد لک سوادی وخیالی وھذا التاویل اولیٰ مما سبق لان الظلال التی یری فی ضح الشمس عبارۃ عن سواد موضع لم یصل الیہ ضوء الشمس لحجاب جثۃ الشیٔ وذٰلک امر عدمیٌ لا وجود لھا فکیف یسند الیہ السجود۔
(تفسیر مظہری، جلد ۵، پارہ ۱۳، سورہ رعد، ص۱۷)۱
ترجمہ۔ اور ممکن ہے کہ کہا جائے کہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے وہ حقائق مراد ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں پائے جاتے ہیں اور فرشتوں اور مومنین کی روحیں، اور ان کے ظلال سے ان کے اشخاص اور قوالب مراد ہیں جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنی دُعا میں ظاہر کو سواد اور باطن کو خیال سے تعبیر فرمایا، چنانچہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے سجدے میں یہ الفاظ فرمائے سجد لک سوادی وخیالی (اے اللہ تیرے لئے میرے سواداور خیال(ظاہر وباطن) نے سجدہ کیا) اور یہ تاویل یعنی ظلال سے اشخاص اور قوالب مراد لینا پہلی تاویل سے اولیٰ ہے، اس لئے کہ وہ سائے جو سورج کی روشنی میں نظر آتے ہیں وہ عبارت ہیں اس جگہ کی سیاہی سے جہاں کسی جسم کثیف کے حاجب ہونے کی وجہ سے سورج کی روشنی نہیں پہنچتی اور ظاہر ہے کہ یہ سیاہی جسے ہم ظل کہہ رہے ہیں محض ایک امر عدمی ہے جس کے لئے کوئی وجود نہیں، تو ایسی صورت میں اس کی طرف سجدے کی اسناد کیونکر صحیح ہوگی۔ انتہیٰ۔ (تفسیر مظہری)
دیکھئے صاحبِ تفسیر مظہری نے صاف اور واضح لفظوں میں ظل کے معنی شخص اور قالب کے بیان کئے ہیں۔
اسی طرح تفسیر معالم التنزیل میں ہے :
۲۔ وقیل ظلالھم ای اشخاصھم یعنی آیت قرآنیہ یتفیَّؤُا ظلالہ میں ان کے اجسام مراد ہیں، اور یہاں ظل بمعنی سایہ نہیں بلکہ بمعنی شخص اور بدن ہے۔ انتہیٰ۔
(تفسیر معالم التنزیل، پ۲۳، ص۱۱)
یہی مضمون تفسیر روح المعانی میں ہے، صاحبِ تفسیر روح المعانی فرماتے ہیں:
۔ ومن الناس من فسّر الظلال فی قراءۃ العامۃ بالاشخاص لتکون علیٰ نحو قراءۃ عیسیٰ وانشدوا لاستعمال الظلال فی ذلک قول عبدۃ
اذا نزلنا نصبنا ظل اخبیۃ
ونار للقوم باللحم المراجیل
فانہ انما تنصب الاخبیۃ لا الظل الذی ھوالفیء وقول الاخر، یتبع افیاء الظلال عشیۃ فانہ ارادافیاء الاشخاص۔ انتہیٰ۔
ترجمہ۔ اور عامہ قراء کی قرأت میں جو لفظ ظلال آیا ہے بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اشخاص کے ساتھ کی ہے تاکہ یہ قرأت عیسیٰ کی قرأت کے موافق ہوجائے، اور انہوں نے ظلال بمعنی اشخاص کی تائید میں عبدۃ کا یہ قول پیش کیا ہے۔
جب ہم اُترے توہم نے خیموں کے ظل یعنی خیموں کے اشخاص واجسام کو نصب کیا، اور قوم کے لئے گوشت کی ہانڈیاں پکنے لگیں۔
وجہ استشہاد یہ ہے کہ جو چیز نصب کی جاتی ہے وہ خیمے ہوتے ہیں، ان کا ظل جسے سایہ کہتے ہیں نصب نہیں کیا جاتا، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں ظل بمعنی شخص پر انہوں نے استدلال کیا اور وہ قول یہ ہے۔ وہ پیچھے آتا ہے افیاء ظلال کے شام کے وقت، افیاء فیٔ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں سایہ، اَب اگر ظلال کے معنی بھی سایہ ہوں تو سایہ سائے کی طرف مضاف ہو جائے گا جو درست نہیں، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ یہاں ظلال بمعنی اشخاص ہے اور مصرعہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شام کے وقت اشخاص واجسام کے سایوں کے پیچھے آتا ہے۔
اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ آیت کریمہ میں ظلال بمعنی اشخاص ہے۔
ایک اعتراض کا جواب
صاحب روح المعانی نے اس مقام پر امام راغب اصفہانی کا تعاقب نقل کیا ہے لہٰذا یہ استدلال مجرو ح ہے۔
جواباً عرض کروں گا کہ نظر صحیح سے کام لیا جائے تو امام راغب اصفہانی کا تعاقب صحیح نہیں کیونکہ انہوں نے رَفَعْنَا ظِلَّ اَخبیۃٍکے معنی کئے ہیں رفعنا الاخبیۃفرفعنا بہٖ ظلھا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں لفظ ظل حشوِ محض ہے اور بالکل بے فیٔدہ ہوکر رہ جاتا ہے، جو تاویل فسادِ کلام کا موجب ہو وہ خود فاسد ہے اس لئے یہ تعاقب درست نہیں، علیٰ ہذا القیاس دوسرے قول میں وہ خاص کی اضافت عام کی طرف بتا رہے ہیں، اہل علم سے مخفی نہیں کہ اضافت کا فیٔدہ تخصیص وتعریف مضاف ہے یا تخفیف لفظی، اس اضافت میں تخفیف لفظی تو متصور ہی نہیں، رہی تخصیص تو وہ تحصیل حاصل ہوگی اس لئے کہ مضاف اضافت سے پہلے ہی خاص ہے لہٰذا اضافت بے فیٔدہ رہی ا ور یہ بھی فساد کلام ہے، معلوم ہوا کہ امام راغب اصفہانی کا تعاقب صحیح نہیں اور دونوں قولوں میں ظل بمعنی شخص ہی مستعمل ہے جس کی تائید تفسیر مظہری، تفسیر معالم التنزیل، مجمع بحار الانوار اور لغت کی معتبر کتابوں سے ہوتی ہے، جن کی روشن اور واضح عبارات ہم ابھی نقل کرچکے ہیں۔
