Wednesday, 20 April 2016

مسائل سے مت گھبرائیے مسائل ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں

:اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا

سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا.

’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کیے‘‘۔

(يٰس: 36)

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ.

’’اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے ‘‘۔

(الذاريات: 49)

چنانچہ رات اور دن، گرمی و سردی،خزاں وبہار وغیرہ اسی اُصول کی مثالیں ہیں۔ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے:

اَلْاَ شْيَآءْ تُعْرَفُ بِاَ ضْدَ ادِهَا.

’’چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں‘‘

رات کے مقابلے میں دن نہ ہوتا تو پھر رات کو رات کس نے کہنا تھا۔ اسی طرح گرمی کا تصور اُسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب اُس کے مقابلے میں سردی کا تصور موجود ہو۔ غور سے دیکھا جائے تو زندگی کا سارا حسن ہی ان اضداد میں ہے۔ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی مکمل ہوتی ہے۔ ان جوڑوں کے ملنے سے ہی زندگی کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔راحت اور کلفت، دُکھ اور سکھ، خوشی اور غمی، امارت اور غربت سب جوڑا جوڑا ہیں۔

اگلی بات سمجھنے والی یہ ہے کہ جس جگہ صرف سکون اور راحت ہے، اُ س کا نام جنت ہے اور جس جگہ صرف دکھ اور کلفت ہے ،اُس کا نام جہنم ہے اور یہ دونوں مرنے کے بعد ہیں۔ جہاں تک موجودہ دنیا کا تعلق ہے، یہاں یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہاں نہ کسی کے لیے دکھ سے خالی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جس کی زندگی میںصرف دکھ ہوں اور سکھ کوئی بھی نہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک اور آج سے لے کر قیامت تک کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی زندگی مسائل سے مکمل طور پر خالی ہو۔چاہے وہ نبی ہو یا اُمتی، بادشاہ ہویا فقیر ، امیر ہو یا غریب، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ۔ فرق صرف اتناہے کہ ہر کسی کے مسائل اُس کے حسبِ حال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر کسی کی نعمتیں بھی اُس کے حسبِ حال ہوتی ہیں۔یوں سمجھ لیں کہ زندگی ایک کلو مٹھائی کا ڈبہ ہے۔ جو وزن کے لحاظ سے تو ہر شخص کو ایک جیسا ملا ہے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس ایک کلو وزن میں کسی کو کوئی ایک چیز زیادہ مل گئی تو کسی دوسرے کو دوسری چیز زیادہ مل گئی۔ کسی میں برفی زیادہ ہے تو گلاب جامن کم اورکسی میں گلاب جامن زیادہ ہیں تو رس گلے کم۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ اہم بات یہ نہیں کہ ہمیں کیا زیادہ ملا اور کیا کم اور کیا بالکل نہیں ملا۔ اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ دینے والے نے عین حکمت کے تحت دیا ہے، اب ہم اُسے استعمال کس طرح کررہے ہیں،اسی پر ہماری کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے۔ نیز دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہم ملے ہوئے پر کس حد تک مطمئن ہیں۔ بقول حضرت واصف علی واصف

’’خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر راضی رہے‘‘

خالقِ کائنات نے قرآنِ مجید میںجابجا اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ دنیامیں رہتے ہوئے ہر شخص کو کبھی نہ کبھی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ سب کچھ عین حکمت اور مصلحت کے تحت ہوگا۔ ارشاد فرمایا :

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے‘‘۔

(البقرة: 155)

ہمیں زندگی کے ہر دور میں کچھ نہ کچھ مسائل کا ضرور سامنا رہا ہے۔ مختلف اوقات میں نوعیت بدلتی رہی مگر زندگی کبھی بھی مسائل سے مکمل طور پر خالی نہ ہو سکی اور نہ ہی آئندہ ہو سکتی ہے۔ یہ زندگی کی ایسی ٹھوس حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ جس طرح سورج کے ساتھ حرارت کا ہونا لازمی ہے اسی طرح زندگی کے ساتھ مسائل کا ہونا لازمی ہے۔صرف مو ت ہی آکر اُنہیں ختم کر سکتی ہے۔

ہما را المیہ یہ ہے کہ ہم مسائل سے خالی زندگی(problem free Life) کی آرزو اپنے سینے میں لیے ہوئے ہوتے ہیں ، پھر جب کوئی مسئلہ ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ ہمارے لیے غیر متوقع (unexpected)ہوتا ہے اور وہ ہمارے اندرونی سکون کو درہم برہم کر دیتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ ہم یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لیںکہ دنیا میں رہتے ہوئے مسائل سے مکمل طور پر خالی زندگی کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے تو اس سے ہمیں یہ فوائد ہوں گے کہ

ہماری زندگی میں آنے والے مسائل غیر متوقع نہیں ہوں گے اور اُنہیں برداشت کرنا آسان ہو جائے گا۔

دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم مسائل سے خالی زندگی کے لیے جو بہت زیادہ جتن کررہے ہیں اور اس حوالے سے ذہنی دبائو (Brain Stress) کی حا لت میں رہتے ہیں، اس میں کمی آجائے گی۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...