Friday, 29 April 2016

علم غیب مصطفیٰ ﷺ مستند دلائل اور اعتراضات کے جواب‎

علم غیب النبی ﷺ (از افادات قبلہ کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملتان شریف)
بعد الحمد والصلٰوۃ
حضور سید عالم ﷺ کے لئے علوم غیبیہ جزئیہ (بعض علم غیب) ثابت ہونے میں آج تک کسی مسلمان نے اختلاف نہیں کیا حتیٰ کہ مولوی اشرف علی تھانوی صاحب بھی تغییر العنوان میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ
’’یہاں اس میں کلام ہی نہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا کون انکار کر سکتا ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ کے لئے بعض علوم غیبیہ ماننا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ البتہ اہل سنت اور معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے واسطہ سے اولیاء اللہ کو بھی علوم غیب میں سے کچھ حصہ ملتا ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس کے منکر ہیں اور اہل سنت قائل ہیں۔ اہل سنت اس امر پر بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبوں خصوصاً سید المحبوبین آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو غیوبِ خمسہ میں سے بہت سے جزئیات کا علم عطا فرمایا جو شخص یہ کہے کہ کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا وہ ہمارے نزدیک بد مذہب خائب و خاسر ہے۔

اب اس مسلک کو لیجئے کہ حضور سید عالم ﷺ کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمسہ کا علم (جس میں تعیین وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے) اور روزِ اول سے آخر تک ما کان وما یکون‘‘ مندرجہ لوحِ محفوظ اور اس سے بہت زائد کا علم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ اہل سنت کے درمیان مختلف فیہ ہے لیکن جو لوگ محض بغض و عناد کی وجہ سے اس وسعت علم کا انکار کرتے ہیں اور حضور سید عالم ﷺ کی شان اقدس میں نعوذ باللہ گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں یا گستاخوں کی گستاخیوں پر مطلع ہو کر ان میں ناپاک تاویلیں کر کے ان توہینوں پر راضی ہوتے ہیں وہ اہل سنت کجا مسلمان بھی نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ سے العیاذ باللہ بغض و عناد رکھنا یا ان کی شانِ مقدس میں توہین کرنا کفر خالص ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔

حضور سید عالم ﷺ کے علم اقدس کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو روزِ اول سے روزِ آخر تک کا علم دیا اور تمام علوم مندرجہ لوح محفوظ نیز اپنی ذات و صفات کی معرفت سے متعلق بہت اور بے شمار علوم عطا فرمائے۔ جمیع جزئیات خمسہ کا علم دیا جس میں خاص وقت قیامت کا علم بھی شامل ہے۔ احوال جمیع مخلوقات تمام ماکان وما یکون کا علم عطا فرمایا لیکن باایں ہمہ حضور ﷺ کا علم عطائی ہونے کی وجہ سے حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی و قدیم۔ سرکارِ مدینہ ﷺ کا علم ہرگز اللہ تعالیٰ کے علم کے مساوی نہیں۔ علم رسول اللہ ﷺ متناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بضنین
’’اور وہ (محمد رسول اللہ ﷺ) غیب پر بخیل نہیں۔‘‘ نیز فرمایا
فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ
’’اللہ تعالیٰ اپنے غیب خاص پر سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔‘‘
وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ
’’اے حبیب ﷺ ہم نے آپ پر کتاب اتاری جو ہر شے کو بیان کرنے والی ہے۔‘‘
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا
’’اور سکھایا تجھے اے محبوب ﷺ جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا فضل ہے۔‘‘
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَائُ
’’اور نہیں ہے اللہ کہ اے لوگو تمہیں غیب پر مطلع فرمائے اور لیکن اللہ تعالیٰ برگزیدہ کر لیتا ہے غیب کی اطلاع دینے کے لئے اپنے رسولوں سے جس کو چاہتا ہے۔‘‘

بخاری شریف میں حدیث ہے:عن طارق بن شہاب قال سمعت عمر رضی اللّٰہ عنہ یقول قام فینا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامًا فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم واہل النار منازلہم حفظ ذالک من حفظہ ونسیہ من نسیہٗ۔ (بخاری شریف ج ۱ ص ۴۵۳)
’’طارق ابن شہاب نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔ فرمایا، حضور ﷺ ممبر اقدس پر ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہمیں ابتدائے آفرینش عالم سے خبر دینی شروع فرمائی یہاں تک کہ جنتی جنت میں داخل ہو گئے اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو گئے۔ اس بیان مبارک کو جس نے (ـجتنا) یاد رکھا، یاد رکھا اور اسے جو بھول گیا وہ بھول گیا۔‘‘

اسی حدیث کی شرح میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عینی شرح بخاری ج ۷ ص ۲۱۴ اور ص ۲۱۵ پر ارقام فرماتے ہیں
والغرض انہ اخبر عن المبدأ والمعاش والمعاد جمیعا
’’غرض یہ کہ حضور سرور عالم ﷺ نے مخلوقات کے مبدأ اور معاش اور معاد سب کی خبر دی۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں
وفیہ دلالۃ علٰی انہ اخبر فی المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائہا الٰی انتہائہا وفی ایراد ذٰلک کلہ فی مجلس واحد امر عظیم من خوارق العادۃ وکیف وقد اعطی جوامع الکلم مع ذٰلک انتہٰی۔
’’اور اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک ہی مجلس میں مخلوقات کے تمام احوال کی خبر دی۔ ابتداء سے انتہا تک اور ایک ہی مجلس میں اس کا وارد فرمانا خوارق عادت سے امر عظیم ہے اور کیوں نہ ہو؟ اس کے باوجود کہ حضور ﷺ جوامع الکلم بھی دئیے گئے ہیں۔‘‘

ایسی ہی ایک حدیث مسلم شریف جلد ثانی ص ۲۳۳ پر حضرت عمرو بن الاخطب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ نے نمازِ فجر کے بعد سے سورج غروب ہونے تک تمام گزشتہ اور آئندہ کے حالات بیان فرما دئیے۔

مشکوٰۃ شریف ص ۷۰۲ پر بروایت دارمی و ترمذی دو حدیثیں مروی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے مبارک سینہ میں پائی۔ پس میں نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’میرے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز کو پہچان لیا۔‘‘ حدیث مبارکہ ’’فعلمت ما فی السمٰوٰت والارض‘‘ کے تحت حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں

پس دانستم ہر چہ در آسماں ہا وہرچہ در زمین بود عبارت است از حصول تمامۂ علوم جزوی و کلی واحاطۂ آں
’’پس جان لیا میں نے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا۔ یہ عبارت ہے تمام علوم جزوی و کلی کے حاصل ہونے اور اس کے احاطہ سے۔‘‘

پھر یہی حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ شریف میں ارقام فرماتے ہیں ص ۱۴۴
ہرچہ در دنیا است از زمان آدم تا اوان نفخہ اولیٰ بروے ﷺ منکشف ساختند، تاہم احوال اورا از اول تا آخر معلوم گردید یارانِ خود را نیز بعضے ازاں احوال خبرداد
’’جو کچھ دنیا میں ہے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے نفخۂ اولیٰ کے وقت تک حضور ﷺ پر سب منکشف فرما دیا۔ یہاں تک کہ تمام احوال اول سے آخر تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہو گئے اور اپنے صحابہ کو بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان میں سے بعض احوال کی خبر دی۔
نیز فرماتے ہیں ’’وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ط‘‘
ووے ﷺ دانا است برہمہ چیز از شیونات ذاتِ الٰہی و احکام صفاتِ حق و اسماء و افعال و آثار و بجمیع علوم ظاہر و باطن و اول و آخر احاطہ نمود و مصدوق فوق کل ذی علم علیم شدہ علیہ من الصلٰوۃ افضلہا ومن التحیات اتمہا واکملہا۔
’’اور حضور ﷺ جاننے والے ہیں تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی شانوں سے اور احکام صفات حق و اسماء و افعال اور آثار سے اور تمام علوم ظاہر و باطن، اول آخر سب کا حضور نے احاطہ کر لیا اور فوق کل ذی علم علیم کا مصداق ہو گئے۔ ان پر افضل ترین صلوٰۃ اور اتم و اکمل ترین تحیات ہوں۔ (آمین)

آیۂ کریمہ ’’وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰؤُلاَئِ شَہِیْدًا‘‘ کے تحت تفسیر نیشا پوری میں مرقوم ہے
لان روحہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شاہد علی جمیع الارواح والقلوب والنفوس لقولہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اول ما خلق اللّٰہ روحی
یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے حبیب ہم ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی روح انور تمام عالم میں ہر ایک کی روح، ہر ایک کے دل ہر ایک کے نفس کا مشاہدہ فرماتی ہے۔ (کوئی روح، کوئی دل، کوئی نفس ان کی نظر اقدس سے مخفی نہیں ہے اس لئے تو یہ سب پر گواہ بنا کر لائے جائیں گے کہ شاہد کے لئے مشاہدہ ضروری ہے) اس مشاہدہ کا سبب یہ ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روحِ اقدس کو پیدا فرمایا۔

جب حضور ﷺ سب سے پہلے پیدا ہوئے تو باقی جو کچھ ہوا وہ سب حضور ﷺ کے روبرو ہوا۔

لہٰذا ان سے کسی چیز کا پوشیدہ رہنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فیوض الحرمین میں فرماتے ہیں
العارف ینجذب الی حین الحق فیصیر عبد اللّٰہ فتجلی لہٗ کل شئ
’’(حضور سید عالم ﷺ جو سید العارفین ہیں، کی شانِ اقدس کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جبکہ) عارف کا یہ حال ہے کہ جب وہ بارگاہِ حق سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف کھچ جاتا ہے اور مقرب بارگاہِ ایزدی قرار پاتا ہے تو اس کے لئے ہر شے روشن ہو جاتی ہے۔‘‘
مواہب اللدنیہ جلد اول ص ۵۰ پر امام قسطلانی فرماتے ہیں
وقال بعضہم لیس فی الاٰیۃ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْح قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) دلالۃ علٰی ان اللّٰہ تعالٰی لم یطلع نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی حقیقۃ الروح بل یحتمل ان یکون اطلعہ اللّٰہ ولم یامرہ ان یطلعہم وقد قالوا فی علم الساعۃ نحو ہٰذا واللّٰہ اعلم۔ انتہٰی
’’اور بعض علماء اعلام نے فرمایا کہ آیت کریمہ (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ) میں اس بات پر دلالت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو روح کی حقیقت پر مطلع نہیں فرمایا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مطلع فرمایا اور آپ کو اس بات کا امر نہ فرمایا ہو کہ آپ دوسروں کو مطلع فرمائیں اور علم قیامت کے متعلق بھی انہوں نے ایسا ہی کہا ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دے کر اس کے بتانے کا حکم نہ فرمایا ہو۔‘‘

امام قرطبی شارح مسلم اور امام قسطلانی شارح بخاری اور ملا علی قاری شارح مشکوٰۃ نے اپنی شروح میں ارقام فرمایا اور امام قرطبی کی عبارت امام بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری نے عینی جلد اول ص ۳۳۷ پر نقل فرمائی
فمن ادعٰی علم شیء منہا غیر مسند الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان کاذبا فی دعواہ
’’یعنی مغیبات خمس میں سے جو کوئی کسی شے کے علم کا دعویٰ کرے اور اس علم کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت نہ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہو گا۔‘‘

اس عبارت سے صاف واضح ہے کہ حضور ﷺ پانچوں غیب جانتے ہیں اور اذن الٰہی سے اپنے جس غلام کو چاہیں بتا سکتے ہیں۔ جب ہی تو حضور ﷺ کی تعلیم سے ان کے علم کا دعویٰ کرنے والا کاذب ہونے سے بچے گا۔

حافظ الحدیث سیدی احمد مالکی غوث الزماں سید شریف عبد العزیز مسعود حسنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا ملفوظ شریف روایت کرتے ہیں

ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یخفی علیہ شیء من الخمس المذکورۃ فی الاٰیۃ الشریفۃ وکیف یخفی علیہ ذالک والاقطاب السبعۃ من امتہ الشریفۃ یعلمونہا وہم دون الغوث فکیف بالغوث فکیف بسید الاولین والاٰخرین الذی ہو سبب کل شیء ومنہ کل شئ
’’یعنی آیۂ کریمہ میں جو مغیبات خمس مذکور ہیں ان میں سے کوئی شے حضور ﷺ پر مخفی نہیں اور یہ چیزیں حضور ﷺ پر کیسے مخفی رہ سکتی ہیں حالانکہ حضور کی امت شریفہ کے سات قطب ان مغیباتِ خمس کو جانتے ہیں حالانکہ وہ غوث سے مرتبہ میں نیچے ہیں۔ پھر غوث کا کیا کہنا۔ پھر حضور سید عالم ﷺ کا کیا کہنا جو تمام اولین و آخرین سارے جہان کے سردار ہیں اور ہر چیز کے سبب ہیں اور ہر چیز انہی سے ہے۔
علامہ شیخ احمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر صاوی جلد ۴ ص ۲۴۵ پر آیۂ کریمہ ’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا‘‘ کے تحت ارقام فرماتے ہیں
وہٰذا قبل اعلامہٖ بوقتہا فلاینا فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یخرج من الدنیا حتی اعلمہ اللّٰہ بجمیع مغیبات الدنیا والاٰخرۃ ولٰکن امر بکتم اشیاء منہا کما تقدم
’’یہ آیت کریمہ حضور ﷺ کو وقت قیامت کا علم دینے سے پہلے ہے۔ لہٰذا آیت کریمہ کا مضمون اس مسلک کے خلاف ہرگز نہیں کہ حضور ﷺ اس وقت تک دنیا سے تشریف نہیں لے گئے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دنیا و آخرت کے تمام مغیبات نہ بتا دئیے لیکن ان میں سے بعض چیزوں کے چھپانے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا۔ جیسا کہ ہماری اسی کتاب میں بار بار اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔‘‘

علامہ عشاوی کتاب مستطاب عجب العجائب شرح صلاۃ حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
قیل انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اوتی علمہا (ای الخمس) فی اٰخر الامر لکنہ امر فیہا بالکتمان وہٰذا القول ہوالصحیح
’’کہا گیا نبی ﷺ کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہو گیا مگر ان کے چھپانے کا حکم تھا اور یہی قول صحیح ہے۔‘‘

قرآن و حدیث و ارشاداتِ علمائے مفسرین و محدثین و حضرات عارفین سے ہم نے اپنا مسلک ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺ کو تمام مخلوقات اور ساری کائنات کے جمیع احوال کا علم عطا فرما دیا اور تصریحاتِ علمائے اسلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ قرآن و حدیث کے نصوص میں جو عموم ہے اس میں مغیباتِ خمس شامل ہیں اور صحیح مسلک یہی ہے۔

اب ان آیات کو سامنے رکھ لیجئے جس میں غیر اللہ سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے۔ اپنے بیان میں ہم اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علوم غیبیہ غیر متناہی ہیں اور حضور سرورِ عالم ﷺ کے علوم متناہی۔ ظاہر ہے کہ متناہی غیر متناہی کا بعض ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے تمام علوم جمیع علوم غیر متناہیہ کا بعض ہیں۔

یاد رکھیئے! جب آپ ہمارے کلام میں حضور ﷺ کے علم اقدس کے متعلق لفظ ’’کُل‘‘ دیکھیں تو اس سے کل غیر متناہی نہ سمجھیں بلکہ کل مخلوقات (جو متناہی ہے) اور اس کے علاوہ معرفت ذات و صفات کا علم کہ وہ بھی بالفعل متناہی ہے، ہماری مراد ہو گا۔ ورنہ علم الٰہی کی بہ نسبت ہم حضور ﷺ کے علم کو ’’کُل‘‘ نہیں کہتے کیونکہ علم الٰہی محیط الکل اور غیر متناہی ہے۔

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور سید عالم ﷺ کے علوم کل غیر متناہی کا بعض ہیں تو بعض علم غیب کو رسول اللہ ﷺ کے لئے ثابت کرنے میں ہمارا اور دیوبندیوں کا اختلاف نہ رہا کیونکہ وہ بھی بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ثابت کرتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کا بعض بہت ہی کم ہے اور ہمارا بعض ان کے مقابلہ میں بہت زیادہ لیکن مطلق بعض علوم غیبیہ حضور ﷺ کے لئے ماننے میں ہم اور وہ دونوں شریک ہیں جیسا کہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی عبارت تغییر العنوان سے ہم عرض کر چکے ہیں۔

اس تفصیل کو سمجھ لینے کے بعد گزارش ہے کہ آیات نفی علم غیب جس طرح ہمارے مسلک کے خلاف ہیں بالکل اسی طرح دیوبندیوں کے بھی خلاف ہیں۔ اپنے مذہب کو صحیح کرنے کے لئے جو جواب دیوبندی دیں گے ہماری طرف سے بھی وہی جواب سمجھ لیں۔

اب اس جواب کی تفصیل سن لیجئے۔ آیاتِ نفی علم غیب نفی علم بالاستقلال یا علم محیط غیر متناہی پر محمول ہیں ورنہ آیاتِ قرآنیہ میں تعارض ہو گا کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ وہ (محمد ﷺ) علم غیب پر بخیل نہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو اپنے غیب خاص پر مطلع فرماتا ہے اور تمہیں غیب پر اطلاع نہیں دیتا لیکن اطلاع علی الغیب کے لئے اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے اور دوسری جگہ یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیب کا علم بھی کسی کو نہیں۔ یہ صاف تعارض و تناقض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام ایسے اختلاف اور تعارض و تناقض سے پاک ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اس میں اختلاف و تناقض نہیں پایا جاتا۔

قال اللّٰہ تعالٰی وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا
’’اگر قرآن مجید غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘

اب ہم اپنے اس دعوے پر کہ آیات نفی میں علم استقلالی اور علم محیط الکل حقیقی کی نفی غیر اللہ سے کی گئی ہے، مفسرین و علماء راسخین کی تصریحات پیش کرتے ہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے
لا اعلم الغیب فیکون فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ جو علم غیب بالاستقلال (بذاتِ خود) ہو وہ اللہ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ تفسیر انموذج جلیل میں ہے
معناہ لا یعلم الغیب بلا دلیل الا اللّٰہ اوبلا تعلیم الا اللّٰہ او جمیع الغیب الا اللّٰہ۔
’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کو بلا دلیل و بلا تعلیم یا جمیع غیب غیر متناہی کو محیط ہونا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ جامع الفصولین میں ہے
یجاب بانہ یمکن التوفیق بان المنفی ہو العلم بالاستقلال لا العلم بالاعلام والمنفی ہی المجزوم بہ لا المظنون۔ الخ
یعنی آیات نفی علم غیب عن غیر اللہ تعالیٰ و آیات ثبوت علم غیب بغیر اللہ تعالیٰ میں اس طرح توفیق (تطبیق) ممکن ہے کہ آیات نفی علم بالاستقلال یعنی علم ذاتی پر محمول ہیں ان کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا یا وہ علم جس کے ساتھ جزم کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور جو ظنی ہو وہ بغیر وحی و الہام کے غیر اللہ کو بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظن سے پاک ہے اور غیب کا یقینی علم اس کی طرف سے وحی و الہام کے بغیر ناممکن ہے۔

امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفاء شریف میں اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں

(ہٰذہ المعجزۃ) ... فی اطلاعہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الغیب (معلومۃ علی القطع) بحیث لا یمکن انکارہا او التردد فیہا لاحد من العقلاء ... لکثرۃ رواتہا واتفاق معانیہا علی الاطلاع علی الغیب وہٰذا لا ینا فی الاٰیۃ الدالۃ علی انہ لا یعلم الغیب الا اللّٰہ وقولہ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ فان المنفی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باعلام اللّٰہ تعالٰی لہ فامر متحقق لقولہٖ تعالٰی فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ط
یعنی ’’حضور ﷺ کا معجزہ علم غیب یقینا ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردد کی گنجائش نہیں کہ اس کے ثبوت میں احادیث کثیرہ وارد ہوئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ آیت کہ اے اللہ کے رسول کہہ دو اگر میں علم غیب جانتا تو بہت خیر جمع کر لیتا۔ اس قسم کی تمام آیتیں حضور ﷺ کے معجزہ علم غیب کے اس لئے منافی نہیں کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے ہو اور اللہ تعالیٰ کے بتانے سے نبی ﷺ کو علم غیب ملنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔‘‘

رد المحتار میں صاحب ہدایہ کی مختارات النوازل سے منقول ہے۔
لوادعی الغیب بنفسہٖ یکفر
’’اگر کوئی شخص بذاتِ خود (علم) غیب حاصل کر لینے کا دعویٰ کرے تو کافر ہے۔‘‘
بعض لوگ حضور ﷺ کے علم غیب کی نفی میں فتاویٰ قاضی خان کی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے نکاح کا گواہ بنا کر نکاح کیا تو وہ کافر ہے اس لئے کہ اس نے حضور ﷺ کے لئے علم غیب مانا۔ اس کا جواب شامی میں اس طرح مذکورہے۔ (ص ۳۸۰ ج ۲)

قال فی التاتار خانیۃ وفی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لا یکفر لان الاشیاء تعرض علٰی روح النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وان الرسل یعرفون بعض الغیب وقال اللّٰہ تعالٰی عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ا ھ قلت بل ذکروا فی کتب العقائد ان من جملۃ کرامات الاولیاء الاطلاع علٰی بعض المغیبات وردوا علی المعتزلۃ المستدلین بہٰذہ الاٰیۃ علٰی نفیہا۔
یعنی ’’فتاویٰ تاتار خانیہ اور حجت میں فرمایا کہ ملتقط میں ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو نکاح میں گواہ بنانے والا کافر نہ ہوگا اس لئے کہ اشیاء حضور ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں پیش کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو (علوم الٰہیہ غیر متناہیہ کا) بعض علم (متناہی) حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔ (علامہ شامی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ ائمہ اہل سنت نے کتب عقائد میں ذکر فرمایا کہ بعض علم غیب کا ہونا اولیاء اللہ کی کرامت سے ہے (اور معتزلہ نے اس آیت سے اولیاء کے علم غیب کا انکار کیا) ائمہ اہل سنت نے ان کا رد فرمایا کہ آیت کریمہ میں غیب خاص کا ذکر ہے جو غیر رسول کو نہیں دیا جاتا۔ یا یوں کہیئے کہ بواسطۂ رسول کسی کو علم غیب حاصل ہونے کی نفی آیۂ کریمہ میں نہیں ہے۔‘‘

تفسیر جمل شرح جلالین اور تفسیر خازن میں ہے
المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اللّٰہ تعالٰی
یعنی ’’آیۂ کریمہ میں جو ارشاد ہوا کہ فرما دو میں غیب نہیں جانتا اس کے معنی یہ ہیں کہ بے خدا کے بتائے نہیں جانتا۔‘‘
یہاں تک ہم نے ائمہ تفاسیر اور علماء راسخین معتمد علیہم کی تصریحات نقل کر کے ثابت کر دیا کہ نفی علم غیب کی آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر بتائے کسی کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا۔ نیز یہ کہ کل علم غیر متناہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے وہ کسی کے لئے ثابت نہیں اور آیاتِ ثبوت علم غیب کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے اللہ کے رسولوں کو علم غیب حاصل ہے۔ نیز یہ کہ انبیاء علیہم السلام کا علم خواہ وہ کائنات کا ذرہ ذرہ اور مخلوقات کے جمیع احوال کو محیط ہو (جیسا کہ حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا علم ہے) لیکن اس کے باوجود بھی وہ متناہی بالفعل اور محدود ہے۔ علم الٰہی کے مساوی ہرگز نہیں ہو سکتا۔

اس کے بعد یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ حضور ﷺ کا خطاب جب عوام کی طرف ہوتا ہے تو ان سے حضور ان کی عقول کے مطابق ہی کلام فرماتے ہیں۔ اس لئے اس کو ظاہر پر محمول کرنا اور دوسرے دلائل سے قطع نظر کر لینا مرد عاقل کے شایانِ شان نہیں۔ تفسیر نیشا پوری میں ہے

قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ لم یقل لَیْسَ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ لیعلم ان خزائن اللّٰہ وہی العلم بحقائق الاشیاء وماہیاتہا عندہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قولہ ارنا الاشیاء کما ہی ولٰـکنہ یکلم الناس علٰی عقولہم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم وہٰذا مع انہ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمت ما کان وما یکون مختصرا۔
یعنی ’’ارشاد ہوا کہ اے نبی فرما دو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں (بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خزانے ہیں) تاکہ معلوم ہو جائے اللہ تعالیٰ کے خزانے حضور اقدس ﷺ کے پاس ہیں (مگر حضور لوگوں سے ان کی سمجھ کے قابل باتیں بیان فرماتے ہیں) اور وہ خزانے کیا ہیں؟ ’’تمام اشیاء کی ماہیئت و حقیقت کا علم‘‘ حضور ﷺ نے اس کے ملنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ پھر فرمایا

’’اور میں غیب نہیں جانتا‘‘ یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے۔ ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں کہ مجھے ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ملا۔ یعنی جو کچھ گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے۔ (انتہیٰ)

علامہ نیشا پو ری کے اس نورانی بیان سے منکرین کے واہی شکوک و اوہام کا اچھی طرح قلع قمع ہو گیا۔ والحمد للّٰہ علٰی احسانہٖ۔

اس مضمون کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ منکرین کے بعض شبہات جو اس مسئلہ میں وہ پیش کرتے ہیں خوب تفصیل سے زائل کئے جاتے۔ لیکن قصداً اختصار کے باوجود مضمون طویل ہو گیا اس لئے بسط و تفصیل کی گنجائش نہیں مگر اجمالاً ان کے تمام شکوک کا ازالہ مختصر عبارت میں کرتا ہوں۔ اگر غور سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ العزیز یہ اجمال ہی تفصیل کا کام دے گا۔

پہلا شبہ یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کو تمام مخلوق کے جمیع احوال کا علم تھا۔ بعض حالات میں حضور ﷺ نے لاعلمی کا اظہار کیوں فرمایا؟ یا ایسے کام کیوں کئے جن سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے؟

مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے معاملہ میں حضور ﷺ نے لاعلمی ظاہر فرمائی۔ یا حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہار کا واقعہ عدم علم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح خیبر میں ایک یہودیہ کا بکری کے شانہ میں زہر ملا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دینا اور حضور کا اس میں سے کچھ کھا لینا، اسی طرح ستر قاریوں کا کفار کے ساتھ بھیجنا اور ان کی شہادت کا واقعہ وغیرہ جزئیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں نہیں۔

ان تمام اعتراضات کے جوابات یہ ہیں
۱۔ اول یہ کہ ہم حضور ﷺ کے لئے جو ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم ثابت کرتے ہیں وہ تدریجاً ہے اس لئے جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ فلاں بات کا علم حضور کو آخر عمر شریف تک نہ دیا گیا اس وقت تک ہمارا دعویٰ باطل ہو نہیں سکتا۔

رہا قیامت کا واقعہ جس میں مذکور ہے کہ جماعت مرتدین کو حضور ﷺ اصیحابی اصیحابی فرما کر بلائیں گے اور اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور کو قیامت کے دن بھی بعض باتوں کا علم نہ ہو گا۔ یہ عجیب قسم کا شبہ ہے جو دلیل مثبت علم ہو اس کو نفی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ غور فرمایئے یہ واقعہ قیامت کے دن ہو گا لیکن حضور ﷺ اس کو پہلے بیان فرما رہے ہیں ’’علم نہ تھا تو بیان کیسے فرمایا؟‘‘

رہی یہ بات کہ پھر حضور سے یہ کیوں کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم شریف جلد ثانی مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص ۲۴۹ میں منکرین کی یہی پیش کردہ حدیث بایں الفاظ موجود ہے۔

فیقال اما شعرت ما عملوا بعدک

’’حضور ﷺ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کام کئے۔‘‘
’’ما شعرت‘‘ جملہ منفیہ پر ہمزہ استفہام انکاری داخل ہوا۔ نفی کا انکار اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا حدیث مبارکہ سے مرتدین کے اعمال کا علم حضور سید عالم ﷺ کے لئے ثابت ہوا۔ چونکہ واقعہ ایک ہے، صرف اس کی روایتوں میں تعدد ہے اس لئے جب ایک روایت میں ہمزئہ استفہام مذکور ہو گیا تو ہر روایت میں اس کے معنی ملحوظ رہیں گے اور جس روایت میں وہ مذکور نہیں وہاں محذوف ماننا پڑے گا۔ مثلاً ’’انک لا تدری‘‘ والی آیت میں ہمزہ مذکور نہیں تو یہاں محذوف مانیں گے اور اصل عبارت یوں ہو گی کہ ’’ئانک لا تدری‘‘ کیا آپ نہیں جانتے؟ … ورنہ حدیثوں میں تعارض ہو گا کیونکہ ہمزہ استفہام کا محذوف ہونا تو صحیح ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں محذوف ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقولہ ’’ہٰذا ربی‘‘ میں مفسرین نے ’’اہٰذا ربی‘‘ فرمایا ہے یعنی کیا یہ میرا رب ہے لیکن اس کا زائد ہونا صحیح نہیں۔

اگر ’’ئانک لا تدری‘‘ والی روایت میں ہمزہ استفہام محذوف نہ مانیں تو ’’اما شعرت‘‘ والی روایت میں ہمزہ کو مخدوف ماننا پڑے گا جو کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً جبکہ حضور سید عالم ﷺ کے کمال علمی کی نفی ہوتی ہو۔

پھر یہ کہ احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو اپنی امت کے تمام اچھے اور برے اعمال کا علم ہے۔ ترمذی شریف میں حدیث وارد ہے
عرضت علی اعمال امتی حسنہا وقبیحہا
’’میری امت کے تمام اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے‘‘

اب غور فرمایئے کہ مرتدین بھی حضور ﷺ کی امت میں داخل تھے۔ ان کا مرتد ہونا عمل قبیح ہے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالٰی منہ۔

جب امت کے تمام اعمال حسنہ اور قبیحہ حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے تو ان کا ارتداد جو عمل قبیح ہے وہ بھی ضرور پیش ہوا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے عملوں کا علم نہ ہونا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ حدیث مذکور کے یہی معنی صحیح ہیں کہ اے حبیب ﷺ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا عمل کئے۔ آپ کو معلوم تو ہے پھر بھی آپ غلبۂ رحمت کے حال میں ان کو اپنی طرف لے جا رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جب کریم کو سخاوت کرنے کے لئے بٹھا دیا جائے تو اس وقت اس کے دریائے سخا میں ایسا جوش ہوتا ہے کہ دشمن کی دشمنی کی طرف اس کی توجہ نہیں رہتی اور وہ بے اختیار اپنے کرم کا دامن اس کی طرف پھیلا دیتاہے۔ جب اسے توجہ دلائی جائے تو اس وقت متوجہ ہوتا ہے۔‘‘

یہاں بالکل یہی معاملہ ہے۔

ساقیٔ کوثر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حوضِ کوثر پر رونق افروز ہیں۔ اپنے غلاموں کو چھلکتے ہوئے جام پلا رہے ہیں۔ مرتدین کی جماعت ادھر سے گزرتی ہے۔ حضور کو ان کے عملوں کا پورا پورا علم ہے مگر اس وقت دریائے جود و سخا موجزن اور شانِ رحمت کا ظہور اتم ہے اس لیے ان کی بداعمالیوں کی طرف خیال مبارک جاتا ہی نہیں اور اپنے لطف عمیم اور کرم جسیم کے غلبہ حال میں بے اختیار فرما دیتے ہیں، اصیحابی اصیحابی۔

لیکن جب توجہ دلائی جاتی ہے کہ ’’اما شعرت ما احدثوا بعدک‘‘ پیارے! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا؟

پس فوراً توجہ مبارکہ ان کی بد اعمالیوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور ارشاد فرماتے ہیں ’’سحقا سحقا‘‘ انہیں دور لے جاؤ، دور لے جاؤ!

طالب حق کے لئے اس حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے کے لئے یہ بیان کافی ہے۔

منکرین کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزِ قیامت شفاعت کے موقع پر جب میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور طویل سجدہ کروں گا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے چند محامد مجھے تعلیم فرمائے گا جو اس وقت مجھے معلوم نہیں۔ معلوم ہوا کہ حضور کو تمام ’’ما کان وما یکون‘‘ کا علم نہ تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حدیث پاک میں حضور ﷺ نے حقیقت علم کی نفی نہیں فرمائی۔ ارشاد فرمایا ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ وہ محامد اس وقت میرے ذہن اقدس میں حاضر نہیں۔ کسی بات کا ذہن میں حاضر نہ ہونا عدم علم کو مستلزم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کا علم ہو مگر کسی وقت اس کا استحضار نہ ہو اور اگر ’’لا تحضرنی الاٰن‘‘ کے یہی معنی کئے جائیں کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تو اس سے یہ کب لازم آیا کہ وقت وصال تک ان کا علم نہ ہو گا۔ بہرنوع اس حدیث سے بھی ہمارے مسلک پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

رہا یہ واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت کے علم کا تو بخاری شریف میں اسی حدیث افک میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘
’’خدا کی قسم! میں نے اپنے اہل مقدس پر بجز خیر کے کچھ نہیں جانا۔‘‘

اس واقعہ میں حضور ﷺ کا حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے توجہ کو کم کر دینا لا علمی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس تہمت کے بعد غیرتِ محمدیہ ﷺ کا تقاضا یہ تھا کہ جب تک یہ معاملہ اللہ کی طرف سے صاف نہ ہو اس وقت تک سرکار توجہ میں کمی فرمائیں تاکہ کسی دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ حضور ﷺ کو اس قسم کی تہمت سے کوئی نفرت نہیں۔

حضور ﷺ کا غمگین ہونا بھی اس وجہ سے تھا کہ حضور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بے گناہی کا یقین رکھتے تھے۔ صدمہ تو یہی تھا کہ بے گناہ پر تہمت لگی۔ اگر ان کی بے گناہی کا علم نہ ہوتا تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہوتا۔ اگر آج ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص کو بے گناہ پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو ہمیں ضرور صدمہ ہو گا اور اگر اس کی بے گناہی کا علم نہ ہو تو اس قدر صدمہ بھی نہ ہو گا۔

حضور ﷺ نے حضرت صدیقہ کے معاملہ کی تفتیش خود علم حاصل کرنے کے لئے نہیں فرمائی بلکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی کو ان مسلمانوں کے ذہن میں قائم کرنے کے لئے فرمائی جو مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے والوں میں شامل ہو گئے تھے۔ جب ان کے دلوں میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے بدگمانی راسخ ہو چکی تھی تو بمقتضائے فطرتِ بشریہ یہ بات قرین قیاس تھی کہ حضور ﷺ ان سے بذاتِ خود صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی پر زور دیں تو شاید وہ سرکار کے حق میں بھی بدگمان ہو جائیں اور یہ خیال کریں کہ ان کی عزت کا معاملہ ہے اس لئے اس طرح فرما رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ان پر اس معاملہ میں زور نہیں دیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ ہمارے حق میں بدگمان ہو کر کفر و ارتداد تک پہنچ جائیں۔ یہاں یہ شبہ کرنا کہ حضور ﷺ کا مقولہ ’’واللّٰہ ما علمت علٰی اہلی الاخیرا‘‘ ان اصحاب نے بھی سنا ہو گا پھر بھی یہ اپنی بدگمانی پر قائم رہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اول تو یہ ثابت نہیں کہ بدگمانی کرنے والے صحابہ نے یہی جملہ حضور ﷺ سے سنا ہو اور اگر بالفرض سنا بھی ہو تو اپنے قیاس سے اس کو محض حسن ظن پر محمول کیا ہو گا۔ بہر حال اس تحقیق و تفتیش کی حکمت صرف یہ تھی کہ اسباب عادیہ مالوفہ طبائع بشریہ کے ذریعہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوزیشن کو بدگمانی کرنے والے مسلمانوں کے ذہن میں بھی واضح اور صاف کر دیا جائے اور منافقین پر بھی حجت قائم کر دی جائے کہ دیکھو اتنی تحقیق کے بعد بھی کوئی برائی ظاہر نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان میں کوئی برائی پائی ہی نہیں جاتی۔

ایک مہینہ یا اس سے زائد تک اس معاملہ کو طول دینے کی حکمت بھی یہی تھی کہ اگر جلدی سے معاملہ ختم کر دیا جاتا تو لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات رہ جاتے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے حکمت عملی کے مطابق معاملہ کو طول دیا کہ جس طرح چاہو اس طویل عرصہ میں واقعات کی چھان بین کر لو۔ جب کوئی برائی موجود ہی نہیں تو ظاہر کہاں سے ہو گی؟
دیکھئے اگر کسی پر تہمت لگائی جائے کہ تم نے ہمارے سو روپے چرا لئے ہیں اور وہ شخص متہم کو اپنے کپڑوں کی تلاشی دینے لگے اور اپنے گھر اور سامان کی ایک ایک چیز لا کر دکھائے اور لوگوں سے دریافت کرائے کہ بھائی تم نے میرے پاس سو روپے دیکھے ہیں، تمہیں علم ہے بھائی بتاؤ میں نے کبھی چوری کی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کیا اس تحقیق کرنے والے کو اپنا حال معلوم نہیں؟ کیا یہ خود اپنا علم حاصل کرنے کے لئے معاملہ کو طول دے کر اس کی تحقیق کر رہا ہے؟

نہیں نہیں! بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اچھی طرح اس معاملہ کی تحقیق نہ کرائی گئی تو بے گناہی واضح نہ ہو گی اور لوگوں کے دلوں میں میری طرف سے بدگمانی باقی رہے گی۔

بالکل یہی معاملہ یہاں تھا۔ سرورِ کائنات ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی کا یقین تھا مگر ان حکمتوں کے پیشِ نظر بے توجہی اور تحقیق و تفتیش کرائی گئی اور معاملہ کو طول دیا گیا تاکہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی ہر طریقہ سے ظاہر ہو جائے۔ اسی حکمت کے تحت ان کی برأت قرآن مجید میں تاخیر سے نازل ہوئی۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)! اگر تم سے کوئی گناہ ہوا ہے تو تم توبہ کر لو۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ حضور خود علم حاصل کرنے کے لئے یہ بات نہیں فرما رہے بلکہ دوسروں کے اذہان کو میرے حق میں بدگمانی سے پاک فرمانے کے لئے یہ کلماتِ طیبات ارشاد ہو رہے ہیں لہٰذا جواب میں جمع کے صیغے بولتی ہیں اور ایسے الفاظ استعمال فرماتی ہیں جن کے مخاطب حقیقتاً حضور ﷺ ہو ہی نہیں سکتے۔ فرماتی ہیں

انی واللّٰہ لقد علمت لقد سمعتم ہٰذا الحدیث حتی استقرفی انفسکم وصدقتم بہٖ فلئن قلت لکم انی بریئۃ لا تصدقونی ولئن اعترفت لکم بامر واللّٰہ یعلم انی منہ بریئۃ تصدقنی فواللّٰہ لا اجدلی ولکم مثلا الا ابا یوسف حین قال فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔(بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۵۹۶)
’’خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تم لوگوں نے یہ بات سنی ہے اور تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اگر میں تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں تو تم ہرگز میری تصدیق نہ کرو گے اور اگر تمہارے سامنے کسی ایسے کام کا اقرار کر لوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو مجھے سچا مان لو گے۔ تو خدا کی قسم! جب میرے اور تمہارے لئے سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اور مثل نہیں جب انہوں نے یہ فرمایا کہ ’’فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ‘‘

خدا کے لئے ان الفاظ پر غور فرمایئے کہ یہ بات تمہارے دلوں میں قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ کیا اس کلام کے مخاطب حضور ﷺ ہو سکتے ہیں؟ کیا سرورِ عالم ﷺ کے قلب اطہر میں نعوذ باللہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برائی بیٹھ چکی تھی؟ کیا حضور ﷺ نے اس کی تصدیق فرما دی تھی؟ جو لوگ اس معاملہ میں حضور ﷺ کے علم کے منکر ہیں وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضور ﷺ نے تو قسم کھا کر ارشاد فرمایا تھا کہ ’’واللّٰہ ما علمت علی اہلی الاخیرا‘‘ اس کلام کو اگر حسن ظن پر بھی محمول کر دیا جائے تب بھی حضرت عائشہ کے متعلق حضور ﷺ کا حسن ظن ثابت ہو گا۔ حسن ظن کے ساتھ ان کی برائی کا دل میں بیٹھ جانا اور اس کی تصدیق کر دینا کیسے جمع ہو سکتا ہے؟

معلوم ہوا کہ حضرت صدیقہ نے اگرچہ بظاہر حضور کو مخاطب بنایا مگر اپنے اس خطاب کا رُخ انہی لوگوں کی طرف رکھا جو منافقین کے بہکانے میں آ کر مسلمان ہونے کے باوجود تہمت لگانے میں مبتلا ہو گئے تھے اور ان کے دل میں حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے برائی بیٹھ گئی تھی اور انہوں نے تہمت لگا کر اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ اگر اس کلام کے مخاطب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں تو نعوذ باللہ حضور بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوں گے کیونکہ کسی پر برائی کی تصدیق کرنا ہی تہمت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ اس سے پاک ہیں۔

تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک حدیث نقل کی۔
ما رفث امرأۃ نبی قط
’’کسی نبی کی بیوی نے کبھی بے حیائی کا کام نہیں کیا۔‘‘

حضرت ابن عباس ایسی بات جو عقل سے وراء الوراء ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتے۔ یقینا حضور ﷺ سے سن کر فرما رہے ہیں۔ لہٰذا حدیث حکماً مرفوع ہوئی۔

اس حدیث میں حضور سرورِ عالم ﷺ نے ایک ایسے امر کا بیان فرمایا جو لوازماتِ نبوت سے ہے اور وہ یہ کہ کسی نبی کی بیوی بدکار نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی بیوی بدکار ہو وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوتا ہے اور اس کی بات بالکل حقیر ہوتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے شخص کی بات کا کوئی وزن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ کہ اگر اس میں ذرا بھی حیا کا مادہ ہے تو وہ لوگوں کے سامنے منہ نہیں دکھاسکتا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام ہدایت خلق اور پیغاماتِ ربانی پہنچانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں۔ نعوذ باللہ وہ ذلیل نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو ذلت کے اسباب سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان کی بات حقیر نہیں ہو سکتی۔ اگر نعوذ باللہ انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے ایسی ناشائستہ حرکات سرزد ہوں تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ایسی صورت میں احکام الٰہی کی تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے؟ لہٰذا انبیاء علیہم السلام کی بیویوں سے بے حیائی متصور نہیں۔ بعض انبیاء کی بیویاں کافرہ ہوئیں لیکن بے حیا نہیں ہوئیں۔ کفر تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے مگر اس میں فحش اور بے حیائی نہیں ہے۔

جب آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ خود حضور نبی کریم ﷺ نے ازواجِ انبیاء کی پاک دامنی اور عفت کا لازمۂ نبوت ہونا بیان فرمایا ہے تو اب اس امر پر غور فرمایئے کہ حضور سرورِ عالم ﷺ حضرت صدیقہ کی پاکی میں کس طرح شک فرما سکتے ہیں۔ اگر صدیقہ کی پاکی حضور ﷺ کے نزدیک یقینی نہ ہو تو پھر اپنی نبوت بھی نعوذ باللہ سرکار کے نزدیک یقینی نہ رہے گی۔ جب حضور ﷺ کا اپنی نبوت پر ایمان ہے اور حضور یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کی بیوی پاک ہوتی ہے تو ان دونوں کے ملانے سے نتیجہ واضح ہو جاتا ہے کہ آقائے نامدار ﷺ کو صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں ذرہ برابر بھی شک نہ تھا کیونکہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک خود حضور ﷺ کی اپنی رسالت میں شک کو مستلزم ہے اور حضور اپنی رسالت میں شک کرنے سے بالکل پاک ہیں لہٰذا صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکی میں شک کرنے سے بھی حضور قطعاً پاک اور مبرا ہیں۔

اس کے بعد دوسرے شبہات کو لیجئے کہ حضور ﷺ نے زہر آمیز گوشت کیوں کھایا؟ ستر قاریوں کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا تھا، کیوں بھیجا؟ حضرت عائشہ صدیقہ کے ہار کا حال کیوں نہ معلوم ہوا؟ وغیرہ وغیرہ

ان کے متعلق ایک جواب تو ہم پہلے دے چکے دوسرا جواب یہ ہے
کہ اس قسم کے تمام وقائع کو لاعلمی محمول کرنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ جب ’’کُل‘‘ اور ’’ما‘‘ وغیرہ الفاظ عموم قرآن و حدیث وارد ہو چکے اور ان میں کسی قسم کی تخصیص شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے نہیں ہوئی تو ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ان واقعات کو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کی لاعلمی پر محمول کریں۔ کیا یہ جائز نہیں کہ حضور ﷺ کے علم کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور کی توجہ ہٹا دے یا کوئی خاص بات حضور ﷺ سے بھلا دے۔

کسی حکمت کی بنا پر (خواہ اسے ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں) حضور ﷺ پر ذہول و نسیان کا طاری ہونا ہمارے نزدیک جائز ہے۔ یہ شان اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کہ ذہول و نسیان و عدم توجہ وغیرہ سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور رسول اللہ ﷺ کے علم میں ایک یہ فرق بھی ہے کہ علم الٰہی میں کسی قسم کا تغیر جائز نہیں اور حضور کے علم میں زیادتی، ذہول و نسیان جائز ہے۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہار کی طرف سے حضور کے ذہول میں یہ حکمت تھی کہ صحابہ جن کے پاس اس سفر میں پانی نہ تھا اور اس وقت تک تیمم کا حکم بھی نہ آیا تھا، ہار کی گمشدگی کے باعث بے وضو نماز پڑھنے کے مرحلہ تک پہنچ جائیں اور ان کے لئے مجبوری کی وہ حالت پیدا ہو جائے جو تیمم جائز ہونے کی شرط ہے اور پھر اللہ تعالیٰ تیمم کا حکم نازل فرمائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اگر یہ واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا تو اس کے ساتھ جن احکام شرعیہ کا تعلق تھا وہ کیسے مرتب ہوتے؟

ستر قاریوں کی شہادت جو ان کے حق میں عظیم الشان کمال تھا کیونکر ظاہر ہوتا، اگر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی توجہ ان کے واقعہ شہادت سے نہ ہٹا دیتا؟

حضور سید عالم ﷺ پر اگر ذہول طاری نہ ہوتا تو زہر کے اثر سے شہادت کا جو کمال حاصل ہوا وہ اسبابِ ظاہری میں کیسے حاصل ہوتا؟

ہمارے اس بیان سے آپ کے سوال پر بھی روشنی پڑ گئی کہ حضور ﷺ کو ہر چیز کا علم ہر وقت ہے یا نہیں؟ ہر چیز سے مراد تو وہی جمیع مخلوقات از ابتدا تا دخول جنت و نار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، غیر متناہی اشیاء ہرگز مراد نہیں اور ہر وقت علم ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر چیز کی طرف توجہ بھی ہر وقت رہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ حضور ﷺ پر ذہول و نسیان جائز ہے اور یہ امر بالکل محتاجِ بیان نہیں کہ ذہول و نسیان علم کے منافی نہیں بلکہ یہ امور مثبت علم ہیں کیونکہ جو چیز معلوم ہی ہو اس کی طرف سے توجہ کا ہٹنا یا اسے بھولنا متصور ہی نہیں۔

رہا یہ امر کہ عدم توجہ اور نسیان کے بعد لاعلمی ہو گی لہٰذا حضور ﷺ کے لئے عدم علم ثابت ہو گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف توجہ نہ رہنا یا اس کا بھول جانا لاعلمی کو مستلزم نہیں۔ اگر ایسا ہو تو ایک دفعہ بھولی ہوئی چیز کبھی یاد ہی نہ آئے لیکن بے شمار بھولی ہوئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ اگر بھول کی وجہ سے علم زائل ہو جاتا تو وہ بات کبھی یاد نہ آتی۔ اسی طرح ایک امر معلوم کی طرف سے توجہ ہٹنے کے بعد جب اس کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے تو وہ امر معلوم اجنبی نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کی حیثیت معلومیہ وہی ہوتی ہے جو پہلے تھی۔ یہ بھی بقائے علم کی دلیل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ برے علم جیسے جادو وغیرہ حضور ﷺ کے لائق نہیں مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ علم فی نفسہٖ مذموم نہیں۔ البتہ اس میں عمل کی طرف سے برائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر علوم فی نفسہٖ برے ہوں تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کا عالم ہے۔ نعوذ باللہ اس کی ذات پاک کی طرف برائی منسوب ہو گی۔

یہاں ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضور کا علم غیب وحی کے ذریعہ تھا جو بات جبریل علیہ السلام نے بتا دی وہ حضور کو معلوم ہو گئی۔ اس علم کو غیب کیونکر کہا جائے گا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضور ﷺ کا علم وحی الٰہی اور تعلیم ایزدی کے ذریعہ حاصل ہوا لیکن وحی الٰہی کو صرف جبریل علیہ السلام کے پیغام میں منحصر سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں۔ وحی الٰہی حضور کو خواب میں بھی ہوتی تھی۔ حدیث پاک میں وارد ہے

رویا الانبیاء وحی
’’انبیاء علیہم السلام کی خواب وحی ہے‘‘

وحی القاء کے ساتھ بھی ہوتی تھی۔ یعنی قلب اطہر میں کسی بات کا ڈال دینا اور حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام قرآن کریم ضرور لائے لیکن علم قرآن حضرت جبریل کے واسطہ کا محتاج نہیں۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب اللدنیہ شریف جلد ثانی ص ۲۹ پر ایک طویل حدیث نقل فرمائی جس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
وعلمنی القراٰن فکان جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام یذکرنی بہ
’’اللہ تعالیٰ نے (شب معراج) مجھے تمام قرآن مجید تعلیم فرمایا تو جبریل علیہ السلام مجھے وہ قرآن یاد دلاتے تھے۔‘‘
یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے کہ جبریل علیہ السلام نے جو بات حضور کو بتا دی معلوم ہو گئی، ورنہ نہیں۔

دیکھئے بخاری شریف، مسلم شریف، مسند امام احمد وغیرہ کتب احادیث میں باسانید متعددہ یہ حدیث مروی ہے کہ
انی لا راکم من خلفی کما راٰکم من بین یدی
’’میں تمہیں اپنے پیچھے سے اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنے آگے سے دیکھتا ہوں۔‘‘

اور محدثین نے تخصیص کو رد فرما کر عموم کو ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو جو نورِ نبوت عطا فرمایا ہے اس کے ذریعے علم کا حاصل ہونا یہ بھی تو تعلیم ایزدی میں شامل ہے جس کے ادراک کا ذکر حدیث سابق میں آپ نے پڑھا۔ نیز شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی جلد اول ص ۵۱۸ پر ’’وَیَکُوْن الرَّسُوْل عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں

یعنی وباشد رسول شما بر شما گواہ۔ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بر رتبہ ہر متدین بدین خود کہ در کدام درجہ از دین من رسیدہ۔ وحقیقت ایمانِ او چیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ کدام است۔ پس اومی شناسد گناہان شمار او درجات ایمانِ شمار او اعمال نیک و بد شمار او اخلاص و نفاق شمار او لہٰذا شہادت او در دنیا بحکم شرع در حق امت مقبول و واجب العمل است۔ انتہیٰ
اور زرقانی شریف جلد اول ص ۲۰ پر امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ
ورابعہا ان لہ صفۃ بہا یدرک بہا ما سیکون فی الغیب
یعنی ’’نبی میں چوتھی صفت یہ ہے کہ اس کی ذات میں ایک ایسا نور (یعنی نورِ نبوت) ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان باتوں کا ادراک کرتا ہے جو غیب میں آئندہ آنے والی ہیں۔‘‘ مواہب اللدنیہ اور شفاء قاضی عیاض میں ہے
النبوۃ ہی الاطلاع علی الغیب
’’نبوت کے معنی یہ ہیں کہ غیب کا جاننا‘‘

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابو عبد اللہ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں
نعتقد ان العبد ینقل فی الاحوال حتٰی یصیر الی نعت الروحانیۃ فیعلم الغیب
’’ہم اعتقاد کرتے ہیں کہ بندہ ترقی مقامات پا کر روحانی صفت تک پہنچتا ہے اس وقت وہ غیب جانتا ہے۔‘‘

ملا علی قاری علیہ الرحمۃ شرح فقہ اکبر میں حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل فرماتے ہیں
الفراسۃ مکاشفۃ النفس ومعاینۃ الغیب
’’فراست نفس کے مکاشفہ اور غیب کے معائنہ کو کہتے ہیں۔‘‘

الیواقیت والجواہر میں امام شعرانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
للمجتہدین القدم الراسخ فی علوم الغیب
’’مجتہدین کے لئے علوم غیبیہ میں مضبوط قدم ہے۔‘‘

ان عبارات سے ایک تو یہ امر واضح ہو گیا کہ جو لوگ حضور ﷺ کو حصول علوم میں جبریل علیہ السلام کا محتاج بتاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ حضور ﷺ کے جمیع علوم بعطائے الٰہی ہیں اور عطائے الٰہی جبریل علیہ السلام کے واسطہ میں منحصر نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کا نورِ نبوت بھی عطیہ الٰہیہ ہے جس کے ذریعہ حضور تمام امور غیبیہ کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ نیز حضور ﷺ کے اس نورِ نبوت کا فیض ایسا عام ہے کہ اولیاء امت بھی اس فیض سے بہرہ اندوز ہیں۔

دوسری یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ حضور ﷺ کے علوم پر لفظ غیب کا اطلاق ناجائز سمجھتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔
دیکھئے عبارت مذکورہ بالا میں حضور سید عالم ﷺ بلکہ حضور کے غلاموں پر بھی علم غیب کا اطلاق موجود ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی جبکہ دیوبندیوں کی عبارات میں اس اطلاق کے ناجائز ہونے کا حکم دیکھتا ہوں۔ حالانکہ مولوی اشرف علی صاحب تغییر العنوان کے ص ۱۸ پر لکھتے ہیں کہ حضور کے علوم غیبیہ جزئیہ کمالاتِ نبوت میں داخل ہیں اس کا انکار کون کرتا ہے؟ اس عبارت میں حضور سید عالم ﷺ کے علم کو علوم غیبیہ کہہ کر مولوی اشرف علی تھانوی نے تصریح کر دی کہ حضور کے علم کو علم غیب کہنا جائز ہے۔

وما علینا الا البلاغ

1 comment:

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...