امر د وم ظل اور فیٔ کے معنی میں فرق ہے
مصباح المنیر میں ہے :
(الظل) قال ابن قتیبہ یذھب الناس الی ان الظل والفیء بمعنی واحد ولیس کذ لک بل الظل یکون غدوۃ وعشیۃ والفیء لا یکون الا بعد الزوا ل فلا یقال لما قبل الزوال فیٔ وانما سمی بعد الزوال فیئًا لا نہ ظل فاء من جانب المغرب الیٰ جانب المشرق والفیء الرجوع وقال ابن السکیت الظل من الطلوع الی الزوال والفیء من الزوال الی الغروب وقال ثعلب الظل للشجرۃ وغیرھا بالغداۃ والفیء بالعشی وقال رؤبۃ بن العجاج کل ما کانت علیہ الشمس فزالت عنہ فھو ظل وفیء ومالم یکن علیہ الشمس فھو ظل، ومن ھنا قیل الشمس تنسخ الظل والفیء ینسخ الشمس، وجمع الظل ظلال واظلۃٌ وظللٌ۔
(مصباح المنیر، مطبوعہ مصر، جلد دوم، ص۳۶۳)
ترجمہ۔ ابن قتیبہ نے کہا کہ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ ظل اور فیٔ ایک معنی میں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ظل صبح اور شام دونوں وقت ہوتا ہے اور فیٔ صرف بعد الزوال ہوتا ہے، لہٰذا قبل الزوال سایہ کو فیٔ نہیں کہا جاتا اور سایہ بعد الزوال کو اس لئے فیٔ کہا جاتا ہے کہ فیٔ کے معنی رجوع کے ہیں اور وہ سایہ (جسے فیٔ کہا جاتا ہے) وہ مشرق سے مغرب کی جانب ہوتا ہے، ابن سکیت کا قول ہے کہ طلوع سے زوال تک جو سایہ ہوتا ہے اسے ظل کہا جاتا ہے اور زوال کے بعد سے غروب تک فیٔ ہوتا ہے، اور ثعلب نے کہا کہ ظل درخت وغیرہ کے اس سایہ کو کہتے ہیں جو دوپہر سے پہلے ہوتا ہے اور فیٔ اسے کہتے ہیں جو دوپہر کے بعد ہوتا ہے اور رؤبہ بن عجاج نے کہا کہ ہر وہ سایہ جو سورج ڈھلنے کے بعد ہو وہ ظل اور فیٔ ہے اور جو سورج ڈھلنے سے پہلے ہو وہ ظل ہے اور یہی مبنیٰ ہے اس قول کا کہ سورج ظل کو منسوخ کردیتا ہے اور فیٔ سورج کو یعنی اسے خطِ استوا ء سے زائل کردیتا ہے اور ظل کی جمع ظلال اور اظلّہ اور ظلل ہے۔ انتہیٰ۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک سایہ قبل الزوال "ظل" ہے اور بعد الزوال " فیء" ہے اور بعض کا قول ہے کہ قبل الزوال "ظل" ہے اور بعد الزوال "ظل" اور "فیٔ" ہے، اور پہلے قول پر "ظل" اور "فیٔ" متبائن ہیں اور دوسرے قول پر "ظل" عام اور "فیٔ" خاص ! تباین کا قول اکثر علماء نے کیا ہے، چنانچہ تفسیر خازن ومعالم جلد ۴، ص۷۷ اور کتاب التعریفات للسید الشریف الجرجانی، مطبوعہ مصر، ص۷۳ اور جمہرۃ اللغۃ، مطبوعہ دائرۃ المعارف، جلد اوّل حیدر آباد دکن کی عبارات سے واضح ہے۔

امر سوم موسم گرما
ناظرین کرام کو یاد ہوگا کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور ﷺ کی شکر رنجی کا واقعہ حجۃ الوداع سے واپسی کے موقعہ پر اثناء سفر میں پیش آیا تھا، چنانچہ مسند امام احمد میں عفان راوی کا قول جزم کے ساتھ موجود ہے کہ ولا اظنہ الا قال فی حجۃ الوداع۔ (مسند امام احمد، جلد ۶، ص۱۳۲) اور یہ شکر رنجی ذی الحجہ کے آخری ایام سے لے کر ربیع الاوّل شریف کے چند دنوں تک رہی، جیسا کہ مسند امام احمد اور مجمع الزوائد کی حدیثوں میں اس کی تصریح موجود ہے اور مجمع الزوائد میں بغیر کسی شک کے ایا ما من شھر ربیع الاوّل کے الفاظ وارد ہیں، دیکھئے مجمع الزوائد، جلد چہارم، طبع قاہرہ، ص۳۲۳ ( ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہور، شمارہ ۸؍ جنوری، ۱۹۶۰ء ص۴) از مکتوب مولانا ابودائود محمد صادق صاحب گوجرانوالہ۔
بالآخر ایک دن حضرت زینب نے نصف النہار کے وقت حضور ﷺ کے ظل کریم کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو یہ دن یقیناً ربیع الاوّل ہی کے دنوں میں سے ہے اور کسی پڑھے لکھے مسلمان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حجۃ الوداع ۱۰ھ ؁میں ہوا، اور ۱۱ھ ؁میں ۱۲؍ ربیع الاوّل شریف مطابق ۱۱؍ جون کو حضور ﷺ کی وفات ہوئی، دیکھئے رحمۃ للعٰلمین مؤلفہ قاضی سلیمان منصور پوری، جلد۲، ص۴۷۲ اور تاریخ اسلام مؤلفہ شوق امرتسری، ص۳۲۱۔
"حضورﷺ کی وفات حسرت آیات ۱۲؍ ربیع الاوّل ۱۱ھ بروز دو شنبہ مطابق ۱۱؍جون ۶۳۲ء بوقت چاشت واقع ہوئی، اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ برس اور پانچ یوم کی تھی"۔
