اس طریقہ علاج سے انسان کا جسم پھر سے تندرست و توانا ہونا شروع ہوجاتا ہے، بلاتشبیہ و بلامثال ایسا ہی اعتدال انسان کی علمی، عملی، نظری، فکری، روحانی اور باطنی دنیا کو درست رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ علم غیر نافع ہی ایسا علم ہے جو انسان کو تند خو، شدت پسند، ہٹ دھرم، اکھڑ مزاج اور ضدی بنادیتا ہے، علم کو غیر ضرر رساں اور نفع بخش بنانے کے لئے اخلاق حسنہ، حلم، تحمل، بردباری، برداشت، عفو و درگزر، ملنساری اور رواداری جیسی روحانی ادویات استعمال کرواکر انسان کو اخلاقی بیماریوں سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے، بعض اوقات صوفیائے کرام کے ہاں ریاضت و مجاہدہ کی بھٹی سے بار بار گزار کر انسان کو صالح معاشرے کے لئے مفید بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معتدل معاشرہ قائم کرنے کے لئے ان پاک باز ہستیوں کی محنت کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اعتدال کی ضرورت و اہمیت
وسعت نظر یقینا وسعت مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اعتدال کی ضرورت و اہمیت میں خاصہ اضافہ ہوگیا کیونکہ بعض تنگ نظر اور ایک ہی مسلک یا نقطہ نظر کو شوق سے پڑھنے والے افراد فریق مخالف کے نقطہ نظر کو سننا پسند کرتے ہیں اور نہ اس کی مجلس میں بیٹھتے ہیں، فتویٰ کی زبان سے اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر مخالف شخص کو کافرو مشرک اور منافق جیسے سخت کلمات کہنے سے بھی باز نہیں آتے، اسی بے اعتدالی کی وجہ سے بعض اوقات وہ اپنی فکر میں اس حد تک متشدد ہوجاتے ہیں کہ خود کو ہی صحیح اور حق بجانب خیال کرتے ہیں، خود کو جنتی اور فریق مخالف کوجہنمی، جاہل اور قابل گردن زدنی تصور کرتے ہیں۔ بالآخر یہی سوچ انتہا پسندانہ نظریات کو جنم دیتی ہے، جو ایک اچھے، پرامن اور مثالی معاشرے کی علامت نہیں ہے۔ اگر اس غلط تصور کی تردید نہ کی جائے تو مجلس و محافل قتل گاہ اور میدان جنگ کا منظر پیش کریں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنی کرم نوازی سے ہر دور میں ایسے کئی لوگ پیدا کرتا ہے جن کی مخلصانہ کوششوں سے انتہا پسندی کے زور کو مکمل ختم تو نہیں مگر کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔اس شدید ترین ضرورت کے پیش نظر زیر مطالعہ مختصر مگر تحقیقی مضمون میں اعتدال کے متعلق اسلامی تعلیمات کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس کے لغوی اور اصطلاحی معانی بیان کرنے کے بعد قرآن و سنت اسلامی تعلیمات کے بے مثال ورثہ سے اور سلف صالحین کے تذکار جمیلہ سے کچھ مثالیں پیش کی جائیں گی، جس سے نہ صرف شدت پسندی کے طوفان کو روکنے میں مدد ملے گی بلکہ یقینا ہٹ دھرمی پر مبنی سوچ کو تبدیل کرنے کا فائدہ بھی حاصل ہوگا۔
لغوی و اصطلاحی معانی
اعتدال عدل (ع دل) سے مشتق ہے، جو باب افتعال کا مصدر ہے، جس کے معانی لغت عرب میں انصاف، پیمانہ یا سیدھا معاملہ امر معتدل یعنی دو حالتوں میں سے متوسط حال اختیار کرنا۔
(المنجد دارالاشاعت اردو بازار کراچی، تاريخ اشاعت جولائی 1975ء)
وَالْاِعْتِدَالُ تَوَسُّطُ حَالٍ بَيْنَ حَالَيْنِ فِيْ کَمٍ
اَوْ کَيْفٍ وَکُلُّ مَا تَنَاسَبَ فَقَدْ اِعْتَدَلَ.
