Wednesday 20 April 2016

میرے محترم بھائیو اور بہنو جہاں مسائل ہوتے ہیں وہیں مواقع ہوتے ہیں گھبرائیے نہیں

0 comments
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے عقلمند بندوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ذکر اور فکر کی برکتوں کے باعث ان پر رموز ہستی آشکار ہوتے ہیں تو وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلاً.
’’اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
(آل عمران: 191)
کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خالق اللہ ہے اور اس نے ہر چیز کو کسی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ بظاہر بری دکھائی دینے والی چیز بھی اپنے اندر افادیت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور رکھتی ہے۔ یہی معاملہ زندگی کے مسائل کا بھی ہے۔ ہر مسئلہ کے اندر مثبت امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا. اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.
’’سو بے شک ہر دشواری کے ساتھ آسانی (آتی) ہے۔ یقینا (اس) دشواری کے ساتھ آسانی (بھی) ہے‘‘۔
(الانشراح: 5، 6)
یہاں ایک ہی بات کو دہرا کر جس حقیقت کو بیان کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی عسر ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ یُسر موجود نہ ہو۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی موقع موجود نہ ہو۔ جسے ہم رکاوٹ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حقیقتاً ہمارے لئے ترقی کا زینہ ہوتا ہے۔ بصارت اور بصیرت میں یہ فرق ہے کہ بصارت صرف مسئلہ کو دیکھتی ہے مگر بصیرت اس کے اندر چھپے ہوئے موقع کو دیکھ لیتی ہے۔
ہر مسئلے کے اندر کم از کم ایک یا ایک سے زیادہ مواقع موجود ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر مسئلہ اپنے ساتھ کم از کم اتنا یا اس سے بھی بڑے سائز کا موقع لے کر آتا ہے۔ اگر آپ صرف مسئلہ کو دیکھیں گے تو موقع کو ضائع کر بیٹھیں گے اور اگر آپ موقع کو پہچان گئے تو اسے استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ ارشاد فرمایا:
عَسٰی اَنْ تَکْرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَيْئًا وَّهُوَ شَرٌّلَّکُمْ ط وَاﷲُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
’’ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔
(البقرة: 216)
یہی بات دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان ہوئی:
فَعَسٰـی اَنْ تَکْرَهُوْا شَيْئًا وَّيَجْعَلَ اﷲُ فِيْهِ خَيْرًا کَثِيْرًا.
’’ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے‘‘۔
(النساء: 19)
مندرجہ بالا دونوں آیات میں یہ حقیقت ہمیں باور کرائی جارہی ہے کہ ہماری زندگی میں پیش آنے والی ہر صورت حال خواہ وہ بظاہر کتنی ہی ناخوشگوار دکھائی دے رہی ہو حقیقتاً ہمارے لئے کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو لئے ہوئے ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسے مثبت انداز میں لیتے ہوئے اس خیر والے پہلو کو دریافت کرلیں اور اس پر درست ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو مزید بہتر بنالیں۔ مثلاً ہر انسان دنیا میں راحتوں اور آسائشوں سے بھرپور زندگی کو پسند کرتا ہے مگر ایسی زندگی روح کا قبرستان ہوتی ہے اور جن تنگیوں اور مشکلات کو انسان ناپسند کرتا ہے انہی سے زندگی میں وہ سوزو گداز پیدا ہوتا ہے جس سے زندگی میں حسن اور نکھار آتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر بے شمار غیر معمولی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں۔ یہ صلاحیتیں عام حالات میں سوئی رہتی ہیں۔ مگر جب کوئی مسئلہ (Challenge) سامنے آتا ہے تو یہ اُس وقت بیدار و متحرک ہوجاتی ہیں۔ شاعر مشرق نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ پر اپنا تعارف رحمن، رحیم اور کریم کے طور پر کروایا ہے۔ جو خدا اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے، اس کے لطف و کرم سے یہ بات بعید ہے کہ وہ بغیر کسی حکمت اور مصلحت کے ہمیں مصائب اور مشکلات میں مبتلا کردے، یقینا ان سب کے اندر ہماری بہتری ہی مقصود ہوتی ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