(تاریخ اسلام، ص۳۲۱۔ رحمۃللعلمین، جلد۲، ص۷۲)
اس حساب سے ثابت ہوگیا کہ جس دن حضرت زینب حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ظل کریم کو دیکھنے کاواقعہ بیان فرمارہی ہیں وہ جون کے مہینہ کا دن تھا جو خاص گرمی کا موسم ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ علامہ شبلی نعمانی کے بیان سے حضور ﷺ کی تاریخ وصال یکم ربیع الاوّل مطابق ۳۱؍مئی ظاہر ہوتی ہے تو میں جواباً عرض کروں گا کہ اوّل تو ۳۱؍ مئی بھی گرمی کا زمانہ ہے دوسرے یہ کہ اس قول پر مخالفین کی پیش کردہ دونوں حدیثیں ساقط الاعتبار ہوجائیں گی کیونکہ جب یکم ربیع الاوّل کو حضور ﷺ کاوصال ہو گیا تو اسی ماہ ربیع الاوّل کے چند دنوں تک شکر رنجی باقی رہنا اور اس کے بعد ایک دن حضرت زینب کا ظل رسول کو دیکھنا سب کچھ غلط ہوجائے گا، لہٰذا علامہ شبلی کا قول کسی طرح پیش کردہ حدیثوں کے مطابق نہیں ہوسکتا، اگر شبلی کے قول کو مانا جائے تو حدیثوں کو چھوڑنا پڑے گا اور حدیثوں کو تسلیم کیا جائے تو شبلی صاحب کے قول سے کنارہ کشی کرنا ہوگی۔
امر چہارم
موسم گرما میں دوپہر کو سایہ نہیں ہوتا
گرمی کے زمانہ میں دوپہر کے وقت کسی جانب کو انسان کا جھکا ہوا سایہ نہ ہونا ایسا روشن اور ظاہر امر ہے جس پر کسی دلیل کی حاجت نہیں لیکن اس کے باوجود آخری اتمام حجت کے لئے ہم اپنے اس بیّن دعویٰ پر بھی دلیل قائم کئے دیتے ہیں تاکہ منکرین کے لئے کوئی عذر بارد باقی نہ رہے، دیکھئے منجد میں ہے :
۱۔ ومشیت علی ظلی او انتعلت فی ظلی ای مشیت وقد انتصف النھار فلم یکن لی ظل۔
(المنجد، طبع قاہرہ، ص۴۹۹)
ترجمہ۔ "مشیت علیٰ ظلی" اور "انتعلت فی ظلی" کے معنی ہیں کہ میں چلا اس حال میں کہ نصف النہار کا وقت ہو گیا تھا، اس لئے میرا سایہ نہیں تھا۔
۲۔ مصباح اللغات میں ہے :
'ومشیت علی ظلی اوانتعلت ظلی'
(مصباح اللغات، ص۵۰۱)
ترجمہ۔ میں چلا اس حال میں کہ دوپہر ہوچکی تھی اس لئے میرا سایہ نہ تھا۔
۳۔ اقرب الموارد میں ہے:
مشیت علی ظلی وانتعلت ظلی) اذا مشیت وقد انتصف النھار فی القیظ فلم یکن لی ظل
(اقرب الموارد، جلد۲، ص۷۳۱، طبع قاہرہ)
ترجمہ۔ "مشیت علی ظلی" اور "انتعلت فی ظلی" اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص موسم گرما میں دوپہر کے وقت چلے تو کہتا ہے کہ چونکہ میں دوپہر کے وقت چلا اس لئے میرا سایہ نہ تھا۔ انتہیٰ
۴۔ کرمانی شرح بخاری میں ہے :
قائم الظھیرۃ ای نصف النھار وھواستواء حالۃ الشمس وسمی قائما لان الظل لا یظھر حینئذٍ فکانّہٗ قائم واقف'۔
(کرمانی حاشیہ ۱۲ بخاری، جلد اوّل، ص۳۱۰، مطبوعہ اصح المطابع)
ترجمہ۔ قائم الظہیرہ نصف النہار کو کہتے ہیں اور وہ سورج کے خطِ استواء پر ہونے کی حالت ہے دوپہر کو قائم اس لئے کہتے ہیںکہ اس وقت سایہ ظاہر نہیں ہوتا، تو گویا وہ ایک جگہ کھڑا اور ٹھہرا ہوا ہے۔ انتہیٰ۔
ناظرین کرام بیان سابق میں پڑھ چکے ہیں کہ سایہ دو قسم کا ہے، ایک ظل اور دوسرا فیٔ، ظل وہ سایہ ہے جو اوّل نہار میں قبل الزوال ہوتا ہے اور فیٔ وہ سایہ ہے جو بعد الزوال غروب تک رہتا ہے۔
نصف النہار کا وقت چونکہ درمیان میں ہوتا ہے اس لئے اس وقت نہ ظل ہوتا ہے نہ فیٔ بلکہ چلنے والے کا سایہ اس وقت اس کے پائوں میں ہوتا ہے، جسے وہ پامال کرتا ہوا چلتا ہے اور گرمی کے دنوں میں کسی جانب جھکے ہوئے سائے کا وجود نہیں ہوتا، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی آنے والے کے جسم سے پہلے اس کا سایہ نظر آجائے۔
ایسی صورت میں ماہنامہ تجلی، دیوبند کا یہ لکھنا کہ اُم المومنین فرماتی ہیں:
پس ایک دن دوپہر کے وقت دفعۃً رسول اللہ تشریف لے آئے اور میں نے پہلے ان کا سایہ ہی دیکھا۔
(ماہنامہ تجلی، دیوبند، شمارہ بابت فروری، مارچ ۱۹۵۹ء، ص۱۸، کالم ۲ کے نیچے)
از مکتوب میرزا ریاض احمد صاحب حافظ آبادی۔
قطعاً غلط اور باطل محض ہے، بلکہ اس واقعہ کی دونوں روایتوں میں لفظ ظل بمعنی شخص ہے جیسا کہ ہم کتب لغت وتفاسیر سے ابھی وہ عبارات نقل کرچکے ہیں، اور اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول کے معنی یہ ہیں کہ "میں ایک دن دوپہر کے وقت بیٹھی ہوئی تھی کہ ناگہاں میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا"۔
