معجم طبرانی میں ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مَنْ شَرِبَ الْمَاءَ عَلَی الرِيْقِ اِنْتَقَصَتْ قُوَّتُهُ.
’’جس نے نہار منہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی۔‘‘
(طبراني، المعجم الاوسط، 5: 52، رقم: 4646)
اس روایت کی سند میں زید بن اسلم اور اس کا بیٹا عبد الرحمن دونوں ہی بہت کمزور راوی ہیں۔ جن کی طرف، امام طبرانی رحمہ اﷲ نے روایت کے بعد خود بھی اشارہ کیا ہے۔ اسی روایت کے بارے میں، امام ہیثمیرحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
فيه محمد بن مخلد الرعيني وهو ضعيف.
’’اس روایت میں محمد بن مخلد الرعینی کمزور ہے۔‘‘
(هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5: 87)
لہٰذا ضعیف روایت سے ہم نہار منہ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہیں کر سکتے جبکہ اس سے قوی اسناد والی روایات میں وضو کے بعد بچا ہوا پانی پینا ثابت ہے اور ان احادیث میں نمازِ تہجد اور نمازِ فجر کے لئے وضو کرتے وقت بچے ہوئے پانی کو نہ پینے کی کسی قید کا ذکر یا ممانعت موجود نہیں حالانکہ اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے۔
عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کرتے تھے کہ:
اَنَّهُ صَلَّی الظُّهْرَ ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْکُوفَةِ، حَتَّی حَضَرَتْ صَلَةُ الْعَصْرِ، ثُمَّ اُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَکَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَکْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، وَإِنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ.
’’انہوں (حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم)نے نمازِ ظہر پڑھی، پھر لوگوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجد کے سامنے والے صحن میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا اور اپنے منہ ہاتھ دھوئے۔ شعبہ راوی نے سر اور پیروں کا بھی ذکر کیا ہے پھر آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے بچا ہوا پانی نوش فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسے میں نے کیا ہے۔‘‘
(بخاری، الصحيح، 5: 2130، رقم: 5293)
سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لاکر حاضر خدمت کیا۔ آپ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں پہنچوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا۔ بعد ازاں آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ بعد ازاں بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا۔ بعد ازاں آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد آپ نے دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ صاف فرمایا پھر ایسے ہی بائیں کو۔ اس کے بعد آپ نے کھڑے ہوکر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے وہی برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا حاضر خدمت کیا۔
(حدیث مبارکہ کا موضوع سے متعلقہ حصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے)
فَشَرِبَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ قَائِمًا فَعَجِبْتُ فَلَمَّا رَآنِي قَالَ لَا تَعْجَبْ فَإِنِّي رَاَيْتُ اَبَاکَ النَّبِيَّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يَصْنَعُ مِثْلَ مَا رَاَيْتَنِي صَنَعْتُ يَقُولُ لِوُضُوئِهِ هَذَا وَشُرْبِ فَضْلِ وَضُوئِهِ قَائِمًا.
’’آپ نے کھڑے کھڑے اس میں سے پانی پی لیا میں متعجب ہوا پھر جب مجھے دیکھا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان a کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا، حضورا اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیتے تھے۔‘‘
(نسائي، السنن، 1: 84، رقم: 100)
مذکورہ بالا روایات نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان احادیث مبارکہ سے وضو کے بعد بچا ہوا پانی پینا ثابت ہے لیکن کہیں بھی یہ قید نہیں لگائی گئی کہ نماز تہجد اور فجر کے لئے وضو کرتے وقت بچا ہوا پانی نہ پیا جائے جبکہ اس وقت انسان نہار منہ ہوتا ہے۔
بعض لوگوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے مضر ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد چند ضعیف روایت ہیں ۔
(1) پہلی روایت : ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا:مَن شرِب الماءَ علیَ الرِیقِ اَنتقصَت قُوتہُ (المعجم الأوسط للطبرانی :4646)
ترجمہ : جس نے نہار مُنہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی۔
روایت کا حکم :
٭اس روایت کی سند میں محمد بن مخلد الرعيني ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
٭امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
٭علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے (السلسلۃ الضعیفہ : 6032)
(2) دوسری روایت : ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی روایت میں بھی یہ ہی الفاظ ہیں :من شرب الماء على الريق انتقضت (المعجم الأوسط للطبرانی:6557)
ترجمہ :جس نے نہار مُنہ پانی پیا اس کی طاقت کم ہو گئی ۔
روایت کا حکم :
٭اس روایت کی سند میں عبدالاول المعلم نامی راوی کے بارے میں امام طبرانی نے اس روایت کے بعد لکھا کہ "یہ روایت صرف عبدالاول المعلم نے ہی بیان کی ہے "۔
٭امام ہیثمی نے کہا کہ اس میں ایک جماعت ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں۔(مجمع الزوائد10/305)
(3)ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرب الماء على الريق يفقد الشحم (الکامل فی ضعفاء الرجال)
ترجمہ : نہار مُنہ پانی پینے سے چربی ختم ہوتی ہے۔
روایت کا حکم :
٭یہ روایت ضعیف ہونے کی وجہ سے ہی الکافل فی ضعفاء الرجال میں درج کی گئی ۔ اس روایت کی سند میں ایک راوی عاصم بن سلیمان الکوزی ہے جس کو أئمہ حدیث نے جھوٹا،روایات گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔
٭ ابن الجوزی وغیرہ محدثین نے یفقد کی جگہ یعقد کا لفظ ذکر کیا ہے اور اس روایت کو موضوع میں شمار کیا ہے ۔ (موضوعات ابن الجوزی 3/204)
مذکورہ روایات کا حال جان لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہار منہ پانی پینے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث ثابت نہیں ہے ۔
نہار منہ پانی پینا طب کی نظر میں
اسلام نے نہار منہ پانی پینے سے منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی نہار منہ پانی پینے میں اسلامی اعتبار سے صحت کو نقصان پہنچنے کا کوئی ثبوت موجود ہے ۔
جب ہم طب کی روشنی میں نہار منہ پانی پینے کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے بے شمار فوائد نظرآتے ہیں۔ مثلا
دردِ سر و جسم، بواسیر،بلڈ پریشر،لقوہ، دمہ،کھانسی، جگر کے امراض، بلڈ کولیسٹرول، بلغم، آرتھرائٹس، مینن جائنٹس، استخاضہ، ٹی بی، بے ہوشی، مروڑ، تیزابیت، قبض، ذیابیطس، گیس ٹربل ،بچہ دانی کا کینسر، امراض چشم،امراض ناک ، امراض کان ، امراض گلہ،قلب کے نظام میں پایا جانے والا نقص،موٹاپے کے سبب جنم لینے والی بیماریاں، گردن توڑ، گردے کی خرابی، معدے کی بیماریاں اور متعدد زنانہ امراض سے بچنے کے لئے نہار منہ اور خالی پیٹ پانی پینا مفید ثابت ہوتا ہے۔
لہٰذا ترجیح قوی الاسناد احادیث مبارکہ کو دی جائے گی۔ جس سے نہار منہ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment