قرآن پاک میں اسراء و معراج کے حوالے سے متعدد آیات موجود ہیں، جن کی روشنی میں اس سفر مقدس کے مختلف پہلو اور جہات واضح ہوتی ہیں۔
ذات سبحان جل شانہ نے اپنے عبد خاص اور محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن اختصاصات و اعزازات سے نوازا ہے ان میں سے ایک خصوصی وصف اور انفرادی و لافانی معجزہ ’’شرف معراج‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘۔ (الاسراء : 1)
زمینی سیر کے بعد آسمانی معراج کاتذکرہ اور پھر قاب قوسین او ادنی کی رفعتوں کا مفصل تذکرہ سورہ النجم میں فرمایا گیا، ارشاد فرمایا : :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم : 8 تا 10)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوہِ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
خصوصی عنایات و نوازشات
خالق کریم نے انسانی رفعت و عروج کی اس انتہا پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منازل و مدارجِ قرب کی انتہائی بلندیوں پر فائز فرمایا اور دو طرفہ کیفیات وصول و حصول اور افاضہ و استفاضہ کو کمال اختصار و جامعیت کے ساتھ یوں بیان فرمایا :
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO
(النجم : 10)
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
اپنے عبدِ خاص پر معبود نے جو خصوصی نوازشات اور انعامات فرمائے اُن میں سے کچھ عنایات کا تذکرہ روایات میں ملتا ہے۔
٭ ایک روایت میں ہے کہ
لما راء الحق سبحانه و تعالیٰ خر ساجدا. قال صلی الله عليه وآله وسلم فاوحیٰ الی عبده ما اوحی.
’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذات باری تعالیٰ کو دیکھا تو سجدہ میں گر پڑے اور فرمایا ’’پھر اس نے فرمایا اپنے بندے سے جو فرمایا‘‘۔
امام ثعلبی اور امام قشیری علیہما الرحمہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔ فاوحی کے زمرے میں آنے والے انعامات میں سے ایک یہ ہے کہ
ان الجنة حرام علی الانبيآء حتی تدخلها يامحمد! وعلی الامم حتی تدخلها امتک.
’’بے شک جنت انبیاء پر حرام ہے جب تک اے حبیب! آپ اس میں داخل نہ ہو جائیں اور دوسری امتوں پر حرام ہے جب تک آپ کی امت اس میں داخل نہ ہوجائے‘‘۔
٭امام قشیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : پھر مزید انعام فرمایا :
اے حبیب! ہم نے آپ کو حوض کوثر سے نوازا، تو تمام اہل جنت آب کوثر کے لئے آپ کے مہمان ہیں اور ان کے لئے شراب طہور، دودھ اور شہد ہوگا اور پھر ہر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ (جو بعد میں تخفیف کے ساتھ پانچ رہ گئیں)
اہل تفسیر لکھتے ہیں : سورہ البقرہ کا آخری حصہ، سورہ والضحی کا کچھ حصہ اور سورہ الم نشرح کا کچھ حصہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔
چنا اپنے لئے تو نے رسول عبد کا منصب
فاوحٰی کا فقط تیرے لئے پیغام ہے آقا
٭ مدارج معراج کو طے کرتے ہوئے انتہائے قرب کی منازل پر فائز ہو کر جو علوم و اسرار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہِ الوہیت سے حاصل کئے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
سأَلَنِیْ ربی فلم استطع ان اجيبه عزوجل فوضع يده عزوجل بين کتفی.
(بلا تکييف ولا تحديد)
’’میرے رب نے مجھ سے سوال کیا تو میں اس کا جواب نہ دے سکا، تو اس ذات ذوالجلال نے میرے دونوں کندھوں کے مابین اپنا دست قدرت رکھا۔ بلاکیف و بلا تشبیہ کیونکہ ذات باری تعالیٰ اعضاء و جوارح سے پاک ہے۔
فوجدت بردها، فاورثنی علم الاولين والآخرين وعلمنی علوما.
’’تو میں نے اس کی ٹھنڈک محسوس کی پھر مجھے گذشتہ و آئندہ کے علوم عطا کئے گئے اور کئی قسم کے علوم سے نوازا گیا‘‘۔
ان علوم کی نوعیت و کیفیت عرفاء کے نزدیک کچھ اس طرح ہے :
1۔ وہ علوم جنہیں پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ان علوم و اسرار کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
2۔ وہ علوم جن کے بارے میں اظہار و عدم اظہار کا اختیار دیا گیا۔
3۔ وہ علوم جن کو امت کے عوام و خواص اور جن و انس تک پہنچانے کا حکم دیا گیا۔
٭ امام قشیری اپنے شیخ ابو علی الدقاق علیہ الرحمہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں :
جب موسیٰ علیہ السلام کو وادی سینا میں حاضری کا حکم ہوا تو انہیں پیدل چل کر آنے کا پابند کیا گیا اور ہمارے نبی علیہ السلام کے لئے براق روانہ کیا گیا اور سواری پر سوار کیا جانے والا، پیدل چل کر آنے کی پابندی والے جیسا نہیں ہوتا۔
کتب حدیث و سیر میں موجود ہے کہ معراج دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی کروائی گئی ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیازات و خصائص کا معاملہ یہاں بھی بہر نوع جداگانہ ہی ہے۔ بقول اقبال
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
ماسراپا انتظار او منتظر
٭ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ فاوحی الی عبده ما اوحی کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے فرمایا :
سرالحبيب مع الحبيب ولا يعلم سرا لحبيب الا الحبيب.
’’دوست کا دوست کے ساتھ راز و نیاز اور دوست کے راز سوائے دوست کے کوئی نہیں جانتا‘‘۔
وحشت و اُنسیت کی کیفیات
صاحب معراج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
دوران عروج جب مجھے وحشت کا احساس ہوا تو میں نے ایک منادی کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لہجہ میں صدا لگاتے سنا، اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا!
قف فان ربک يصلی.
’’رکو! کہ بے شک تمہارا رب نماز ادا فرما رہا ہے‘‘۔
تو میں ان دونوں باتوں سے شدید حیران ہوا کہ کیا ابوبکر مجھ سے پہلے اس مقام تک پہنچ گیا ہے اور پھر میرا رب تو نماز ادا کرنے سے بے نیاز ہے تو حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا :
میں اس بات سے مستغنی ہوں کہ کسی کے لئے نماز ادا کروں بلکہ میں تو صرف یوں کہتا ہوں :
سبحانی، سبحانی سبقت رحمتی علی غضبی.
’’میں پاک ہوں، میں پاک ہوں، میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘۔
پھر فرمایا حبیب یہ آیات پڑھو :
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاO
(الاحزاب : 43)
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہےo‘‘۔
پس میری صلوۃ تم پر اور تمہاری امت پر رحمت ہے۔
باقی رہا تمہارے ساتھی ابوبکر کا معاملہ تو وہ یوں ہے کہ تمہارے بھائی موسیٰ علیہ السلام کو اپنے عصا سے زیادہ اُنس تھا تو جب ہم نے اس سے کلام کا ارادہ کیا تو یوں کہا :
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىO قَالَ هِيَ عَصَايَ
(طه : 17، 18)
’’اور یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ اے موسی! انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے‘‘۔
لہذا وہ عصا کی طرف متوجہ ہونے سے اس عظیم ہیبت سے محفوظ رہے۔ (جو کلام الہٰی کے اندر تھی) اس طرح اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کیونکہ آپ کو اپنے رفیق و صدیق ابو بکر کے ساتھ زیادہ انسیت ہے اس لئے ہم نے اس کی صورت میں ایک فرشتہ پیدا کیا جو اس کے لہجے میں صدا دے تاکہ آپ پر طاری خوف بوقت جلالت و ہیبت، اُنسیت میں بدل جائے۔
شاید یہاں صورت سے مراد صوتی صورت ہے کیونکہ روایت میں ایسا ذکر نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی فرشتہ ابوبکر صدیق کی صورت میں دیکھا تھا۔
رؤیت باری تعالیٰ
شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کیا اور اس شان سے کیا کہ مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ’’نہ آنکھ جھپکی نہ ٹیڑھی ہوئی‘‘۔
٭ جمہور ائمہ اور علماء امت کا موقف یہی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے حدیث صحیح سے استدلال کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے :
رايت ربی فی احسن صورته
’’میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا‘‘۔
٭ اہل معرفت صوفیاء کرام فرماتے ہیں :
شاهد بحق سبحانه و تعالیٰ القلوب، فلم يرٰی قلبا اشوق اليه من قلب محمد صلی الله عليه وآله وسلم فاکرمه بالمعراج تعجيلا لروية والمکالمة.