الحمد للہ! مسند امام احمد اور مجمع الزوائد کی دونوں حدیثوں پر کلام ختم ہوا اور دلائل کی روشنی میں حق واضح ہوگیا، اہل علم منصف مزاج حضرات سے اُمید ہے کہ وہ ہماری اس تحقیق اور محنت کی قدر کریں گے، اور جن کے دلوں میں زیغ ہے ان سے انصاف کی کوئی اُمید نہیں، حق واضح کردینا ہمارا فرض تھا جس سے ہم سبکدوش ہوگئے۔ وللہ الحجۃ السامیہ۔
تیسری حد یث "ظلی وظلکم"
اس کے بعد تیسری حدیث پر کلام کرتا ہوں جو علامہ ابن قیم کی حادی الارواح سے مخالفین نے حضور ﷺ کا تاریک سایہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہے، حدیث اور اس کا ترجمہ ابتدائے بیان میں ہم واضح طور پر لکھ چکے ہیں، اعادہ کی حاجت نہیں۔
علامہ ابن قیم نے یہ حدیث حضور ﷺ کا سایہ ثابت کرنے کے لئے نہیں لکھی بلکہ دوزخ وجنت کا وجود ثابت کرنے کے لئے ارقام فرمائی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ دوزخ وجنت پیدا ہوچکی ہیں جس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی اس دیوار پر جو قبلہ کی جانب واقع ہوئی ہے فجر کی نماز میں جنت اور دوزخ دونوں کو دیکھا، صرف یہی نہیں بلکہ ان کی اشیاء اور جنتیوں اور دوزخیوں کو بھی ملاحظہ فرمایا، طبرانی میں حضرت سمرہ بن جندب سے مروی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا!
مارأیتم من شیء فی الدنیا لہٗ لون ولا نبئتم بہ فی الجنۃ ولا فی النار الا لقد صور لی من قبل ھذا الجد ار منذ صلیت لکم صلوتی ھذہ فنظرت الیہ مصورا فی جدار المسجد۔ انتہیٰ۔
(کنزالعمال، جلد ۴، ص۱۷۸)
ترجمہ۔ تم نے دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس کا کوئی رنگ ہو اور نہ تمہیں جنت ودوزخ میں کسی چیز کے ہونے کی خبر دی گئی لیکن وہ سب چیزیں اور تمام دوزخی اور جنتی سب اس دیوار قبلہ کی سمت میں ظاہر کردئیے گئے جس وقت سے میں نے تمہیں اپنی یہ نماز پڑھائی ہے تو میں نے ہر چیز کی صورت دیوار ِ مسجد میں دیکھ لی۔
جب حضور ﷺ نے دوزخ و جنت کی ہر چیز کو دیکھ لیا تو اپنے آپ کو اور صحابہ کرام کو بھی یقیناً دیکھا، کیونکہ حضور اور آپ کے صحابہ کرام بھی تو جنتی ہیں، معلوم ہوا کہ یہاں بھی ظل کے معنی جسم کے تاریک سایہ کے نہیں بلکہ وہی "شخص" اور جسم کے معنی ہیں جو ہم پہلے ثابت کرآئے ہیں، اور رأیت ظلی وظلکم کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو اور تم سب کو دیکھا اور یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیں کہ حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ دنیا میں ہوتے ہوئے جنت میں کیسے موجود تھے ؟ دیکھئے شب معراج جب حضور ﷺ پہلے آسمان پر پہنچے اور آدم ؈ سے ملاقات کی اور ان کے دائیں بائیں ان کی نیک اور بد اولاد کو دیکھا تو نیکوں میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے آپ کو بھی دیکھا، امام شعرانی فرماتے ہیں :
ورأی رسول ﷲ ﷺ صورتہ ھناک فی اشخاص السعداء فشکر ﷲ تعالیٰ وعلم عند ذلک کیف یکون الانسان فی مکانین۔
(الیواقیت والجواہر، جلد۲، ص۳۴، مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ حضور ﷺ نے نیکوں کی ذاتوں میں اپنی صورت مبارکہ بھی دیکھی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس وقت حضور ﷺ نے عین الیقین کے ساتھ جان لیا کہ ایک انسان کس طرح دو جگہوں میں ہوتا ہے۔
لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، جس طرح حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام آسمان اوّل پر اشخاص سعداء سے باہر بھی تھے اور ان کے اندر بھی اپنے آپ کو ملاحظہ فرمارہے تھے، اسی طرح اس موقعہ پر بھی حضور اور آپ کے صحابہ جنت سے باہر بھی تھے اور جنت میں بھی حضور اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو دیکھ رہے تھے۔
معلوم ہوا کہ "ظلی وظلکم" سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اور صحابہ کرام کا جسمانی سایہ مراد نہیں بلکہ ذوات قدسیہ مراد ہیں اور حدیث کے معنی وہی ہیں جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں کہ میں نے جنت میں اپنے آپ کو بھی دیکھا اور تمہیں بھی دیکھا۔
مخالفین کی بے بصری پر حیرت
