اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:
کُلُّ شَيْئٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجْهَهُ.
’’اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے‘‘۔
(القصص: 88)
ایک اور جگہ پر یوں فرمایا :
کُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ. وَّيَبْقٰی وَجْهُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ.
’’ہر کوئی جو بھی زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے۔ اور آپ کے رب ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے‘‘۔
(الرحمن،26،27)
بقول علامہ اقبال
ثبات اِک تغیرّ کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
گویا ہر چیز فنا اور تغیر کی زد میں ہے اور ہماری زندگی میں آنے والے تمام مسائل اور مصائب پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ ہر مسئلہ کی ایک محدود عمر ہوتی ہے جس کے بعد اُس نے بہر حال ختم ہونا ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
سَيَجْعَلُ اﷲُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا.
’’اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا‘‘۔
(الطلاق: 7)
رات آتی ہے تو ہر طرف تاریکی چھا جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اب ہمیشہ رات ہی رہے گی، لیکن چند گھنٹوں کے بعد اُسی تاریکی کے دامن سے صبح کا سویرا طلوع ہو جاتا ہے ۔ کوئی بھی رات اتنی لمبی نہیں ہو سکتی کہ وہ آنے والی صبح کو آنے سے روک دے۔ بات صرف اتنی ہے کہ رات کے آنے اور جانے کا وقت مقرر ہے۔ نہ وہ وقت سے پہلے آسکتی ہے اور نہ ہی وقت کے بعد رہ سکتی ہے۔اسی طرح ہر مسئلہ کے حل ہونے کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
کُلٌّ شَئْیٍ عِنْدَه‘ بِاَ جَلٍ مُّسَمیٍّ.
’’اللہ کی بارگاہ میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے‘‘
(مصنف عبدالرزاق، باب الصبر والبکاء، 3: 552، الرقم: 6670)
دوسری طرف انسان کے اندر جو فطری کمزوریا ں رکھی گئی ہیں، ان کے پیش نظر انسان کی پہلی خامی یہ ہے کہ حالات کی ناساز گاری کو دیکھ کرپست ہمت اور مایوس ہو جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ کَانَ يَئُوْسًا.
’’اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر)‘‘۔
(الاسراء: 83)
انسان کی دوسری بڑی خامی عجلت پسندی ہے۔ فرمایا:
وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا.
’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے‘‘۔
(الاسراء: 11)
ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شائد یہ مسئلہ کبھی ختم ہی نہیں ہو گا۔ حالا نکہ اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے ماضی کا تجربہ ہی کافی ہے۔ ماضی میںکتنے ہی مسائل کے متعلق ہم نے سمجھ لیا کہ وہ کبھی ختم نہیں ہوں گے، مگر آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ یہی قانونِ فطرت ہے۔
دوسری غلطی ہم یہ پیدا کرلیتے ہیں کہ اپنی عجلت پسندی کے ہاتھو ں مجبور ہو کر چاہتے ہیں کہ مسئلہ فوراََ حل ہونا چاہیے ۔اس کوشش میں بعض اوقات ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کے نتیجے میں صورتِحال سنورنے کے بجائے مزید بگڑ جاتی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے میں کامیاب ہو جائیں کہ ہر مسئلہ کی ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کے بعد اُسے ختم ہو ہی جانا ہے تو ہم ذہن کو پرُ سکون رکھتے ہوئے ،زیادہ بہتر انداز میں اُس کا سامنا کر سکتے ہیں اور حکمت و دانش کو استعمال کرتے ہوئے اُلجھی ہوئی گرہوں کو سُلجھا سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment