Wednesday, 20 April 2016

شیطان کا سب سے بڑا مقصد ہماری نیتوں کو خراب کرنا ہے







شیطان کے انسان کو ہلاکت میں ڈالنے کا ایک بڑا حملہ انسان کی نیت کو خراب کردینا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عبادات، نماز، حج و زکوٰۃ اور سب نیک کام کرنے دے مگر ان سب اعمال کے پیچھے نیت کو خراب کر دے۔ نیت فاسدہ، باطلہ اور کدرہ ہو جائے۔ یعنی نماز جی بھر کے پڑھیں مگر طبیعت میں ریا، تکبر، حسد، عداوت، بغض و عناد اور اللہ کے بندوں کے ساتھ نفرت موجود ہو۔ اس سے سارے اعمال برباد ہوگئے۔ یہ سب سے بڑا خطرناک حملہ ہے کہ شکل میں تو نیک لگے مگر پتہ نہ چلے کہ یہ آدمی برا ہے۔

ذوالخویصرہ تمیمی نے مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر اعتراض کیا اور آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا:

اِتَّقِ اﷲ(اللہ سے ڈرو۔)دوسری روایت میں ہے کہ اُس نے کہا:اعْدِل(عدل کرو۔)

اس کی اس بات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسی شخصیات نے تلواریں نکال لیں کہ اس بے باکی و بے ادبی پر اس کی گردن اڑادیں مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ اُس نے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ ردعمل دیکھا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پیٹھ پھیر کر اُس مجلس سے چلا گیا۔ اس کے اس عمل پر آقا علیہ السلام نے فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ ہوں گے کہ اے صحابہ! تمہیں اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئیں گی۔ تمہیں اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں قلیل نظر آئیں گے۔ تمہیں اپنی تلاوت قرآن ان کی قرات قرآن کے مقابلے میں چھوٹی نظر آئے گی مگر ان کا قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔

يمرقون من الدين کمروق السهم من الرمية.

’’دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہوتا ہے‘‘۔

(صحيح بخاری، کتاب الادب، 5: 2281، الرقم: 5811)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اُس کو تقویٰ، عبادات اور تسبیحات کو عام صحابہ سے کئی زیادہ دیکھتے تھے مگر عبادات کی یہ تمام کثرت اُس کی طرف سے بے ادبی مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارتکاب کی وجہ سے رائیگاں گئی۔

سوال پید اہوتا ہے کہ کیا اس نے کوئی برا کلمہ کہا ہے؟ نہیں بلکہ اس نے عدل اور تقویٰ کی بات کی۔ مگر خرابی کیا تھی؟ خرابی یہ تھی کہ اس کے اندر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حیاء اور ادب نہ تھا۔ جس ذات کو عدل اور تقویٰ اختیار کرنے کا کہہ رہا تھا، بدبخت یہ نہ جانتا تھا کہ ان کے قدموں کی دھول سے تو عدل اور تقویٰ کائنات میں پیدا ہوا ہے۔ پس حیا اور تعظیمِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کے سبب وہ جہنم کا ایندھن ہوگیا۔

حضرت جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم خوارج کے خلاف جنگ کررہے تھے تو سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھے خوارج کی طرف جنگ سے پہلے پیغام دے کر بھیجا۔ میں ان کی تہجد گزاری، ان کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان، عبادت کی کثرت اور تلاوت قرآن میں مشغول حال دیکھ کر متزلزل ہوگیا کہ ان سے جنگ کرنا کہیں ہماری غلطی نہ ہو کیونکہ یہ تو شریعت کے بڑے پابند ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر مولیٰ علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کی زبان سے میں نے یہ نہ سنا ہوتا کہ آقا علیہ السلام نے ان کی یہی نشانیاں بیان کرکے فرمایا ہے کہ یہ لوگ دین سے خارج ہوںگے۔ اگر یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو ہم ان کے ظاہری حال کو دیکھ کر انہیں ولی سمجھتے۔ مگر بدعقیدگی اور تعظیم و ادب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہونے کی وجہ سے ان کا دین برباد ہوگیا اور وہ دوزخ کا ایندھن بن گئے۔

(طبرانی، المعجم الاوسط، 4: 227، الرقم: 4651)