کمالات رسالت کے منکرین کی بے بصری موجب حیرت ہے، ان لوگوں نے ظلی وظلکم کی حدیث سے حضور ﷺ کا جسمانی سایہ ثابت کرتے وقت اتنی بات بھی نہ سوچی کہ اگر اس حدیث سے حضور کا سایہ ثابت ہوا تو یا مسجد نبوی میں ہوگا یا دوزخ میں یا جنت میں، کیونکہ یہ واقعہ عین نماز فجر کاہے جس وقت حضور اور صحابہ کرام مسجد نبوی میں تھے، ذرا غور کرنے سے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ تینوں جگہوں میں سے ایک جگہ پر بھی اس وقت سایہ کا وجود ممکن نہ تھا، کیونکہ نماز فجر کا وقت آخر شب کی ہلکی سیاہی کا وقت ہوتا ہے، اس وقت کسی سایہ دار چیز کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا، اور جنت میں بھی کسی جنتی کا سایہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ جنت میں ہر وقت ایسا سایہ رہتا ہے جیسے طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیانی وقت میں سایہ ہوتا ہے اور سایہ میں کسی کا سایہ نظر نہیں آتا، اس لئے جنت میںبھی سایہ دیکھنا متصور نہیں۔ اَب تیسری جگہ دوزخ ہے، تو مجھے اُمید نہیں کہ مخالفین دوزخ میں حضور کا سایہ مانتے ہوں اور اگر خلاف اُمید ان کا مسلک فی الواقع یہی ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سایہ ہمیشہ روشنی میں ہوتا ہے اور دوزخ کی آگ دنیاوی آگ کی طرح روشن نہیں بلکہ وہ سیاہ اور تاریک ہے، دیکھئے ترمذی، جلد۲، ص۸۳، مشکوٰۃ، جلد۲، ص۵۰۳۔
اور ظاہر ہے کہ سیاہی اور تاریکی میں سایہ نہیں ہوتا، اَب مخالفین بتائیں کہ حتی رأیت ظلی وظلکم کے معنی جو آپ کرتے ہیں کہ "میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا" یہ معنی کیسے درست ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ میرا یہ بیان محتاج دلیل نہیں لیکن ہر قسم کا تردّد زائل کرنے کے لئے دلائل پیش کرتا ہوں، اور ساتھ ہی بعض شکوک وشبہات کے جوابات بھی عرض کروں گا تاکہ تمام حجت کا حق ادا ہوجائے۔
دنیا والوں کے عرف میں سایہ اِسے کہتے ہیں جو سورج کی گرمی اور تکلیف سے بچائے لیکن جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
لَا یَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وّلَا زَمْھَرِیْرًا۔ (الدھر)
نہ اس میں سورج کی گرمی معلوم ہوگی نہ زمہریر کی سردی۔
جب وہاں سورج کی گرمی اور اس کی تکلیف واذیت نہیں تو اس سے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس کے لئے سایہ کی ضرورت ہو۔
ہاں! البتہ اس میں ایسا سایہ ضرور ہے جو ہرطرف پھیلا ہوا ہے، جس میں کسی سایہ دار چیز کا سایہ نظر نہیں آتا، دیکھئے سورئہ واقعہ میں وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ یعنی جنتی جنت میں ایسے سایہ میں ہوں گے جو ہرطرف پھیلا ہوا، دائم اور غیر منقطع ہوگا،، تفسیر مدارک میں اسی آیت کے تحت ہے :
(وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) ممتد منبسط کظل مابین طلوع الفجر وطلوع الشمس۔ انتہیٰ۔
(تفسیر مدارک، جلد ۴، ص۱۶۳، مطبوعہ مصر)
یعنی جنتی جنت کے ایسے سایہ میں ہوں گے جو لمبا اور ہر طرف پھیلا ہوا ہوگا، جیسے صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیانی وقت میں طویل، ہلکا اور چاروں طرف پھیلا ہوا خوشگوار سایہ ہوتا ہے۔
تفسیر نیشا پوری میں ہے:
(وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) ای ممتد منبسط کظل الطلوع والغروب لا یتقلص ویحتمل ان یراد انہٗ دائم باق لا یزول ولا تنسخہ الشمس والعرب تقول لکل شیء طویل لا ینقطع انہ ممدود۔ انتہیٰ۔
(تفسیر نیشا پوری، پ۲۷، ص۸۹، مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ اور ظِل مَمدُ وْد سے مراد یہ ہے کہ جنت کا سایہ دراز اور ہر طرف پھیلا ہوا ہوگا جیسے طلوع اور غروب کے وقت ہر طرف پھیلا ہوا ہلکا، دراز اور خوشگوار سایہ ہوتا ہے، وہ سایہ ایسا ہوگا کہ نہ سمٹے گا نہ سکڑے گا اور اس امر کا بھی احتمال ہے کہ "ظِل مَمدُ وْد" سے یہ مراد لیا جائے کہ جنت کا سایہ ایسا دائم وباقی ہے جو کبھی زائل نہ ہو، اور سورج بھی اسے منسوخ نہ کرے گا(کیونکہ وہاں سورج کا وجود ہی نہ ہوگا) اور اہل عرب ہر ایسی طویل چیز کو ممدود کہتے ہیں جو کبھی منقطع نہ ہو۔ انتہیٰ۔
قرآن کریم کی ان دونوں آیتوں اور مفسرین کی تصریحات کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ جنت میں ہر طرف طویل ودائم اور غیر منقطع سایہ پھیلا ہوا ہے اور سایہ کی جگہ میں کسی کا سایہ نظر نہیں آتا، لہٰذا اچھی طرح واضح ہوگیا کہ "رأیت ظلی وظلکم" کے یہ معنی ہرگز درست نہیں ہوسکتے کہ "میں نے(جنت میں) اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا"۔
ایک اشکال اور اس کا حل