(ترتيب القاموس المحيط، ج الثالث، ص172، الظاهر احمد الزاوی
دارالفکر)
کسی چیز کی کمیت اور کیفیت کی دونوں حالتوں میں سے درمیانی حالت کو اختیار کرنا
اور ہر چیز کا تناسب قائم کرنا اعتدال کہلاتا ہے۔ کلمہ عدل قرآن میں
1۔ قرآن مجید میں عدل کا کلمہ تقریباً 28 دفعہ مصدر، ماضی، مضارع اور امر کے صیغوں میں استعمال ہوا ہے۔ عدل کے معانی کی وضاحت کے لئے درج ذیل سطور میں مشتے از خروارے چند قرآنی آیات پیش کی جارہی ہیں۔الف۔ سورہ النساء میں نکاح مسنون کی تعداد چار تک بیان کی گئی ہے، تمام بیویوں کے حقوق مساویانہ ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے عدل کی شرط لگائی ہے :
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً
(النساء، 4 : 3)
"پھر اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم (ان میں) انصاف نہ کرسکو
گے تو (صرف) ایک سے نکاح کرو"۔
ب۔ لین دین اور تجارت کے معاملات کو شفاف رکھنے اور جھگڑے سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ
نے تحریری دستاویز تیار کرنے کا حکم دیا تو اس وقت بھی لکھنے اور لکھانے والوں کو عدل
کی ہی تعلیم ارشاد فرمائی ہے :
ج. وَلْيَکْتُبْ بَّيْنَکُمْ کَاتِبٌم بِالْعَدْلِ.
(البقرة، 2 : 282)
"اور تمہارے درمیان کسی کاتب کو عدل کے ساتھ دستاویز لکھنی
چاہئے"۔
اس کے علاوہ قرآن پاک میں قسط کا کلمہ بھی عدل کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔
د. فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ
وَاَقْسِطُوْاط اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ.
"پھر اگر وہ اللہ کے (حکم کی طرف) رجوع کرلے تو ان میں عدل
کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف سے کام کرنے والوں کو پسند
فرماتا ہے"۔
(الحجرات، 49 : 9)
کلمہ اعتدال احادیث مبارکہ میں
قرآن مجید کی طرح اعتدال کا کلمہ احادیث مبارکہ میں بھی سیدھا ہونا اور ٹھیک ہونے کے معانی میں استعمال ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درج ذیل حدیث مبارکہ میں نماز باجماعت کے وقت صفوں کے ٹھیک اور معتدل ہونے کی اہمیت کو یوں بیان فرمایا ہے :
1. فَاِنَّ اِعْتِدَالَ الصَّفُوْفِ مِنْ تَمَامِ الصَّلاةِ.