’’حق سبحانہ و تعالیٰ نے (اپنی مخلوق کے) دلوں کو ملاحظہ فرمایا تو کوئی دل قلب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر اپنا مشتاق نہ پایا سو فوراً اسے معراج اور دیدار و مکالمہ کے شرف سے نواز دیا‘‘۔
٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی کثیر تعداد اور بے شمار محدثین و متکلمین اور صوفیاء کرام نے شب معراج رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے۔ بلکہ بعض اہل علم نے بچشمِ سر رؤیت پر اجماع نقل کیا ہے۔ خصائص صغری میں ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کریم کی آیات کبریٰ کا مشاہدہ فرمایا یہاں تک کہ نہ آنکھ جھپکی اور نہ ٹیڑھی ہوئی اور دوبار رویت باری تعالیٰ کا شرف پایا۔
٭ حافظ ابوالخطاب ابن دحیہ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن ہزارہا خصائص سے نوازا گیا ان میں سے ایک دیدار الہٰی اور قرب و دنو بھی ہے‘‘۔
٭ امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
والراجح عند اکثر العلماء ان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم رای ربه بعين رأسه.
’’اکثر علماء کے نزدیک ترجیح اس بات کو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے‘‘۔
اور ’’مَازَاغَ الْبَصَرُ وَ ماَ طَغٰی‘‘ سے اس سلسلہ میں استدلال کیا ہے کہ اگر آنکھ کی بجائے محض دل سے دیکھا ہوتا تو مَازَاغَ قَلْبه کہا جاتا۔
٭ حضرت ابن عباس، حضرت کعب اور حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم کا یہی موقف ہے۔ صحابہ کی ایک کثیر جماعت، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور امام احمد بن حنبل بھی رویت کے قائل ہیں۔
٭ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ تو اس کے اثبات میں قسم کھایا کرتے تھے۔
٭ تحویل قبلہ کی طرح معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ ارشاد ہے :
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ.
(الاسراء : 60)
’’اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظّارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لیے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)‘‘۔
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : الرویا العین رویت عینی مراد ہے۔
٭ عروۃ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی اس کا اثبات فرماتے ہیں :
حضرت جمال دہلوی رحمۃ اللہ نے کیا خوب کہا ہے :
موسیٰ زہوش رفت پیکر جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسّمی
’’موسیٰ علیہ السلام تو ایک صفاتی تجلی کی تاب نہ لاسکے اور مستغرق ہوگئے اور آپ نے عین ذات کو تبسم فرماتے ہوئے دیکھا‘‘۔
٭ امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلہ میں بہترین تحقیق فرمائی ہے اور اس حوالے سے جزو مرتب فرمایا ہے۔
عروجات و معاریج
شب معراج پیش آنے والے عروجات و معاریج کے تعدد کے حوالے سے امام قسطلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
والمعاريج ليلة الاسراء عشرة، سبع الی السماوات، والثامن الی سدرة المنتهٰی، والتاسع الی المستوی الذی سمع فيه صريف الاقلام فی تصاريف الاقدار، والعاشر الی العرش والرفرف والروية وسماع الخطاب بالمکافحة والکشف الحقيقی. (المواهب اللدنيه : 2 / 344)
’’شب اسراء دس قسم کے عروجات پیش آئے، سات آسمانوں کی طرف، آٹھواں سدرۃ المنتہٰی کی طرف، نواں اس مقام کی طرف جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوح تقدیر پر قلم کے چلنے کی آواز سماعت فرمائی اور دسواں عرش معلیٰ، رفرف، بالمشافہ دیدارِ ذات اور براہ راست کلام الہٰی کے سماع کے لئے جو کہ حقیقی مکاشفہ کی صورت میں تھا‘‘۔
معراج، رات کے وقت کیوں؟
معراج کا بوقت شب پیش آنا بھی ہزارہا حکمتوں پر مبنی تھا۔ علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ بطریق اہل اشارات بحوالہ شیخ احمد زروق علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
عرفاء و صلحاء امت کے نزدیک بھی اس میں کئی اسرار تھے۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رات کی نشانیوں کو مخفی کیا اور دن کی نشانیوں کو واضح و ظاہر رکھا تو رات کا دل ٹوٹ گیا تو اسے تقویت دینے کے لئے معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات میں رکھا گیا۔ اور جب دن نے رات پر فخر کا اظہار کیا تو اسے کہا گیا اتنا ناز نہ کر، اگر دنیا کا سورج تجھ میں چمکتا ہے تو عنقریب کائنات کا سورج و آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت آسمانوں میں جلوہ گر ہوگا۔ اور پھر یہ کہ آپ کو سراج (چراغ) کہا گیا ہے اور چراغ رات کے وقت ہی جلا کرتا ہے۔