اس مقام پر ایک ا شکال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب نہایت ضروری ہے، وہ یہ کہ قرآن وحدیث میں کئی جگہ جنت کے درختوں کا سایہ مذکور ہے اگر سایہ کی جگہ کسی چیز کا سایہ نہیں ہوسکتا تو جنت میں وہاں کے درختوں کا سایہ کیسے ہوگا؟
اس کا جواب امام فخرالدین رازی، علامہ ابو سعود اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے دیا ہے جو ان ہی کی عبارات میں ہم نقل کرکے ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔
امام رازی ؒ تفسیر کبیر میں آیۂ مبارکہ "وَدَانِیَۃٌ عَلَیْھِمْ ظِلَالُھَا" کے تحت ارقام فرماتے ہیں :
(السوال الثانی) الظل انما یوجد حیث توجد الشمس فان کان لا شمس فی الجنۃ فکیف یحصل الظل ھناک (والجواب) المراد ان اشجار الجنۃ تکون بحیث لوکان ھناک شمس لکانت تلک الاشجار مظللۃ منھا۔ انتہٰی
(تفسیر کبیر، جلد ۸، ص۳۹۶، مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ آیت میں دوسرا سوال یہ ہے کہ سایہ وہیں پایا جاتا ہے جہاں سورج ہو، جنت میں جب سورج نہیں تو درختوں کا سایہ کیسے ہوگا ؟ (الجواب) مراد یہ ہے کہ جنت کے درخت اس حیثیت سے ہوں گے کہ اگر وہاں سورج ہو تو وہ اس کی وجہ سے سایہ دار ہوجائیں۔ انتہیٰ۔
۲۔ علامہ ابو سعود اسی آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں :
علی معنی انہٗ لوکان ھناک شمس موذیۃ لکانت اشجارھا مظللۃ علیہم مع انہٗ لا شمس ثمۃ ولا قمر۔ انتہیٰ۔
(تفسیر ابو سعود بہامش کبیر، جلد ۸، ص۳۹۶، مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ ("جنت کے درختوں کے سائے جنتیوں پر جھکے ہوں گے") یہ کلام اس معنی پر محمول ہے کہ اگر وہاں دھوپ کی تکلیف ہو تو وہ درخت جنتیوں پر اپنے سائے ڈالنے لگیں باوجود اس کے کہ وہاں نہ سورج ہے نہ چاند (جس کی وجہ سے سایہ ہو)۔ انتہیٰ۔
۳۔ حافظ ابن حجر عسقلانی، فتح الباری میں فرماتے ہیں:
(فی ظلھا) ای فی نعیمھا وراحتھا ومنہ قولھم "عیش ظلیل" وقیل معنی ظلھا ناحیتھا واشار بذلک الی امتدادھا ومنہ قولھم انا فی ظلک ای ناحیتک قال القرطبی والمحوج الی ھذا ا لتاویل ان الظل فی عرف اھل الدنیا مایقی من حرالشمس واذا ھا ولیس فی الجنۃ شمس ولا اذًی۔ انتہیٰ۔
ترجمہ۔ (حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، جنت میں ایک درخت ہے جس کے ظل میں کوئی شخص سوار ہوکر سو برس تک چلتا رہے تو اسے قطع نہ کرسکے، اس حدیث میں) "فی ظلہا" کے معنی ہیں فی نعیمہا وراحتہا (یعنی اس کی نعمتوں اور راحتوں میں) اور اسی معنی سے اہل عرب کا یہ قول ماخوذ ہے "عیش ظلیل" (نعمت وراحت کی زندگانی) اور بعض نے کہا کہ یہاں"ظل" بمعنی "ناحیہ" ہے (یعنی گردونواح) حضور ﷺ نے اس کے ساتھ اس درخت کی درازی کی طرف اشارہ فرمایا یعنی وہ درخت اتنا بڑا اور لمبا ہوگا کہ اس کے گردونواح کی مسافت سو برس تک بھی کسی سوار سے طے نہ ہوسکے گی، اور اسی معنی سے اہل عرب کا یہ قول ماخوذ ہے "انا فی ظلک" یعنی میں تیرے گردونواح (قرب وجوار، حفظ وامان) میں ہوں، قرطبی نے کہا اس تاویل کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ اہل دنیا کے عرف میں ظل وہ ہے جس کے ذریعہ سورج کی گرمی اور اس کی تکلیف سے بچاؤ حاصل کیا جائے، جنت میں نہ سورج ہوگا نہ اس کی تکلیف(اس لئے وہاں اس سے بچاؤ کے لئے کسی چیز کے سایہ کی ضرورت ہی نہیں)۔ انتہیٰ
الحمد ﷲ! جنت میں کسی سایہ دار چیز کا سایہ نہ ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا، اَب ہمارے اس بیان کو بیان سابق سے ملا کر نتیجہ ذہن نشین کرلیجئے کہ حضور ﷺ نے جو "حتیٰ رأیت ظلی وظلکم" فرمایا یہ اس واقعہ کا بیان ہے جو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں عین نماز فجر کے درمیان پیش آیا تھا، جس میں حضور ﷺ کے سامنے حقیقی جنت ودوزخ کا پیش کیا جانا مذکور ہے، اس وقت حضور اور صحابہ مسجد نبوی میں تھے اور دوزخ وجنت حضور کے پیش نظر تھے، ظاہر ہے کہ اس وقت حضور ﷺ نے جو چیز دیکھی وہ مسجد نبوی میں ہوگی یا دوزخ میں، یا جنت میں، اس کے علاوہ اور کسی جگہ کچھ دیکھنا متصور نہیں، اگر حضور نے اپنا اور صحابہ کا سایہ مسجد نبوی میں دیکھا تو یہ ممکن نہیں، اس لئے کہ وہ فجر کا وقت تھا اس وقت کسی سایہ دار چیز کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا۔
اور اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ اس وقت سایہ ظاہر تھا تو اسے تمام حاضرین دیکھ رہے ہوں گے حالانکہ یہ دیکھنا حضور ﷺ کے لئے خاص تھا جیسا کہ الفاظ حدیث "حتیٰ رأیت ظلی وظلکم" (یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا ظل دیکھا) میں لفظ حتیٰ (یہاں تک) سے ظاہر ہے، کیونکہ حتیٰ بیان غایت کے لئے آتا ہے اور یہ غایت جنت ودوزخ دیکھنے کی ہے جس طرح مُغیا (جنت ودوزخ) کا دیکھنا حضور کے ساتھ خاص ہے اسی طرح اس کی غایت (ظلی وظلکم) کا دیکھنا بھی حضور ﷺ کے ساتھ مختص ہوگا، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ نماز فجر کے وقت کسی کا سایہ نہ تھا اور حضور ﷺ نے اپنا اور صحابہ کا ظل مسجد نبوی میں ہرگز نہیں دیکھا۔
اس کے بعد دو چیزیں رہیں دوزخ اور جنت، بیان سابق میں ہم دلائل سے ثابت کرچکے ہیں کہ سایہ روشنی میں ظاہر ہوتا ہے اور جہنم سیاہ اور تاریک ہے اس لئے اس میں بھی سایہ ظاہر نہیں ہوسکتا، اَب رہی جنت تو اس کے متعلق بھی ہم نے آیات قرآنیہ وعبارات مفسرین سے ثابت کردیا کہ جنت میں کسی سایہ دار چیز کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا۔ اَب بتائیے کہ اگر ظلی وظلکم میں لفظ ظل کے معنی سایہ ہیں تو وہ حضور ﷺ نے کہاں دیکھا؟ لہٰذا تسلیم کرلیجئے کہ یہاں سایہ کے معنی مراد نہیں بلکہ وہی"شخص" کے معنی مراد ہیں جو اس سے قبل دلائل وبراہین کی روشنی میں ہم ثابت کرچکے ہیں اور حدیث کے واضح معنی یہ ہیں کہ میں نے دوزخ وجنت کو دیکھا یہاں تک کہ (جنت میں) اپنے اور تمہارے اشخاص کریمہ کو بھی دیکھا، غایت ما فی الباب یہ کہ جنت ودوزخ کو ان کے وجود مثالی پر محمول کردیا جائے تب بھی "ظلی وظلکم" سے اشخاص مثالیہ مراد ہوں گے، جسمانی تاریک سایہ اس تقدیر پر بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ وللہ الحجۃ البالغہ
انصاف کیجئے
یہ تینوں حدیثیں جو مخالفین نے حضور سیّد عالم نور مجسم ﷺ کا جسمانی سایہ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ہیں اگر واقعی ان کے دعویٰ کی مثبت ہوتیں تو وہ جلیل القدر علماء محدثین ومفسرین جن کے اسماء گرامی ہم عرض کرچکے ہیں کس طرح حضور کے سایہ کی نفی کرتے، شاید آپ کہہ دیں کہ یہ حدیثیں ان سے مخفی رہیں، تو میں عرض کروں گا کہ یہ امر ہرگز قابل تسلیم نہیں کہ ایسے ماہرین حدیث ائمہ دین سے آپ کی پیش کردہ حدیثیں مخفی رہی ہوں، دیکھئے آپ کی پیش کردہ حدیث "حتی رأیت ظلی وظلکم" کو امام جلال الدین سیوطی ؒ نے اپنی کتاب خصائص کبریٰ میں لکھا، مگر اس کے باوجود اسی خصائص کبریٰ میں حضور ﷺ کے سایہ نہ ہونے کا باب منعقد کیا اور روایات وعبارات علماء سے اپنے دعویٰ کو ثابت ومؤید کیا اور حضور ﷺ کے جسمانی سایہ سے پاک ہونے کو آفتاب سے زیادہ روشن کر دکھایا۔
معلوم ہوا کہ مخالفین کی پیش کردہ احادیث سے یہ ائمہ حدیث بے خبر نہ تھے۔
پھر یہ کہ آج سے پہلے کسی نے ان حدیثوں سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کا سایہ ثابت نہیں کیا، حتیٰ کہ علامہ ابن قیم کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی، حالانکہ ان سے پہلے اکابر محدثین متقدمین کے وہ تمام ارشادات ان کے سامنے موجود تھے، جن میں حضور ﷺ کے نور خالص ہونے کی وجہ سے حضور کے سایہ نہ ہونے پر استشہاد کیا گیا ہے، جیسے حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ھ)، عبداللہ بن مبارک (متوفی۱۸۱ھ)، امام راغب اصفہانی(متوفی ۵۰۲ھ)، حافظ رزین محدث(متوفی ۵۲۰ھ)، علامہ ابن سبع(متوفی )، قاضی عیاض (متوفی ۵۴۴ھ)، علامہ ابن جوزی محدّث(متوفی ۵۹۷ھ)، مولانا جلال الدین رومی(متوفی ۶۷۰ھ)، علامہ احمد نسفی صاحب تفسیر مدارک(متوفی ۷۰۱ھ)، یہ سب علماء اعلام علامہ ابن قیم (متوفی ۷۵۲ھ) سے متقدم ہیں اور ان سب نے حضور ﷺ کے جسمانی سایہ کی نفی فرمائی ہے لیکن علامہ ابن قیم نے حدیث "ظلی وظلکم" سے حضور ﷺ کا جسمانی سایہ ثابت کرکے ان حضرات کا ردّ نہیں کیا۔
علیٰ ہذا القیاس علامہ ابن قیم کے بعد ہونے والے اجلہ محدثین مثلاً امام جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ)، امام قسطلانی(متوفی ۹۲۳ھ)، علامہ حسین بن محمد دیار بکری(متوفی ۹۶۶ھ)، امام ابن حجر مکی(متوفی ۹۷۳ھ)، علامہ شہاب الدین خفاجی(متوفی۱۰۶۹ھ)، امام زرقانی(متوفی۱۱۲۲ھ)، علامہ سلیمان جمل، علامہ ابراہیم بیجوری، علامہ برہان الدین حلبی وغیرہم نے ابن قیم کی کتاب حادی الارواح میں حدیث"ظلی وظلکم" دیکھنے کے باوجود حضور ﷺ کے جسمانی سایہ کا قول نہیں کیا،اور بدستور حضور ﷺ کو نور اور بے سایہ مانتے رہے، اور اسی مسلک کا بیان اپنی تصانیف جلیلہ میں کرتے رہے جیسا کہ ہم ان کے بیانات سابقاً نقل کرچکے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ تینوں حدیثیں متقدمین ومتاخرین میں سے کسی کے نزدیک بھی حضور سیّد عالم ﷺ کے جسمانی سایہ کی دلیل نہیں۔ والحمد للہ علٰی احسانہٖ۔