(الموطا، رواية يحيیٰ الليثی (1/104) کتاب الجمعة باب ماجاء
فی الانصات يوم الجمعة والامام يخطب، 234)
"بے شک صفوں کا اعتدال (سیدھا ہونا) نماز کے مکمل ہونے کی
نشانی ہے"۔
فقہائے کرام کا طرز اعتدال
علم کے جس شعبہ میں دین اسلام کی روشنی میں روزمرہ کے سیاسی، معاشی، عائلی اور معاشرتی مسائل کی وضاحت کی جاتی ہے اور پیش آنے والے نت نئے مسائل کا حل معلوم کیا جاتا ہے اس کو علم فقہ کہتے ہیں اور ان کی تشریح کرنے والوں کو فقہائے کرام کہا جاتا ہے۔ ان فقہائے اسلامی کی وسعت ظرفی کا یہ عالم ہے کہ ان کے درمیان حلال و حرام تک کا اصولی اور علمی اختلاف موجود ہے۔ یعنی ایک فقیہ ایک چیز کو دلیل کی بنا پر حلال کہتا ہے، دوسرا اسی چیز کو دلیل کی بناء پر ہی حرام قرار دیتا ہے، کتب فقہ میں ہر صفحہ پر اس اختلاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اسی اختلاف کی بناء پر فقہ مالکی، فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری وجود میں آئی ہیں۔ یہ ذہن انسانی کے تنوع کی دلیل بھی ہے، اس علمی تنوع کو خوشی سے قبول کرنا قلبی وسعت کی نشانی ہے لیکن قابل غور اور لائق توجہ امر یہ ہے کہ اس علمی و فقہی اختلاف کے باوجود ان کے مابین کوئی تنازع اور تصادم نہیں ہے، ان کے مابین جملہ علمی آداب کا پاس کیا جاتا ہے اور بے حد احترام آدمیت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دلیل شرعی کی بنا پر رائے کے اختلاف کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی دلیل اور نکتہ نظر کو از حد درست اور صحیح خیال کرنے کے باوجود اس میں غلطی ہونے کا امکان موجود سمجھتے ہیں، صحیح دلیل شرعی معلوم ہوجانے کے بعد ہٹ دھرمی کی راہ اختیار نہیں کرتے بلکہ شرح صدر کے ساتھ اپنی رائے سے رجوع بھی کرلیتے ہیں۔ یہ ان فقہائے کرام کے معتدل مزاج، وسیع النظر اور صاحب بصیرت ہونے کی دلیل ہے۔ فقہ شافعی کے بانی امام محمد بن ادریس الشافعی (م204ھ) اکثر و بیشتر کہا کرتے تھے کہ :
رَاْيِی صَوَابٌ يَحْتَمِلُ الْخَطَاءُ، وَرَائْ غَيْرِيْ خَطَاءٌ
يَحْتَمِلُ الصَّوَابُ.
(تاريخ المذاهب الاسلاميه، محمد ابوزهره، دارالفکر للطباعة
والنشر، 1/18)
"میری رائے درست لیکن غلطی کا احتمال رکھتی ہے جب کہ میرے
غیر کی رائے غلط لیکن درستگی کا احتمال رکھتی ہے"۔
اعتدال پسندی کی اعلیٰ مثال
یہ فقہائے کرام قلبی طور پر اس قدر اعتدال پسند اور رواداری کے اخلاقی اصول پر عمل کرنے والے تھے کہ علم فقہ کے بانی ہونے کا عجب و غرور اور نخوت و تکبر ان کے نزدیک تک نہ پھٹکتا تھا، ان کی ردائے باطن کو میلا تک نہیں ہونے دیتا تھا۔ امام محمد ادریس الشافعی (م 204ھ) جب اپنے دادا استاد امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (م150) کے مزار پرانوار پر شہر بغداد کے محلہ اعظمیہ میں حاضری اور دعا کے لئے گئے تو آپ نے وہاں اپنی فقہ کے مطابق نماز میں رفع یدین نہیں کیا۔ جب ان کے تلامذہ نے بعد میں ان سے نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا :مجھے اپنے دادا استاد کے پاس اپنی فقہ کے مطابق رفع یدین کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔
(مناقب امام اعظم ابوحنيفة، مصنف مولانا عبدالرزاق بهترالوی
ص41 ناشر مکتبه لاثانيه لاهور)
یہ امام شافعی کی اعتدال پسندی اور وسعت ظرفی کی اعلیٰ مثال ہے۔ وہ عملی طور یہ
سمجھتے ہیں، اس کے باوجود کہ میں رفع یدین کرنے کے نکتہ نظر میں حق بجانب ہوں لیکن
میرے اس اصولی اجتہاد میں معمولی سی خطا کا امکان موجود ہے۔ وہ امام اعظم سے دلیل کی
بنیاد پر اختلاف رائے کو انا کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ عملی طور پر اگر اپنی رائے کے
خلاف بھی دوسرے کو کبھی ترجیح دینے کا موقع آجائے تو اس پر عمل کرتے ہوئے شرم محسوس
نہیں کرتے ہیں۔ اس سے ان کے ایک مستقل فقہی نکتہ نظر الشافعی کے بانی ہونے اور ان کے
فقہی مقام و مرتبے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اعتدال کا سبب
اگر معمولی سا غور کرلیا جائے تو یہ عقدہ بڑی آسانی سے سمجھ آجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقہی اور فروعی مسائل میں اجتہادی رائے کو خطاء کے باوجود بھی ایک صواب کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ صحیح اور صائب رائے کو دو اجروں کا مستحق قرار دیا ہے۔ اس سے یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ دین میں سوچ و بچار اور نیک نیتی سے کوشش کسی سطح پر بھی کی جائے وہ عنداللہ (اللہ کے نزدیک) اجرو ثواب کی مستحق ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :
اِذَا اِجْتَهَدَ الحَاکِمُ فَاَصابَ فَلَه اَجْرَانِ وَاِنْ
اَخْطَاءَ فَلَه اَجْرٌ وَّاحِدٌ.
(صحيح مسلم کتاب الاقضية، باب بيان الاجر الحاکم اذا اجتهد
فاصاب او اخطاء، حديث نمبر1716)
"جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں درست نتیجے کو پہنچے تو اس
کے لئے دو اجر ہیں اور اگر غلطی کرجائے تو اس کے لئے ایک اجر ہے"۔
اس حدیث پاک کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جن مسائل
میں قرآن و سنت کی کوئی رائے صاف معلوم نہ ہورہی ہو تو ان دو بڑے مآخذ شرعیہ کی روشنی
میں مجتہدین مقاصد شرعیہ کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں،
اس طرح ان کا وقت خدمت خلق میں بسر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجرو ثواب بھی
نصیب ہوتا ہے اور طبیعت میں اعتدال قائم رہتا ہے، یہ فقہائے کرام اپنی رائے قائم کرتے
ہوئے یہ بھی سوچتے ہیں کہ جس طرح میں نے اس امر شرعی میں کوشش کی ہے، اسی طرح دوسرے
فقیہ نے بھی اجتہاد کیا ہے، جس کے نتیجے میں اس نے بھی ایک رائے قائم کی ہے۔ یقینا
نظر و فکر کے اس انداز سے ہٹ دھرمی کا خاتمہ ہوگا، نظر و فکر میں وسعت پیدا ہوگی، برداشت
کی صفت آئے گی اور مسائل شرعیہ میں غوروخوض اور اجتہاد کی نئی راہیں بھی کھل جائیں
گی۔ بے اعتدالی زیادتی ہے
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے قتال اور جنگ کرنے کا حکم دیا گیا جو جہاد کی ایک اعلیٰ قسم ہے، اللہ کریم نے قتال جیسے غیظ و غضب کے ماحول میں بھی اخلاقی اقدار کے ملحوظ خاطر رکھنے کا یعنی دشمن پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا کیونکہ یہ اعتدال کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ اعتدال سے ہٹ جانے والوں اور زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ
وَلَا تَعْتَدُوْاط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ.