گویا شیطان کے ایسے حملے بھی ہوتے ہیں کہ وہ بندوں کے ظاہری اعمال اسی طرح رہنے دیتا ہے مگر ان کی نیتوں، عقائد اور اخلاق سیئہ میں فتنہ داخل کر دیتا ہے۔ انہیں مغرور اور مکرزدہ کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کی عبادت، عبادت نہیں رہتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ شیطان اور اس کے سارے حملوں کی پہچان پیدا ہو تاکہ ان حملوں سے بچنے کی سعی کی جاسکے۔

شیطان انسان کو مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے کیسے کیسے روکتا ہے؟ آیئے ایک اور واقعہ سے اس کے حملوں کا اندازہ لگاتے ہیں:

ایک عبادت گزار ولی اللہ ایک دیوار کے سائے میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کو جگاکر کہنے لگا کہ اللہ کے بندے دیوار گرنے لگی ہے جلدی سے یہاں سے اٹھ جا۔ وہ دیوار سے تھوڑے ہی دور ہوئے تھے کہ دیوار گر گئی۔ ولی اللہ نے اس شخص کو پکڑ لیا اور کہا مجھے اپنا تعارف کرا کہ تو میرا اتنا ہمدرد اور بہی خواہ کون ہے؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں۔ پوچھا: میرے ساتھ ہمدردی کیوں کی؟ حالانکہ میری تو ساری زندگی تیرے ساتھ جنگ رہی ہے۔ شیطان نے کہا کہ تجھ سے ہمدردی نہیں ہے، اس لیے بچایا کہ اگر دیوار گرنے سے تیری موت واقع ہوجاتی تو اللہ کی بارگاہ میں تو شہید گردانا جاتا اور تیرا درجہ جنت میں شہداء تک جا پہنچتا۔ میں تمہیں درجہ شہادت سے بچانا چاہتا تھا۔ تمہیں راہ حق سے تو ہٹا نہ سکا، اللہ کی عبادت سے روک نہ سکا، مگر اتنا ہی کر لیا کہ شہادت کے درجے سے تمہیں روک لوں۔

یاد رکھیں! نیت ایک میدان ہے جہاں شیطان کے حملے ہوتے رتے ہیں۔ اگر نیت کے محاذ پر انسان جیت گیا اور شیطان شکست کھا گیا تو کئے گئے اعمال اللہ کی قربت کا باعث بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر نیت کے محاذ پر بندہ شکست کھا گیا اور شیطان جیت گیا تو سارے اعمال بیکار اور رائیگاں گئے۔ لہذا پوری زندگی میں خیر اور شر کا مدار نیت پر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جو اعلیٰ درجہ ملا، ان کے ایمان کو دوسروں پر جو ترجیح ملی کہ وہ سب پر فوقیت لے گئے، اس کی وجہ آقا علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ

ما فاق ابوبکر رضی الله عنه اصحاب محمد بصوم ولا صلوٰة ولکن بشیء کان فی قلبه.

(جامع العلوم والحکم، زين الدين ابی الفرج، 2: 361)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہکو فضیلت اور اعلیٰ درجات ملنے کی وجہ کثرت صوم و صلوٰۃ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک خاص حالت اور کیفیت ہے جو ان کے دل کے اندر جاگزیں ہے اور وہ نیت صافیہ ہے، صدقِ قلب ہے۔ دل کی اس کیفیت اور صدق نے انہیں ایمان اور درجے میں اعلیٰ فضیلت دی۔ اسی بنیادی چیز کے حوالے سے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إنما الأعمال بالنيات.

’’بے شک اعمال کی قبولیت اور اعمال کے کمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔

(بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، 1: 36، رقم: 54)

شر کی بنیاد نیت کی خرابی میں ہے اور زندگی میں خیر کی ابتداء بھی نیت کی اصلاح سے ہے۔ جدھر بھی ہم شر دیکھتے ہیں وہاں بنیادی سبب نیت کی خرابی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پاکستان کے حالات نہ سنورنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ مقتدر طبقہ کی نیتیں صحیح نہیں ہیں۔ امت کی قیادت تباہ حال ہے۔ جن کے ہاتھ میں زمام کار ہے ان کی نیتیں درست نہیں ہیں۔ ان کے آقا و مولیٰ اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ انہوں نے آقا و مولیٰ کسی اور کو بنا رکھا ہے اور ہوائے نفس کے پجاری ہیں۔

اگر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کی اصلاح کے متمنی ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کی بنیاد کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ نیت کو خالص کرنے سے ہی ہم اپنے اعمال کی سمت مثبت رکھتے ہوئے کامیابی کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...