شبِ قدر اور شبِ معراج۔ ۔ افضل کون؟
اگر کوئی سوال کرے کہ شب معراج افضل ہے یا شب قدر؟ تو جواب یہ ہے جیسا کہ شیخ ابو امامۃ ابن النقاش نے کہا ہے۔
ان ليلة الاسراء افضل فی حق النبی صلی الله عليه وآله وسلم وليلة القدر افضل فی حق الامة. (المواهب : 2 / 342)
’’یقینا شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں افضل ہے اور شب قدر ان کی امت کے حق میں افضل ہے‘‘۔
امت کی معراج
شیخ ابو علی الدقاق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
ہمارے آقا علیہ السلام نے اپنی امت کو بھی معراج عطا کی ہے۔ یقینا نماز ہمارے لئے بمنزلہ معراج ہے، بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے تین مدارج تھے۔
1۔ مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک
2۔ مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہٰی
3۔ سدرۃ المنتہٰی سے قاب قوسین تک
اسی طرح ہمارے لئے بھی نماز میں تین منازل ہیں :
1۔ قیام 2۔ رکوع 3۔ سجود
سجدہ انتہائے قرب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ.
’’سجدہ کرو اور قرب حاصل کرو‘‘۔
انبیاء کی سیرِ عروجی کا عارفانہ موازنہ
آخر میں تین جلیل القدر پیغمبروں کی سیر عروجی کا عارفانہ موازنہ کرتے ہوئے امام قشیری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا :
وَقَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَيَهْدِيْنِ.
’’پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : میں (ہجرت کر کے) اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا(وہ ملکِ شام کی طرف ہجرت فرما گئے)‘‘۔ (الصفات : 99)
اور موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ہے :
وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِيْقَاتِنَا.
(الاعراف : 143)
’’اور جب موسیٰ ہماری حدود میں آئے‘‘۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْده.
(الاسراء : 1)
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو‘‘۔
امام قشیری فرماتے ہیں پہلی بات کا تعلق مقام فرق سے ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام اپنی ذاتی کاوش سے اور ہمت سے فرمارہے ہیں۔
دوسری بات کا تعلق مقام جمع سے ہے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی صفت جمع ہے کہ اس میں طالب و مطلوب دونوں کا تذکرہ ہے۔
ہمارے آقا علیہ السلام کا مقام جمع الجمع ہے کیونکہ اس میں جذب و کشش صرف ذات باری کی طرف سے ہے اور ادھر سے تفویض ہی تفویض ہے۔
تو مباش اصلا کمال این است و بس
رو درو گم شو وصال این است و بس
حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب لکھتے ہیں :
’’حضرت جنید علیہ الرحمہ سے لوگوں نے پوچھا : حضرت کیا آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھیں؟
فرمایا نہیں چاہتا۔ عرض کیا گیا : کیوں؟ فرمایا : موسیٰ علیہ السلام نے چاہا تو نہ دیکھ سکے اور ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ چاہا تو دیکھ لیا۔ اس لئے کہ ہماری خواہش ہی دیدار کے لئے حجاب اعظم ہے‘‘۔
حضور داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’لوگ اختلاف میں ہیں کہ دیکھا یا نہیں دیکھا، جنہوں نے غور اور تامل سے کام لیا وہ مراد کو پہنچے یعنی جو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے نہیں دیکھا تو وہ سر کی آنکھوں سے مراد نہیں ہے اور جو فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے وہ بچشم سر دیکھنا مراد ہے۔ اس لئے کہ ایک ان دونوں میں سے اہل ظاہر ہے اور ایک اہل باطن۔ ہر ایک سے اس کے حال کے موافق کلام فرمایا ہے‘‘۔ (کشف المحجوب : ص 531)
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
صوفیاء کرام اور عرفاء و صلحاء امت نے واقعہ معراج سے علم الاسرار اور سلوک و عرفان کے حوالے سے نہایت گرانقدر معلومات اور رہنمائی بہم پہنچائی ہے۔ جس کی روشنی میں علم و عمل کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور اہل سلوک سالکین کے لئے سیر سلوک کے نئے نئے در وَا ہوتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی شہزاد معراج میں تھا
کہ رستے کو خود رہنما دیکھ آئے
No comments:
Post a Comment