"اور اﷲ کی راہ میں ان سے (دفاعاً) جنگ کرو جو تم پر جنگ مسلط
کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا"۔
(البقرة : 190)
تبلیغ دین اور اعتدال
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو دین دعوت بنایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت شرق و غرب کے تمام بے دینوں اور غیر مسلموں کو اس الہامی دین کو قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ دعوت قبول کرنے والوں میں ہر انسان یعنی یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، مجوسی اور دہریے جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو پہنچانے کا جو طریقہ اختیارکرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں حکمت اور دانائی یعنی اعتدال کو قائم رکھنے کا اولین حکم فرمایا، اچھی نصیحت اور دلائل کا تذکرہ بعد میں فرمایا :
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ
الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ
(النحل : 125)
"آپ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیجئے حکمت اور اچھی نصیحت
کے ساتھ اور ان سے بحث بھی اچھے دلائل کے ساتھ کرو"۔
اعتدال اور صوفیائے کرام
تاریخ اسلام میں انسانیت کے جس گروہ میں سب سے زیادہ اعتدال پایا جاتا ہے وہ صوفیائے کرام ہیں کیونکہ وہ مجاہدہ نفس کے ذریعے طبیعت کے شرپسندانہ عناصر کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ علم نافع کی کوشش جاری رکھتے ہیں، اپنے سمیت سب کو علم غیر نافع کے نقصانات و حجابات سے بچنے کی ترغیب دیتے ہیں، طبیعتوں میں اعتدال پیدا کرنے کے لئے عبادت و ریاضت میں کثرت، احترام آدمیت کے درس کے ساتھ کم خوری کو عادت ثانیہ بناتے ہیں، علمی و فقہی اختلافات کو لفظی نزاع تصور کرکے بات کو طول دینے سے احتراز کرتے ہیں، وصلِ الہٰی کے لئے ہٹ دھرمی اور تصادم و تخاصم کو حجاب سمجھتے ہیں، خواہ وہ علمی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام فقہی مسالک اور ان کا مت مسلمہ میں معمول جاری رہنا اور امت مسلمہ کا ایک متعدد حصے کا ان کی فقہ کو قبول کرنا ہی ان کے حسن نیت اور مقبول سعی کی علامت ہے۔برصغیر پاک و ہند میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث یعنی غیر مقلد علماء کے مابین اس حد تک اختلافات موجود ہیں کہ ایک دوسرے کو کافر، مشرک اور منافق کہنے سے بھی باز نہیں آتے جب کہ تینوں مسالک کے دعوے دار ایک خدا، ایک قرآن، ایک دین اور ایک قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں، لیکن آپس میں ملاقات کا تصور الا ماشاء اللہ ناپید ہے، ایک دوسرے کو مناظرانہ چیلنج دیئے جاتے ہیں، ان کے درمیان سلام و کلام اگر کبھی واجبی سا ہوبھی جائے مگر دل دور رہتے ہیں۔ اس ماحول میں گورداس پور کے شہر میں ایک دوراندیش، صوفی بزرگ حضرت الشاہ محمد سراج الحق نوراللہ مرقدہ (م۔ 1932ء) نے خود اس نفرت کے ماحول میں رہتے ہوئے ہمیشہ وسعت ظرفی کا ثبوت دیا، برصغیر کے تمام مسالک کے علمائے کرام آپ کی مجلس علم و ادب اور ذکر و فکر میں حاضر ہوتے اور روحانی فوائد حاصل کرتے تھے۔ وہ فریقین کے مابین محبت کی زبان سے اختلافی مسائل پر کبھی گفتگو بھی کرلیتے تھے لیکن دوران گفتگو ماحول مناظرانہ بنا نہ مجادلانہ۔
