Wednesday, 20 April 2016

دینا کے ہر مسلے کا حل موجود ہے مگر مسلے کے حل کی صلاحیت ہونی چاہیئے

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنا ایک آفاقی ضابطہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.
’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا‘‘۔
(البقرة: 286)
ایک بچہ جو دس کلو تک وزن اٹھا سکتا ہو اس کا باپ کبھی گوارا نہیں کرے گا کہ اسے بیس کلو وزن اٹھانے کے لئے کہے۔ باپ سے کہیں زیادہ محبت ماں کو اولاد کے ساتھ ہوتی ہے اور ماں سے کہیں زیادہ محبت ہمارے ساتھ اس خالق و مالک کو ہے جس نے مائوں کے دلوں میں ہمارے لئے محبت پیدا کی ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ اس کائنات میں اللہ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا اور یہ بھی طے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے ساتھ بہت زیادہ محبت کرنے والی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف کوئی ایسا مسئلہ آجائے جسے حل کرنا ہماری صلاحیت سے باہر ہو۔ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے میں خود کو ناکام تصور کرتے ہیں تو قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنی صلاحیتوں کو مسائل کے حل کے لئے صحیح استعمال نہیں کیا۔ صلاحیت کا مالک ہونا ایک بات ہے اور اسے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔
اگر آج تک ہم نے اپنے من میں جھانک کر دیکھا ہوتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ بنانے والے نے کیسی حیرت انگیز صلاحیتیں، توانائیاں اور استعدادیں ہمارے اندر رکھی ہوئی ہیں جن کے عدم استعمال کی وجہ سے انہیں زنگ لگ رہا ہے اور ہم دنیا میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں نے اپنی خلافت و نیابت کا تاج تمہارے سر پر رکھ دیا ہے اور ساری کائنات کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ تمام اعزازات انسان میں بے اختیاری کے ساتھ تو جمع نہیں کئے گئے بلکہ اس نے انسان کو کائنات کے مسخر کرنے کے لئے اختیارات و صلاحیتیں بھی دی ہیں۔ وہ ہمیں غالب دیکھنا چاہتا ہے افسوس کہ ہم خود ہی مغلوب بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیں فاتح دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم مفتوح بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید بتاتا ہے کہ اللہ نے ہمارے اندر اپنے نور کا چراغ جلا رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ.
’’اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں ‘‘۔
(الحجر: 29)
جب صورت حال یہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی قدرتوں اور طاقتوں کا کچھ نہ کچھ عکس تو ہمارے اندر بھی دکھائی دینا چاہئے۔ بقول اقبال
تیرے دریا میں روانی کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
اس مقصد کے لئے پہلے ہمیں اپنے من میں جھانک کر اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا تاکہ اپنی طاقتوں اور مقام و مرتبہ سے آشنائی ہو اور ان میں یقین قائم ہو۔ اس حوالے سے حکیم الامت کا کہنا ہے:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے مقام و مرتبہ کا بہت ہی ہلکا اندازہ لگا رکھا ہے۔ بالفاظ دیگر ہم نے اپنے آپ کو Under Estimate کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس رنگ برنگی کائنات کی بارات کا دولہا بنایا ہے اور یہ ساری بزم ہمارے ہی لئے سجائی گئی ہے اور اسے ہمارے ہی لئے مسخر کردیا گیا ہے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی گمانوں سے مغلوب ہوکر ہر کام کو اپنے لئے ناممکن سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ ناممکن کا لفظ فقط احمقوں کی لغت کا حصہ ہوتا ہے۔ بہادر لوگوں کے لئے کوئی کام بھی ناممکن نہیں ہے۔ سالہا سال تک انسانی صلاحیتوں کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر نپولین ہل کا کہنا ہے کہ
If you think you can or you cannot you are right.
’’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے تو آپ صحیح ہیں‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ انسان اگر یہ سمجھ لے کہ میں فلاں کام کرسکتا ہوں تو وہ اسے کرسکے گا اور اگر وہ ذہنی طور پر یہ سمجھ لے کہ میں تو یہ کام نہیں کرسکتا تو وہ واقعی اسے نہیں کرسکے گا۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ اس کی سوچ پر ہی منحصر ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگریزی کے مشہور ادیب برنارڈ شاہ نے کہا تھا:
’’زندگی کا سارا ڈرامہ ذہنی ڈرامہ ہے۔ ہر مشکل ذہنی مشکل ہے‘‘۔
لہذا منفی، پست اور مایوس کن سوچوں کے حصار سے باہر نکلیں۔ اپنے آپ کو پہچانیں اور یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ کائنات کی عظمتیں آپ کے سامنے سرنگوں ہونے کو بے تاب ہیں اور مسائل حل ہونے کے لئے تیار ہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...