اس کے بعد قرآن مجید کی ان تینوں آیات پر بھی ایک نظر ڈالتے چلئے، جنہیں معترض نے حضور سیّد عالم ﷺ کے تاریک جسمانی سایہ کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔
اِن میں سے تیسری آیت میں تو کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ"سایہ" ہو، اس آیت کے معنی صرف یہ ہیں کہ "زمین وآسمان کی ہر چیز اور زمین پر چلنے والی تمام مخلوق اور کل ملائکہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں"۔
غور فرمائیے! دعویٰ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے جسم اقدس کا تاریک سایہ تھا اور دلیل یہ ہے کہ"تمام آسمانوں والے اور زمین پر چلنے والی سب چیزیں اور کل فرشتے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں" جس کلام کا ایک لفظ بھی دعویٰ پر منطبق نہ ہو اُسے دلیل سمجھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟
رہیں پہلی دو آیتیں، تو ان کا مفہوم یہ ہے کہ زمین وآسمان کی سب چیزیں اور ان میں سایہ دار اجسام کے سائے اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔
(یہ معنی اس تقدیر پر ہیں کہ آیت کریمہ میں"ظلال" کے معنی "سائے" کے لئے جائیں اور اگر ظلال کا ترجمہ اشخاص کیا جائے جیسا کہ تفسیر مظہری، جلد۵، ص۱۷ سے ہم نقل کرچکے ہیں تو اس صورت میں یقیناً مخالفین کے استدلال کی اصل بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے۔)
دیکھئے تفسیر خازن میں ہے: (یتفیٔوا ظلا لہٗ) یعنی من جسم قائم لہٗ ظل۔ (تفسیر خازن، جلد رابع، ص۷۷)
اسی طرح تفسیر معالم التنزیل میں ہے:
(الیٰ ما خلق ﷲ من شیء) من جسم قائم لہٗ ظل۔
(تفسیر معالم التنزیل، جلد رابع، ص۷۷)
اگر حضور ﷺ کا سایہ ہوتا تو یقیناً اس کا سجدہ کرنا بھی ثابت ہوجاتا، لیکن جسم اقدس کے سایہ کے ثبوت سے آیہ کریمہ کا دُور کا تعلق بھی نہیں۔
اور اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ ان آیتوں سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جسم اقدس کا سایہ ثابت ہے تو پھر تمام بے سایہ چیزوں کا سایہ ثابت ہوگا، ملائکہ، حورانِ بہشت، چاند، سورج اور تمام حسّی حقیقی انوار کا سایہ ماننا پڑے گا۔
جب یہ بداہۃً باطل ہے تو معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے سایہ کا ثبوت بھی اسی طرح باطل محض ہے۔
ہاں اگر یہاں ظل سے ایک عام معنی مراد لے لئے جائیں یعنی اجسام کثیفہ کا تاریک سایہ اور اجسام لطیفہ نورانیہ کی چمک اور شعائیں، تو یہ ہمارے مسلک کے منافی نہیں کیونکہ ہم اس سے قبل احادیث صحیحہ سے حضور سیّد عالم ﷺ کے جسم اقدس کی چمک سے دیواروں کا روشن ہوجانا ثابت کرچکے ہیں، لہٰذا ان آیات سے ہمارے مسلک کی تائید ہوگی، اور یہ آیات حضور ﷺ کے لئے تاریک سایہ کی بجائے روشنی اور نورانیت کی مؤید قرار پائیں گی۔ فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔
بفضلہٖ تعالیٰ معترضین کے تمام شکوک وشبہات کا تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہونا اظہر من الشمس ہوگیا، اور امام اہل سنت، مجدد ملت حضور پر نور اعلیٰ حضرت بریلوی کے رسالہ مبارکہ نفی الفیء عمن انار بنورہ کل شیء پر وارد کئے ہوئے جملہ اعتراضات ھباءً منثورًا ہوگئے، اور یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئی کہ اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصانیف جلیلہ کی پھبتیاں اُڑانا اور ان پر اعتراض کرنا گویا سورج کو منہ چڑ انا اور چاند پر تھوکنا ہے، جس کا انجام ذلت اور ندامت کے سوا کچھ نہیں۔

وصلی ﷲ تعالٰی علیٰ خیر خلقہٖ ونور عرشہٖ سیّد نا ومولانا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلّم تسلیمًا کثیرا کثیرا:فقیر سیّد احمد سعید کاظمی غفرلہٗ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )

1 comment:

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...