ایک نجی ملاقات میں غیر مقلد، اہل حدیث، جید عالم دین مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۔ 1368ھ) نے الشاہ محمد سراج الحق چشتی (م۔ 1932ء) سے تصرفات اولیاء پر گفتگو شروع کردی۔ ساتھ ہی جنات کے تصرف کا انکار کردیا۔ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں، انسانوں کی طرح ان میں نیک بھی ہیں اور برے بھی جو بلاوجہ انسانوں کو تکلیف دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو انسانی جسم میں داخل ہونے کی طاقت بخشی ہے، ان کی بہت لمبی عمریں ہوتی ہیں، آنکھ جھپکنے میں طویل سفر کرلیتے ہیں، عفریت نامی جن کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ نمل میں مذکور ہے۔ قرآن مجید میں ان کے نام پر ایک سورہ جن موجود ہے، قرآن مجید میں ہے کہ جنوں کے وفود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر قرآن مجید سیکھتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح گردش کرتا ہے جیسے خون دوڑتا ہے۔ مولانا امرتسری نے ان دلائل کے باوجود آپ کی بات کو تسلیم نہ کیا، آپ مناظرانہ انداز میں گفتگو نہیں فرماتے تھے، آپ نے گفتگو ختم کی، خاموشی سے اٹھے اور گورداس پور چلے گئے۔
شاہ صاحب ابھی گورداس پور پہنچے ہی تھے کہ مولانا امرتسری صاحب کے صاحبزادے بغیر سیڑھی کے واسطے سے مکان کی چھت پر آنے اور جانے لگے، گھر پر شور و غوغا برپا ہوگیا، مولوی صاحب بڑے پریشان ہوگئے، اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے مگر وہ ہاتھ نہ لگانے دیتا۔ ادھر مولانا صاحب حضرت خواجہ صاحب کے ساتھ گفتگو کے دوران تصرفات جنات کا انکار کررہے تھے، ادھر اپنے ہی گھر میں اللہ کریم نے وہ نقشہ دکھادیا، اگر بچے میں جن داخل ہوجائے تو وہ بچہ ہوکر بھی اس قدر طاقت ور ہوجاتا ہے کہ بڑوں سے بھی قابو میں نہیں آتا، اس میں اتنی قوت آجاتی ہے کہ وہ بغیر سیڑھی کے واسطے سے بھی مکان کی چھت پر آنا جانا شروع کردیتا ہے۔ کیا ابھی بھی مولانا صاحب نے جنات کے تصرف کا اقرار نہ کیا ہوگا؟ بالآخر مولانا صاحب تار گھر کی طرف بھاگے، بذریعہ تار اس معاملے کی اور اپنی گھبراہٹ کی حضرت خواجہ صاحب کو اطلاع دی تو آپ نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کرم فرمائے گا، اسی وقت لڑکا صحیح ہوگیا۔
حضرت مولانا صاحب حضرت خواجہ صاحب کے بہت معتقد ہوگئے، مسلکی اختلاف کے باوجود وہ اکثر آپ سے ملاقات بھی کرتے تھے، فروعی مسائل میں اختلاف رائے کو باہمی محبت و تعلقات میں آڑ نہ بننے دیتے تھے اور وہ ہر ملاقات پر ایک سوال ضرور کرتے تھے مگر آپ جو جواب ارشاد فرماتے، اس کو بحث و تمحیص کے بغیر قبول کرتے تھے۔ آپ کی معتدل طبیعت نے مجادلانہ اور مناظرانہ انداز اختیار کئے بغیر مولانا امرتسری صاحب کو ایسا مسئلہ سمجھادیا کہ پھر پوری زندگی انہوں نے اس سے انکار نہ کیا۔ اس میں دیگر علمائے کرام کے لئے بھی نصیحت کا پہلو موجود ہے کہ مناظرانہ انداز سے بات کا منوانا مشکل ہے لیکن بہترین تدبیر، عمدہ حکمت عملی اور باہمی ملاقات سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں۔
(ملخص شميم ولايت، ص602. مصنف ابومظهر اصغر علی چشتی، ناشر
بزم چشتيه لاهور)
عدم اعتدال کے نقصانات و نتائج
بے اعتدالی نے عصر حاضر میں فرقہ واریت کا جو طوفان بدتمیزی بپا کیا ہے، اس نے باہمی نفرتوں کو جنم دیا ہے، باہمی محبتوں کا جنازہ نکال دیا ہے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر شخص اپنے مسلکی مخالف پر سنگ باری کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے، خواہ وہ لفظوں سے ہو یا پتھروں سے، ڈنڈے سے ہویا گولی سے۔ تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سقوط بغداد اور زوال امت مسلمہ کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ شیعہ سنی فسادات بھی تھے، اس سے معلوم ہوا انتشار و افتراق اقوام کو ریت کی دیوار کی طرح گرادیتا ہے، جو قوم منفی سوچ اور خود پسندی کی دلدل میں پھنس جائے، وہ ہمچو مادیگرے نیست کی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے، جس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ قومی معیشت زوال پذیر ہوجاتی ہے، اخلاقی اقدار معاشرے سے عنقا ہوجاتی ہیں، مجموعی حیثیت سے قوم انحطاط کا شکار ہوجاتی ہے، ہر شعبہ زندگی اس سے متاثر ہوتا ہے، قوم کا قیمتی سرمایہ یعنی وقت ضائع ہوتا ہے پھر قوم کو جانی و مالی نقصان سے کوئی بچا نہیں سکتا، معاشرتی امن و امان تباہ ہوجاتا ہے۔ ہر طرف جنگل کا قانون نظر آتا ہے، اصولوں کی کوئی پاسداری نہیں ہوتی۔ عدم اعتدالی کے نقصانات کا اگر دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو ہر گلی اور محلہ جنگ کا نقشہ پیش کرے گا، ہر طرف سے الامان والحفیظ کی صدائیں بلند ہوں گی۔بے اعتدالی سے حفاظت کیسے؟
بے اعتدالی کے نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے درج ذیل سطور میں چند قابل عمل تجاویز پیش کی جارہی ہیں، جن پر پُرخلوص طریقے سے عمل کرنے سے ہم بہت بڑے خطرات سے بچ سکتے ہیں۔- ہر سطح پر تعلیم کو عام کیا جائے۔
- انسانی شعور کو بیدار کیا جائے۔
- اپنے اندر حوصلہ اور برداشت کی اخلاقی صفات پیدا کی جائیں۔
- صرف مسلکی بنیاد پر کافرو مشرک کہنے کی مذمت کی جائے۔
- ہر دوسرے شخص میں اچھی صفات تلاش کی جائیں۔
- فرقہ ورایت پیدا کرنے والے لٹریچر پر پابندی لگائی جائے۔
- تبلیغی و اصلاحی پروگراموں کے لئے اندرونی سپیکر استعمال کئے جائیں۔
- جملہ مشاہیر اسلام پر طعن و تشنیع کی زبان بند کی جائے۔
- حکومت وقت در پردہ یا کھلم کھلا کسی مسلک کی سپورٹ نہ کرے۔
- وعظ و بیان کے لئے مشترکہ اخلاقی عنوانات کو تجویز کیا جائے۔
- تمام مسالک اصلاح معاشرہ کے لئے مثبت کردار ادا کریں۔
- اپنی ذات سے ہر اچھے کام کا آغاز کردیا جائے۔
خلاصہ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید نے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ کافروں کے باطل خداؤں یعنی بتوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راہ اعتدال سے ہٹ کر اور ضد میں آکر مسلمانوں کے سچے واحد خدا کو ہی برا بھلا نہ کہنا شروع کردیں۔
وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا
اﷲََ عَدْوًم ا بِغَيْرِ عِلْمٍ.
(الانعام، 6 : 108)
"اور اللہ کے سوا جن کی یہ پرستش کرتے ہیں تم انہیں برا بھلا
نہ کہو (ایسا نہ ہو کہ) وہ بھی اللہ کو زیادتی کرتے ہوئے جہالت سے برا بھلا کہنے لگیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و عمل اور عبادت و ریاضت کے ہر شعبے میں
ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی نبی اقدس صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اعمال و افعال اور اقوال و گفتار سے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا بلکہ
عمل کرکے دائمی سرخروئی حاصل کی ہے۔ فقہائے کرام نے دلیل کی بنیاد پر باہمی اختلاف
کے باوجود اعتدال کی اخلاقی صفت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا، بلکہ ہر ممکن اس پر عمل
کیا ہے۔ صالحین و عابدین نے بھی علمی و عملی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں، میانہ روی، اخلاقی اقدار، رواداری، برداشت اور اعتدال کے راستے پر عمل کیا ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ جملہ شعبہ ہائے زندگی میں ہر شخص کے لئے اس پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہے، قوم و ملک سے لے کر خاندان کے ہر فرد کے نظم وضبط تک ہر چیز کو سلیقے سے چلانے اور برقرار رکھنے کے لئے یہ لازمی امر ہے۔ تجارتی اور معاشرتی معاملات کو خوبصورتی سے نپٹانے کے لئے اعتدال ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر جگہ پر اس کی افادیت سے سر مو انکار و انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ الغرض نظم کائنات کو صحیح رکھنے کا واحد ذریعہ اعتدال ہے۔
No comments:
Post a Comment